The Latest

وحدت نیوز(آرٹیکل)خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔ایک زمانہ تھا  کہ جب ہمارے ہاں  کسی  فرقے  کے لوگ قتل ہوتے تھے تو عام لوگوں  کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی،ہمارے ہاں کی اکثریت تو اس بارے میں کچھ بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی تھی۔

 پھر یہ معمولی سی بات غیرمعمولی بنتی گئی،شیعوں کی گردن پر تیز کیا گیاخنجر اہلِ سنّت والجماعت کی شہ رگ کو بھی کاٹنے لگا،امام بارگاہوں پر آزمائے گئے بم، اولیائے کرام کے مزارات کو بھی نشانہ بنانے لگے ،ذاکرین کو قتل کرنے والوں نے قاری سعید چشتی جیسے قوال کو بھی موت کے گھاٹ اتار ا،مسجدوں میں خود کش دھماکے کرنے والوں نے چرچ بھی اڑائے ،عیسائیوں کو ستانے والوں نے اسماعیلیوں کو بھی خون میں نہلایا،عبادت گاہوں میں خود کش دھماکے کرنے والوں نے بازاروں میں بھی دھماکے کئے،گاڑیوں سے مسافروں کو اتار کرقتل کرنے والوں نے پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے بھی کاٹے،اہلِ تشیع کو کافر کہنے والوں نے اہلِ سنّت والجماعت کو بھی مسلمان نہیں سمجھا،پاکستان کو کافرستان اور قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہنے والوں نے پاک فوج کو ناپاک فوج بھی کہا،جلسے اور جلوسوں کو حرام اور بدعت کہہ کر دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ننھے مُنھے بچوں کو بھی خون میں نہلایا اور یوں ظلم و ستم کی ایک بھیانک تاریخ رقم کرکے اہلیانِ پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ ہم صرف شیعہ یا سنّی کے دشمن نہیں بلکہ انسانیت  کے دشمن ہیں۔

انسانیت کے ان دشمنوں نے جس طرح پاکستان میں قائداعظم ریزیڈنسی پر حملہ کیا اسی طرح افغانستان میں آثارِ قدیمہ کو مسمار کیا ۔انہوں نے بری امامؒ،حضرت داتا گنج بخش  اور رحمٰن باباجیسے مزارات سے لے کر مدینے میں  جنت البقیع اور شام میں موجود صاحبہ کرام ؓ کے مزارات کوبھی اپنے ظلم کانشانہ بنایا لیکن ہمارے ہاں کی اکثریت خاموش ہی رہی۔۔۔

ابھی  چند روز پہلے  انسانیت کے ان دشمنوں نے یعنی 13” نومبر 2015ء کی شام  کو فرانس کے دار الحکومت پیرس اور سینٹ-ڈینس میں مرکزی یورپی وقت کے مطابق 21:16 پر  تین علیحدہ علیحدہ دھماکے اورچھ جگہوں پر اجتماعی شوٹنگ  کی۔نیز اسی دوران  سینٹ ڈینس کے شمالی مضافات میں فرانسیسی سٹیڈیم کے قریب بھی  تین بم دھماکے بھی کئے۔

یاد رہے کہ دھماکوں کے وقت سٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان فٹبال میچ ہو رہا تھا اور میچ دیکھنے کے لیے فرانس کے صدرفرانسوا اولاند اور وزیر اعظم بھی موجود تھے۔اسی دوران مسلح افراد نے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنانے کے بعد گولیاں مارکرہلاک کردیا۔

اب تک کی  میڈیا کی اطلاعات کے مطابق “اس واردات میں  کل 128 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوئے،زخمیوں میں سے 99 افراد  شدید زخمی ہیں۔ “[1]

وحشت ،دہشت اور قتل و غارت کے لحاظ سے   یہ دوسری جنگ عظم کے بعد فرانس میں پیش آنے والا سب سے زیادہ دلخراش سانحہ ہے۔

اس سانحے کی سنگینی کا اندازہ  آپ اس سے کرلیں  کہ  ۷۱ برس کے بعد پہلی مرتبہ  فرانس کے کسی شہر میں کرفیو لگایا گیاہے۔

اب لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۳ نومبر کو یہ واقعہ پیش آیا اور ۱۴ نومبر کو داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔جس کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔[2]

اب آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں:۔

“گزشتہ سال نومبر میں فرانس نے مقبوضہ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا جسے صیہونی میڈیا نے اسرائیل کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا،اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فیصلے کو فرانس کی سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے نتائج کیلئے تیار رہنے کی بھی دھمکی دی، اسرائیلی وزیراعظم کی دھمکی کے بعد فرانس مسلسل دہشتگردی کا شکار ہے۔

اس وقت یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فرانس نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کا حل ایک خود مختار، جمہوری ریاست قرار دیا ہے، فرانسیسی صدر فرانسواں میٹرینڈ François Mitterrand پہلے صدر تھے جنہوں نے انیس سو بیاسی میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطین کی حمایت میں بیان دیا جبکہ فرانس ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، دو ہزار آٹھ میں فرانس نے فلسطینی عوام کیلئے چار سو ملین یوروز امداد بھی دی ہے“۔ [3]

اب  گزشتہ نومبر میں  نیتن یاہو کی فرانس کو دھمکی ،اس نومبر میں فرانس میں دہشت گردی کی وحشتناک کاروائی،پھر اس کاروائی کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کرنا  اور پھر یورپی میڈیا کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا۔۔۔ان ساری چیزوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہ  کس کے ایجنٹ ہیں !داعش والےکس کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں ! سب سے بڑھ کر ہمیں اس سلسلے میں بولنا ہوگا کہ  سعودی عرب اور امریکہ داعش کی پشت پناہی کرکے  دنیا میں کونسااسلام نافذکرنا چاہتے ہیں؟!

ہم فرانس میں بے گنا انسانوں کے مارے جانے پر جہاں اہلِ فرانس کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں وہیں پر اہلِ مغرب کو  یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ اہلِ مشرق کے سکوت سے عبرت حاصل کریں،داعش کی پشت پر موجود امریکی و یورپی طاقتوں اور سعودی عرب  جیسے ممالک کے خلاف متحد ہوکر اپنی زبان کھولیں بصورتِ دیگر عالمِ اسلام کی طرح دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کے لئے اب تیار ہوجائیں،چونکہ یورپ، امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کاپالاہوا ناگ اب یورپ میں  بھی پھنکارنے لگاہے۔

اگر اس ناگ سےاپنی آئندہ نسلوں،شہروں،باغات ،لوک ورثے اور ممالک کو بچاناہے تو پھر جان لیجئے کہ  خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔

[1] بی بی سی،اے ایف پی،سی این این۔۔۔

[2] عالمی میڈیا

[3] استفادہ از:۔ http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/15-Nov-2015/429727

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکریٹریٹ وحدت ہاوس لاہور میں مفتی انتخاب کوآرڈینیٹر وزیر اعلی پنجاب برائے مذہبی امور، سید تنویر بخاری رہنما قومی مشائخ کونسل پاکستان نے سیکرٹری شعبہ سیاسیات مجلس وحدت مسلمین پاکستان برادر سید ناصر عباس شیرازی اور ڈپٹی سیکرٹری پنجاب سید اسد عباس نقوی سے ملاقات کی،جس میں دو طرفہ دلچسپی کے امورسمیت  شیعہ سنی وحدت کے حوالہ سے گفتگو کی گئی۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع جنوبی کراچی سولجر بازار کی الیکشن کیمپین کا بقاعدہ آغا زاس سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کے نامزد امیدواروں کی وفد کے ہمراہ یوسی 15-16 کے مختلف مقامات پر کارنر میٹنگزکاانعقاد و معززین سے ملاقاتیں کی اس موقع پر یوسی 16وارڈ نمبر ۳سے نامزد امیدوار برائے جنرل کونسلر عون محمدا ور وارڈ نمبر ۴ سے نامزد امیدوار برائے جنرل کونسلر محمد رضا شعبان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ علاقے کی تعمیر و ترقی و عوام کے بنیادی مسائل کا حل ہمار ااولین فریضہ ہے ،جسے ہم بخوبی انجام دیں گے،علاقہ کافی عرصہ سے پانی ، بجلی ،سیوریج و دیگر مسائل کا شکار ہے انشاء اللہ ہم عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے بعدان مسائل سے چھٹکارہ دلائینگے ، عوام اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں ہمارا ساتھ دیں ۵ دسمبر خیمہ کے نشان پر مہر لگا کر مجلس وحدت مسلمین کے نامزدباکردار ، نڈراور بے لوث عوام خدمتگار اور جذبہ ایثارسے سرشار امیدواروں کو کامیاب بنائیں۔

وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و سیکرٹری امور خارجہ ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی نے قم المقدس ایران میں مرحوم آیت اللہ الشیخ حسین سیبویہ کی مجلس ترحیم میں شرکت کی۔ مجلس ترحیم کا پروگرام مسجد امام رضا علیہ السلام میں ہوا۔ جس میں علماء کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مرحوم آیت اللہ حوزہ علمیہ نجف اشرف کی معروف علمی شخصیت تھے، ان کی وفات پر حوزہائے علمیہ نجف و قم کے مراجع عظام نے تعزیتی بیان جاری کئے جن میں سرفہرست آیت اللہ العظمٰی السید علی سیستانی اور رہبر معظم حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما نے اپنے عزیز دوست اور دفتر رہبر معظم شام کے قائم مقام سربراہ حجت الاسلام والمسلمین علامہ شیخ مہدی سیبویہ کو انکے والد بزرگوار آیت اللہ شیخ حیسن سیبویہ کی وفات پر تعزیت و تسلیت پیش کی اور مرحوم کے بلندی درجات کے لئے دعا کی۔

وحدت نیوز (نجف اشرف) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ نجف اشرف کے سیکرٹری جنرل حجتہ الاسلام و المسلمین علامہ ناصر عباس النجفی ،ڈپٹی سیکرٹری جنرل حجتہ الاسلام و المسلمین الشیخ ارشد علی خان النجفی الجعفری اور دیگر اراکین مجلس وحدت مسلمین نجف اشرف نےنامور عالم دین اور خادم مذہب اھل بیت علیھم السلام حجتہ الاسلام و المسلمین علامہ سید کرامت حسین نجفی کی وفات حسرت یاس پر گہرے دکھ اور غم و حزن کا أظھارکیا ہے.علامہ نجفی صاحب کی تمام زندگی علوم آل محمد علیھم السلام کے وقف تھی.انھوں نے کماحقہ دین مبین کی خدمت کی.اپنوں اور غیروں کی دی گئی تکالیف کو برداشت کیااور اپنے مبنہ اور منھج پر کار بند رہ کر کامیاب زندگی گزاری.ان کی علمی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں.دسیوں طلاب کرام جنھوں نے علامہ صاحب سے کسب فیض حاصل کیا ہے. آج حوزات علمیہ میں ان کے طلاب کی تعداد ہے.جو تحصیل علوم آل محمد علیھم السلام میں مشغول ہیں.جامعہ مصطفی جیسی عظیم علمی درس گاہ ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے.الله تعالی سے دعا ہے کہ پرودگار ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائےاور انھیں شفاعت محمد و اھل بیت محمد علیھم السلام نصیب فرمائے.الله رب العزت اس کے پسماندگان کو صبر و سلوان عطا فرمائے.

وحدت نیوز (لاہور) نیشنل ایکشن پلان پر آئی ایس پی آر کے بیان سے ملت تشیع کا موقف درست ثابت ہو گیا،کرپٹ،نااہل اور متعصب حکمران دہشت گردی کے خاتمہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں،اقتدار بچانے کیلئے کالعدم جماعتوں کو گلے لگایا جا رہا ہے جو آئین پاکستان سے غداری کے مترادف ہے ،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاہور میںورکرز اجلاس سے خطاب میں کیا،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ موجودہ حکمران نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں ،دہشت گرد اور کالعدم گروہ اسلام آباد میں ان کی ناک تلے آئین و دستور پاکستان کو روند رہے ہیں مگر ان کی طرف انگشت نمائی کرنا جرم بن گیا ہے،انہوں نے کہا کہ ذاتی مفادات کیلئے ملک کو قربان کیا جارہا ہے،ملکی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے،افواج پاکستان اور پاکستانی قوم کی عظیم قربانیاں حکمرانوں کیلئے کوئی وقعت نہیں رکھتیں،اگر حکمرانوں نے رویہ نہ بدلا تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔انہوں نے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ،بلوچستان اور سند ھ میں ہمارے لوگوں کو چن چن کر مارا جا رہاہے، پنجاب کی متعصب حکومت نیشنل ایکشن پلان کو صرف ہمارے لوگوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے،عزاداری کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اور اس ملک کے دشمن دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کی چھٹی دے دی گئی ،دہشت گرد آزاد اور ملک کے وفادار بانیان مجالس وعزاداران پر پابندیاں لاگو ہیں،یہ رویہ ہمارے لیئے کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے،اگر حکمران ملک سے مخلص ہیں تو نیشنل ایکشن پلان پر غیر جانبدارانہ عمل درآمد کروائیں ہم دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔
    
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بلدیاتی انتخابات میں کالعدم گروہ سے اتحاد کرنے والی سیاسی جماعتوں کی پالیسیز کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے ،الیکشن کمیشن اور حکمرانوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے ،کالعدم گروہ کے ساتھ قومی جماعتوں کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان جماعتوں کو صرف اقتدار سے پیار ہے،یہ کرسی کے پجاری ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے گروہ کو اپنا کاندھا پیش کر کے ملکی آئین کا مذاق اڑا رہے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ ہم جمہوریت اور ملک کے آئین پر یقین رکھتے ہیں اور نام نہاد جمہوری جماعتوں اور حکمرانوں کی طرف سے غیر جمہوری رویہ اور آئین پاکستان کو تسلیم نا کرنے والے دہشت گردوں کے سرپرستوں کے خلاف خاموشی لمحہ فکریہ ہے،آج پاکستان میں ایک مخصوص سوچ اور نظریہ کو مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے،ہم اس انتہا پسندانہ سوچ کو مسلط نہیں ہونے دینگے،آئین پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو یکساں آزادی حاصل ہے،عالمی دہشت گرد داعش کے پیروکار وں کے نظریہ اور سوچ کو دنیا اسلام کے ہر مہذب مسلمانوں نے نفی کی ہے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن بلدیاتی انتخابات میں بھر پور انداز میں حصہ لے رہی ہے،منتخب یونین کونسلزاور یونین کمیٹیوں میں مشترکہ اورغیرمشترکہ اندازمیں انتخابات لڑیں گے، ماضی کی حساسیت کو مدنظررکھتے ہوئے کراچی میں بلدیاتی انتخابات پاک فوج کی زیر نگرانی کروائے جائیں ، ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید رضا نقوی نے ضلع وسطی کے امیدواروں سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر ایم ڈبلیوایم ضلع وسطی کے سیکریٹری جنرل زین رضوی،ڈپٹی سیکریٹری جنرل عسکری رضوی ،سیکریٹری امورسیاسیا ت ثمرزیدی،امیدواربرائے چیئرمین یونین کونسل26النور سوسائٹی میرتقی علی( ظفر)،وائس چیئرمین مبشرحسن موجود تھے۔

سید رضانقوی کا کہنا تھاکہ کراچی کے بعض پولنگ اسٹیشن اب بھی حساس ہیں،جہاں کسی بھی ناخوشگوارواقعے سے نپٹنے کیلئے پیشگی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،مجلس وحدت مسلمین عوامی خدمت کا یہ سفر ہر صورت جاری رکھے گی،ہمارا ہدف قابل ، معاملہ فہم اور درددل رکھنے والے عوامی نمائندوں کو بااختیاربناکرمیدان میں لانا ہے تاکہ وہ عوام کی مشکلات کو انکی دہلیز پر حل کرسکیں ،ایم ڈبلیوایم نے فل حال کسی سیاسی ومذہبی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے،انہوں نے کورکمانڈرکراچی،ڈی جی رینجرزسندھ اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حساس پولنگ اسٹیشن اور ووٹرز کی جان ومال کا تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات بروئے کار لائیں ۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے رہنماء ڈاکٹر کاظم سلیم نے کہا ہے کہ وزیراعلٰی سمیت کسی کے پاس بیس لاکھ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اگر حکمرانوں میں اتفاق رائے قائم کرنے کی اہلیت نہیں استصواب رائے سے کام لیا جائے۔ یہ بات انہوں نے ایشین ہیومن رائٹس کے نمائندے ڈاکٹر ارسلان چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جنہوں نے اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر کاظم سلیم نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا تعین کرنے کا اختیار یہاں کے بیس لاکھ عوام کے پاس ہے لہٰذا ایسے کسی بھی فیصلے کو یہاں کے عوام مسترد کریگی جو ان کے قومی مفاد اور امنگوں کے منافی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے باشندے چاہے وہ جس علاقے یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے لئے یکسان طور پر محترم ہیں اور اس حساس خطے کے اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے ان سب کے نفع اور نقصان پورے خطے کا ہے، اس آئینی جنگ کو ہم سب نے ملکر لڑنا ہے اور یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈر کو ایک میز پر بیٹھا کر قومی اتفاق رائے پیدا کرئے۔ اگر یہ کام حکمران نہیں کر سکتے تو پھر جمہوریت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آئینی حیثیت کے بارے میں ریفرنڈم کرایا جائے، عوامی امنگوں کے بغیر نہ تو پاکستانی حکومت کوئی فیصلہ ہمارے اوپر مسلط کر سکتی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کو ہم مانتے ہیں۔ اقوام متحدہ اگر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے سکتا ہے تو یہ آئینی حق ہم سے کیسے چھین سکتا ہے؟ اس کے بغیر کوئی بھی غیر معقول فیصلہ اس حساس علاقے کی سالمیت کے خطرناک ہوگا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ کونسا انصاف ہے کہ کشمیریوں کے خاطر ایک اور قوم کو پیدائشی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی غیر مناسب پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کے باشندوں میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہی ہے جو کسی دن لاوے کی شکل اختیار کر سکتا ہے اس کے بعد کی حالات کو روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ ملک کے دیگر شورش زدہ علاقوں کے برخلاف گلگت بلتستان کی عوام ابھی تک الحاق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن حکمرانوں کی یہی بے حسی برقرار رہی تو پھر لوگوں کے مطالبات بھی بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا اگر آئینی حیثیت کے تعین کے سلسلے میں عوامی امنگوں کا خیال نہ رکھا گیا تو ہمارا رد عمل سخت ہوگا لہٰذا بہتر یہی ہے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عوامی جذبات اور احساسات کا خیال رکھا جائے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان کی زندگی میں کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے قلب و احساس پر گہرے نقوش چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان چاہے بھی تو اُن کو فراموش نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کچھ انسان بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جو ساری زندگی دوسرون کے دل و دماغ پر چھائے رہتے ہیں۔ تاریخ ایسی شخصیات اور ایسے حادثوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر یہ حادثے تازہ ہوں تو درد و رنج بھی تازہ ہوتا ہے، انہیں تاریخی حادثوں میں سے ایک حادثہ، فاجعہ منٰی ہے، جس نے نہ صرف عالم اسلام کو متاثر کیا بلکہ ہر صاحب شعور چاہے کسی مذہب و مسلک سے اُس کا تعلق ہو اور جو انسانیت کو سب سے بڑا مذہب و مکتب سمجھتا ہو، متاثر ہوا ہے۔ فاجعہ منٰی میں سات ہزار حجاج کرام کہ جن کو مہاجر الی اللہ کہا جاتا ہے، کا شہید ہونا، پوری ملت و اسلام  کے لئے باعث درد و الم بنا اور اس سے پوری ملت اسلام کو بہت بڑا نقصان ہوا چونکہ اس میں کچھ شخصیات ایسی تھیں جو کہ بین المللی تھیں اور جن کی ابھی انسانیت کو بہت ضرورت تھی۔ اُن شخصیات میں سے ایک شخصیت مہاجر الی اللہ، عالم مبارز، استاد بزرگ، خطیب توانا، دوست مخلص، مدافع ولایت فقیہ، مبلغ اعظم، انسان دوست، شہید ڈاکٹر غلام محمد فخر الدین تھے۔

غلام محمد فخرالدین شہید کسی تعارف کے محتاج نہیں، چونکہ وہ ایک ہمہ جانبہ Multi-dimensional personality- تھے۔ علاقائی سیاست ہو یا قومی اور بین الاقوامی سیاست، داخلی ایشوز (issues) ہوں یا خارجی۔ تعلیم و تربیت کے مسائل ہوں یا فرہنگی و اجتماعی ہر میدان میں وہ صف اول میں نظر آتے تھے، شہید کا تعلق پاکستان کے پسماندہ اور دُور افتادہ علاقہ گلگت بلتستان سے تھا۔ شہید اپنے بوڑھے والدین کے اکلوتے بیٹے اور اکلوتا سہارا تھے۔ شہید نے اپنی زندگی کی ابھی 44 بہاریں بھی پوری طرح نہیں دیکھی تھیں۔ اس دار فنا سے دار بقا کی طرف لبیک  ا۔۔۔ لبیک کہتے ہوئے قضائے الٰہی کو لبیک کہہ دیا اور اپنے فیملی پسماندگان کے علاوہ ہزاروں لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں یوں ہی اچانک شہید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھونا پڑے گا۔
کہاں خبر تھی چمن یوں اُداس ہوجائے
یوں تجھے کھونے کا بے حد ملال باقی ہے

شہید سے بندہ حقیر کی ملاقات ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس، جوار حرم حضرت معصومہ (س) میں دفتر مجلس وحدت مسلمین میں چار سال قبل ہوئی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں مجھے احساس ہوا تھا کہ یہ ایک معمولی عالم نہیں، اُن کی گفتگو، ان کا اخلاق، بات کرتے ہوئے لبوں پر دائماً ایک میٹھا سا تبسم، یہ سب کچھ ایسا تھا کہ میں اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر مجبور ہوا۔ اُسی وقت میرے ساتھ آقائے شاہد حسین عرفانی جو کہ رشتے میں میرے ماموں لگتے ہیں، اور وہ مسلسل شہید مظلوم  سے بلا جھجک گپ لگا رہے تھے، میں نے فرصت ملتے ہی اُن سے پوچھ لیا کہ یہ آغا صاحب کون ہیں اور کہاں سے ان کا تعلق ہے۔ تو ماموں نے تعجب سے کہا کہ عجیب ہے آپ ان کو نہیں جانتے، مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی تھی، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا، پھر ماموں شہید سے مخاطب ہوئے اور کہا یہ ہر دلعزیز، عالم مبارز، غلام محمد فخر الدین صاحب ہیں اور اُن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور پھر میری طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ میرا بھانجا ہے عاشق حسین، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے شاگرد خاص ہیں۔ پھر شہید مجھ سے مخاطب ہوئے اور بڑی اپنائیت سے کچھ سوالات کئے۔ اُن کے ساتھ ایک اور شخص بزرگوار بھی تھے، اُن سے بعد میں تعارف ہوا وہ آقائے حسن باقری صاحب تھے۔ ماموں شاہد حسین عرفانی نے بعد میں بتایا ان دونوں کی جوڑی بہت پکی ہے۔ بڑے صمیمی دوست ہیں بلکہ کہا کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، جہاں فخر الدین صاحب ہوں گے، وہاں حسن باقری صاحب اور برعکس آپ کو نظر آئیں گے۔

اس پہلی ملاقات میں ہی قلباً میں اُن کے بہت قریب ہوچکا تھا۔ آہستہ آہستہ شہید سے مختلف جگہوں پر ملاقائیں ہوتیں رہیں، بلکہ ڈاکٹر کرار کے گھر کئی دفعہ اُن سے خصوصی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ گلگت بلتستان کے مسائل پر ہماری اکثر اوقات گپ شپ ہوتی رہتی تھی، یہاں تک کہ آغا شہید MWM قم کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ دفتر میں اُن سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ شہید نے ایک دن دفتر میں بلایا اور شعبہ رواط و شعبہ سیاسیات کی مسئولیت سنبھالنے کا کہا۔ میں نے صاف الفاظ میں معذرت کی، لیکن شہید نے میری باتیں سُنی ان سنی کر دیں اور مجھے بالآخر اس مسئولیت کو انتخابات کے نتیجے میں قبول کرنا پڑا۔ یوں شہید کے ساتھ مل کر دفتر میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ کہ ایک شب شہید نے موجودہ قائم مقام سیکرٹری جنرل گلزار جعفری صاحب، مجھے اور کچھ اور دوستوں کو بلایا، کافی گپ شپ ہوئی۔ اپنی ساری ذمہ داریاں گلزار جعفری صاحب کو سونپی، دفتری کاموں کو بطریق احسن انجام دینے کی نصیحت کی اور کہا کہ وہ کافی لمبے عرصے کے لئے عازم پاکستان ہیں۔ جب میں نے اُن سے پوچھا آغا آپ دوبارہ کب تشریف لائیں گے، تو مسکرا کر فرمایا، آگے کا کچھ پتہ نہیں، انشاءاللہ اگر زندگی رہی تو دوبارہ ملاقات ہوگی۔ بہرحال شہید کو رات کے تقریباً ایک بجے ہم نے خدا حافظ کہہ دیا۔ میں نے اُن سے کہا آقا اگر اجازت ہو تو میں آپ کو موٹر سائیکل پر گھر چھوڑ دوں، کافی دیر ہوچکی ہے تو آقا نے فرمایا نہیں مختار مطہری صاحب مجھے گھر ڈراپ کریں گے، آپ چلے جائیں۔ مختار مطہری آفس سیکرٹری تھے۔ آغا شہید اُن سے بے حد پیار کرتے تھے۔ حتی آخری دنوں میں بھی  whatsupp پر سعودیہ سے مختار مطہری صاحب سے رابطے میں تھے۔ میں خدا حافظ کرکے گھر آیا، لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ شہید آغا سے میری آخری ملاقات ہوگی اور یوں پردیس میں جاکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔

معصوم (ع) سے روایت ہے "و اذا مات العالم ثُلم فی الاسلام ثلمۃ لا یسدُّھا شئی الی یوم القیامۃ" معصوم (ع) فرماتے ہیں، جب کوئی عالم اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے، ایسا خلا واقع ہوتا ہے کہ قیامت تک اُس خلا کو کوئی چیز پُر نہیں کرسکتی۔ شہید ڈاکٹر فخرالدین اس حدیث کے کماحقہ مصداق تھے۔ شہید اخلاق میں، شجاعت میں، خلوص میں، پرہیزگاری میں، اُنس و محبت میں، عمل میں، کوشش و تلاش میں، سیاست میں صداقت میں، امانت میں، سخاوت میں، تعلم و تربیت میں، قومی مسائل میں، عقاید میں، تزکیہ نفس، کوئی بھی مشکل اور ایشو ہو سب سے آگے نظر آتے تھے۔ سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ کوہستان، سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ تفتان، سوریہ کی جنگ ہو یا عراق و یمن، مسئلہ نصاب ہو، سانحہ 1988ء، مشکل کی ہر گھڑی میں ظلم و استبداد کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ضروری سمجھتے تھے اور عملاً ہر میدان میں موجود ہوتے تھے، وہ اپنی سیاسی بصیرت اور شجاعت میں منفرد تھے۔
تو منفرد تھا شجاعت میں شرافت میں
ہر ایک زبان پر تیری مثال باقی ہے
اُن کی شخصیت میں اعتدال تھا، اگرچہ وہ کام مجلس وحدت مسلمین میں کرتے تھے، لیکن کبھی بھی اپنی زبان سے، اپنے عمل و اخلاق سے کسی اور کو اذیت نہیں کی یہی وجہ ہے کہ آج ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور سیاسی لوگ اس غم میں برابر کے شریک ہیں، وہ عملاً ہر چیز سے بالاتر ہوکر اخوت، محبت اور بھائی چارے کے قائل تھے۔

نہج البلاغہ اور قرآن سے اُنہیں ایک منفرد لگاؤ تھا۔ مجتمع عالی امام خمینی میں باقاعدہ نہج البلاغہ کی تدریس کرتے تھے۔ امام علی (ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں "خالطوا الناس مخالطۃ اِن متّم معھا بکوا علیکم و ان عشتم ھَنو الیکم" امام فرماتے ہیں کہ لوگوں کے بیچ اس طرح سے زندگی گزارو، اگر مرجاؤ تو لوگ تم پر گریہ کریں اور اگر زندہ رہو تو لوگ آپ کی زیارت کے مشتاق ہوں۔ شہید منٰی امام (ع) کے اس قول کے واقعاً مصداق تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد آج ہزاروں لوگ اُن پر گریہ کرتے ہیں، اُن کے لئے کف افسوس ملتے ہیں اور جب تک وہ زندہ تھے مجھ جیسے حقیر، اُن کی زیارت کے مشتاق رہتے تھے، وہ ہمیشہ دفتر میں کہتے تھے کہ جو بھی بات کرنے ہی اخلاق کے دائرے میں رہ کر کریں، تاکہ آپ کے عمل اور زبان سے کسی کو اذیت نہ ہو۔ دفتر میں اُن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا، سیاسی فرہنگی اور دوسرے قومی مسائل پر اُن سے گفتگو کرنا ہمیشہ ہماری آرزو ہوا کرتی تھی۔ اُن کے ساتھ بیٹھنا ہم اپنے لئے باعث شرف اور افتخار سمجھتے تھے۔ جیسا کہ معصوم فرماتے ہیں مجالسہ اہل الدین شرف الدنیا و الآخرہ (کافی، ج۱، ص ۳۸) اہل دین (علماء) کے ساتھ معاشرت دنیا اور آخرت دونوں میں باعث شرف و افتخار ہے، شہید بہ عنوان ایک عالم دین ایسے ہی تھے کہ ہم اُن کے ساتھ بیٹھنا اپنے لئے باعث افتخار اور شرف سمجھتے تھے۔

شہید کی شہادت سے نہ صرف اُن کے بچے اپنے شفیق باپ سے محروم ہوئے، والدین نہ صرف اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو چکے ہیں، طلباء نہ صرف اپنے مخلص اُستاد کو کھو چکے ہیں بلکہ پورے مکتب تشیع کو بڑا نقصان ہوا ہے، خاص طور پر مجلس وحدت مسلمین کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ وہ وحدت مسلمین کے اثاثی ستونوں میں سے ایک تھے۔ اس طرح سرزمین بے آئین 68 سالوں  سے اپنے سیاسی، آئینی اور انسانی حقوق سے محروم، گلگت بلتستان کی عوام کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ مجھ جیسے کئی لوگ اُن کو گلگت بلتستان کا آئندہ اور مستقبل سمجھتے تھے اور میرے سمیت کئی مجھ جیسوں کو اُن سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔
چلا گیا ہے تو محفل سے اے اُمید شمال
ابھی قوم کی تقدیر کا سوال باقی ہے
اُن کی شہادت سے گلگت بلتستان اپنے ایک عظیم فرزند اور قائد سے محروم ہو گیا ہے۔
درد میں ڈوبا ہے گلشن تمہاری فرقت میں
تیرے افکار کا جاہ و جلال باقی ہے
تو جو پردیس میں جاکر نہیں آیا واپس
زبان گنگ ہے تیرا خیال باقی ہے

شہید جس طرح سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں منفرد تھے، جس طرح سے شجاعت و سخاوت و عبادت، اخلاص و عمل اور اخلاق میں دوسروں سے الگ تھے، شہادت میں بھی دوسروں سے منفرد رہے، مہاجر الی اللہ کا شرف حاصل کیا اور قرآن کی اس آیت کا حقیقی مصداق ٹھہرے: "ومن یخرج من بیتہ مہاجراً الی اللہ و رسول، ثم یدرکہ الموت فقد وقع أجرہ علی اللہ و کان اللہ غفوراً رحیما" (سورہ نساء، آیت ۱۰۱) اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جاتے ہیں، وہ زمین میں بہت سی جگہ اور گشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسولؐ کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے، پھر اُس کو موت آپکڑے تو اُس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایک عالم دین، عالم مجاہد اور مبارز ہونے کے ناطے وہ کبھی ایک جگہ نہیں رکتے تھے، ہمیشہ مسلسل سفر میں ہوتے تھے اور اکثر تبلیغ دین کے سلسلے میں ہمیشہ سفر پر ہوتے تھے۔ قم سے چار پانچ ماہ پہلے تبلیغ کے لئے پاکستان گئے تھے۔ اُن کے بچے قم میں تھے اور ابھی بھی یہی پر ہیں، ان چار پانچ مہینوں میں اُن کو ایران آنے کی فرصت ہی نہیں ملی، تبلیغ میں موفق اور کامیاب تھے اور اس کی وجہ اُن کی بصیرت اور اخلاق تھا۔ اُن کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش تھی، وہ جو بات کرتے تھے، وہ دل میں اُتر جاتی تھی چونکہ وہ عالم باعمل تھے اور کوئی بھی جب اُن سے ملتا تھا متاثر ضرور ہوتا تھا۔
جہاں جہاں سے تو گزرا تھا ہر طرف پھیلا
تیرے کردار کا حسن و جمال باقی ہے

لیکن افسوس آل یزید (لعن) نے اس مرد حر اور مرد مجاہد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کر دیا۔ خدا اس خبیث نسل (آل یزید) کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا کرے، اُن کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچا دے، شہید کے درجات کو بلند فرمائے اور شہید کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ شہید راہ حق تمہاری عظمتوں کو سلام
آل یزید (لعن) کا ابھی زوال باقی ہے
بہت سارے دوستوں نے شہید کے بارے میں  تفصیلاً لکھا، لیکن چند اشعار جو میں نے شہید کے بارے میں لکھے ہیں، آپ کے حضور عرض کرتا ہوں، شاید آپ کو بھی ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا شعر اِن اشعار میں سے پسند آجائے اور مجھے دعا دیں، یہ اشعار شہید کے بارے میں میرے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
میرے عظیم برادر میرا سلام تجھ پر
فخر دین قوم کے یاور میرا سلام تجھ پر
تیرے بچھڑنے کا انداز کچھ الگ ہی رہا
اے عزم و صبر کے پیکر میرا سلام تجھ پر
قوم و ملت کو تمہاری بہت ضرورت تھی
اے حوصلوں کے سمندر میرا سلام تجھ پر
بہت امیدیں تھیں وابستہ تم سے اے بھائی
تو تھا ارمانوں کا محور میرا سلام تجھ پر
تمہاری جرأت و ہمت تمہارا حسن سلوک
محبتوں کے پیمبر میرا سلام تجھ پر
کسے خبر تھی کہ ایک پل میں سب ختم ہوگا
نہیں ہوتا ہمیں باور میرا سلام تجھ پر
تیرے بغیر گلستان میں گھپ اندھیرا ہے
کہاں سے لائیں تجھے گھر میرا سلام تجھ پر

 

تحریر۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر

 

وحدت نیوز(گلگت) ٹیکنو کریٹس اور خواتین اراکین کے فنڈز میں کٹوتی ن لیگ کا غریب عوام سے خیانت کے مترادف ہے۔وزیر اعلیٰ پیکیج کی سکیمیں ختم کرنا عوامی مفادات پر کاری ضرب اور جمہوری تقاضوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے،ان خیالات کاا ظہار مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری سیاسیات غلام عباس نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اخباری بیانات کی حد تک سودنوں میں اپنے اہداف پورے کرلئے ہیں عملی طور پر ادارے فنڈز کمی سے کنگال ہیں۔میڈیا سمیت دیگر ادارے عدم ادائیگیوں کی وجہ سے سخت پریشانی سے دوچار ہوچکے ہیں،حکومتی دعوے جھوٹ کا پلندہ اور عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے سو دنوں میں اپنی تنخواہیں اور مراعات کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا،سابقہ دور حکومت کی سکیمیں ختم کرنا ایک طرح سے سیاسی انتقام ہے۔ترقیاتی سکیموں کو ختم کرنے اختیار موجودہ حکومت کو قطعاً حاصل نہیں کیونکہ سابقہ حکومت کو بھی اسی طرح کا عوامی مینڈیٹ حاصل تھا جس طرح آج ن لیگ کوحاصل ہے۔حکومت ترقیاتی اسکیموں پر سیاست چمکانے کی بجائے عوامی خدمت پر توجہ دے اور عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کو یقینی بنائے۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کے منصوبوں کی تکمیل کو اپنے کھاتے میں ڈالنا شرمناک عمل ہے ایک حکومتی وزیر نے سابقہ حکومت کے منصوبوں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree