The Latest
وحدت نیوز(آرٹیکل) امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 12 سال(83-95 ھجری) کی مدت پر مشتمل ہے،
۲۔ اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 19 سال کی مدت(95-114 ھجری) پر محیط ہے اور
۳۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اپنے دوران امامت پر مشتمل مدت جو تقریبا 34 سال(114-148 ھجری) ہے اور تمام ائمہ علیھم السلام کی مدت امامت سے زیادہ ہے۔
ہماری بحث امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کے تیسرے حصے پر متمرکز ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی مدت امامت کے دوران بنی امیہ کے پانچ اور بنی عباس کے دو خلفاء یکے بعد از دیگرے برسراقتدار آئے۔ بنی امیہ کے خلفاء یہ تھے:
۱۔ ھشام بن عبدالملک،
۲۔ ولید بن یزید،
۳۔ یزید بن ولید عرف ناقص،
۴۔ ابراہیم بن ولید،
۵۔ مروان بن محمد عرف مروان حمار۔
مروان حمار بنی امیہ کے سلسلے کا آخری حکمران تھا۔ اسکے دور میں اسلامی سلطنت بین عباس کی سرکردگی میں ایک وسیع بغاوت کا شکار ہو گئی جو بنی امیہ کے سلسلہ خلافت کے خاتمے اور بنی عباس کے برسراقتدار آنے کا باعث بنی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی بنی عباس کے دو خلیفوں کے ہمراہ تھی۔
۶۔ عبداللہ بن محمد عرف سفاح،
۷۔ ابوجعفر منصور عرف دوانیقی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی دوران امامت زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،
۱۔ اسلامی معاشرے کے تشخص کی بحالی کیلئے علمی جدوجہد اور
۲۔ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی اور اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلابی ہدف کی حفاظت اور اسکا تسلسل۔
ہم اس مضمون میں دوسرے حصے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی تمام تر سیاسی جدوجہد کا محور کربلا کے مشن کو زندہ رکھنا اور اسے منحرف ہونے سے بچانا تھا۔ لہذا اس کیلئے آپ علیہ السلام نے دو بنیادی کام انجام دیئے۔
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے مشن کو صحیح اور درست انداز میں پیش کیا، اور
۲۔ خود اور اپنے مخلص شیعوں کو تمام ایسی سیاسی تحریکوں میں شرکت سے دور رکھا جنکا مقصد جاہ طلبی اور حکومت پر قبضے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات انجام دیئے:
۱۔ حضرت امام حسین علیہ السلام
جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے،
امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے سفر کرنا:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کثرت کے ساتھ کربلای معلی جایا کرتے تھے اور باقاعدگی سے امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی نظر میں یہ عمل امام حسین علیہ السلام کے مشن کو زندہ رکھنے اور اسے جاری رہنے میں انتہائی اہم کردار کا حامل تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے شیعیان اور محبین کو بھی زیارت قبر مبارک امام حسین علیہ السلام کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ ایک موقع پر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اگر آپ میں سے کوئی شخص اپنی ساری زندگی حج کرنے میں گزار دے لیکن حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے نہ جائے تو گویا اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حق ادا نہیں کیا، کیونکہ حسین علیہ السلام کا حق وہ حق ہے جسکا ادا کرنا خدا نے تمام مسلمانوں کیلئے واجب قرار دیا ہے"۔(مزار شیخ مفید، صفحہ 37)۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے"۔ (کامل الزیارات، باب 43، صفحہ 121)۔
۲۔ مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا انعقاد:
امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشھداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔
ابوہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اے اباہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو"،
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔
میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، اسکے بعد فرمایا: "اس طرح سے مرثیہ پڑھو جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو"، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:
امرر علی جدت الحسین فقل لاعظمہ الزکیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اپنے جد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں اور انکے پاکیزہ بدن کو مخاطب کر کے کہیں ۔۔۔۔۔"
امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۳۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد سلطنت اسلامی کے مختلف مقامات پر انقلابی تحریکوں نے جنم لیا جن میں سے سب سے زیادہ معروف حضرت زید بن علی بن حسین علیہ السلام کی انقلابی تحریک تھی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اگرچہ واضح طور پر اس انقلابی تحریک کی حمایت کا اعلان نہیں کیا لیکن اندر ہی اندر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور حضرت زید رح کے ہمراہ شہید ہونے والے تمام افراد کے گھر والوں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ آپ علیہ السلام نے حضرت زید کی تحریک کو انقلاب حسینی کا نام دیا اور انکے بارے میں فرمایا:
"ایسا مت کہیں کہ زید نے بغاوت کی ہے۔ زید ایک سچے عالم تھے اور ہر گز طاقت کے خواہاں نہ تھے، وہ ہمیشہ لوگوں کو خاندان پیغمبر کے پسندیدہ شخص کی طرف دعوت دیتے تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو حتما اپنے وعدے پر عمل کرتے۔ انہوں نے حکومت سے ٹکر لی تاکہ اسکا خاتمہ کر سکے"۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۴۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت
امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔
کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔ امام علیہ السلام نے فقہی حکم "اعوان ظلمہ" کو متعارف کروایا جسکے تحت ظالم حکمرانوں کی مدد شرعا حرام تھا۔ ایک شخص جس کا نام عذافر تھا امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ حکومت کے ساتھ لین دین کرتا رہتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
"قیامت کے دن جب تمہیں بھی ظالم افراد کے ساتھ شامل کیا جائے گا تو اس وقت تمہاری حالت کیا ہو گی؟"۔
امام علیہ السلام کے اس جملے نے اس شخص کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ سخت غمگین ہو گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد دکھ اور غم کی وجہ سے فوت ہو گیا۔
اس حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی متعدد روایات موجود ہیں جن میں ظالم حکومت سے مقابلہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔(وسائل الشیعہ، جلد 12، صفحہ 127)۔
یہ نکات ظاہر کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ لہذا جب ابوسلمہ خلال نے بنی امیہ کے خلاف امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بیعت کرنے کی پیشکش کی تو آپ علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد کہا:
"مجھے ابوسلمہ سے کیا کام؟، وہ کسی اور کا پیروکار
امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔
ہے"۔
جب قاصد نے امام صادق علیہ السلام سے اصرار کیا کہ خط کا جواب ضرور دیں تو آپ علیہ السلام نے اپنے خادم سے چراغ منگوایا اور ابوسلمہ کے خط کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ قاصد نے پوچھا کہ جواب کیا ہوا؟۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"جواب یہی تھا جو تم نے دیکھ لیا، جو کچھ دیکھا ہے جا کر اپنے دوست کو بتا دو"۔ [مروج الذھب، جلد 3، صفحہ 253؛ الفخری، صفحہ 154]۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ابوسلمہ کی نیت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ انکے ساتھ مخلص نہیں ہے اپنی حکومت کے چکر میں ہے اور امام علیہ السلام کی شخصیت کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کے درپے ہے۔ اس حقیقت کا مزید علم اس بات سے ہوتا ہے کہ ابوسلمہ نے ساتھ ہی علویوں کی دو اور شخصیات حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے عمر اشرف اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے پوتے عبداللہ محض کو بھی لکھے جن میں انکی بیعت کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
اسی طرح بنی عباس کے بانی ابومسلم خراسانی نے بھی امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی پیشکش کی۔ امام علیہ السلام نے اسکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اسے جواب میں لکھا:
"تم میرے ساتھیوں میں سے نہیں ہو اور یہ وقت بھی میرے قیام کا وقت نہیں ہے"۔(ملل و نحل شہرستانی، جلد 1، صفحہ 142)۔
امام صادق علیہ السلام کو معلوم تھا کہ انکے ساتھ تعاون انہیں حکومت تک پہنچانے کا سبب بننے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا اور انکی شکست کی صورت میں سوائے اپنے پیروکاروں کیلئے خطرات مول لینے کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
اگر ہم امام صادق علیہ السلام کی سیاسی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیں تو جان لیں گے کہ آپ علیہ السلام سیاست برای سیاست کے قائل نہیں تھے بلکہ سیاست کو اعلی اسلامی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ علیہ السلام پوری طرح ہوشیار تھے کہ خود اور آپکے پیروکار کسی کے فریب کا شکار نہ ہو جائیں۔ امام صادق علیہ السلام اپنے پیروکاروں کو تاکید کرتے تھے کہ نہ بنی امیہ اور نہ ہی بنی عباس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔ اس طرح امام علیہ السلام نے ان دونوں جاہ طلب اور دنیا پرست ٹولوں کا مقابلہ کیا۔
تحریر:آیت اللہ العظمیٰ جعفرسبحانی
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور فلاح وبہبود علامہ سید باقر عباس زیدی ملی یکجہتی کونسل سندھ کے نائب صدر، ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات سیدعلی حسین نقوی ممبر مصالحتی کمیشن ملی یکجہتی کونسل سندھ اور ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے سیکریٹری امور تربیت علامہ محمد صادق جعفری ممبر خطبات جمعہ کمیشن ملی یکجہتی کونسل سندھ نامزد ہو گئے ہیں ، تفصیلات کے مطابق ملی یکجہتی کونسل صوبہ سندھ کا انتخابی اجلاس ادارہ نورحق میں سربراہ ملی یکجہتی کونسل صاحبزادہ ڈاکٹر ابولخیر محمد زبیراور سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں آئندہ تین سال کیلئے صوبائی کابینہ کے اراکین کا انتخاب عمل میں لایا گیا،جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر، جمعیت علمائے پاکستان کے علامہ قاضی احمد نورانی سیکرٹری جنرل ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور فلاح وبہبود علامہ سید باقر عباس زیدی نائب صدر،ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات سیدعلی حسین نقوی ممبر مصالحتی کمیشن ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے سیکریٹری امور تربیت علامہ محمد صادق جعفری ممبر خطبات جمعہ کمیشن اور دیگر اراکین کا چنائو عمل میں آیا ۔
وحدت نیوز (بدین) مجلس وحدت مسلمین ضلع بدین کی کونسل کا اجلاس ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا نادر علی شاہ کی زیر صدارت وحدت ہائوس امام بارگاہ سجادیہ ؑ میں منعقد ہوا جس میں ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل یعقوب حسینی نے خصوصی شرکت کی، دوران اجلاس بیس دسمبر کو سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کے دورہ بدین کو حتمی شکل دی گئی اور تمام اراکین کونسل کو پابند کیا گیا کہ پچیس دسمبر کو حیدر آباد میں منعقدہ لبیک یا رسول اللہ ﷺ کانفرنس میں بھر پور عوامی شرکت کروائی جائے اور جلسے کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے ۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی جانب سے،ضلع شرقی کی خواہران کے ساتھ ایک تفصیلی نشست اور میٹنگ ہوئی، جسمیں مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین کراچی ضلع شرقی کی بنیاد رکھی گئی۔ میٹنگ کا باقائدہ آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا، جسکے بعد مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی جنرل سیکرٹری خواہر زہرہ نقوی نے خطاب کیا اور مجلسِ وحدت مسلمین کے اغراض و مقاصد سے مفصل طور پہ آگاہ کیااورکہا کہ بافضلِ خدا و محمد(ص) و اہلبیتِ کرام(ع)، آپ تمام خواتین اپنے اپنے مقام پر راہِ حق میں مصروفِِ عمل ہیں۔جیسے مختلف چشمہِ فیض جاری و ساری ہیں۔اب انشاء اللہ تمام چشمہِ فیض مل کر سمندر ہو جانے کی ضرورت ہے۔اب بطور تنظیم مل کر اپنی اپنی فعالیت اور فداکاری کو مزید بہتر سے بہترین کیطرف لے جانا ہے۔جسکے لئے ہمیں آپ تمام خواہران کی بطور تنظیمی ارکان آپکے ساتھ کی ضرورت ہے۔اور تمام خواہران کو تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی،جیسے ان معزز خواہران نے قبول کیااور ملک و ملت کےلئے ہر طرح سے میدانِ عمل میں ساتھ دینے کیلئے بھر پور آمادگی ظاہر کی۔ خواہر فرح اور خواہر نجف کو ضلع شرقی کے سیٹ آپ کومکمل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے،مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی جانب سے جنرل سیکرٹری خواہر زہرہ نقوی نے تمام خواہران کا شکریہ ادا کیا۔اور ملک و ملتِ تشیع کی ترقی کےلئے اجتماعی دعا کیساتھ نشست کا اختتام ہوا۔
وحدت نیوز(میانوالی) مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ضلع میانوالی میں 230 یتیم بچوں میں رقوم تقسیم کی گئیں، ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے سیکرٹری فلاح و بہبود علی رضا طوری اور سیکرٹری تنظیم سازی سید عدیل عباس زیدی نے ضلع میانوالی کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس دوران میانوالی سٹی، عیسٰی خیل، پکی شاہ مردان، شیانوالی، واں بچھراں، پپلاں اور چکڑالہ میں 230 یتیم بچوں میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم ضلع میانوالی کے رہنما بھی ہمراہ تھے۔ اس موقع پر علی رضا طوری نے کہا کہ امام علی (ع) نے اپنے بچوں کو وصیت میں یتیموں کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کی، لہذا ہمیں امام علی (ع) کی اس وصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یتیم بچوں کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے، مجلس وحدت مسلمین اسی جذبہ کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرہ کے پسے ہوئے طبقہ کی داد رسی کر رہی ہے، معاشرہ میں تبدیلی کسی ایک فرد یا تنظیم کے بس کی بات نہیں، بلکہ ہمیں یہ جذبہ امت مسلمہ میں بیدار کرنا ہوگا۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس اوکے تحت نکالی گئی میلاد النبی ﷺ ریلی کے اختتام پر چوک گھنٹہ گھر میں شہدائے آرمی پبلک سکول پشاور کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں، ایم ڈبلیوایم صوبہ جنوبی پنجاب کے سیکریٹری جنرل علامہ اقتدار نقوی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سانحہ آرمی پبلک سکول کو دوسال ہوگئے لیکن ابھی تک سانحے کے زخم تازہ ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر یکسوئی کے ساتھ عملدرآمد کی ضرورت ہے، وفاقی وزیرداخلہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کی بجائے اُن کے ساتھ بغلگیر ہیں، آج ہمیں سانحہ آرمی پبلک سکول کے موقع پر دہشتگردی،فرقہ واریت،تکفیریت کے خلاف یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ آخر میں شہدائے اسلام، پاکستان اور آرمی پبلک سکول کے لیے دعاکرائی گئی۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیراہتمام ''ہفتہ وحدت ''کے موقع پر میلاد النبی ریلی جامع مسجد الحسین گلشن مارکیٹ سے چوک گھنٹہ گھر تک نکالی گئی، ریلی کی قیادت علامہ اقتدار حسین نقوی، علامہ قاضی نادر حسین علوی، محمد عباس صدیقی، سید ندیم عباس کاظمی، قاسم جعفری،مولانا ممتاز حسین ساجدی، مولانا عمران ظفر،مخدوم اسد عباس شاہ، سید فرخ مہدی،محمد اطہر حیات،چاچا رحمت اللہ ، سجاد حسین چوہان، ریاض حسین خان،ملک ثمر عباس کھوکھر،ملک شجر عباس کھوکھر، قاضی اختر حسین، مرزاوجاہت علی، سید وسیم عباس زیدی، محمد اکرم، فیضان حسین الحسینی،دلاور عباس زیدی ، ملک عامر کھوکھر، مہر مظہر عباس اور دیگر نے کی۔ ریلی نماز جمعہ کے بعد شروع ہوئی جو گلشن مارکیٹ، رحیم چوک،بہارچوک،علی چوک، دولت گیٹ،حسین آگاہی سے ہوتے ہوئے چوک گھنٹہ گھرپر اختتام پذیر ہوئی، ریلی کے شرکاء کا رحیم چوک، بہار چوک ، کچی سرائے، دولت گیٹ اور حسین آگاہی چوک پر شاندار استقبال کیا گیا۔ چوک گھنٹہ میں قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''ہفتہ وحدت ''عالم اسلام کے درمیان نعمت عظمی ہے، دشمن ہمیں توڑنے کی سازش کررہا ہے لیکن امام خمینی نے 12ربیع الاول سے 17ربیع الاول تک ہفتہ وحدت کا اعلان کرکے ان سازشوں کو ناکام کردیا، ہفتہ وحدت نے مسلمانوں کی خوشیوں کو بڑھا دیا ہے، آج دنیا بھر کے مسلمانون کے امام خمینی جیسے لیڈر کی ضرورت ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں شیعہ سنی کا کوئی اختلاف نہیں چند تکفیری عناصر پوری دنیا میں تشدد، فرقہ واریت اور تکفیریت کو فروغ دے رہے ہیں
وحدت نیوز (لاہور) حضور سرورکائنات ۖکے تعلیمات اور سنت کے پیروکار کبھی بھی انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ نہیں دے سکتے،اسلام دین محمد ۖ جبر کا دین نہیں،پیغمبر اعظم ۖ نے امت کو اخلاق حسنہ اور انسانیت سے محبت کا درس دیا،رحمت العالمینۖ کے ماننے والوں سے دنیا کو امن اور محبت کا پیغام جانا چاہیئے،دہشت گردی کے ذریعے اسلام دشمن استعمار کے آلہ کاروں نے جہاد اور اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے رائیونڈ لاہور میں امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ہفتہ وحدت کانفرنس سے خطاب میں کیا۔
انہوں نے کہا شہدائے آرمی پبلک اسکول اورشہدائے ارض وطن کی قربانیوں کو فراموش نہیں ہونے دیں گے،دہشتگردوں کے سہولت کار اور سیاسی سرپرست ایک دفعہ پھر دہشتگردی کیخلاف جنگ اور نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ بنانے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہیں،دنیا بھر میں تکفیری سوچ کو شکست اور دہشتگردوں کے سرپرست رسوا ہو رہے ہیں،انشااللہ وطن عزیز سے بھی اس ناسور کے خاتمے کے لئے ہمیں مصلحت پسندی اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ کچھ نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار مشرق وسطیٰ کے پراکسی وار کو پاکستان ایمپورٹ کرنے کے لئے میداں میں نکل آیا ہے،ہماری حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے ہوش کے ناخن لیں اور ایسے شرپسندوں کا محاسبہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک انڈیا اور اسرائیل پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر خانہ جنگی کرانے کی سازشوں میں مصروف ہیں،ہمیں دشمن کے ناپاک عزائم کو باہمی وحدت اور اتحاد کے ذریعے ناکام بنانا ہے،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی جنگی جنون کا جواب دینے کے لئے قوم کا ہر فرد سربکف تیار ہیں،ملکی سلامتی اور دفاع کو ہم اپنا ایمانی فریضہ سمجھتے ہیں،اور دشمن کے ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لئے پوری قوم پاک فوج کے پشت پر کھڑی ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے حیدر آباد کے علاقے لطیف آباد کے امام بارگاہ باب علیؑ میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے کی کوشش ناکام بنانے پر رینجرز کی بروقت کاروائی کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رینجرز کے نوجوانوں نے ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچا لیا ہے جس پر حکومت کی طرف سے وہ انعام اور ترقی کے مستحق ہیں۔
انہوں نے کہ انتہا پسندی کا جب تک مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا تب تک دہشت گردی کے خطرات سے ہم باہر نہیں نکل سکتے۔صوبہ سندھ سمیت ملک بھر دہشت گردی کی ذمہ دار وہ کالعدم مذہبی جماعتیں ہیں جو ملک دشمن طاقتوں کی ایما پر وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ان جماعتوں کے خلاف کاروائی کے حوالے سے حکومت جب تک الجھاو ، مصلحت اور سیاسی دباؤ کا شکار رہے گی تب تک ملک میں امن کا قیام محض خواب و خیال ہی بنا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کی کارکردگی کو ناقص قرار دیتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے اہداف واضح کرنے اور دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کے حالیہ احکامات حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے مقتدر ادارے دہشت گردی کے خلاف نیک نیتی سے بھرپور اقدامات کریں تو پھر اس عفریت کے خاتمے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔علامہ ناصر عباس نے ملک بھر کی مساجد ،امام بارگاہوں اور دیگر عبادت گاہوں کی سیکورٹی کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی لمحہ بھر کوتاہی کا بھی مظاہرہ نہ کیا جائے۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ دہشتگردی و انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عملی اقدامات ضروری ہیں، دہشتگردی کی ماں یعنی دہشتگردانہ آئیڈیالوجی اور دہشتگرد مراکز کا خاتمہ ضروری تھا، لیکن نیشنل ایکشن پلان میں اس سے صرف نظر کرکے دہشتگردوں کو بچایا گیا، شام میں مقاومتی بلاک کے ہاتھوں امریکا، اسرائیل، برطانیہ، سعودی عرب کی شکست کے بعد امریکی اتحاد عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کو افغانستان میں لا کر منظم کر رہا ہے، امریکی سرپرستی میں داعش اب پاکستان، افغانستان سمیت سینٹرل ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے درپے ہے، حساس ترین ملکی صورتحال میں مضبوط مرکزی حکومت ہونا ناگزیر ہے، افسوس کہ تمام اداروں سمیت بیورو کریسی میں تعصب کا زہر رچ بس گیا ہے، جو ملکی بقاء و سالمیت کیلئے تباہ کن ہے، ہماری جدوجہد قائداعظم و علامہ اقبال کے پاکستان کیلئے، آئین و قانون کی حکمرانی والے پاکستان کیلئے، سبز ہلالی پرچم والے پاکستان کے حصول کیلئے ہے، ہم صرف شیعہ سنی اتحاد کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام محب وطن طبقات کے اتحاد و وحدت کیلئے کوشاں ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسجد و امام بارگاہ مدینۃ العلم گلشن اقبال کراچی میں سیمینار بعنوان قومی و بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں ہماری ذمہ داری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اداروں و حکومتی صفوں میں موجود تکفیری دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بھی قانون کے شکنجے میں نہیں جکڑا گیا، لیکن دہشتگردوں کو پالنے والے، انہیں بچانے والے، انکے سہولت کار یہ جان لیں کہ یہی دہشتگرد کل انہیں بھی نشانہ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ داعش پاکستان میں لشکر جھنگوی العالمی کے ساتھ ملکر دہشتگردانہ کارروائیوں میں مصروف ہے، امریکی سرپرستی میں داعش اب پاکستان، افغانستان سمیت سینٹرل ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے درپے ہے، محب وطن پاکستانیوں کو اس سازش کے خلاف ہر سطح پر منظم ہوکر آواز اٹھانا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حساس ترین ملکی صورتحال میں مضبوط مرکزی حکومت ہونا ناگزیر ہے، جس کی ملک بھر میں ہر سطح پر رٹ قائم ہو، ملک میں طاقتور و مضبوط سسٹم، ادارے ہونا ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ کسی نادیدہ قوت کے حکم پر ساری تبدیلیاں رونما ہوں، لیکن بدعنوان سیاستدان ایسا سسٹم نہیں دے سکتے، ضروری ہے کہ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے آئین و قانون کے تحت ملکی و قومی مفاد میں ذمہ داریاں انجام دیں، اس کیلئے ضروری ہے کہ سسٹم اور اداروں میں ہر سطح پر میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر لوگوں کو لایا جائے، لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ تمام اداروں سمیت بیورو کریسی میں تعصب کا زہر رچ بس گیا ہے، جو ملکی بقاء و سالمیت کیلئے تباہ کن ثابت ہے۔
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہماری جدوجہد قائداعظم و علامہ اقبال کے پاکستان کیلئے، آئین و قانون کی حکمرانی والے پاکستان کیلئے، سبز ہلالی پرچم والے پاکستان کے حصول کیلئے ہے، ہم صرف شیعہ سنی اتحاد کیلئے نہیں بلکہ تمام محب وطن طبقات کے اتحاد و وحدت کیلئے کوشاں ہیں، ہمیں تمام پاکستانیوں ک و متحد کرنا ہے، جنگ اب سرحدوں پر نہیں بلکہ دہشتگردی، انتہا پسندی، تعصب کی صورت ملک کے اندر پھیل چکی ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے گوادر پورٹ کی حفاظت کے لئے پاک بحریہ کی خصوصی ٹاسک فورس کی تشکیل کو اقتصادی راہدری کی جانب اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا ہر محب وطن اقتصادی راہدری منصوبے کی جلد از جلد تکمیل کے لئے دعاگو ہے، یہ واقعاً گیم چینجر منصوبہ ہے، جو طاقتیں سی پیک کی مخالفت کر رہی ہیں، وہ ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنے والوں سے دو ٹوک اور واضح مؤقف اختیار کرے۔