وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین مرکزی رہنماء اور ممبر صوبائی اسمبلی آغا رضا نے اپنے بیان میں دہشتگرد اور تکفیری و ملک دشمن عناصر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عناصر جو ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں اور جو لوگ دھماکوں،دہشتگردانہ و ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بے گناہ شہریوں کی طرح زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان کے ساتھ رویے کا انحصار آئین و قانون پر ہونا چاہئے۔ایم پی اے آغا رضا نے صوبے کی حساسیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب کبھی کوئی خاص موقع آتا ہے  تو حکومت کو امن برقرار رکھنے کیلئے آئین کے مختلف دفعات کا استعمال اور ڈبل سواری پر پابندی لگانی پڑتی ہے جسکی وجہ سے عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ حکومت شہریوں پر پابندیاں لگانے کے بجائے تکفیری عناصر پر پابندی لگائے اور بہترین حل تو یہ ہوگا کہ حکومت ان کے خلاف کاروائیاں کرے اور ملک و قوم کوان عناصر کے شر سے محفوظ کرے۔ بیان میں شیعہ ہزارہ قوم پر ڈھائے گئے ظلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک سازش کے تحت ہمارے پرامن قوم کے افراد کو نشانہ بنایا گیا، ہم نے مسلسل جنازیں اٹھائیں مگر تا حال قاتلوں کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور شہداء کے قاتلوں کو اب تک سزا ئیں نہیں ملے ہیں ۔ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو یہی عناصر مستقبل میں ہم پر ایک بار پھر حملہ آور ہونگے۔ دہشتگردوں کوکھلی چوٹ دی جارہی ہے اور ان تکفیری عناصر کی آزادی اس بات کی علامت ہے کہ دہشتگردانہ واقعات آئندہ بھی رو نماء ہو سکتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ قیام امن کیلئے موجودہ حکومت اور انتظامیہ کو جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے، ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ دنوں کیلئے خاموشی تو ہو سکتی ہے مگر امن نہیں مل سکتی۔ اگر حکومت امن کا خاہاں ہیں اور چاہتی ہے کہ خطے میں خوشحالی آئے تو اس کیلئے تکفیری عناصر کے خلاف کاروائی کا با قاعدہ ابتداء کرنا ہوگا۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی کے پولٹیکل سیکرٹری میرتقی ظفرنے ڈویژن پولٹیکل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے معیاری تعلیم، بے روزگاری کا خاتمہ اور شعوری تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت شاہانہ سفری سہولیات پر قومی دولت لٹانے کی بجائے اعلی تعلیمی منصوبوں پر پیسہ خرچ کرے تاکہ پاکستان کا مستقبل پڑھے لکھے باشعور اور محفوظ ہاتھوں کو سونپا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد عناصر کے آلہ کار بننے والے افراد اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور شعوری تقاضوں سے نابلد ہیں۔ اسلام دشمن قوتوں ایسے ہی کم علم لوگوں کے جذبات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتیں آئی ہیں۔ بے گناہ عوام کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والے ملک میں عدم استحکام پھیلا نے کے درپے ہیں دہشتگردی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ایسے حالات میں عوام کی جان و مال ملکی ترقی کیلئے پالیسی مرتب کرنا حکومت ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے انہوں نے شہر قائد میں موجودہ صفائی کے ابتر حالات پر حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ حکومتی عدم توجہی اور بلدیاتی نظام کی مکمل بحالی کے سبب شہر کچرے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے شہر کودرپیش ان درینہ مسائل کے حل کیلئے حکومت سندھ کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز(کراچی) پاک سر زمین پارٹی کے رہنما وسیم آفتاب،رضا ہارون،ڈاکٹر صغیر احمد اور آصف حسنین کی وفد کے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماو رکن شوریٰ عالی علامہ محمد امین شہیدی سے کراچی امام بارگاہ ابوطالب سولجر بازار میں ملاقات اور کوئٹہ و کراچی محرم الحرام میں شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت سمیت قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر وسیم آفتاب کا کہنا تھا کہ ملک خداداد پاکستان کی ترقی کیلئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا حکومت و قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک بھر میں دہشتگرد جماعتوں و سہولت کاروں کے خلاف کار وائی کریں ملاقات میں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور 9 محرم کے جلوس عزا کو روکنے کی شدید الفاظ میں مذمت اور مودی سرکار کو خبردار کیا کہ محرم الحرام کے جلوسوں کو روکنے کی کسی بھی کوشش پر ہندوپاک کے مسلمان سراپااحتجاج ہونگے۔اس موقع پر علامہ امین شہیدی نے کاکہنا تھا کہ  کراچی سمیت ملک بھر میں کالعدم تکفیری دہشتگرد تنظیمیں آزادانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت وقت ان تکفیری دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کو شہری و حکومتی اجلاسوں میں مدعو کر رہی ہیں جونیشنل ایکشن پلان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ رہنماؤں نے محرم الحرام میں سیکیورٹی معاملات اور بلدیاتی مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ علامہ امین شہیدی نے پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کوئٹہ، کراچی سمیت بھارتی جارحیت کا نشانہ بنے والے شہدائے پاکستان کے بلندی درجات کیلئے دعا بھی کرائی۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) ہمیں معاشرے کی فلاح اور بہتری کیلئے اپنے درمیان اخوت و بھائی چارگی کو فروغ دینا ہوگا، اختلافات سے صرف اور صرف منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے سیکریٹری روابط اور کونسلرکربلائی رجب علی نے کیا انہوں نے اتحاد کو معاشرے کا اہم ترین جزو قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاشرہ کسی ایک فرد یا ایک خاندان سے نہیں بنتا بلکہ یہ تمام افراد کے مجموعے کا نام ہے اور اگر ہمیں معاشرتی ترقی چاہئے تو اتحاد کو ترجیح دینی ہوگی۔ جب تمام افراد مل کر ایک معاشرے کی بہتری کیلئے کام کرنا شروع کر دیں گے تب ترقی کے آثار نمایا ہونے شروع ہو جائیں گے۔ انہوں نے اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں حقوق دیئے ہیں اور اسکی بارگاہ میں تمام افراد برابر ہے۔اللہ تعالیٰ نے کسی بھی قوم کو کسی دوسرے پر برتری عطا نہیںکی، تو ہم انسان آپس میں دوریاں اوراختلافات جنم دینے والے کون ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے تمام پروکارآپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اگر رسول اللہ ؐ نے ہمیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے تو ہمیں بھی اس بات کی طرف متوجہ ہونے کی شدید ضرورت ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ہماری جماعت اس وقت امن کی بقا ء کیلئے اتحاد بین المسلمین کو سب سے ضروری سمجھتی ہے۔ہم نے کبھی بھی رنگ و نسل یا مذہب کے بنیاد پر تقسیم بندی نہیں کی بلکہ ہر رنگ و نسل اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنایا۔ ہم نے ہمیشہ تمام مذاہب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور بلخصوص اتحاد بین المسلمین کیلئے کام کیا ہے اور ہم آئیندہ بھی اتحاد کیلئے کوشاں نظر آئیں گے۔بیان کے آخر میں کہا گیا کہ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ شر پسند عناصر کو پہچانے، جو افراد اختلافات کو فروغ دیتے ہیں وہ بیرونی آلہ کار ہیںعوام ان کے باتوں سے کسی کو اپنا دشمن نہ سمجھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ہم وطن بھائیوں سے بھی اچھا رویہ رکھے اور اتحاد بین المسلمین قائم کئے رکھے۔

وحدت نیوز(بیروت) فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے بیروت کے علاقے الضاحیہ میں سید الشہداء امام بارگاہ میں دس محرم شہادت امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے منعقدہ مجلس عزاداری میں شرکت کی اور عزداران حسینی سے خطاب کیا۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں ایسے تمام شہداء کے اہلخانہ کو تسلیت عرض کی، جنہوں نے دینی اقدار اور مقدسات کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کر دی ہیں۔ انہوں نے کابل اور بغداد میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں شہید ہونے والے عزاداران حسینی کیلئے بھی اپنے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا: "اس سال مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے، جو ہر میدان میں مجاہدین کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ان کامیابیوں نے تکفیری دہشت گردوں کو کمزور اور عاجز کر ڈالا ہے۔"

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے یمن کے خلاف سعودی جارحانہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "آج ہم یمن کے بارے میں بات کریں گے اور ہم نے تاکید کی ہے کہ ضاحیہ، صور، بعلبک اور الھرمل سے مغربی البقاع تک منعقد ہونے والی مجالس عزاداری میں یمن کے عوام، یمن کی فوج اور رضاکار فورس سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ ہر سیاسی ماہر اور تجزیہ کار کیلئے یہ حقیقت انتہائی واضح ہے کہ یمن کے خلاف سعودی جنگ سیاسی اہداف کی خاطر نہیں بلکہ اس دشمنی اور کینہ توزی کا نتیجہ ہے جو سعودی حکومت کے دل میں یمنی عوام کی نسبت پایا جاتا ہے۔ سعودی حکومت جس انداز میں یمن میں عام اور بیگناہ انسانوں کا قتل عام کر رہی ہے، اس کے اہداف ہرگز سیاسی نہیں ہوسکتے بلکہ یہ اقدامات وہابیت کی دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس جنگ کا مقصد یمنی عوام کی قوت ارادی کو ختم کرنا ہے، کیونکہ وہ خود مختاری اور عزت کے خواہاں ہیں۔"

سید حسن نصراللہ نے کہا: "آج یمن میں بھی کربلا کی طرح بیگناہ انسانوں کا قتل اور ٹکڑے ہوئے لاشیں دکھائی دیتی ہیں۔ صنعا اور یمن کے دیگر شہروں میں غم انگیز مناظر نظر آتے ہیں جبکہ یمنی عوام انتہائی شجاعت اور استقامت سے امریکی اور سعودی قتل و غارت اور بربریت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔" انہوں نے زور دے کر کہا کہ یمنی عوام ہرگز جارح قوتوں کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے، ان کے دشمنانہ اقدامات کے خلاف ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے اور ہم بہت جلد امام خامنہ ای کی اس پیشین گوئی کو حقیقت کا رنگ اختیار کرتا دیکھیں گے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آل سعود کی ناک مٹی پر رگڑی جائے گی۔ سید حسن نصراللہ نے یمنی عوام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "میں اپنے یمنی بھائیوں کو اپنے ذاتی تجربے اور ایمان کی روشنی میں کہتا ہوں کہ خداوند متعال پر بھروسہ کریں اور وہ آپ کو وحشی دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔"

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے مسئلہ فلسطین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ یہ کہنا شروع ہوگئے تھے کہ فلسطینی انتفاضہ شکست کا شکار ہو کر ختم ہوچکی ہے، لیکن حال ہی میں انجام پانے والے شہادت طلبانہ اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ انتفاضہ فلسطینی جوانوں کے دلوں، عقل اور ضمیر کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "غاصب اسرائیلی بہت جلد اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ فلسطین کی سرزمین ان کی موت، شکست اور ان کا خون جاری ہونے کی سرزمین ہے۔ اسرائیلیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ وہیں لوٹ جائیں، جہاں سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے تھے اور فلسطینی مزاحمت کا بھی یہی پیغام ہے۔" سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "اسرائیلی حکام کے سامنے خشوع و خضوع کا فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسرائیل وہی ہے جو امریکہ سے بے تحاشہ اسلحہ وصول کرتا ہے اور غیر مشروط امریکی حمایت سے بھی برخوردار ہے۔ اس وقت ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن اسرائیل کی نامحدود حمایت کے اظہار میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان میں سے کسی نے فلسطین کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولا۔"

سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے عراق میں جاری داعش کے خلاف آپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عراقی عوام کو خبردار کیا اور کہا: "امریکی موصل کے ذریعے شام کے مشرقی حصے میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور انہوں نے داعش کے تمام دہشت گرد عناصر کو شام کے مشرقی حصے میں جمع کر دیا ہے، تاکہ اس جگہ ان سے پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ ایسی صورت میں داعش اپنی قوت بحال کرنے کے بعد دوبارہ عراق پر حملہ آور ہوسکے گی۔" سید حسن نصراللہ نے کہا: "یہ ایک امریکی سازش ہے، جس کا مقصد موصل میں عراقی عوام کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنا ہے۔ لہذا عراق کی مسلح افواج اور رضاکار فورس کو چاہئے کہ وہ موصل میں موجود داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ کر ڈالیں اور ان کے کمانڈرز کو گرفتار کر لیں اور انہیں شام کی طرف بھاگنے کی اجازت نہ دیں، کیونکہ شام میں ان دہشت گرد عناصر کی موجودگی عراق کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہوگی۔"

سید حسن نصراللہ نے بحرین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بحرینی عوام اپنے عظیم مقاصد کی راہ میں ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اس استقامت اور شجاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحرینی عوام اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے اور پوری دنیا تک اپنی آواز پہنچانی چاہئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا: "ہم نے اسرائیل اور اسرائیل سے ملنے والی اپنی سرحدوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ ہم نے اسرائیل پر نظر رکھی ہوئی ہے اور اسلامی مزاحمت ہرگز اسرائیل کے خلاف میدان خالی نہیں چھوڑے گی۔ ہماری طاقت کا راز فوج، عوام اور اسلامی مزاحمت کی مضبوطی میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح ہم نے لبنان کی شمالی سرحدوں پر بھی تکفیری دہشت گرد عناصر سے مقابلے کیلئے نظریں جما رکھی ہیں۔ ہم ملک کے دفاع کیلئے وہاں موجود رہیں گے۔" حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ مجاہدوں کی شہادت نے حزب اللہ کو کمزور کر دیا ہے، جبکہ بعض ہمارے شہداء کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ میں انہیں کہوں گا کہ ہمیں اپنے شہداء پر فخر ہے۔ اسی طرح بعض یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان مالی اعتبار سے کمزور ہوگئی ہے، لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ میرا جواب ایک جملہ ہے کہ ہم نے نہ تو شکست کھائی ہے اور نہ ہی ہم تھکے ہیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) دوسری عالمی جنگ کے بعد استعماری طاقتوں کی پشت پناہی سے جہانِ اسلام کو ہمیشہ بحرانوں میں مبتلا کرنے اور ناامن رکھنے کیلئے عالم اسلام کے دل اور براعظم ایشیا اور افریقہ کے سنگم میں اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی، دوسری طرف خطے کے ممالک میں ملٹری اور سول ڈکٹیٹرشپس (پولیس اسٹیٹس) قائم کی گئیں۔ عراق، شام، مصر اور لیبیا وغیرہ میں ملٹری نظام جبکہ خلیجی ریاستوں (سعودیہ، امارات، قطر و غیرہ) اردن اور مراکش میں پولیسی نظام قائم کیا گیا۔ استعماری قوتوں کے لئے ملٹری نظاموں اور پولیسی نظاموں ہر دو نے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لئے بڑی بڑی خدمات انجام دیں۔ ان دونوں استعماری نظاموں یعنی ملٹری نظام اور پولیسی نظام میں مندرجہ ذیل چند فرق تھے۔

1۔ ملٹری کا طاقتور ہونا اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی علامت تھا، جبکہ اس کے برعکس پولیسی نظام فقط اپنے عوام کو دبانے پر مامور تھے۔
2۔ ملٹری نظام نسبتاً طاقتور ہونے کی وجہ سے بآسانی کنٹرول میں نہیں آتے تھے، جبکہ کمزور پولیسی نظاموں کا کنٹرول آسان تھا۔
3۔ ملٹری نظاموں سے جنگ، مقاومت و مقابلہ، وطن کا دفاع اور سرزمین سے تعلق جیسے مفاہیم نکالنا ناممکن تھا، جبکہ ایسی ادبیات اور ایسے مفاہیم پولیسی نظاموں کے لئے ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔

مندرجہ بالا افتراقات کی بنا پر پولیسی نظام نے ثابت کیا کہ وہ استعماری مقاصد کے لئے بہت مناسب ہے۔ اس نظام سے استعمار کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ اسی پولیسی نظام کی حامل ریاستوں سعودیہ، قطر اور امارات کی خطے کے امن کی تباہی اور اسرائیل کی بقاء اور دفاع کے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے وہ نظام جو کسی وقت بھی اسرائیل کے وجود اور استعماری مقاصد اور تسلط کے لئے خطرہ بن سکتے تھے، انہیں پولیسی نظاموں کی مدد سے یا تو ختم کر دیا گیا یا کمزور اور مفلوج کر دیا۔

جب خطے میں تبدیلیاں آتی ہیں تو سب ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان بھی خطے میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوا۔ وجوہات جو بھی ہیں، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کا کنٹرول ہمیشہ سے ملٹری کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ انڈیا جیسے پاکستان کے وجودی دشمن کا بارڈر پر ہونا ایک مسلسل جنگی پالیسی کا متقاضی ہے، خواہ سافٹ جنگ ہو یا کولڈ وار یا ہاٹ وار یہ پاکستان کا مقدر ہے۔ اس لئے ملٹری کا طاقتور ہونا پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہونے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مقروض ہونے کے ناطے غاصب اسرائیل کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہاں پر ملٹری کا طاقتور ہونا استعماری طاقتوں اور خطے میں انکے ایجنٹوں کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔ اس لئے مشرف حکومت کے خاتمے اور آئندہ کے پاکستان کا جو نقشہ کھینچا گیا، وہ ملٹری ڈیکٹیٹرشپ کی جگہ سول ڈکٹیٹرشپ کو مضبوط کرنا ہے، پاک آرمی کو کمزور کرنا انڈیا اور اسرائیل دونوں کے مفاد میں ہے اور یقیناً اسرائیل کا پشت پناہ مغربی بلاک اور خطے میں انڈیا اور اسرائیل کے دوست اسکی حمایت کریں گے۔ مذکورہ مقصد کے حصول کے لئے اس وقت پاکستانی ملٹری کو بیرونی محاذوں کے علاوہ تین اہم داخلی محاذوں پر الجھا دیا گیا ہے۔ ملٹری کے پروردہ اور ماضی و حال کے حلیف، دشمن نے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔

ان تین محاذوں کو یوں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1۔ تسلط پسند اور خود غرض سیاستدان:
ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی جمہوری اقدار اور جمہوری نظام کی رٹ لگا کر سول ڈیکٹیٹرشپ کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ انہیں امریکہ و مغربی بلاک، سعودیہ و خلیج اور انڈیا کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، دوسری طرف بااثر اور بانفوذ ہونے کی وجہ سے قانون اور عدالت سے ماوراء کی منزل تک پہنچ چکے ہیں اور انکی پوری توجہ سول فورسز کی مضبوطی، دہشتگردوں اور اسمگلروں کی سرپرستی اور اپنی اپنی بادشاہتوں کے قیام کی طرف ہے۔

2۔ وطن کی غدار طاقتیں:
ملٹری کے لئے دوسرا چیلنج وطن کے وہ غدار ہیں، جو دشمنوں کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ برملا پاکستان دشمن قوتوں سے مدد مانگ رہے ہیں کہ پاکستان اور پاک آرمی سے جنگ میں انکا ساتھ دیں اور انکا ایجنڈا ملک کی تقسیم اور بلوچستان اور دیگر علاقوں کی علیحدگی ہے۔ الطاف حسین اور براہمداغ بگٹی اور کئی ایک دیگر غدار اسکی مثالیں ہیں۔

3۔ تکفیری و دیوبندی دہشتگرد:
یہ دہشتگرد مغربی بلاک یعنی امریکہ، یورپ اور سعودی و خلیجی ممالک کی مدد اور پشست پناہی سے بننے والے ہمارے ماضی اور حال کے اسٹریٹجک اثاثہ جات اس وقت سب سے زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شہید ہونے والوں سے زیادہ تعداد میں پاکستانی عوام کو قتل کیا ہے۔ انہی کے ہاتھوں سے سپاہی سے جنرل رینک کے آفیسرز شہید ہوئے۔ انہوں نے ملک میں خانہ جنگی کروانے کے لئے کبھی مذہب اور فرقہ اور کبھی دین کے نام پر عوام پر برملا حملے کئے۔ منظم طریقے سے بے بنیاد الزامات کی بنا پر 30 سال سے ایک فرقہ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے سڑکوں پر، جلسہ گاہوں میں کافر کافر کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہمارے اندھے قانون میں نہ تو نقض امن کا مسئلہ بنتا ہے اور نہ کسی شہری کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس تکفیری فکر نے ایٹم بم سے خطرناک لاکھوں انسانی بم پیدا کئے ہیں، جو مساجد، امام بارگاہوں، ہسپتالوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، پولیس، آرمی کی چھاؤنیوں اور مراکز میں ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر پھٹتے ہیں۔

پاکستان کے تمام بحران امن و امان کے حوالے سے ہوں یا سیاسی، اقتصادی ہوں یا معاشی، اجتماعی ہوں یا ثقافتی، اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ان سب کا اصل سبب تکفیریت اور تنگ نظری ہے۔ جس ملک میں جان و مال اور ناموس خطرے میں ہو، وہاں نہ امن ہوگا نہ سرمایہ کاری، وہاں قربتوں کی جگہ نفرتیں جنم لیں گی۔نفرتوں کے ماحول میں قومی وحدت اور اتحاد ناممکن ہے اور دشمن بھی یہی چاہتا ہے۔ انہی تکفیری گروہوں نے جہانِ اسلام کی افواج کو کمزور کیا اور یہی تکفیری گروپ ہماری آرمی سے لڑ رہے ہیں۔ ہم ضرب عضب کے ذریعے دو سال سے جن تکفیری گروہوں کو ختم نہیں کرسکے، آج اگر سعودی عرب چاہے تو جس طرح الجزائر سے امریکہ کے کہنے پر تکفیری گروہوں کو حکم دیا اور وہ چلے گئے، پاکستان سے بھی انکا خاتمہ کرسکتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی اگر آج امداد ختم کرنے اور پشت پناہی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لیں تو ہماری یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے۔

ملٹری مذکورہ بالا تینوں محاذوں پر نبرد آزما ہے۔ دوسری طرف سول اسٹیبلشمنٹ استعماری منصوبے یعنی ملٹری نظام کو سول ڈکٹیٹرشپ سے تبدیل کرنے کی ریہرسل میں مشغول ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اس ریہرسل کے لئے بہترین میدان فراہم کرتا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ناقص پالیسی استعماری منصوبہ سازوں کی مزید مدد کرتی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں جب چاہتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں کارروائی کر دیتی ہیں۔ دہشتگرد اور انکے سہولت کار ہمارے فرسودہ نظام کا حصہ ہیں۔ سیاستدان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں انہیں مدد کرتی ہیں اور جو قانون سازی انکے خلاف ہوتی ہے، اسے انکی دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں یا مجبوراً دفاع کرنے والوں کے خلاف نافذ کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پولیس کی پرانی روش ہے اور بعض اندھے قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے جب کہیں قتل ہوتا ہے تو ہماری پولیس قاتل اور مقتول خاندانوں اور ان سے تعلق رکھنے والے دونوں طرف کے افراد کو بند کر دیتی ہے اور عموما اصل قاتل گرفتار نہیں ہوتے یا مفرور ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ تھانوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں۔ انفرادی جرائم کو روکنے والی یہی ناقص پالیسی آج اجتماعی جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی اپنائی گئی ہے۔

سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی یا طالبان کے سربراہان اور راہنماؤں کہ جنھوں نے 80 ہزار پاکستانیوں کو قتل کیا اور ان تنظیموں نے دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری بھی قبول کی، آج انکی جب فہرستیں بنیں تو قاتل و مقتول سے مساوی رویہ اختیار کرنے والی پولیس اسٹیٹ نے اجتماعی طور پر یہی ظالمانہ پالیسی اختیار کی اور ملک میں رواداری اور وحدت کی ترویج کرنے اور بلا تفریق دین و مذہب، اجتماعی و فلاحی خدمات انجام دینے والے علماء کو بھی ان فہرستوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول دنیا بھر کے دہشگرد عراق و شام میں تباہی کے بعد ذلیل ہو کر پاکستان و افغانستان کا رخ کر رہے ہیں اور پاکستان کے مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انڈیا اور دوست ممالک کے رویئے بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں اور ھبہ اور ھدیہ میں دی گئی اربوں ڈالرز کی خطیر رقم کی واپسی کا تقاضا ہوچکا ہے، جسے حکمرانوں نے ھدیہ اور ھبہ کہہ کر اپنی مرضی سے قومی انٹرسٹ کو دیکھے بغیر خرچ کیا اور کرسی کو مضبوط کیا اور اب پاکستانی غربت میں پسی ہوئی عوام کے بجٹ اور ٹیکسوں سے ادا کیا جائے گا۔ تکفیریت اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا ملک کے غداروں کے خلاف یا ہوس پرست اور خود غرض سیاستدانوں کی حوصلہ شکنی، یہ سب کچھ عوامی حمایت کے بغیر ممکن نھیں۔ معتدل اہل سنت اور اہل تشیع کی حمایت اور قومی وحدت سے چیلنجز کا مقابلہ ممکن ہے، لیکن اگر ایک طرف دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ اور دوسری طرف حکمران طبقہ تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر عمل پیرا رہا تو نتائج انتہائی خطرناک ہونگے۔
 


تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree