وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ کا نام محمد بن علی بن موسی اور امام جواد کے لقب سے معروف ہیں۔آپ10 رجب سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور والدہ سبیکہ،خیزران یا ریحانہ خاتون ہیں۔

ولادت امام
شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔

امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرائمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں ۔

مبارک ترین مولود
امام محمد تقی علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام کی عمر کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کی ولادت سے قبل امام کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا مخالفین کہتے تھے کہ "امام رضاعلیہ السلام سے کوئی نسل موجود نہیں ہے لہذا امامت کا سلسلہ منقطع ہوگا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو پیدائش کے بعد امام رضا علیہ السلام کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: هہذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم برکۃ علی شيعتنا منہ"۔یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔ ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابو یحیی صنعانی کہتے ہیں:{ إنا لعند الرضا عليہ السلام بمنی إذ جبئ بأبي جعفر عليہ السلام قلنا: هذا المولود المبارک ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم برکۃ منہ} ہم امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ عظیم برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا۔

آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمہ، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ

کرامات  امام
آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں ہم یہاں کچھ نمونے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

۱۔استجابت دعا
داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادعلیہ السلام کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آپ نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی"۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی۔  

۲۔درخت کا بارور ہونا
بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادعلیہ السلام کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امام نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔  مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امام نے پانی منگوایا اور درخت کے ساتھ بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالایا اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔  

مناظرات امام
امام محمد تقی   ؑ کے درباری علما اور فقہا سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ  رہا۔ہم یہاں بعض مناظرات کو بیان کریں گے:
مامون کے دور میں بغداد میں امام جوادعلیہ السلام کا ایک اہم مناظرہ یحیی بن اکثم کے ساتھ ہوا۔ مامون نے امام محمد تقی کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان [امام جواد] کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جوادعلیہ السلام کے درمیان مناظرے  کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔ مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم ہے ،یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا؟ ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ؟، شکارپرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟چھوٹا تھا یا بڑا؟وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ ، رات کو چھپ کراس نے اس کا شکار کیا یا اعلانیہ طور پر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔یحیی  کے چہرہ پر شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔مامون نے امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو ۔

امام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد "حل" میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا  اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا ۔ اس کے بعد امام جواد نے یحیی سے سوال کیا:اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتاو ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔

امام کی  زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا ، اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں ۔امام نے فرمایا : وہ عورت کسی کی کنیز تھی ،اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی ، حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی۔اہلیان دربار اور عباسی علما نے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔   

اسی طرح ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امام نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بےشک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الانسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ}  اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔ یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ {أنّ مثل أبي بکر وعمر في الاَرض كمثل جبرئيل وميکائيل في السماء} بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔  امام نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرئیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔

اصحاب و شاگردان امام
آپ کے زیادہ تر اصحاب آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور آپ کے فرزند فرزند امام ہادی علیہ السلام کے بھی شاگرد تھے جو مختلف فقہی اور اعتقادی کتابوں کے مصنفین و مؤلفین تھے ۔امام جوادعلیہ السلام کے اصحاب اور رواۃ کی تعداد تقریبا 120 ہے جنہوں نے تقریبا 250 حدیثیں آنجناب سے نقل کی ہیں۔ ان روایات کا تعلق فقہی، تفسیری اور اعتقادی موضوعات سے ہے۔ آپ کے اصحاب اور راویوں میں علی بن مہزیار، احمد بن ابی نصر بزنطی، زکریا بن آدم، محمد ین اسمعیل بن بزیع، حسن بن سعید اہوازی، عبدالعظیم حسنی، ابراہیم بن ہاشم قمی، زکریا بن آدم اور احمد بن محمد برقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امام جوادعلیہ السلام کے راوی صرف شیعہ ہی نہ تھے اہل سنت سمیت دوسرے فرقوں کے افراد نے بھی آپ سے روایات  نقل کی ہے۔

اہل سنت مشاہیر کے اقوال
مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر وہ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپکی علمی شخصیت کو ممتاز گردانا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال ذکر کرتے ہیں ۔

۱۔سبط ابن جوزی:امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔
۲۔ابن حجر ہیتمی:مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔
۳۔فتال نیشابوری:مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
۴۔جاحظ عثمان معتزلی: وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں۔

حوالہ جات
    کلینی، اصول کافی،ج1، ص492۔
    مفید،ارشاد ص ۴۷۳
   المناقب، ج4، ص394
   کلینی، اصول کافی، ج1 ص321۔
  مجلسی، بحارالانوار، ج50، صص20و23و35۔   شیخ مفید، الارشاد ص 279۔
    اعلام الوری ص ۲۰۰
   ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضۃ الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ۔
   شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص586۔
  ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص390۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص278۔فتال نیشابوری، ص241و242۔
  طبرسی، احتجاج، ص443و444۔
      ق،۱۶۔
   طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
  سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304
  طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
   سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص359۔
   ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
   فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
  عاملی، مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106 ۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلتستان ڈویژن کی جانب سے سانحہ پاراچنار کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کے باوجود دہشت گردوں کے سامنے حکومت بے بس اور لاچار ہے۔ صرف لفظی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کا ہونا کافی نہیں بلکہ عملی طور پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قلع قلمع کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی اور عوام کے تحفظ میں بری طرح ناکامی نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ دراصل یہ حکمرانوں کی خیانت کاری کا نتیجہ ہے۔ مفاد پرست اور عوامی امور سے لاپرواہ، کرپٹ گروہ ملک کو لوٹ کر بیرون ممالک اربوں ڈالر کے جائیداد بنانے کیلئے حکمران بن کر جھوٹے دعوئے کرنے والے ہیں۔ آرمی چیف اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان کو خبردار کیا گیا کہ وہ عوامی امور میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں مصلحت کاشکار نہ ہوں۔ پاراچنار میں نہتے شہریوں پر ایف سی کی طرف سے فائرنگ نے ثابت کردیا کہ ان میں بھی ایسے عناصر شامل ہیں جو تکفیری دہشت گردوں کے ایماء پر کچھ بھی کر گزرنے کیلئے تیار ہیں۔ آرمی چیف کو چاہئے کہ ان ذمہ داران کو عوام میں بے نقاب کریں اور انکو ایسی کڑی سزا دلائی جائے کہ پھر کوئی کالی بھیڑ عوام میں سکیورٹی اداروں کے بارے میں مایوسی پھیلانے والی حرکات کا سوچ بھی نہ سکیں۔

احتجاجی جلسے سے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل آغا علی رضوی سمیت ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ احمد علی نوری، آئی ایس او بلتستان کے صدر سید اطہر موسوی، ایم ڈبلیو ایم ضلع اسکردو کے سربراہ مولانا فدا علی ذیشان، مولانا ذوالفقار عزیزی، تحصیل گمبہ کے سیکرٹری جنرل مولانا علی محمد کریمی، سینئر رہنما مولانا فدا علی عابدی اور دیگر نے خطاب کیا۔

احتجاجی جلسے میں قرارداد پیش کی گئی جن میں پاراچنار میں دہشت گردی کے واقعے اور ایف سی کی طرف سے فائرنگ کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی۔ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق اور سی پیک میں برابر کا حصہ دینے کا مطالبہ کیا گیا اور جنرل راحیل شریف کو متنازعہ فرقہ وارانہ اتحادی فورس کی سربراہی سے روکنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ کئی دنوں تک اخبارات کی بندش پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انکی آمرانہ ذہنیت کو ضیاءالحق سے تشبیہہ دی اور ایسے اقدام کو برداشت نہ کرنے کا بھی اعادہ کیا گیا۔ احتجاجی جلسے میں صحافیوں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ آپ عوام کی آواز بنیں، عوام آپ کے مسائل پر شانہ بشانہ ہونگے۔ ویمن ٹریفیکنگ ایشو میں ملوث اسمبلی ممبران کے حوالے سے مطالبہ کیا گیا کہ آزادانہ جے آئی ٹی تشکیل دیکر اسکی شفاف انکوائری کرائی جائے اور علاقے کو بدنام کرنیوالے کالے کرداروں کو عوام میں لایا جائے۔ اس سلسلے میں خبر دینے والے رپورٹر پر دہشت گردی ایکٹ لگا کر ہراساں کرنے کے اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ جی بی کے عوامی اراضی کو خالصہ سرکار قرار دیکر ہتھانے کے عمل کی بھی پرزور مذمت کی گئی اور حکومت کو خبردار کیا گیا کہ عوام کو معاوضہ ادا کئے بغٖیر ایک انچ پر بھی قبضہ کرنے نہیں دیا جائیگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پرامن شہریوں خصوصا شگر کے عالم دین شیخ فدا حسین عابدی اور آئی ایس او کے صدر کو شیڈول فور میں ڈالنے کو صوبائی حکومت کی تنگ نظری اور تعصب قراردے کر اسکی بھی شدید مذمت کی گئی۔

وحدت نیوز (سکردو) انجمن تاجران بلتستان کے زیر اہتمام ایک ماہ سے سکردو اور گردو نواح میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف منعقدہ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین ضلع سکردو کے سیکرٹری جنرل مولانا فد ا ذیشان نے کہا ہے کہ بلتستان ایک عرصے سے اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اور حکمرانوں کو ٹس سے مس نہیں۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی اخبارات میں بیانات دینے کی حدتک ہے ۔گلگت بلتستان کی تقدیر بدلنے کی دعویدار حکومت عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات نہیں دلا سکی۔یہ حقیقت ہے کہ  بلتستان کی روشن تقدیر کو تاریکی میں بدل دی ہے۔ وزیر برقیات کا اپنا شہر اور حلقہ تاریخی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ وزیربرقیات کو دھمکیاں دینے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سکردو جیسے اہم شہر میں ہفتوں تک بجلی نہ آنا وزیر برقیات کی نااہلی اور انکے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ وزیر برقیات واپڈا ، پی ڈبیلیو ڈی حکام اور حفیظ الرحمان کے سامنے بے بس ہے۔ ان کی سننے کو کوئی تیار نہیں ہے۔

فداعلی  ذیشان نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت مزید گڈ گورننس کی بات نہ کرے۔ انہیں اقتدار میں آئے دو سال ہونے کو ہے لیکن عوام کو محرومیوں میں دھکیلنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے عوام سے زمینیں چھینے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ انتہائی قابل مذمت اور شرمناک عمل ہے۔ خالصہ سرکار کے نام پر عوامی ملکیتی اراضی پر کسی کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ لیگی حکومت ہوش کے ناخن لے اور زمینیں ہتھیانے سے باز رہے۔ مسلم لیگ نون کی مدح سرائی کرنے والے گھر سے باہر نکلیں اور عوام کا غم و غصہ دیکھیں۔ عوام موجودہ حکومت کی ناقص ترین کارکردگی سے بیزار ہے ۔سکردو میں بجلی کے مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو پورے بلتستان میں احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگا اور نااہل حکمرانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان میں غیرقانونی ٹیکسز کے نفاذکے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجی جلسے سے مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری سیاسیات برادر غلام عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ مسلم لیگ ن کی جی بی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پی پی پی حکومت کی گذشتہ پانچ سالہ کارکردگی سے مختلف نہیں ، جی بی حکومت عوام کے مسائل کے حل میں یکسرناکام دکھائی دیتی ہے، سہولیات دینے کے بجائے غیر قانونی اور غیر آئینی ٹیکسز کا نفاذکرکے عوام سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ہوش کے ناخن لے اور اس دن سے ڈرے کے جب پورا گلگت بلتستان ان کے عوام دشمن اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ آغا سید علی رضوی ، رکن گلگت بلتستان اسمبلی کاچوامتیاز حیدر خان ،بلتستان ایکشن کمیٹی کے عہدیدار آغا سید محمد عباس رضوی،  مولانا حافظ بلال زبیری، شیخ فدا حسن عبادی، آخوند محمد علی ایڈووکیٹ، سابق ڈپٹی سپیکر وزیر ولایت علی ایڈووکیٹ، محمد تقی اخونزادہ، غلام حسین اطہر، محمد بشیر، راجہ زکریا مقپون، نور حسن نے یادگارشہداء اسکردو پر منعقدہ احتجاجی جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جان دیں گے، مریں گے، کٹیں گے، مگر آئینی، معاشی، بنیادی اور سیاسی حقوق کی جنگ سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم نے پاکستان کیلئے بے پناہ قربنایاں دیں، ہمارے سینکڑوں بچے یتیم ہوگئے اور کئی ماؤں کی گودیں خالی ہوگئیں متعدد خواتین وطن عزیز کے خاطر بیوہ ہوگئیں۔ 1948 سے لے کر اب تک ہزاروں لوگ وطن عزیز کے اوپر قربان ہوگئے مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہماری وفاداری پر بے شمار قربانیوں کے باوجود شک کیا جارہا ہے جو کسی بھی صورت میں ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ کراچی، لاہور، پشاور سے غیر ملکی ایجنٹ پکڑے گئے وہاں سے کئی لوگ را کے ایجنٹ نکلے مگر اللہ کے فضل وکرم سے گلگت بلتستان سے اب تک دشمن ملک کی جاسوسی کرتے ہوئے کسی کو پکڑا نہیں گیا، اس کے باوجود بعض قوتیں ہمیں آئینی بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر غیرملکی عناصر کے ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہیں۔

اسکردو یادگار چوک پر بلتستان ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام اپنے چارٹر آف دیمانڈ کے حق میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہم ملک کے بڑے وفادار ہیں جو قربانیاں ہم نے دیں کسی نے نہیں دی، مگر سازش کے تحت ہماری قربانیاں فراموش کی جارہی ہیں۔ جس کے بڑے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہدائے گلگت بلتستان کے ساتھ قسم کھاتے ہیں ہم تمام تر اختلافات اور مصلحتوں سے بالاتر ہوکر علاقے کے آئینی، بنیادی اور سیاسی حقوق کی فیصلہ کن جنگ لڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں بھی ملک کے دوسرے شہروں کے برابر حقوق دیئے جائیں قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملنے تک پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اسکردو روڈ کا افتتاح کیا ہے لیکن حکومتی اراکین اسمبلی ٹینڈر کرانے کی باتیں کر رہے ہیں جب روڈ کا ٹینڈر ہی نہیں ہوا تھا تو وزیراعظم نے روڈ کا افتتاح کس طرح سے کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے جھوٹا افتتاح کیا تھا اور عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارا تھا۔

وحدت نیوز (نصیرآباد) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا سید ظفرعباس شمسی نے ضلع نصیر آباد کا تنظیمی دورہ کیا، اس موقع پر ضلعی سیکریٹری جنرل میر غلام مصطفیٰ گولہ ، سید حسن ظفر شمسی نے ضلعی کابینہ کے ہمراہ بھنڈ صوبائی رہنماؤں کا استقبال کیا۔

اس موقع پر منجھو شوری اور گوٹھ غلام مصطفیٰ گولہ میں تنظیمی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ ۱۱ فروری انقلاب اسلامی کی ۳۸ ویں سالگرہ کے موقع پر ہم تمام اہل اسلام خصوصا پیروان مکتب امام خمینی ؒ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انقلاب اسلامی نور کی تجلی تھی جس کا نورانی پیغام تمام جغرافیائی سرحدیں اور رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے عالمی انقلابی تحریک میں بدل چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں واقع دھشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس اور محفوظ ٹھکانے ناقابل برداشت ہیں،جبکہ مستونگ دھشت گردوں کاگڑہ بن چکا ہے،چار مہینے گذر جانے کے با وجود سانحہ چھلگری میں ملوث قاتل گرفتار نہیں کئے گئے، جو کہ انتہائی افسوس ناک عمل ہے،جدوجہد کے ہر مرحلے پر مجلس وحدت مسلمین ، وارثان شہداء کے شانہ بشانہ ہوگی، ۲۰ فروری کو مزار شہداء پر حاضری دے کر شہدائے ملت جعفریہ سے اظہار عقیدت اور تجدید عہد وفا کیا جائے گا،انہوں نے کہا ۲۱ فروری کو ڈیرہ مراد جمالی میں شہداء کی یاد میں کانفرنس اور احتجاجی جلسہ منعقد ہوگا۔

Page 1 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree