The Latest

وحدت نیوز(اٹک) علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےبهوک ہڑتالی کیمپ کے مطالبات کی حمایت میں ملک گیر تحریک کے سلسلہ میں صوبہ پنجاب میں رابطہ مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے،مجلس وحدت مسلمین پاکستان پنجاب کی ھنگر سٹرائیک 4 جسٹس کے حوالے سےعوامی رابطہ مہم کے سلسلہ میں  ضلع اٹک کے زیر اہتمام سنجوال مسجد جعفر یہ میں ضلع بھر کی ماتمی سنگتوں ، علماء کرام زاکرین ، بانیان مجالس ، متولیان مساجد و امام بارگاہ ، اور مختلف طبقہ ھائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عمائدین ملت کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا گیا جس کی صدارت نامزد ضلعی أرگنائزر سید باقر حسین نقوی نے کی شرکاء کی بڑی تعداد سے علامہ اعجاز حسین بہشتی مرکزی سیکرٹری تربیت ، برادر نثار علی فیضی مرکزی سیکرٹری تعلیم اور نامزد سیکرٹری جنرل سید باقر نقوی نے شیعہ نسل کشی کے خلاف ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کے اغراض و مقاصد اور اب تک کی پیش رفت پر خطاب کیا ، علامہ اعجاز بہشتی نے کہا کہ یہ بھوک ہڑتال اور تحریک ملت کی عظمت کی عکاس ہے جو کامیابی سے ہمکنار ہو گی اس موقعہ پر شرکاء نے مجلس وحدت مسلمین کی شیعہ نسل کشی کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین صوبہ جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے پہلے مرحلے میں گیارہ رکنی صوبائی کابینہ کا اعلان کر دیا، نامزد صوبائی کابینہ کی تقریب حلف برادران جامعہ مسجد الحسین نیو ملتان میں منعقد ہوئی جس میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے خصوصی شرکت کی۔ مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے نامزد صوبائی کابینہ سے حلف لیا۔ جنوبی پنجاب کی پہلی صوبائی کابینہ میں سلیم عباس صدیقی اور محمد اصغر تقی کو ڈپٹی سیکرٹری جنرل، احسان اللہ خان بلوچ کو سیکرٹری سیاسیات، سید عدیل عباس زیدی کو سیکرٹری نشرواشاعت، سید محمد ثقلین کو سیکرٹری میڈیا سیل، سید جواد رضا جعفری کو سیکرٹری تنظیم سازی، سید فرخ مہدی کو سیکرٹری تربیت وتبلیغات، مولانا اسد عباس آہیر کو امام سجاد فائونڈیشن، طاہر عباس مگسی کو سیکرٹری فلاح وبہبود، انجینیئر سخاوت علی کو سیکرٹری تعلیم اور علی رضا خان کو سیکرٹری روابط کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس موقع پر صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی، بہاولپور، مظفرگڑھ، علی پور، رحیم یارخان، میانیوالی، بھکراور خانیوال کے سیکرٹری جنرل اور اُن کے نمائندگان موجود تھے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے سالہائے گزشتہ کی طرح امسال بھی آئی آر سی لان میں دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا۔ دعوت افطار میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکریٹری تربیت علامہ اعجاز بہشتی، خیرالعمل فاؤنڈیشن کے چیئرمین علامہ باقر زیدی، جعفریہ الائنس پاکستان کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری شبر رضا، آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے مرکزی محرکین علامہ مرزا یوسف حسین، صغیر عابد رضوی، مجلس ذاکرین امامیہ کے سربراہ علامہ نثار قلندری، آئی ایس او کراچی کے صدر یاور عباس، پیام ولایت فاؤنڈیشن کراچی کے صدر اسلم علوی، جے ڈی سی کے جنرل سیکریٹری ظفر عباس، سماجی رہنما ثمر عباس، اسکاؤٹ رابطہ کونسل کے سردار حسین اور معروف ذاکر اہل بیت (ع) علامہ فرقان حیدر عابدی سمیت علامہ جعفر رضا نقوی، علامہ موسیٰ عابدی، علامہ علی نقی، علامہ شیخ غلام محمد فاضلی، علامہ محمد علی فاضل قمی، میثم عابدی، منور جعفری، یعقوب حسینی، ذکی ہاشمی، علی احمر زیدی، معروف اسکالر راشد احد سمیت بڑی تعداد میں شیعہ تنظیموں کے عہدیداران اور ایم ڈبلیو ایم کے ذمہ داران نے شرکت کی۔ دعوت افطار کے شرکاء سے علامہ اعجاز حسین بہشتی، علامہ مرزا یوسف حسین، علامہ نثار قلندری، علامہ فرقان حیدر عابدی، شبر رضا سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا اور ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال اور ان کے مطالبات کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر نظامت کے فرائض علامہ مبشر حسن نے سرانجام دیئے۔ قبل ازیں نماز مغربین علامہ مرزا یوسف حسین کی اقتداء میں ادا کی گئی۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں،ظلم کرکے زندہ رہنا یا مظلوم بن کر۔یہ دونوں راستے استعمار کے بتائے ہوئے ہیں۔آج پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے زریعے انہی دونوں راستوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔

 ایک عام انسان جب سیاستدانوں کے بیانات سنتا،اخبارات پڑھتا اور ٹی وی دیکھتاہے تو وہ یوں سمجھتاہے کہ جیسے انسانیت ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔اسے یوں محسوس ہوتاہے  کہ جیسے اب انسان کے پاس ظلم کرنے یا ظلم سہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔وہ مظلوموں کو بے سہارا،انسانیت کو مایوس اور انسانی اقدار کو قصہ پارینہ سمجھنے لگتاہے۔

حالانکہ انبیائے کرام اور دینِ اسلام نے انسان کے سامنے ایک تیسرا راستہ بھی  رکھا ہے۔وہ تیسرا راستہ جسے ہم صراطِ مستقیم کے نام سے جانتے ہیں، صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے  جو حدِ وسط ہے،جو کلمہ اعتدال ہے،جو میزانِ حق ہے اورجو نورِ مستقیم ہے۔

صراطِ مستقیم یہ ہے کہ جس طرح ظلم کرنا ننگ و عار ہے اسی طرح ظالموں سے ہمکاری،ظالموں کی طاقت سے لوگوں کو مرعوب کرنا اور عوام النّاس کو ظلم قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کرنا بھی ذلت و رسوائی ہے۔

صراطِ مستقیم  ،لوگوں کو مظلوم بنانے کا دین نہیں بلکہ مظلوموں کو ظالموں کے خلاف کھڑا کرنے کا نام ہے۔

اس وقت استعماری طاقتیں مکمل منصوبہ بندی سے صراطِ مستقیم پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ میڈیا میں دنیا کے سامنے مسلمانوں کے صرف دوچہرے پیش کئے جارہے ہیں،مسلمان یا تو دہشت گردی کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور یا پھردہشت گردی کے شکار ہورہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی تربیت بھی مساجد اور مدارس سے دی جاتی ہے  جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی نماز جنازہ پڑھانے والے بھی مدارس و مساجد کے ترجمان ہوتے ہیں۔

مارنے والے اور مرنے والے دونوں کو اسلامی چہرے کے طور پر بڑھ چڑھ کر متعارف کروایا جاتاہے۔جبکہ اسلام کے حقیقی چہرےکو کہیں پر نہیں دکھایاجاتا۔

اگر کہیں پر  کو ئی مسلمان رہنما انسانی حقوق کی بات کرے،مظلوم کو مظلوم بن کررہنے سے نفرت دلائے تو اسے باقرالنمر اور شیخ زکزاکی کی طرح منظر عام سے ہٹادیاجاتاہے۔

استعمار کو گوارا نہیں کہ کوئی مسلمان رہنماانسانی حقوق، احترامِ آدمیت،آزادی رائے،بیداری اقدار اور عدالتِ عمومی  کی بات کرے۔استعمار یہ چاہتا ہے کہ مسلمان فقط  دہشت گرد کہلوائیں یا  پھر صرف مظلوم بن کر آنسو بہائیں۔

اس وقت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں،حکومت کی طرف سےبے گناہ لوگوں کی گرفتاریوں،سرکاری اداروں کی طرف سےدہشت گردوں کی پشت پناہی ،حکومتی سرپرستی میں دینی مدارس کی طرف سے دہشت گردی کی ٹریننگ اورتکفیریت کی تعلیم و تبلیغ کے خلاف  احتجاج کے نام پر جو کچھ ہورہاہے ،وہ چاہے کوئی بھی پارٹی کررہی ہے ،یا کوئی بھی گروہ کررہاہے یہ در اصل دنیا کو اسلام کی حقیقی شکل دکھانے کی ایک سعی اور کوشش ہے۔

مسلمانوں کے ایک دینی پلیٹ فارم سے ،اسلامی رہنماوں کی طرف سے بھوک ہڑتال کیمپ ،عالمی برادری کے لئے ایک پیغام اوربین الاقوامی انسانی اداروں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اسلام کی حقیقی شکل وہ نہیں ہے جو تمہیں  دکھائی جارہی ہے۔

اس احتجاج کے ذریعے پوری دنیا کو یہ پیغام مل رہاہے کہ جو بے گناہ انسانوں پر ظلم کرتاہے اور یاپھر مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی لاش پر آنسو بہاتارہتاہے وہ اسلام ، اسلام ِ محمدی ؐ نہیں ہے۔یہ دونوں اسلام کے وہ چہرے ہیں جو استعمارنے درہم و دینار اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تراش تراش کر دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔

اسلام حقیقی وہ ہے جو غافل انسانوں کو بیدار کرتاہے،جو مظلوموں کو ظالموں کے خلاف صف آرا کرتاہے اورجو انسانی اقدار اور مساوات کی علمبرداری کرتاہے ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا یہ احتجاج دنیا میں اسلام کے اس حقیقی چہرےکو متعارف کروانے کا نکتہ آغاز ہے۔دیگر مذاہب و مسالک اور مختلف ممالک کی شخصیات  کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین  کی حمایت اس بات کی دلیل ہے کہ اس احتجاج سے دنیا ایک مرتبہ پھر اسلام حقیقی کے چہرے کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔

دنیا کو ایک مرتبہ پھر یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ اسلام فقط مظلوم بن کر جینے،مسجد ،مدرسے اور اذان تک محدود نہیں ہے بلکہ اسلام عادلانہ سیاست ،ظلم کے خاتمے اور مظلوم کو اس کاحق دلانے کا دین ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس احتجاج میں جتنی شدت آتی جائے گی ،اسلام حقیقی کا چہرہ اتنا ہی نکھرتا جائے گا۔کل تک جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ

آج انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں،ظلم کرکے زندہ رہنا یا مظلوم بن کر۔اب انہیں یہ سمجھ میں آجائے گا کہ ایک تیسرا راستہ بھی ہے اور وہ غافل انسانوں کو بیدار کرنے، مظلوموں کو ظالموں کے خلاف صف آرا کرنےاور انسانی اقدار کی علمبرداری کرنے کا ہے ۔

اس سے پہلے جولوگ استعماری   دنیا کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ پاکستان میں تکفیریت نے شیعت کا راستہ روک دیا ہے،وہابیت نے اہل سنت کو دیوار کے ساتھ لگا دیاہے اور سیکولر تنطیموں نے مذہبی قیادتوں کو بلیک میل کردیاہے اور اب  پاکستانی کی دینی تنظیمیں اور مذہبی شخصیات ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہیں۔

 اس احتجاج کے ذریعے وہ  سیکولر اور سعودی عرب کے وظیفہ خور خود بند گلی میں پہنچ گئے ہیں،اب وہ اپنی ہی بنائی ہوئی بند گلی کے افق پر مجلس وحدت مسلمین کے فکری و نظریاتی سورج کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

سورج روشنی پھیلاتاہے،

روشنی اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے

چونکہ روشنی وجود رکھتی ہے

اندھیرے کی مجبوری ہے کہ

اندھیرا اپنے وجود کا اظہار نہیں کرسکتا

 وہ صرف سورج کو ڈوبنے کی بددعائیں دیتاہے

اندھیرے کی بددعائیں روشنی کا راستہ نہیں روک سکتیں

دنیا میں روشنی پھیل رہی ہے۔۔۔

ہم رہیں نہ رہیں  روشنی رہے گی

سلام اس روشنی پر کہ جس نے

لوگوں کو بند گلیوں سے نکال کر

انسانیت کی تاریک راہوں میں

اجالا کیا

سلام ان پر کہ  بھوک اور پیاس سے

جن کے پژمردہ جسموں کامستعار نام “اجالا “ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(ٹیکسلا) ایک عالمہ اور مبلغہ کی بلاجواز گرفتاری کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے صرف تبلیغ کے لئے پاکستان آنے والی خاتون کو اس انداز میں ایئرپورٹ سے گرفتار کرنا سراسر ظلم و زیادتی ہے، پرزور احتجاج کرتے ہیں، طالبہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار کا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے ٹیکسلا میں عظمت شہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمہ اور مبلغہ جو اسلامی جمہوریہ ایران سے صرف تبلیغ کے لئے پاکستان آئیں تھیں، انہیں ایئرپورٹ پر ایف آئی اے نے گرفتار کیا اور انسداد دہشت گردی کے ادارہ (سی ٹی ڈی) کے حوالہ کر دیا، جس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، ہم اس بربریت پر خاموش نہیں رہیں گے، جلد احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، حکومت فی الفور طالبہ کو رہا کرے۔

علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ ذلت ہمارے مکتب سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے آئمہ (ع) نے ہمیں عزت اور سربلندی کے ساتھ جینے کا طریقہ سکھایا۔ انہوں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیشہ ظالم کے مقابل سینہ تان کر ڈٹ جانا۔ مکتب تشیع نے ہمیشہ ظلم کا مقابلہ کیا، جس کی وجہ سے تشیع کو ہمیشہ تہ تیغ کیا جاتا رہا ہے۔ جب جب سلاطین نے رعایا پر ظلم کیا کوئی بولے نہ بولے حسین (ع) ابن علی کا عزادار ضرور بولا ہے۔ ہم نے قربانیاں دیں، کسی بھی قوم اور گروہ کو جتنا قتل کیا جاتا ہے، اس کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تلواروں سے بچے کھچے لوگوں کی نسلیں باقی رہتی ہیں۔ سادات کو طول تاریخ میں نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا، شیعیان حیدر کرار کو دیواروں میں چنوایا گیا، لیکن ثابت قدم رہے۔

   وحدت نیوز(رپورٹ :ظہیرالحسن کربلائی) اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پاکستان میں شعیان حیدر کرار کی کراچی،ڈیرہ اسماعیل خان،پشاور،پاراچنار اور ملک کے دیگر شہروں میںتسلسل سے جاری ٹارگٹ کلنگ اور سیکیورٹی اداروں و حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف بھوک ہڑتال کر رکھی ہے،یہ احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ 13مئی سے تاحال جاری ہے۔سخت گرمی،چلچلاتی دھوپ اور گرم لو کے تھپیڑے اس کھلے میدان میں بیٹھے ملت کے مخلص اور درد مند انسان کے ارادوں اور عزم کو کمزور نہیں کر سکے ،گذشتہ روز جب ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کیا تو ان کا وزن بارہ کلو کم ہو گیا تھا،اسلام آباد سے شروع ہونے والا ایک شخص کا احتجاج اب عالمی شکل اختیار کر چکا ہے ،پہلے تو اس بھوک ہڑتال کی گونج ملک کے دیگر شہروں میں سنائی دی اور مجلس وحدت سے وابستہ کئی شہروں کے ذمہ داران نے بھی اپنے شہروں میں یکجہتی کیمپ لگانا شروع کر دیئے،یہ سلسلہ لاہور،ملتان،کراچی،سکھر،خیرپور،حیدر آباد،چکوال،گلگت،سکردو،کوئٹہ،شہداد کوٹ،فیصل آباداور ملک کے کئی چھوٹے بڑے شہروں تک پھیل گیا،اس کے بعد اس احتجاجی بھوک ہڑتال کے ساتھ یکجہتی کے طور پر دیگر ممالک بالخصوص،انگلینڈ،جرمنی،امریکہ ،ایران،عراق تک پھیل گیا،اب شہر شہر اور ملک ملک میں یہ صدا سنائی دے رہی ہے ،اب ہر سو قاتلوں کی گرفتاری،ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام،اور سیکیورٹی اداروں و حکمرانوں کی جانبداری کے خلاف آواز سنائی دے رہی ہے،کوئی اس آواز کو دبا نہیں سکتا،کوئی اس اندھیر نگری اور چوپٹ راج کو چھپا نہیں سکتا،کوئی قاتلوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقاب کو اترنے سے روک نہیں سکتا،اگرچہ میڈیا نے ا س احتجاج کو ممکنہ حد تک نظر انداز کیا ہوا ہے،پیمرا نے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو باقاعدہ نوٹس بھی جاری کیا ہے جس کے بعد دیگر چینل مزید محتاط ہو گئے ہیں، مگرمیڈیا کب تک اس کو نظر انداز کر سکتا ہے جب یہ خبر ہر جگہ موضوع گفتگو بن جائے گی تو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے،سوشل میڈیا خود ایک بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے اور بسا اوقات تو یہ الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ تیز اور موثر بھی دکھائی دیتا ہے،اس بھوک ہڑتال کیمپ کو سوشل میڈیا پر بھی بڑی شد و مد سے پیش کیاجا رہا ہے ،جس کیوجہ سے وہ آواز جسے دبانے کی سازش ہو رہی تھی،جس پر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں وہ ہر سو سنائی دے رہی ہے،بھوک ہڑتال کیمپ میں اس وقت تک جتنے سیاسی ومذہبی قائدین،جماعتیں ،شخصیات اور گروہ تشریف لائے ہیں وہ ایک ریکارڈ ہے،ان سب کو بھی نظر انداز کرنا میڈیا کیلئے خاصا مشکل ہے،جبکہ اس بھوک ہرتال نے ملت تشیع کے مختلف طبقات کو بھی باہم جوڑ دیا ہے،علما و ذاکرین کا جو فرق عمومی طور پر محسوس کیا جاتا ہے اس تحریک میں وہ ختم ہو گیا ہے،راجہ ناصر عباس جعفری سے اظہار یکجہتی کیلئے اب تک بشمول،ذاکراہلبیت شوکت رضا شوکت، ذاکر اہلبیت مشتاق حسین شاہ،ذاکر اہلبیت سید ضرغام حسین شاہ،معروف خطیب محمد عباس قمی ،ذاکر اہلبیت ریاض حسین شاہ رتو وال اور ذاکراہلبیت اعجاز حسین جھنڈوی اس خیمہ حسینی میں تشریف لا کر ان مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کر چکے ہیں جو یہاں پیش کیئے گئے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں(پی پی پی ،تحریک انصاف ، ایم ،کیو، ایم ،پاک سرزمین پارٹی ، اے این پی ، عوامی مسلم لیگ ، آل پاکستان مسلم لیگ ، آفتاب شیر پائو پارٹی ،کے وفود ،تمام مسالک اوراقلیتی کے نمائندوں کے علاوہ ماتمی اور نوحہ خوان انجمنوں کے اراکین نے بھی اس خیمہ میںاپنی حاضری کو یقینی بنایا ہے ،
بھوک ہڑتال کیوں ۔۔۔ ؟؟؟؟؟
    عالمی استکباری صہیونی ایجنڈے کے مطابق یہ نااہل کرپٹ اور ظالم حکمران اور بعض اداروں میں موجود کالی بھیڑیں مملکت خدادادِ پاکستان کو ناامنی ، تباہی و بربادی کی آخری حد تک پہنچا چکے ہیں۔ جس کے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔پاکستان میں کراچی سے پارا چنارتک شیعہ ،سنی ،عیسائی،ہندو  اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے عدم تحفظ اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ پر ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی۔
۲۔تکفیریوں کا نام بدل بدل کر بھارت و اسرائیلی پلان کے مطابق ملک دشمن و اسلام دشمن سرگرمیوں کی ،ریاستی سرپرستی و حوصلہ آفزائی جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے مذہبی رسومات  جیسے جشن میلاد،اذان میں درود و سلام ،  عزاداری کی مجالس اورجلوسوں میں حکومت کی طرف سے ناروا رکاوٹیں۔
۳۔ملک کے بعض علاقوں مثلاً پاراچنار و گلگت میں لوگوں کے ہزاروں ایکڑ رقبہ پر حکومت کے قبضے اورآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی حکومتی سازش۔
۴۔اسرائیلی و استکباری اشاروں پر بننے والے نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کے بعد، مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش ۔
۵۔کراچی ، کوئٹہ ، ڈی آئی خان، پشاور اور پارا چنار میں بے گناہ لوگوں(سیاسی و مذہبی شخصیات ، ڈاکٹرز، انجینئرز،ججز،وکلاء ، پروفیسرز، نمازیوں اور عزاداروں ) کے قتل عام روکنے میں حکومتی عسکری اداروں کی ناکامی، اور فورسسز میں موجود بعض کالی بھیڑوں( جیسے پارا چنار میں کمانڈنٹ ملک عمر) کے حکم پر بے گناہ عوام پر فائرنگ و قتل عام ریاستی و عسکری اداروں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور ان کو متوجہ کرنے کے لئے سینکڑوں پریس کانفرسوں ، احتجاجوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں کے بعدہم نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔
    قارئین محترم ؛آپ گواہ ہیں کہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تعصب کی اندھی آگ میں یہ ملک جل کے راکھ ہو سکتا ہے،اگر حکمرانوں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہر سو دہشت و وحشت راج کرے گی،بد قسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے ،ڈیرہ اسماعل خان میں جہاں کچھ عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ رک گئی تھی ایک بار پھر اس فتنے نے پورے زور کیساتھ سر اٹھا لیا ہے،اور اب دن دیہاڑے ،کھلے عام ،بھرے بازاروں اور پولیس چیک پوسٹس کے سامنے اہل تشیع کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے،انہیں چن چن کے مارا جاتا ہے 19مارچ کے دن ایک شیعہ پولیس کانسٹیبل اظہر حسین کو شہید کیا گیا،اس کے بعد 22مارچ کو ایک امام بارگاہ کے متولی ایڈووکیٹ سید رضی الحسن کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں راہ چلتے موٹر سائیکل سواروں نے سر میں گولیاں مارکے شہید کیا گیا،جس کی سی سی کیمرہ فوٹیج میں نمایاں طور پہ دیکھاجا سکتا ہے،معلوم ہوا ہے کہ اس واردات کے مرتکب قاتلوں کو شہر میں لگے ہوئے چالیس کیمروں میں دیکھا گیا ہے پھر بھی کسی نے زحمت نہیں کی کہ دہشت گردوں کی تصویریں جاری کرتے تاکہ ان کو پہچان کے نشاندہی کی جا سکتی،اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ 5 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی دو مختلف وارداتوں میں ایک پروفیسر اختر علی،ایک ٹیچر مختیار بلوچ اور دو ایڈووکیٹس عاطف علی اور علی مرتجز کو سرکلر روڈ پر نشانہ بنایا گیا یہ دونوں وارداتیں چند منٹوں کے وقفے سے ہوئیں،ایک ہی دن چار پروفیشنلز کا قتل کسی قومی سانحہ سے کم نہیں تھا،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں 3اپریل کو جامعہ کراچی سے فزکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ہاشم رضوی کو نشانہ بنایا گیا،8  اپریل کو دو مومنین شاہد حسین اور علی سجاد کو ٹارگٹ کیا گیا،8 اپریل کو ہی سول سوسائٹی کے معروف قومی کارکن خرم ذکی کو نشانہ بنایا گیا خرم ذکی نے تکفیری قوتوں کو نتھ ڈالی ہوئی تھی اور ان کے خلاف توانا آواز بن چکے تھے،انہیں شدید جانی خطرہ تھا مگر سند ھ کی نااہل حکومت نے انہیں کسی قسم کی سیکیورٹی نا دی جس کا فائدہ دہشت گرد گروہ نے اٹھایا آخر انہیں ہم سے چھین لیا،خرم ذکی کو جن لوگوں سے خطرہ تھا وہ بہت ہی واضح تھے لہذا ن کیخلاف ہی ایف آئی آر کٹوائی گئی مگر نہایت افسوس کہ حکمران ان قاتلوں کو لگام ڈالنے کے بجائے انہیں کھلا چھوڑ رہے ہیں ، قاتل سرکاری گارڈز کی معیت میں پورے ملک میں گھومتے پھرتے ہیں ،جلسے جلوس کرتے ہیں،للکارتے ہیں،روزانہ نیشنل ایکشن پلان کا جنازہ نکالتے ہیں اور اسے پائوں میں روندتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیںپوچھتا،خرم ذکی کا غم اور دکھ ابھی تازہ تھا کہ پاراچنار میں معصوم اور بے گناہ مومنین کو نشانہ بنایا جاتا ہے ،امام حسین ؑ کے جشن ولادت کے عنوان سے جانے والے علما ء کو کرم گیٹ پر روک کر بری طرح ضدوکوب کیا جاتا ہے اس پر جب قبائلی احتجاج کرتے ہیں تو ایف سی کے متعصب اہلکار سڑک پر پرامن طور پہ بیٹھے عوام کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں ،تین مومنین شہید اور دس سے زائد زخمی ہوتے ہیںجنہیں ایف آئی آرز میں نامزد کیا جاتا ہے،یہ ظلم اور تشدد کسی بھی قوم و معاشرے کی تباہی کیلئے اور لوگوں کو بغاوت کیلئے تیار کرنے کیلئے کافی ہے مگر اس کے باوجود ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بھوک ہڑتال کر کے اپنے آپ کو زحمت اور سختی کا شکار کیا ہے ، اگر ہم اس ملک کے وفادار نا ہوتے تو تخریب کا راستہ اختیار کرتے ،اس ملک کے دشمنوں کی طرح خود کش دھماکے کرتے،بم چلاتے،فورسز کو نشانہ بناتے ،ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے مگر مکتب تشیع جو آئمہ کا مکتب ہے جو اہلبیت کا مکتب ہے جو کربلا کا مکتب ہے ہمیں اس کا درس نہیں دیتا ہم نے دنیا تک اپنے آواز پہنچانے کیلئے باوقار تہذیب یافتہ اقوام کا راستہ منتخب کیا ہے،ہم اس سے قبل جلوس نکال چکے،ریلیاں نکال چکے،دھرنے دے چکے،حتیٰ کہ لانگ مارچ کا تجربہ بھی کر چکے ،اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ دنیا ہماری آواز کو دبانہ سکے،ہمیں نظر اندازنہ کر سکے۔
دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ کا تسلسل؛
    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شیعہ قتل عام کوئی نئی بات نہیں ،یہ گذشتہ پینتیس برسوں سے وقفے وقفے اور تسلسل سے جاری ہے،اس کے مختلف فیزز ہم نے دیکھے ہیں،اور اس کی کئی اقسام سامنے آئی ہیں،کبھی تو یہ اہدافی قاتلوں کے ذریعے کسی شخصیت ،کسی عزادار،کسی نامی گرامی شیعہ رہنما،کسی ڈاکٹر،کسی استاد ،کسی پروفیسر یا ایجوکیشنسٹ،کسی شاعر،کسی مذہبی رہنما،کسی سیاسی شخصیت،کسی متولی،کسی نوحہ خوان،کسی ذاکر،کسی عالم دین کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی ان قاتلوں کے ذریعے اجتماعی قتل عام کا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے اور کسی بڑے اجتماع،کسی مجلس،کسی جلسے،کسی جلوس،کسی ریلی،کسی نماز باجماعت،کسی درگاہ،کسی دربار،کسی امام بارگاہ کو بیگناہوں کے خون سے رنگین کیا جاتا ہے، اگر ہم ملت تشیع کے مجموعی رویہ اور ری ایکشن کو دیکھیں تو بلا شک و شبہ یہ ایک پرامن قوم کے طور پہ سامنے آئے گی،سینکڑوں جنازے سامنے رکھ کے چار دن انتہائی بے ضرر احتجاج و دھرنے کی مثال کسی اور کے پاس نہیں ہماری ہی ہے جبکہ ہمارے مخالفوں کی تاریخ اور کارنامے اٹھائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک پاکستان ان کا وطن نہیں بلکہ یہ ہندوستان یا اسرائیل کے شہری ہیں جو پاکستان  کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں،آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر امریکہ نے کسی قبائلی ایریا میں کسی دہشت گرد گروپ کو کسی ڈرون کا شکار کیا ہے تو اس کا رد عمل پاکستان کو دیا جاتا ہے،پاکستانی عوام اور اس کے اثاثوں کو نقصان پہنچا کر فخریہ اس کی ذمہ داری لی جاتی ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے ہمارے وہ مہربان مذہبی جغادری بھی قائل نظر آتے ہیں جو بظاہر سیاسی جماعتیں ہیں مگر ان کی اصل طالبانائزیشن ہی ہے،لہذا یہ پاکستان افواج کو شہید کہنے سے کتراتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کا کوئی سرغنہ مارا جائے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھاتے ہیں جو اس ملک کے ّآئین سے روگردانی اور انحراف کے مترادف سمجھا جانا چاہیئے،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے آج تک کبھی بھی کہیں بھی برے سے برے حالات میں بھی پاکستان کی سیکیورٹی اداروں اور فورسز کو نشانہ نہیں بنایا،جبکہ ہمارے مقابل دہشت گرد گروہ نے اس ملک کے ہزاروں قیمتی فوجیوں و افسران کو نشانہ بنا کر فخریہ اس کو تسلیم کیا ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیںکہ سیکیورٹی اداروں اور متعصب حکمرانوں کا رویہ مکتب تشیع کے پیروان کے ساتھ انتہائی جانبدارانہ اور متعصبانہ رہتا ہے،کئی ایک واقعات و حادثات نے ثابت کیا ہے کہ ہمیں خواہ مخواہ رگڑا جاتا ہے،ہم سے تعصب برتا جاتاہے،ہمیں توہین آمیز سلوک کا شکار کیا جاتا ہے،ہمیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اقلیتی شہریوں جیسے حقوق بھی حاصل نہیں ان کیلئے تو آواز بلند کرنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں،عالمی ادارے و میڈیا بھی ان کی زبان بن جاتا ہے مگر ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
بقول شاعر
    ہر لحظہ ہے قتل عام یہاں اور کہتے ہیں کہ قاتل کوئی نہیں
نیشنل ایکشن پلان اورآن آف کا سوئچ:
    پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گردی کے بد ترین حملے کے بعد قوم سوگ اور غم و غصہ میں ڈوب گئی تھی،ہمارے سیکیورٹی اداروں نے بھی اس کے بعد بھرپور کاروائیوں اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت کا احساس کیا،پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک اکیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان منظور کیا،کراچی میں بھی آپریشن اور رینجرز کو وسیع اختیارات دیئے گئے تاکہ دہشتگردی کا خاتمہ کیا جاسکے ،قبائلی علاقوں میں پہلے ہی آپریشن ضرب عضب کے نام سے کاروارئیاں جاری تھیں،ہم جو اس آپریشن کا مطالبہ و تقاضا کرنے والوں میں سر فہرست تھے،ہمیں یہ امید تھی کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے تو اس ملک کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ حل ہو جائے گا اور قوم و ملک سکھ کا سانس لیں گے،ہم نے آرمی اور فورسز کو اختیارات دینے کی اس لیئے حمایت کی کہ سیاسی و حکومتی جماعتوں میں دہشت گرد گروہوں کے حامی موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی کاروائی کو اس کی روح کیساتھ ہونے سے پہلے ہی افشا کر دیتے ہیں یا پھر رکوا بھی دیتے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گرد صاف بچ نکلتے ہیں اور دہشت گردی کا طوفان کچھ عرصہ کے بعد پھر سے ہماری بنیادوں کو ہلانے کیلئے آ موجود ہوتا ہے،مگر ہم اس سے بھی مایوس ہوئے بد قسمتی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ملک کے دیگر شعبوں میں تعصب اور فرقہ واریت کا زہر سرایت کر چکا ہے ایسے ہی سیکیورٹی اداروں میں بھی ان عناصر کی موجودگی اور ان کا وجود بدرجہ اتم دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج بہت سارے ملت کے صاحب رائے افراد اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ دہشت گردی اور اس کا نیٹ ورک مکمل طور پہ ختم کرنا شائد اس ملک کے ذمہ دار حلقوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے،یہ ان کی ضرورت ہے جب چاہیں اس کا بٹن آن کر دیں اور جب چاہیں اس کا بٹن آف کر دیں ہے۔اگر نیشنل ایکشن پلان کی روح اور شقوں پر مکمل عمل درآمد کیا جاتا تو ان کالعدم گروہوں کے سربراہان کو جیلوں میں ہونا چاہیئے جن کی دہشت گردی اور قتل غارت گری کے ہزاروں واقعات ہر تھانے کی انویسٹیگیشن فائلوں میں ثبوتوں کیساتھ موجود ہیں،مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کوئٹہ میں ایک نامی گرامی دہشت گرد کو کھلے عام چھوڑا گیا ہے،کراچی کا ایک نامزد قاتل پولیس گارڈز کی معیت میں ملک کے طول و عرض میں جلسے کرتا پھرتا ہے،جبکہ دوسری طرف ہمارے لائسنسیافتہ جلوسوں کو روکا جا رہا ہے ،ان پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اگر کسی جلوس یامجلس میں دس پندرہ منٹ کی تاخیر ہو گئی ہے تو اس کی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے اور بہت سے ایسے نامور تنظیمی افراد کو بلاجواز فورتھ شیڈول میںڈال کے ان کا جینا حرام کر دیا گیا ہے اسی طرح بہت ہی معمولی باتوں پہ لوگوں کے خلاف توہین رسالت کے پرچے کاٹے جا رہے ہیں جبکہ اہل تشیع کی تکفیر کر کے سر عام قانون کا مذاق اڑایا جاتا ہے،انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیںہوتا،یہ رویے اور سلوک کسی بھی طرح ہمیں قبول نہیں ہیں ،ایسے رویوں کیساتھ ملک زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔
بھوک ہڑتال بیداری و حضوری کا ذریعہ:
    اسلام آباد میں لگایا گیا احتجاجی بھوک ہڑتال کا کیمپ نہ صرف پورے پاکستان کے تشیع کو بیدار کرنے اورانہیں میدان لا کھڑا کرنے کا سبب بنا ہے بلکہ اس کیمپ نے بہت دور تک اپنے اثرات چھوڑے ہیں،اب انگلینڈ،جرمنی،امریکہ کی مختلف ریاستوں اور عراق،ایران نیز کئی دیگر ممالک میں بھی ملت کو ہم آہنگ و بیدار کرنے کا باعث بنا ہے،جن لوگوں نے بھی دوسرے شہروں میں کیمپ لگائے ہیں انہیں تنظیمی ہدایات نہیں دی گئیں بلکہ وہ خود قیادت ،علما ء کو دیکھ کے میدان میں آئے ہیں ،ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ہمارے قائدین قوم کیلئے میدان میں اترے ہیں اور اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر رہے ہیں تو انہیں بہت تقویت ملی ،انہیں حوصلہ و ہمت ملا کہ یہ از خود میدان میں آگئے،یہ بات بے حد خوش آئند ہے کہ امامیہ اسٹودنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے بھی اس اقدام کی بھرپور حمایت کی اور اسے کامیاب بنانے کی اپنے تئیں کاوشیں بھی کیں،مرکزی صدر برادر علی مہدی بھی چند بار اسلام آباد کیمپ میں تشریف لے گئے اور راجہ ناصر عباس جعفری سے اظہار یکجہتی کیا،اسی طرح کئی شہروں سے عمائدین کے قافلے اسلام آباد پہنچ کر اس کیمپ کا حصہ بن رہے ہیںپاراچنار،ہنگو،پشاور،ڈیرہ اسماعیل خان،کراچی سے شہدا ء کے وارثین و عمائدین نے اسلام آباد میں حاضر ہو کر احتجاج میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور راجہ ناصر عباس جعفری کے مطالبات اور عمل کو سراہاہے۔13مئی سے مسلسل جاری رہنے والے اس احتجاج کے ذریعے شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا ایشو نمایاں ہو چکا ہے کوئی اسے نظر انداز نہیں کر سکتا، ڈیرہ اسماعیل خان جیسے پر خطر اور خوف و دہشت کی فضا میں نوجوانوں نے ایک بار پھر میدان عمل میں قدم رکھے ہیں اور ایجنسیوں کی دھمکیوں و قید و بند کے خطرات کو پس پشت ڈال کے احتجاجی تحریک چلا رکھی ہے تاحال یہاں روزانہ ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جو ملی بیداری کا بین ثبوت ہیں۔
بھوک ہڑتال ،تربیت و اصلاح کا پھلو؛
    ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص صوبائی ہیڈ کوارٹرز پر لگائے گئے بھوک ہڑتال کیمپس میں جہاں دیگر پروگرام چلتے ہیں،نعرے بازی،تقاریر،اور مطالبات دہرائے جاتے ہیں وہاں ان کیمپس میں دعا کی محافل سے روحانی ماحول نوجوانوں کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے،اس کیساتھ ساتھ یہاں شب شہدا ء کے پروگرام ہو رہے ہیں جن میں شہدا کے تذکرے اور ان سے اظہار عقیدت کیا جاتا ہے ،ان کی راہ پر چلنے کا عزم دہرایا جاتا ہے،ان کی جلائی گئی شمع کو روشن رکھنے کا عزم دہرایا جاتا ہے،اسی طرح ہم نے دیکھا ہے کہ شب ہائے اعمال بالخصوص پندرہ شعبان کی رات ان کیمپس میں دعائوں و مناجات اور اعمال و سحری کا  انتظام کیا گیا ،ان پروگراموں میں بلا تفریق مرد وزن اور بچے شرکتکرتے ہیں سماجی و صحافتی حلقے حیران و ششدر ہیں کہ یہ احتجاج کیسا ہے جس میں نہ تو توڑ پھوڑ ہے ،نہ ہلڑ بازی اور نہ ہی کوئی گالم گلوچ،نا کافر کافر کی صدائیں اور نا ہی کتاکتا کی آوازیں،بے شک یہ تہذیب یافتہ اور باوقار مہذب لوگوں کا احتجاج ہے۔
اہم مطالبہ اور امکانی صورتحال:
    جب یہ بھوک ہرتال اور احتجاج عالمی صورت اختیار کر گئی ہے تو دنیا یہ سوال کرتی ہے کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں اور کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر مطالبات پورے نا ہوئے تو کیاہوگا، ہر ایک کو انتظار ہے کہ اس بھوک ہڑتال کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا،ان سوالوں کے جواب میں ہی کچھ سوال ہیں کہ آیا ملت تشیع کی ٹارگٹ کلنگ تسلسل سے جاری ہے یا نہیں ۔۔تو ہر ایک کہتا ہے کہ ہو رہی ہے کسی کو انکار نہیں۔ہمارے قاتلوں کو حکمرانوں کی مدد،تعاون اور سرپرستی حاصل ہے یا نہیں تو اس سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا،اس لیئے کہ ہم کہہ کہہ کے تھک گئے پنجاب حکومت نے قاتلوں کی سرپرستی کرنے والے اپنے وزیر کو نہیں ہٹایا،دہشت گردوں کے سرغنہ کو سرکاری پروٹوکول دیا گیا ہے جبکہ کسی بھی کالعدم دہشت گرد جماعت کے سربراہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیئے،اسی طرح ہم سوال کرتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز جن کو اس دہشت گرد گروہ نے ناکوں چنے چبوائے ہیں اس کے سامنے ہمارے قتل کے فتوے صادر کرتے ہیں اور وہ ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں،اور اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پاراچنار میں سیکورٹی فورسز بلاجواز بے گناہ لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیتی ہیں ،ان کے خلاف اقدام کیوں نہیں اٹھایاجاتا،اگر فاروق ستار ایم کیو ایم کے لیڈر کے کوآرڈینیٹر کے دوران حراست قتل کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جا سکتا ہے تو ملت تشیع کے قاتلوں کو کیوں قانون کت کٹہرے میں نہیںلایا جا سکتا،کرم ایجنسی میں یہ دوسری بار ہمارے لوگوں کیساتھ زیادتی ہوئی ہے اس سے قبل کرنل توصیف نامی کمانڈنٹ نے جنگ کے دوران اپنی سرپرستی میں دہشت گردوں کے ذریعے بے گناہ و معصوم ٹرک درائیوز جن کی حفاظت کی ذمہ داری اس کی ڈیوٹی تھی کو جلوایا،لٹوایا اور آروں سے چروایا تھااب ایک بار پھر یہ ظلم روا رکھا گیا ہے،کوئی بتا سکتا ہے کہ ملت تشیع نے کب سیکیورٹی فورسز یا ادارے کے لوگوں کو جانی یامالی نقصان پہنچایا ہے،پھر یہ رویہ کس لیئے؟گلگت بلتستان کے بے آئین عوام کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے ،سڑسٹھ برسوں سے اس ملک سے وفاداری نبھانے والے صر ف اس وجہ سے بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھے گئے ہیں کہ ان کی غالب اکثریت اہل تشیع پر مشتمل ہے، اب ان کی زمینوں پر زبردستی قبضے کیے جا رہے ہیں انہیں ان کی آبائی زمینوں سے محروم کیا جا رہا ہے،کیا یہ ملک کسی ایسی بغاوت کا متحمل ہو سکتا ہے کہ ایک حساس خطے کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوںاور ریاست اور اس کے ادارے بے بس ہو جائیں،اس وقت تک تو حالات یہاں کے علما کے ہاتھ میں ہیں اور کنٹرول میں ہیں مگر اس بات کا امکان ہے کہ زیادتیوں کا تسلسل یہاں کے عوام کو اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کر دے۔لہذا  اس خطے کے مخلص اور وطن دوست عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیئے جائیں کجا یہ کہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں کو زبردستی چھین کر ان میں نفرتیں کاشت کی جائیں۔ایسا ہی کرم ایجنسی میں بھی ہو رہا ہے جہاں سازش کے ذریعے بہت سے علاقوں میں تکفیریوں کو لا کر آباد کیا جا رہا ہے جس پر اہل علاقہ میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔
    کے پی کے حکومت سے متعلق جو معاملات تھے انہیں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کیساتھ بھوک ہرتالی کیمپ میں ان کیآمد پر سامنے لایا گیا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پی ٹی آئی کے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایم پی اے بھی تشریف لائے اور اس کے بعد مجلس وحدت کی کمیٹی کے اراکین سے وزیر اعلی پرویز خٹک اور کئی وزرا کے ساتھ ملاقات ہوئی ،مطالبات پر نا صرف غور کیا گیا بلکہ عملی اقدامات کیلئے باہمی ،مشترک کمیٹیاں بھی بن گئی ہیں پاراچنار کے معاملات چونکہ وفاق کے تحت آتے ہیں اس لیئے ان کو ایپیکس کمیٹی میں اٹھانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
عزاداری پر کسی قسم کی قدغن قابل قبول نہیں :
    ایک اور ایشو جو اس بھوک ہڑتال سے متعلق ہے وہ عزاداری کو محدود کرنے اور بانیان و عزاداران پر بہت ہی معمولی باتوں پر درج ہونے والی ایف آئی آرز ہیں جو پنجاب میں گذشتہ محرم میں درج ہوئیں،اسی طرح ذاکرین و علما کرام کو ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جانے پر پابندی کا قانوں ایام محرم میں ظلم و زیادتی کے مترادف ہے جسے کسی بھی طور قبول نہیں کیا جا سکتا،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھوک ہرتال کے ذریعے پنجاب حکومت کو یہ پیغام دیاہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے پرہیز کرے ۔
    سوال پھر یہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ اتنے دن بھوک ہڑتال کر کے حاصل کیا ہوا،میرا ذاتی خیال ہے کہ اس بھوک ہڑتال پہ بہت زیادہ خرچ نہیں کیا جا رہا ،مگر اس سے جو کچھ حاصل کیا جا رہاہے وہ بہت کچھ ہے،اگر اس کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو اس مقصد کیلئے ایک دن اس تپتی ،چلچلاتی دھوپ اور سخت خطرات میں بھوک ہرتالی کیمپ میں جانا پڑے گا،آپ لوگوں کے جذبے،شوق،محبت،عقیدت،بیداری،تحرک،،خلوص،ایثار،قربانی،اور امید کو دیکھیں گے، آپ دیکھیں گے کہ ایک مرد میدان اور مخلص شخص نے اس قوم کی خاطر اپنا وظیفہ سرانجام دیا جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی سے قوم و ملت کی کامیابی کی امید لگا رکھی ہے ۔
تاحال :کیا کچھ حاصل کیا ہے۔
1۔جس طرح کوئٹہ کے واقعات میں تشیع نے اپنی مظلومیت سے پاکستان سمیت پوری دنیا کو بیدار کر دیا تھا۔ آج ایک بار پھر شہداء پارا چنار ، ڈیرہ اسماعیل خان ، پشاور اور پورے ملک پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی کی مظلومیت سے قوم بیدار ہو رہی ہے۔ قوم میں ایک تڑپ جذبہ اور بڑی بیداری پیدا ہو گئی۔
2۔دیگر مکاتب فکر و مسالک اور سیاسی پارٹیاں، تشیع کی مشکلات سے آگاہ نہیں تھیں۔ آج سب ہماری قوم کی مشکلات سے آگاہ ہو رہے ہیں بلکہ تمام پارٹیاں اور مسالک ہمارے کیمپ پر آ کر ہماری قوم سے اظہاریکجہتی بھی کر رہے ہیں۔اور ہمارے مطالبات کی بھی غیر مشروط حمایت کر رہے ہیں۔
3۔مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں سے متعلق جو جو مشکلات تھیں۔ تمام حکومتوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچ رہی ہیں۔
4۔خصوصاً خیبر پختونخواہ تحریک انصاف کی حکومت، عمران خان اور مسلسل اس کے وزراء کیمپ پر پہنچ رہے ہیں۔ اور پرویز خٹک کی حکومت سے تقریباً ایک دو کو چھوڑ کر تمام مطالبات پر بات ہو چکی ہے۔ اور کافی حد تک بات معاملات آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ مطالبات مان لئے گئے۔
5۔یہ عوامی اور مظلومیت کی آواز ایک چھوٹے سے کیمپ سے شروع ہوئی تھی آج ایک عالمی بیداری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
6۔شیعہ قوم کا نقطہ نگاہ تمام فیصلہ سازی کے مراکز تک پہنچ چکا ہے۔
7۔شہداء کے خون کو چھپنے نہیں دیا۔
ہمارے مطالبات
1۔پاکستان میں شیعہ نسل کشی میں ملوث تکفیر ی دہشتگروں کے خلاف ملک گیر آپریشن کیا جائے۔
2۔ ریاستی اور عسکری ادارے شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث دہشتگروںکے خلاف کاروائی کریں اور مجرمانہ خاموشی ختم کریں۔
3۔کالعد م تنظیموں کے خلاف فوری کاروائی کا آغاز کیا جائے، نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکا جائے۔
4۔ملک میں شیعہ مسلمانوں پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں بالخصوص سانحہ شکارپور ، سانحہ جیکب آباد، سانحہ چلاس ، سانحہ بابو سر ، سانحہ حیات آباد سانحہ عاشور ہ، سانحہ راولپنڈی سمیت تمام سانحات کے مقدمات کو ملٹری کورٹس میں بھیجا جائے۔
5۔پاکستان میں موجود تمام مسالک اور مذہب کے لوگوں کو تکفیری دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
6۔پنجاب حکومت اپنی شیعہ دشمن پالیسی فوراً ختم کریں، عزاداری سیدالشہدا ء پرغیر اعلانیہ پابندیاں ، شیعہ عمائدین اور بانیاں مجالس کے خلاف ایف آئی آرز ختم کی جائیں، ذاکرین اور علماء پر پابندی کا فوری خاتمہ اور جن شیعہ عمائدین کو ناجائزطور پر شیڈول فور میں ڈالاگیا ہے۔ انھیں فوراً شیڈول فور سے نکالا جائے۔
7۔خیبر پختونخواہ حکومت شیعہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی ختم کرے اور دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کاروائی کرے۔
8۔پاراچنار کرم ایجنسی میں ایف سی کے ہاتھوں شہید ہونے والے بے گناہ مظاہرین کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ کمانڈیٹکرم ایجنسی ، پولیٹیکل ایجنٹ اکرام اللہ اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ شاہد علی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
9۔ گلگت  بلتستان اور پارا چنار کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی سازش اور حکومتی سرپرستی میں شیعان حیدر کرار کی زمینوں پر قبضہ کا سلسلہ فوری طور پر ختم کیا جائے۔
10۔ مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں۔

                    والسلام

وحدت نیوز (رپورٹ: ناصر رینگچن) حال ہی میں شیعہ نسل کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شیعہ نسل کشی پر ریاستی و عسکری اداروں کی خاموش تماشائی کو دیکھتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک بھر میں احتجاج اور بھوک ہڑتال کی کال دے دی۔ مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھوک ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جاری شیعہ نسل کشی کے خلاف ہر حربہ آزما چکے ہیں ، مظاہرہ، دھرنے سب کچھ کر چکے ہیں مگر بے حس حکمران پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام میں ناکام ہوچکے ہیں اور ان کرپٹ اور نالائق حکمرانوں سے کوئی اچھائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی لہذا اب میں مجبور ہو چکا ہوں کہ اس وقوم اور ملک کی مفاد کی خاطر بھوک ہڑتال کروں۔

یاد رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں مضبوط سیاسی و مذہبی جماعت ہے جنہوں نے ۲۰۱۳ میں سانحہ علمدار چوک کوئٹہ کے بعد ملک بھر میں شیعہ نسل کشی کے خلاف دھرنے دے کر بلوچستان کے وزیر اعلی اسلم رئیسانی کو استعفی پر مجبور کیا تھا اور ملک بھر میں کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک اور بیرونی ملک امریکہ، کینیڈا ،لندن سمیت کئی غیر ممالک میں پاکستانی سفارت خانہ کے باہر دھرنا دیا گیا تھا اس طرح ملک کے تمام اہم شاہراہوں کو بند کر کے ملک کو مفلوج کر دیا گیا تھا۔ مگر انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ملک کے کسی کونے میں بھی کوئی پتہ نہیں ٹوٹا کہی کوئی ناخوشگوار واقع رونما نہیں ہوا اور مطالبات کی منظوری کے بعد عوام پور امن طریقہ سے منتشر ہوئے تھے۔

سانحہ پاراچنار، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کی کال پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور اسلام آباد میں بھی مظاہرہ G-6 امام بارگاہ سے نکال کر نیشنل پریس کلب اسلام آباد تک لایا گیا جس کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عوام کو پر امن منتشر ہونے کی تلقین کرتے ہوئے خود پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کرنے کا علان کیا جس کے بعد آج اس پور امن بھوک ہڑتال کا نواں روز ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ وہ احتجاجی مظاہرہ اور دھرنے دے کر تنگ آچکے ہیں لہذا اب وہ اپنے دس نکاتی مطالبہ کی باقاعدہ منظوری تک بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے ۔مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ"پاکستان کے حکمرانوں نے ملک میں ظلم و بربریت ، کرپشن اور لاقانونیت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔اس ظلم کے خلاف اگر ایک سال بھی بھوک ہڑتال کرنا پڑی تو کریں گے"

ان کا مزید کہنا تھا "اگر حکومتی رویہ میں تبدیلی نہ آئی تو احتجاج کے لئے آگے کی طرف بھی بڑھا جا سکتا ہے"
خیبر پختونخواہ کی حکومت اور عمران خان کے بارے میں کہنا تھا " کے پی کے کی حکومت کو عمران خان مثالی حکومت کہتے ہیں مگر حقیقت میں کے پی کے میں عمران خان مکمل ناکام ہو چکی ہے، اس صوبے میں تعلیمی ادارے، مساجد،بزنس مین،وکلا اور مختلف شعبوں کے ماہرین سمیت کوئی بھی شہری محفوظ نہیں، تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس قتل و غارت پر حکومت کی طرف سے تعزیت تک کرنا گوارہ نہیں کیا جاتا،انہوں نے کہا کہ پارہ چنار میں قتل ہونے والے بے گناہ افراد پر ایف سی کمانڈر کی طرف سے گولیاں چلائیں گئی، وہاں کے سیکورٹی اداروں اور پولیٹیکل ایجنڈوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایف سی اور لیویز کے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کے لئے کمیشن تشکیل دیا جائے"

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملک میں امن کے قیام اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لئے حکومت کے سامنے اپنے دس نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے ہیں۔مجلس وحدت مسلمین کے مطالبات یہ ہیں ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ شیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ملک گیر آپریشن شروع کیا جائے۔ ریاستی اور عسکری ادارے شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف فوری کاروائی کریں اور مجرمانہ خاموشی ختم کریں۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف فوری کاروائی کا آغاز کیا جائے اور نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم جماعتوں کی سر گرمیوں کو روکا جائے۔ملک میں شیعہ مسلمانوں پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں بالخصوص سانحہ شکارپور، سانحہ جیکب آباد، سانحہ چلاس، سانحہ بابوسر، سانحہ حیات آباد، سانحہ عاشور اور سانحہ راولپنڈی سمیت تمام سانحات کے مقدمات کو ملٹری کورٹس میں بھیجا جائے۔ پاکستان میں موجود تمام مسالک اور مذہب کے لوگوں کو تکفیری دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔پنجاب حکومت اپنی شیعہ دشمنی فوری ختم کرے۔ عزاداری سید الشہداپر غیر اعلانیہ پابندیاں، شیعہ عمائدین اور بانیان مجالس کے خلاف ایف آئی آر ختم کی جائیں۔ علما و ذاکرین پر عائد پابندیوں کا مکمل خاتمہ اور جن لوگوں کا نام بلاوجہ شیڈول فور میں ڈالا گیا ہے اسے نکالا جائے۔ خیبر پختونخواہ حکومت شیعہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی ختم کرے اور دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کاروائی کی جائے۔پاراچنا کرم ایجنسی میں ایف سی کے ہاتھوں شہید ہونے والے بے گناہ مظاہرین کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے اور کمانڈیٹ کرم ایجنسی ، پولٹیکل ایجنٹ اکرام اللہ اور اسسٹنٹ پولٹیکل یجنٹ شاہد علی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔گلگت بلتستان اور پارا چنار کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی سازش اور حکومتی سر پرستی میں شیعیان حیددر کرار کی زمینوں پر قبضہ فوری ختم کیا جائے۔ مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں۔

ان مطالبات کی حق میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے اسلام آباد میں شروع ہونے والا بھوک ہڑتال آہستہ آہستہ ملک کے دوسرے صوبوں میں پھیل رہی ہے اور شیعہ نسل کشی کے خلاف مجلس وحدت کی حمایت میں کراچی، لاہور،حیددآباد، کوئٹہ اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے ۳۷ مختلف جگہوں پر علامتی بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں جاری دہشت گردی قتل و غارت گری کے خلاف اس بھوک ہڑتال کی اثرات بیرونی ملک میں بھی پڑرہی ہے اور لندن واشنگٹن میں بھی شیعہ علمائے کرام اور محب وطن پاکستانی شہریوں نے پاکستانی ہائی کمشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔
ادھر بھوک ہڑتال نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچا دی ہے اور کوئی دبے لفظوں میں حمایت کررہے ہیں تو کوئی دن کی اجالوں میں وفد کے ہمراہ نیشل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے بھوک ہڑتال کیمپ میں آکر ظلم و ناانصافی کے خلاف اس احتجاج میں اظہار یکجہتی کر تے نظر آرہے ہیں۔اس احتجاجی کیمپ میں اب تک پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی،پاکستان عوامی تحریک،سنی اتحاد کونسل ،جماعت اسلامی، ملی یکجہتی کونسل، سول سوسائٹی،انسانی حقوق کے تنظیموں ،تمام شیعہ تنظیموں اور انجمنوں سمیت ہندو، مسیحی اور دیگر مذاہب کے اہم رہنما اور وفد نے شرکت کی اور علامہ راجہ ناصر عباس کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ تنظیموں کے علاوہ علمائے کرام اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شخصیات اور جوانوں کا بھوک ہڑتال کیمپ میں آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے نائب صدر شیری رحمان کی سربراہی میں احتجاجی کیمپ میں علامہ راجہ ناصر عباس سے ملاقت کی اور بھوک ہڑتال کی مکمل حمایت کر تے ہوئے اعلان کیا کہ " ہم ملت جعفریہ کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ آج سے ہم آپ کی آواز قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت ہر فورم پر اٹھائیں گے اور اس مشکل وقت میں اہل تشیع کے ساتھ کھڑے ہیں".

پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے بھی نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مجلس وحدت مسلمین کے بھوک ہڑتال کیمپ میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے اظہار یکجہتی کے لئے تشریف لائے جہاں دونوں رہنماں کے درمیان مجلس وحدت کے مطالبات اور ملکی صورتحال پہ بات چیت ہوئی۔ تحریک انصاف کے چیرمین نے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ہمراہ پریس بریفنگ میں کہا کہ مذہب کے نام پر کسی مخصوص مسلک کو ٹارگٹ کرنا ظلم و نا انصافی کی انتہا ہے میں خیبر پختوانخواہ میں ہونے والے ان واقعات کی مذمت کرتا ہوں اور آپ کے تحفظات دور کرنے کا یقین دلاتا ہوں، ہم اس معاملے کو اپیکس کمیٹی میں بھی لے کر جائیں گے۔ مجھے ان معاملات سے لا علم رکھا گیا ہے ، ہماری جماعت کے وزیر شہدا کے گھروں میں جا کر تعزیت کریں گے اس کے ساتھ ساتھ ایم ڈبلیو ایم سے مستقل رابطہ رکھا جائے گا تاکہ دونوں جماعتوں کے درمیان بہترین تعلقات بر قرار رہیں،شیعہ نسل کشی کے واقعات پر افسوس ہے اور قاتلوں کی گرفتاری کے لئے اپنی جماعت کے مکمل تعان کا یقین دلا یا"۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر زاہد خان نے بھی بھوک ہڑتال کیمپ کی حمایت اور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا "دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف مجلس وحدت مسلمین اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی موقف ہے اور ہم شیعہ نسل کشی پر ایم ڈبلیو ایم کے مطالبات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے"

ملی یکجہتی کونسل کے وفد کونسل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی قیادت میں بھوک ہڑتال کیمپ میں علامہ راجہ ناصر سے ملاقات کی اور اظہار یکجہتی کیااس وفد کے ہمراہ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب صدر میاں اسلم بھی موجود تھے۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئر مین صاحبزادہ حامد رضا نے میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ" جس ملک میں اپنے جائز حقوق کے لئے ایک ملک گیر مذہبی و سیاسی جماعت کے قائد کو بھوک ہڑتال کرنی پڑے وہاں عام آدمی کو اپنے مسائل کو حل کرنے لے لئے کتنی مشکلات کا سامنا ہوگا، نون لیگ حکومت دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے".

پاکستان عوامی تحریک کے سیکریٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے مجلس وحدت مسلمین کے احتجاجی کیمپ میں علامہ راجہ ناصر عباس سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا"لا قانونیت اور ریاستی اداروں کی بر بریت کے خلاف جنگ میں مجلس وحد ت مسلمین تنہا نہیں بلکہ پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہیں"

اسی طرح جمعیت علما ئے پاکستان نیازی کے سربراہ پیر معصوم شاہ نے بھی مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کے ساتھ اظہار یکجہتی اور دس نکاتی ایجنڈے پر فوری عمل داری کا مطالبہ کیا۔

آخر یہ فرقہ وارانہ فسادات کیوں شروع ہوئے ؟ آخر یہ نوبت کیوں آئی کی بھوک ہڑتال کرنا پڑا؟اگر ہم تھوڑی سی تاریخ دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب وطن عزیز پاکستان آزاد ہوا تھا تو اس ملک میں کوئی فرقہ واریت کوئی نسل مذہب کی لڑائی نہیں تھی شیعہ ، سنی ہندو، مسیحی سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہتے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خود شیعہ تھے اور اسی طرح علامہ اقبال سنی تھے امگر ان سب نے مل کر پیار و محت سے یہ وطن بنایا تھا، وطن عزیز کی آزادی کے وقت پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے والا شخص نواب آف محمود آباد خود شیعہ تھے اور قائد اعظم کا دوست بھی تھا جنہوں نے اُس دور میں کروڑوں روپے نقدی اور مالی امداد کی اسی طرح تاریخ میں بے شمار واقعات موجود ہیں ۔مگرکچھ قوتیں ایسی تھی جن کو پاکستان کے امن و سکون اور سلامتی بر داشت نہیں ہوتی تھی انہی قوقتوں نے وطن عزیز پاکستان میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانا شروع کیا اور ایک خاص فکر کے حامل لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا تاکہ وطن عزیز پاکستان کے امن سکون کو برباد کر سکیں اور پاکستان میں فرقہ واریت کو فروغ دے سکیں۔

فرقہ واریت کا پہلا سانحہ خیرپور میں 1963 کو پیش آیا جس میں 118شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا،اس کے بعد اس تکفیری فکر کے حامل لوگوں کو سیاسی اور مذہبی پشت پناہی حاصل ہوتی رہی اور یوں جنرل ضیالحق 1977-1988 کے دور میں تکفیری فکر کے حامل جماعت ایک خاص قوت کی شکل میں سامنے آئی اورپورے پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑک اٹھی اور سانحات در سانحات رونما ہوتے گئے کبھی گلگت بلتستان پر یلغار ہوئی تو کبھی مسجدامام بارگاہوں میں دھماکے تو کبھی جلوسوں پر خودکش حملہ ، تو کبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات، ڈاکٹرز، وکیل، انجئنیرز پر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے، تو کبھی بسوں سے اتار کر بے گناہ محب وطن پاکستانیوں کو شناختی کارڑ چیک کر کے مارا جاتا رہا۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
یوں وطن عزیز پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا، ایک سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا بیس فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ شیعہ آبادی پاکستان میں ہے اور اسی طرح دوسرے نمبر پر سب سے بڑا سنی مسلمان ملک بھی پاکستان ہے۔ پاکستان کے سینٹ پارلیمنٹ سے لیکر ہر ادارے کے ہر شعبہ میں شیعہ مسلمان پاکستان کی ترقی کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں خصوصا پاک فوج میں ایک کثیر تعداد شیعہ جوان اپنے جان اس وطن عزیز کی حفاظت پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہزاروں جوانوں نے وطن عزیز کی سالمیت اور حفاظت کی خاطر اپنے جانوں کے نذرانے دے چکے ہیں کرگل،سیاچن سے لیکر سندھ کے سحراوں تک ہر سرحد پر شیعہ جوان وطن کی حفاظت کے لئے تیار کھڑے ہیں، مگر افسوس کی وطن عزیز کے اس محب وطن شہریوں کو آئے روز قتل کیا جارہا ہے ہے کبھی گولیوں سے مارا جاتا ہے تو کبھی بم دھماکوں سے اور انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق 1968سے اب تک ۲۳ہزار کے قریب شیعہ جوانوں ، بچوں، خواتین، ڈاکٹرز، فوج کے آفیسرز، وکیل، ٹیچرز اور عام شہریوں کومذہبی بنیادوں پر قتل کیا جا چکا ہے۔

2003 سے 2015 تک کے اگر اہم واقعات کو ہم دیکھیں توسینکڑوں مسلمانوں کو بے گناہ شہید کیا گیا ہے مندرجہ زیل میں جن وقعات کا ذکر ہو راہا ہے یہ صرف بڑے سانحات ہے جو ان تیرہ سالوں میں رونما ہوئے اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ اور چھوٹے موٹے واقعات الگ ہے جن کی ایک لمبی فہرست ہے جن سب کایہاں ذکر ممکن نہیں ، اس کے علاہ اس سروے کے مطابق ۲۰۱۰ سے ۲۰۱۵ کے پانچ سال کے عرصہ میں ۴۰ ڈاکٹرز کو بھی قتل کیا ہے جس سے ہم اچھی طرح اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ ان سانحات سے قوم و ملت کو کس قدر نقصانات ہوئے۔پچھلے تیرہ سالوں میں جو اہم واقعات ہوئے ہیں مثلا محرم کے جلوس ،امام بارگاہوں اور مساجد پر بم دھماکوں اور خودکش حملوں سمیت زائرین اور عام مسافروں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڑ چیک کر کے جو قتل کیا گیا ہے جیسے ،پشاور کے قصہ خوانی بازار میں محرم کے جلوس پر خودکش حملہ ،لاہور میں حضرت امام علی ؑ کے یوم شہادت پر نکالے گئے ایک جلوس پر خودکش حملہ، سانحہ کوہستان ،سانحہ چلاس ،فاٹا کرم ایجنسی کے مرکزی بازار میں ایک مسجد کے قریب خودکش دھماکہ، بلوچستان کے علاقے تربت میں زیارات پر جانے والے زائرین کی بس پر فائرنگ ،سانحہ مستونگ میں زائرین کی بس پر حملہ ،کوئٹہ علمدار روڑ کا سانحہ جس میں ۱۰۵ شہیدہوئے، ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ ، عباس ٹاؤن بم دھماکوں ، سانحہ شکارپور صرف ان بڑے سانحات میں شہید ہونے والوں کی تعداد تقریبا ۸۰۲ کے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ نامور ادیب،وکیل ،ڈاکٹرز علماء،ذاکرین اور عام شہریوں کو شہید کرنے کہ ایک داستان اور طویل فہرست موجود ہیں۔

حکومت نے سانحہ پشاور اسکول کے بعد دہشت گردوں کے خلاف بھر پور آپریشن شروع کی جو بعض علاقوں میں کامیاب رہی ،مگر پنجاب ، سندھ سمیت دیگر شہروں میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کی شہادت کو نہ روک سکی ، نہ ہی شہروں میں موجود دہشت گردوں کے پناہ گاہوں اور سہولت کاروں کے خلاف کوئی موثر کاروائی نہیں ہو سکی۔ نیشنل ایکشن پلان تو بنا یا گیا مگر اس کا نتیجہ صفر رہا بلکہ ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں بے گناہ لوگوں کو گرفتار اور جلوس و عزاداری پر پابندیاں لگا کر آئینی مذہبی حقوق اور آزادی کو پامال کیا جا رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ہی دن میں چار پروفشنلز کو شہید کیا گیا جن میں سے ۲ وکیل اور ۲ ٹیچرز تھے جن کو بے گناہ سر عام شہید کیا گیا اور ان کی سی سی فوٹیج بھی موجود ہیں، اس کے بعد کراچی میں سول سوسائٹی کے سر گرم کارکن خرم زکی کو شہید کیا گیا جن کا جرم یہ تھا کہ وہ حق اور مظلوموں کی آواز کو دبنے نہیں دیتے تھے اور ہر مظلوم کی حمایت کرتے تھے خواہ وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اور ہر ظالم سے نفرت کرتے تھے خواہ اس کے لئے اسے جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ خرم زکی نے وطن عزیز کو مضبوط بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف عوام کو متحد کرنے میں نہایت اہم کر دار ادا کیا انھوں نے اسلام آباد میں موجود لال مسجد کے خطیب مولوی عبد العزیز کے خلاف بھی بھر پور تحریک چلائی اور اسی جرم میں ان کی گرفتاری بھی ہوئی۔ ابھی سانحہ کراچی کا غم کم نہیں ہوا تھا کہ پاراچنار میں ایک اور سانحہ پیش آیا ، پاراچنا میں ۳ شعبان کو جشن ولادت امام حسین ؑ منعقدکیاجا رہا تھا جس میں شرکت کے لئے ملک کے مختلف حصوں سے شعراء اور علما ئے کرام کو بطور مہمان دعوت دی گئی تھی مگر ایف سی اور پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکاروں نے پاراچنار جانے والے مہمانوں کو بلا وجہ کے روک دیا گیا اور ان کی پاراچنار داخلہ پر پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے پاراچنار میں عوام سراپا احتجاج بن گئے اور عوام نے پر امن احتجاج کرتے ہوئے ایف سی اور سیکورٹی اہلکاروں سے مہمانوں کو پاراچنار داخل ہونے کی اجازت طلب کی لیکن ایف سی کے اہلکاروں نے عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کو منتشر کرنے لئے اسٹریٹ فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں جس میں ۴ شیعہ مسلمان شہید اور ۱۷ زخمی ہوئے۔

اس ظلم و بربریت کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کی بھوک ہڑتال نے نہ صرف عوامی ،حکومتی اور سیاسی حلقوں میں ہل چل مچا دیا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی احتجاجی آواز کو بلند کیا ہے ۔ ٹویٹر، فیس بک، وٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا زرائع پر بھی ہش ٹیک کا سلسلہ عروج پر ہیں سب سے زیادہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پہلے پوزیشن میں آنے والا ہش ٹیک #HungerStrike4Justice ہے جو نو دنوں سے مسلسل سوشل میڈیا پر نمایاں ہے ٹیویٹر پر موجود اہم شخصیات، سماجی سیاسی اور مذہبی کارکن اور تنظیموں نے مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ہے اس ٹرینڈ کو اپنا رہے ہیں۔

مجلس وحدت کا یہ احتجاجی بھوک ہڑتال کیمپ روز بہ روز شدت پکڑتا جا رہا ہے جمعہ کو مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ملک گیر میں"یوم جمعتہ الوفا" منایا گیا اور ملک بھر میں بعد از نماز جمعہ احتجاجی ریلیاں نکالی گئی اور اسلام آباد کا مرکزی جمعہ نیشنل پریس کلب سے سامنے علامہ راجہ ناصر کی اقتدار میں منعقد ہوا۔ جس میں سینکڑوں لوگوں نے شر کت کی اور شیعہ نسل کشی پر ریاستی وعسکری اداروں کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف بھوک ہڑتال کی مکمل حمایت کی گئی۔ لیکن نیند اور عیش و عشرت میں غافل حکمرانوں کو ٹس مس نہیں ہوئے جو ان کی بے حسی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔حکومت کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں مظلومین کے مطالبات اور حق پر فوری عمل درآمداور جرآت مندانہ کاروائی کر نے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نظر نہیں آرہا جب تک فوج، سیاسی حکومت اور لوگوں کے درمیان بہتر تعاون اور اشتراک قائم نہ ہو۔وطن عزیز میں سیکورٹی کی مجموعی صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ملک کو لاحق اہم سیکورٹی چیلنچز اب بھی حل طلب ہے آپریشن ضرب عضب کے بعد بھی ملک میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے لہذا ملک کے تمام سیاسی جماعتیں، عسکری ادارے اور دیگر سیکورٹی اداروں کو ملک کر کوئی ایسے لائحہ عمل تر تیب دینے کی ضرورت ہے جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ ان کی پشت پناہی کرنے والے اور سہولت کاروں کے خلاف بھی فوری اور بر وقت کاروائی ہو تاکہ دہشت گردی کی روک تھام کو حقیقت میں ممکن بنا یا جا سکے۔

وطن عزیز کے دشمنوں کی ہمیشہ سے یہی سازش رہی ہے کہ وہ ملک میں افراتفری اور تفرقہ بازی کو پروان چڑھائیں تاکہ ملک کی ترقی اور سالمیت کو نقصان پہنچے لہذا ان حالات میں اظہار افسوس اور بیان بازی کے بجائے عملی میدان میں تمام سیاسی، مذہبی اور سیکورٹی ادارے مل کر دہشت گردی کی اس لعنت کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور لائحہ عمل بنائیں تو یہ ملک و قوم کی سالمیت اور ملت کی وحدت کے حق میں ہوگا، ہمارے بے حس حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس بھوک ہڑتال کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں اور مظلوم کو ان کا حق دیں اور جو ظالم ہے اور ان کے سہولت کار ہیں اُن کو کیفر کردار تک پہچائیں اس سے پہلے کہ کہ بھوک ہڑتال نیشنل پریس کلب سے نکل کر تحریک کی شکل اختیار کر جائے۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر انتخابی میدان میں ، امیدواران اسمبلی کی وحدت سیکرٹریٹ آمد ، مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کی قیادت سے ملاقاتیں ، آمدہ الیکشن اور موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے تبادلہ خیال ، تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین کے امیدواران کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے کے کئی وفود نے مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر کے ریاستی دفتر کا دورہ کیا ، جہاں انہوں نے ریاستی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل و امیدوار اسمبلی حلقہ ایک لچھراٹ مولانا سید طالب حسین ہمدانی ، سیکرٹری سیاسیات و امیدوار حلقہ دو لچھراٹ سید محسن رضا جعفری ایڈووکیٹ ، ریاستی رہنماء و امیدورا اسمبلی حلقہ چار کھاوڑہ خالد محمود عباسی ، امیدوار اسمبلی حلقہ تین سٹی سید ارسلان بخاری و دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں گی ، سنی اتحاد کونسل آزاد کشمیر کے اعلیٰ سطحی وفد نے ریاستی دفتر میں علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی سے ملاقات کی ، سنی اتحاد کونسل کے وفد نے علامہ عبدالخالق نقشبندی کی سربراہی میں ملاقات کی ، مسلم کانفرنس کے سینئر رہنما پیر سید غلام مرتضیٰ گیلانی نے وفد کے ہمراہ وحدت سیکرٹریٹ کا دورہ کیا ، جہاں انہوں نے ریاستی سیکرٹری جنرل علامہ تصور جوادی ، مولانا طالب ہمدانی ، سید محسن رضا سبزواری ایڈووکیٹ و دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی ، مسلم کانفرنس کے امیدوار اسمبلی حلقہ کوٹلہ میر عتیق الرحمن کی قیادت میں وفد نے مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے رہنماؤں سے ملاقات کی، مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے مرکزی رہنما و امیدوار اسمبلی حلقہ تین سٹی بیرسٹر سید افتخار گیلانی نے وحدت سیکرٹریٹ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ریاستی سیکرٹری سیاسیات سید محسن رضا جعفری ایڈووکیٹ سے ملاقات کی ۔ ترجمان مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر نے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا کہ ان ملاقاتوں کے دوران موجودہ سیاسی صورتحال اور آمدہ الیکشن کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا، مجلس وحدت مسلمین مظلوم و محروم طبقات کی جماعت ہے انشاء اللہ مایوس نہیں کرے گی ، ہم عوام میں جائیں گے ، عوامی فیصلے لیڈروں کو سنائیں گے ، عوامی مسائل کا حل ہماری بنیادی ترجیح ہے ، محروم طبقات کے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، اس جدوجہد میں عوام الناس ہمارا ساتھ دے ، عوام ہمارا ساتھ کرپشن کے خاتمے ، مہنگائی بے روزگاری کے خاتمے ، غریت کے حالت بدلنے ، مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے ، سیاحت کے فروغ اور ان جیسے بیسیوں مسائل کے خاتمے بارے عملی اقدامات کے لیے مجلس وحدت مسلمین پر اعتماد کریں ، مجلس آپکے معیار پر پورا اترے گی۔

وحدت نیوز(اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے زیراہتمام یادگار شہداء اسکردو پر اپنے مطالبات کے حق میں پینتیس روز سے جاری دھرنے سے ایم ڈبلیو ایم بلتستان کے سربراہ آغا علی رضوی اورشیخ مبارک عارفی نے خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا قیام عدل و انصاف کے لیے اور ظلم و بربریت کے خلاف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی مسلک ، مذہب اور دھرم سے تعلق رکھنے والے کی زندگی اسکے عقیدے کی وجہ سے خطرہ میں نہ ہو، وطن عزیز کے فرزندوں کی زندگی کی حفاظت کے لیے ہم ایک ماہ سے آواز بلند کر رہے ہیں۔ ہم نے ریاستی اداروں اور وفاقی حکومت سے کوئی ناممکن مطالبہ نہیں کیا بلکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو جینے کا حق دیا جائے اور جن عناصر نے ملک کو دہشتگردی کی بھینٹ چڑھایا ہے انہیں اس وطن کی زمین تنگ کر دی جائے۔ ریاستی اداروں میں موجود دہشتگردوں سے نرم گوشہ رکھنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔ اس پاکستان کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں جو اقبال اور جناح کا پاکستان تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر سطح پر مظلومین کی حمایت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ کراچی سے پاراچنار اور کوئٹہ سے گلگت بلتستان تک پورا ملک پرامن پاکستانیوں کے لیے قتلگاہ نہ بننے دیا جائے۔ ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی جانبدار کارروائیوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے سے سلسلہ بند کیا جائے ۔ حفیظ کی حکومت گلگت بلتستان کے پرامن عوام کے لیے بدترین حکومت بن چکی ہے۔ اسمبلی میں وہی قانون نافذ کرتا ہے جو اسکی مرضی کا ہو۔ انکے نزدیک آئین اور اصول کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر، خالصہ سرکار کے نام پر زمینوں پر قبضہ،اکنامک کوریڈور میں جی بی کو حصہ نہ دینا، آئینی حقوق سے محرومی اور دیگر مظالم صوبائی حکومت کی کارکردگی ہے۔ وفاقی حکومت کا رنگ دیکھ کر صوبائی حکومت بھی انتقامی کارروائی کی بدترین سطح تک جا چکی ہے اور مجلس وحدت کو کراسسز میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے مظالم کے دن بھی تھوڑے ہیں۔ حفیظ کی حکومت نے جس طرح کے مظالم کیے ہیں اور لاقانونیت دکھائی ہے اس سے جمہوریت کا چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔ حفیظ کی حکومت کو بھی بہت جلد پسپائی ملے گی۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے بلتستان کے عوام تیار رہیں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے کہا ہے کہ اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دینا ہوگی۔ آج ہمارے زوال کی بڑی وجہ کرپشن، بیڈگورننس اور بد عنوانی ہے ۔جب معاشرے کا کم و بیش ہر فرد خود غرضی اور مفاد پرستی کا رویہ اپنائے گا تو بالآخر یہ معاشرہ اور اس کی منفی اور تخریبی اقدار خود ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوجائے گی ، انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو کون سے ایسی اخلاقی بیماری ہے جو ہم میں موجود نہیں، خودغرضی ، بدعنوانی، مفاد پرستی، عیاری و چالاکی، بے علمی غرض ساری اخلاقی برائیاں ہم میں پائی جاتی ہیں، بدعنوانی اور رشوت ستانی ایک خطرناک بیماری ہے ، لیکن یہ بیماری ہم سرکاری ملازم سے لیکر سیاست دانوں اور وزیروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قانون ساز ادارے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں انہوں نے مزید کہا کہ فرد کی اخلاقی حالت کو سدھارے بغیر محض قانون سازی اور جمہوری اداروں کی بحالی اور بالا دستی سے ہم اپنی قومی اور اجتماعی حالت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ظلم و اتحصال اور طرح طرح کے زمینی و آسمانی مصائب اور آفات ایسے ہی معاشرے کا مقدر بنتے ہیں، جہاں فرد کا کردار بگڑ جائے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار و صفات سے محروم ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے معاشرے کا وہ کون سا طبقہ ہے جو بلا لحاظ علم و تجربہ اور بلا امتیاز، رنگ و نسل و عقیدہ ایسے اخلاقی امراض میں گرفتار ہیں کہ نہ ان کا علم نافع رہا نہ ان کی کوشش نتیجہ خیز ہیں۔ ہم دوسروں کا احتساب تو چاہتے ہیں لیکن خود اپنا احتساب کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر سوچنے اور تجزیے کا انداز اب ہوجائے تو معاشرے کی عمومی صورتحال یہ ہو جاتی ہے کہ سب ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہراتے ہیں اور ایک دسورے پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کردیں۔ اس ایثار و قربانی کے نتیجے میں رفتہ رفتہ معاشرے و ملک کی حالت دسدھرتی جائے گی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree