The Latest

وحدت نیوز (چنیوٹ) الیکشن ریفارمز کے بغیر ملک میں جمہوریت کا قیام ممکن نہیں بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی مایوس کن رہا موجودہ سیاسی جماعتوں نے دھونس دھاندلی اور من مانی کے نتائج حاصل کیے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنے گا شفاف بلدیاتی انتخابات کیلئے نگران سیٹ اپ کا ہونا ضروری ہے اسلئے ہم نے تجویز پیش کی تھی کہ مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاجائے ان خیالات کااظہار سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع چنیوٹ سید انیس عباس زیدی نے کیا وہ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کررہے تھے انہوں نے مزید کہا کہ سند ھ میں مجلس وحدت مسلمین کے امیدواروں کو منظم وھونس اور دھاندلی سے ہرایا گیا اس کے باوجود ہمارے امیدوار کھڑے تھے دوسرے نمبر پر رہے انشاء اللہ ہم اپنی سیاسی سفر کو جاری رکھیں گے اور اس مورثی سیاسی نظام کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ہمار ے امیدواروں اور کارکنوں کو جگہ جگہ ہراساں کیا گیا انہوں نے مزید کہا کہ حیدر آبا دمیں ہمارے جیتے ہوئے یوسی 20کے چیئرمین کو پانچ دفعہ ری کاؤنٹنگ کرکے ہرایا گیا انشاء اللہ ہم بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے موجودہ حکمرانوں کا رویہ اور طرز حکومت ہی جمہوریت کے دل کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے آخر میں انہوں نے میونسپل کمیٹی فیروزوالہ ضلع شیخوپورہ ، چنیوٹ اور بدین سے نومنتخب مجلس وحدت مسلمین کے امیدواروں کو مبارکباد پیش کی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں ایم پی اے آغا رضا نے طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج جن دشواریوں کا سامنا ہے ان کی بنیادی وجہ تعلیمی میدان میں پسماندگی ہے، دور جدید میں ترقی یافتہ اقوام کے صف میں کھڑا ہونے کیلئے علم اور ٹیکنالوجی کا حصول وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک منعقدہ تعلیمی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ علم کا حصول معاشرے کے ہر فرد کیلئے ضروری ہے اور طلباء کی تعلیم میں دلچسپی ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔ طلباء کی تعلیم اور اضافی سرگرمیوں میں دلچسپی قابل تحسین ہے ، علم سے محبت ہمیں ترقی کے پٹری پر لا سکتی ہے۔ اس وقت اساتذہ، سماجی کارکنان اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طلباء کی حوصلہ افزائی کرے، مختلف تقریری مقابلوں ، کھیلوں اور غیرنصابی سرگرمیوں کا انعقاد کریں۔ جن قوموں کو طالب علم کے قدر کا اندازہ ہے اور جنہیں معلوم ہے کہ انکی بقاء کا واحد ذریعہ تعلیم ہے وہی اقوام کامیاب رہے ہیں۔ آج کے جدید دور میں تمام تر معلومات طلباء کے دسترس میں ہیں، جدید آلات اور مشینوں سے کسی بھی قسم کے معلومات حاصل کئے جا سکتے ہیں، طلباء کو چاہئے کہ ان سہولیات کا مثبت استعمال کر کے ان سے مستفید ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طالب علم پر لازم ہے کہ وہ اپنی تعلیمی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے بیان کے آخر میں پی پی پی پارلیمننٹیرین کے رہنماء مخدوم امین فہیم کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انکے اہل خانہ سے دلی ہمدردی اور انکی مغفرت کیلئے دعا کی گئی۔

وحدت نیوز(کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں کونسلر محمد مہدی نے تعلیم و تربیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، ملک کے مستقبل کے ستاروں کی شناخت سکول سے ہو سکتی ہے.


ان کا کہنا تھا کہ اگر اساتذہ کی تربیت ہر سال کی جائے اور ہر سال انہیں تعلیمی نظام میں کی گئی ترقی سے آگاہ کیا جائے تو اچھے نتائج ہمارے قدم چھوم سکتی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ آج کل کے جوانوں میں ماضی کی نسبت تعلیم کی طرف زیادہ رو جہاں پایا گیا ہے جو کہ خوش آئیند ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہی جوش و جذبہ انہیں ان کی منزل تک پہنچائی گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اضافی سرگرمیاں بھی ضروری ہے ، جن اسکولوں نے ایم پی اے آغا رضا صاحب سے اپنے ضروریات کا جو سامان مانگا ہم نے انہیں فراہم کر دیا تاکہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو کسی قسم کی کمی نہ محسوس نہ ہواور اپنے تعلیم کو جاری رکھ سکے اور مستقبل میں ہمارے بازوں بن کر صوبے کو بدحالی سے نجات دلائے۔ بیان کے آخر میں تمام طلباء سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنا تعلیم جاری رکھے اور ساتھ ہی ساتھ اضافی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویڑن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں کونسلر حلقہ 12کربلائی رجب علی نے کہا ہے کہ شہر میں ہر خاص و عام کو قانون کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزراء سمیت دیگر معزز حضرات کو چاہئے کہ قانون کے احترام کے زریعے حب الوطنی کا ثبوت دے۔قانون کا احترام ہر شہری اپنے علاقے کے نمائندے سے سیکھ سیکھتا ہے، عوامی نمائیندے قانون کی پاسداری میں اپنا کردار ادا کرے گے تو عوام بھی ان باتوں کا خیال رکھے گی۔ قانون سازی کا مقصد شہر میں نظم و ضبط قائم رکھنا ہے اور صوبے میں روز مرہ مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے نظم و ضبط کا قیام ضروری ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی معاشرے میں نظم و ضبط اس معاشرے با شعور اور مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ ایک سالم معاشرہ ان باتوں کا خاص خیال رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ کوئٹہ شہر میں بعض افراد قانون کو ہاتھ میں لے کر شہر کے نظم میں خرابی کا باعث بنتے ہیں، بعض لوگ کسی نہ کسی طریقے سے قانون کی پامالی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو تربیت کی ضرورت ہے، حکومت کو چاہئے کہ عوام میں قانون کے احترام کا جذبہ پیدا کرنے میں کوئی پیش قدمی کرے اور انہیں ایک مہذب معاشرے بنانے کی طرف مائل کرے۔بیان کے آخر میں کہا گیا کہ پورے شہر میں نظم و ضبط کی بہترین مثال علمدار روڈ میں ملتی ہے، جہاں لوگ خود صفائی سمیت دیگر باتوں کا خیال رکھتے ہیں ۔ ان کا یہی رویہ ہمیں ان کیلئے مزید کام کرنے کیلئے اکساتا ہے اور ہم اپنے دل و جان سے شب و روز انکی خدمت میں صرف کر دیتے ہیں۔

وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری امور سیاسیات غلام عباس  نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے اسکردو روڈ سمیت دیگر تمام اعلانات محض الیکشن میں عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے تھے، عملی طور پر ابھی تک کسی اعلان پر عمل درآمد نہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں سے اسکردو روڈ کی فائل وزیراعظم سیکرٹریٹ میں پڑی ہوئی ہے اور عدم دلچسپی کے باعث منظوری نہیں دی جا رہی ہے جبکہ گلگت بلتستان کی سب سے بڑی آبادی کا انحصار گلگت اسکردو روڈ پر ہے جس کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور لوگ اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے، سیاحت بری طرح متاثر ہوچکی ہے، اس کے علاوہ روز کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے جس میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صرف پنجاب پر توجہ دے رہی جبکہ گلگت بلتستان پاکستان کی شہ رگ ہونے کے باوجود علاقے کی تعمیروترقی پر توجہ نہ دینے سے لیگی حکومت کی مفاد عامہ کے منصوبوں سے عدم دلچسپی ثابت ہو رہی ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اراکین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس اہم منصوبے پر اراکین اسمبلی کا احتجاج نہ کرنا اہلیان بلتستان کے ساتھ زیادتی ہے، عوام جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں تاکہ ہزاروں مسافروں کو اس اذیت ناک سفر سے نجات مل جائیں۔ مجلس وحدت مسلمین اس اہم منصوبے کے تکمیل کے لئے تمام تر کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس سلسلے میں عوامی احتجاج ہوا تو ایم ڈبلیو ایم عوام کا بھرپور ساتھ دے گی۔

ہمارے ملّی مسائل۔۔۔اٹکی ہوئی سوئیاں

وحدت نیوز (آرٹیکل) دانش مند کہلانا کسے پسند نہیں!؟البتہ دانش مندوں کی بھی اقسام ہیں، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن  کا کہنا ہے کہ  اگر لکھنے لکھانے  اور میڈیا سے کوئی اثر اور فائدہ ہوتا تو سارے انبیائے کرام ؑ  آکر پہلے لوگوں کوانٹر نیٹ سکھاتے،فیس بک سمجھاتے اورکمپیوٹر کی تجارت کو رواج دیتے۔

ان کے نزدیک لکھنے لکھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں ،نفرتیں پیدا ہوتی ہیں،دوریاں جنم لیتی ہیں اور غیبت وحسد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔لہذا وہ ہمیں اکثر مسائل کا حل خاموشی اختیار کرنے ،منّت سماجت سے کام نکالنے اور حسبِ استطاعت کچھ لے دے کرمعاملہ نمٹانے میں بتاتے ہیں۔

ہمارے خیال میں ایسے دانشمندوں کے افکار و نظریات انسانوں کو بے حس کرنے والی دوائیوں کے بہترین متبادل ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں کے دانشمندوں کی ایک اور قسم بھی ہے ،یہ ایسے دانشمند ہیں جو اصلاً دو جملے بھی نہیں لکھ سکتے،یا پھر خیر سے ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے،البتہ اپنی  باتوں سے یہ عالمِ امکان کو زیروزبر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔یہ اپنے آپ کو ہرفن مولا ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں یہ اس میں اپناسنہری  تجربہ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔

اپنے اندر کے احساسِ کمتری کو چھپانے کے لئے ان کے پاس چند رٹے رٹائے جملے بھی  ہوتے ہیں،مثلاً ہم تو تنظیمی ہیں،ہم تو انقلابی ہیں،ہم تو اتنا تجربہ رکھتے ہیں،ہم تو۔۔۔وغیرہ وغیرہ

سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے دانشمند فیڈبیک کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے اورانہیں کہیں پر کمنٹس دینے کا بھی پتہ نہیں ہوتا ،یہ اگر کہیں اپنے کمنٹس کے ذریعے تیر مارنا  بھی چاہیں تو  سیدھا وہاں مارتے ہیں جہاں نہیں مارنا ہوتا۔

مثلاً اگر کوئی آدمی فوری طور پر کہیں سے رپورٹنگ کرے  یا کوئی خبر نقل کرےکہ فلاں جگہ فلاں حادثے میں اتنے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں تو ایسے دانشمند فوراً کمنٹس میں لکھیں گے کہ” ہلاک نہیں شہید ہوئے “اس کے بعد یہ بحث کو کھینچ کر ہلاک اور شہید میں الجھا دیں گے اور اصل مسئلہ  ان کی قیل و قال میں ہی دفن ہوجائے گا۔ایسے دانشمند ہماری ملّی توانائیوں کو خواہ مخواہ ضائع کروانے میں یہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں ہمارے ہاں اس طرح کے دانشمند بھی  بکثرت پائے جاتے ہیں جو سارے مسائل کو لغت اور اصطلاح کی روشنی میں  کُلی طور پرحل کرنا چاہتے ہیں۔مثلاًاگر کہیں پر شراب کی خرید و فروخت کا دھندہ ہورہاہو اور آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا کوئی میدانی تحقیق کریں  تو فوراً یہ دانشمند ناراض ہوجاتے ہیں۔ان کے نزدیک شراب فروشی اور شراب خوری کا علاج یہ ہے کہ آپ زمینی تحقیق کرنے کے بجائے  شراب پر ایک علمی مقالہ  اس طرح سے لکھیں :۔

شراب در لغت۔۔۔۔ شراب در اصطلاح۔۔۔۔شراب کا تاریخچہ۔۔۔۔ شراب کے طبّی فوائد و نقصانات ۔۔۔دینِ اسلام میں شراب کی حرمت۔۔۔۔شرابی کے لئے دنیا و آخرت کی سزائیں۔۔۔اور آخر میں حوالہ جات

آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ قبلہ میڈیا میں میڈیم کے بغیر لکھا ہوا ایسے ہی ہے جیسے آپ نےکچھ لکھا ہی نہیں لیکن وہ اپنی ہی بات پر ڈٹے رہیں گے۔

معاشرے کے زمینی حقائق سے اربابِ علم و دانش کو دور رکھنا ایسے دانشمندوں کا اصلی فن ہے۔

اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک  بہت ہی نایاب قسم  بھی پائی جاتی ہے۔یہ تعداد میں جتنے کم ہیں معاملات کو بگاڑنے میں اتنے ہی ماہر ہیں۔یہ ایک چھوٹے سے مسئلے کو پہلے بڑھا چڑھا کر بہت بڑا بناتے ہیں اور پھر آخر میں اس کا حل ایک چھوٹی سی مذمت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔

مثلاً اگر اسلام آباد میں کہیں  پر خود کش دھماکہ ہوجائے اور آپ علاقے کو فوکس کرکے وہاں کے سیاستدانوں،بیوروکریسی,مقامی مشکوک افراد اور دیگر متعلقہ لوگوں اور اداروں کے بارے میں زبان کھولیں  اور عوام کو شعور دینے کی بات کریں تو ہمارے ہاں کے یہ  نایاب دانشمند فوراً ناراض ہوکر میدان میں کود پڑتے ہیں۔

اس وقت ان کا بیان کچھ اس طرح سے ہوتا ہے:

خود کش دھماکے کہاں نہیں ہورہے،پاکستان ،عراق،شام ،افغانستان وغیرہ وغیرہ  ۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے لوگوں  کی اپنی غفلت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔لوگ خود بھی اپنے ارد گرد کھڑی گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں اور مشکوک افراد پر نگاہ نہیں رکھتے،ہم عوام کی غفلت کی مذمّت کرتے ہیں۔

یہ پہلے چھوٹی سی بات کو گھمبیربناتے ہیں،ایک سادہ سے مسئلے کو پیچیدہ کرتے ہیں،کسی بھی مقامی ایشو کے ڈانڈے  بین الاقوامی  مسائل سے جوڑتے ہیں اور آخر میں ایک سطر کا مذمتی بیان دے کر یا لکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔

ایسے دانشمندوں کا ہنر یہ ہے کہ یہ خود بھی  کسی مسئلے کو اٹھانے کے فنّی تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی بولنے کا موقع نہیں  دیتے۔

میں ان کی ایک مثال اور دینا چاہوں گا کہ مثلاً آپ انہیں کہیں کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ایک مافیا رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔یعنی فلاں جگہ پر   مافیا انسانوں کا خون پی رہاہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاں کے ” نایاب دانشمند “کچھ اس طرح سے قلمطراز ہونگے کہ دنیا میں جب تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ ایک دوسرے کا خون پینے پر مجبور ہیں۔یہی صورتحال پاکستان سمیت  متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں پینے کا صاف پانی میسّر نہیں ہم وہاں کے محکمہ واٹر سپلائی کی مذمت کرتے ہیں۔

قارئینِ کرام ! اپنے ہاں پائے جانے والے دانشمندوں کے بیانات،تقاریر،کمنٹس  ،نگارشات اور تحقیقات  کا جائزہ لیں اور فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ  ہماری سوئیاں بھی اپنی اپنی جگہ  اٹکی رہیں اور ہمارے  ملّی و قومی مسائل بھی حل ہوجائیں۔

 

 

تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

انصاف کا تقاضاء

وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے بیروت اور پیرس میں بم دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہوئے، یقیناًیہ دنوں واقعات انتہائی دلخراش اور افسوسناک تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،کیونکہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے،۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات اپنے بھی غیر وں جیسا سلوک کرتے ہیں بلکہ اپنوں کی خاموشی دشمن کی تیر سے ذیادہ سخت ہوتا ہے، پیرس کے واقع پر ساری دنیا نے افسوس اور دکھ کا احساس کیا اور سب نے اپنے اپنے حساب سے اہلیان پیرس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیے،کسی نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تو کسی نے بڑی بڑی بلڈنگوں پر فرانس کا پرچم لہرایا ،تو فیس بک پر سب نے پروفائل پیکس پر فرانس کا جھنڈا لگایا۔میں ان اظہار ہمدردیوں کا مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میں کسی ظالم اور ظلم کے حق میں ہوں میں یاں پر بس صرف ان عوام کو اور ساری دنیا کے انسانوں کو فلسطین کی طرف لیجانا چاہتا ہوں، جہاں روزانہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے، خواتین کو سر عام گولیاں مار دیا جاتا ہے، پر امن مسلمانوں کو مسجد اقصٰی میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے، غریب مسلمانوں کا جو اپنے آباو اجداد سے فلسطن میں رہ رہے ہیں اور جن کی کئی نسلیں فلسطین کی سر زمین میں مدفون ہیں ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کو بے گھر و آسرا کھلے آسمان تلے ہجرت یاخیموں تک محدود کر دیا جاتا ہے، اور جو کوئی اپنی مظلومیت پر آواز بلند کرتا ہے تواُس پر دھشت گرد ، انتہاپسند کا ٹھپہ لگا کر یا تو مار دیا جاتا ہے یا سلاخوں کے پیچھے بیج دیا جاتا ہے، حتاکہ ان کے معصوم بچوں تک کو گرفتا کیا جاتا ہے۔


جی ہاں فلسطین میںیہ کوئی نئی بات نہیں جب سے اسرائیل کے ناجائز وجود کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے آج تک فلسطن پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے، کچھ مہینہ پہلے اقوام متحدہ کے عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرایا گیا جس سے مسلمان ممالک کافی خوش ہوئے، کہ شاید اب مسلۂ فلسطن کی کوئی راہ حل سامنے آجائے،لیکن میرے نزدیک اقوام متحدہ کی عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرانے سے مراد فلسطن کے مظلومین کا ساتھ دینا نہیں تھا بلکہ اسرائیل کو گرین سگنل دے رہا تھا کہ اب فلسطین پر جتنا ہو سکے تیزی سے ظلم و ستم کو بڑھا دو ، اقوام متحدہ نے فلسطین کے جھنڈے کو تو تسلیم کیا ہے مگر فلسطین کے حقوق اور اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے نظریں چرالی۔اور اگر ہم دیکھیں تو فلسطین کا جھنڈا لہرانے کے بعد اسرائیلی ظلم و بر بریت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ساری دنیا خاموش ہے جیسے کہ وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا ، بین الا اقوامی ادارہ(Red Crescent) ریڈ کریسنٹ کی رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینہ میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں چھبیس سو افراد زخمی ہوئے ہیں جن کو ربڑ اور اصلی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، ایک اور رپورٹ کے مطابق دو مہینوں میں ایک ہزار بچے گرفتار ہوئے اس کے علاوہ روزانہ فلسطینی شہید ہو رہے ہیں اسرائیلی بر بریت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شیلنگ سے ایک آٹھ ماہ کی بچی بھی شہد ہوئی۔ابھی یہ ظلم کم نہیں ہوئے تھے کہ اسرائیل نے اب ایک اور قانون تیار کیا ہے جس کی رو سے چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گرفتار کرنا اور ان کو قید کرنا قانونی قرار دیا ہے جوکھولے عام انسانی حقوق کی پالی ہے۔حال ہی میں فلسطینی ادارے، فلسطینی پریزینرز سوسائٹی(Palestinian Prisoners Society) کی جانب سے ایک رپورٹ شایع ہوا ہے جس میں ان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں ۴۰۰ فلسطینی بچے موجود ہے جن کی عمریں ۱۳ سے ۱۷ سے تک کے ہے اور ان بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے فلسطین کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا ہے۔


اب ذراامریکہ کی طرف دیکھیں جو اپنے آپ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عالمی چیمپین ،اور انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتا ہے، فلسطین میں اسرائیلی مظالم کا برابر کے شریک ہے، بش کے زمانہ میں امریکہ اسرائیل کے درمیان دس سال کا معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین ڈالر فوجی امداد کی مد میں اسرائیل کو دے گا، جو ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۷ تک تھا، ابھی ہال ہی میں یہ معاہدہ ختم ہونے سے پہلے اسرائیلی وزیر عظم کے دورہ امریکہ کے دوران مزید دس سالہ معاہدہ طے پایا ہے جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین سے بڑھ کر ۵ بلین ڈالر اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں ادا کرے گا جو ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۸ تک ہوگا،میرا امریکہ سے گزارش ہے کہ امریکہ اسرائیل جیسے دہشت گرد کومشرق وسطی میں رکھ کر ہر سال امریکی عوام کے ٹیکس سے ڈالر بیچنے کے بجائے اسرائیلیوں کو امریکہ میں ہی بسا لے، امریکہ میں ایک اورا سٹیٹ کا اضافہ ہوگا ااور اسرائیل وہاں خوش بھی ہونگے اور کسی دشمن کا خوف بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی فلسطنی حماس اور لبنانی حزب اللہ کے حملے ہونگے، اسرئیلی وہاں خوشی سے رہنگے امریکہ کی پریشانی بھی کم ہوگی،ادھر فلسطینی اپنے وطن میں خوشی سے رہنگے بلکہ مشر ق اسطٰی کی امن و سلامتی بھی بحال ہونگے کیونکہ مشرق وسطی کے تمام دہشت گردوں کو اسرائیل کی سر پرستی حاصل ہے تاکہ وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے، اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کریں لیکن امریکہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ ان کی مفاد میں نہیں ہے۔
افسوس ہے اُن انسانی حقوق کے علمبرداروں پر اور اُن مسلم ممالک خصوصا عرب ممالک پر جنہوں نے پیرس کے سانحہ پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا مگر کبھی فلسطین کے شہیدا کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی فیس بک اور بلڈنگوں پر فلسطین کا پر چم لہرایا سوائے کچھ ممالک کے ،بلکہ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر اسرائیل فلسطین کا جنگ ہو تو میں اسرائیل کا ساتھ دونگاجب مسلمان حکمرانوں کا یہ عالم ہو اور وہ اپنی تمام تر تاقتوں کے باوجود مٹھی بھر دشمن کے سامنے غلام بن کر رہنگے تو دشمن ہمارے ہی وسائل سے ہمیں قتل کرینگے ۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کو یہ جرات بھی مسلم حکمرانوں کی وجہ سے حاصل ہوئی جو اپنے اقتدار ااور مفاد کی خاطر اسلام کے دشمنوں کو گلے سے لگا یا اور ان کو بسا نے میں اور طاقتور ہونے میں مدد فراہم کی، افسوس ہے مسلمانوں پر جو ایک چھوٹے سے علاقہ اور قبلہ اول کو دشمنوں کی شر سے نہیں بچا سکا اور اپنوں کے مارے جانے پر خوشی اور کافروں کے مرنے پر غم زدہ ہوتے ہیں، افسوس ہے عرب ملکوں اور حکمرانوں پر ، عرب والے اگر صرف عرب ہونے کے ناطے بھی جمع ہو جائے تو فلسطین سے اسرائیل کا ناجائز وجود ختم ہو جائے مگر عربوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ انسانیت اور دین و ایمان کو بھی فروع کیا سوائے کچھ لو گوں کے جو دشمن کے سامنے میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔


ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے سوچ نا چاہیے کہ آج ہم مظلومین کی حمایت نہیں کرینگے تو کل ہماری باری پر کون ہماری مدد کرے گا،نہج البلاغہ میں اما علی ؑ کے بارے میں ایک واقع ملتا ہے کہ ایک دفعہ امام کو یہ خبر ملی کی شہر امبار میں دشمنوں نے حملہ کر کے ایک کافر زمی عورت کے گھر میں داخل ہو کر اس کے گلے سے گلہ بند یا ہار چھین لیا ہے حضرت علی ؑ یہ سن کر غصے میں لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر یہ واقعہ سنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو علی کہ کہو نگایہ اس کی غیر ت کا تقاضہ تھا کہ اس کے حکومت کے حدود میں دشمن حملہ کریں اور وہ اس کی مدد نہ کر سکیں،اور وہ بھی کافرزمی عورت لیکن یاں تو معاملہ ہی الگ ہے اسرائیل جیسا غاصب فلسطین میں داخل ہو کر مسلمان فلسطینی نوجوان لڑکی کو بناء کسی جرم کے سر عام گولی مار تے ہیں، اور معصوم بچوں کوگرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے مگر ساری انسانیت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؟؟


تحریر : ناصر رینگچن

زائرین ِ کربلا ۔۔۔ یہ درس کربلا کا ہے

وحدت نیوز (آرٹیکل) امام حسین (ع) اور انکے باوفا ساتھیوں کا چہلم منانے کے لئے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان سے بھی عاشقان اور موالیانِ سیدالشہداء (ع) کے قافلے کربلا کی جانب رواں دواں ہیں، لیکن انہیں اپنے دیس میں ہی طرح طرح  کی مشکلات کا سامنا ہے، ان قافلوں میں سے بعض قافلے ایسے بھی ہیں جو بیس دنوں سے اپنے سفر کا آغاز کرچکے ہیں، تاہم وہ ابھی تک ایران بارڈر تک بھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔ میری آج کی ٹیلی فونک معلومات کے مطابق زائرین کو کانوائے بنانے کے بہانے سے ژوب، کویٹہ سمیت ملک کے مختلف مقامات پر رشوت وصول کرنے کے لئے زبردستی روک لیا جاتا ہے، یاد رہے کہ زائرین کو ایسے علاقوں میں بھی روکا جاتا ہے، جو زندگی کی ابتدائی سہولیات سے بھی محروم ہیں اور جب یہ قافلے ایران کے بارڈر تفتان پہنچتے ہیں تو پاکستانی دفتر کے سامنے کئی کلو میٹر تک لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے راستے میں تعینات پولیس اور فوجی افسران گاڑیوں میں سوار زائرین سے بھاری رشوت  وصول کرتے ہیں۔

ملک کے ریاستی اداروں، ذرائع ابلاغ کے ٹھیکیداروں اور خاص طور پر آرمی چیف سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا آئینِ پاکستان کے مطابق نواسہ رسولؐ کے چہلم میں شریک ہونا جرم ہے؟ آخر سرکاری اہلکاروں کو کھلی چھٹی کیوں دی گئی ہے؟ پاکستانی ذرائع ابلاغ اس مسئلے میں خاموش کیوں ہیں؟ ہم اعلٰی حکام کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دشمن ممالک اور ایجنسیاں حکومتی اداروں، خاص طور پر مسلح افواج سے عوام کا اعتماد ختم کرنا چاہتی ہیں، یہ رشوت خور سرکاری کارندے دراصل دشمن ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ لہذا انہیں فوری طور پر لگام دی جائے۔ ہماری زائرین سے بھی گزارش ہے کہ زائرین کو ستانے والے اور رشوت لینے والے اہلکاروں کی ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا میں شیئر اور مجرمین کو بے نقاب کریں۔ زائرین کربلا، ستانے والے یزیدیوں سے ہرگز نہ ڈریں۔
یہ درس کربلا کا ہے
خوف بس خدا کا ہے


رپورٹ:۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (قم) چہلم سیدالشہداء حضرت امام حسینؑ کے موقع پر عراق جانے والے زائرین نے پاکستان سے ایران پہنچنے پر ایران میں مقیم پاکستانیوں، خصوصاً ایم ڈبلیو ایم کے مسئولین کو راستے میں درپیش مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کانوائے کو محض لوگوں کو لوٹنے اور رشوت بٹورنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ زائرین سے سرکاری اہلکار جگہ جگہ بدتمیزی کرتے ہیں اور ڈرا دھمکا کر رشوت وصول کرتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات راستے میں متعدد مقامات پر سواریوں سے فی نفر کے حساب سے پیسے جمع کرکے حکومتی اہلکاروں کو رشوت دیتے ہیں۔ کوئٹہ سے تفتان تک ہر سرکاری کارندہ زائرین کو لوٹنے کے چکر میں ہے اور ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سرکاری اہلکار کس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، سب بلاتفریق زائرین کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔

یاد رہے کہ اس وقت زائرین کی آمد کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور شکایات کی بھرمار ہے۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم قم کے سیکرٹری سیاسیات عاشق حسین آئی آر نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز حکومت عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لے، حکومتی اہلکار جان لیں کہ زائرینِ کربلا کو ستانا دنیا و آخرت میں ان کی بدبختی کا باعث ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زائرین کے بیانات سے لگتا ہے کہ انہیں ستانے اور رشوت کی وصولی کا منصوبہ اعلٰی سطح پر بنایا گیا ہے اور اس دھندے میں اہم سیاسی و سرکاری شخصیات کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کی ایکشن کمیٹی سے کہا کہ فوری طور پر اس سلسلے میں صدر اور وزیراعظم پاکستان نیز جنرل راحیل شریف کو  مختلف ذرائع سے آگاہ کیا جائے اور اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی ہونے تک بھرپور تحریک چلائی جائے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر کے سینیئر رہنماء ، جوان قانون دان برادر سید محسن رضا جعفری ایڈووکیٹ مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری سیاسیات مقرر ، گزشتہ روز ریاستی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کی طرف سے وحدت سیکرٹریٹ مظفرآباد سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کا اجرا کر دیا گیا، ریاستی کابینہ کے اراکین نے برادر کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملت مظلومہ و انقلاب حضرت حجت (عج) کے لیے کام کریں گے، آزاد کشمیر کے عام انتخابات 2016 ؁ء میں ہو رہے ہیں ، برادر ملت آزاد کشمیر کی درست سمت رہنمائی و سیاسی حکمت کے لیے بہتر کام کریں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree