The Latest
وحدت نیوز (لاڑکانہ) کربلا آئین زندگی کے عنوان سے منعقدہ عشرہ مجالس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ عصر حاضر کی یزیدیت کے مقابلے کے لئے پیغام کربلا پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کربلا حادثہ نہیں آئین زندگی ہے۔ کربلا طاغوتی نظام سے ٹکرانے کا نام ہے، عصر حاضر کی کربلا حسینیوں کو پکار رہی ہے۔ امام حسین عالی مقام ؑ انبیاء الٰہی ؑ کے وارث ہیں اس لئے انہوں نے مشن انبیاء ؑ کی تکمیل کرتے ہوئے وقت کے فرعون اور نمرود سے ٹکر لی۔
انہوں نے کہا کہ امام خمینی ؒ نے پیغام کربلا کا احیاء کرتے ہوئے شیطان بزرگ امریکہ اور یزید وقت اسرائیل سے ٹکر لی اور قرآن سنت پر مبنی الٰہی نظام قائم کیا۔ خمینیؒ بت شکن نے عاشقان کربلا کو اسوہ حسینی پر چلنے کا راستہ دکھایا۔ اس وقت دنیا بھر میں معرکہ حق و باطل گرم ہے حق و باطل کی اس جنگ میں ہم تماشائی نہیں، تماشائی بننا کوفیوں کا کردار ہے ہم کربلائی ہیں اوراہل حق کے ساتھ ہیں۔ عصر حاضر کی کربلا میں ہم تماشائی نہیں بلکہ کربلائی کردار ادا کریں گے،حسینیت کی راہ میں ہم اپنے لہو کا نذرانہ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عزاداری امام حسین ؑ ہماری شہ رگ حیات ہے اس کی راہ میں رکاوٹ قبول نہیں۔ چودہ صدیوں سے ایثار اور قربانیاں دے کر عاشقان اہل بیت ؑ نے ذکر حسین ؑ کو زندہ رکھا ہے، نواز حکومت کی شیعہ دشمن پالیسیاں آل سعود کی غلامی کی عکاس ہیں۔ ان رکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) دين مبين اسلام سے عشق و محبت كے جذبہ سے سرشار برصغير كے مسلم اكابرين نے حضرت قائد اعظم محمد على جناح (رہ) کی ولولہ انگيز قيادت ميں متحد ہو كر آزادی و استقلال كی تحريک چلائی، جس كے نتيجہ ميں وطن عزيز پاكستان معرض وجود ميں آيا اور اس آزادی و استقلال كی تحريک كا بنيادی ہدف "مذہبی آزادی كا حصول" تها۔ برصغير كے مسلمان ہر قسم كی قربانياں دينے كيلئے اس لئے تيار تهے كہ انہيں ايک ايسا ملک نصيب ہوگا، جہاں پر وه مكمل آزادی كے ساتهـ اپنی مذہبی رسومات كو ادا كرسكيں گے۔ اب اگر اس ملک كے عوام كی مذہبی آزادی ہی سلب كر لی جائے تو نظریہ قيام پاكستان فوت ہو جاتا ہے اور یہ فلسفہ وجودی پاكستان سے انحراف ہے۔ اگر اس آزادی كو سلب كرنے والے خود پاكستانی حكمران ہوں تو يہ انكی پاكستان كے خلاف بہت بڑی خيانت ہوگی، كيونكہ ايسی پاليسی ملک كے امن اور سلامتی كيلئے خطرے كی گھنٹی ہے، پاكستانی عوام كو ايسے غدار حكمرانوں كے خلاف صدائے احتجاج بهرپور انداز میں بلند كرنی چاہیے اور انہیں ملک کے سياسی عمل سے بے دخل كر دينا چاہیئے۔
پاكستان كا ہر شہری جانتا ہے كہ صديوں سے شيعہ اور سنی مسلمان اس خطے ميں اكٹھے ره رہے ہیں، يہاں پر ہر مذہب اپنے نظريات اور معتقدات كے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا كرتا تها، ايک معروف فارمولہ انہوں نے اپنايا ہوا تها كہ "اپنے مذہب كو جھوڑو نہیں اور دوسروں کے مذہب كو چھیڑو نہیں۔" رواداری اور احترام متبادل كی ترويج پر زور ديا جاتا تها۔ علمی بحث و مباحثے اور مناظرے ہوا كرتے تهے، ليكن قوت كا استعمال ممنوع تها۔ كچھ مشتركہ مذہبی رسومات تھیں، جن میں عيد قربان، شب برأت، عيد ميلاد النبی (صلى الله عليه وآله وسلم) اور عزاداری نواسہ رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) و يوم حسين (عليه السلام) منانا۔ ہر مسلمان اپنے طور و طريقے كے مطابق مذہبی رسومات ادا كرتا تها اور دوسرے كا احترام كرتا تها۔ حتی كہ غير مسلم بهی نواسہ رسول كی عزاداری ميں شريک ہوتے اور منتيں مانگتے تهے، بلكہ خود مجالس بهی كرواتے تهے۔ امام حسين عليہ السلام سے عشق ركهنے والے فقط شيعہ و سنی مسلمان ہی نہیں بلكہ بڑی تعداد ميں ہندو، سكھ اور عيسائی بهی اس ملک ميں بستے ہیں۔
تکفیریت کا آغاز اور اہداف
ايسے ميں ايک تكفيری فكر اور سوچ نے حكمرانوں کی زير سرپرستی پھلنا پھولنا شروع كيا اور انہوں نے برملا مسلمانوں كو كافر اور مشرک بنانا شروع كر ديا۔ بات صرف وعظ و تبليغ اور خطابات اور غليظ لٹريچر تک محدود نہ رہی، بلكہ گلیوں اور بازاروں ميں كافر كافر كے نعروں كے ساتھ جلوس شہر شہر میں نكلنے لگے اور گذشتہ تين دہائيوں سے مسلسل نكل رہے ہیں۔ حكومتی ادارے ان نفرت آميز نعروں اور خطابات كو روكنے كی كوشش ہی نہیں كرتے، نہ ان كے خلاف ايف آئی آر درج ہونے دیتے اور نہ جج صاحبان نوٹس ليتے ہیں۔ نہ پارليمنٹ اسے روكنے كیلئے قانون سازی كرتی ہے، بعد ميں ان لوگوں نے قانون كو ہاتھ ميں ليا اور پہلے مرحلے پر جن كو كافر اور مشرک سمجهتے تهے، انہيں كبهی اجتماعی طور پر خودكش حملوں، لشكر كشيوں، مساجد، امام بارگاہوں، گرجہ گھروں اور ديگر مزارات و مقدس مقامات اور بسوں سے اتار کر مسافروں کو قتل کیا۔ كبهی ٹارگٹ كلنگ كے ذريعے جید اور معتدل علماء كرام، اسی طرح ڈاكٹرز، پروفيسرز اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ركهنے والے قومی سرمايہ كو ہدف بنايا گیا، بعد ميں دوسرے مرحلے ميں قانون نافذ كرنے والے حساس اداروں، فوجی مراكز، مدارس، اسی طرح صنعتی و تجارتی مراكز كی تباہی اور عوام كے قتل و غارت كا بازار گرم كيا، حتى كہ غير ملکی مہمان بهی انكے شر سے محفوظ نہ رہ سکے۔
حکمرانوں کی ترجیحات کا محور ذاتی مفادات ہیں
ان دہشتگردوں نے مذہبی آزادياں سلب كرنے كی تبليغات اور دوسرے مسلمانوں كو جبری طور پر مذہب تبديل كرنے کی فقط دهمكياں ہی نہیں ديں بلكہ انہیں اپنے ظلم و تشدد كا نشانہ بھی بنايا۔ ہمارے حكمران ہميشہ ذاتی مفادات كو قومی مفادات پر ترجيح ديتے رہے، حتى كہ اس تكفيری سوچ كی كالی بهيڑيں حكومت كے حساس و غير حساس اداروں كے ريشوں كے اندر سرايت كر گئیں، اس تكفيری سوچ کے پروان چڑھنے سے ملک طرح طرح كے بحرانوں كا شكار ہوگيا اور اس ملک ميں زندگی كجا سانس لينا بهی دشوار ہوگیا۔ ملكی سرمايہ باہر منتقل ہوگيا اور ملک كا مستقبل تاريک ہوگیا، ملک کی وسيع اراضی پر حکومت كی رٹ ختم ہوگئی، آئين پاكستان كے خلاف آوازيں بلند ہونا شروع ہوئیں اور پاكستان كو تكفيرستان بنانے كی باتيں ہوئیں۔ بالآخر محب وطن قوتون نے متحد ہو كر وطن عزيز كو اس تكفيريت كے ناسور سے پاک كرنے كی آواز بلند كی اور مقبوضہ وزيرستان سميت پورے پاكستان پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور تكفيريت كے مراكز تباه كرنے كا مطالبہ كيا۔
سیاسی پارٹیاں دراصل تکفیریت کی سہولت کار ہیں
اس تكفيريت سے لڑنے كيلئے قومی ايكشن پلان بنا اور قانون سازی ہوئی، پاک آرمی نے آپریشن ضرب عضب كا آغاز كيا، اس ميں كافی كاميابياں حاصل كيں اور تكفيريت كو بہت بڑا دهچكا لگا۔ تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے چونکہ زرداری اور نواز شريف كے گہرے تعلقات ہیں اور انكی پارٹیوں ميں تكفيريوں كے سہولت كار موجود ہیں، لہذا انہوں نے نيشنل ايكشن پلان كی ڈائيورشن كی منصوبہ بندی كی اور پاكستان كو پوليس اسٹيٹ ميں تبديل كرنے كيلئے قومی خزانے سے نئے پولیس کے ادارے تشكيل دیئے، تاكہ انكی گرفت مضبوط ہو، انكے پرورده اور انكے غير ملكی آقاؤوں كے پيدا كرده تكفيری نیٹ وركس دہشتگردی سے جس مذہبی آزادی كو سلب نہیں کرسكے، وه اب اسی نيشنل ايكشن پلان كی آڑ ميں سلب كر ليں۔ اس سال حكمرانوں نے پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب ميں بالخصوص عزاداری نواسہ رسول كو محدود اور ختم كرنے كيلئے جو اقدامات كئے ہیں، جس طرح چادر و چارديواری كے تقدس كو پامال كيا ہے اور آئينی آزاديوں كو سلب كيا ہے۔ حسينيت سے دشمنی كی اس سے بڑی مثال ہمیں پاكستان كی تاريخ ميں نہیں ملتی۔ ميڈيا بر نشر ہونے والے محرم الحرام كے حوالے سے داعش، طالبان اور دیگر تكفيری گروہوں كے لٹریچر اور حكومت وقت كے بنائے ہوئے ضوابط و قوانين ميں مكمل مطابقت نظر آتی ہے۔ اگر حكومت اپنے شهريوں كی حفاطت كرنے سے قاصر ہے تو انہیں مزيد شكنجوں ميں تو نہ جكڑے۔ پاكستان كے شيعہ و سنی عوام حكومت كے بغير بهی ابنی عبادت گاہوں اور جلسے جلوسوں اور عزاداری كی حفاطت كر سكتے ہیں۔
تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں
ہماری مسلح افواج عسكری ميدان ميں تكفيريت كو كچل رہی ہیں اور ہمارے سياستدان سياسی ميدان ميں انہیں تقويت بخش رہے ہیں۔ ان تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں، جن لوگوں كی ذمہ داری حقيقی اسلام كی نشرواشاعت بنتی ہے، وه تكفيريوں كے لئے نرم گوشہ ركھتے ہیں يا انكی پشت پناہی كرتے ہیں۔ "ايسے خود غرض اور ناعاقبت انديش حكمرانوں كی موجودگی ميں دہشت گردی كيخلاف جاری جنگ كبهی بهی كاميابی سے ہمكنار نہیں ہوسكتی" اور انكی بيلنس پاليسی دہشتگردوں كے خلاف آواز بلند كرنے والے محب وطن علماء اور شخصيات جو اخوت و محبت اور امن و رواداری اور اتفاق و اتحاد كے علمبردار ہیں، ان پر پابندياں عائد كرنا دہشتگردی كی تقويت كا سبب بن رہی ہے، وه چاہتے ہیں كہ تكفيريت كے خلاف اٹھنے والی آوازيں بهی دبا دی جائيں اور ايسا كيوں نہ ہو، كيونكہ نيشنل ايكشن پلان اور اسكی قانون سازی كے اجلاس ميں اكثر وه لوگ شريک تهے، جنكے ڈائریکٹ يا ان ڈائریکٹ تكفيری دہشتگردوں سےرابطے ہیں، انكی ذاتی مصلحتيں اور مفادات تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے وابسطہ ہیں۔ دنيا بهر كے تكفيری داعش ہوں يا طالبان يا پاكستان كے اندر متعدد انكے نیٹ ورک، وہ برملا يزيد ابن معاويہ كو خليفۃ المسلمين مانتے ہیں اور اعلان كر رہے ہیں كہ قتل امام حسين عليہ السلام يزيد لعين كا صحيح اقدام تها، يزيد زنده باد كا نعره لگاتے ہیں اور عزاداری نواسہ رسول كو ختم كرنا انكا ہدف ہے۔
انهوں نے پوری امت مسلمہ كو بتا ديا كہ وه اہل سنت نہیں بلكہ يزيدی ہیں اور پاكستانی شيعہ و سنی مسلمان ہوں يا دنيا بهر كے مسلمان سب كے سب حسينی ہیں اور حسينيت زنده باد كا نعره لگاتے ہیں۔ ہماری حكومت بهی حسينيت زنده باد كے نعره كو دبانے كی بهرپور كوشش كر رہی ہے۔ حكومتی اور غير حكومتی ادارے مجالس عزاء كی مانيٹرنگ كر رہے ہیں، تاكہ كسی بہانے سے خطباء و ذاكرين كو جيلوں ميں ڈالا جائے، ليكن قانون كی دهجياں اڑانے اور نفرتيں پهيلانے والے تكفيری علماء كے خطابات سوشل ميڈيا پر پڑے ہیں، كيسٹس فروخت ہو رہی ہیں اور برملا خطابات كرتے پهرتے ہیں، انكے خلاف كوئی ايكشن نہیں ليتا اور اگر بعض اوقات كسی كو گرفتار كر ليا جاتا ہے تو تهوڑے عرصے بعد پريشر ميں آکر باعزت طور پر بری كر ديا جاتا ہے۔ حكمران عوام كو دهوكہ دينے كيلئے يہ ثابت كرنا چاہتے ہیں كہ دہشت گردی كا سبب وہابی و تكفيری سوچ نہیں بلكہ شيعہ و سنی خطباء و ذاكرين ہیں۔ خود حكومتی اداروں كے اعداد و شمار گواه ہیں كہ اس ملک كی تباہی و بربادی اور دہشتگردی وہابی تكفيريوں كی بدولت ہو رہی ہے اور ملک ميں كوئی ايک سنی يا شيعہ گروه ايسا نہیں جو ملک كے اندر دہشت گردی پھيلا رہا ہے۔ حكومت وقت اپنے غير ملكی آقاؤوں كو خوش كرنے كيلئے جتنا چاہتی ہے ظلم كر لے، ليكن حکومت کو اچھی طرح جان لينا چاہیئے كہ تاريخ گواه ہے كہ "حسينی كٹ تو سكتے ہیں ليكن عزاداری نواسہ رسول مقبول پر كوئی آنچ نہیں آنے ديں گے۔"
تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی زندگی کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور بڑھاپا۔ ان تمام ادوار کا آپس میں ایک خاص رشتہ قائم ہے اور اس اٹوٹ رشتے کے ذریعے یہ پانچ مراحل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ بنابرایں جسے بچپن میں صحیح تربیت ملے اس کا لڑکپن کافی حد تک بہتر گزرتا ہے اور جس کا لڑکپن معاشرے کی کثافتوں کی نذر نہ ہو تب اس کی نوجوانی بھی بہتر گزر جاتی ہے۔ جو نوجوانی میں غلط سوسائٹی، برےمعاشرے، برے گھرانہ اور برے مربّی سے محفوظ رہے اس کی جوانی ہوا و ہوس کے سیلاب میں غرق نہیں ہوتی اور جس کی جوانی تمام آفتوں سے بچ کر گزر جائے اس کا بڑھاپا تو سنور ہی جاتا ہے۔
البتہ ان تمام مراحل میں انسان کی اپنی ذاتی استعداد اور رجحانات کا بھی دخل بھی ضرورہے۔ بالخصوص اگر کوئی بچہ غیرمعمولی استعدادکاحامل ہوتو اس کے رجحانات بھی منفرد قسم کے ہوتے ہیں۔ ایسے باصلاحیت بچوں کو جب مطلوبہ وسائل مل جاتے ہیں تو جوان ہوکر وہ نا صرف اپنی ذات کو تمام بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو، بلکہ بسااوقات پورے علاقے اور ملک کو برائیوں اور مصیبتوں سے نجات دلاتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے تربیت یافتہ افراد بڑے عرصے بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے ہی افراد میں سے ایک منفرد اور چمکدارستارہ حجۃ الاسلام و المسلمین غلام محمد فخرالدین قدس اللہ سرّہ بھی تھے۔
موصوف نے 22نومبر 1971ء کو قمراہ سکردو میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ آپ کے والد حاجی مہدی مرحوم صوم و صلوۃ کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ مداح اہل بیت علیھم السلام بھی تھے۔ علاوہ ازیں والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے آپ کو ایک خاص شفقت و محبت نصیب ہوئی۔ لہذا آپ کی تربیت کے لیے بنیادی درسگاہ بہترین گھرانہ قرار پائی۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں قمراہ میں ہی حاصل کی۔ اس دوران بھی آپ کو دیندار اساتذہ سے کسب فیض کرنے کا سنہری موقع ملا۔ بعد ازاں نوجوانی کے عالم میں جب آپ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے سکردو آئے تب آپ کو آئی ایس او جیسا بہترین پلیٹ فارم ملا۔آپ نے نا صرف اس پلیٹ فارم کی بدولت اپنی ذات کو معاشرے کی آلودگیوں سے بچائے رکھا بلکہ اپنے ہم عمر دوستوں کو بھی اس پلیٹ فارم کی طرف راغب کرکے ان کی تربیت کی اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار اداکیا۔
ڈگری کالج سکردو سے ایف اے اور بی اے اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد چونکہ آپ کو قرآن مجید اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کے ساتھ ایک خاص شغف تھا لہذا آپ نے اپنے فن سخنوری کا لوہا بھی اسی دور میں ہی منوا یا۔
آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر علما کرام نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے تحریک جعفریہ پاکستان کے مسؤلین کی توجہ کو بھی اپنی طرف جذب کی۔ آپ نے اس ملکی سطح کی تنظیم میں خلوص نیت اور جذبہ ایمانی کے ساتھ حریم اہل بیت علیھم السلام کا بھرپور دفاع کیا۔
علوم محمد و آل محمد علیھم السلام سے آپ کی چاہت و بعض علما کے مفید مشوروں بالخصوص حجۃ الاسلام شیخ محمد حسن جعفری صاحب کی پدرانہ ہمدردی کے باعث آپ کوعُشّ آل محمد علیھم السلام قم المقدّسہ میں جیّد علما کے محضر میں زانوئے تلمذتہہ کرنے کا بہترین موقع نصیب ہوا۔ حوزے کے اساتذہ کو جب آپ کی صلاحیتوں کا ادراک ہوا تو انھوں نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے ان قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا۔ کم وقت میں آپ نے مختلف فنون میں مہارت حاصل کی۔ سطحیات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد آپ نے مختلف مراجع عظام کے درس خارج میں بھی بھرپور شرکت کی۔
آپ جہاں ایک بہترین خطیب تھے وہاں ایک منفرد محقق بھی تھے۔ سیاسی تحلیل میں تو آپ اپنی مثال آپ تھے۔ جب آپ تحلیل کرنا شروع کرتے تھے تو جی کرتا تھا کہ سنتےہی رہیں، آپ حقائق کو الفاظ کا ایسا لبادہ پہناتے تھے کہ واقعیّت مجسم ہوکر سامنے آجاتی تھی۔ آپ ایک عالمی فکر کے حامل تھے۔ دنیا کے کسی کونے میں اگر کسی پرظلم ہوتا تو آپ بے چین ہوجاتے تھے۔
آپ نے منجی عالم بشریت امام زمان عجّل اللہ فرجہ الشریف سے خصوصی عقیدت کی بنا پر اپنے ایم فل تھیسسز کا موضوع ہی" احادیث تطبیقی مہدویت در صحاح ستہّ و کتب اربعہ" انتخاب کیا اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ بعد ازاں آپ کی گوناگوں تبلیغاتی مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے قرآن و حدیث میں پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لی۔ آپ نے معینہ کلاسیں ختم کرنے کے بعد پی ایچ ڈی تھیسسز " نقد و بررسی آراء قرآنیون در مورد قرآن و سنت " کے موضوع پر لکھا۔ تھیسز کے دفاع کا منظر دیدنی تھا۔ ہم نے خود اس جلسہ دفاعیہ میں شرکت کی تھی۔ آپ ایسے علمی انداز سے اساتذہ کے اشکالات کا جواب دیتے تھے کہ مخاطب دنگ رہ جاتے تھے۔ وہاں اساتذہ نے بھی آپ کی شخصیت کو ایک منفرد شخصیت اور تھیسسزکو بھی نہایت عمیق اور مفید قرار دیا اور کہا کہ ایسی تحقیقات بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
تھیسز میں آپ نے 98.75% نمبرلے کر تحقیقی دنیا میں پاکستان اور اسلام کانام روشن کیا۔ علاوہ ازیں آپ کی مزید دو کتابیں بعنوان "مہدویت اور انسان کا مستقبل " اور "قرآنی زندگی" چھپ چکی ہیں۔بعض دوسری کتابیں بھی عنقریب چھپنے والی ہیں۔ ان میں سےایک اہم کتاب " ولایت فقیہ " ہے۔
آپ نے اپنی عمر کے آخری دو سال سرزمین قم المقدسہ میں مجلس وحدت المسلمین کے سیکریڑی جنرل کے عنوان سے دینی خدمات انجام دیں ۔ بنابریں موصوف ایک ایسی شخصیت ہیں جس نے ہر پلیٹ فارم سے عالمِ اسلام کی خدمت ،رہبری اور فلاح و بہبود کے لئے کام کیاہے۔
آپ گزشتہ تین سالوں سے مسلسل تبلیغی سلسلے میں حج بیت اللہ سے مشرّف ہورہے تھے۔ اس سال بھی آپ اپنے خالق حقیقی سے لو لگانے گئے تھے۔ آخر کار اعمال حج کے بجاآوری کے دوران آل سعود کی نااہلی، عدم دقت، بے اعتنائی اور بدنظمی یاپھر سازش کے باعث ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو منیٰ کے مقام پر حالت احرام میں اجلے ملبوس میں لبیک اللہم لبیک کی صداؤں کے ساتھ اپنے حقیقی معشوق سے جا ملے۔
یوں ہم ایک عالم باعمل، محقق کم نظیر، خطیب توانا، پیکر تقویٰ، مدرس بے بدیل، تابناک ماضی، امید مستقبل، عالم بصیرو مبارز سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ آپ کے مقدس جسدِ مبارک کو مکہ میں ہی قبرستانِ مِنیٰ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
آخر میں خدا کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ائمہ معصومین علیھم السلام کے جوار میں جگہ عنایت کرے اور ہمیں ان کے مشن کو احسن طریقے سے جاری رکھنے کی توفیق دے۔
تحریر۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ( حوزہ علمیہ قم)
وحدت نیوز (آرٹیکل) بادشاہت بیداری کو برداشت نہیں کرتی۔بادشاہ چاہے ظالم ہی کیوں نہ ہو، ہر دورمیں ظلم اور ظالم کے طرفدار بہت رہے ہیں ، حق پر چلنے والوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے ،ظلم کے طرفدار مختلف حیلوں سے ظالم کے ظلم کو چھپانے کی کوشش میں رہے ہیں، یہاں تک کہ تاریخ میں کئی مرتبہ ظالم کے ظلم کو ایک احسن چیز بنا کر بھی پیش کیا گیاہے اور پھر اس پر بھی ظالم سے انعام وصول کیاگیاہے۔
تاریخ نے اس طرح کے سینکڑوں چاپلوسوں کو اپنے دامن میں جگہ دے رکھی ہے، پرانے زمانے میں بھی چاپلوس حضرات بادشاہوں کے ظلم پر لوگوں کو راضی رکھنے کی ہر ممکن سعی کرتے تھے،بادشاہ اگر کوئی ظلم کرتا تھا تو وہ مختلف تاویلوں سے بادشاہ کو اس کے ظلم سے بری قرار دیتے تھے اور بڑی چالاکی کے ساتھ بادشاہ کے دشمن کو ظالم قرار دیتے تھے ۔ان چاپلوسوں کی اس دور میں بھی کمی نہیں ہے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی اس وقت سعودی بادشاہوں کے مظالم پر پردہ ڈالنے والے بہت ہیں ،سابقہ باشاہوں کی طرح آلِ سعود بھی ان چاپلوسوں پر خوب خرچہ کرتی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں آل سعود مسلمانوں کو قتل کرواتی ہے اس کے چاپلوس اس قتل عام کو ایک عظیم عبادت قرار دے باغیوں کا قتل مشہور کردیتے ہیں۔بادشاہوں کی سیرت کے عین مطابق ہے یہ سعادت آل سعود کو حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو بیدار ہونے کے جرم میں قتل کررہے ہیں۔
ان کے فتوے بھی عجیب ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں جنگ کرنا حرام ہے لیکن آل سعود اس سے استثنا ء ہیں کیونکہ یہ امت مسلمہ کی سربراہی کررہے ہیں،لہذا یہ جس اسلامی ملک پر چاہیں شب خون ماریں، دین اسلام میں حرام مہینوں میں کفار کے ساتھ بھی جنگ حرام ہے کیوں کہ آلسعودکا اسلام سے گہرا تعلق ہےاور یہ اسلام کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں اسلیے خوارج کی طرح ان کے لیے قرآن کے صریح حکم کی خلاف ورزی جائز ہے کیونکہ یہ خادمین حرمین شریفین ہیں۔ چاپلوسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ابھی سانحہ منی ہوا کہ جس میں 7440 حجاج شہید ہوئے، جب امت مسلمہ کے مختلف طبقوں نے یہ آواز بلند کی کہ آل سعودکی غفلت و ناقص انتظامات اور ممکن ہے سی آئی اے کے ساتھ ہمکاری کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہو،یہاں پر ان کے ایک پاکستانی چاپلوس نے اپنے کالم میں یوں لکھا کہ سانحہ منی کے حادثے کی منصوبہ بندی لبنان کی حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ایران کے سپریم لیڈر ایت اللہ خامنہ ای کے ہیڈکواٹر میں بیٹھ کر کی ،ایران نے اپنے ملک سے کچھ پاسدران کو یہ ٹرینگ دے کر بھیجا کہ وہ منیٰ میں جاکر بھگدڑ مچائیں اور اس حادثے کا سبب بنیں تاکہ آل سعود بدنام ہو۔
آل سعود کے پیسوں پر پلے اسطرح کے چاپلوس ہر ملک میں پائے جاتے ہیں اور ہر طرح سے آل سعود کے دفاع کی کوشش کرتے ہیں، فرض کیجئے ایک لحظے کےلیے اس چاپلوس کی بات کو مان لیں کہ ایران نے بندے بیھجے اور ایران ہی اس حادثے کا سبب بنا ،اب میرا سوال ہے اس چاپلوس سے اور اس طرح کے باقی لوگوں سے کہ آیا حاجیوں کی لاشوں کو اٹھانے والی کرینیں اور کنٹینرز بھی ایران نے بھیجےتھے ؟
آیا بے ہوش حاجیوں کو مردہ کہہ کر کنٹینروں میں پھینکنے کی پلاننگ بھی ایران میں ہوئی تھی ؟
ایک قبر میں ساٹھ ساٹھ مہمانان خدا کوان کے ورثا کی اجازت کے بغیر دفنانے کا حکم سید حسن نصراللہ نے دیا تھا ؟
وہاں کے انتظامات کس کے پاس ہیں ؟
حج کا پیسہ و خانہ کعبہ کی کمائی کون لوگ کھارہے ہیں ؟
اچھا اب حرام مہینوں میں یمن پر حملے کرنے والا کون ہے ؟
یمن میں شادی کی تقریب پر ظالمانہ حملہ کرکے خدا کے حرمت والے مہنے کی بے حرمتی کس نے کی؟
آلِ سعود کو خدا کی حدیں توڑنے کی اجازت کس نے دے رکھی ہے؟
آخر میں آلِ سعود کے دسترخوان پرپلنے والے چاپلوسوں سے یہی کہوں گا کہ یاد رکھو! ظلم کی رات جتنی بھی لمبی ہو سویرا ضرور ہوتا ہے
تحریر۔۔۔۔۔ سجاد احمد مستوئی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے رہنما ڈاکٹر کاظم سلیم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کھرمنگ کے ضلعی ہیڈکواٹر کا تعین مکمل طور پر ایک انتظامی اور تیکنیکی مسئلہ ہے لہٰذا سیاسی رہنماء اس مسئلہ کو سیاسی اکھاڑے میں اتارنے سے اجتناب کریں، ڈپٹی کمشنر سمیت اعلٰی انتظامی افسران کے تقرر اور وزیراعلٰی کے ذریعے رسمی اعلان کے بعد اس نومولود ضلع سے متعلق سیاسی مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، اب اس سے آگے کے تمام مراحل تیکنیکی اور انتظامی نوعیت کے ہیں لہٰذا سیاسی رہنماوں کو چاہیے کہ انتظامیہ کو میرٹ کے مطابق کام کرنے دیا جائے تاکہ بغیر کسی تنازعہ کے کھرمنگ کے تمام عوام یکسان طور پر اس نئے ضلع کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔ یہ بات ایم ڈبلیو ایم کے رہنما ڈاکٹر کاظم سلیم نے کھرمنگ انٹلیکچولز فورم کے ممبران سے ملاقات میں کہی، جنہوں نے آج اسکردو میں ان سے ملاقات کیں۔
انہوں نے مزید کہا ماضی میں بھی بعض سیاسی رہنماوں کی مداخلت نے اسکردو اور گانگچھے اضلاع کے خدوخال بگھاڑ دئیے تھے جس کا خمیازہ آج تک غریب عوام بگھت رہی ہیں، کیونکہ تاریخ میں جب بھی انتظامی معاملات سیاست کی نذر ہوئی اُ س نے ہمیشہ ترقی اور پیشرفت کے سفر میں قوموں کے مستقبل پر ناقابل تلافی اور کاری ضرب لگائی ہے، لہٰذا تمام سیاسی رہنماوں کو سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے علاقے کے عظیم تر مفاد میں انتظامی معاملات میں بے جا مداخلت سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر کاظم سلیم نے مزید کہا مجلس وحدت مسلمین ایک قومی پلیٹ فارم ہونے کے ناطے علاقے کے مشترکہ مفاد کی دفاع کریگی، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہیڈکواٹر کو ایشو بنانا علاقائی مفادات کے منافی ہے۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے ڈپٹی کمشنر کی بروقت تعیناتی کو مستحسن قدم قرار دیتے ہوئے تمام ضلعی انتظامیہ کو خوش آمدید کہا اور مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر تمام محکموں کے سربراہان کے تقرر کو یقینی بنانے کے لئے اقدام کریں بصورت دیگر صرف ڈپٹی کمشنر اور پولیس سربراہ کی تعیناتی کھرمنگ کے عوام کی دیرینہ مطالبہ کا جواب نہیں بن سکتے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) موت ایک ایسا موعظہ ہے جو کبھی پرانانہیں ہوتا۔ دنیا کی محبت کو کم کرنے اور مٹانے کا ایک بہترین طریقہ موت کو یاد کرناہے،مرنے والا جتنا عظیم ،آفاقی اور پاکیزہ نفس ہوتاہے،اس کی موت اسی قدر شدّت سے دلوں کی تطہیر کرتی ہے۔ کسی کی موت پر صرف اس کے گھر اور محلّے والے اشک بہاتے ہیں اور کسی کی موت سے پورے عالم میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین گزشتہ دنوں جب کربلاسے واپس ایران آئے اور پھر پاکستان جانے لگے تو ہمارے اصرار پر انہوں نے ہماری دعوت قبول کی اور پاکستان جانے سے صرف ایک دن پہلےہم چند دوست ان کے اردگرد بیٹھ گئے۔
ہماری جو آخری نشست ان کے ساتھ ہوئی اس میں انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی کہ ایک طالب علم کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیا پڑھے اور کس سے پڑھے۔یعنی اپنے نصاب اور استاد کاانتخاب سوچ سمجھ کرکرے۔ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی کی ضرورت صرف نصاب میں نہیں ہے بلکہ استاد میں بھی ہے۔ یعنی پورے نظامِ تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ہمارے درسی متون میں بہت ساری چیزوں کے حذف و اضافے کی بات کی اور باتوں باتوں میں سوال و جواب کا سلسلہ چل نکلا۔
ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی،البتہ آغاصاحب نے جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دیدیاتھا کہ حقیقی طالب علم بنو!
ان کے ایک قریبی دوست حجۃ الاسلام والمسلمین آقای تقی شیرازی کے بقول قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کے بعدقم المقدس ایران میں اچھے اور نظریاتی دوستوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے سلسلے میں جتنی بھی کاوشیں ہوئیں ان کے اصلی محرّک حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین تھے اور انہی کی فکر بعد میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی صورت میں مجسّم ہوکر سامنے آئی۔
یہ حسنِ اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ روز ایم ڈبلیو ایم قم کے قائم مقام سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری کے ہمراہ مجھے
حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی[1] سے ملاقات کا موقع ملا ۔
حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی ان کے ستاد ہیں،ان کا کہنا تھا کہ انہیں دس سالوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیاہے کہ وہ حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کو قریب سے جانتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا ،جو اس وقت نذر قارئین ہیں:
۱۔تعلیمی سرگرمیوں میں صفِ اوّل میں شمار ہوتے تھے
ان کے استادِ بزرگوار کاکہنا تھا کہ وہ اپنی پڑھائی میں ہمیشہ آگے آگے رہے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے فرصت یامہلت مانگی ہو۔اس لحاظ سے وہ دوسروں کے لئے نمونہ عمل تھے۔
۲۔حقیقی مبلغِ اسلام تھے۔
ان کے استاد گرامی کے بقول وہ تبلیغ ِاسلام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر محنت کرتے تھے اور ہزاروں مبلغین کے درمیان ممتاز تھے۔
۳۔ترجمہ وتالیف
وہ ترجمے اور تالیف کے کاموں کو بھی عین عباد ت اور اوّلین فریضہ سمجھ کرخلوص کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
۴۔ادب و احترام
ادب و احترام ان کی ایک ایسی صفت ہے جس کا اعتراف شہید کے تمام جاننے والوں اور استادوں نے کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی نے بھی کہا کہ جیسے جیسے ان کے علمی مدارج طے ہوتے گئے وہ اخلاقی طور پر بھی نکھرتے چلے گئے۔
۵۔ظاہری آراستگی اور خوبصورتی
انہوں نے کہا کہ شہید انتہائی منظم اور لطیف مزاج تھے۔چانچہ ظاہری طور پر بھی ہمیشہ خوبصورت لباس زیبِ تن کرتے اور بن سنور کررہتے۔
۶۔نیک ا ولاد کی تربیّت
بہت سارے لوگ اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں اور یا پھر اجتماعی کاموں میں اپنی اولاد کی تربیّت سے غافل ہوجاتے ہیں۔لیکن شہید نے نیک اور بہترین اولاد کی تربیّت کی ہے۔
۷۔عطیہ خداوندی
ان کے استادِ بزرگوار کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ آلِ سعود کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں اور ہمیں اس بات پر افسوس ہے لیکن وہ روئے زمین پر سب سے مقدس مقام مِنیٰ میں مقدس ترین لباس میں اور مقدس ترین دن شہید ہوئے ہیں،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ اللہ کے خالص بندوں اور اولیائے الٰہی میں سے ہیں۔
آخر میں، میں بھی بس اتنا ہی کہوں گا کہ جس شخص کا مقام اپنے استادوں کی نگاہ میں اتنا بلند ہو کہ استاد اس پر رشک کریں،جو اپنے دوستوں کے درمیان اتنا محبوب ہو کہ دوست اس پر فخر کریں،جو اپنے شاگردوں کے اتنے قریب ہو کہ شاگر داسے اپنا روحانی باپ سمجھیں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر جواسلامِ حقیقی اور ولایتِ فقیہ کا حقیقی مبلّغ ہو اس کے راستے کو علمی و عملی طور پر آگے بڑھانا ،اس کے چھوٹ جانے والے کاموں کو مکمل کرنا ہر اس شخص پر لازم ہے ،جو موت کو اپنے لئے ایک موعظہ سمجھتاہے اور جسے یقین ہے کہ زندگی ایک مختصر سی فرصت ہے۔
آقا فخرالدّین واقعتا ایسے ہی تھے،انہوں نے زندگی کے لمحات سے صحیح فائدہ اٹھا یا اور جولوگ زندگی کے لمحات کو صحیح استعمال کرتے ہیں،استاد ان پررشک کرتے ہیں،دوست ان پر فخر کرتے ہیں اور زمانہ ان کااحترام کرتاہے۔
[1] حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی،ایران کی ایک نامی گرامی علمی شخصیت ہیں اور ان دنوں قم المقدس میں مدرسہ عالی امام خمینی میں مدرسہ عالی قرآن و حدیث ،دانشگاہِ مجازی المصطفیٰؑ سمیت متعدد تعلیمی و تحقیقی اداروں کی سرپرستی کررہے ہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ شب سریاب روڈ میں لوکل بس میں دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کوئٹہ سریاب روڈ پر مسافر بس میں دھماکا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں کم ازکم 10 شہید اور متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں،میڈیا ذرائع کے اطلاعات کے مطابق مسافر بس کوئٹہ اور سریاب کے درمیان چلنے والی آخری بس تھی جس میں زیادہ تر کوئٹہ کی نواحی آبادیوں کے لوگ سوار تھے ایک اندازے کے مطابق بس میں50سے زائد افراد سوار تھے جبکہ بس کی چھت پر بھی مسافروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
پرنٹ میڈیا کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ دھماکا بس کے اندر ہوا جس کے بعد افراتفری پھیل گئی،دھماکے کے بعد زخمی اور جاں بحق افراد کوقریب واقع اسپتال منتقل کیا جارہاہے۔ علاوہ ازیں ریسکیوذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکے سے شہید ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دھماکہ کراچی بس ٹرمینل پر کھڑی بس میں ہوا جس میں پچاس سے زائد مسافر سوار تھے۔دھماکہ اس قدر شدید تھا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی اور بس ٹرمینل کے پاس کئی دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔اسپتال ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے اس موقع پر کہاکہ ہم اس دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں کہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ جس نے ایک شخص کی جان لی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان لی ۔ لہذا حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد دہشت گردوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ کیونکہ کوئٹہ امن کو ایک بار پھر خراب کیاجارہاہے۔ عوام جو کچھ وقت کے لیے سکھ کا سانس لے رہے تھے گزشتہ شب کے واقعے نے ایک بار پھر عوام کو ذہنی کوفت اور اذیت میں متبلا کر دیاہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ محرم الحرام کے ایام میں تمام اسکاوٹس اپنے اردگرد ، مشکوک اشخاص اور گردنواح ہر چیز پر نظر رکھیں تاکہ خدانخواستہ کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔ علاوہ ازیں ایم ڈبلیو ایم کے رضا کاروں کو بھی ہدایت کی گئی کہ اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سے تعاون کریں ۔
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں عزاداری کو محدود کرنے کی حکومتی سازشوں کو مسترد کرتے ہیں، گلگت بلتستان حکومت بھی پنجاب حکومت کی تقلید میں غیر ضروری پابندیاں عائد کر کے عزاداری کو محدود کرنے خواب دیکھ رہی ہے جو ان کی بھول ہے۔ عزاداری سید الشہداء کو محدود کرنے اور پیغام کربلا کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرنے والے صفحہ ہستی سے نابود ہو جائیں گے اور نواسہ رسول ؐ کا ذکر قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں ماہ محرم کے شروع ہوتے ہی اہل سنت اور اہل تشیع امام عالی مقامؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے سبیل حسین علیہ السلام کا انتظام کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ گلگت بلتستان میں امام عالی مقامؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے والوں پر پابندیاں عائد کرنے کا مطلب امام حسین ؑ سے دشمنی کے سوا کچھ نہیں جبکہ انہی سڑکوں پر بیہودہ ناچ گانے کی اونچی آوازوں پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا اور ماہ محرم میں نوحے اور مرثیوں سننے والوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹے جانا نواسہ رسولؐ سے کھلی دشمنی کا ثبوت ہے۔
انہوں نے صوبائی حکومت کے رویے کو انتہائی توہین آمیز قرار دیتے ہوئے اسے پنجاب حکومت کی تقلید میں عزاداری کو محدود کرنے کی سازش سے تعبیر کیا ہے۔ تمام ادیان ماہ محرم کا احترام کرتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام سے محبت میں خیرات اور تبرک کا اہتمام کرتے ہیں اور حسب حیثیت عزاداران امام حسینؑ کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں پورے پنجاب میں علماء کرام پر پابندیاں عائد کرنا محض انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے مترادف ہے جبکہ یہی علماء کرام اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں اور ملک سے فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عزاداری کی راہ میں کسی بھی پابندی کو خاطر میں نہیں لائیں گے چاہے ہمیں جان کی بازی لگانا پڑے۔
وحدت نیوز (سیالکوٹ) مجلس وحدت مسلمین سیالکوٹ کے سیکرٹری جنرل آغا قیصر نواز کی جانب سے جعفری پورہ علی ؑ مسجد میں مجلس امام حسین ؑ منعقد کی گئی جس سے علامہ سید اعجاز حسین نقوی نے خطاب فرمایا دورانِ خطاب انہوں نے فضائل و مصائب شھدائے کربلا بیان فرمائے بعدازاں جلوسِ شبیہہ علم وذوالجناح برآمدہوااور سنگت دستہ امامِ زمانہ نے سینہ زنی و نوحہ خوانی کی جلوس اپنے مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا آغا قیصر نواز کے گھر اہتمام پذیر ہوا دورانِ جلوسِ عزا سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے بعد ازں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آغا قیصر نوازاور ان کے ہمرا جناب عقیل عباس جنجوعہ،سید ثقلین شاہ صاحب، سید عامر علی نقوی اور سید عاصم رضا نقوی ،سید صدا حسین بخاری نے کہا کہ عزاداری امام حسین ؑ ہمارے جسموں میں خون کی طرح اہم ہے اور اسے ہم کسی صورت نہ چھوڑیں گے نہ محدود کریں گے اور عزاداری سیدالشھداء امام حسین ؑ ہر طرح کے حالات میں جاری و ساری رہے گی ۔
وحدت نیوز(کراچی) لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی آڑ میں عزاداری کو محدود کرنے کی سازشوں کے خلاف شیعہ جماعتوں کا اجلاس مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے دفتر میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت بزرگ عالم دین علامہ مرزا یوسف حسین نے کیا۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علی حسین نقوی ،علامہ مبشر حسن اور ناصر حسینی، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے رکن مرکزی نظارت علامہ عقیل موسیٰ ، جعفریہ الائنس کے ایڈیشنل سیکریٹری شبر رضا، آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے صغیر عابد رضوی اور علامہ اظہر حسین نقوی، مرکزی تنظیم عزاداری کے سربراہ ایس ایم نقی اور شمس الحسن شمسی، شیعہ علماء کونسل کے رہنما علی محمد بخاری، اسکاوٗٹس رابطہ کونسل کے رہنما سردار حسین سمیت پیام ولایت فاؤنڈیشن اور ناصران امام فاؤنڈیشن کے رہنما بھی موجود تھے۔ اجلاس سے خطاب میں رہنماؤں نے کہا کہ عزاداری سید الشہدا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے، ہم کسی بھی صورت اپنے اس آئینی حق سے دستبردار نہیں ہوں گے، قائم علی شاہ کی سندھ حکومت، شہباز شریف کی پنجاب حکومت اور پرویز خٹک کی خیبر پختونخوا حکومت سن لے عزاداری سید الشہدا ہماری شہ رگ حیات ہے ہم ہر صورت اپنی شہ رگ کا دفاع کریں گے۔ رہنماؤں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کالعدم جماعتوں کا سہارا لے کر عزاداری کو محدود کرنے کی جو سازش کررہی ہے عزاداران امام حسین اس سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی نے اپنا قبلہ تبدیل نہیں کیا تو عزاداران امام حسین اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔