The Latest
وحدت نیوز(بیروت) فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے بیروت کے علاقے الضاحیہ میں سید الشہداء امام بارگاہ میں دس محرم شہادت امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے منعقدہ مجلس عزاداری میں شرکت کی اور عزداران حسینی سے خطاب کیا۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں ایسے تمام شہداء کے اہلخانہ کو تسلیت عرض کی، جنہوں نے دینی اقدار اور مقدسات کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کر دی ہیں۔ انہوں نے کابل اور بغداد میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں شہید ہونے والے عزاداران حسینی کیلئے بھی اپنے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا: "اس سال مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے، جو ہر میدان میں مجاہدین کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ان کامیابیوں نے تکفیری دہشت گردوں کو کمزور اور عاجز کر ڈالا ہے۔"
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے یمن کے خلاف سعودی جارحانہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "آج ہم یمن کے بارے میں بات کریں گے اور ہم نے تاکید کی ہے کہ ضاحیہ، صور، بعلبک اور الھرمل سے مغربی البقاع تک منعقد ہونے والی مجالس عزاداری میں یمن کے عوام، یمن کی فوج اور رضاکار فورس سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ ہر سیاسی ماہر اور تجزیہ کار کیلئے یہ حقیقت انتہائی واضح ہے کہ یمن کے خلاف سعودی جنگ سیاسی اہداف کی خاطر نہیں بلکہ اس دشمنی اور کینہ توزی کا نتیجہ ہے جو سعودی حکومت کے دل میں یمنی عوام کی نسبت پایا جاتا ہے۔ سعودی حکومت جس انداز میں یمن میں عام اور بیگناہ انسانوں کا قتل عام کر رہی ہے، اس کے اہداف ہرگز سیاسی نہیں ہوسکتے بلکہ یہ اقدامات وہابیت کی دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس جنگ کا مقصد یمنی عوام کی قوت ارادی کو ختم کرنا ہے، کیونکہ وہ خود مختاری اور عزت کے خواہاں ہیں۔"
سید حسن نصراللہ نے کہا: "آج یمن میں بھی کربلا کی طرح بیگناہ انسانوں کا قتل اور ٹکڑے ہوئے لاشیں دکھائی دیتی ہیں۔ صنعا اور یمن کے دیگر شہروں میں غم انگیز مناظر نظر آتے ہیں جبکہ یمنی عوام انتہائی شجاعت اور استقامت سے امریکی اور سعودی قتل و غارت اور بربریت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔" انہوں نے زور دے کر کہا کہ یمنی عوام ہرگز جارح قوتوں کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے، ان کے دشمنانہ اقدامات کے خلاف ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے اور ہم بہت جلد امام خامنہ ای کی اس پیشین گوئی کو حقیقت کا رنگ اختیار کرتا دیکھیں گے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آل سعود کی ناک مٹی پر رگڑی جائے گی۔ سید حسن نصراللہ نے یمنی عوام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "میں اپنے یمنی بھائیوں کو اپنے ذاتی تجربے اور ایمان کی روشنی میں کہتا ہوں کہ خداوند متعال پر بھروسہ کریں اور وہ آپ کو وحشی دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔"
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے مسئلہ فلسطین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ یہ کہنا شروع ہوگئے تھے کہ فلسطینی انتفاضہ شکست کا شکار ہو کر ختم ہوچکی ہے، لیکن حال ہی میں انجام پانے والے شہادت طلبانہ اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ انتفاضہ فلسطینی جوانوں کے دلوں، عقل اور ضمیر کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "غاصب اسرائیلی بہت جلد اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ فلسطین کی سرزمین ان کی موت، شکست اور ان کا خون جاری ہونے کی سرزمین ہے۔ اسرائیلیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ وہیں لوٹ جائیں، جہاں سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے تھے اور فلسطینی مزاحمت کا بھی یہی پیغام ہے۔" سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "اسرائیلی حکام کے سامنے خشوع و خضوع کا فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسرائیل وہی ہے جو امریکہ سے بے تحاشہ اسلحہ وصول کرتا ہے اور غیر مشروط امریکی حمایت سے بھی برخوردار ہے۔ اس وقت ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن اسرائیل کی نامحدود حمایت کے اظہار میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان میں سے کسی نے فلسطین کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولا۔"
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے عراق میں جاری داعش کے خلاف آپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عراقی عوام کو خبردار کیا اور کہا: "امریکی موصل کے ذریعے شام کے مشرقی حصے میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور انہوں نے داعش کے تمام دہشت گرد عناصر کو شام کے مشرقی حصے میں جمع کر دیا ہے، تاکہ اس جگہ ان سے پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ ایسی صورت میں داعش اپنی قوت بحال کرنے کے بعد دوبارہ عراق پر حملہ آور ہوسکے گی۔" سید حسن نصراللہ نے کہا: "یہ ایک امریکی سازش ہے، جس کا مقصد موصل میں عراقی عوام کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنا ہے۔ لہذا عراق کی مسلح افواج اور رضاکار فورس کو چاہئے کہ وہ موصل میں موجود داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ کر ڈالیں اور ان کے کمانڈرز کو گرفتار کر لیں اور انہیں شام کی طرف بھاگنے کی اجازت نہ دیں، کیونکہ شام میں ان دہشت گرد عناصر کی موجودگی عراق کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہوگی۔"
سید حسن نصراللہ نے بحرین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بحرینی عوام اپنے عظیم مقاصد کی راہ میں ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اس استقامت اور شجاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحرینی عوام اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے اور پوری دنیا تک اپنی آواز پہنچانی چاہئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا: "ہم نے اسرائیل اور اسرائیل سے ملنے والی اپنی سرحدوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ ہم نے اسرائیل پر نظر رکھی ہوئی ہے اور اسلامی مزاحمت ہرگز اسرائیل کے خلاف میدان خالی نہیں چھوڑے گی۔ ہماری طاقت کا راز فوج، عوام اور اسلامی مزاحمت کی مضبوطی میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح ہم نے لبنان کی شمالی سرحدوں پر بھی تکفیری دہشت گرد عناصر سے مقابلے کیلئے نظریں جما رکھی ہیں۔ ہم ملک کے دفاع کیلئے وہاں موجود رہیں گے۔" حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ مجاہدوں کی شہادت نے حزب اللہ کو کمزور کر دیا ہے، جبکہ بعض ہمارے شہداء کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ میں انہیں کہوں گا کہ ہمیں اپنے شہداء پر فخر ہے۔ اسی طرح بعض یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان مالی اعتبار سے کمزور ہوگئی ہے، لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ میرا جواب ایک جملہ ہے کہ ہم نے نہ تو شکست کھائی ہے اور نہ ہی ہم تھکے ہیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دوسری عالمی جنگ کے بعد استعماری طاقتوں کی پشت پناہی سے جہانِ اسلام کو ہمیشہ بحرانوں میں مبتلا کرنے اور ناامن رکھنے کیلئے عالم اسلام کے دل اور براعظم ایشیا اور افریقہ کے سنگم میں اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی، دوسری طرف خطے کے ممالک میں ملٹری اور سول ڈکٹیٹرشپس (پولیس اسٹیٹس) قائم کی گئیں۔ عراق، شام، مصر اور لیبیا وغیرہ میں ملٹری نظام جبکہ خلیجی ریاستوں (سعودیہ، امارات، قطر و غیرہ) اردن اور مراکش میں پولیسی نظام قائم کیا گیا۔ استعماری قوتوں کے لئے ملٹری نظاموں اور پولیسی نظاموں ہر دو نے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لئے بڑی بڑی خدمات انجام دیں۔ ان دونوں استعماری نظاموں یعنی ملٹری نظام اور پولیسی نظام میں مندرجہ ذیل چند فرق تھے۔
1۔ ملٹری کا طاقتور ہونا اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی علامت تھا، جبکہ اس کے برعکس پولیسی نظام فقط اپنے عوام کو دبانے پر مامور تھے۔
2۔ ملٹری نظام نسبتاً طاقتور ہونے کی وجہ سے بآسانی کنٹرول میں نہیں آتے تھے، جبکہ کمزور پولیسی نظاموں کا کنٹرول آسان تھا۔
3۔ ملٹری نظاموں سے جنگ، مقاومت و مقابلہ، وطن کا دفاع اور سرزمین سے تعلق جیسے مفاہیم نکالنا ناممکن تھا، جبکہ ایسی ادبیات اور ایسے مفاہیم پولیسی نظاموں کے لئے ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔
مندرجہ بالا افتراقات کی بنا پر پولیسی نظام نے ثابت کیا کہ وہ استعماری مقاصد کے لئے بہت مناسب ہے۔ اس نظام سے استعمار کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ اسی پولیسی نظام کی حامل ریاستوں سعودیہ، قطر اور امارات کی خطے کے امن کی تباہی اور اسرائیل کی بقاء اور دفاع کے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے وہ نظام جو کسی وقت بھی اسرائیل کے وجود اور استعماری مقاصد اور تسلط کے لئے خطرہ بن سکتے تھے، انہیں پولیسی نظاموں کی مدد سے یا تو ختم کر دیا گیا یا کمزور اور مفلوج کر دیا۔
جب خطے میں تبدیلیاں آتی ہیں تو سب ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان بھی خطے میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوا۔ وجوہات جو بھی ہیں، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کا کنٹرول ہمیشہ سے ملٹری کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ انڈیا جیسے پاکستان کے وجودی دشمن کا بارڈر پر ہونا ایک مسلسل جنگی پالیسی کا متقاضی ہے، خواہ سافٹ جنگ ہو یا کولڈ وار یا ہاٹ وار یہ پاکستان کا مقدر ہے۔ اس لئے ملٹری کا طاقتور ہونا پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہونے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مقروض ہونے کے ناطے غاصب اسرائیل کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہاں پر ملٹری کا طاقتور ہونا استعماری طاقتوں اور خطے میں انکے ایجنٹوں کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔ اس لئے مشرف حکومت کے خاتمے اور آئندہ کے پاکستان کا جو نقشہ کھینچا گیا، وہ ملٹری ڈیکٹیٹرشپ کی جگہ سول ڈکٹیٹرشپ کو مضبوط کرنا ہے، پاک آرمی کو کمزور کرنا انڈیا اور اسرائیل دونوں کے مفاد میں ہے اور یقیناً اسرائیل کا پشت پناہ مغربی بلاک اور خطے میں انڈیا اور اسرائیل کے دوست اسکی حمایت کریں گے۔ مذکورہ مقصد کے حصول کے لئے اس وقت پاکستانی ملٹری کو بیرونی محاذوں کے علاوہ تین اہم داخلی محاذوں پر الجھا دیا گیا ہے۔ ملٹری کے پروردہ اور ماضی و حال کے حلیف، دشمن نے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔
ان تین محاذوں کو یوں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1۔ تسلط پسند اور خود غرض سیاستدان:
ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی جمہوری اقدار اور جمہوری نظام کی رٹ لگا کر سول ڈیکٹیٹرشپ کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ انہیں امریکہ و مغربی بلاک، سعودیہ و خلیج اور انڈیا کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، دوسری طرف بااثر اور بانفوذ ہونے کی وجہ سے قانون اور عدالت سے ماوراء کی منزل تک پہنچ چکے ہیں اور انکی پوری توجہ سول فورسز کی مضبوطی، دہشتگردوں اور اسمگلروں کی سرپرستی اور اپنی اپنی بادشاہتوں کے قیام کی طرف ہے۔
2۔ وطن کی غدار طاقتیں:
ملٹری کے لئے دوسرا چیلنج وطن کے وہ غدار ہیں، جو دشمنوں کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ برملا پاکستان دشمن قوتوں سے مدد مانگ رہے ہیں کہ پاکستان اور پاک آرمی سے جنگ میں انکا ساتھ دیں اور انکا ایجنڈا ملک کی تقسیم اور بلوچستان اور دیگر علاقوں کی علیحدگی ہے۔ الطاف حسین اور براہمداغ بگٹی اور کئی ایک دیگر غدار اسکی مثالیں ہیں۔
3۔ تکفیری و دیوبندی دہشتگرد:
یہ دہشتگرد مغربی بلاک یعنی امریکہ، یورپ اور سعودی و خلیجی ممالک کی مدد اور پشست پناہی سے بننے والے ہمارے ماضی اور حال کے اسٹریٹجک اثاثہ جات اس وقت سب سے زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شہید ہونے والوں سے زیادہ تعداد میں پاکستانی عوام کو قتل کیا ہے۔ انہی کے ہاتھوں سے سپاہی سے جنرل رینک کے آفیسرز شہید ہوئے۔ انہوں نے ملک میں خانہ جنگی کروانے کے لئے کبھی مذہب اور فرقہ اور کبھی دین کے نام پر عوام پر برملا حملے کئے۔ منظم طریقے سے بے بنیاد الزامات کی بنا پر 30 سال سے ایک فرقہ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے سڑکوں پر، جلسہ گاہوں میں کافر کافر کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہمارے اندھے قانون میں نہ تو نقض امن کا مسئلہ بنتا ہے اور نہ کسی شہری کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس تکفیری فکر نے ایٹم بم سے خطرناک لاکھوں انسانی بم پیدا کئے ہیں، جو مساجد، امام بارگاہوں، ہسپتالوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، پولیس، آرمی کی چھاؤنیوں اور مراکز میں ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر پھٹتے ہیں۔
پاکستان کے تمام بحران امن و امان کے حوالے سے ہوں یا سیاسی، اقتصادی ہوں یا معاشی، اجتماعی ہوں یا ثقافتی، اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ان سب کا اصل سبب تکفیریت اور تنگ نظری ہے۔ جس ملک میں جان و مال اور ناموس خطرے میں ہو، وہاں نہ امن ہوگا نہ سرمایہ کاری، وہاں قربتوں کی جگہ نفرتیں جنم لیں گی۔نفرتوں کے ماحول میں قومی وحدت اور اتحاد ناممکن ہے اور دشمن بھی یہی چاہتا ہے۔ انہی تکفیری گروہوں نے جہانِ اسلام کی افواج کو کمزور کیا اور یہی تکفیری گروپ ہماری آرمی سے لڑ رہے ہیں۔ ہم ضرب عضب کے ذریعے دو سال سے جن تکفیری گروہوں کو ختم نہیں کرسکے، آج اگر سعودی عرب چاہے تو جس طرح الجزائر سے امریکہ کے کہنے پر تکفیری گروہوں کو حکم دیا اور وہ چلے گئے، پاکستان سے بھی انکا خاتمہ کرسکتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی اگر آج امداد ختم کرنے اور پشت پناہی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لیں تو ہماری یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے۔
ملٹری مذکورہ بالا تینوں محاذوں پر نبرد آزما ہے۔ دوسری طرف سول اسٹیبلشمنٹ استعماری منصوبے یعنی ملٹری نظام کو سول ڈکٹیٹرشپ سے تبدیل کرنے کی ریہرسل میں مشغول ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اس ریہرسل کے لئے بہترین میدان فراہم کرتا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ناقص پالیسی استعماری منصوبہ سازوں کی مزید مدد کرتی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں جب چاہتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں کارروائی کر دیتی ہیں۔ دہشتگرد اور انکے سہولت کار ہمارے فرسودہ نظام کا حصہ ہیں۔ سیاستدان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں انہیں مدد کرتی ہیں اور جو قانون سازی انکے خلاف ہوتی ہے، اسے انکی دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں یا مجبوراً دفاع کرنے والوں کے خلاف نافذ کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پولیس کی پرانی روش ہے اور بعض اندھے قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے جب کہیں قتل ہوتا ہے تو ہماری پولیس قاتل اور مقتول خاندانوں اور ان سے تعلق رکھنے والے دونوں طرف کے افراد کو بند کر دیتی ہے اور عموما اصل قاتل گرفتار نہیں ہوتے یا مفرور ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ تھانوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں۔ انفرادی جرائم کو روکنے والی یہی ناقص پالیسی آج اجتماعی جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی اپنائی گئی ہے۔
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی یا طالبان کے سربراہان اور راہنماؤں کہ جنھوں نے 80 ہزار پاکستانیوں کو قتل کیا اور ان تنظیموں نے دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری بھی قبول کی، آج انکی جب فہرستیں بنیں تو قاتل و مقتول سے مساوی رویہ اختیار کرنے والی پولیس اسٹیٹ نے اجتماعی طور پر یہی ظالمانہ پالیسی اختیار کی اور ملک میں رواداری اور وحدت کی ترویج کرنے اور بلا تفریق دین و مذہب، اجتماعی و فلاحی خدمات انجام دینے والے علماء کو بھی ان فہرستوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول دنیا بھر کے دہشگرد عراق و شام میں تباہی کے بعد ذلیل ہو کر پاکستان و افغانستان کا رخ کر رہے ہیں اور پاکستان کے مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انڈیا اور دوست ممالک کے رویئے بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں اور ھبہ اور ھدیہ میں دی گئی اربوں ڈالرز کی خطیر رقم کی واپسی کا تقاضا ہوچکا ہے، جسے حکمرانوں نے ھدیہ اور ھبہ کہہ کر اپنی مرضی سے قومی انٹرسٹ کو دیکھے بغیر خرچ کیا اور کرسی کو مضبوط کیا اور اب پاکستانی غربت میں پسی ہوئی عوام کے بجٹ اور ٹیکسوں سے ادا کیا جائے گا۔ تکفیریت اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا ملک کے غداروں کے خلاف یا ہوس پرست اور خود غرض سیاستدانوں کی حوصلہ شکنی، یہ سب کچھ عوامی حمایت کے بغیر ممکن نھیں۔ معتدل اہل سنت اور اہل تشیع کی حمایت اور قومی وحدت سے چیلنجز کا مقابلہ ممکن ہے، لیکن اگر ایک طرف دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ اور دوسری طرف حکمران طبقہ تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر عمل پیرا رہا تو نتائج انتہائی خطرناک ہونگے۔
تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں وقت کے یزید اپنی اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک بار پھر وقت کی کربلا بپا کئے ہوئے ہیں، لیکن ان یزیدی قوتوں کے مقابلے میں حسین (ع) کا سچا بیٹا سید علی خامنہ ای پورے جہاں کے مظلومین کی امیدوں کا محور ہے، اور وقت کے یزیدیوں کیخلاف ڈٹا ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ حاجی مورہ میں شہید خدا بخش کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل آج کے یزید کا کردار ادا کرتے ہوئے بے گناہ مسلمانوں کو شہید کررہے ہیں، یمن میں آل سعود نے دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے، ان یزیدی قوتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا، ہمیں شیعہ، سنی کی تفریق کو ختم کرتے ہوئے اپنے ازلی دشمنوں کا پہچاننے کی ضرورت ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) ریاستی اداروں کی بیلنس پالیسی تاحال جاری ہے ، نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردی میں ملوث ہونے یا دہشتگردوں کو سہولت کاری فراہم کرنے کے شبہ میں نادرا نے کالعدم دہشت گردجماعتوں کے رہنمائوںسمیت پر امن اور محب وطن مجلس وحدت مسلمین پاکستا ن کے مرکزی رہنما علامہ محمد امین شہیدی، صوبائی رہنما علامہ مقصودڈومکی اورممتاز شیعہ عالم دین علامہ شیخ محسن نجفی سمیت متعدد اہم مذہبی شخصیات اور فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ بلاک کر دیئے ہیں، جس سے ان کی پاکستانی شہریت عارضی طور پر معطل ہوگئی ہے۔ حکومت نے ’’فورتھ شیڈول‘‘ میں شامل 2021 افراد کے قومی شناختی کارڈ نمبر بلاک کر دیئے ہیں، نیکٹا نے نادرا کو ان افراد کے نام اور شناختی کارڈ نمبرز اور دیگر تفصیلات ارسال کر دی ہیں۔ شناختی کارڈز معطل ہونیوالے افراد میں نمایاں شخصیات میں مجلس وحدت مسلمین کے علامہ امین شہیدی، علامہ مقصود ڈومکی، علامہ نیئر عباس اور دیگر کے نام شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شناختی کارڈز بلاک ہونے کے بعد اب یہ افراد زمینوں کی خرید و فروخت اور بینکوں کی سہولیات استعمال کرنے سے محروم ہوگئے ہیں، شناختی کارڈز بلاک ہونے پر فورتھ شیڈول میں شامل مشتبہ افراد کی پاکستانی شہریت بھی عارضی طور پر معطل رہے گی۔
دیگر ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ مقصود ڈومکی اور جامعۃ الکوثر اسلام آباد کے سربراہ علامہ محسن نجفی سمیت شیڈول فورتھ میں شامل دو ہزار سے زائد افراد کی شہریت معطل کرتے ہوئے ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شیڈول فورتھ میں شامل افراد کے شناختی کارڈ مرحلہ وار بلاک کئے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں 2021 ایسے افراد کے شناختی کارڈز بلاک کئے گئے ہیں جو شیڈول فورتھ کے مشتبہ افراد میں شامل تھے، نیکٹا کی طرف سے نادرا کو مذکورہ افراد کے نام، شناختی کارڈ نمبر اور دیگر تفصیلات ارسال کی گئی تھیں، جس کے بعد نادرا نے پہلے مرحلے میں 2021 افراد کے شناختی کارڈ بلاک کئے ہیں۔ شناختی کارڈز کی معطلی عارضی طور پر عمل میں لائی گئی ہے۔ وزارت داخلہ ذرائع کے مطابق جن افراد کے شناختی کارڈ بلاک کئے گئے ہیں ان میں علامہ مقصود ڈومکی اور علامہ محسن نجفی بھی شامل ہیں۔ شناختی کارڈ بلاک ہونے سے مذکورہ افراد بینکنگ سہولیات، اراضی کی خرید و فروخت سمیت ایسے امور اور خدمات سے محروم رہیں گے جن کیلئے قومی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔
وحدت نیوز(لیہ) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے رہنما سید عدیل عباس زیدی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عشرہ محرم کے دوران ضلع لیہ میں بہترین انتظامات کرنے پر ضلع لیہ کی انتظامیہ کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے، انہوں نے کہا کہ پورے ضلع میں اس بار ضلعی انتظامیہ نے سیکورٹی سمیت تمام تر انتظامات بہترین انداز میں انجام دیئے، پولیس، ٹاون انتظامیہ، سول ڈیفنس، محکمہ صحت کے ملازمین نے عزاداری سید الشہدا (ع) میں ملت تشیع کیساتھ بھرپور تعاون کیا، واپڈا کی جانب سے آغاز کے 8 روز میں رات کے اوقات میں لوڈشیڈنگ کی گئی، جس کی وجہ سے عزاداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم 9 اور 10 محرم الحرام کو بلاتعطل بجلی فراہم کی گئی، جو کہ احسن اقدام ہے، انہوں نے کہا کہ ہم بانیان مجالس، لائنسداران، متولیان امام بارگاہ، اور عزاداران امام حسین (ع) کے مشکور ہیں کہ انہوں نے اس بار بھی بہترین انداز میں عشرہ محرم مناتے ہوئے نواسہ رسول (ص) کو شاندار طریقہ سے خراج تحسین پیش کیا، اور اہل سنت برادران کے پرخلوص تعاون کو بھی انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ ولایت حسین جعفری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عزاداری سید الشہداء ہمارا آئینی جمہوری اور قانونی حق ہے، جس سے ہم ایک اینچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہاکہ امام حسین علیہ السلام نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جو دین حق کی بقاء کا باعث اور یزیدی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔ آج بھی عزاداران ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور واضح کر دیتے ہیں کہ ہم کسی طور ظلم قبول نہیں کریں گے۔علامہ ولایت جعفری نے کہا کہ پنجاب اور سندھ کے بعض علاقوں میں عزاداری امام ؑ اور سبیلوں کے خلاف بعض اقدامات ہوئے جسکی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ عزاداری سید الشہداء پر کوئی قدغن لگائی جائے۔ حکومت پنجاب اور حکومت سندھ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے عزاداری اور پُر امن جلوس کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں سالوں سے جو کام دہشت گردکرنے کی کوشش کررہے ہیں آج وہ کام سندھ اور پنجاب حکومت کے زیر نگرانی ہو رہی ہے۔ دہشت گرد چاہتے یہی ہے کہ محرم الحرام کے جلوسوں اور مجالس پر پابندیاں عائد کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب ، سندھ حکومت کوچاہئے کہ عزادارن سید الشہداء مجالس اور جلوس عزاء کرنے کی مکمل آزادی دیں اور عزاداران کو تحفظ فراہم کرے بصورت دیگر انہیں شدید احتجاجوں کا سامنا ہوگا۔ بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ عزاداری سید الشہداء ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت میں کی جاتی ہے۔ جو تمام مظلوم انسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کو ظاہر کرتی ہے اور رہتی دنیا تک یہ عزاداری قائم و دائم رہے گی۔
وحدت نیوز(دولت پور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر انتظام (مقصد کربلا کانفرنس) منعقد ہوئی ۔کانفرنس کی صدارت ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کی جبکہ کانفرنس سے مولانا ڈاکٹر محسن علی قمی ،عطاء حسین لانگاہ اور صوبائی رابطہ سیکریٹری شفقت حسین لانگاہ نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ کربلا ہر دور کے انسانوں کے لیے عظیم درسگاہ ہے،اس لیے ہر دور کی باطل یزیدی قوتیں پیغام کربلا سے خائف رہی ہیں۔14صدیوں میں باطل طاغوتی قوتوں نے 14مرتبہ کربلا کو تاراج کرنے کی کوشش کی ، مگر حسین ؑابن علی ؑکا پیغام اب عالمی انقلابی تحریک میں تبدیل ہوچکا ہے۔آج دنیا بھر میںپیغام کربلا کے وارث عصر حاضر کی یزیدیت کے مقابل سینہ سپر ہیں،موت سے نہ ڈرنا ، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ویقین اور ظالموں کے مقابلے میں بے خوف ہوکر میدان میں آنا ، ہر دور کے حسینیوں کی پہچان ہے۔نائیجیریا کے ابراہیم زکزاکی ،حجاز مقدس کے شیخ باقر النمرؒ سے لیکر سر زمین پاکستان کے سیدعارف حسین الحسینی ؒ عصر حاضر کے کربلائی ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت یوم عاشور کے سلسلے میں فول پروف سیکورٹی انتظامات کرے، ضلع جعفر آباد بلوچستان میں عزاداری کے جلوسوں کو روکنے کی کوشش قابل مذمت ہے۔ جلوس عزا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے، روکنے کی سازش قبول نہیں۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) یوم عاشور ایک ایسا دن ہے جب امام حسین علیہ السلام اور آل رسولؐ کو ظالموں نے کربل کے میدان میں شہید کیا تھا اور دختر رسول ؐ و علی ؑ کو اسیری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے سیدہ کونین و خواہر حسین بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب یزیدی فوج نے امام حسین ؑ کو میدان کربلا میں شہید کیا تو وہ بی بی زینب کو اسیر بنا کر دربار یزید میں لے گئے اور بی بی سلام اللہ علیہا کو بے شمار مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا ، جو ظلم یزید نے کیا وہ رہتی دنیا تک ظلم کی سب سے بد ترین شکل ہے اور اس ظلم کیلئے یزید کو شدید احتجاجوں کا سامنا آج تک کرنا پڑ رہا ہے۔ عباس علی نے کہا کہ امام حسین ؑ نے ہمیں میدان کربلا میں صبر، تحمل، اصل بندگی اور حق کا ساتھ دینے کا درس تو دیامگر اس درس کو بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے دنیا کے تمام افراد تک پہنچایا اور ہمیں پیغام حسینی سے آگاہ کیا۔ اگر بی بی زینب سلام اللہ علیہا اپنے اس عظیم مقصد میں کامیاب نہ ہو پاتی تو آج یزید دینِ خدا اور دینِ حق کی ایک الگ ہی تصویر ہم تک پہنچاتا اور مسلمانوں پر عذاب الٰہی نازل ہوتی۔وہ بی بی زینب سلام اللہ ہی تھی جنہوں نے ہمیں امام حسین علیہ السلام کے مقصد سے آگاہ کیا اور پیغام حسینی کو اس قدر عام کیا کہ آج دنیا کے ہر کونے میں امام حسین ؑ کے محبین اور عشقان اپنے عقیدت کے اظہار اور یزید کے خلاف احتجاج کیلئے گھروں سے باہر سڑکوں اور روڈوں پر نکل آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم واقعہ کربلا کا جائزہ لے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یزید کو حضرت امام حسین ؑکی ذات سے نہیں بلکہ انکے فکر اور اصلاحات سے عداوت تھی۔ حضرت امام حسین ؑ کی قربانیوں نے اسلام کو جو تقویت دی وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گی لہذا کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ؑ کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک سوچ ، فکر اور نظریے کو شہید کرنے کی سازش ہے۔ یہ لوگ دین حق کو زندہ رکھنے کے لئے ہی توآئے تھے کربلا میں اور نماز کی برپائی ہی کے لئے تو اسیری قبول کی تھی،تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔بیان کے آخر میں جلوس عاشورہ کے دوران انتظامیہ کی جانب سے بہترین سیکورٹی اور انتظامات پیش کرنے پر انہیں تحسین سے نوازتے ہوئے کہا گیا کہ جلوس کے دوران انتظامات بہت اچھے تھے اور ہمیں امید ہے کہ انتظامیہ آئیندہ بھی ایسے ہی اچھے کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور سب سے بہترین انتظام یوں ہوگا کہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ ہمیں مستقبل میں حساس اور خراب حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ ہاشم موسوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ بیت پیغمبرؐ کی مودت کو اجر رسالت قرار دیتے ہوئے اسے تمام مسلمانوں پر واجب کیا ہے اہلِ بیت اطہار ؑ کے ایام غم کو شایان شان طریقے سے منانا مودت و محبت کے مصادیق میں سے ایک ہے۔ یوم عاشورہ وہ عظیم دن ہے، جس میں اسلام کو بچانے کی خاطر اہل بیت پیغمبر ؐ اور ان کے اصحابؓ نے لازوال قربانیاں پیش کیں جسکی وجہ سے آج نمازیں، مساجد عبادات سمیت دین مبین اسلام زندہ وجاوید ہے، لہذا یوم عاشورہ ایام اللہ میں سے ایک اہم دن ہے جسکا یاد کرنا اور دوسروں کو یاد دلانا ضروری ہے۔ اس دن نکالا جانے والا جلوس کسی خاص مسلک یا قوم سے مخصوص نہیں ہے حتیٰ اس میں غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی جلوس ہے جسکا روٹ مسلمہ طور پر طے شدہ ہے اس روٹ کو محدود کرنے کی باتیں تعصب اور فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی ہے، ہم نے کسی مسجد کو بند کرنے یا تالہ لگانے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے ہر فورم پر یہی مطالبہ کیا ہے کہ مساجد میں شیعہ سنی مشترکہ نماز جماعت کا اہتمام کیا جائے جس میں تمام شیعہ سْنی مسلمان اہل سنت امام جماعت کی اقتداء میں نماز ادا کریں تو مسلمانوں میں محبت واخوت پیدا ہو کر اتحاد بین المسلمین کو فروغ ملے گا۔ اس طرح کا بیان دینے کی بجائے مولانا فضل الرحمان سمیت تمام قومی لیڈرز اور خصوصاً اہلسنت علماء جلوس عاشورہ میں شرکت کر کے مسلمانوں میں اخوت ومحبت کا عملی پیغام دیں تاکہ مسلمان بھائیوں میں نفرتوں کا مکمل خاتمہ ہو کر وطن عزیز میں امن و امان قائم ہو سکے۔ دہشت گردی سے پہلے اہل سنت عوام بڑی تعداد میں جلوس ھاے عزاء میں شرکت کرتے تھے حتیٰ کہ بازار کی دکانیں بھی کھلی رہتی تھی لیکن دشمنان اسلام نے اتحاد بین المسلمین کے خاتمے کیلئے فرقہ وارانہ دہشتگردی کا آغاز کیا اور جلوس ھاے عزاء کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس کو کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے۔
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ محرم الحرام بلخصوص عاشورائے محرم کے موقع پر سکیورٹی اداروں کی کارکردگی مجموعی طور پر اطمینان بخش رہی اور بہتر سکیورٹی انتظامات پر جی بی پولیس، آرمی کے جوان ، جی بی اسکاوٹس اور انتظامیہ کی مجموعی کاوش لائق تحسین ہے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں انتظامی فورسز کے علاوہ دیگر اسکاوٹس بلخصوص العباس اسکاوٹس ، امامیہ اسکاوٹس اور دیگر سکاوٹس کی کارکردگی بھی لائق صد تحسین ہے جنہوں نے رضاکارانہ طور پر سکیورٹی خدمات سر انجام دیں۔ آغا علی رضوی نے کہا انتظامیہ اور فورسزکے علاوہ ریسکیو کی ٹیموں کی کاوش ، محکمہ صحت کے عملوں کی کاوشیں بھی لائق تحسین و تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ روایات کے برخلاف اس بار محکمہ برقیات نے جس انداز میں محرم الحرام میں بجلی لوڈشیڈنگ پر قابو کی وہ بھی مجموعی طور پر بہتر اور لائق تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سکیورٹی ادارے بلخصوص پولیس کے جوانوں کی وقت کے تقاضوں کے مطابق تربیت کے اقدامات اٹھائے بلخصوص انہیں وقت کے چیلننجز کے مطابق لیس کریں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ محرم الحرام کے پہلے عشرے میں انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے دیگر شہروں سے علماء کی آمد پر پابندی سے یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ عزادا ر ں کی وجہ سے بدامنی ہوتی ہے کیونکہ سال بھر کسی اور طبقے پر جی بی میں پابندی عائد نہیں ہوتی صرف مجالس کے آنے والے علماء پر پابندی افسوسناک اور شرمناک تھی ۔ اس میں بیلنس کرنے کے لیے کعلدم جماعتوں کے افراد پر پابندی عائد کر کے کھاتہ برابر کرنے کی کوشش کی جبکہ محرم میں کالعدم جماعتوں کے افراد کا نہ کوئی جی بی میں کام ہے اور نہ انکی جی بی میں آمد کے حوالے سے کوئی ماضی رہا ہے۔ آئندہ ایسے جانبدرانہ کارروائیوں سے باز رہے بلخصوص علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی گلگت میں آمد پر پابندی کو سرے سے قبول نہیں کرتے اسے مارائے قانون اور آئین قرار دیتے ہیں ہم جب چاہے اپنے سربراہ کو گلگت میں دعوت دے سکتے ہیں اس صورت میں جو مسائل پیدا ہونگے اسکی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوگی۔