دہشتگردوں کا علاج ممکن ہے

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب بھی کوئی انسان بیمار ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ بیماری کی نوعیت دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر یہ بیماری دوائی کے بغیر احتیاط اور پرہیز سے ٹھیک ہونے والی ہو تو وہ ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع نہیں کرتالیکن اگر بیماری بڑھ جائے یا کوئی سخت تکلیف میں مبتلا ہو تو فورا متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے ، ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرتا ہے اوراپنی پسند کی لذیذ غذاوں سے وہ ڈاکٹر کے کہنے پر اجتناب کرتا ہے اور کڑوی گولی کھانے پر راضی ہوجاتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ کسی کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو یا اُس کے جسم کا کوئی عضو خراب ہوجائے جو اس کے جسم کے دیگر صحت مند اعضاء کے لئے خطرہ ہو تو اس عضو کو جسم سے جدا کرنے میں دیر نہیں لگتا مثلا اگر کسی کا ایک گردہ کام کرنا چھوڑ دے اور اس کو جسم سے نکالنا لاذمی ہو تو پھر مریض کسی چیز کی پرواہ کئے بغیرجلد سے جلد ڈاکٹر کی ہدایت پر اپنی صحت یابی کیلئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے چاہیے اُس کے لئے کتنے ہی پاپڑ کیوں نہ بیلنا پڑے، مریض اپنی صحت یابی اور اس بیمار حصے کو جسم سے دور کرنے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی کو دواء پر لگا نے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مریض کے لئے یہ سب کرناآسان ہوتا ہے؟کیا اس کو آپریشن کے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا؟اس کے جسم کو ڈاکٹر چیر پھاڑ نہیں دیتے؟ کیا وہ علاج کی خاطر امیر سے فقیر نہیں بن جاتا؟آخر وہ یہ سب کیوں کرتا ہے؟ایک اعضوکے خراب ہونے سے کیا ہوگا، باقی جسم تو سالم ہے؟ لیکن نہیں کوئی بھی صاحب عقل اپنی بیماری کا علاج کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتاکیونکہ وہ جانتا ہے کہ کسی بھی بیماری کا علاج اگر بروقت نہیں کیا گیا تو کوئی بڑا نقصان ہوسکتا ہے یا پھر وہ جلد موت کے منہ میں پہنچ سکتا ہے۔

میرے ملک میں ہر سانحے کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے ،چار نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوتاہے اوراس پر عمل در آمد کی یقین دہانی کے ساتھ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچ جاتاہے ، یہ سلسلہ تا شروع سے چلتا آرہا ہے یہاں تک کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کادل خراج سانحہ رونما ہوتاہے۔ یہاں پہنچ کر ایک لمحے کو محسوس ہونے لگا تھاکہ اب کوئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر آگیا ہے جوشاید تحقیقاتی ٹیم کو میدان عمل میں لے آئے گا۔ لیکن جس قدر عوام کو توقع تھی ایسا نہیں ہوا آپریشن ضرب عضب مخصوص علاقوں میں شروع ہوا اور کامیاب بھی رہامگر اس ناسور کی جڑ تک نہیں پہنچ سکاتو دوسری طرف نیشنل ایکشن پلان کو ترتیب دیا گیا اور ہمیشہ کی طرح یہ بھی اپنے اصل ہدف سے ہٹ کر سیاسی و دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگا یہاں تک کی لاہور میں ایک دفعہ پھراس کا جنازہ نکل گیا ۔اب تو بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا گراف اس بلند ہوگیا ہے کہ شمارہ ممکن نہیں ، نئے سال کے دو مہنوں میں اتنے سانحات رونما ہوئے ہیں کہ ایسا لگاتا ہے قانون نافظ کرنے والے ادارے اور دیگر ذمہ داران بے بس ہو گئے ہیں، سانحہ پاراچنار کے بعد دوسرا بڑا واقعہ لاہور میں پیش آیا جس میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور کپیٹن(ر) سید احمد مبین زیدی سمیت تیرہ افراد شہید اور 83 زخمی ہوئے ۔سانحہ کے بعد وزیر اعظم اورآرمی چیف شہید ڈی آئی جی کے گھر پہنچ گئے اور لواحقین سے تعزیت کی جو کہ نہایت خوش آئین بات ہے کہ خود وزیر اعظم اور آرمی چیف نے متاثرین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیااور لواحقین کی حوصلہ افزائی کی اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے دشمن کے حوصلے پست اور متاثرین کے حوصلے بلند ہوئے ہونگے۔لیکن میری نظر میں یہ کافی نہیں یہ بلکل ایسا ہی ہے جس طرح کسی زخم کو دیکھے بغیر اس پر دوائی کے بجائے پٹی باندھ دی جائے۔ حکمرانوں اورسیکورٹی اداروں کو چاہئے کہ مرہم پٹی کے بجائے حقیقی معنوں میں اس وطن عزیز کو دشمنوں سے پاک کریں،جس طرح پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کو کامیاب بنایا اور رینجرز نے کراچی آپریشن کو، اِسی طرح ملک کے جس کونے میں بھی دہشت گرد موجود ہوں یا ان کے سہولت کار موجود ہوں تو بلا تفریق ان کے خلاف آپریشن کر نا ہوگا۔ کیونکہ ایک حقیقی نگہبان کبھی بھی اپنے عزیز وں کو نقصان پہنچتے اور بے گناہوں کو خون میں غلطان ہوتے نہیں دیکھ سکتا لیکن افسوس کہ یہاں سب نیم حکیم بنے پھرتے ہیں۔

دارلخلافہ میں کالعدم جماعتیں حکومتی اجازت سے جلسے کرتی ہیں تو دوسری طرف سیاسی تنظیموں پر جلسے کی پابندی لگا دی جاتی ہے، فیس بک آئی ڈیز کی بیس پر نامور بلاگرز اور انسانیت کے لئے درد رکھنے والے دن دھڑے غائب ہو جاتے ہیں لیکن بارودی مواد سے لیس ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والوں کو سیکورٹی ہائی الرٹ ہونے کے باوجود بھی قانون کی گرفت میں نہیں لیاجاسکتا،اور نہ ہی سوشل میڈیا کی وہ سائٹس اور فون کال ٹریس ہوتی ہیں جہاں سے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے اور بڑے فخر سے پیغامات کے ساتھ ویڈیوز نشر کی جاتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کواپنی مرضی سے جس کے خلاف چاہئے استعمال کرتے ہیں لیکن جس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے اُس پر کبھی عمل نہیں ہوتا۔ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے وہ ظاہری طور پرکچھ کہتے ہیں اور اندر سے کچھ کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں اب ملک میں دہشت گردوں اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں پھرانہی دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ان کے سہولت کار وں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ صاحب کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ملاقات کے لئے آنے والے کون تھے پھر ہمیشہ کی طرح پریس کانفرنس ، اخباری بیان اور تمام شد۔

آج جماعت الحرار نے لاہور حملے کی زمہ داری قبول کی ہے وہ کوئی نئی جماعت نہیں ہے افراد وہی ہے بس نام تبدیل کرتے ہیں لیکن انہوں نے جس طرح اپنے اِس ظلم و بربریت کو "آپریشن غازی" کا نام دیاہے یہ غور طلب ہے۔ ملک کے دشمن اور را کے ایجنڈ پھر ایک منظم سازش کے تحت میدان میں اترے ہیں، دہشت گردوں کو غازی کا نام دے کر نیا فتنہ کھڑا کررہے ہیں ، لال مسجد کی طرف سے تردیدی بیان تو آیا ہے لیکن ان کے ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لہذا سیکورٹی اداروں کو بدلتے عالمی حالات اور وطن عزیز پر پڑنے والے اثرات سے غافل نہیں رہنا چاہے،وطن کی سالمیت اور شہریوں کی تحفظ کے لئے گوڈ بیڈ ، کم زیاد ، سندھ پنجاب کا کوئی فارمولا نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ہمارے سیاسی قائدین کو بھی اب سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا، دس ووٹ کے لئے کالعدم دہشت گردتنظیموں کے جلسوں میں جانا اور مصلحت کے نام پر اِن کے لئے نرم گوشہ رکھنا عوام اور ملک سے پہلے خود ان کے سیاسی کیریئر کے لئے خطرہ ہے۔اگر وطن عزیز کو عالمی سازشوں سے بچانا ہے اور ملکی سالمیت اولین ترجیح ہے تو دہشت گردی کی اصل جڑوں کو کاٹنا ہوگا، پتے اور شاخوں کو کاٹنے سے درخت کمزور نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید طاقت ور ہوکر اُبھرتاہے یقیناًاس میں ہمیں سخت مشکلات کا سامنا ہو گالیکن ذمہ داران تیار ہوں تو عوام تیار ہے کہ وہ آج ہی اس فتنہ کی جڑ کو ختم کردیں کیوں کی اگر آج نہیں تو کل ہمیں اِسے زیادہ قربانیاں دینی پڑی گی اور ہوسکتا ہے اُس وقت اس مرض کا علاج کرنا ہماری بس میں بھی نہ ہوں۔ آخر میں سید مبین زیدی کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ غزل سے ایک بند آپ قارئیں کی نظر کرتا چلوں۔

میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجئے


تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) آزاد کشمیر در اصل تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے، یہاں کے لوگ نظریاتی طور پر پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں ، رقبے کے لحاظ سے یہ منطقہ ۸۳۳۰۰ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔یہ ریاست   10 اضلاع، 19 تحصیلوں اور 182 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ اس کی آبادی تقریبا پینتالیس لاکھ ہے، آزاد کشمیر کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات ڈاکٹر سید آصف حسین کے مطابق  آزادکشمیر  کے95فیصد بچے اور 88فیصد بچیاں سکول جاتی ہیں  جبکہ  شرح خواندگی ۷۴ فی صد ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔

یہاں پر کسی بھی قسم کی کوئی گینگ، قبائلی سسٹم یا وڈیرہ شاہی بالکل نہیں ہے، لوگ   ملک و ملت سے محبت کرتے ہیں اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں، الیکشن کے موقعوں پر بعض لیڈر برادری ازم کا سہارا لیتے ہیں جس کی وجہ سے  صرف الیکشن کے دنوں میں برادری ازم پُر رنگ ہو جاتا ہے  جوکہ الیکشن کے فوراً بعد پھیکا پڑجاتاہے، لوگ ایک دوسرے سے عملا محبت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہیں، مختلف برادریوں کے لوگ باہمی دوستی، محبت اور اخوت کے ساتھ جیتے ہیں،مشکلات میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور شادی بیاہ میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

لہذا اگر کہیں پر خدانخواستہ کوئی لڑائی جھگڑا ہوجائے یا کوئی قتل ہوجائے تو یہاں کا معاشرہ  اجتماعی طور پر ردعمل دکھاتا ہے، آزاد کشمیر میں مذہبی منافرت  قطعا نہیں پائی جاتی، لوگوں کے بچے بلا تعصب مساجد میں جاکر قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں  سکولوں میں  قطعاً ماحول فرقہ واریت سے پاک ہے، حتیٰ کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی مذہبی منافرت نہیں پائی جاتی۔

لوگوں میں نہ صرف یہ کہ مذہبی منافرت نہیں پائی جاتی بلکہ لوگوں کی شعوری سطح اتنی بلند ہے کہ لوگ دہشت گردوں اور دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں جس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ   مذہبی منافرت کے سلسلے میں پہلی مرتبہ 2009 میں 9 محرم الحرام کی شام کو مظفر آباد کی امام بارگاہ پیر علم شاہ بخاری میں ایک خود کش  دھماکہ ہوا تھا اور اب   چند روز قبل مظفر آباد کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس آصف درانی نے تین نقاب پوش ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں 2009 میں 9 محرم الحرام کی شام کو امام بارگاہ پیر علم شاہ بخاری میں ہونے والے خود کش حملے میں ملوث ہیں لیکن گرفتار شدگان کے والدین نے  ۱۲ فروری ۲۰۱۷ کو پریس کانفرنس کر کے  دہشت گردی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

یہاں کے لوگ تحریک طالبان پاکستان یا پاکستان میں پائے جانے والے دیگر دہشت گرد ٹولوں  کی طرح دہشت گردی پر فخر نہیں کرتے اور نہ ہی دہشت گردوں کے سہولت کار بنتے ہیں بلکہ دہشت گردی سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔

نو اپریل ۲۰۱۵ کو آزاد کشمیر حکومت نے  22 افراد کو دہشت گرد قراردے کر ان کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے تھے جن  میں سے   مندرجہ زیل ۲۰  کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔

 آفتاب شفیع،مولوی عبدالخالق،افتخار عرف ادریس مولوی،وقاص،حافظ کاشف،شفیع معاویہ،مولوی عبد الغفور،مولوی اختر، شہزان رشید،افتخار مجید،محمد الیاس،ساجد اعوان، محمد ارشد،انصار،نذیر الاسلام،محمد کلیم،غلام مصطفیٰ،توقیر عباسی،اسرار، محمد یاسر اور دو کاتعلق پنجاب  سے ہے جو کہ آزاد کشمیر میں رہائشی ہیں ان کے نام  عصمت اللہ معاویہ  اور مرزا خان ہیں۔

دو فروری ۲۰۱۷کو پونچھ کے ایس ایس پی میر عابد نے ایک  ملزم کاشف حنیف کو راولا کوٹ کے نواح میں داتوٹ سے گرفتار کیا  ہے اور ان کے بقول یہ ملزم   تحریک طالبان کشمیر سے تعلق رکھتا ہے۔

آزاد کشمیر میں دینی مدارس ، مساجد اور جہادی تنظیموں کا  مضبوط نیٹ ورک بچھا ہوا ہے۔ شام اور عراق سے بھاگنے والے دہشت گرد  پاکستان کے بعد آزاد کشمیر میں جاکر پناہ لیتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی بدولت ابھی آزاد کشمیر میں  ٹارگٹ کلنگ کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ پیش آیا ہے جس میں  آزاد جموں و کشمیر  مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے جنرل سیکریٹری علامہ تصور جوادی  اور ان کی اہلیہ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا ہے۔

حملہ آور نے بظاہر ایک فرقے کے مذہبی رہنما پر حملہ کیا ہے لیکن آزاد کشمیر کے سماجی مزاج کے مطابق یہ  حملہ ہر کشمیری پر حملہ ہے اوراس حملے  کے بعد آزاد کشمیر کے شیعہ اور سنی سب اداس ہیں، یہاں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد کسی کے بھی ہمدرد نہیں ہیں ۔

اگریہاں کے لوگ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جہادی کیمپوں کے تربیت یافتہ لوگوں نے اب پاکستان کی طرح کشمیریوں کو بھی قتل کرنا شروع کر دیا ہے تو آزاد کشمیر میں مقامی آبادیوں اور مجاہدین کے کیمپوں کے درمیان تناو اور کشیدگی پیدا ہو جائے گی  جس کا سارا نقصان تحریک آزادی کو پہنچے گا۔ اس کے علاوہ خود مختاری کی تحریکیں اور تنظیمیں بھی اس واقعے کو اپنے حق میں استعمال کر سکتی  ہیں۔سب سے بڑھ  کر یہ کہ بھارت آزاد کشمیر کے لوگوں کو پاکستان سے  متنفر کرنے کے لئے اسی فرقہ واریت  کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کے بیس کیمپ کے طور پر دیکھا جائے اور اس میں مخلص مجاہدین کو اسٹریٹجک سرمایہ سمجھتے ہوئے فرقہ واریت سے دور رکھا جائے۔یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ جب دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کرکے لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ مجاہدین کے کیمپ دہشت گردوں سے پاک ہیں اور ان کے کیمپ پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کے آشیانے نہیں ہیں۔ تحریک آزادی کے تحفظ کے لئے حکومت اور عوام  کو ملکر یہ ثبوت دینا ہوگا کہ یہاں دہشت گردوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) چوروں کو گھروں میں پناہ نہیں دی جاتی، اگر کہیں چور گھس آئیں تو فورا انہیں پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،لیکن اگر کسی حویلی میں چور گھس آئیں اور چور چور کا شور مچ جائے لیکن حویلی کے چوکیدار اور بعض مکین بلند آواز سے یہ کہیں کہ یہاں تو  کوئی چور نہیں گھسا تو پھر چوروں کو پکڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پھراس کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن حویلی میں چوری کی وارداتیں ہونی شروع ہوجائیں جس پر کچھ لوگ تو واویلا کریں لیکن کچھ لوگ مسلسل یہی کہیں کہ کچھ چوری نہیں ہوا اور کوئی چور نہیں گھسا تو اس کا کیا مطلب ہے!؟

اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ حویلی کے اندر کچھ لوگ چوروں سے ملے ہوئے ہیں، جب تک اس طرح کے لوگوں کی بات سنی جاتی رہے گی اس وقت تک چوریاں ہوتی رہیں گی۔

آج عراق میں  داعش کمانڈرز کے اجلاس پر حملے میں 13کمانڈرز مارے گئے ہیں جبکہ دیگر3ٹھکانوں پر بمباری میں 64جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔یعنی عراق میں دہشت گردوں کو مزید دھچکا لگا ہے، جب سے شام اور عراق میں دہشت گردوں کو شکست ہورہی ہے تب سے ذرائع ابلاغ نے شور مچایا ہوا ہے کہ دہشت گرد بھاگ بھاگ کر پاکستان میں جا رہے ہیں لیکن پاکستان کی بعض اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ نہیں یہاں تو کوئی دہشت گرد نہیں آیا۔

جی ہاں جس ملک میں کوئی دہشت گرد نہیں آیا اسی  ملک میں  آج سے چار دن پہلے  نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی جانب سے محکمہ داخلہ پنجاب کو اطلاع دی گئی تھی کہ لاہور میں دہشت گردی کا خطرہ ہے ، چونکہ اس ملک میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے لہذا ٹوٹی ہوئی کمر  کے ساتھ  دہشت گردوں نے  آج  پھرلاہور میں  دھماکہ کر کے ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کیپٹن (ر) سید احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت  چودہ افراد شہید کر دئیے ہیں۔

دوسری طرف کوئٹہ میں بھی  سریاب پل پر بھی دھماکہ ہوا ہے جس میں دو  افراد شہیداور گیارہ زخمی ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود بعض لوگ بضد ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور مزید دہشت گرد پاکستان میں نہیں آرہے، بعض تو یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ شام اور عراق سے بھاگے ہوئے دہشت گرد پاکستان میں بھی داعش کے نام سے ہی کارروائیاں کریں، وہ  پاکستان میں آکر دہشت گردوں کے  پہلے سے موجود کسی بھی  نیٹ ورک سے مل سکتے ہیں یا کسی نئے نام سے کام  شروع کر سکتے ہیں۔

ابھی اس لاہور والے  دھماکے کی ذمہ داری کالعدم جماعت الاحرار کے ترجمان نے قبول کر لی ہے، شام اور عراق سے بھاگے ہوئے دہشت گرد اسی جماعت الاحرار میں بھی ہو سکتے ہیں لہذا ناموں پر جھگڑنے کے بجائے دہشت گردوں کو پکڑا جائے۔

البتہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے، جو پاکستان کو کافرستان کہتے ہیں جو قائداعظم کو کافراعظم کہتے ہیں اور جو خود کش حملوں کی زمہ داری بخوشی قبول کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو  آئین پاکستان کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے ہیں، جو وطن سے محبت کو ایمان کی علامت قرار دیتے ہیں، جو قائداعظم کو بابائے قوم کہتے ہیں۔۔۔

ہمارے ملک میں دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، وہ لوگ جو آرمی اور پولیس کے جوانوں اور آفیسرز کو شہید کرنے کو ثواب کہتے ہیں ،ہمارے ملک میں ان کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ نہیں نہیں ہمارے ہاں تو کوئی دہشت گرد نہیں لیکن جو لوگ شہید ہوتے ہیں اور ملک و ملت سے محبت کرتے ہیں جو دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں اور جن کے اہلخانہ بھی پریس کانفرنسوں میں روتے ہیں کہ ان کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں، انہیں دہشت گرد کہہ کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔

یعنی اس ملک میں جو دہشت گرد ہے وہ دہشت گرد نہیں ہے اور جو دہشت گرد نہیں ہے وہ دہشت گرد ہے۔  

ایک طرف ہمارے ہاں جو دہشت گرد نہیں ہیں انہیں زبردستی ٹارچر کر کے ملک سے بیزار کرنے کا کام کیا جارہاہے جبکہ دوسری طرف امریکی  جنرل جان نکلسن کا کہنا ہے کہ پاکستان، روس اور ایران افغانستان میں امریکی و نیٹو مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے دئیے گئے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا ”افغان سکیورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک ہیں ۔ جن کے سینئر رہنما پاکستان کی محفوظ پناہ گاہوں میں مکمل  آزادی سے لطف اندوزہورہے ہیں۔

یعنی اس وقت ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ عالمی برادری بھی ہم پر اعتماد نہیں کررہی اور امریکہ جیسا دوست ملک بھی ہمیں اپنا دشمن سمجھتا ہے، دوسرامسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے اندر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں ہماری فوج ، پولیس اور عوام سب  کے گرد دہشت گردی کا حصار ہے اور  تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جولوگ دہشت گرد نہیں ہیں انہیں بعض سرکاری اداروں نے لاپتہ کررکھا ہے جو کہ ملکی سلامتی کے لئے کسی طور بھی  درست قدم نہیں۔

ہمیں ملی طور پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ چوروں کو گھروں میں پناہ نہیں دی جاتی،اس لئے جو دہشت گرد ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی نہیں کی جانی چاہیے لیکن جو دہشت گرد نہیں ہیں انہیں خواہ مخواہ میں دہشت گرد کہہ کر  ہراساں نہیں کرنا چاہیے۔

ہمیں زمینی حقائق کے مطابق جو دہشت گرد ہے اسے ہی دہشت گرد کہنا چاہیے اور جو نہیں ہے اسے نہیں کہنا چاہیے۔

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) جس طرح لوگوں کو جسمانی لحاظ سے سالم اور پاک رکھنے کيلئے کئی ايک پيشگی اقدامات کي ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ان کو فکری اور اعتقادی آلودگيوں سے پاکسازی اور محفوظ رکھنے کيلئے بھي پيشگی اقدامات کے طور پر معاشرے ميں علمی اور ثقافتی تدابير کواسطرح مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کيلئے ايک پاک ، سالم اور فکری آلودگيوں سے دور ماحول ميسر ہو۔

اس مقصد کے پيش نظر علمی اور ثقافتی امور کے ذمہ دار افراد اور والدين پر يہ ذمہ داری عايد ہوتی ہے کہ وہ اپنے تعليمی اور تربيتی پروگراموں کو اس انداز ميں چلائيں کہ معاشرے سے فکری اور اعتقادی کج رويوں ميں مبتلا يا اسکی زد ميں موجود افراد کی نشاندہی کرکے انہيں ثقافتی يلغار کے حملوں سے محفوظ کرنے کيلئے اقدامات کريں تاکہ دوسرے ان بيماريوں ميں مبتلاء نہ ہوں۔

اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے طريقے ہيں جن کے ذريعے ہم جوانوں کو ان آلودگيوں سے محفوظ رکھ سکتے ہيں ؟
اس سوال کا جواب يہ ہے کہ يہ طريقے زمان و مکان، سن و شخصيت اور ماحول کے مختلف ہونے کے ساتھ مختلف ہو سکتے ہيں ليکن ہم يہاں پر صرف عمومی طور پر چند ايک طريقہ کار کی طرف اشارہ کرتے ہيں ۔

1 – معرفت اور دينی اعتقادات کا استحکام
انسان عموما فکری اور اعتقادی کجروی ميں اس وقت گرفتار ہوتا ہے جب اسکے دينی اعتقادات مستحکم اور ريشہ دار نہ ہو ۔ جب انسان کے اعتقادات دلائل اور براہین پر مبنی نہ ہوں اور اندھی تقليد کے طور پر وہ کسی چيز پر اعتقاد رکھے تو تھوڑی بہت شبہ اندازی اور اعتراضات کے سامنے سر تسليم خم کرتے ہوئے فکری اور اعتقادی انحراف کا شکار ہو جاتا ہے-پس فکری انحراف کے عوامل و اسباب ميں سے بنيادی اور اہم ترين عامل اعتقادات کا سطحی اور کمزور ہونا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کے دينی اور مذہبی اعتقادات جو کہ انسان کي فطرت ميں رچے بسے ہیں کو مضبوط جڑوں پر استوار کريں تاکہ دشمن کے غلط پروپيگنڈوں سے ان کے ثابت قدمي ميں لرزش نہ آنے پائيں- اس مقصد کيلئے والدين اور ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ تعليمي اور تربیتی امورکو اسطرح مرتب کريں کہ جوانوں کي فطری حس خدا شناسي کے پھلنے پھولنے کيلئے زمينہ ہموار ہو ۔

2 – مذہبی اماکن ميں جوانوں کی حاضری کيلئے زمينہ سازی
جوانوں کی مساجد اور ديگر مذہبی اماکن ميں حاضری سے ان ميں منعقدہ روح پرور دينی اور مذہبی پروگرام انہيں دينی اور مذہبی امور ميں دلچسپی کا باعث بناديتا ہے اور انہيں خدا کے ساتھ انس و محبت پيدا کرنے ميں نہايت اہم کردار ادا کرتا ہے اور آہستہ آہستہ انہيں اچھائی اور خوبيوں سے آراستہ کرتا ہے- جس طرح اماکن فساد و فحشاء انہيں خدا سے دور کر کے شيطان کے دام ميں پھنسا ديتے ہيں اسی لئے اسلام نے نہ صرف فساد و فحشاء سے دور رہنے کا حکم ديا ہے بلکہ ايسے مقامات پر حاضری سے بھی منع فرمايا ہے جہاں فسق و فجور انجام پاتے ہيں۔

3 – اچھی اور معياری کتابوں کے مطالعے پر آمادہ کرنا
ممکن ہے کچھ جوان اور نوجوان دشمنوں کے پروپيگنڈے ميں آکر دينی مسائل کی آگاہی سے بے نيازی کا احساس کريں اور کتابوں کے مطالعے کيلئے کوئی انگيزہ نہ رکھيں ۔ اس صورت ميں والدين اور ذمہ دار افراد کا وظيفہ بنتا ہے کہ ان غلط افکار کو انکے ذہنوں سے نکال باہر کريں اور انہيں معياری کتب کے مطالعہ کيلئے زمينہ فراہم کريں اور کتابوں کے مطالعے کے فوايد سے آگاہ کرکے انہيں اس اہم کام پر آمادہ کريں۔

4 – مذہبی اور مناسب تفريحی پروگراموں کا انعقاد
مذہبی نشستوں جيسے احکام دينی کا بيان اور سياسی و اجتماعی مسائل کا صحيح تجزيہ اور تحليل اور دعا و مناجات کے پروگراموں کا انعقاد جوانوں ميں معنوی افکار کے فروغ کيلئے انتہائی ضروری اور اہم ہے ۔ ان پروگراموں کو حد المقدور جذاب اور متنوع بنانا چاہئے تاکہ نوجوانوں کی دلچسپی ميں اضافہ کا باعث بنے، اس مقصد کيلئے ان پروگراموں کے ساتھ ادبی اور ہنری محافل کا انعقاد اور معياری فلموں اور ڈراموں کي نمايش سے ليکر ديگر مناسب تفريحي پروگراموں سے مدد لے سکتے ہيں۔

5: غیر مناسب ٹی وی چینلوں، پروگراموں یا سائٹوں سے دوری
آج کی دنیا میں ٹی وی، ریڈیو، انٹرنٹ، ویب سائٹیں انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ممکن نہیں ہے کہ انسان ان سے بطور کلی اَنٹچ ہو جائے اور اپنے آپ کو دور کر لے ایسے میں والدین یا گھر کے ذمہ دار انسانوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کو ایسی تربیت کریں کہ وہ خود بخود ان چیزوں سے دوری اختیار کریں جو ان کے دینی عقائد کی عمارت کو منہدم کر دیں یا اس میں دراڑ ڈال دیں۔ ٹیلیویژن کی دنیا ہو یا انٹرنٹ کی دنیا سب میں دور حاضر کے میڈیا کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ نسل جوان کو دین سے دور کیا جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر ہزاروں چینلز ایسے ہیں جن کا کام صرف انسان کو گمراہی کی طرف کھینچنا ہے اور لاکھوں وب سائٹیں ایسی ہیں جن کی ہپر ممکنہ کوشش یہ ہے کہ وہ جوان کو اپنے پھندے میں پھنسائیں۔ ان سائٹوں میں جوان کو گمراہ کرنے کا ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا ہے لہذا ان سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نوجوان کے لیے ان کے متبادل کوئی چیز فراہم کی جائے تو ایسے میں جہاں سینکڑوں گندے ٹی وی چینلز ہیں وہاں ساتھ میں اچھے بھی ہیں۔ جہاں لاکھوں گندی سائٹیں ہیں وہاں ساتھ میں اسی انٹرنٹ پر کسی حد تک اچھی سائٹیں بھی موجود ہیں لہذا والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اچھی چیزوں کی پہچان کروائیں اور بری چیزوں کے انتخاب سے انہیں دور کریں۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کے اندر اس چیز کا ملکہ پیدا ہو جائے اس کے بعد وہ خود بخود برائیوں سے دور ہو جائیں گے اور اچھائیوں کی طرف قدم بڑھائیں گے۔

ترتیب و تدوین : ظہیرالحسن

جب حق آگیا ۔۔۔!

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا،تاریکی نے روشنیوں کو قید کر لیا تھا،امیدیں دم توڑ چلی تھیں،مایوسیاں راج کر رہی تھیں،ناکامیاں اپنی کامیابیوں پر جشن مناتی تھیں،ظلم اپنے عروج پر تھا،فحاشی کا دور دورہ تھا،عیاشی کا ہر رنگ میسر تھا،طاقت کا گھمنڈ انسانوں کو فرعون بنائے ہوئے تھا،ایک ایسی اسلامی مملکت جس کے پاس تیل کے وسیع ذخائر موجود تھے پر صیہونسٹ قابض ہو چکے تھا،دنیا بھر کی جاسوسی کا مرکز تہران بنا ہوا تھا جہاں امریکہ نے اپنا ایک بہت بڑا سفارت خانہ جسے جاسوسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا قائم کر رکھا تھا، ملک کی بیشتر یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سمیت اہم ترین منابع غیر ملکیوں کی براہ راست دسترس اور اختیار میں تھے،اس مملکت پر اڑھائی ہزار سال سے شہنشاہی نظام حکومت چل رہا تھا ایسے میں ایک مرد قلندر نے نعرہ مستانہ لگایا او ر اس ملک و عوام کی تقدیر بدلنے کا عزم طاہر کیا ،ان کی آواز میں سچائی تھی،صداقت تھی،وہ پسے ہوئے مظلوم عوام کی امید تھے، ان کا شعار اللہ اکبر تھا،انہوں نے کہا کہ وہ اللہ اکبر کی طاقت سے مسلح ہیں،وہ خدا پر بھروسہ اور توکل کرنے والے تھے،وہ اپنے عزم اور ارادہ کی سچائی پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اس کے حصول کیلئے تمام رکاوٹوں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتے تھے،ان میں قوت فیصلہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،وہ روحانی و معنوی مقامات سے منزہ و لیس تھے،انہیں اپنی منزل کے حصول کا مکمل یقین تھا اور وہ ہر قسم کی قربانی اور ایثار کیلئے ہمہ وقت تیار تھے،انہیں دنیا کی کسی طاقت کا ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔۔۔۔۔لہذا جب انہوں نے ساٹھ کے عشرے کے آغاز میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو تمام خطرات اور مشکلات کو جھیلتے ہوئے ہر دن اپنی منزل کے قریب ہوتے گئے ،یہاں تک کہ 11فروری1979ء کا سورج وہ پیغام لیکر طلوع ہوا جس کیلئے ہزاروں افراد قربان ہو گئے تھے اور جس کے بارے اڑھائی ہزار سال سے قابض شاہی خاندان اور اس کے سرپرستوں نے سوچا بھی نہیں تھا،مگر اس دن سے پہلے ہی شاہ فرار ہو چکا تھا ،اور اسلامی انقلاب کانقارہ بج چکا تھا،امام خمینی جو اس انقلاب کے بانی تھے جب جلا وطنی ختم کر کے پیرس سے وطن لوٹے تو سب سے پہلے اس مقام پر گئے جہاں اس انقلاب کے ایثار گر اور قربانیاںپیش کرنے والے محو آرام تھے ،اس جگہ کو دنیا بہشت زہرا تہران کے نام سے پہچانتی ہے جہاں لاکھوں سپاہیان اسلام و فرزندان قرآن اسلامی انقلاب کے قیام،اس کی بقا اور مقدس دفاع کی جدوجہد میں سرخرو ہونے والے دفن ہیں ۔

11فروری1979ء کو آنے والے انقلاب کو امام خمینی نے انفجار نور کہا تھا،یہ واقعی نور کا دھماکہ تھا،اس سے ہزاروں سال سے قائم تاریکی اور اندھیروں کا راج ختم ہو گیا تھا،مایوسیاں امیدوں اور خوابوں کی عملی تعبیر میں بدلتی نظر آ رہی تھیں،غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر دور جا گریں تھیں،آزادی کے گیت اور نغمے پھر سے فضائوں کو معطر کیئے ہوئے تھے،خزاں کا موسم، بہار چلے آنے پر راہ فرار اختیار کر گیا تھا،انقلاب کی جدوجہد میں ہر عمر اور طبقہ فکر و حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا،اپنا کردار ادا کیا،دنیا بھر میں اس انقلاب نے سوچوں کے زاویئے ہی بدل دیئے تھے،سیاست کے نئے رخ سامنے آ گئے تھے ،نہ صرف اسلامی ممالک اور تحریکیں ایک کامیاب مثال اور راستے کو پا چکے تھے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ ،پسے ہوئے انسانوں کو بھی ایک امید ہو چلی تھی کہ طاقتوروں کو زیر کیا جا سکتا ہے،اسلامی انقلاب ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے موجود تھا،اس سے قبل انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے کامیابی کی نئی روشیں اور انسانوں کی فلاح و بہبود اور حکومت کا نظریہ ء اسلامی متعارف کروایا تھا، بانی انقلاب ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر اسلام کا آفاقی اور الٰہی پیغام دنیا کو دے رہے تھے کہ اسی میں ان کی آزادی و استقلال کا راستہ موجود تھا، انہوں نے تمام مظلوم اقوام کو دعوت دی کہ وہ ستم گروں اورظالموں کے ہاتھ سے اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیںاور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کوئی ان پر مسلط ہو جائے ۔
    
امام خمینی کے پیغام سے سب سے زیادہ خوف ایران کے پڑوس میں واقع ان عرب حکمرانوں کو ہوا جو عوام کو بادشاہت کے جبر تلے کئی برسوں سے روند رہے تھے اور ان کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے تھے،ان عرب حکمرانوں کے سرپرستوں نے بھی محسوس کیا کہ اگر تبدیلی کی یہ لہر خطے کے دیگر عرب ممالک میں بھی پہنچ گئی تو ان کے مفادات جو پہلے ہی اس انقلاب کے بعد سخت خطرے سے دوچار ہو گئے تھے کا حصول ناممکن ہو جائے گا لہذا ہم نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں پہلے دن سے ہی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے ،نوزائیدہ اسلامی انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرنے کی کوششیں سامنے آئیں جن کو بڑی حکمت و دانائی سے ناکام بنایا گیا اور ان سازشوں کو اس کے کرداروں سمیت دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑا،انہی سازشوں کے توڑ میں ہی امریکی سفارت خانہ پر قبضہ اور اس کے اندر واقع جاسوسی مرکز اور اس سے وابستہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ایرانی طلباء کے ہاتھوں یرغمال بنایا جانا ایک ناقابل فراموش ،تاریخی کارنامہ ہے جس سے کئی اور واقعات جڑے ہوئے ہیں۔
    
ایران کے اسلامی انقلاب پر پہلے دن سے ہی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں ،اس کے اثاثے منجمد کر لیئے گئے(یہ اثاثے اب اڑتیس سال گذر جانے کے بعد مزاکرات کے بعد قسط وار دینے کا وعدہ کیا گیا ہے) اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس انقلاب کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے اس کے بانیان،علما ء ،اسکالرز،اس کے اصل دماغوں اور اعلیٰ حکومتی انقلابی شخصیات کو ٹارگٹ کر کے شہید کر نے کا سلسلہ چلایا گیا،جب اس سے کام نہ چلا تو ایران کے ہمسائے میں اپنے ایک مہرے صدام کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی گئی ،آٹھ سال تک اس مسلط کردہ جنگ میں ایک نوزائیدہ مملکت اسلامی کے مقابل ساٹھ کے قریب ممالک نے عراق کا ساتھ دیا ،اور بھرپور مالی و فوجی مدد کی تاکہ انقلاب کا خاتمہ ہو جائے،بیرونی حملہ آوروں کے سات ساتھ ایک گروہ ایسا بھی پیدا کیا گیا جس کے ذریعے داخلی انتشار و تخریب کا کام لیا گیا اور مشکلات کھڑی کی گئیں تاکہ لوگ بیزار ہو جائیں اور حکومت اسلامی کا تختہ الٹ دیں مگر دنیا نے دیکھا کہ تمام سازشیں ناکام ہوئیں ، مسلط کردہ جنگ سے بھی وہ مقاصد حاصل نہ کیئے جا سکے اور پابندیوں نے بھی اسلامی ایران کو نہ جھکایابلکہ ایران اپنے بنیادی نعرے آزادی،استقلال، جمہوری اسلامی پر 38 سال سے ڈٹا ہوا ہے ،جنگ اور آفات کے زمانے میں بھی اس مملکت نے انتخابات کو ایک دن کیلئے بھی ملتوی نہیں کیا جوعوام کے جمہوری حقوق دینے کے وعدے کا پاس اور روشن مثال ہے۔حالیہ دنوں میں جب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سمیت کچھ اسلامی ممالک کے شہریوں پر امریکہ آنے پہ پابندی لگائی ہے تو ایران کے سوا کسی ملک کو جرا ت نہیں ہوئی ہوئی کہ عالمی بدمعاش کو اسی کی زبان میں جواب دے،ایران نے بھی جواب پابندیاں لگا کے اپنی غیرت اور آزادی کاثبوت دیا ہے۔
    
امام خمینی کی رہبری و سیادت میں لایا ہوا اسلامی انقلاب آج جب اپنے 38 سالہ سفر کو طے کر چکا ہے اور اس مملکت اسلامی کی عوام نے اس کی اڑتیس بہاریں دیکھ لی ہیں تو ایران آج ایک ایسی طاقت کے طور پر نظر آتا ہے جس کو خطے کی سیاست سے نکالنا یا نظر انداز کرنا خطے کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے،اسی طرح ایران آج دنیا کی سیاست پر بھی اپنا بھرپور اثر رکھتا ہے ،ایران کی طرف سے کیئے گئے اعلان کئی اہم ممالک کی اکانومی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انقلاب کی جن لہروں کو دنیا نے بہار کے جھونکوں کی مانند محسوس کیا تھا اسی کی بدولت مشرق و مغرب سے آزادی کی تحریکوں کو کامیابیاں ملیں اور آمریتوں سے چھٹکارا ملا،یہ الگ بات ہے کہ بعض ممالک کی قیادتوں نے اپنے ہاتھوں ہی ان کامیابیوں کو ناکامیوں سے دوچار کر لیا ہے۔
    
اس انقلاب کی سب سے اہم بات اس کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے اسے تمام تر مشکلات،مصائب،آفات،سازشوں،جنگوں،تخریبی کاروائیوں،اپنوں اور پرایوں کی بے رخیوں،الزامات اور مسائل کے انبوہ کے مقابل ہر لمحہ کامیابیاں ملیں،وہ نظریہ بے شک ولایت فقیہ کا الٰہی نظریہ ہے یہی نظریہ حزب اللہ کو اسرائیل جیسے بدمعاش ملک کے مقابل کامیابیاںسمیٹنے کا جذبہ فراہم کرتا ہے،یہی نظریہ 38 سال تک پابندیوں کے شکار ملک کو ایک ترقی یافتہ،اعلیٰ ٹیکنالوجی سے آراستہ مملکت بنا تاہے، یہی نظریہ ایک قوم کو دنیا کے سامنے سرخرو اور آزادی سے جینے کے گر سکھلاتا ہے اور اسی نظریہ پر قائم ہی اپنے ملک،وطن اور دین کے دفاع کیلئے لاکھوں لوگ خود کو پیش کر دیتے ہیںاور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔انقلاب کے چاہنے والوں اور بہی خواہوں کو اس نظریہ کی تقویت اور مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہیئے تاکہ اسلامی انقلاب کی خوشبو ہر سو معاشرہ کو معطر کر ے۔
    
اسلامی انقلاب کی اڑتیسویں صبح بہار کی مبارکباد کے اصل مستحق وہ خانوادگان اور سرفروش ہیں جنہوں نے اس الٰہی پیغام جسے انہوں نے امام خمینی رح کی زبانی سنا اور لبیک کہتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں قربانی کے ان مٹ نمونے پیش کرنے والی مائیں جنہوں نے اپنے تین تین بچوں کو انتہائی خندہ پیشانی سے قربان گاہ میں بھیجا۔خدا وند کریم سے دعا ہے کہ اس انقلاب کو حضرت حجت ؑ کے انقلاب سے متصل فرمائے(آمین)    


تحریر۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر
                             

وحدت نیوز (آرٹیکل) حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں اس عظیم شخصیت کےبارے میں گفتگو کرنےکے لئے صاحب عصمت اور عالی بصیرت کا حامل ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر آپؑ کے وجود کو کوئی درک نہیں کر سکتا ۔آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال،  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں  ۔
 کتاب فضل تراآب بحر کافی نیست
         کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم

سمندرسیاہی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ ؑ کے فضائل بیان نہیں کر سکتے۔ علامہ اقبال انہیں افراد میں سے تھے جنہیں خدا نےعالی بصیرت عطا کی انہوں نے حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی شان میں ایک نظم کہہ کر  اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے یہاں ہم اسی نظم کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
آپؑ کی والدہ ملیکۃ العرب تھی لیکن آپؑ نے کبھی آرام کی زندگی پسند نہیں کیا ۔آپ ؑہمیشہ اپنےکردار کو نمونہ عمل بنا کر رکھا۔والد مختار کائنات تھے لیکن کبھی آپ ؑنے اس رشتے سے فائدہ نہیں اٹھایا اور تمام زندگی ہر طرح کی مصیبت و زحمت  برداشت کرتی رہی۔شوہر مشکل کشاء تھے لیکن آپؑ نے تمام زندگی کسی طرح کی فرمائش نہیں کی اور ہمیشہ شوہر کی خدمت کرنے کے بعد وقت آخر معذرت طلب کی کہ اگر کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو معاف کر دے۔ آپؑ کے فرزند جنت کے جوانوں کےسردار تھے ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ  وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ  صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا ۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی  کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن}

رسول خداﷺ آپ ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک} بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترینانسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جو نسل اسماعیل میں اول امام کی شریک حیات اور گیارہ ائمہ کی ماں ہیں ۔جن کے متعلق توریت کے سفر تکوین کے سترہوں باب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاوہ ہیں جو یوحنا کے مکاشفات میں ایک عظیم علامت کے طور پر آسمان پر ظاہر ہوئیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجه الله} کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم.. } اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔

حضرت فاطمہ زہراءعلیہا السلامعلامہ اقبال کے کلام میں:
 علامہ اقبال نے حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامکو بطور اسوہ پیش کیاہے یہ  اقبال کی بصیرت کی علامت ہے یعنی اقبال کی نظر میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکی شخصیت بشریت کے لئے اسوہ ہے۔خداوند تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو واسطہ فیض قراردیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاہری اور معنوی اُنہی ہستیوں کے ذریعےمخلوق تک پہنچ جاتےہیں کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں انکی ذات سے مخلوق تک جو فیض پہنچتے ہیں ان میں سے ہدایت، معرفت اور علم ہےجو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ  ﷺکو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ الله اُسْوَة حَسَنَة حضرتابراہیم اور دوسرے انبیاءعلیہم السلام کو بھی  خداٰ نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا۔علامہ اقبال نے بھی حضرت زہراسلام اللہ علیہاکو پوری انسانیت مخصوصا خواتین کے لئےایک بہترین نمونہ عمل کے طور پیش کیا ۔علامہ اقبال سے پہلے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانوں کی ہدایت  کے لئے  پہلے ہی فرمایا تھا چنانچہ امام زمان عجل اللہ تعالی الشریف فرماتے ہیں :{في إبنَةِ رسُولِ اللهِ (ص) لِي أسوَهٌ حَسَنَهٌ} بے شک رسول خداﷺکی بیٹی میرے لئے نمونہ عمل ہے۔

اقبال کی نظر میں بھی پنجتن پاک کا گھرانہ مقدس و مطہر ہےاس لئےاس گھر کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں ۔علامہ اقبال پر خدانے یہ لطف کیا ہے کہ اُنہیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے یہبصیرتیں خدا نے سب کیلئے رکھی ہوئی ہیں لیکن خدا اُن کو دیتاہے جو اس کےقدردان ہوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیاکے چھوٹے اُمور میں صرف کردیں تو خدا  عالی بصیرت ان کو نہیں دیتا لیکن جو اپنے اندر اسگوہر کے قدردان ہوتے ہیں، خدا اُنہیں بصیرتِ عظیم عطا کرتاہے۔تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔ علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کی بارگاہ میں عقیدت کااظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
مریم از یک نسبتِ عیسیٰ  عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا  عزیز

جنابِ مریمؑ بہت باعظمت اورپاکیزہ خاتون ہیں۔علامہ اقبال کی نظر میںحضرت مریمسلام اللہ علیہا اسوۂ ہے، خدا نے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو بعنوانِ اسوہ متعارفکروایا ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نےقصہ مریم بتانا شروع کردیا کہ مریم پیدا کیسے ہوئی، دُنیا میں کیسے آئی؟انسانیت کے درجات ہیں اگرایک شخصیت اعلیٰ درجےفائز ہو تو اس کے معانی یہ نہیں ہیں کہ چھوٹے یا نچلے درجے پر جو ہے وہ ناقص ہو۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا  اسوۂ کاملہ ہیں۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکا اسوہ ہونا حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے برتر ہونے کی وجہ سے ہےنہ یہ کہ حضرت مریم  سلام اللہ علیہامیں کوئی نقص ہے،بلکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامیں فراوان کمالات ہیں، لہٰذا پہلے اقبال اسے بطور اسوۃ  پیشکرتا ہےجسےقرآن نے پیش کیا ہے۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکی عظمت اور مقام بیان کرنے کیلئے اقبال نے ایک مسلم قرآنیوالٰہی اسوہ پہلے چنا ہے اور ان کو پیش کرکے کہا کہ مریم  کے بارے میں کسیکو شک وشبہ نہیں ہے کہ اسوہ ہےکیونکہ جناب مریمسلام اللہ علیہا  وہ ہستی ہیں جن کی عصمت پر قرآنمیں اور آسمانی کتابوں میں گواہی دی گئی ہے۔ حضرتزکریا علیہ السلامجن کو خدا نے حضرت مریم سلام اللہ علیہاکا کفیل بنایا۔  جناب مریم سلام اللہ علیہا نوجوانی میں اس قدر پاکیزہ اور باکمال ہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام مریم  سےمتاثر ہیں اور مریم  سے الہام لیتے ہیں،رسول خداجناب مریم  سلام اللہ علیہاسے الہام لیتے ہیں۔قرآنکا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں داخل ہوئے اگرچہ کفیلاور ذمہ دار تھے، دیکھتے ہیں کہحضرت مریم سلام اللہ علیہاکے پاس بہت ساری چیزیں موجود ہے۔حضرت زکریاعلیہ السلامحضرت مریمسلام اللہ علیہاسے سوالکرتا ہےکہ یہ سب کہاں سے آیاہے؟ حضرت مریم سلام اللہ علیہا   نے فرمایا کہ یہ سب خدا کی طرف سےآیا ہےخدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔

{كلُّمَادَخَلَعَلَيْهَازَكَرِيَّاالْمِحْرَابَوَجَدَعِندَهَارِزْقًاقَالَيَامَرْيَمُأَنىَ‏لَكِهَاذَاقَالَتْهُوَمِنْعِندِاللَّهِإِنَّاللَّهَيَرْزُقُمَنيَشَاءُبِغَيرْحِسَاب} جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے ،پوچھا:اے مریم!یہ {کھانا}تمہارے پاس کہاں سےآتا ہے؟ وہ کہتی ہے : اللہ کے ہاں سے، بے شک خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے ۔

پس مریم  ایک اسوۂ کاملہ ہیں لیکن حضرتزہرا ء  برتر اسوہ ہیں یعنی مقاماتِ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامقاماتِ حضرت مریمسلام اللہ علیہا  سےبرتر ہیں۔جناب مریم اپنے زمانے کے عورتوں کی سردار تھیں لیکن حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   تمام عورتوں کی سردار ہیں ۔ رسول خدا فرماتے ہیں :{ کانت مریم سیدة نساء زمانها اما ابنتی فاطمه فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاخرین} جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا ۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانےپردعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{هو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیهة سیدة نساء بنی اسرائیل}تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔حضرت زہراءسلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔  

 خداوند متعال حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمﷺ اور امام علی علیہ السلام  کے وجود مبارک کو جناب فاطمہ زہراء علیہا السلامکے وجود  کی مرہون منت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{ لولاک لما خلقت الافلاک ولو لا علی لما خلقتک و لو لا فاطمه لما خلقتکما} اےرسول آپ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا اور  علی کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو آپ کو خلق نہ کرتا اور فاطمہ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتاتو آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔جب فرشتوں نے کساء کے اندر موجود افراد کے بارے میں سوال کیا تو خالق کائنات نے جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام کو مرکزیت قرار دیتے ہوئے آپ کے ذریعے تعارف کرایا:{هم فاطمة وأبوها و بعلها وبنوها} جناب فاطمہ زہراء علیہا السلامکائنات کی واحد شخیتا ہے جس کاوجود جنت کے پھل کے ذریعے تیار ہوا اسی لئے رسول خداﷺ بار بار آپ کو بوسہ دیتے اور جنت کے پھل  کی خوشبو آپ سے سونگھتے۔ رسول خدا ﷺ فرماتےہیں:{فاذا اشتقت لتلک الثمار قبلت فاطمة فاصبت من رائحتهاجمیع تلک الثمار التی اکلتها} جناب مریم علیہا السلام کے بارے میں ایسا ذکر  نہیں ہواہے لیکن جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام   کی ولادت کے بارے میں فرماتے ہیں :{فولدت فاطمة{ع}فوقعت علی الارض ساجدة}  جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام ولادت کے وقت ہی خداکے حضورسجدہ ریز ہوئیں۔

علامہ اقبال نے حضرت مریم   سلام اللہ علیہاکی ایک نسبت جبکہ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کے لئے تین نسبتیں بیان فرمائی ہیں۔ علماء جب فضائل کو تقسیم کرتے ہیں توفضائل کی کئی قسمیں بیان کرتے ہیں، ایک فضائل نفسی اور دوسری فضائلنسبی ۔ فضائل نفسی وہ سے مراد وہ فضائل ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے۔فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اسکے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلاماور حضرت مریمسلام اللہ علیہا  میں دونوں طرح کیصفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں یہ بھی حقیقی فضائل ہیں اور وہ فضائل بھیپائے جاتے ہیں جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔جناب مریم سلام اللہ علیہاکو اگر ایک  حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت دے کر دیکھیں تو مریم  بہت باعظمت ہے۔ اسلئے کہ نبی خدا کی ماں ہونا ایک صفت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ منسوب کرنےسے حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں آئی ہے۔ درحقیقت  حضرت مریمسلام اللہ علیہا جناب  عیسیٰ علیہ السلام  کی ماں بنے کی وجہ  سے باکمال خاتون نہیں بنی بلکہ پہلے مریم   میں کمالات رکھےتاکہ جناب عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہوجائے، پہلے کمالاتِ نفسی اورکمالاتِ ذاتیمریم  میں آئے، ان کمالات کے نتیجے میں نسبی کمالات پیدا ہوئے، یعنی ہرخاتون عیسیٰ  کی ماں بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی حضرت مریمسلام اللہ علیہا  کے اندر موجود کمالاتِ نفسیہ نے حضرتمریم   کو اس قابل بنایا کہ وہ عیسیٰ  کی ماں بنے۔جناب حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامکی عظمت کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت والدِ گرامی، دوسری جانب بحیثیت ماں ملیکتہ العرب حضرت خدیجتہ الکبریٰ تیسری اور چوتھی جانب مولائے کائنات علی مرتضیٰ بحیثیت شوہر اور سردارانِ جنت بحیثیت اولادتھے۔علامہ اقبال نے جناب سیدہ کی ان نسبتوں کا ذکر کرکے یہ ثابت کر دکھایاکہ آپ کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع بیٹی، بہترین زوجہ اور عظیم ترین ماں ہیں۔ وہ ماں جس کی آغوش میں ایسے فرزند پروان چڑھے جو سرمایۂ دین اور حاصلِ پیغمبراسلام تھے۔
نورِ چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین وآخرین

حضرت زہراء سلام اللہ علیہارسول خداؐ کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہؐ ہیں.یہ بہت خوبصورت تعبیر ہےکہ آپؐنے فرمایا:{فاطمة بضعة منی و هی نور عینی و ثمرة فوادی و روحی التی بین جنبی و هی الحورا ء الانسیة} فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے ، میری آنکحوں کی ٹھنڈک ہے اور میری روح کا حصہ ہے ،وہ انسانی شکل میں ایک فرشتہ ہے۔رسول اللہﷺکا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپؐ انسانِ کامل ہیں یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ رسول خدا جب بیٹی کو دیکھتاہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نہیں ہیں۔
آنکہ جان درپیکر گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رسول اللہﷺؐجس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندرآکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔
بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ
مرتضیٰ  مشکل کشاء  شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا   اس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا،ہم پلہ ہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامیں ہونا ضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔
پادشاہ و کلبہ ایوان او
یک حسام ویک زرہ سامان او

استاجدار کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا ہےاور تمام سامانِ زندگیایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔ علامہ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نہیں ہوتی ۔ایکمصنف کاجملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترین عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔
مادرِآن مرکزِ پرکارِ عشق
مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق

 جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہاپرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہے، عشق کا مرکز  امام حسین علیہ السلامہیں اور  امام حسین کی ماں حضرت زہراء سلام اللہ علیہاہیں یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہے۔ کربلامیدانِ عشق ہے، حسین ـ امامِ عشق ہے بہت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کوہی کربلا اور امام حسین علیہ السلام سمجھ میں آیا ہے۔
علامہ اقبال ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
         حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
           یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب

 علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے  کہتےہیں :
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم

ایک بیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ حرم ہے۔اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔
تانشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین

امام حسن مجتبی علیہ السلام  نے تاج ونگین اور اقتدارکو ٹھکرادیاتاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے۔
آن دگر مولائے ابرارِ جہان
قوتِ بازوئے احرارِ جہان

تمامعالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے اندر جس زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے جس کے ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی جناب فاطمہسلام اللہ علیہا  کا بیٹا ہے۔ ابرارِ جہاں اور احرارِ جہاں حسین علیہ السلامکی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انہوں نےحریت کا سبق حسین  سے سیکھا ہےاسی لئے شاعرکہتاہے :
انسان کو بیدار توہو لینے دو
             ہرقوم پکاری گی ہمارےہیں حسین

علامہ اقبال امام حسین علیہ السلام کے بارےمیں مزید فرماتے ہیں:
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہلِ حق حریت آموز از حسین

آغوشِ فاطمہ کے دوسرے پروردہ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنی ماں کی تربیت کا مظاہرہ میدان کربلا میں کیا۔ دلبندِ زہراء امام حسین علیہ السلامنے میدانِ کربلا میں جو تین دن انتہائی گرسنگی اور تشنگی کے عالم میں گزارے۔ اس کی مشق حضرت زہراء سلام اللہ علیہانے انہیں بچپن میں کروائی تھی۔ جس ہستی نے بچپن ہی میں ایک سائل کی خاطر بارہا بھوک برداشت کی ہو اس کے لیے یہ امر کافی آسان ہے کہ اسلام کی بقاء کی خاطر مع اہل و عیال اور احباب و اصحاب مصائب و آلام کا پہاڑ دوش صبر پر اٹھائے۔
این حسین کیست که عالم همه دیوانه ی اوست
این چه شمعی است که جانها همه پروانه ی اوست

علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہاکو بطور ماں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سیرتِ فرزندھا از اُمّھات
جوہرِ صدق وصفا از اُمّھات

ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے۔  اگر عورت ذلیل ہے تو سمجھ لیجئے کہ قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے۔ مائیں جس قدر بالغ نظر، پاکدامن اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گیں اُسی قدر قوم میں دور اندیش، صالح خصلت اور صاحبِ فراست افراد پیدا ہوں گے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول

 عظیم ماؤں سے محروم قوم عظیم فرزندوں سے بھی تہی دست ہوتی ہیں۔ نتیجتاً یہ قومیں زوال آمادہ ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اترتی جاتیں ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہاماوٴں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ہوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ہو تاکہ اس جیسا پھل ماوٴں کے شجرۂ وجود پر لگے۔
برن محتاجی دلش آن گونہ سوخت
بہ یہودی چادرِ خود را فروخت

ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہاکا دل جلتا ہےکہ اپنی شادی کے لباس کو بھی بخش دیتی ہے۔اسی طرح ایک سائل کی مشکل کوحل کرنے کی خاطرحضرت زہراءسلام اللہ علیہانے اپنی چادر حضرت سلمانکو یہ کہہ کر دے دیاسے گروی رکھ کر سائل کی شکم سیری کا اہتمام کر دو۔
نوری وہم آتشی فرمانبرش
گم رضائش دررضائش شوہراش

 حضرت فاطمہسلام اللہ علیہا  کی رِضا اپنے شوہر کی رِضا میں فانی ہے،حضرت علیعلیہ السلام کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نہیں ہے، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلاماس چیز پر راضی ہیں جس پر  حضرت علیعلیہ السلامراضی ہو۔
آن ادب پروردۂ صبر ورضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا

حضرت زہراء سلام اللہ علیہاادب پروردۂ رسول خداﷺہیں یعنی رسول اللہﷺنے آپ  کی تربیت کی اور صبر ورِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپ  مقامِ رِضا پر فائز تھیں۔ اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی تھیںیہ باعظمت بی بی اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کےدوران زبان پر شکوہ بھی نہیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ہاتھوں پہ چھالے پڑ گئے ہیں بلکہ چکی چلاتی ہے اور ہمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔

ابو نعیم اصفہانی نقل کرتے ہیں :{لقد طحنت فاطمة بنت رسول الله حتی مجلت یدها ،وربا،و اثر قطب الرحی فی یدها} آپ ؑفرماتی ہیں :{حبب الی من دنیاکم ثلاث: تلاوة کتاب الله و النظر فی وجه رسول و الانفاق فی سبیل الله} تمہاری دنیا میں میری پسندیدہ چیزیں تین ہیں :

1- تلاوت قرآن
2- رسول خدا (ص) کیے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا
3- خدا کی راہ میں انفاق و خیرات کرنا.

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ہوتا تھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتیٰ کے گھر میں ملکہ قصر حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامخود چکی چلارہی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رہی ہیں ۔
گریہ ہائے او زبالین بے نیاز
گوہر افشاندی بہ دامانِ نماز

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام نماز میں روتی تھیں.عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا سیدۂ کونین شب و روز اس قدر عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتیں کہ کہ والدِگرامی کی مانند آپکے پائے مبارک متوّرم ہو جاتے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: میں نے حضرت مریمؑ  کے بارے میں نہیں دیکھا کہ آپؑ کے پائے مبارک عبادت الہی میں مشغول رہنے کی وجہ سے متورم ہو گئے ہوں لیکن حضرت زہراءسلام اللہ علیہا  کے قدم مبارک  کثرت عبادت الہی کی وجہ سے متورم ہو جاتے تھے۔ عبادت میں ہمشہء دوسروں کو دعا کرتے یہاں تک کہ حسنینعلیہم السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا: {الجار ثم الدار} پہلے ہمسایےاس کے بعد گھر والے۔
اشک او پرچید جبرئیل  از زمیں
ہمچو شبنم ریخت برعرشِ بریں

جبرئیل امین آسمان سے زمین پر آتے تھے اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا     کے آنسو اکٹھے کرتے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے لہٰذا  علامہ اقبالکے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ہونا حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کے آنسووٴں سے تھا۔عرشِ بریں جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے آنسووٴں سے معطر اور منور ہے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں : حضرت زہراءعلیہا السلام کی  سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد جبرئیل امین آپ ؑکے پاس تشریف لاتے اور آپؑ کو تسلیت پیش کرتے اور آئند رونما ہونے والے واقعات سے آپ کو آگاہ کرتے۔

آخر میں علامہ اقبال کی اس والہانہ عقیدت کا اندازہ ذیل کے دو اشعار کے ذریعے کر سکتا ہے:
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جنابِ مصطفےٰ  است
ورنہ گرد تربتش گر دید مے
سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے

آئینِ حق میرے پاوٴں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے اسلام اجازت نہیں دیتا اوراسی طرح جنابِ رسول خداﷺکے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفےٰ ﷺاگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپؑ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میراایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامپر فقط سجدہ کرتا۔
کاش علامہ اقبالاپنے  اس خوبصورت اشعار میں نام نہاد مسلمانوں  کے   اس کردارکی  بھی عکاسی کرتا جو انہوں  نے بعد از رحلت رسول خدا ﷺ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے ساتھ انجام دئے۔ ان مشکلات اور مصیبتوں کا تذکرہ  جناب حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  اپنے اشعار میں  یوں بیان کرتی ہیں :
ما ذا علی من شم تربة احمد                   الا یشم مدی الزمان غوالیا
صبت علی مصائب لو انها                 صبت علی ایام صرن لیالیا

 اے بابا!آپ کے بعدمجھ پر اتنے ستم ڈھائے گئےکہ اگر  یہ روشن دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں بدل جاتے۔
آیۃ اللہ اصفہانی کمپانی کے چند اشعار کے ذریعے اس مقالہ کو ختم کرناچاہتا ہوں تاکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  پر ڈھائی گئی مصیبت کا کچھ اندازہ ہو۔
   ماأجهل القوم فان النار                       لا تطفی نور الله جل و علا

 یہ لوگ کس قدر جاہل اور ناداں تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ نور خدا  کوآتش کے ذریعے خاموش نہیں کر سکتے۔
الباب و الدماء و الجدار  شهود صدق ما بها خفاء

دروازہ ،خون اور دیوار یہ سب گواہ ہیں ان چیزوں پر جسے دنیاچھپانا چاہتے ہیں۔
و لست أدری خبر المسمار                  سل صدرها خزانة الاسرار
دروازے میں موجود کیل کا مجھے کوئی علم نہیں  اگر جاننا چاہتے ہو تو جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے سینہ اطہر سے پوچھ لو جو اسرار الہی کا خزانہ ہے ۔
خداوند و متعال ہمیں  مقام حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کو سمجھنے اور انہیں  اپنی زندگی میںاسوہ قرار دینے کیتوفیقدے۔
{السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها، المکسور ضلعها، المظلومبعلها، المقتولِ وَلَدُها}


تحریر ۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree