وحدت نیوز(اسلام آباد) بیت المقدس پراسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور فلسطینی مسلمانوں پر صیہونی مظالم کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام ’’آزادی قدس منتظر وحدت امت مسلمہ کانفرنس‘‘ کا انعقاد ایک مقامی ہوٹل میں ہوا جس میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما شیریں مزاری، مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما سینٹر ظفر علی شاہ،عوامی نیشنل پارٹی کے سینٹر افراسیاب خٹک، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا اور آئی ایس او پاکستان کے صدر علی مہدی سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی مذہبی ،سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے رہنما ظفر علی شاہ نے کہا کہ میں آیت اللہ خمینی کی ذہانت و بصیرت کو داد دیتا ہواجنہوں نے دنیا بھر میں یوم القدس منانے کو ضروری قرار دیا۔اقوام متحدہ ایک زنگ آلود ادارہ ہے جو عالم اسلام کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتاہے۔ القدس پر اسرائیل کاغاصبانہ قبضہ کسی ایک ملک کا قضیہ نہیں بلکہ عالم اسلام کی پیٹھ میں یہ خنجر گونپا گیا ہے۔میں اپنی حکومت سے درخواست کروں گا کہ اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کیا جائے۔جس طرح امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہےبالکل اس طرح ہندوستان میں مودی کے ساتھ بھی مراسم بڑھائے جا رہے ہیں۔

 تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یوم القدس کو سرکاری سطح پر نہیں منایا جاتا۔امریکہ اور اسرائیل عالمی دہشت گرد ہیں۔امت مسلمہ کی کمزوری نے اسلام دشمن قوتوں کو تقویت دے رکھی ہے۔حزب اللہ نے محدود وسائل کے باوجود اسرائیل کو ہر میدان میں شکست سے دوچار کیا ہے۔سعودی عرب سمیت دیگر عرب ریاستیں کو امت مسلمہ کی بجائے اپنے مفادات مقدم ہیں۔جس کے لیے وہ ہر طرح کا دباو استعمال کر لیتے ہیں۔عرب الائنس مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا ۔عالم اسلام کو اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا۔کشمیر میں حق خود ارادیت کی بات کرنے والوں کو فلسطین میں بھی اسی حق کی بات پر آواز بلند کرنا ہو گی۔فلسطین کے مسلمانوں پر اپنی زمین تنگ کر دی گئی ۔دنیا کے کسی ملک میں ایسانہیں کہ مقامی آبادی کو مہاجر قرار دے دیا جائے اور باہر سے آکر بسنے والے قابض ہو کر مالک بن بیٹھیں۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو القدس کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنی ہو گی۔ہمیں حزب اللہ کو سپورٹ کرنا چاہیے جو اسرائیلی بربریت کا انہتائی جرات سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ دنیا کی جتنی بھی مزاحتمی تحریک استکبارکے خلاف اور مظلومیت کی حمایت میں ہیں ہم ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں دنیا کو تسخیر کرنے کے لیے علوم کے میدان آگے نکلنا ہو گا۔ صیہونی مظالم و بربریت کی ہر باشعور مذمت کرتا ہے۔ کانفرنس سے سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے صدر صابر ابور مرین اور آئی ایس او کے رہنما علی مہدی کے علاوہ دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔

وحدت نیوز(نیویارک) پاکستان میں اہل تشیع شہریوں کے مبینہ قتل عام کی مذمت اور اسکے احتجاج میں بھوک ہڑتال کرنے والےمجلس وحدت  مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل  علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے اظہار یکجہتی کے لئےاقوام متحدہ کےہیڈ کوارٹرکے  سامنے علامتی بھوک ہڑتال کی گئی بدھ سے شروع ہونے والی بھوک ہڑتال جمعہ کی شام تک جاری حجتہ الاسلام علامہ ظہیر الحسن نقوی کی قیادت میں بھوک ہڑتال میں نیویارک سمیت مختلف ریاستوں سے اہل تشیع نے شرکت کی اور علامہ ظہیر الحسن کےاس کاز میں ان کا بھرپور ساتھ دیا.علامہ ظہیر نے کہا کہ ہم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور شیعہ قوم کے لئے انکی اس مثالی قربانی اور جدوجہد پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں.انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت جس طرح دنیا میں وہابی آزم پھیلا رہی ہے اس کے خوفناک نتائج دنیا کے سامنے ہیں. انہوں نے کہا کہ ترکی اور مصر بھی سعودی عرب کے شانہ بشانہ ہیں.انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سامنے بھوک ہڑتال کا مقصد عالمی ضمیر جھنجھوڑنا ہے.جمعرات کی شب دعائے کمیل اور شب شہداء کے تحت اعمال کئے گئے. مختلف ماتمی انجمنوں نے خاص طور سے شرکت کی.بھوک ہڑتال کے دوران وقفے وقفے سے نیویارک اور گرد و نوح کی ریاستوں کی مختلف شیعہ  تنظیموں اور انجمنوں نے بھرپور شرکت کی جن میں المہدی فاؤنڈیشن کے علامہ سخاوت حسین سندرالوی، شاہ نجف اسلامک سینٹر کے الحاج اصطیفیٰ نقوی، شوکت جعفری، معصومین اسکول کے جاوید حسین، انجم رضا اور دیگر شخصیات اور تنظیمیں شامل تھیں.بھوک ہڑتالی کیمپ میں نوجوانوں کی غیر معمولی تعداد میں شرکت رہی.منتظمین نے اختتام پر اقوام متحدہ کو احتجاجی قرار داد بھی پیش کی جس میں پاکستان میں اہل تشیع کا قتل عام بند کرانے اور شیعہ قوم کو تحفظ فراہم کرنے کے مطالبات شامل تھے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے 21 جولائی کو ملک کی تمام اہم شاہراہیں بند کرکے ملک کو جام کرنیکا اعلان کر دیا ہے۔ اکیس جولائی کو دن دو بجے سے لیکر رات آٹھ بجے تک ملک کی تمام اہم شاہراہیں بند کی جائیں گی اور حکومت کو اپنے مطالبات کی طرف متوجہ کیا جائیگا۔ یہ فیصلہ ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اگر حکومت نے مطالبات پر پیش رفت نہ کی تو پنجاب اسمبلی کے سامنے طویل دھرنا دیا جائیگا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سات اگست کو علامہ عارف الحسینی کی برسی کا عظیم اجتماع اسلام آباد میں منعقد کیا جائیگا، جس میں اہم اعلانات کئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ علامہ ناصر عباس جعفری تیرہ مئی سے مطالبات کے حق میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال پر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے شیعہ حقوق کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں لیکن حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین رہنماؤں کے وفد نے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں شہید امجد صابری کے جنازہ میں شرکت کی اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اس موقع پر علامہ باقر عباس زیدی, علامہ علی انور, علامہ صادق جعفری ,سیکرٹری سیاسیات علی حسین نقوی موجود تھے رہنماؤں شہید امجد صابری کہ جنازہ کے بعد میڈیا گفتگو میں کہنا تھا کہ وفاقی و سندھ حکومت نے کراچی آپریشن کے نام پر اربوں روپے جھونک دیے مگر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ملک بھر میں دہشتگردی کے خلاف بنائے جانے والا نیشنل ایکشن پلان بھی ناکام نظر آتا ہے دوسری جانب جس آپریشن کا کپتان اپنی ٹیم منتخب کرنے کا اختیار نہ رکھتا ہو وہ آپریشن کو کس طرح منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔ شہر قائد کو اجرتی قاتلوں اور شدت پسند مذہبی تنظیم کے غنڈوں نے یر غمال بنا رکھا ہے۔ جب تک اداروں اور حکومت میں موجود ذمہ داران اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک نہیں اتاریں گے اسوقت تک کراچی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیئے جاسکتے۔

اس موقع پر علی حسین نقوی نے کہا کہ کراچی میں کالعدم مذہبی تنظیم کے دھشتگرد کھلے عام دندناتے پھرتےہیں جب کہ قانون کا اطلاق صرف امن پسند مظلوم عوام پر ھورھا ھے۔ کراچی میں چیف جسٹس کے بیٹے کو دن دھاڑے اغوا کرلیا جاتا ہے مگر تین دن گزرجانے کے باوجود کوئی سراغ نہیں ملتا اگر یہ نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے۔ رہنماؤں نیامجد صابری کی شہادت پر انکے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ امجد صابری پاکستان کا ایک اثاثہ تھے یہ محب وطن عاشق رسول (ص) و اہلبیت علیہ السلام تھے اور امجد صابری وحدت مسلمین کے داعی تھے جن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی. رہنما ؤں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ امجد صابری کے قتل میں ملوث سفاک دہشتگردوں کو فلفور کرفتار کیا جائیاور کالعدم ملک دشمن مذہبی شدت پسند تنظیموں بھر پور کاروائی کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کی معیشت کا حجم ڈھائی سو بلین ڈالر ہے۔ اس معیشت میں پچھلے آٹھ برس سے ساڑھے چار تا چھ فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر گذشتہ انہتر برس میں اتنے نہیں تھے جتنے آج ہیں ( بائیس ارب ڈالر سے زائد )۔ڈالر کے مقابلے میں روپے نے پچھلے تین برس سے مسلسل کمر باندھ کے رکھی ہوئی ہے۔رواں برس پاکستانی اسٹاک ایکسچینج براعظم ایشیا میں سب سے بہترین پرفارمر ہے۔پاکستان میں موجودہ شرحِ سود گذشتہ بیالیس برس میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح تین فیصد کے آس پاس ہے جس کے سبب اشیائے زندگی کے نرخوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔

اگلے مالی سال کے لیے جو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، وہ پچھلے کئی عشروں میں سب سے زیادہ زراعت و صنعت دوست کہا جا رہا ہے۔گذشتہ تین برس کے دوران قومی گرڈ میں مزید ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی ڈالی گئی ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ محض ہوائی نہیں کہ دو ہزار اٹھارہ تک لوڈ شیڈنگ پر بہت حد تک قابو پا لیا جائے گا۔موجودہ حکومت کے معاشی اعتماد کا یہ عالم ہے کہ آنے والے دونوں کے معاشی انڈیکیٹرز کے بارے میں سوچ کر آئی ایم ایف کا ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد کے امدادی پروگرام کا کشکول اگلے چند ماہ کے دوران توڑ دینے کے لیے بے چین ہے۔

امن و امان کے حالات بھی پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ ضربِ عضب کے نتائج نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔پراپرٹی ، اسٹاکس اور صنعتی سیکٹر میں جنبش محسوس ہو سکتی ہے۔ملکی معیشت کا انجن یعنی کراچی پھر سے ہارن بجا کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا ہے۔مڈل کلاس  کی جیب میں پیسہ اچھل رہا ہے تو ریسٹورنٹ اور ہوٹل انڈسٹری بھی انگڑائی لے رہی ہے۔

یہ سب اس سب کے باوجود ہے کہ کرپشن کا زور اب تک نہیں ٹوٹا ، سیاسی حکومت تین برس بعد بھی خود کو تنے ہوئے رسے پر محسوس کر رہی ہے اور حزبِ اختلاف ہو کہ اسٹیبلشمنٹ ، بدلتے علاقائی حالات سمجھنے کے لیے سرنگی بینائی ( ٹنل ویژن ) کو بصیرت سمجھنے پر بضد ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ اتنے حوصلہ افزا اقتصادی انڈیکیٹرز کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی جانب راغب ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔گذشتہ نو ماہ کے دوران پاکستان میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ ملا اور وہ بھی پہلے سے موجود آٹوموبیل اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری وغیرہ میں۔

پاکستان کی تمام تر توجہ اس وقت پندرہ برس کے دورانئیے پر پھیلے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے کی طرف ہے۔اور بے یقین و مشکوک فیصلہ سازوں کو یوں لگ رہا ہے، گویا تمام ہمسائیہ ممالک اور امریکا پاکستان  کے گرد گھیرا تنگ کر کے اس منصوبے سے محروم کرنا چاہتے ہیں یا ہتھیانا چاہتے ہیں۔ہر طرف سازشوں کے جال تنے ہیں۔کون دوست ، کون دشمن ، کون دوست نما دشمن ؟  کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔بس جو ہو رہا ہے غلط اور خلاف ہی ہو رہا ہے۔

مزے کی بات ہے کہ دو برس پہلے جب چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے بارے میں صرف باتیں ہو رہی تھیں تو پاکستان خود کو اتنا تنہا محسوس نہیں کر رہا تھا۔اقتداری کاریڈورز میں کچھ ایسی باتیں سننے میں آتی تھیں کہ بس عالمی پابندیاں اٹھنے کی دیر ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن گیم چینجر بن جائے گی۔وسطی ایشیا سے ٹیپی ( ترکمان۔افغان۔پاک۔انڈیا ) گیس پائپ لائن آئے گی اور بجلی بھی اور جنوبی و وسطی ایشیا کی منڈی یکجائی کے خوشحال سفر پر روانہ ہو جائے گی۔

لیکن کل کے ممکنہ ساجھے دار آج کے دشمن نظر آ رہے ہیں۔پہلے صرف بھارت سے مسلح تصادم کی تاریخ تھی، اب افغانستان سے بھی مسلح جھڑپوں کی روایت پڑ گئی ہے۔جب تک یاریاں اور مفادات و امکانات تھے تب تک پاک افغان بارڈر ہو کہ پاک ایران سرحد ’’ حسابِ دوستاں در دل ’’ والا معاملہ تھا۔اب یہ ہے کہ سب سے پہلے بارڈر کنٹرول ، اس کے بعد کچھ اور۔

بارڈر کنٹرول یقیناً قائم ہونے چاہئیں تاکہ ناپسندیدہ عناصر کی آمد جامد اور غیر قانونی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔لیکن بارڈر کنٹرول احساس ِ عدم تحفظ  یا معاندانہ جذبے کے زیرِ اثر قائم کرنے کا مطلب اپنے خول میں سمٹنے جیسا ہے۔طورخم گیٹ چاہ بہار سمجھوتے سے پہلے قائم ہو جاتا تو معمول کی بات ہوتی۔لیکن اس کی تعمیر میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد سے غیر معمولی جلدی مچانا معمول کی بات نہیں۔ایران برسوں سے کہہ رہا تھا کہ تافتان پر بارڈر کنٹرول کے لیے پاکستان بھی گیٹ قائم کرے مگر پاکستان دوستانہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔اب پاکستان ازخود تافتان پر گیٹ بنا رہا ہے جس کا افتتاح چودہ اگست کو ہو جائے گا۔

حالانکہ بے چین چین کو ہونا چاہیے جو اربوں ڈالر کا سرمایہ لا رہا ہے۔مگر چین خاصا پرسکون ہے۔جو ممالک پاکستان کے خیال میں پاکستان  کا گھیراؤ  کر رہے ہیں، ان سب سے چین کے بہت اچھے عامل تجارتی تعلقات ہیں۔مثلاً بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے کوشاں امریکا چین کا سب بڑا اقتصادی پارٹنر بھی ہے۔خود بھارت تمام تر جھگڑوں اور مسابقت کے ہوتے چین کا دسواں بڑا اقتصادی پارٹنر ہے۔چین کی پاکستان سے جتنی دو طرفہ تجارت ہے اس سے تین گنا تجارت ایران کے ساتھ ہے۔

پاکستان کو خوف ہے کہ امریکا افغانستان میں ایک کلیدی رول دینے  کے لیے بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور بھارت اپنے سافٹ پاور امیج سے افغانیوں کے دل جیت رہا ہے۔ مگر چین کو افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ایسا کوئی خوف نہیں۔وہ افغان مسئلے کے حل کے لیے کوشاں چہار ملکی گروپ کا عامل فریق بھی ہے ، افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس کے تمام افغان فریقوں سے تعلقات بھی پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔

تو پھر پاکستان پر  اچانک اپنے گھیراؤ کا اتنا خوف کیسے طاری ہوگیا ؟ اگر واقعی یہ خوف حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ہر سمت ہاتھ پاؤں چلانے اور بار بار ’’ہم کسی سے کم نہیں’’  کی تکرار کیا دنیا کو سنانے  کے لیے ہے یا اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے ہے۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان پہلے تو اطمینان سے بیٹھ کر پانی پئے۔پھر کچھ گہرے گہرے سانس لے کر اعصاب نارمل کرے اور پھر سوچے کہ اب تک اس سے کیا اچھا کیا برا سرزد ہوا۔اس کی خواہشات کیا ہیں اور وسائل کتنے ہیں۔کہیں اس کی خواہشات وسائل سے زیادہ تو نہیں ؟ اسے اپنی بقا کی جنگ معاشی اسلحے سے لڑنی ہے یا پھر ادھاری دساوری بندوق سے ؟ چین جو اس وقت واحد طاقتور دوست ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اتنی ٹینشن میں نہیں اور ہم اس کے سائے میں بیٹھنے کے باوجود اس قدر ٹینشن میں ہیں ؟ کیا چین کو ہماری طرح معاملات کی نزاکت کا ادراک نہیں یا پھر ہم نرگسیت کی دلدل میں  دھنستے  چلے جا رہے ہیں؟

یہ جائزہ معقولیت کی نگاہ سے تب ہی ممکن ہے جب پاکستان کی خود سے ملاقات کا بندوبست ہو۔کوئی بتائے گا کہ ستر برس میں پاکستان کی اپنے سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟
متعصب ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کے تکفیری افسران کے ہاتھوں لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار ہونے والی پاکستانی شہری سیدہ مسرت بانو رہا ہوگئیں، جبکہ انکی رہائی سے ریاستی اداروں میں چھپے تکفیری افسران کی سازشیں بھی ناکام ہوگئیں ،جبکہ یوں کہا جائے وہ ذلیل و خوار ہوگئے کہ جنہوں نے آل رسول (ص)  میں سے ایک سید زادی پر دہشتگردی اور فرقہ ورانہ فسادات کروانے کا بے بنیاد اور بھونڈا الزام لگایا تھا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کا مقصد علامہ ناصر عباس جعفری کی حمایت اور کراچی میں معروف قوال امجد صابری کے بیہمانہ قتل کی مذمت کرنا تھا۔ ریلی میں خواتین اور بچوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر امجد صابری کی یاد میں شمعیں روشن کی گئی اور ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں مشعلیں اٹھا رکھیں تھی۔ ریلی کی قیادت علامہ حسن ظفرنقوی نے کی۔ شرکاء سے خطاب میں علامہ سید حسن ظفر کا کہنا تھا کہ ہماری پرامن جدوجہد مثالی ہے اور تاریخ میں ہم نے نام رقم کردیا ہے کہ ملت تشیع ایک پرامن قوم ہے، کوئٹہ میں 150 سو جنازے پڑے تھے تب بھی ہم نے ایک پتہ تک نہیں توڑا تھا اور آج بیالیس روز سے بھوک ہڑتال پر ہیں تو کوئی امن و امان کی صورتحال کا مسئلہ نہیں بننے دیا۔

Page 5 of 33

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree