The Latest

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) یورپ خاص طور پر فرانس میں ہونے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات اور عالم اسلام کو درپیش موجودہ مسائل کے تناظر میں یورپی جوانوں کے نام رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا خط

بسم اللہ الرحمن الرحیم ! یورپی جوانوں کے نام ! فرانس میں اندھی دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر مجھے آپ جوانوں سے مخاطب ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ میرے لئے یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات آپ جوانوں کے ساتھ گفتگو کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دردناک واقعات باہمی مشاورت اور چارہ جوئی کا راستہ ہموار نہ کریں تو بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان کا غم بجائے خود بنی نوع انسان کے لئے رنج و اندوہ کا باعث ہے۔ ایسے مناظر کہ جن میں بچہ اپنے اعزاء و اقرباء کے سامنے موت کو گلے لگا رہا ہو، ماں کہ جس کی وجہ سے اس کے اہل خانہ کی خوشیاں غم میں تبدیل ہوجائیں، شوہر جو اپنی بیوی کے بے جان جسم کو تیزی کے ساتھ کسی سمت لے جا رہا ہو، یا وہ تماشائی کہ جسے یہ نہیں معلوم وہ چند لمحوں کے بعد خود اپنی زندگی کا آخری سین دیکھنے والا ہے، یہ وہ مناظر نہیں ہیں کہ جو انسان کے جذبات و احساسات کو نہ ابھارتے ہوں۔ ہر وہ شخص کہ جس میں محبت اور انسانیت پائي جاتی ہو۔ ان مناظر کو دیکھ کر متاثر اور رنج و الم کا شکار ہوجاتا ہے۔ چاہے اس طرح کے واقعات فرانس میں رونما ہوئے ہوں، فلسطین یا عراق، لبنان اور شام میں۔ یقینا ڈیڑھ ارب مسلمان اسی احساس کے حامل ہیں اور وہ اس طرح کے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے بے زار ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آج کے رنج و الم ایک اچھے اور زیادہ محفوظ مستقبل کی تعمیر کا سبب نہ بنیں تو وہ صرف تلخ اور بے ثمر یادوں کی صورت میں باقی رہ جائیں گے ۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ صرف آپ جوان ہی ہیں جو آج کی مشکلات سے سبق حاصل کر کے اس بات پر قادر ہو جائيں کہ مستقبل کی تعمیر کے لئے نئي راہیں تلاش کر سکیں اور ان غلط راستوں پر رکاوٹ بن جائیں کہ جو یورپ کو موجودہ مقام تک پہنچانے کا باعث بنے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آج دہشت گردی ہمارا اور آپ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس بدامنی اور اضطراب کا حالیہ واقعات کے دوران آپ لوگوں کو سامنا کرنا پڑا ہے ان مشکلات میں اور برسہا برس سے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے لوگوں نے جو مشکلات برداشت کی ہیں ان میں دو اہم فرق پائے جاتے ہیں۔ پہلا فرق یہ ہے کہ اسلامی دنیا مختلف زاویوں سے نہایت ویسع اور بڑے پیمانے پر اور ایک بہت لمبے عرصے تک تشدد کی بھینٹ چڑھی ہے۔ دوسرے یہ کہ افسوس کہ اس تشدد کی ہمیشہ بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے مختلف اور موثر انداز میں حمایت کی جاتی رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئي ایسا فرد ہوگا جو القاعدہ، طالبان اور ان سے وابستہ منحوس گروہوں کو وجود میں لانے، ان کی تقویت اور ان کو مسلح کرنے کے سلسلے میں امریکہ کے کردار سے آگاہ نہ ہو۔ اس براہ راست حمایت کے علاوہ تکفیری دہشت گردی کے جانے پہچانے حامی پسماندہ ترین سیاسی نظام کے حامل ہونے کے باوجود ہمیشہ یورپ کے اتحادیوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطے میں آگے کی جانب گامزن جمہوریت سے جنم لینے والے ترقی یافتہ اور روشن ترین نظریات کو بڑی بے رحمی کے ساتھ کچلا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں بیداری کی تحریک کے ساتھ یورپ کا دوہرا رویہ یورپی پالیسیوں میں پائےجانے والے تضادات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس تضاد کی ایک تصویر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اگر یورپ کے عوام آج چند دنوں کے لئے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں اور وہ عوامی مقامات اور پرہجوم علاقوں میں جانے سے گریز کر رہے ہیں تو فلسطینی خاندان دسیوں برسوں سے حتی اپنے گھروں میں بھی غاصب صیہونی حکومت کی تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کی مشینری سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ آج کونسے تشدد کا موازنہ صیہونی بستیوں کی تعمیر کے شدت ظلم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاسکتا ہے؟ یہ حکومت روزانہ فلسطینیوں کے گھروں کو ویران اور ان کے باغات اور کھیتوں کو نیست و نابود کر رہی ہے لیکن اس کے بااثر اتحادی یا کم از کم بظاہر آزاد بین الاقوامی ادارے موثر انداز میں اور سنجیدہ طور اس کی مذمت بھی نہیں کرتے حتی فلسطینیوں کو اپنا ساز و سامان دوسری جگہ منتقل کرنے اور غلہ جات کو اکٹھا کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی اور یہ سب کچھ وہ ان دہشت زدہ ، سہمی اور روتی ہوئي خواتین اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیتی ہے کہ جو اپنے گھرانے کے افراد کو زد وکوب ہوتا ہوا اور بعض اوقات ان کو خوفناک ٹارچر سیلوں میں منتقل کئے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیا آج کی دنیا میں آپ کو کوئی اور ایسا ظلم نظر آتا ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر یا اتنے زیادہ عرصے تک کیا گيا ہو؟ سڑک کے درمیان میں ایک ایسی خاتون کو گولی مار دی جائے جس کا جرم صرف یہ ہو کہ اس نے سر سے پاؤں تک مسلح فوجی کے خلاف احتجاج کیا ہے تو یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس بربریت کا ارتکاب چونکہ ایک قابض حکومت کے فوجی کرتے ہیں تو کیا اسے دہشت گردی نہیں کہنا چاہئے؟ یا یہ تصاویر صرف اس لئے ہمارے ضمیر کو بیدار نہیں کرتیں کہ چونکہ ساٹھ برسوں کے دوران بارہا ان کو ٹیلی ویژن سے دیکھا جا چکا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا پر کئے جانے والے متعدد حملے بھی ، کہ جن کے دوران بے شمار جانی نقصان ہوا، یورپ کی متضاد منطق کا ایک اور نمونہ ہے۔ جن ممالک پر یلغارکی گئی ہے ان کو جہاں انسانی جانوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں وہ اپنی بنیادی اقتصادی اور صنعتی تنصیبات سے بھی محروم ہوچکے ہیں، ان کی ترقی و پیشرفت کا سفر یا تو رک چکا ہے یا اس کی رفتار کم ہوگئي ہے اور موارد میں وہ دسیوں سال پيچھے چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود نہایت گستاخانہ انداز میں ان سے کہا جاتا ہےکہ وہ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ کسی ملک کو ویرانے میں تبدیل کردیا جائے، اس کے شہروں اور دیہاتوں کو کھنڈرات میں بدل دیاجائے اور پھر ان سے کہا جائے کہ برائے مہربانی آپ لوگ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ کیا انہیں اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھنے یا المناک واقعات کو بھلا دینے کی تلقین کرنےکے بجائے ان سے سچے دل سے معافی مانگنا بہتر نہیں ہے؟ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا کو جارحین کے بناوٹی چہروں اور منافقت سے جس الم و رنج کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ مادّی نقصانات سے کم نہیں ہے۔

اے عزیز جوانو! مجھےامید ہے کہ آپ لوگ موجودہ اور آنے والے زمانے میں جھوٹ سے آلودہ اس ذہنیت کو بدل دیں گے وہ ذہنیت کہ جس کا بڑا فن دور رس مقاصد کو چھپانا اور نقصان دہ اغراض و مقاصد کی آرائش کرنا ہے۔ میرے نزدیک امن و امان کی برقراری کا پہلا مرحلہ تشدد پیدا کرنے والی اس فکر کو بدلنے سے عبارت ہے۔ یورپ کی پالیسی پر جب تک دوہرے معیارات چھائے رہیں گے اور جب تک دہشت گردی کے طاقتور حامی اسے اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کرتے رہے گے اور جب تک حکومتوں کے مفادات کو انسانی اور اخلاقی اقدار پر ترجیح دی جاتی رہے گی تب تک تشدد کا سبب کسی اور چیز میں تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ افسوس کہ برسہا برس سے یہ علل و اسباب تدریجا یورپ کی ثقافتی پالیسیوں میں بھی رسوخ کر چکے ہیں اور انہوں نے ایک نرم اور خاموش یلغار شروع کر رکھی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی مقامی اور قومی ثقافت پر فخر کرتے ہیں۔ ایسی ثقافتیں کہ جو ثمر کا حامل اور بالیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں برسوں سے انسانی معاشروں کی بطریق احسن پرورش کر رہی ہیں۔ اسلامی دنیا بھی اس امر سے مستثنی نہیں ہے۔ لیکن عصر حاضر میں یورپی دنیا جدید ترین آلات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر ایک جیسی ثقافت اور کلچر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ میں مغربی ثقافت کو دوسری قوموں پر مسلط کرنے اور آزاد ثقافتوں کو حقیر سمجھنے کو ایک خاموش اور بہت ہی نقصان دہ تشدد سمجھتا ہوں۔ ایسی حالتوں میں مالا مال ثقافتوں کو حقیر سمجھا جا رہا ہے اور ان کے قابل احترام ارکان کی توہین کی جا رہی ہے کہ جب ان کی متبادل ثقافتوں میں ان ثفافتوں کی جگہ لینے کی اہلیت نہیں ہے۔ مثلا جارحانہ رویہ اور اخلاقی بے راہ روی پر مبنی دو عوامل کی وجہ سے ، کہ جو یورپی ثقافت کے دو بنیادی ترکیبی عناصر میں تبدیل ہو چکے ہیں، اس ثقافت کا مقام خود اپنے اصلی مقام میں بھی گھٹ کر رہ گیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم معنویت سے عاری، جنگ پسند اور فحش ثقافت کو تسلیم نہ کریں تو کیا ہم گناہ گار ہیں؟ اگر ہم فن و ہنر کے نام پر مختلف اشیاء کی صورت میں اپنے جوانوں کے طرف امنڈ کر آنے والے تباہ کن سیلاب کی روک تھام کریں تو کیا ہم قصور وار ہیں؟ میں ثقافتی رابطوں کی اہمیت کا انکار نہیں کرتا ۔ جب بھی مطلوبہ معاشروں کے احترام کے ساتھ اور طبیعی حالات میں یہ رابطے قائم کئے گئے تو ان کا نتیجہ ترقی و پیشرفت اور بالیدگی کی صورت میں برآمد ہوا ہے اور اس کے برعکس زبردستی مسلط کئے گئے اور ناموزوں رابطے ناکام اور نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ داعش جیسے پست گروہ درآمد شدہ ثفافتوں کے ساتھ اسی طرح کے ناکام رابطوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر واقعی اعتقاد کے اعتبار سے کوئي مشکل ہوتی تو سامراجی دور سے قبل بھی اسلامی دنیا میں اس طرح کے واقعات پیش آتے حالانکہ تاریخ اس کے خلاف گواہی دے رہی ہے۔ مسلمہ تاریخی حقائق سے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک مسترد کی گئي انتہا پسندانہ فکر کے ساتھ سامراج کے رابطے نے، وہ بھی ایک بدو قبیلے میں، اس خطے میں انتہا پسندی کا بیج بویا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دینے والے دنیا کے سب سے زیادہ انسانی ترین اور اخلاقی ترین دینی مکتب سے داعش جیسی گندگی جنم لے سکے؟ دوسری جانب یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ یورپ میں پیدا ہونے والے اور اسی فکری اور روحانی ماحول میں پرورش پانے والے افراد اس طرح کے گروہوں میں کیوں شامل ہوتے ہیں؟ کیا یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ افراد ایک دو مرتبہ جنگی علاقوں کا دورہ کر کے اس حد تک انتہا پسند بن جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم وطنوں پرگولیاں برسا دیں؟ یقینا آلودہ اور تشدد کو وجود میں لانے والے ماحول میں عرصۂ دراز تک نامناسب ثقافتی غذا سے پرورش پانے کے اثرات کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کا ایک ایسا جامع جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ جو معاشرے کی آشکارا اور خفیہ گندگیوں کی نشاندہی کر سکے۔ شاید صنعتی اور اقتصادی ترقی کے برسوں کے دوران عدم مساوات اور بعض اوقات قانونی اور اسٹرکچرل امتیازی سلوک کے نتیجے میں مغربی معاشرے کے بعض طبقات میں بوئي جانے والی شدید نفرت کی وجہ سے ایسا کینہ پیدا ہو گیا ہے کہ جو وقتا فوقتا ایک مرض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔بہرحال یہ اب آپ لوگ ہیں کہ جنہیں معاشرے کے اس ظاہری خول کو اتار پھینکنا ہے اور دشمنی اور کینے کا پتہ لگا کر اسے ختم کریں۔ شگافوں کو گہرا کرنےکے بجائے پر کرنا ہے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے سلسلے میں سب سے بڑی غلطی عجلت پر مبنی وہ رد عمل ہے کہ جو موجودہ مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تشکیل پانے والے مسلمان معاشرے کو، کہ جو کئي ملین سرگرم اور فرض شناس انسانوں پر مشتمل ہے ، تنہائی اور اضطراب میں مبتلا کرنے پر منتج ہونے والا ہر ایسا اقدام جو جذبات کی رو میں بہہ کر اور عجلت پسندی سے کام لے کر انجام دیا گيا ہو اور جو اس معاشرے کو اضطراب ، تنزلی اور خوف و ہراس میں مبتلا کردے اور پہلے سے زیادہ انہیں ان کے اصلی حقوق سے محروم کر دے اور انہیں میدان عمل سے دور کردے۔ اس سے نہ صرف مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اس سے فاصلے مزید بڑھیں گے اور کدورتوں میں وسعت آئے گی۔ سطحی تدابیر اور رد عمل میں انجام دیئے جانےوالے اقدامات کا ، خاص کر اگر ان کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے، سوائے موجودہ دھڑے بندیوں میں اضافہ کرنے اور آئندہ بحرانوں کا راستہ ہموار کرنے پر منتج ہونے کے علاوہ کوئي اور نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق بعض یورپی ممالک میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو شہریوں کو مسلمانوں کی جاسوسی پر اکساتے ہیں۔ یہ ظالمانہ رویہ ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم لامحالہ ظالم کی طرف پلٹنے کی خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان اس ناقدری کے سزاوار بھی نہیں ہیں۔ مغربی دنیا صدیوں سے مسلمانوں کو بہت اچھی طرح پہنچانتی ہے۔ اس دن سے کہ جب یورپ والے اسلامی سرزمینوں میں مہمان تھے اور ان کی نظریں میزبانوں کی دولت پر جمی ہوئي تھیں۔ اور اس دن بھی کہ جب وہ میزبان تھے انہوں نے مسلمانوں کے کام اور ان کے افکار سے فائدہ اٹھایا ان کو مسلمانوں میں مہربانی اور صبر کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ بنابریں میں آپ جوانوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ آپ لوگ درست شناخت اور غور و خوض کی بنیاد پر اور تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی دنیا کے ساتھ عزت پر مبنی اور صحیح اشتراک عمل کی بنیاد رکھنے کی تیاری کریں۔ اس صورت میں وہ دن دور نہیں کہ آپ لوگ یہ دیکھ لیں گے کہ آپ جن بنیادوں پر اس عمارت کو استوار کریں گے وہ اپنے معماروں کے سروں پر اطمینان اور اعتماد کا سایہ کرے گی، ان کو امن و سکون کی گرماہٹ کا تحفہ دے گی اور صحفہ ہستی میں تابناک مستقبل کی امید کی کرن روشن کرے گی۔


سید علی خامنہ ای

8 آذر 1394

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی کے سیکر ٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے چلائی جانے والی بلدیاتی انتخابات کی مہم ختم کرنے کا اعلان کر دیا ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے و حدت ہاؤس کراچی میں جاری بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب میں کیا اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکرٹری جنرل حسن ہاشمی ،مولانا صادق جعفری،علامہ علی انور ،علامہ مبشر حسن ،علامہ احسان دانش ، رضا امام نقوی ،ڈاکٹر مدثر حسین،اصغر عباس زیدی،سمیت ضلعی عہدیدار موجود تھے علی حسین نقوی کا کہنا تھا کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی عظیم و لا زوال ہے دنیا بھر میں کڑوروں عزادارن نواسہ وسول کی عظیم قربانی کی یاد بلا رنگ و نسل عقیدت و احترام سے مناتے ہیں استعماری قوتوں کی تمام سازشوں کے باوجود پوری دنیا میں عزاداری سید الشہداء علیہ السلام میں اضافہ ہوا ہے اسلام دشمن دہشتگرد داعش ،القائدہ،طالبان سمیت کالعدم مذہبی انتہا پسند گرہوں کی آج بھی امت مسلمہ کو تقسیم کرنے فرقہ واریت پھیلانے کی کو ششیں جاری ہیں جس میں انشا اللہ انہیں ناکامی ہو گی انہوں نے شہر قائد میں ملٹری پولیس کے جوانوں پر دہشتگردی کی پر زور مذمت کی اور کہا کہ شہر میں جاری دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے باوجود آرمی جوانوں کی شہادت ریاستی ا داروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور مطالبہ کیا کہ اس وقت شہر قائد سمیت سندھ بھر میں کالعدم جماعتوں کے فعال نیٹ ورک کو توڑنے کی ضرورت ہے اوراس حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جارہے لہذادہشتگردی کے خلاف جاری آپریشن کا دائرہ وسیع کیا جائے ۔اجلاس میں علی حسین نقوی نے احترام چہلم امام حسین علیہ السلام میں وحدت مسلمین کی جانب سے بلدیاتی انتخابی مہم کے حوالے سے تمام سر گر میاں معطل اور انتخابی مہم ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ اجلاس میں گزشتہ روز ملٹری پولیس کی گاڑی پر دہشتگردوں کی جانب سے حملے کے نتیجہ میں آرمی کے شہید جوانوں اورشہدائے پاکستان کے بلندی درجات کیلئے خصوصی دعا کرائی گئی ۔

وحدت نیوز (گلگت) نیٹکو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے غلط فیصلے علاقے کے غریب ملازمین کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔دوران ملازمت وفات پانے والے ملازمین کے ورثاء کو ادارے میں ملازمت کے مواقع فراہم نہ کرنا اس ادارے اور ملازمین کے ساتھ ناانصافی ہے ۔

مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور رکن گلگت بلتستان اسمبلی حاجی رضوان علی نے کہا کہ نیٹکو ایک اہم قومی ادارہ ہے جس کے ملازمین کو وہی سہولیات میسر ہونا چاہئے جو دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو حاصل ہیں۔آج نیٹکو جس مقام تک پہنچا ہے وہ ان غریب ملازمین کی دن رات انتھک محنت سے حاصل ہوا ہے اور ان غریب ملازمین کے انتھک محنت کے ثمرات ان کے وارثین کوپہنچانا عین انصاف ہے ۔ایم ڈی نیٹکو کی جانب سے دوران ملازمت وفات پانے والے ملازمین کے ورثاء کو ملازمتیں دینے کی سمری کو واپس کرکے نیٹکو بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سخت انصافی کی ہے اور ان کا یہ اقدام ادارے اور گلگت بلتستان کے غریب ملازمین کے ساتھ دشمنی و عداوت پر مبنی ہے۔ تمام سرکاری اداروں میں اسسٹنٹ پیکیج پر عمل درآمد کیا جارہا ہے جس سے غمزدہ خاندان کی دلجوئی کے علاوہ کئی بے سہارا خاندانوں کی کفالت کا شرعی فریضہ بھی ادا ہورہا ہے اور یہی پیکج نیٹکو کے ملازمین کیلئے بھی ہونا چاہئے تاکہ وہ غریب ملازمین جو دوران ملازمت خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو کل کلاں ملازمین کے احتجاج کی صورت میں مجلس وحدت مسلمین ان کے حقوق کیلئے بھرپور طاقت سے میدان میں اترے گی۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویڑن ضلع جنوبی،ضلع ملیر کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کی انتخابی مہم کے حوالے سے مختلف شاہراؤں ریلیاں نکالی گئیں۔ ریلیوں میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی اور ایم ڈبلیو ایم کے امیدواروں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ ملیر ریلی کی قیادت سیکرٹری جنرل ضلع ملیر احسن عباس ،جبکہ ان ہمراہ ایم ڈبلیو ایم کے بلدیاتی پینل کے امیدواربھی شامل ہوئے ضلع جنوبی کی جانب سے ریلی کی قیادت ضلع جنوبی کے سیکریٹری جنرل رضوا ن پنجوانی، انتخابی امیدوار محسن مقادم اور حسنین حیدری نے کی۔ اس موقع پر کونسلرز کے امیدوار رضا شعبان، عون محمد اور رضوان میمن سمیت دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔ انتخابی ریلی سے خطاب میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انشاء اللہ ۵ دسمبر کا دن ظلم کی تاریکی میں روشنی کی نئی نوید لیکر طلوع ہوگا اور عوام خیمہ کے نشان پر مہر لگا کر یہ پیغام دیں گے کہ کراچی کی باغیرت عوام نے روایتی سیاست کو خیرباد کہہ دیا ہے ، ہماری جدوجہد کا مقصد اقتدار کا حصول نہیں بلکہ ہم مظلوموں کی دبنے والی آواز کو ملک ک گوش و کنار میں پہنچانا چاہتے ہیں۔ شہر قائد کی عوام نے بڑی قربانیاں دیں گزشتہ دور حکومت میں سیاست دانوں نے شہر کی عوام کو سوائے محرمیوں کے کچھ نہیں دیا بلدیاتی انتخابات میں عوامی خدمت ہمارا اولین فریضہ ہے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم پربلدیاتی انتخابات میں شیعہ و سنی مل کر حصہ لے رہے ہیں شہر قائد کی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک و کراچی دشمن عناصر نے اس شہر میں ہمیشہ فرقہ وارانہ فسادات بھیلانے کی کوشش جنہیں اس شہر کی با شعور عوام نہیں ہمیشہ مستردکیا اور آئندہ بھی ایسی کسی تکفیری سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آج ملک میں تکفیریت کی حامی قوتیں شیعہ و سنی عوام کے اتحاد سے خوفزدہ ہیں اور اس اتحاد کو سبوتاڑ کرنے کیلئے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں، لیکن کراچی کی عوام ان سازشوں سے بخوبی آگاہ ہے اور سیاسی و مذہبی طالبان کو اپنا ووٹ نہ دیکر ان سے نفرت کا اعلان کریں گے۔دریں اثنا ء ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے شہر قائد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے شہر کی مختلف یو سیز میں کارنر میٹنگ اور ہم خیال با اثر افراد اورملی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقوں کا سلسلہ نا حال جاری ہے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں ڈویژنل سیکریٹری امورسیاسیات کامران حسین ہزارہ نے کہا ہے کہ 20 صفر المظفر کو امام حسین ؑ کے چہلم کے موقع پر ہر سال کی طرح اس سال بھی علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاون سمیت بعض علاقوں سے جلوس ہائے عزا بر آمد ہونگے۔ جو عزاداری کرتے ہوئے مقرر کردہ روٹ سے ہوتے ہوئے اپنی منزل مقصودپر اختتام پذیر ہو نگے، جلوسوں میں شرکت کرنے والے تمام عزاداران منظم انداز میں نظم و ضبط کے ساتھ عزاداری سید شہداء کرتے ہوئے شہدائے کربلاء کو پرسہ دیں گے ۔ حکومت تمام جلوسوں اور عزاداروں کے تحفظ کیلئے انتظامات کرے۔

انہوں نے مزید کہاکہ جن امام بارگاہوں اور جن مقامات پر مجالس کا اہتمام کیا جا رہا ہے ان جگہوں کو سیکورٹی فراہم کیا جائے تاکہ نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ امن و امان کی فضاء بر قرار رہے۔ جس طرح عوام حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں اسی طرح حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں تاکہ جلوس عزا پر امن اور نظم و ضبط کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے۔



گیٹ وے ہونے کے ناطے گلگت بلتستان کے عوام اکنامک کوریڈور کے فوائد سے استفادہ کرنے کا اولین حق رکھتے ہیں،ایم ڈبلیوایم
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے نمائندہ وفد نے شیخ نیئر عباس مصطفوی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کی قیادت میں گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی سے ملاقات کیا اور بحیثیت گورنر گلگت بلتستان منصب سنبھالنے پر میر غضنفر علی مبارکباد پیش کیا۔وفد نے گورنر گلگت بلتستان سے گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی اور امن و امان کے قیام میں تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی،سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شیخ نیئر عباس مصطفوی نے اس موقع پر پاک چائنا اکنامک کوریڈور کی اہمیت اور گلگت بلتستان کے تحفظات سے گورنر کو آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا تو علاقے میں کشیدگی اور تناؤ بڑھنے کا اندیشہ ہے اور اس منصوبے کی تمام جزئیات سے اراکین اسمبلی اور عوام کو لاعلم رکھنا تشویشناک صورت حال ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت جی بی کے عوام کے حقوق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگی۔اس منصوبے کے گیٹ وے ہونے کے ناطے گلگت بلتستان کے عوام اکنامک کوریڈور کے فوائد سے استفادہ کرنے کا اولین حق رکھتے ہیں۔

وفد نے گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کے حوالے سے غیر ضروری تاخیر پر گورنر سے سخت احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس اہم منصوبے پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ایفاد پراجیکٹ کے حوالے سے وفد نے گورنر گلگت بلتستان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور کہا کہ ایفاد پراجیکٹ میں ضلع گلگت ،ہنزہ نگر سمیت کئی اضلاع کو محروم رکھنا بدنیتی پر مبنی ہے ،ایفاد پراجیکٹ کا دائرہ کار گلگت بلتستان کے تمام اضلاع تک پھیلایا جائے تاکہ اس سے پورے جی کے عوام مستفید ہوں۔وفد نے ملازمتوں میں میرٹ کو یقینی بنانے کے حوالے سے مطالبہ کیا کہ تمام محکموں کے ملازمتوں کوNTS کے ذریعے پُر کیا جائے تاکہ کسی غریب کا استحصال نہ ہو۔وفد نے قراقرم یونیورسٹی میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور یوم حسین ؑ کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں جائیں۔

گورنر گلگت بلتستان نے وفد کو یقین دلایا کہ تمام جائز مطالبات پر تحفظات کو دور کرنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائینگے اور علاقے سے دہشت گردی ،فرقہ واریت کے خاتمے اور گلگت بلتستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیکر درست سمت میں اہم فیصلے کئے جائینگے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) تعلیمی پیکچ بہترین ، عملددرآمد شفاف طریقے سے ہونا چاہیے ، کسی برادری ،پارٹی یا مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے بجائے میرٹ کی بالا دستی کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد کشمیر کے سیکرٹری تعلیم مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے آزاد کشمیر کے تعلیمی پیکچ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ اگر تو تعلیمی پیکچ تعلیمی انقلاب کے لیے ہے، سکولوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے ہے، تعلیم کو عام کرنے کے لیے ہے، غریب کی فلاح کے لیے ہے، میرٹ کی بالا دستی کے لیے ہے ۔ تو مجلس وحدت مسلمین اسے سراہتی ہے، لیکن اگر یہ الیکشن کمپین ہے، جیالا نوازی کا ایک پروگرام ہے، سیاست برائے سیاست ہے، میرٹ کے بجائے وزراء کا کوٹہ ہے، تو اسے کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ مولانا طالب ہمدانی نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت کی نیت اچھی ہو گی ، تعلیمی اصلاحات کے لیے اس نے اس پیکچ کا اعلان کیا ہو گا، اور آزاد کشمیر میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی خاطر اسے شفاف طریقے سے نافذ کرے گی۔

وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ نیئر عباس مصطفوی کے زیر صدارت صوبائی پولیٹیکل کونسل کا اجلاس وحدت ہاؤس گلگت میں منعقد ہوا جس میں بلتستان ڈویژن سے علامہ احمد نوری کی قیادت تمام حلقوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اراکین اسمبلی حاجی رضوان علی،کاچو امتیاز حسین ،بی بی سلیمہ اورایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کی کوارڈینیٹر سائرہ ابراہیم نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کے اختتام پر اعلامیہ جاری کیا گیا۔

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین میں مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائیگی،پاک چائنااکنامک کوریڈور کی تمام تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں اور گلگت بلتستان کے حقوق پر کسی کو شب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔تمام محکموں میں گریڈ 14 تک NTS اوراپر سکیل کے ملازمتیں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پر کی جائیں اور میرٹ کی پائمالی ناقابل برداشت ہوگی۔گلگت بلتستان کے عوام بد ترین لوڈ شیڈنگ کے اذیت میں مبتلا ہیں خاص کر سکردو پر اندھیروں کا راج ہے۔ گلگت سکردو روڈ کی تعمیر میں تاخیرسے بلتستان کے عوام سخت تکالیف میں مبتلا ہیں ،حکومت کھوکھلے نعروں کی بجائے عملی طور پر اقدامات کرے ۔ اعلامیئے میں کہا گیا کہ چور دروازوں سے بھرتیوں کا سابقہ حکومت کے فارمولے پر عمل کیا جارہا ہے جو کہ علاقے کے پڑھے لکھے بیروز گاروں سے زیادتی ہے۔دیامر سے مغوی انجینئرز کی بازیابی میں پاک آرمی کا کردار لائق تحسین ہے لیکن ان اغوا کاروں اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ناگزیر ہے ۔علاقے کو پرامن بنانے کیلئے بے رحم آپریشن کا فوری آغاز کیا جائے۔جامعہ قراقرم میں یوم حسین کے انعقاد پر پابندی محسن انسانیت کی شان میں گستاخی تصور کی جائیگی۔ اجلاس میں شہید ضیاء الدین کے قاتلوں کی رہائی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور مطالبہ کیا کہ شہید ضیاء الدین رضوی کیس کو ری اوپن کرکے مجرموں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

وحدت نیوز (گلگت ) مغوی انجینئرز کی بازیابی میں پاک آرمی خصوصاً فورس کمانڈر عاصم حسین کا کردار قابل تعریف ہے۔سابق سپیکر ملک مسکین نے مغوی انجینئرز کی بازیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔دیامر کے امن پسند رہنماؤں نے دہشت گردوں سے لاتعلقی کا اظہار کرکے دہشت گردوں اور ان کے پشت پناہوں کو پیغام دیا ہے کہ گلگت بلتستان دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیا جائیگا۔حکومتی اہداف محض مغویوں کی بازیابی تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ واقعے میں ملوث تمام کرداروں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عارف حسین قنبری نے کہا کہ گلگت بلتستان کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا جائے اور علاقے کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بننے نہ دیا جائے۔انہوں نے مغویوں کی بازیابی میں پاک آرمی ،حساس اداروں اور علاقے کے امن پسند رہنماؤں کی مخلصانہ کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا جن کی مسلسل کوششوں سے دو قیمتی انسانوں کی جانیں بچ گئیں اور اگر علاقے کے عوام کا تعاون یونہی سیکورٹی اداروں سے جاری رہا تو دہشت گرد خود اپنی موت آپ مرجائینگے۔

انہوں نے کہا کہ دیامر کے عوام نے دہشت گردوں کو ایک طرح سے پیغام دیا ہے کہ علاقے میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ،اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ان چند دہشت گردوں کو جنہوں نے علاقے کا امن تباہ کیا ہوا ہے سے کس طرح پیش آتی ہے۔دہشت گردوں کا کو ئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور وہ صرف بیرونی ایجنڈے پر فساد پھیلانے میں مصروف ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بلا تفریق ان شیطانی قوتوں کے خلاف متحد ہوکرپوری طاقت سے حملہ کیا جائے علاقے کا مستقبل دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہ رہے۔حکومت مصلحت پسندی کا شکار نہ ہوجائے ورنہ حکومتی اہلکار سب سے پہلے دہشت گردوں کے نشانے پر ہونگے۔

انہوں نے ضلع غذر اور ضلع دیامر میں پولیس چوکیوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف بھرپور ایکشن نہ لینے کو حکومت کی نااہلی اور مصلحت پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کا یہی رویہ جاری رہا تو اکنامک کوریڈور سمیت علاقے کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہوجائینگے۔

وحدت نیوز(جیکب آباد) چہلم میں سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے اور دیگر مسائل اور مطالبات کے سلسلے میں ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی جیکب آباد نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما شہداء کمیٹی کے چیئرمین علامہ مقصود علی ڈومکی اور وارثان شہداء کمیٹی کے اراکین سے تفصیلی میٹنگ کی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ کالعدم جماعت کے مراکز اورمدرسے دھشت گردی کی نرسری کا کام کرتے ہیں جہاں ہر سال سینکڑوں دھشت گرد تیار کئے جاتے ہیں۔ ان مراکز اور ٹریننگ کیمپس کا خاتمہ کیئے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لئے تکفیری سوچ کا خاتمہ کیا جائے۔ دھشت گردی کے خلاف پاک فوج، رینجرز اور پولیس کو بھرپور کارروائی کرنی چاہئے۔ اربعین کے موقع پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات ضروری ہیں، مگر اس میں عام شہری کو مشکل میں نہ ڈالا جائے۔ اس ملک کے اداروں میں دھشت گردوں کے خلاف لڑنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے، لہذا ریاست ہر سطح پر دھشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ ملک کے بہادر عوام اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ دھشت گردوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ نیشنل ایکشن پلان سے متعلق نواز حکومت کا رویہ غیرسنجیدہ ہے، نواز گورنمنٹ کا رویہ دھشت گردی کے خاتمہ میں رکاوٹ ہے۔

شھداء کمیٹی کے اراکین نے اس موقع پر اپنے مطالبات کو دہراتے ہوئے دھشت گردی کے خلاف آپریشن نہ ہونے کی صورت میں ۲۹ دسمبر کو لانگ مارچ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا،اس موقع پر جیکب آباد میں شہدائے شب عاشور کے نام سے چوک کے قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree