The Latest

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ احمدا قبال رضوی نے گزشتہ پندرہ روز میں شہر قائدمیں پچاس سے زائد شیعہ نوجوانوں کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اد اروں کی جانب سے ملت جعفریہ کے افراد کی بلاجواز گرفتاریاں برداشت نہیں کی جائیں گی ۔شیعہ نوجوانوں کی گرفتاری کے بعدپولیس کی جانب سے اہل خانہ کو حراساں کیا جا رہا ہے۔ان خیلات کا اظہار وحدت ہاؤس کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کیا اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکرٹری جنرل حسن ہاشمی ،مولانا صادق جعفری، علامہ مبشر حسن ،علامہ علی انور جعفری،علامہ احسان دانش،علی حسین نقوی ،رضا نقوی ،ڈاکٹر مدثر حسین ،سجاد اکبر،زین رضا،احسن عباس ،رضوان پنجوانی موجود تھے ۔علاہ احمد اقبال کا کہنا تھا کہ ایک منظم سازش کے تحت ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے پر امن افراد کو پریشان کیا جا رہا ہے شہر میں موجود دہشتگرد کالعدم جماعتیں داعش میں شمولیت اختیارکر رہی ہیں سندھ حکومت کالعدم جماعتوں کو شیلٹر فراہم کر رہی تو دوسری جانب ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں سے گرفتارکر کے ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اہل خانہ سے جھوٹے مقدمات قائم نہ کرنے اوررہائی کیلئے رشوت طلب کی جارہی انہوں نے وزیر اعلیٰ و آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ پولیس کی جانب سے بلا جواز گرفتاریوں اور محکمہ میں موجود کالی بھڑوں کے خلاف نوٹس لیں بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو ملت جعفریہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرے گی ۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) 11 جنوری کی رات کو جلال آباد اور چھموگڑ سے دو ڈھائی سو لوگ مقپون داس پہنچے اور شہیدوں کے مزار کے سامنے روڈ کی دوسری طرف تعمیراتی کام شروع کر دیا،صبح وہاں پر موجود لوگوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں کو اطلاع دی اور ایک ہی گھنٹے کے اندر ہنوچل اور شوتہ نالہ سے کافی لوگ جمع ہوگئے ،پولیس بھی تب تک پہنچ چکی تھی،پولیس کی موجودگی میں طرفین میں تصادم ہوا،گولیاں چلیں اور شدید پتھروں کی بارش ہوئی جسکے نتیجے میں کئی  لوگ زخمی ہوئے اور شوتہ نالہ سے تعلق رکھنے والے ایک  عمر رسیدہ  عبدالرحمن  نامی شخص کو دو گولیاں لگیں ،ایک گولی سینے میں اور دوسری ٹانگ میں، جس کو فوری طور پر اسپتال پہنچا دیا گیا اور ابھی اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے۔

اسکے بعد پولیس اور این ایس فورسز ،ڈی سی صاحب ،شیخ مرزا صاحب بھی علماء کے وفد کے ساتھ پہنچ گئے اور طرفین سے مذاکرات کرکے طرفین کو شرعی فیصلے پر راضی کرلیا اور جلال آباد سے چھموگڑ اور حراموش سے آئے ہوئے  لوگوں کو واپس جانے کا کہہ کر خود بھی واپس  چل دیے۔

               اس واقعے کو اب تین دن گزر گئے ہیں لیکن طرفین اپنی اپنی  جگہ پرڈٹے ہوئے ہیں۔گویاپورا جلال آباد،چھموگڑ،حراموش مقپون داس ۔۔۔ سب  ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں ، کشیدگی اور جنگ کے چانسز سو فیصد موجود،ڈی سی کی آ مد اور طرفین کو ہٹائے بغیر فورسز کے ساتھ اچانک غائب ہونا اور طرفین کو اسی جنگ کی حالت میں اپنے حال پر چھوڑ دینا،انتظامیہ کا خاموش تماشائی بننا، وزیر اعلی سمیت تمام عوامی نمائندوں کا دلچسپی نہ لینا،یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں بلکہ  اس کی چند وجوہات ہوسکتی ہیں۔

                پہلی وجہ یہ ہے کہ   اقتصادی راہداری کے مسئلے پر حکومت کے اوپر جو پریشر ہے اور بالخصوص وزیر اعلی کے اوپر گلگت بلتستان کی تقسیم کے ایشوپر عوام کی طرف سے جوردّعمل سامنے آیا ہے اس سے جان چھڑوانے کے لئے اس مسئلے کو گرم کیاگیاہے۔

                دوسری وجہ  یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی بڑا حادثہ کروا کر گلگت بلتستان کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

               تیسری وجہ یہ بھی  ہے کہ حکومت عوام کو آپس میں لڑا کر اقتصادی راہداری زون کے لئے اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے چونکہ اقتصادی راہداری زون کے لئے گلگت بلتستان میں جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ سب سے مناسب ہے اور حکومتی اداروں میں مقپون داس اقتصادی راہداری زون کے لئے زیر بحث ہے۔

               اور چوتھی وجہ یہ  بھی ہوسکتی ہے کہ خود  خود طرفین کے کچھ افراد بکے ہوئے ہوں اور وہ سرکار کے ایجنڈے کو عملی کرنے کے لئے کشت و خون کرواناچاہتے ہوں۔

 ہمارا موقف یہ ہے کہ علاقے میں امن و امان قائم رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اس کو اقتصادی راہداری زون کے لئے حاصل کرنا چاہتی ہے تو کیا صرف یہی ایک حل ہے کہ لڑا واور حکومت کرو ، اور سادہ لوح عوام کا قتل عام کروا دو۔

حکومت کو اس کے علاوہ دیگر طریقوں پر بھی سوچناچاہیے۔ چلیں حکومت کو رہنے دیں کیا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ  درمیان میں آکر اس مشکل کو رفع دفع کریں اور قیمتی جانوں کے زیاں سے لوگوں کو بچائیں۔

  ان کو بھی رہنے دیں وہ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کہاں ہیں جو انتخابات کے دوران گھر گھر،قریہ قریہ جاکر لوگوں سے ووٹ مانگتی ہیں اور بیچارے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے ووٹ لیتی ہیں۔طرفین میں تمام پارٹیوں کے ووٹرز موجود ہیں،پی پی ہو یا نون لیگ، تحریک انصاف ہو یا تحریک اسلامی۔ وحدت مسلمین ہو جماعت اسلامی۔کہاں ہیں یہ سب پارٹیاں!؟

کیاابھی اس کا انتظارکیاجارہاہے  کہ  پہلےچالیس پچاس آدمی قتل ہوجائیں اور پھرسامنے آیاجائے تاکہ میڈیا میں کوریج بھی مل جائے اور سوشل پروٹوکول کا بھی مناسب انتظام ہو۔ چلیں ان کو بھی رہنے دیں،اس علاقے کے وہ عمائدین،سماجی اور دینی شخصیات کہاں ہیں جو انتخابات میں اپنے آپ کو کئی  کئی مہینے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کمپین کے لئے وقف کرتی  ہیں!؟

               کیا بلتستان،استور،نگر جلال آباد،بگروٹ،حراموش اور دوسرے علاقوں کے عمائدین کا اخلاقی فریضہ نہیں بنتا کہ درمیان میں آکر اس مشکل کو سلجھانے کی کوشش کریں۔

ہم یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ   اپنی اہمیت کے اعتبار سےمقپون داس حراموش بلتستان کا گیٹ وےہے۔یہ گلگت اور بلتستان کو ملانے والے پل عالم بریج سے چند قدموں کے فاصلےپر ہے۔مقپون داس ایک وسیع وعریض میدان ہے جو کہ جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان میں منفرد ہے چونکہ یہ دو دریا،دریائے بلتستان اور دریائے گلگت کا سنگم اور قدرت کا بے نظیر خوبصورت منظر ہے۔اس پر نہ صرف پاکستانی حکومت کی نظریں ہیں بلکہ اپنی جغرافیائی منفرد نوعیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں خاص طور پر چائنہ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

 یہ زمین کا خوبصورت ٹکڑا دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے لیکن یہاں پر پانی میسر نہیں۔ اس کی وجہ پاکستانی حکومت کی بالعموم اور گلگت بلتستان کی حکومت کی بالخصوص عدم توجہ ہے۔ پورے پنجاب کو سیراب کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا دریا،دریائے سندھ اسی بنجر میدان کے کنارے سے گزرتا ہے۔چونکہ یہ میدان دریا سے کافی بلندی پر واقع ہے جسکی وجہ سے ابھی تک یہ آباد نہیں ہے۔جو لوگ اس وقت وہاں زندگی گزار رہے ہیں پانی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مشکلات کے شکار ہیں ،اس وقت وہاں کی کل آبادی 103 گھرانوں پر مشتمل ہیں جن کا تعلق حراموش کے دو گاؤں ہنوچل اور شوتہ نالہ سے ہے اور اس میں 88 جنگ میں شہید ہونے والے بلتستان کے دو شہیدوں کا مزار بھی ہے۔

 یہاں پر رہنے والے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لئے پانی کا بندوبست کرتے ہیں۔کافی سال پہلے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت واٹر چینل بنانا شروع کر دیا اور ابھی بھی زیر تعمیر ہے۔ اور اس واٹر چینل پرکام تیزی سے نہ ہونے کی وجہ لوگوں کی اقتصادی مشکلات اور حکومت کی عدم توجہ ہے۔

               یہ وسیع وعریض میدان حراموش اور جلال آباد ،چھموگڑ کے لوگوں کے بیچ متنازعہ ہے ۔چند سال پہلے ان دو فریقوں کے درمیان ایک ہفتہ جنگ ہوئی اس کے بات کئی سال کورٹ میں اس کا کیس چلتا رہا یہاں تک کہ ڈیڑھ سال پہلے سیشن کورٹ نے اس کا فیصلہ حراموش کے حق میں سنا دیا۔جس کے فورا بعد حراموش کے لوگوں نے یہاں گھر بنا نےشروع کر دیے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے بچوں سمیت لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں اور اس میدان کو اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی کا راز سمجھتے ہیں۔

اس وقت ہمارے حکومتی ادارے اور کرپٹ عناصر اس خوبصورت وادی کو خون سے رنگین کرکے،اس جنت ارضی کو جہنم بناکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔یہ دانشوارانِ ملت،علمائے کرام اور مخلص سیاستدانوں کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے کو فوراً حل کروائیں۔

 

تحریر۔۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر

وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱  کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پرگلگت بلتستان  کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے کبھی بھی   دریغ سے کام  نہیں لیا۔

اس کے باوجود ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان  جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیر اعظم نے (جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انھیں کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔

بعد ازاں  جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انھیں کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔

 البتہ پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے ، بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔آخر کار 9/ اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں  کوئی  نمائندگی  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟

جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی  پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی  دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ  (ن) جیتنے  کی صورت میں ہم آپ کو مکمل  آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن  ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی  سناٹا چھا گیا۔  اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی  حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی  ہے" ﴿6﴾ اب یہاں  پر چند  سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا  اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟  کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی  اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا  ایجنٹ بن کر  ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾ اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں:  کیا  یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چین اور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ  پڑے ۔ دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر   سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب  حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اب اتنے حقائق سامنے آنے کے بعد وزیر اعلی خود سے  ان کی تائید کریں  یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ  ہر صورت میں اتنا تو ضرور واضح ہوگیا کہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کا وزیر اعلی قرار پانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ  کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں  جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا  اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور  قومی  و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی  آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں  اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔  پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے  تو اگلے مرحلے  میں عوام  ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب  اس سیلابی ریلے کو روکنا  حکومت  کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور  و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں گے۔

حوالہ جات:1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015

2: روزنامہ آج،4ستمبر2009

3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات

4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009

5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015

6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔

7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔

8:ایضا

 

 

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے، اس تناؤ اور کشیدگی  کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ دونوں ممالک کے ماضی پر بھی نگاہ ڈالنی پڑے گی۔

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے ۹۰ برسوں پر محیط دوطرفہ تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کے شکار رہے ہیں، اگرچہ کسی موڑ پر بھی یہ تعلقات دوستانہ اور قریبی نہیں تھے، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب  آل سعود نے برسراقتدار آتے ہی ایک طے شدہ سمجھوتے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہابی افکار کا پرچار شروع کر دیا اور جنت البقیع میں واقع آئمہ معصومین (ع)  اورصحابہ کرام کے مزارات؛  خاص طور پر رسول اللہ (ص) کے لخت جگر جناب فاطمہ (س) کے مزار کو مسمار کر دیا جو آج بھی آل سعود کے دامن پر ایک بدنما دھبہ ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ آل سعود نے اس ظالمانہ اقدام سے دنیا بھر کے شیعوں کے سینوں میں چھری گونپ دی لہذا ایک شیعہ اکثریت مملکت کے ناطے ایرانی شیعوں کے دل بھی اس واقعے سے داغ دار ہوئے۔ جس  کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات ۳۴  برسوں تک  معطل رہے اور اس دونوں ملکوں کے سربراہانِ مملکت نےایک  دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا ، ۱۹۷۹ میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ایماء پر ڈیکٹیٹر صدام حسین کے توسط سے ایران پر جنگ مسلط کی گئی تو سعودی عرب نے عراق کی بعثی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جس سےدونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔

۳۱ جولائی  ۱۹۸۷ کو  مکہ مکرمہ میں ایرانی حجاج مشرکین سے بیزاری کے سلسلے میں پُرامن احتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران سعودی انتظامیہ نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد شہید ہو گئے، اس اقدام کے ردِعمل میں تہران میں مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا اور یوں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔

اکسیویں صدی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی تھی،  تاہم جب  رفتہ رفتہ  ایران خطے میں ایک طاقتور کے طور پر ظاہر ہونے لگا  تو خطے میں ایران کے دو بڑے دشمن اسرائیل اور سعودی عرب  ایران کی برق رفتار ترقی سے بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے، لہذا وہ مسلسل ایران کے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے عالمی اداروں کو اعتماد میں لینے کی کوششیں کرنے لگے تاہم وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے، جب وہاں سے مایوسی ملی تو سعودی عرب نے اسرائیل کو ہی ایران پر حملے کی پیشکش کی اور اسے یقین دلایا کہ ایران کے خلاف جنگ کا سارا خرچ ہم برداشت کریں گے۔

اسی طرح انہوں نے ایران میں امن و امان خراب کرنے کے لیے "جنداللہ"  نامی دہشت گرد گروہ کی بنیاد رکھی جو گذشتہ  ایک دہائی دہائی سے ایرانی سرحد پر دہشت گردانہ واقعات کرتی رہی ہے۔ اس گروہ کے کمانڈر عبدالمالک ریگی تھے جس نے گرفتاری کے بعد میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ  وہ  تمام دہشت گردانہ کاروائیاں سعودی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتے رہے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، گذشتہ سال  یہ کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب ایرانی زائرین کا یک کاروان  عمرہ ادا کرنے کے بعد واپس ایران آ رہا  تھا کہ  جدہ ہوائی اڈے پر سکیورٹی اہلکاروں کے غیر اخلاقی حرکت کے باعث ایرانی حکومت کو عمرہ پر پابندی لگانی پڑی۔اور اسی سال حج کے موقع پرحج انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ہزاروں حجاج دم گھٹنے اور پاؤں تلے دبنے سے شھید ہوگئے، ان میں ساڑھے چار سو سے زائد  تعداد ایرانیوں کی تھی اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی لاشوں کو بھی ایران کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

اب گذشتہ دنوں سعودی عرب نے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ شیخ باقر النمر (رہ) کا سر قلم کر دیا، ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک  حق گو  اور نڈر عالم دین تھے، وہ سعودی حکمرانوں کے عیاشیوں اور عوام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے، انہوں نے شیعہ سنی تمام مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر دی تھی جس سے ظالم اور سفاک سعودی حکمرانوں کی نیندیں آڑ گئیں تھیں، لہذا اقتدار کے نشے میں مست خونخوار سعودی حکمرانوں نے حق کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہوئے شہید باقر النمر (رہ) کو اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا، یقینا انہوں نے اس اقدام سے اپنے جنازے میں آخری کیل پیوست کی ہے، انہیں نہیں معلوم کہ یہ مقدس اور بے گناہ خون لاکھوں  باقر النمر(رہ) کو جنم دے گا جو ان کے ۹۰ سالہ اقتدار کو خاک میں ملائے گا۔

 بہرحال زہد و تقویٰ کے پیکر آیۃ اللہ باقر النمر (رہ) کی شہادت پر پوری دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی،  دنیا کے ہر گوشے میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف ریلیاں نکالیں گئیں، دیگر مسلمانوں کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے ایران کے شیعہ سنی مسلمانوں نے مل کر احتجاجی جلوس نکالے اور اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کی، اس موقع پر کمین میں بیٹھے فرصت طلب سامراجی قوتوں کے کارندے بھی مظاہرین میں شامل ہو گئے، جنہوں نے جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر دیا اور مشتعل مظاہرین کو بھڑکایا جس کے بعد سعودی سفارت خانے پر پھتراؤ ہوا اور اشتعال زا مواد پھینکے گئے،  یوں سعودی حکومت نے اپنا سفیر واپس بلالیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کے تعلقات منقطع ہو گئے۔

در حقیقت اس اقدام سے ان کا مقصد سعودی عرب کی حالیہ جنایات پر پردہ ڈال کر اس واقعہ سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانا تھا  اور اس مقصد میں وہ کامیاب بھی ہوئے، کیونکہ ان دنوں سامراجی قوتوں کے زیرِ سایہ عالمی ذرایع ابلاغ سعودی مظالم پر تنقید کرنے کے بجائے سعودی سفارت خانے پر حملے کو کوریج دیتے رہے ہیں۔

اب آخر میں سعودی عرب کے ۳۴ ممالک پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل کا پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا سعودی عرب اور اس حواری واقعی طور پر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں یا وہ " چور بھی کہے چور چور" کا مصداق بن کر اپنے آپ سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام ہٹانا چاہتا ہے اور پس پشت اس کے عزائم کچھ اور ہیں؟

تو عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک ایسے ملک کا اتحاد تشکیل دینا مضحکہ خیز ہے جس نے سب سے پہلے سرکاری طور پر طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی، بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد کیا ہے؟  کیا خانہ کعبہ کو خطرہ لاحق ہوا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو وہ اللہ  دوبارہ اپنے گھر کی حفاظت کرے گا جس نے ابابیلوں کے ذریعہ ابرھہ اور اس کے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے میں بدل دیا تھا اور اگر انہیں  القاعدہ، جبھۃ النصرہ اور داعش جیسی دہشت گرد گروہوں سے  خطرہ ہے تو وہ  توساری  سعودی عرب کے دست پروردہ ہیں جو عملی طور پر خطے میں انکے  مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔  جبکہ امریکا اور اسرائیل جیسے تسلط پسند ممالک سے بھی انہیں خائف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے فرمانِ الہی [1] کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل اور امریکا کو اپنا ہم پیمان بنایا ہوا ہے،  پس ان سے خوف کس بات کی اور ڈر کس بات کا؟! لہذا بات صاف واضح ہے کہ سعودی عرب کو  خطے میں ایران کا باعزت  اور خود مختاروجود برداشت نہیں ہو رہا اور کسی نہ کسی بہانے سے ایران کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی جارہی  ہیں۔ تاہم وہ اس مقصد  میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اس وقت  اسلامی جمہوریہ ایران دینا کا واحد ملک ہے جو (اشداء علی الکفار و رحماء بینھم) کا مصداق بن کر سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئےہے۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس نے امیرالمؤمنین امام علی (ع)  کے اس فرمان کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا ہوا ہے کہ "ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی بنو" چاہے وہ مظلوم مسلمان ہوں یا غیر مسلم، شیعہ ہوں یا سنی، وہ مسلمان بوسنیا کے ہوں یا فلسطین اور یمن کے، انکا تعلق  عراق کے ہو یا شام سے، وہ  نائیجریا کے رہنے والے ہوں یا میانمار کے۔ اور  یہ اللہ تعالیٰ کا  قرآن میں سچا وعدہ ہے کہ "اللہ  کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے" [2]
 

[1]۔ اے ایمان والو، تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو تم میں سے اس کو دوست بنائے گاوہ انہی میں سے ہے۔ ( سورہ مائدہِ آیہ ۵۱۔)

[2] ۔ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ آیہ ۵۶)

 

 

تحریر۔۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (بھٹ شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور تبلیغات علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی نے بھٹ شاہ میں حلقہNA-218سےضمنی الیکشن میں ایم ڈبلیوایم کے نامزدامیدوار سید فرمان علی شاہ کاظمی کےانتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ   غریبوں اور ناداروں کافرعونوں کے مقابل صاحب اقتدارہونا وعدہ الہٰی ہے،حضرت موسی علیہ السلام نے عظیم جدوجہد کی اور زمانے کا فرعون سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غریب لوگ موسی علیہ السلام کی قیادت میں اسے شکست سے دوچارکریں گے،لیکن اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کے ولایت تکوینی کاامتحان بھی لینا تھا کہ  فقیرانہ لباس اور ایک لاٹھی کے ساتھ کس طرح زمانے کی سپرد طاقت کو خاک میں ملایا جاتا ہے،جس کے بعدغریب و نادار لوگوں نے طاقت اور حکومت اپنے  ہاتھ میں لی۔

علامہ اعجاز بہشتی نے کہا کہ سندھ کے محروم عوام بھی وقت کے فرعونوں کے مقابل سینہ سپر ہوجائیں ،اپنی کمر کس لیں ،خدا مظلوموں کے حقوق غصب کرنے والوں کو کسی صورت نہیں بخشے گا، عوام کو ان کا حق مل کرہی رہے گا،یہ ایک طویل جدوجہد سے ہی ممکن ہے، اخلاص ، تقویٰ الہٰی اور توکل الاللہ شرط ہے،ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں موجود سیاسی فرعونوں نے قیام پاکستان سے لے کراب تک غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی، انکے منہ کے نوالے چھینے ایک دن آئے گا کہ کہ جب یہ انسان دشمن حکمران عذاب الہٰی کا شکار ہوں گے، انہوں نے کہا کہ بھٹ شاہ کی عوام اپنے پیر ومرشد حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے فکر وفلسفے پر عمل کرتے ہوئے غریبوں، لاچاروں،محروموں کے غم گذارفرمان شاہ کو ووٹ دیکر کامیاب بنائیں ۔

وحدت نیوز (ہالا) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے  حلقہ این اے 218 کے ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں تحصیل بهٹ شاہ میں انتخابی جلسےسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنائج کی پرواکیئےبغیر ایک مرتبہ پھر تکفیریت کے مقابل ہالا میں سیاسی میدان میں اترے ہیں ،پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی عوامی حقوق کی ترجمان جماعت ہوا کرتی تھی یہ وقت آگیا ہے کہ مخدوم امین فہیم کی خالی نشست پر اسلام دشمن تکفیری انتہا پسند کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا ہے، انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیوایم شیعہ و سنی محروم عوام کی مشترکہ زبان ہے، ہم نے ہر جگہ تکفیریت کا تعقب کیا ہے انشاءاللہ ہالا سمیت وطن عزیزکے چپے چپے میں انہیں رسوا کرتے رہیں گے، سندھ کے جاگیر دار، وڈیرے اب ہوش کے ناخن لیں وہ وقت گزر گیا جب تم غریبوں پر ظلم کرتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا اب ہم سیاسی میدان میں حاضر ہیں اور تمہیں بے نقاب کرتے رہیں گے، انشاءاللہ ہالا کے عوام اپنا مقدر سنوارنے کیلئے فرمان شاہ کو خیمے کے نشان پر ووٹ دیکر کامیاب بنائیں گے۔

جلسےسے مجلس وحدت مسلمین کے امید وار حلقہ NA-218 سید فرمان علی شاہ، مرکزی سیکرٹری تربیت علامہ احمد اقبال رضوی , مرکزی سیکریٹری تبلیغات علامہ اعجاز حسین بہشتی ، رکن شوری عالی علامہ  حیدر علی جواری،تحریک  منہاج القرآن کے مرکزی ناظم اعلیٰ سید فرحت شاہ، مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی برادر یعقوب حسینی ،صوبائی سیکریٹری جنرل  علامہ مختار امامی ، مولانادوست علی سعیدی اور دیگر عمائدین نے بھی خطاب کیا۔

گلگت بلتستان ایک تاریخی موڑ پر

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی اسٹریٹجک علاقہ ہے جو پاکستان کو چین سے جوڑتا ہے۔

(1)سنگلاخ پہاڑی سلسلوں اور دسونں قدرتی خوبصورت مناظر سےآراستہ ر یہ علاقہ اپنے  بینظیرقدرتی حسن کے  باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

اس خطے میں 7ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جبکہ دنیا کے تین بڑے  گلیشیئر بھی اسی خطے میں ہی واقع ہیں۔

 (2)دیوسائی جیسا دنیا کا بلند ترین اور خوبصورت ترین  میدان بھی یہاں  واقع ہے۔یہاں بے پناہ معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان سے اگر بھرپور استفادہ کیا  جائے تو گلگت بلتستان کا  کوئی گھرانہ حدغربت سے نیچے نہیں رہے گا۔ یہاں اتنے آبی ذخائر ہیں کہ اگر ان کو بروئے کار لایا جائے تو پورے پاکستانکے لیے  وافر مقدار میں بجلی  پیدا کی جاسکتی ہے۔ دفاعی حوالے سے یہ علاقہ پورے پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کا سب  سے بڑا دریا،  دریائے سندھ بھی یہاں سے گزرتا ہے۔

یہاں کی عوام بہت ہی شریف النفس،دیندار، بااخلاق، بامروت، شجاع،  ایک دوسرے کے کام آنے والے، ہمدرد اوربہت ہی ایماندارہیں،یہاں کے لوگ اچھے مسلمان اور مہمان نواز  بھی ہیں۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

(3) جس کا واضح ثبوت یہاں کے جیلوں میں مجرموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ پورے پاکستان میں پر امن ترین یہیعلاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بلتستان میں تو  آج تک کوئی ایک  شخص بھی  فرقہ واریت کی بھینٹ نہیں چڑھا۔  یہاں تمام مکاتب فکر کے لوگ برادرانہ زندگی گزارتے ہیں۔یہاںپر  ایک  سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ کیا یہ  سب کچھ خود بخود ممکن  ہوا؟ نہیں نہیں  بلکہ یہ سب کچھ علماء کی محنتوں اور ان کی کاوشوں  کا نتیجہ ہے۔انھوں نے لوگوں کے دلوں میں حقیقی اسلام کی روح پھونکی اور ایک دوسرے کے حقوق بیان  کیے۔جس کا پھل آج ہمیں امن و امان اور باہمی محبت کی صورت میں مل رہا ہے۔

۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱ کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پریہاں کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے  سے کبھی  دریغ نہیں کیا اورآخری دم تک دشمن کے مقابلے میں مردانہ وار سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ملک کا دفاع کرتے رہے اور کبھی  بھی کسی دشمن کے مقابلے میں شکست تسلیم نہیں کی۔

یہاں کی عوام نے( اپنی دینی حمیت  اور ملی جذبے کی خاطر) اپنی مدد آپ کے تحت ۱۹۴۸ء میں خود لڑ کر آزادی حاصل کی ۔( پاکستان کے اسلام کے نام سے موسوم  ہونے اور دینی بنیاد وں پر استوار ہونے کے باعث، اسی  دینی جذبےکے تحت  بغیر کسی شرط کے) اور اپنی مرضی سے  پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔(4) بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسے خوش آئند قرار دے کربہ سر چشم تسلیم  کرلیالیکن   ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی بانی پاکستان انتقال کرگئے۔شاید آج بھی وہ اپنی قبر میں ہماری مظلومیت کا رونا رو رہے ہوں۔اس کے بعد سے ہماری مظلومیت  کا ایک نیا دور  شروع ہوا۔ نہ ہمیں ۱۹۷۳ء کے آئین میںکوئی قانونی حیثیت دی گئی اور نہ ہی بعد کے ادوار میں ہم اپنا تشخص پاسکے۔ جبکہ73ءکے آئین میں  کشمیریوں  کو اپنا مستقل حق مل گیا ۔البتہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں کے لوگوں کو کچھ ریلیف اور مراعات ملی لیکن قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے انھوں نے بھی کوئی  ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔  ہمیں نظرانداز کرنے کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری رہاپھر بھی  ہم مملکت خداداد پاکستان سے اپنی دلی ہمدردی  اور محبت کا اظہار کرتے رہے لیکن ایوان اقتدار پرقابض  حکمران مسلسل ہماری محبت کو ٹھکراتے  ہی رہے۔ ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان  جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیر اعظم نے(جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انیںن کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔ بعد ازاں  جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف یہاں کے حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انں ح کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔ (البتہ صرف نام کی اسمبلی رہی لیکن کوئی اختیار انہیں بھی حاصل نہیں ہوا) بالفاظ دیگر پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے بلکہ ان کے دور میں بھی کچھ متنازعہ باتیں چلیں لیکن ہماری عوام کی بیداری کے باعث وہ بھی ہمیں متنازعہ قرار نہیں دے پائے۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔آخر کار 9/اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں  کوئی  نمائندگی  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟

جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی  پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی  دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ  (ن) جیتنے    کی صورت میں ہم آپ کو مکمل  آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن  ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی  سناٹا چھا گیا۔  اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی  حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی  ہے" ﴿6﴾ اب یہاں  پر چند  سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا  اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟  کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی  اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا  ایجنٹ بن کر  ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں:  کیا  یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چیناور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ  پڑے ۔دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر  سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب  حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اب اتنےحقائق سامنےآنےکےبعدوزیر اعلی خود سے انکی تائید کریں  یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہرصورت میں اتنا توضرورواضح ہوگیاکہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کاوزیراعلی قرارپانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ  کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں  جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا  اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور  قومی  و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی  آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں  اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔  پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے  تو اگلے مرحلے  میں عوام  ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب  اس سیلابی ریلے کو روکنا حکومت  کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور  و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں۔

آج تو کشمیر اسمبلی میں بھی گلگت بلتستان صوبے کے خلاف قرارداد منظور ہوگئی۔ (9)جب بھی ہم کسی اہم موڑ پر پہنچ جاتے ہیں تب کشمیری حکومت ہماری راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے جبکہ ہم نے ان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگر  آپ ہمیں کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں  تو 73 کے آئین میں اپنا حق لیتے وقت  ہمیں بھی ذرا یاد کرکے وہاں ہمارا نام بھی شامل کرتے۔ہم نے ان کے حقوق کے خلاف نہ اس وقت آواز اٹھائی اور نہ ہی آج اٹھارہے ہیں کیونکہ شروع سے ہی وہ اور ہم   الگ  الگ ہیں۔ ان کی بے جا مخالفتوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ اور ہمارے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔


حوالہ جات:
1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015
2: روزنامہ آج،4ستمبر2009
3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات
4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009
5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015
6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔2016
7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔2016
8:ایضا
9:ڈیلی کے ٹو، 13جنوری2016

 

 

تحریر۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین کراچی ڈویژن کی جانب سے گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی جشنِ الصادقین کی مناسبت سے جشنِ عید میلاد النبیﷺ و جشنِ ولادتِ امامِ جعفرِ صادق[ع]  کا اہتمام کیا گیا جسمیں خواتین اور بچوں نےبھر پور انداز میں شھر کے مختلف علاقوں سے شرکت فرمائی.اس پروگرام میں شرکت کے لئے خصوصی طور پہ بحیثیت مہمانِ خصوصی خانوادہ شھداء کو دعوت دی گئ تھی.اسکے علاوہ ایک جانب شھداء کارنرترتیب دیا گیا تھا جہاںشھداءِ ملتِ جعفریہ کی تصاویر پھولوں پہ آویزاں کی گیں تھیں.جبکہ خانوادہِ شھداء کا استقبال بھی پھولوں کے ساتھ کیا گیا تھا.

دیگر مہمانانِ خصوصی میں مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما  علامہ اعجاز حسین بہشتی ،خواہر سیما منظور، فاضلہ قم،مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی کوآرڈینیٹرخواہر زہرہ نقوی کو دعوت دی گئ تھی.

پروگرام کا باقائدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک اورحدیثِ کساءسے کیا گیا.جسکا شرف خواہر ثروت عسکری سیکرٹری شعبہ سیاسیات نے حاصل کیا.جسکے بعد حمد و نعتِ رسولِ مقبولﷺ پیش کرنے برادر امیر حیدر تشریف لائے.پروگرام کے آغاز سے قبل ہی شھیدِ انسانیت و عظیم وعالی مرتبت رہنما  آیت الللہ باقر النمرؒ کی مظلومانہ شھادت کی خبر، انتہائی غم کی صورت موسول ہو چکی تھی لہذا پوری محفل آپ کی شھادت سےمضموم کر دی گئ.اس عظیم سانحہ ہر آنکھ اشکبار تھی.بارگاہِ امامِ زمانہ[ع] میں اور تمام مومنین و مومنات کو اس سانحہ پہ تعزیت پیش کی گئ اور تمام شھداء ملتِ جعفریہ کےبلندیِ دراجات کے لیے فاتحہ خوانی بھی کرائی گئ.

 تمام خطباءنے اپنے خطابات میں انتہائی تفصیل کے ساتھ آیت الللہ باقر النمرؒکی زندگانئ و جدوجہدِ مسلسل کو بیان کیا اور رمزِ شھادت پر خصوصی روشنی ڈالی.اور اس بات کی اہمیت کی نشاندہی کی کہ فی زمانہ اس میثمِ زماںؑ کی طرح دار پہ بھی حق بات کے لئے آواز بلند کرنی ہےاور ظالم کی نابودی کے لیے ظلم سے ٹکرا کر اسوہِ حسینی[ع]پر عمل کرکے دیکھانا ہے.درحقیقت ہی اسوہِ زینبی[ع] بھی ہے.

دورانِ پروگرام بارگاہ رسالت مآبﷺ اور بارگاہِ معصومین[ع] میں مسلسل دورد بھی پش کئے جاتے رہے.جبکہ پروگرام کے باقائدہ اختتام پر برائے تعجیلِ ظہورِ امامِ[ع]  منقبت بارگاہِ امامِ زمانہ[ع] میں پیش کی گئ جسکی سعادت کا شرف خواہر رجاء اور خواہر ایلیاء نے حاصل کیااسکے بعد مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی کوآرڈینیٹر خواہر زہرہ نقوینے دعائے سلامتی امامِ زمانہ[ع]کے دعا کروائی  اور ملک و ملتِ جعفریہ کےلئے دعا کا اہتمام کیاگیا.

وحدت نیوز (گلگت) مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف پورے گلگت بلتستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔آج کی اس ہڑتال کی کال انٹی ٹیکس مومنٹ کی جانب سے دی گئی تھی جس کی تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول عوامی ایکشن کمیٹی نے بھرپور حمایت کا یقین دلایا تھا۔آج کی یہ علامتی ہڑتال کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام نے لیگی حکومت کو ہری جھنڈی دکھادی ہے کہ وہ کسی بھی ظالمانہ اقدام کے خلاف خاموش نہیں رہینگے۔

یاد رہے کہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گلگت بلتستان میں انکم ٹیکس کا نفاذ عمل لایا گیا تھا جبکہ موجود حکومت نے اس ٹیکس میں مزید اضافہ کیا گیا ۔یہ بھی یاد رہے کہ گلگت بلتستان 68 سالوں سے آئینی حقوق سے محروم ہیں اور حکومت پاکستان کے نااہل حکمرانوں نے تاحال گلگت بلتستان کو اپنے آئین کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ یہاں کے عوام کا شروع دن سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرکے اسے ملک کا پانچواں صوبہ قرار دیا جائے اور تمام تر اختیارات جو وفاق نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں گلگت بلتستان کے عوام کو دئیے جائیں لیکن عوام کے خواہشات کے برعکس پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایک ڈی فیکٹو صوبائی سٹیٹس کا لولی پاپ دیکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھ لئے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ اگر یہ علاقے پاکستان کا حصہ نہیں اور حکومت پاکستان ان علاقوں کو آئینی حقوق دینے سے مقصر ہے تو پھر بین الاقوامی قوانین کے مطابق متنازعہ خطے کے تمام حقوق دئیے جائیں جو کہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو دیئے ہیں۔حال ہی میں مسلم لیگ نواز نے گلگت بلتستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر مکمل آئینی صوبے کا مطالبہ کیا تھا۔اسی طرح سابقہ صوبائی اسمبلی اور موجودہ اسمبلی کے اراکین نے متفقہ طور ایک قرارداد کے ذریعے حکومت پاکستان سے ایک مکمل آئین صوبے کا مطالبہ کیا ہے۔

حکومت پاکستان کو پاک چین اقتصادی راہداری کی خاطر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو واضح کرنا ضروری ہوگیا ہے جس کے بغیر چائنہ اس راہداری پر کام کرنے کو تیار نہیں ۔دوسری طرف نواز لیگ کا وزیر اعلیٰ آج کل گلگت بلتستان کی تقسیم کے پیچھے لگ گیا اور انہوں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ استور اور بلتستان کشمیر کا حصہ ہیں جبکہ گلگت دیامر ہنزہ نگر اور غذر کا پاکستان سے الحاق ہوچکا ہے اور یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں۔ان کے بقول استور اور بلتستان کے علاقے کشمیر کا حصہ ہیں۔ان حالات میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کو آگے چل کر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا چونکہ بلتستان اور استور کے عوام نے وزیر اعلیٰ کی اس تقسیم کے حوالے سے سخت مذمت کرتے ہوئے حفیظ الرحمن کو مجیب الرحمن کے مشابہ قرار دیا ہے۔اسی طرح گلگت ،ہنزہ نگر،غذر اور دیامر کے سیاسی قائدین نے بھی حفیظ الرحمن پر سخت تنقید کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی تقسیم کی سخت مخالفت کی ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سکرٹری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اے آر وائی چینل پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ہاوس سے چند منٹ کی مسافت پر دہشت گردی کا یہ واقعہ ملکی سلامتی کے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کا یہ واقعہ حکومت کی طرف سے داعش اوران کے سہولت کاروں کے خلاف کاروائی میں مسلسل تساہل برتنے کا نتیجہ ہے۔اگر حکومت داعش اور اس سے فکری ہم آہنگی رکھنے والی شخصیات پر ہاتھ ڈالنے سے اسی طرح گریزاں رہی تو پھر ان مذموم عناصر کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔پاکستان دشمن قوتیں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرا کے پاکستان میں داعش کے وجود کو ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں جس سے ملکی سلامتی اور خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ آزادی صحافت کو دبانے کی ایک مذموم سازش ہے جس کے خلاف ہم صحافی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک بھر بالخصوص اسلام آباد میں دہشت گردوں کے خلاف فوری طور پر ایک جامع اور موثر آپریشن کیا جائے اور دہشت گردوں سمیت ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے میں کسی مصلحت یا دباو کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree