وحدت نیوز(آرٹیکل) جو لوگ وسطی اور جنوبی ایشیا کی نفسیات جاننے والے عصرِ حاضر کے مغربی لکھاریوں سے واقف ہیں وہ برطانوی مورخ ولیم ڈال رمپل سے بھی واقف ہوں گے۔گذشتہ ہفتے سیہون میں قلندر کے مزار پر خود کش حملے کے بعد اخبار گارڈین میں ان کا ایک مضمون چھپا۔ایک جگہ لکھتے ہیں،

’’چند برس پہلے جب میں سیہون گیا تو قلندر کے مزار سے زرا فاصلے پر ایک حویلی میں قائم مدرسے کے نوجوان مہتمم سلیم اللہ سے ملاقات ہوئی۔سلیم اللہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہے۔اس نے بلا لاگ و لپیٹ شریعت و تصوف پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔بقول سلیم اللہ ہم مزار پرستی کے مخالف ہیں۔قرآنی تعلیمات اس بابت بالکل واضح ہیں کہ مردے کچھ نہیں دے سکتے بھلے وہ ولی ہی کیوں نہ ہوں۔قبر پرستی اور بت پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔میری بات لکھ لو کہ طالبان کی مزید شدت پسند شکل پاکستان میں آ رہی ہے۔خلافت قائم ہونے کے بعد یہ ہمارا فرض بن جائے گا کہ تمام درگاہیں اور مزارات ڈھا دیں۔اور اس کا آغاز یہاں سیہون سے ہوگا۔

ولیم ڈال رمپل لکھتے ہیں کہ سلیم اللہ کا تعلق جس مذہبی طبقے سے ہے اس کے پانچ ہزار مدارس ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور مزید ڈیڑھ ہزار مدرسے صرف سندھ میں کھولے جا رہے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی اور عالمی بینک کے ایک حالیہ تحقیقی مطالعے کے مطابق اس وقت پاکستان میں معلوم مدارس کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور یہ تعداد انیس سو سینتالیس کے مقابلے میں ستائیس گنا ہے۔


مسلمانوں کی تاریخ میں بنیاد پرستوں اور تصوف کے ماننے والوں کے مابین کھینچا تانی ہمیشہ سے ہے۔مگر چند عشرے قبل تک اس کش مکش میں الفاظ و دلائل کے ہتھیار استعمال کیے جاتے تھے۔تصوف اور اس کے مراکز اور صوفیوں کی درگاہوں یا مزارات کو ایک خاص نظریے کے تحت نشانہ بنانا یا انھیں منہدم کردینے کا عمل بھی دو سو برس سے زیادہ پرانا نہیں اور یہ طرح جزیرہ نما عرب میں اٹھارویں صدی کے مبلغ عبدالوہاب اور ان کے پیرو کاروں نے ڈالی مگر انہدام یا پابندی کا عمل زیادہ تر جزیرہ نما عرب تک ہی محدود رہا۔

برِ صغیر میں انیسویں صدی کے وسط میں جنم لینے والے دیوبندی اور پھر بریلوی مکاتیب فکر کے مابین بدعت و شرک کی تشریحات کے مسائل پر مناظروں کی حد تک تو مچیٹا چلتا رہا مگر ابھی اس اختلاف نے جان لیوا انتہا پسندی کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔گولی نے دلیل کی جگہ نہ لی تھی۔حتیٰ کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد اگلے دس پندرہ برس میں سعودی حمایت یافتہ افغان مجاہدین کے عروجی دور میں بھی درگاہوں اور مزاروں کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔خود طالبان کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں کابل میوزیم میں موجود دورِ کفر کی نشانیوں کی توڑ پھوڑ اور بامیان صوبے میں گوتم بدھ کے دو دیوہیکل سنگی مجسموں کو ڈائنامائٹ سے اڑانے کے سوا صوفی مراکز یا مزارات پر حملوں کا کوئی بڑا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔

مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب مقامی طالبان نے زور پکڑا اور اس سے پہلے افغان سوویت جنگ کے زمانے میں بالحضوص خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے ان مدارس سے جو دیوبند کی علمی روایت سے غیر مطمئن ہو کر تکفیری نظرئیے کے تحت پروان چڑھے۔

ان مدارس سے فارغ التحصیل یا ان مدارس کے اساتذہ سے متاثر ہونے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا نے نہ صرف شدت پسند تنظیمیں تشکیل دیں بلکہ گولی کو دلیل سے بدلنے کی کوشش کی اور اس کے جواز کے لیے نظریاتی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت کا کام شروع کیا۔بجائے اس کے کہ ریاست یا مختلف مکاتیبِ فکر کے با اثر علما معاشرے کو جوڑنے کے بجائے منتشر کرنے کی ان کوششوں اور رجحانات کو پھیلنے سے روکنے کی بروقت فکری کوشش کرتے۔الٹا انھوں نے یا تو خاموشی میں عافیت جانی یا پھر خود بھی نئی ہوا کے ساتھ چل پڑے۔

چنانچہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں ریڈیکلائزیشن کا عمل جتنا تیز ہوا اور اس کے توڑ کی کوششیں جتنی فرسودہ اور سست ہوتی گئیں اس کے نتیجے میں زندہ مخالفین کے ساتھ ساتھ قبروں کے مکین بھی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔پہلے تحریکِ طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ہم خیال نوجوانوں نے یہ کام شروع کیا۔ اور اب متشدد انداز میں نظریے کو حلق سے اتارنے والی جدید مشین داعش اور اس کی حلیف مقامی تنظیموں کی شکل میں متحرک ہو چکی ہے۔

پچھلے بارہ سال میں جتنے مزاروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ان کی تعداد گذشتہ آٹھ سو برس کی برصغیری تاریخ میں نشانہ بننے والی درگاہوںسے بھی زیادہ ہے۔اگر بڑی درگاہوں پر ہونے والے موٹے موٹے حملے ہی گننے بیٹھیں تو بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں پیر رکھئل شاہ کی درگاہ کو انیس مارچ دو ہزار پانچ کو نشانہ بنایا گیا۔اس خود کش حملے میں لگ بھگ پچاس افراد ہلاک ہوئے۔

ستائیس مئی دو ہزار سات کو اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر خود کش حملے میں اٹھائیس جانیں گئیں۔گیارہ اپریل دو ہزار چھ کو نشتر پارک میں عید میلاد النبیؐ کے اجتماع پر حملے میں سنی تحریک اور جماعت اہلِ سنت کی تنظیمی قیادت صاف ہو گئی۔ لگ بھگ تریسٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔( واضح رہے کہ اس وقت تک لال مسجد اسلام آباد آپریشن نہیں ہوا تھا جسے شدت پسندی میں پھیلاؤ کا کلیدی محرک بتایا جاتا ہے )۔

اٹھائیس دسمبر دو ہزار سات کو پشاور کے مضافات میں عبدالشکور ملنگ بابا کا مزار اڑا دیا گیا ، تین مارچ دو ہزار آٹھ کو گاؤں شیخاں میں ابو سعید بابا کے چار سو برس پرانے مزار پر خود کش حملے میں دس افراد ہلاک ہوئے۔پانچ مارچ دو ہزار نو کو پشتو ادب کے دماغ رحمان بابا کے مزار کو اڑا دیا گیا۔اسی مہینے  میں نوشہرہ میں بہادر بابا اور اپریل دو ہزار نو میں بونیر میں پیر بابا کے مزار پر حملہ ہوا۔یکم جولائی دو ہزار دس کو لاہور میں داتا دربار پر بم حملے میں پینتیس زائرین ہلاک اور پونے دو سو زخمی ہوئے۔

سات اکتوبر دو ہزار دس کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی مزار پر حملے میں آٹھ ہلاکتیں اور ساٹھ زخمی ہوئے۔اکتیس دسمبر دو ہزار پندرہ کو شکار پور میں امام بارگاہ پر خودکش حملے میں ساٹھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔بارہ نومبر دو ہزار سولہ کو خضدار میں شاہ نورانی کی درگاہ پر خود کش حملے میں تریسٹھ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے اور اب سیہون کی درگاہ پر حملہ۔اس پورے عرصے میں محرم اور دیگر بیسیوں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

مطلب یہ ہوا کہ اب گفتگو کا دور ختم ہوا۔بات گالی سے شروع  اور گولی پر ختم ہوگی۔اب دلیل میں نہیں بم میں دم ہونا چاہیے۔اگر تو مزارات اور درگاہوں کا معاملہ کفر اور اسلام اور مشرک و مومن کا ہے تو پھر تو اتنی درگاہوں پر حملوں کے بعد وہاں جانے والے بیشتر زائرین کو عقل آجانی چاہیے تھی۔ مگر میں نے جن جن درگاہوں کا زکر کیا وہاں تو آج بھی زندگی پوری شد و مد سے جاری و ساری ہے۔ان درگاہوں اور مزاروں میں مدفون ہستیوں کے عمل میں کوئی تو ایسی بات ہوگی کہ لوگ اب بھی کھچے چلے جا رہے ہیں ، نعرے لگا رہے ہیں ، رقص کر رہے ہیں ، لنگر بانٹ رہے ہیں ، کھا رہے ہیں ، نقد نذرانے دے رہے ہیں ، قوالی پر حال کھیل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں ذاتی طور پر مزار پرست نہیں مگر کسی کو اگر کسی مزار پر جا کے آنند مل رہا ہے تو مجھے کیا ؟ کسی کا کوئی دکھڑا سننے والا نہیں اور وہ قبر کو اپنا دکھڑا سنا کے ہلکا ہو رہا ہے تو برا کیا ہے ؟  آخر مہنگے مہنگے ماہرینِ نفسیات کے پاس بھی تو لوگ دکھڑا سنانے ہی جاتے ہیں۔اگر میں کسی کو کھانا نہیں کھلا پارہا اور ہزاروں بھوکوں کا ان درگاہوں پر صبح شام پیٹ بھر رہا ہے تو میں کیوں جلوں ؟ اگر کوئی دھمال ڈال کر چند لمحے کے لیے اس دنیا سے کسی اور دنیا میں جانا چاہتا ہے تو میں کون ہوں اس کے قدم روکنے والا؟ جس کے صحن میں دیوانہ ناچ رہا ہے اسی کو برا نہیں لگ رہا تو میں اتنا برا کیوں مانوں گویا میرے صحن میں ناچ رہا ہو۔یہ ہستیاں جنھیں اس دنیا سے رخصت ہوئے سیکڑوں برس ہو گئے اگر آج بھی دکھ کی ماری خلقت کسی زندہ پرہیزگار عالمِ دین سے زیادہ ان قبر میں لیٹے ہوؤوں کو اپنے دکھ کا مداوا سمجھ رہی ہے تو زرا سوچئیے کہ اس خلقت کا دکھ کتنا بڑا ہے ؟

یہ ہستیاں اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کے لیے شائد اس لیے آج زندہ ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کسی عقیدے سے نفرت نہیں کی ، کسی کے فنڈز سے کلاشنکوف خرید کر کسی کے سر پے رکھ کے اسے مسلمان نہیں کیا۔ان کے دستر خوان پر جو بھی آ جائے آجائے ، جو بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کو کہے کہے ، مسلمان ہوگیا تو سو بسم اللہ نہ بھی ہوا تو مخلوقِ خدا تو ہے اور اسی سبب احترام ِ انسانیت کا حقدار بھی۔

تعجب ہے جب لشکرِ اسلام حجاز سے نکلا اور اسپین تا ہندوستان و وسطِ ایشیا تک پھیل گیا تو کسی فاتح صحابی یا سپاہ سالار کا خیال اس جانب کیوں نہ گیا کہ راہ میں آنے والی کسی غیرِ اسلام عبادت گاہ ، مجسمے یا مزار کو نہیں بچنا چاہیے۔اگر واقعی یہ رواج شرعاً جائز ہوتا تو آج طالبان کو بدھا کا مجسمہ اڑانے کے لیے کہاں نصیب ہوتا ؟ یا داعش اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو کوئی بھی مزار یا درگاہ تباہ کرنے کے لیے کہاں سے ملتے ؟ تو کیا اسلاف کا ایمان آج کے مسلمانوں کے ایمان سے کم تھا ؟


تحریر۔۔۔۔وسعت اللہ خان

وحدت نیوز (آرٹیکل) ابتداء کائنات سے ہی انسانی کمال و ترقی کے نام سے بہت ساری تحریکوں نے جنم لیا ۔ عروج و زوال دیکھا ۔ وہ تحریکیں کہ جن کی بنیاد و اساس کمزور تھی  دنیا کے سینے سے مٹتی چلیں  گئیں ۔ ۔۔ حتی ان کے اثرات تک باقی نہ رہے۔ مگر جیسے ہی دنیا میں کوئی بھی تحریک یا تنظیم سر  اٹھاتی  ہے ، اس کے ظہور کے ساتھ ہی چند بنیادی سوالات   ذہن  انسانی میں جنم لیتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں  ۔۔۔۔؟؟اس کے پیچھے کیا عوامل ، اسباب و محرکات کار فرما ہیں ۔۔۔؟؟یہ اپنے دعووں میں کس حد تک صادق ہے ۔۔۔۔ ؟؟آج ہر طرف داعش  داعش  کا شور سنائی دے رہا ہے ۔۔۔"داعش " آج سے چند سال قبل دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک  تنظیم ۔۔۔ اس کا نام و شور سنتے ہی میرے ذہن میں بھی بعینہ انہیں سوالات نے جنم لیا ۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں۔۔۔؟؟اس کا شعار کیا ہے ۔۔۔؟؟آیا یہ خود ذاتاً ایک مستقل نظریاتی  تنظیم ہے ؟؟۔۔۔یاپھر یہ کسی اور تحریک و تنظیم کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہچانا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ ؟؟آیا اس کے ظاہر و باطن میں تفاوت پایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔؟؟

چند روز کی ورق گردانی و دانشمندان کے خیالات کی روشنی میں بالاخر  میں اس نتیجے پر پہنچا کہ "داعش " نامی تنظیم بذات خود کوئی مستقل نظریاتی تحریک نہیں ۔۔۔۔۔ خود اس تنظیم کے دعوے کے مطابق یہ آج سے تقریباً 14 صدیاں پہلے جنم لینے والی تحریک کے علمبردار ہیں۔۔۔ اور ظاہری طور پر ان کا نعرہ اسی تحریک کے مقاصد کو دنیا کے کونے کونے تک پہچانا ہے ۔۔۔۔وہ تحریک کہ جسے دنیا آج اسلام کے نام سے جانتی ہے ۔۔۔۔ ان کے ادّعا کے مطابق یہ  اسی اسلام کے علمبردار  ہیں کہ جس کے محبت بھرے و نرم و نازک پودے کو خود رسول خدا (ص) نےکے کاشت کیا ۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کیا ۔۔۔۔۔؟؟ ان کی  تاریخ تو بلکل  ان کے ادّعا و دعوے کی تصدیق نہیں کرتی   ۔۔۔۔۔ اور چیخ  چیخ  کر بتا  رہی ہے کہ یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں ۔۔۔۔ہاں   جی ۔۔۔ بلکل ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔ میں خود بھی تحریک محمدیہ (ص) کا ہی فرد ہونے کی بناء پر رسول خدا(ص) کی مہربان و شفیق تحریک سے قدرےآشنا ہوں ۔۔۔۔لہذا اس بناء پر پورے وثوق سے کہا  جا سکتا ہے  کہ  ان کا اسلام محمدیہ (ص) سے دور دور تک کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔انہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا دم ضرور بھرا ہے ۔۔۔اگر تاریخ کا دقت سے مطالع کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ گروہ اسلام کے داخلی دشمنوں کے تسلسل کا ایک واضح نمونہ ہے ۔۔۔ کیونکہ ابتداء اسلام سے ہی جب دشمن نے یہ محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی سامنے سے آکر اس تحریک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔۔۔لہذا چال بدلی ۔۔۔۔اور آگئے اسلام کا علم لےکر ۔۔۔۔یہی سبب ہے کہ ہمیشہ سے اسلام کو بیرونی دشمن سے زیادہ داخلی دشمن نے نقصان پہنچایا۔۔۔۔اور ہمیشہ سے ہی اس دشمن کا ہم و غم  نابودی اسلام رہا ہے ۔۔۔۔۔یہ چند افراد نہیں بلکہ ایک منظّم فکر ہے کہ جو مختلف خطّوں میں ،  مختلف افراد و گروہوں کی صورت میں  مسلسل اسلام پر ضربیں لگارہی ہے ۔۔۔۔اگرچہ اس فکر کی ابتداء  اوائل اسلام سے ہی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ مگر بعض کے نزدیک اس فکر کا بیج خوارج [1]نے بویا ۔۔۔اور یہی وہ پہلا گروہ ہے کہ جس نے عالم اسلام کو ایک بہت بڑے فتنے سے دوچار کیا ۔۔۔۔ان کے نزدیک ہر وہ شخص کہ جو ان کے نظریات کو قبول کرے وہ مسلمان ۔۔۔۔باقی سب کافر ہیں چاہے وہ خلیفۃالرسول (ص) ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔مقام فکر تو یہ ہے کہ اس گروہ کے نظریات و اعمال خود بانی اسلام حضرت محمد (ص) کے نظریات کے بلکل برعکس تھے۔۔ رسول خدا(ص) نے دنیا کو امن و اشتی کا درس دیا جبکہ انہوں  نے وحشت گری ، قتل و غارت و نفرت کا پیغام دنیا تک پہنچایا ۔۔۔اور بات صرف یہاں تک ہی نہ رہی ۔۔۔۔۔بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس فکرا ور گروہ کے افراد خود رسول گرامی (ص) کی توہین سے باز نہ آئے ۔۔۔جیسا کہ حاکم نیشاپوری کی روایت کے مطابق وہ پہلا شخص کہ جس نے تبّرک ، توسل و زیارت پیغمبر(ص) کو حرام قرار دیا اور قبر رسول خدا (ص) کو پتھر سے تعبیر کیا وہ مروان بن حکم اموی ہے [2]۔۔۔اسی طرح حجاج بن یوسف کا شمار بھی انھیں افراد میں ہوتا ہے۔۔۔ مبرد سے روایت ہے کہ حجاج  کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے یوں کہتا ہے ۔۔۔" افسوس ہے ان لوگوں پر  کہ جو بوسیدہ ہڈیوں کا طواف کرتے ہیں ۔۔انہیں کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ یہ امیر کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ کیا نہیں جانتے کہ کسی بھی شخص کا خلیفہ اس کے سے افضل ہوتا ہے [3] "۔ جبکہ دوسری طرف علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت نے اس فکر کی بھرپور  مذمت کی  اور شدید الفاظ میں اس گروہ کی مذمت کی  ۔۔۔۔جیسا کہ بزرگ عالم اہل سنت  ذہبی  (748 ھ) حجاج کے بارے یوں کہتے ہیں " وہ ظالم ، جبار ، ناصبی ، خبیث ، و سفّاک تھا  ۔ ہم اس پر سب و شتم کرتے ہیں اور اس کو نہیں مانتے "[4]۔ اسی طرح مروان کو بھی کچھ انہیں الفاظ سے ہی یاد کیا ہے [5]۔یہی وہ فکر باطلہ تھی کہ جوچلتی چلتی مسلیمہ کذاب جیسے اشخاص سے ہوتی ہوئی ۔۔۔آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ و اس کے پیروکاروں تک پہنچی ۔۔۔یاد رہے کہ ابن تیمیہ وہی شخص ہے کہ جس نے اپنے قلم و عمل سے دنیا اسلام میں عظیم فتنوں کو جنم دیا ۔۔۔فکر مروان کی طرح اس نے بھی  توسل و شفاعت سے  نہ صرف انکار کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ  توسل و شفاعت طلب کرنیوالا کافر ہے[6] ۔۔۔ جبکہ ارشاد خداوندی  ہوتاہے کہ " اے رسول (ص) وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا  اگر تیرے پاس آجائیں اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اے رسول (ص)تم بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرو (یعنی  تمہیں  وسیلہ قرار دیں ) تو بے شک  وہ اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا اور رحیم پائیں گے "[7]۔  اسی طر ح  امام اہل سنت   محمد بن اسماعیل البخاری  نے رسول خدا(ص) کےلیے شفاعت مطلقہ کا  نظریہ اختیار کیا ہے [8]۔۔۔ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کا فتنہ اسقدر بڑھ گیا کہ  ایک دفعہ پھر علماء کو  ان کے فتنہ گر نظریات کے رد میں اپنے قلم کو حرکت میں لانا پڑا ۔۔۔اور ایک بار پھر علماء اہل سنت ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔۔۔ جیسا کہ بزرگ عالم  دین تقی الدین سبکی کی ایک کتاب  کا نام ہی " الدرۃ المضیۃ فی الرد علی ابن تیمیہ  "ہے[9] ۔اسی طرح حصنی دمشقی  ، ابن حجر ہیثمی ، ابن حجر عسقلانی  ، ابن شاکر ، ملاقاری حنفی  و شیخ محمود کوثری  مصری کا شمار انہیں علماء میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے قلم سے ان کے نظریات کو رد کیا ۔۔۔۔۔ علماء کا مسلسل  مخالفت کرنا سبب بنا کہ یہ اس فکر باطلہ میں ٹھہراو تو آیا ۔۔۔۔مگر  جڑ سے ختم نہ ہو سکی ۔۔۔۔۔ ایک بار پھر  انہیں نظریات نے سکوت توڑا اور قفس سے ایسے باہر آئے  کہ دنیا کو تباہی کے کنارے پر لا کھٹرا کیا  ۔۔۔۔اب کی بار تقریباً 12ویں صدی ہجری میں عبدالوہاب نامی شخص نے نہ صرف یہ  کہ ان افکار کو دوربارہ زندہ کیا بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہنایا۔۔۔ اس کے اصول قرآن کے اصولوں کے صریحاً مخالف تھے ۔۔۔

1۔ قرآن کہتا ہے کہ" جو شخص بھی شعائر خدا کا احترام کرے یہ اس کے دل کے تقوا کی علامت ہے"[10] ۔۔۔ جبکہ  عبدالوہاب توہین شعائر اللہ سے خوش ہوتاہے  ۔۔۔انبیاء و اولیاء کے مزارات کی توہین ۔۔۔ ان کو زمین بوس کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا ۔

2۔ اصول قرآن یہ ہے کہ " جس نے بلاوجہ  ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں  کو قتل کیا  اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی عطاکی "[11]۔ ۔۔۔۔۔جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ عبدالوہاب نے آل سعود کے زیر سایہ قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ جسے سوچ کر روح انسانی کانپ اٹھتی ہے ۔

3۔ ارشاد خداوندی  ہوتا ہے کہ " بے شک خود اللہ اور اسکے فرشتے  رسول خدا(ص) پر درود پڑھتے ہیں۔۔ اے ایمان والوں  تم بھی رسول خدا(ص) کی ذات گرامی پر دورد و سلام بھیجو  "[12] ۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ عبدالوہاب   انحرافات کی دلدل میں اسقدر دھنس گیا تھا کہ   نہ صرف یہ کہ اس نے  قرآنی اصول کی مخالفت کی بلکہ  اس بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یوں کہتاہے کہ "کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے میں ستار بجانے میں اسقدر گناہ نہیں ہے کہ جس قدر مسجد کے میناروں سے حضور (ص) پر درود  پڑھنے کا ہے "[13] ۔نعوذباللہ

4۔ قرآن کہتا ہے کہ " اللہ تک پہنچنے کےلیے وسیلہ تلاش کرو "[14]۔۔۔۔۔۔۔جبکہ   عبداوہاب نے نہ صرف یہ کہ توسل و سیلے سے انکار کیا بلکہ اس کو کفر قرار  دیتے ہوئے یوں لکھتاہے " اور تم کو معلوم ہو چکا ہے کہ ان لوگوں (مسلمانوں ) کا توحید کو مان لینا ۔۔۔انہیں اسلام میں داخل نہیں کرتا ۔۔۔ان لوگوں کا انبیاءؑ  و فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور ان کی تعظیم سے اللہ کا قرب چاہنا ۔۔۔ہی وہ سبب ہے کہ جس نے ان کے قتل و اموال لوٹنے کو جائز کردیا ہے "[15]۔

5۔ قرآن میں متعدد مقامات پر خداوند نے اپنے محبوب (ص) کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے ۔ حتی یہاں تک کہا کہ اپنی آواز بھی رسول خدا(ص) کی آواز سے بلند نہ کرو [16]۔۔۔۔۔۔ جبکہ  عبداوہاب کی نحوست اسقدر بڑھ چکی تھی کہ  اس کے حلقہ احباب میں توہین رسالت  عام بات تھی  یہاں تک کہا جاتا کہ ۔۔۔" میری لاٹھی  محمد (ص) سے بہتر ہے ۔۔۔کیونکہ یہ سانپ مارنے کے کام آتی ہے اور محمد(ص) فوت ہوچکے ہیں اب ان میں کوئی نفع نہیں ۔۔۔وہ تو محض ایک ایلچی تھے ۔۔۔۔جو دنیا سے جا چکے "[17]۔

یہ اسی  کے فکر باطلہ کے نظریات کی چند مثالیں ہیں  کہ جن کو عبدالوہاب نے آلسعود کے سائے میں  دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ۔۔۔۔کیونکہ ان نظریات کا اسلام محمدیہ(ص) سے کو تعلق نہیں تھا اس لیے علماء نے ان کے خلاف بھرپور قلم اٹھایا   ۔۔۔۔ان کے رد میں بڑی بڑی کتب تحریر کیں ۔۔۔ شیخ ابی حامد مرزوق نے اپنی کتاب میں تقریباً 42 ان علماء کی فہرست مہیاکی ہے کہ جنہوں نے ان افکار کے رد میں کتابیں لکھیں ۔۔۔۔کہ جن میں علماء اہل سنت کا کردار نمایا طور پر نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ  علامہ ابن عابدین شامی متوفی (1251 ھ) نے کہا کہ " محمد بن عبدالوہاب کی مثال خوارج جیسی ہے کہ جنہوں نے حضرت علی ؑ کے خلاف خروج کیا ۔۔۔۔یہی چیز سبب بنی کہ عبداوہاب نے عوام اہل سنت و بالخصوص علماء اہل سنت کے قتل کا فتوا جاری کیا "[18]۔ ۔۔۔۔

عبدالوہاب   و اس کے پیرکار  وں نے مذہب اہل سنت کی اسقدر مخالفت و توہین کی کہ  ۔۔۔۔محمد بن سعود علی الاعلان  کہا کرتا تھا کہ " آئمہ اربعہ (امام شافعی ؒ ۔۔امام مالکؒ ۔۔ امام احمد ؒ۔۔و امام ابو حنیفہؒ) کے اقوال غیر معتبر ہیں ۔۔۔۔اور جنہوں نے مذاہب اربعہ میں کتابیں لکھیں ہیں وہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا "[19] ۔

المختصر عبدالوہاب تو نہ رہا مگر آج بھی  اس کے حامیوں نے اس کے افکار کو زند ہ رکھا ہے ۔۔۔۔باتدریج  یہی فکر ِخوارج  کبھی مروان و حجاج و  سلیمہ کذاب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔کبھی ابن تیمیہ و عبدالوہاب کی شکل میں ۔۔۔پھر چلتی چلتی کبھی  طالبان ، لشکر جھنگوی و سپہ صحابہ کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔کبھی  بوکو حرام ، النصرہ و داعش کی صورت میں ۔۔۔۔داعش اسی فکر خوارج  کے تسلسل کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ سے دنیا میں فتنہ و فساد برپا کیا ۔۔۔بزبان قرآن ۔۔۔اس فکر باطلہ کے حامل اس قدر جہالت و نادانی کا شکار ہیں کہ "  جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین مین فساد نہ پھیلاو ۔۔۔۔تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔خبردار یہی لوگ مفسد ہیں (مگر فساد میں اس قدر بڑھ چکے ہیں ) کہ اپنے شعور سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں "[20]۔  حضرت  علی ؑ سے روایت ہے کہ "جب تم سیاہ پرچموں کو دیکھو (کہ وہ تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ) تو ہرگز ان کی مددکو نہ جاؤ  ۔۔۔کیونکہ وہ باطل پر ہوں گے ۔۔۔وہ پرچم ایسی قوم کے پاس ہوگے کہ جن کے دل لوہے کی طرح  سخت ہوں گے ۔۔۔۔وہ حکومت کے لالچی ہوں گے ۔۔۔۔جبکہ اپنے وعدوں کو ہرگز وفا نہ کریں گے ۔۔۔۔کنیت کو اپنا نام قرار دیں گے ۔۔۔۔ان کے نام شہروں کے ناموں پر ہوں گے ۔۔۔۔اور یہاں تک کہ ان کا آپس میں اختلاف ہوگا پھر خداوندمتعال حق کو ظاہر کرے گا "[21]۔

توہین شعائر کے عنوان سے مزارات انبیاء و اولیا ء  کو اڑانا۔۔۔۔بے گناہ لوگوں کا خون بہانا ۔۔۔۔۔قتل و غارت  گری کا بازار گرم کرنا ۔۔۔۔۔فتنہ و فساد  کا برپا کرنا ۔۔۔۔یہ سب اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ فکر داعش  فکر ۔۔۔۔فکر خوراج و ابن تیمیہ و عبدالوہاب سے ہٹ کر کوئی دوسری فکر نہیں ۔۔۔۔۔لہذا اس فکر کے حامل افراد کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ  آج بھی علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت زندہ ہیں ۔۔۔۔اور تمہارے ان فتنہ گر نظریات سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اور یاد رکھو کہ ملت پاکستان بیدار ہے ۔۔۔۔۔ملت کا ہر فرد  ۔۔۔۔بچہ ، بوڑھا ، جوان ، مرد و عورت۔۔۔۔ سب بیدار ہیں ۔۔۔۔یہ سر زمین پاکستان ہے  ۔۔۔۔اور اس پر افواج پاکستان کا سایہ ہے ۔۔۔۔وہ فوج کہ جس کی ہیبت سے دنیا کانپتی ہے ۔۔۔۔۔آج دنیا تمہارے اصلی و ناپاک چہرے سے واقف ہے ۔۔۔۔۔مزارات اولیاء  ۔۔۔۔۔ ہمارے  بچے سکول جاتے ہیں اور ہمارے کھیل کے میدان آج بھی کھلے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم یہاں ہیں تم کہاں ہو ۔۔۔۔۔۔ ؟؟

تحریر۔۔۔ ساجد علی گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) میڈیا نے شور مچا رکھا تھا، شام اور عراق سے دہشت گرد بھاگ کر پاکستان میں جمع ہو رہے ہیں ،طوفان دستک دے رہا تھا لیکن ہمارے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے، ملک میں شانتی ہی شانتی ہے، پھر پانچ دنوں میں آٹھ دھماکے ہوئے ، دھماکے اتنے زوردار تھے کہ لوگ پانامہ کیس کو بھول ہی گئے ، اب پتہ نہیں کہ یہ دھماکےہو گئے یا کروا دئیے گئے !خیر جانے دیجئے یہ سیاسی باتیں ویسے بھی آج کل لوگ بہت اداس  ہیں، حکمرانوں سے تو انہیں کوئی امید ہی نہیں رہی،  آخر قلندر کا مزار لہو لہان ہوا ہے، مزار میں بکھری ہوئی لاشوں پر رونے والوں کو کیا پتہ تھا کہ ان کے پیاروں کے جسم کے ٹکڑے گندگی کے ڈھیر سے ملیں گے۔ ایسا کیوں ہوا !؟ خیر ہونے دیجئے ،ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن ہمیں کبھی کبھار پتہ چلتا ہے۔

البتہ حکومت نے ایک اچھا کام بھی کیا ہے، اس دھماکے کے سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا ہے، اب مزے کی بات یہ ہے کہ سہولت کاروں کے نام منیر خان جمالی اور عبدالعزیز جمالی ہیں، دونوں بلدیاتی نمائندے ہیں، خیر سے دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، آخر ملکی تعمیر و ترقی میں اپوزیشن کا بھی کوئی رول  تو ہونا چاہیے۔

جی ہاں ملکی تعمیر و ترقی کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کام کرنا چاہیے، اسی لئے اگر حکومت دہشت گردوں کے وجود سے انکار کرتی ہے تو اپوزیشن ان کی سہولت کار بنتی ہے۔ اب پاکستان میں خوشحالی ضرور آئے گی چونکہ یہاں  حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ملک و ملت کی خدمت میں مصروف ہیں۔

ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن کے مطابق دہشت گردی کے بغیر پاکستان کبھی خوشحال نہیں ہوسکتا، یہ غریب  لوگ جب تک مارے نہیں جائیں گے تب تک غربت کیسے ختم ہوگی!؟  جب  تک تجزیہ و تحلیل کرنے والے دانشوروں کو ختم نہیں کیا جائے گا تب تک سیاسی حالات کیسے ٹھیک ہو نگے!؟  جب تک مزاروں اور مساجد میں دھماکے نہیں ہونگے  اور زخمیوں اور شہیدوں کو معاوضہ دینے کا اعلان نہیں کیا جائے گاتب تک لوگوں کو  حکمرانوں کی ہمدردی کا یقین کیسے آئے گا!؟  اگر دیانتدار پولیس آ فیسرز  اور فرض شناس فوجی جوانوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا جائے گا تو لوگوں کو  ہمارے مجاہد بھائیوں کی طاقت کا اندازہ کیسے ہوگا۱؟۔۔۔

لہذا  ملک کی خوشحالی اور غربت کے خاتمے کے لئےدہشت گردی ضروری ہے ،ہماری حکومت جانتی ہے کہ سی پیک منصوبے کی طرح دہشت گردی کا دائرہ کار بھی جتنا وسیع ہوگا خوشحالی بھی  اتنی ہی زیادہ ہوگی، لہذا دہشت گردی کا روٹ بھی سی پیک کے روٹ کی طرح پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔ہماری حکومت اور اپوزیشن کی جدوجہد سے جلد ہی  آزاد کشمیر سے لے کر کراچی تک اور کراچی سے لے کر خیبر تک نہ کوئی غریب رہے گا اور نہ غربت۔ جو زندہ بچ جائیں گے وہ اپنا اگائیں گے اور اپنا کھائیں گے۔

یا پھر گھاس کھائیں گے اور ایٹم بنائیں گے، ویسے اب مزید ایٹم بم بنانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں رہی، حکومت اور اپوزیشن کو اب چھوٹے چھوٹے دھماکوں کے ذریعے غربت ختم کرنے کے بجائے پورے ملک میں ایک دو ایٹم بم پھینکوا دینے چائیے تاکہ یہ روز روز کی ٹھک ٹھک سے جان چھوٹے،  ٹھک ٹھک سے یاد آیا کہ  یہ پولیس والے بھی بہت نالائق ہیں ، ویسے ہی  دھماکے کے سہولت کاروں یعنی جمالی برادران کو پکڑ لائے ہیں، انہیں کھلا چھوڑ دینا چاہیے  تاکہ وہ غریب مکاو سکیم کو تیزی سے آگے بڑھاتے رہیں، گلو بٹ بھی تو گرفتار ہوا تھا، یہ پولیس والے بھی عجیب ہیں کیسے کیسے شریف لوگوں کو  پکڑ لیتے ہیں، خیر پولیس والوں کے پکڑنے سے کچھ نہیں ہوتا ، شریف  لوگ چھوٹ بھی تو جاتے ہیں، آخر شریف برادران  کی حکومت بھی تو ہے اس ملک میں،  شریف شریفوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا۔۔۔

 اب مرنا چاہیے اس بیرسٹر کو بھی جو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننا چاہتا ہے، جس نے چند دن پہلے دوبارہ ایمل کانسی کیس کی وجہ سے ملک کی معزز شخصیات کے عدالت سے دوبارہ نوٹس جاری کروائے ہیں، اس بیرسٹر کو بھی پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے، بے چارہ کہتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلی شہباز شریف، اسحاق ڈار اور چوہدری نثار علی خان نے امریکہ سے بھاری رقم لے کر ایمل کانسی کوامریکہ کے حوالے کیا اور اس رقم سے دوسرے ممالک میں جائیداد خریدی، اب اس بیرسٹر کو کون سمجھائے  کہ اگر چار بندوں کو پیسے مل گئے ہیں تو اس میں جلنے کی کیا بات ہے، پیسے آئیں گے تو خوشحالی آئے گی، لہذا  اگر آپ ملکی و قومی خوشحالی چاہتے ہیں تو ایمل کانسی کو جانے دیجئے اور پیسے آنے دیجئے۔۔۔

 کچھ عرصہ پہلے بھی کچھ نادانوں نے شور مچایا تھا کہ فلاں صاحب کے گھوڑے سیب کا مربہ کھاتے ہیں، یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان زمین پر گر جائے گا، بھئی اس میں شور کی کیا بات ہے، گھوڑوں کا مربہ کھانا  علامت ہے خوشحال گھرانے کی،  آپ خود اندازہ لگائیں کہ جس گھر کے گھوڑے مربہ  کھاتے ہوں اس گھر والے خود کتنے خوشحال ہونگے اور جس ملک میں ایسے خوشحال گھرانے ہوں اس ملک کی خوشحالی کے کیا کہنے، سندھ کے لوگ خوشحالی میں دھمال بہت ڈالتے ہیں، البتہ دھمال تو سیاسی لوگوں کے جلسے جلوسوں میں ڈالنا چاہیے،  قلندر کے مزار پر دھمال ڈالنا تو پرانے لوگوں کی  رسم ہے،  نئے دور میں اور سی پیک کی دنیا میں تو  دھمال  ڈالنے کا حق صرف اسی کو ہے جس کے پاس اپنا سوئس اکاونٹ ہو یا  منی لانڈرنگ  سے آشنا ہو۔ سوئس اکاونٹ یا  منی لانڈرنگ   کے بغیر دھمال جچتا ہی نہیں اور جو زبردستی  ڈالے گا اس کی لاش کے ٹکڑے گندگی کے ڈھیر سے ہی ملیں گے۔

چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ آزاد کشمیر میں ایک  شیعہ عالم دین کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے ابھی اس خبر کے زخم ہرے ہی ہیں کہ یہ  خبر بھی آ گئی ہے کہ  چارسدہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مقامی امیر مولانا کلیم اللہ کو بھی نامعلوم دہشت گردوں نے گولی مار دی ہے ، اب کون ڈھونڈے گا دہشت گردوں کو اور پھر کون پکڑے گا ان کے سہولت کا روں کو صبح پھر چند مذمتی بیانات آجائیں گے اور یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ کام بھارت اور افغانستان کا ہے۔

 بہر حال ہم جانتے ہیں کہ  بھارت اور افغانستان  کو خواہ مخواہ میں کریڈٹ دیا جارہاہے ، ان حکمرانوں اور  اپوزیشن لیڈروں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی بھارت یا افغانستان کی ضرورت ہی نہیں۔لوگ  تیزی سےمر رہے ہیں تو کیا ملک  بھی تو تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)امریکا و ایران تعلقات کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا دور انقلاب سے پہلے اور دوسرا انقلاب کے بعد کا ہے، پہلا دور 1979 iran-usجنوری تک کا دور ہے جس میں امریکا ایران تعلقات ایسے تھے جیسے کہ آج کے دور میں امریکا سعودی عرب تعلقا ت ہیں یعنی ایران مشرق وسطی میں امریکی پولیس کا کردار ادا کرتا تھا، شاہ ایران اپنی شاہ خرچی میں مگن رہتا اور نظامی معمالات چاہئے و اقتصادی ہوں یا سیاسی غیرملکی سنبھالا کرتے تھے، یہاں تک کے تعلقات اس قدر قریبی تھے کہ قانوں توڑنے یا قتل کرنے پر ایرانی کو تو سزا ملتی تھی لیکن فرھنگی کو استثناء حاصل تھا، مضبوط تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگالیں کے 1957 میں مارچ کی 5 تاریخ ایران اور امریکا نے صدر آئزن ہاور پیس پروگرام کے تحت ایٹمی توانائی کے سول استعمال کا باقاعدہ معاہدہ کیا،اس معاہدے کے تحت امریکا نے ایران کوکئی کلو گرام یورینیم کی افزودگی کو لیز کیا، آج یہی امریکا ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا سب سے بڑا حریف ہے جبکہ ایران کئی بار اپنے پرامن نیوکلیئر پروگرام کی یقین دہانی بھی کرواچکا ہے،لیکن امریکا کو قبول نہیں۔

دوسرا دور انقلاب اسلامی کے بعد کا ہے جس میں امریکی دشمنی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، 11 فروری 1979 سے منقطہ ہونےوالے ایران و امریکا تعلقات میں آج تک بحالی نہیں آسکی ہے، انقلاب اسلامی کے بانی نے امریکا کو شیطان بزرگ کہا تو دوسری جانب امریکا نے ایران کو برائیوں کی جڑ قرار دیا ہوا ہے، مختلف ادوار میں ان دونوں ممالک میں گرما گرمی بڑھتی رہی ہے،کبھی لفظوں کی جنگ تیز ہوجاتی ہے تو کبھی دونوں ممالک میںمفاہمت اور گفت و شنید بھی دیکھنے کو ملی ہے، یہ سب امریکا اور ایران کی حکومتوں اور انکی پالیسی پر منحصر ہے کہ وہ تعلقات کو کس حد تک آگے بڑھائیں۔

تاریخ حقائق بتاتے ہیں امریکا میں آنے والی ڈیموکیڑیٹ پارٹی کی حکومتوں کے ادوار میں امریکی پالیسی میں ایران کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم ریپبلیکن پارٹی کا رویہ جارحانہ ہے، حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنکا تعلق بھی ریپبلیکن پارٹی ہے اپنی صدارت سنبھالتے ہیں ایران پر برس پڑے،حتی کے اپنی صدارتی مہم کے دوران بھی انہوں نے ایران کے خلاف 40سے زائد تقریر یں کیں جسے عالمی میڈیا نے ریکارڈ کیا ہے، حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پانچ جمع ایک معاہدے کے بھی شدید مخالف ہیں، امریکی صدارت کے تبدیل ہوتے ہیں امریکی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی واقع ہوتی دیکھائی دی جس میں سب سے پہلے امریکی صدر نے اپنے صدار تی حکم نامہ کے تحت 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی ان سات ممالک میں ایران سمیت عراق، شام، سوڈان، لیبیا و دیگر کے شہری شامل میں ،امریکی صدر کے اس اقدام کے رد عمل میں ایران نے بھی امریکا کے شہریوں پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ ایران کے مرکزی بینک نے یہاں تک اعلان کیاہے کہ آئندہ ڈالر کی جگہ دیگر کرنسی میں تجارت کی جائیگی ۔

اس موجود صورتحال سے ایران کی انقلابی ساخت کو تو شاید کوئی نقصاں نہیں پہنچےلیکن اصلا ح پسند طبقہ حالیہ الیکشن میں ضرور متاثر ہوگا، گذشتہ دنوں ایران کے انقلاب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای نے ایک تقریر میں تنزیہ کہا کہ ہمیں ٹرمپ کا شکر گذار ہیں کیونکہ اُس نے امریکا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ،جارحیت وتشدد اور عدم برداشت پر مبنی حقیقی چہرے کودنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے، انقلاب اسلا می کے سربراہ کے اس بیان سے واضح ہوتا دیکھائی دے رہا ہے کہ ایران کا انقلابی حلقہ ٹرمپ کے شدت پسندانہ رویہ کو انقلاب کی مزید کامیابی و مضبوطی کے لئے استعمال کرے گا ، اسطرح انقلابی حلقے کا وہ موقف سچ ثابت ہوتا جارہا ہے کہ امریکا قابل بھروسہ نہیں، پانچ جمع ایک معاہدے کے دوران انقلاب اسلامی کے سربراہ نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکا قابل بھروسہ نہیں تاہم موجود ہ ایرانی حکومت کے پروپوزل پر اس معاہدے کو آگے بڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ امریکا کی طرح ایران میں بھی دو طرح کے گروپس یا طبقات اوررحجانات پائے جائے ہیں ایک رجحان اصول گر یعنی وہ طبقہ ہے جو انقلاب اسلامی کے بنیادی اصولوں کا شدت سےحامی ہے جبکہ دوسرا اصلا حات پسند ہیں یعنی یہ پالیسوں میں اصلا ح کے خواہش مند اور دنیا کے رائج قوائین کے تحت ملک کو چلانے کے قائل ہیں ، موجود ایرانی صدر اصلا ح پسند کہلاتے ہیں اسی لئے انہوںنےانقلابی روش سے ہٹ کر امریکاسمیت دیگر معمالات میں مذاکرت کی راہ کو منتخب کیا تاہم اب اُسی امریکا کا رپبلیکن صدر اُنکے لیے خطرہ بن گیا ہے اور اِسکی جانب سے اُٹھائے جانے والے اقدامات نے آئندہ آنے والے الیکشن میں اصول گروں (انقلابیوں ) کے لئے مزیدراہ ہموار کردی ہے ،کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات اصول گر صدارتی امیدوار کے لئے الیکشن مہم کا کردار ادا کریں گے۔

ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق آئندہ ایران میں صدارتی الیکشن جون 2017 میں ہونے تھے تاہم رمضان المبارک کی وجہ سے یہ الیکشن مئی میں متوقع ہیں، اس حوالے سے معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ ابھی تک اصلاح پسند وں کی جانب سے کوئی واضح شخصیت بحیثیت صدارتی امیداور سامنے نہیں آئی ہے، البتہ موجود ایرانی صدر حسن روحانی دوبارہ الیکشن لڑ سکتے ہیں، لیکن انکے خلا ف عدالتوں میں کئی کیسس موجود ہیں جسکی وجہ سے یہ گمان ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں ڈی کولیفائی کردیا جائےگا۔ جبکہ اصول گر وں کی جانب سے مختلف شخصیات کے حوالے سے چیہ مگوئیاں کی جاری ہیں جن میں بڑا نام خود سابق ایرانی صدر احمد نژاد کا ہے،احمد نژاد کے حوالے سے خبر سامنے آئی تھی کہ انقلاب اسلامی کے سربراہ نے انہیں الیکشن لڑنے سے منع کیا ہے لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے منع نہیں کیا لیکن کسی بھی تصادم سے بچنے کے لئے احتیاط کرنے کو کہاگیا تھا،چونکہ یہ احتیاط اس وجہ سے بھی تھی کہ احمد نژاد اور مرحوم آیت اللہ رفسنجانی کے درمیان اختلافات موجود تھے ،آیت اللہ رفسنجانی اصلاح پسندوں کی بڑی شخصیات میں شامل تھے ، چونکہ اب مرحوم اس دنیا میں نہیں رہے اس وجہ سے شاید احمد نژاد دوبار الیکشن میں سامنے آجائیں، اسکے علاوہ چند اور نام بھی سامنے آئے ہیں۔

قوی امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ آئندہ ایران میں احمد نژاد اور موجود ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا، اور اگر احمد نژاد الیکشن جیت جاتے ہیں عالمی معمالات میں امریکا ایران اور لے کر مزید نئی تبدیلیاں اور تناو بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔

لیکن مضبوظ ذرائع کا کہناہے کہ حالیہ الیکشن میں اصول گرا ایک ایسی شخصیت کو سامنے لانے کے لئے کوشیش کررہے ہیں جو اس وقت انقلاب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیئے جاتے ہیں ، یہ شخصیت آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی ہے، آیت اللہ ابراہیم ریئسی مشہد میں حرم امام رضا کے مسئول ہیں، وہ ماضی میں ایرانی عدالتی نظام میں اہم عہدہ پر بھی فائر رہے ہیں جبکہ ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۶ تک آڑانی جنرل کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے ہیں، وہ جنوبی خراسان صوبہ سےماہرین کونسل کے رکن بھی ہیں، آیت اللہ ابراہیم رئیسی کے بارے میں دی گارجین نے ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی اور کہا تھا کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی کو آئندہ رہبر یت کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں کون دنیا کی سپر طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا ہے اور ایرانی عوام اُسے منتخب کرتے ہیں، اسکا فیصلہ تو الیکشن کے بعد ہی سامنے آئے گا مگر یہ بات اہم ہے کہ امریکا میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ایرانی الیکشن کو کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔


تحریر۔۔۔۔سید محمد احسن

وحدت نیوز (آرٹیکل) بڑے بڑے ٹائروں والی عالی شان  گاڑیوں میں  بیٹھے ۔۔۔۔۔۔ زندگی کے مزوں میں ڈوبے ہوئے لوگ ۔۔۔۔جب کسی کچی آبادی سے گزرتے ہیں۔۔۔ تو جو چھینٹے اُڑ کر سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے کسی یتیم پر پڑتے ہیں ۔۔۔ تو اس سے ان کو کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ ۔۔۔ نہ تو ان کے کپڑے گندے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے ضمیر پہ داغ لگتا ہے ۔۔۔ وہ جیسے تھے ویسے ہی ہیں ۔۔۔ان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنی خوبصورت گاڑی سے  باہر بیٹھے ہوئے ۔۔۔ میلے کپڑے پہنے ۔۔۔کسی یتیم و مجبور کے چہرے پر پڑنے  والے  کیچڑ کو صاف کریں۔۔۔ نہ تو وہ مجبور ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی شاہانہ زندگی اجازت دیتی ہے کہ  وہ آ کر مسکینوں، یتیموں و مظلوموں کی خبر گیری کریں ۔۔۔۔کیونکہ وہ تو پیدائشی ہی  آزاد پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔ جب چاہیں کھائیں ۔۔۔جہاں مرضی جائیں ۔۔۔ جو من میں آئے اسے انجام دیں ۔۔۔۔ زندگی ان کی اپنی ہے اور اس میں کسی  بھی دوسرے کو مداخلت کی ہرگز اجازت نہیں ہے ۔۔۔

اگر کوئی گانا سنتا ہے تو کسی دوسرے کو کیا اذیت ۔۔۔۔۔اگر کوئی خاتون نیم عریاں لباس پہنتی ہے تو اس سے کسی دوسرے کو کیا تعلق ۔۔۔۔اور اگر کوئی نشہ کرتا ہے تو وہ اپنی  زندگی سے کھیل رہا ہے  کسی دوسرے کو کیا پریشانی ۔۔۔۔۔۔تو پھر شور کس بات کا ۔۔۔ آج  یہی  حال ہے ساری امت مسلمہ کا ۔۔۔ کوئی کسی دوسرے کا  پر سان  حال نہیں ۔۔۔ اگر کسی کے پاس گاڑی ہے  تو اسے سائیکل والے سے کیا سروکار ۔۔ ۔۔۔۔آج کیونکہ عراق کے لوگ مر رہے ہیں تو ہم پاکستان میں بیٹھ کر کیوں اپنی شاہانہ زندگی برباد کریں ۔۔۔ یمن کے لوگوں نے ہمیں کیا دینا ہے ۔۔۔ مرتے ہیں تو مریں ۔۔۔۔ہمارا کیا واسطہ ۔۔۔ کیونکہ وہ یمنی ہیں اور ہم پاکستانی ۔۔۔۔ اگر سعودی عرب میں  شیخ نمر کی گردن اڑائی جاتی ہے تو کیا ہوا۔۔۔۔ہم اسے دہشت گرد کہہ کر اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دیں گے ۔۔۔۔۔ویسے بھی کشمیر میں کب سے قتل عام ہورہا ہے ۔۔۔یہ کون سا ختم ہورہے ہیں ۔۔۔۔ فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ہماری گاڑی کا شیشہ تو نہیں ٹوٹا   ۔۔۔نا ۔۔۔۔ اور اگر شام میں چند بچوں کے سروں کو کاٹا گیا ہے یا ان کے خون سے کھیلا گیا ہے تو کیا ہوا۔۔۔۔ وہ بھی تو بڑے ہو کردہشتگرد ہی بنتے ۔۔۔ اچھا ہوا چھوٹی عمر میں ہی  مر گئے ۔۔۔ ہمیں ان سے کیا لینا دینا ۔۔۔۔۔ بحرین میں تو ویسے ہی کافر مر رہے ہیں ۔۔۔ ان کو مرنا ہی چاہیے ۔۔۔کیونکہ زندہ  رہے تو ہماری شاہی زندگی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔۔۔ہاں ۔۔۔تھوڑا بہت افسوس ہوتا ہے ہمیں کہ ہمارا قبلہ اول ہمارے پاس نہیں ہے ۔۔۔ مگر کیا ہوا ۔۔۔ہمارے پاس قبلہ تو ہے ہی ۔۔۔۔ فلسطین کے نوجوان بھی پاگل ہیں ۔۔۔۔کیوں اپنی جانیں فضول میں  گنوا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور آج اگر دنیا کے مختلف خطّوں  میں مسلم خواتین کی عصمت دری ہو رہی ہے تو کیا ہوا۔۔۔۔۔ کیچڑ تو صرف ہماری گاڑی کے ٹائیروں تک ہی ہے  ہم تک تو نہیں  پہنچا ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔۔۔۔۔۔پاکستان میں ویسے بھی تو لوگ مرتے ہیں ۔۔۔ موت ایک وقت معین ہے، ہر کوئی اپنے مقررہ وقت پر ہی مرتا ہے،اگر ایک آدھ  دھماکہ کسی دربار پر  بھی ہو گیا ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔ہم محفوظ ہیں ۔۔۔لوگوں کو اولیاء کے مزارات پہ جانا ہی نہیں چاہیے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی اب تو صاحبان اقتدار نے کہا ہے کہ  وہ ۔۔۔۔خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔ہاں ۔۔۔سب سانحات ۔۔۔ لاہور ۔۔۔پشاور ۔۔جامپور ۔۔۔چکوال۔۔۔کوئٹہ ۔۔ گلگت و بلتستان ۔۔۔کوہاٹ ۔۔۔پاراچنار۔۔۔ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔داتاصاحب ۔۔۔پولیس لائن ۔۔۔ تفتان بارڈر ۔۔۔کراچی کی قتل و غارت ۔۔۔واگہ بارڈر ۔۔۔عبداللہ شاہ غازی ۔۔۔ بری امام   ۔۔۔ اب سب سانحات کا بدلہ لیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔لیکن بدلہ کس سے لیا جائے گا اس کا کچھ پتہ نہیں چونکہ ایف آئی آر تو نامعلوم افراد کے خلاف ہی کٹتی ہے۔۔۔ مریم اورنگزیب صاحبہ  کہتی ہیں کہ ۔۔۔ ان کا کوئی مذہب و نظریہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اچھا جی محترمہ اورنگزیب صاحبہ کو یہ بھی پتہ ہے کہ   اگران کا کوئی مذہب نہیں۔۔۔ لیکن کبھی ان سے بھی تو پوچھیں کہ مجاہد بھیا آپ کا کیا مذہب ہے؟ کبھی ان کی ویب سائٹس تو دیکھیں ، ان کی تقریریں تو سنیں ۔۔۔

اچھا اگر لامذہب ہی ہیں  تو پھر بہت سارے مذہبی سربراہان  ان  لامذہبوں کے سرپرست و حامی کیوں ہیں ۔۔۔۔؟

خیر ہمیں ان لامذہبوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں چونکہ ہمارے وزیر داخلہ صاحب تو موجود ہیں ناں ۔۔۔ان کے ہوتے ہوئے ہمیں کیا غم ہے ۔۔۔وہ تو صاف کہہ چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی داعش نہیں ہے۔۔۔ یہ جو لوگوں کو مار رہے رہے ہیں یہ داعش تھوڑے ہیں یہ تو ہمارے مجاہد بھائی ہیں۔وزیر داخلہ صاحب ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ داعش نہیں ہیں، انہیں داعش کہنا داعش کی توہین ہے۔

 

 تحریر۔۔۔۔  ساجد علی گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) بعض خبریں منحوس ہوتی ہیں،آزادی کا غلامی میں تبدیل ہوجانا بھی ایک منحوس خبر ہے،  کئی سال پہلے میں منحوس خبریں پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر تھک چکا تھا، ہر روز ایک خبر آتی تھی کہ فلاں جگہ کسی مخصوص فرقے کا  کوئی ڈاکٹر، پروفیسر یا عالم دین ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گیا ہے یا فلاں شہر میں مجلس عزا پر حملہ ہوگیا ہے، پھر یہ سلسلہ  ایک مخصوص فرقے کےڈاکٹر، پروفیسر، وکیل ،عالم دین اور مجلس و امام بارگاہ سے بڑھ کر ان کی مساجد تک پھیل گیا ، اس وقت بھی مجھے تعجب ہوتا تھا ان لوگوں پر جو مساجد میں خود کش دھماکوں یا ٹارگٹ کلنگ کی مذمت نہیں کرتے تھے بلکہ دبے لفظوں میں کبھی کبھی خوشی کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چالیس پچاس لاشوں کے سرہانے ہمارے حکمران فقط یہ کہہ کر لوگوں کو تسلی دیا کرتے تھےکہ اس واقعے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔

دہشت گردوں کا ٹارگٹ کلنگ کرنا ، عبادت گاہوں  میں لوگوں کا مارے جانا اور اس خون خرابے پر بڑی بڑی اسلامی تنظیموںکا خاموش رہنا۔۔۔ یہ سب  دیکھ کر مجھے بہت اداسی ہوتی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے ملک میں اسلامی اخوت کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

رفتہ رفتہ ہماری آزادی غلامی میں بدلتی گئی  اور لوگ دہشت گردی کی زنجیروں میں جھکڑتے گئے، جہادی کیمپوں سے نکل کر دہشت گردہماری پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے گئے اور اسمبلیوں تک پہنچ گئے،  ہمارے حکمران دہشت گردوں سے مذاکرات کے بہانے انہیں مزید مضبوط کرتے رہے اورپھر دہشت گردی کا دائرہ  آگ کے شعلوں کی طرح مزید پھیلا اور عوام النّاس  کی طرف بڑھنے لگا،  اہم قومی و ملکی شخصیات نیز اولیائے کرام کے مزارات بھی اس کی زد میں آنے لگے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس کے جوانوں کوبھی مارا جانے لگا اور ان کے گلے کاٹے جانے لگے۔۔۔  تو اس وقت آہستہ آہستہ لوگوں نے بھارت کے بجائے اپنے میٹھے میٹھے مجاہد بھائیوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا  اورتب لوگوں کو یہ بات بخوبی سمجھ آ گئی کہ ہمیں بھارت سرکار نہیں بلکہ اپنے ہی غدار مار رہے ہیں۔اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، دہشت گردی کا دائرہ مزید   پھیلتا گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ سیہون شریف میں  ایک دھماکے میں ۸۸ افراد مارے گئے ہیں۔

مارے جانے والوں اور زخمیوں کے لواحقین مسلسل پولیس اور حکومت پر عدم اعتماد کا اعلان کئے ہوئے ہیں اور مظاہر ے کر رہے ہیں۔  گزشتہ روز جب ہمارے وزیراعظم صاحب زخمیوں کو پھول تھما رہے تھے تو باہر مظاہرین پر پولیس ڈنڈے برسا رہی تھی۔ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ تصور جوادی پر قاتلانہ حملے کے بعد آزاد کشمیر میں بھی لوگوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔

دہشت گردی کا وہ  سلسلہ جو ایک مخصوص فرقے کے قتل سے شروع ہوا تھا آج قتلِ عام کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اب صورتحال بہت بدل چکی ہے، جب پہلے لوگ مارے جاتے تھے تو انہیں ہلاک کہا جاتا تھا  لیکن اب مارے جانے والوں کو شہید کہا جاتاہے، اُس وقت کہا جاتا تھا کہ بھارت مروا رہا ہے لیکن اب بے چارے افغانستان کو کوسا جاتا ہے، اس وقت ہمارے حکمران کہتے تھے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور اب کہتے ہیں کہ ہم خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے، کل تک کہتے تھے کہ  جلد دہشت گردی پر قابو پالیا جائے گا اب کہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، کل تک ہمارے ہاں کی مذہبی تنطیمیں ان واقعات کی مذمت نہیں کرتی تھیں لیکن اب مذمت کرنا ان کی مجبوری بن چکی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے کاحل یہ نہیں کہ ہمارے حکمران  دہشت گردی کا ذمہ دار کبھی بھارت کو قراردیں  اور کبھی افغانستان کو،  کبھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کریں  اور کبھی ان کی ٹوٹی ہوئی کمر کا مساج کریں، کبھی مذہبی تنظیموں سےان کی سرپرستی کروائیں اور کبھی ان کی  مذمت کروائیں ،  کبھی دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں کریں اور کبھی ان کے خلاف آپریشن کا ڈھونگ رچائیں۔

اس مسئلےکا حل یہ ہے کہ  جس طرح بعض دہشت گردوں کو اسٹریٹجک سرمایہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح  فوج ، پولیس اور عوام کو بھی قومی اور ملی سرمایہ سمجھا جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔  اس کے علاوہ ہمیں بھارت یا ہندوستان کو کوسنے کے بجائے یہ تسلیم کرنا  چاہیے کہ ہم جن سانپوں کو دودھ پلاتے رہے  ہیں اب انہوں نے ہی ہماری ملت کا خون پینا شروع کر دیا ہے۔ لہذا ہمیں  جہاں بھارت اور افغانستان سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے وہیں  اپنے ملک میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں  اور دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کو سیاسی ،حکومتی اور سرکاری پوسٹوں سے ہٹانے کی بھی ضرورت ہے۔

آج ہماری آزادی دہشت گردوں کی غلامی میں بدل چکی ہے، ہماری اسمبلیوں، مدارس اور جہادی کیمپوں میں دہشت گردوں  اور ان کے سہولت کاروں کی  بھر مار ہے۔ ہماری قوم اپنے قومی و مذہبی تہوار بھی آزادی سے نہیں منا سکتی، لوگ آزادانہ مساجد اور مزارات پر بھی نہیں جا سکتے، قوم کے نونہالوں کو سکولوں میں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، یوم القدس کی ریلیاں اور عید میلاد النبی ؐ سمیت حتی کہ نماز پنجگانہ بھی ادا نہیں کر سکتے۔ جن مشکلات سے نجات کے لئے ہماری ملت نے انگریزوں اور ہندووں کے خلاف قیام کیا تھا آج وہی مشکلات  ہماری ملت کو نام نہاد مجاہدین  کی طرف سے درپیش ہیں۔اس مسئلے کا مختصر اور آسان حل یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف گلی کوچوں سے شروع ہونے والے ہر آپریشن کا دائرہ اسمبلیوں اور سرکاری ملازمین تک پھیلایا جائے اور ہر سطح پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ہمیں بحیثیت قوم مل کر ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree