The Latest

وحدت نیوز (نومل) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ امام خمینی نے پوری دنیا کے مظلومین کو ظالمین کے مقابل سینہ تان کر کھڑا ہونے کا حوصلہ فراہم کیا، ، انقلاب اسلامی ایران سیکولرازم، کمیونزم اور کیپٹل ازم جیسے نظاموں کے خلاف بغاوت کا نام ہے جس کی اصل اسلام کا آفاقی نظام ہے۔ان تمام نظاموں نے دین کو سیاست سے جدا کر کے پیش کیا ہے۔ جب کہ اگر دین سیاست سے جدا ہو جائے تو بربریت اور ظلم پروان چڑھتا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے نومل گلگت میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک خط امام کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے اپنی ہاں امریکی مداخلت کا نفوذ ختم کر سکتے ہیں۔ امام خمینی ایسی ہستیاں تاریخ ساز ہوتی ہیں جن کا دنیا صدیاں انتظار کرتی ہے اور جنھیں طلوع محشر تک یاد رکھا جائے گا۔  ایرانی قوم کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ مبارکباد کی مستحق ہے کہ جسے امام خمینی جیسی امت کا درد رکھنے والی ہستی ملی۔ جنھوں نے مسلک و مکتب سے بالا تر ہو کر شرق سے غرب تک ہر جگہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے موثر آواز بلند کی اور انہیں اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق کو رواج دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ رہبر کبیر کا پیغام وحدت ہے اور جس دن ہم نے وحدت کا اپنا شعار بنا لیا اس دن امریکہ اور اس کی حواری قوتوں کا ناپاک وجود پاک سرزمین سے ہمیشہ کے لئے نابود ہو جائے گا۔

ان کامزیدکہنا تھا کہ امام خمینی نے ظلم کی مسلک و مذہب سے ہٹ کر ہر جگہ اور ہر سطح پر مخالفت کی اور اسلامی اقدار کو عالمی سطح پر رواج دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے،امام خمینی کا پیغام وحدت کا پیغام ہے، لہذا ہمیں فرقہ واریت سے دور رہنا ہے اور وحدت کا پرچار کرنا ہے، اگر ہم نے ایسا کیا پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا، انہوں نے کہا کہ اس ملک میں شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے، لیکن کچھ استعماری ایجنٹ ہیں کہ جو امریکی اشاروں پر چلتے ہوئے اس ملک کو فرقہ واریت کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ملت اسلامیہ اپنے اتحاد سے ان کی اس سازش کو ناکام بنائے گی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے سانحہ مستونگ کے حوالے سے ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ دہشت گردی کے خلاف سیاسی و عسکری قوتوں کا یکساں ردعمل قومی جذبات کی تائید ہے۔ دشمن طاقتیں ملک میں مذہبی و لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو دست و گریبان کرکے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ عوام کو دانشمندی اور بصیرت سے ان سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس قوم کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی سازش کو پروان نہیں چڑھنے دیا جائے گا۔ یہاں بسنے والے متعدد قبائل اور مختلف قومیں صدیوں سے آباد اور باہم شیر و شکر ہیں، انہیں جدا جدا نہیں کیا جاسکتا۔ آل پارٹیز کانفرنس کا یہ موقف لائق تحسین ہے کہ اکنامک کوریڈور منصوبے کو کسی صورت سبوتاژ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ پاکستان اور چائنا کے تعلقات کی مضبوطی ہمارے ازلی دشمن بھارت کے پیٹ میں مروڑ پیدا کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اقتصادی راہدری پر بھارتی ردعمل اسی درد کا نتیجہ ہے۔

علامہ ناصر عباس نے کہا کہ اس منصوبہ کو ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت سمجھا جا رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو یہ گوارہ نہیں کہ پاکستان قومی ترقی کے میدان میں انقلابی کامیابیاں حاصل کرے۔ ملک میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں بھارت براہ راست ملوث ہے، جس کا مقصد ہمارے امن کو تباہ کرنا ہے، تاکہ ہمیں اقتصادی بدحالی کا سامنا رہے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے اس جارحانہ رویے کو معمول کا ردعمل خیال کرنے کی بجائے حالات کے حقیقی تناظر میں دیکھے۔ اقوام عالم کو بھی بھارت کے اس انتہا پسندانہ رویہ پر فوری اور سخت ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے، جو خطے میں حالات کو سنگینی کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے اسکردو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں وفاقی حکومت عوامی مینڈیٹ کو چرانا چاہتی ہے۔ جی بی کے انتخابات میں دھاندلی کے تمام تر لوازمات مہیا کر رکھے ہیں۔ گلگت بلتستان میں نگران حکومت کا قیام، الیکشن کمشنر کی تقرری، وزیراعظم کے اعلانات، گورنر گلگت بلتستان کی تعیناتی اور ان دنوں گورنر کے پے در پے بلتستان میں دورہ جات اور اعلانات قبل از انتخابات دھاندلی کا پیش خیمہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت کے پاس اختیار ہے، اگر نواز شریف چاہیں تو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دے سکتے ہیں، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر جی بی کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں اور 67 سالہ محرومیوں کا ازالہ ممکن ہے، لیکن نواز حکومت اس حوالے سے بالکل مخلص نہیں۔ نواز حکومت کی گلگت بلتستان کیساتھ ہمدردی کا سلسلہ 8 جون تک محدود ہے، اس کے بعد وہ تمام وفاقی سیاسی جماعتیں جنہوں نے گلگت بلتستان کو آئینی حقوق سے محروم رکھا ہے، موسمی پرندے کی طرح غائب ہو جائیں گے اور مڑ کر نہیں پوچھیں گے، لیکن مجلس وحدت مسلمین واحد جماعت ہے جو ہر حال میں عوام کے درمیان رہنے والی جماعت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ تمام قوتیں جو اس خطے کو حقوق سے محروم رکھنے کی ذمہ دار ہیں، انکا یہ عمل خیانت ہے اور گلگت بلتستان کو حقوق سے محروم رکھنا پاکستان دشمنی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ جتنا محب وطن گلگت بلتستان کے عوام ہیں، ملک میں کہیں نہیں، اس خطے کے عوام نے پاکستان کو سب کچھ دیا اور پاکستان سے کچھ بھی نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم گلگت بلتستان میں انتخابات اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر لڑیں گے، مذہب کے نام پر ووٹ بٹورنا درست نہیں سمجھتے۔ ہم مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرنے کے مخالف ہیں اور اہلیت اور معیارات کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیں گے۔ مجلس وحدت مسلمین نے گلگت بلتستان انتخابات میں شمولیت کارکردگی کی بنیاد پر اختیار کی ہے اور مجلس وحدت ہی عوامی درد کا مداوا کرسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات کے سلسلے جس سطح پر قبل از انتخابات دھاندلی ہوئی ہے اسی طرح دوران انتخابات دھاندلی کی تیاریاں مکمل ہیں۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا فیصلہ خوش آئند ہے، ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ انتخابات مکمل طور پر فوج کی نگرانی میں ہوں، تاکہ وفاقی حکومت کو دھاندلی کرنے کا موقع نہ ملے۔ اگر دھاندلی کے بین شواہد سامنے آگئے تو دھاندلی شدہ انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جی بی انتخابات کے نتائج میں اعلان بھی بلاتاخیر ہونا چاہیے، اگر نتائج کے اعلان میں تاخیر کی گئی تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔

امام خمینی ؒ ، سیاسی اخلاق کا عملی نمونہ

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک/بشکریہ نوائے اسلام) امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کو چھبیس سال ہو چکے ہیں اور آج دنیا بھر میں امام خمینی ؒ کی 26ویں برسی منائی جارہی ہے ۔امام خمینی ؒ نے دین و سیاست کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے اور اس میں عملی حصہ لیکر پوری دنیا پر اسلامی سیاست کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔امام خمینی ؒ نے اُن لوگوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کیا ہے کہ دین وسیاست دو جدا مفہوم ہیں اور اُن لوگوں کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیا ہے کہ جن کے نزدیک سیاست ایک گندا کھیل ہے جس میں علماء کو داخل نہیں ہو ناچاہیے ۔امام خمینی ؒ کی برسی کی مناسبت سے ہم پاکستان جیسے معاشرے کے سامنے امام خمینی ؒ کے اخلاقی سیاست کے نظریے کی ایک جھلک پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جس معاشرے میں سیاسی اخلاق باختگی اپنے عروج پر ہے اور سیاست واخلاق کے باہمی تعلق کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔جس معاشرے میں علماء بھی گندی سیاست اور غیر اخلاقی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں عملی طور پر شریک ہیں ۔لیکن امام خمینی ؒ کا اخلاقی سیاست کا نظریہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی سیاست کایہ مظاہرہ سراسر غلط ہے اور ہمارے سیاستدانوں کے سیاسی طور پر نااہل ہو نے نے سیاست کو گندگی سے آلودہ کر دیا ہے ۔

در حقیقت ہمارے سیاست دان کوڈے (Coady) کے اس نظریے کہ پیروی کررہے ہیں کہ جس کے مطابق سیاست ایک آلودگی ہے ۔وہ ’’ سیاست اور آلودہ ہاتھ‘‘(Politics and the problem of dirty hands) کے عنوان سے ایک مقالے میں اس تلخ حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ سیاست، پرہیزگاری اور پاکیزگی اختیار کرنے کے ساتھ سازگار نہیں۔ لہذا جو بھی سیاست کے میدان میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے بد نامی، پستی، بدکرداری اور ہر قسم کی آلودگی کے خطرات کو قبول کرنا چاہئے، کیونکہ سیاست اور انسانی حالات کا یہی تقاضا ہے اور ’’ اگر یہ (سیاست) ہاتھ آلودہ کرنے کے معنی میں ہے تو یہ فقط انسانی حالات کی وجہ سے ہے۔‘‘ اور اس سے فرار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

لیکن امام خمینی ؒ اس مسئلہ کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ سیاست، اخلاقی بھی ہوسکتی ہے اور اسے اخلاقی ہونا بھی چاہئے، کیونکہ سیاست معاشرے کے وسیع شعبہ ہائے حیات میں اخلاقی وسعتوں کے پھیلاؤ اور دینی مقاصد وآرزؤں کی عملی شکل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا امام خمینی ؒ کے نزدیک سیاست اور اخلاق ایک ہی چیز ہے امام خمینی ؒ ایک ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے کہ جب اغیار کے وسیع پروپیگنڈے اور اپنوں کے غلط اعمال کے نتیجے میں اذہان میں اسلام اور اس کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے اہم شکوک وشبہات پیدا ہوچکے تھے۔ انہی شبہات میں سے ایک، اسلام اور سیاست کے تعلّق اور سیاست کے سلسلے میں علماء کی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ ان شکوک وشبہات کے نتیجے میں، دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ غالب ہورہا تھا کہ جس کے امام خمینی ؒ بہت شدید مخالف تھے اور اسے استعماری سازش قرار دیتے تھے۔ وہ ہر جگہ سیاست میں اسلام کے کردار اور اسلام وسیاست کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی بات کرتے تھے اور سیاست میں دخالت ہر مسلمان کا فریضہ جانتے تھے۔ انہوں نے شاہی حکومت کی انٹیلی جنس کے سربراہ ’’ پاکروان ‘‘ کا قصہ کئی دفعہ بیان کیا تھا کہ جس میں اس نے اپنے تئیں سیاست کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ علماء کو اس ’’ بدمعاشی‘‘ سے بچنا چاہیے، امام خمینی ؒ فرماتے تھے کہ یہ انہی استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ افسوس کے ساتھ جس پر ہمارے بہت سے دینداروں کا بھی اعتقاد ہے ۔حتیٰ کہ ہماری دینی ثقافت میں ’’ سیاسی مُلا ‘‘ ایک طنز اور گالی کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ ’’جب کسی مولانا کا عیب بیان کرنا مقصود ہوتا تو کہا جاتا ’’فلاں سیاسی ملا ہے۔‘‘

حالانکہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دین مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ اسلام کا ایک بڑا حصہ، اجتماعیات پرمشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے۔ لہذا اسلام کو ہم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذہب نہیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فہمی کا نتیجہ ہے یا بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ اگر انسان ایک اجتماعی اور سیاسی مخلوق ہے اور اگر ہم دین اسلام کی جامعیت کے بھی قائل ہوں کہ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پرمشتمل ہے تو ان سب باتوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دین ہرگز سیاست سے جدا نہیں ہوسکتا۔ پس سیاست سے دین کی جدائی کی بحث ایک مشکوک بحث ہے ’’ اس بات کو استعمار نے پھیلایا ہے کہ دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہئے اور علمائے اسلام کو اجتماعی وسیاسی امور میں دخالت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ سب بے دین افراد کا پروپیگنڈا ہے۔ کیا زمانۂ پیغمبر ؐ میں سیاست دین سے جدا تھی؟ کیا اس زمانے میں بھی ایک گروہ علما کا تھا اور دوسرا سیاستدانوں اور حکمرانوں کا؟ کیا خلفاء اور حضرت امیر ؑ کے زمانہ خلافت میں سیاست دین سے جدا تھی؟ آیا اس وقت دو نظام تھے؟ یہ سب باتیں استعمار اور ان کے کارندوں نے پھیلائی ہیں تاکہ دین کو دنیوی امور اور مسلمانوں کے معاشرتی مسائل سے دور رکھ سکیں‘‘۔ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’ اسلام ایک ایسا مکتب ہے کہ جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی واجتماعی، مادی ومعنوی، ثقافتی وسیاسی اور فوجی واقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے سے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی ومعنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہو‘‘۔ پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ہی سیاست کے مفہوم کو جانتا ہے۔ ’’ ہمیں سیاست سے کیا مطلب‘‘ کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کردینا چاہئے، اسلام کو چھوڑ دینا چاہئے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کردینا چاہئے۔ یہ ہماری کتابیں دفن ہوجانی چاہییں‘‘۔ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’ اسلام کی اساس ہی سیاست ہے‘‘۔ اور ’’رسول اﷲؐ نے سیاست کی بنیاد دین پر رکھی ہے۔ ’’ صدر اسلام اور زمانہ پیغمبر ؐ سے لے کر جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا تھا، سیاست اور دین ایک ساتھ تھے‘‘۔ امام خمینی ؒ کی یہ باتیں بارہا تکرار ہوئی ہیں، خصوصاً اس مفہوم اور تعریف کے ساتھ کہ جس کے وہ سیاست کے بارے میں قائل تھے اور اس کے مطابق، یہ باتیں قابل فہم بھی ہیں اور قابل قبول بھی۔ جیسا کہ پہلے بھی گزرچکا ہے کہ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’سیاست، معاشرے کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور معاشرے کی مصلحت کو اور انسانوں اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا نام ہے۔ ان کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنے کا نام سیاست ہے کہ جس میں ان لوگوں اور قوم وملت کی مصلحت ہے اور یہی چیز انبیاء ؑ سے مخصوص ہے‘‘۔ اس نظریہ کے مطابق اسلام کے تمام احکام وقوانین سیاسی جلوہ لئے ہوئے ہیں ’’دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے کہ جس کا سب کچھ سیاسی ہے حتیٰ اس کی عبادت بھی سیاسی ہے‘‘۔حتیٰ اس نگاہ سے دیکھیں تو ’’ اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔‘‘

امام خمینی ؒ کی نظر میں اگر انسان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ شہوات کا قیدی اور مادی ضروریات کا اسیر بن جائے گا اور پھر اس کی معنوی تربیت اور پرورش کسی بھی تربیتی اور سیاسی مکتب میں نہیں ہوسکے گی۔ جبکہ ہر چیز کی بنیاد معنویت اور روحانیت ہے اور انسان کے اس پہلو کی اصلاح اور پرورش سے اس کی تمام دوسری مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ امام خمینی ؒ کی نظر میں، موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مشکل اخلاقی مشکل ہے۔ اگر یہ مشکل حل نہ ہوسکی تو دنیا پستیوں کی طرف گرنا شروع ہوجائے گی ’’ دنیا کو جس چیز سے خطرہ ہے وہ اسلحہ، سنگینیں اور میزائیل وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ وہ چیز ہے کہ جو ان ممالک اور انسانوں کو زوال وہلاکت کی طرف لے جا رہی ہے اور یہ زوال وانحطاط ہے جو ان ممالک کے سربراہوں اور ان حکومتوں کے کارندوں کے اخلاقی انحطاط کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے‘‘۔

امام خمینی ؒ کی نظر میں ’’ اسلام، مادی مکتب نہیں، بلکہ ایک مادی اور معنوی مکتب ہے… اسلام انسان کی تہذیب وتربیت کیلئے آیا ہے اور اسلام اور تمام انبیاء ؑ کا مقصد انسانوں کی تربیت کرنا ہے‘‘۔ پس اس بنا پر ہر سیاسی عمل کا سرچشمہ اخلاق ہونا چاہئے لہذا معنویت وروحانیت کی طرف توجہ ضروری ہے، چونکہ ’’ یہی معنویات ہر چیز کی بنیاد ہیں‘‘۔درحقیقت سیاست بغیر اخلاق کے لوگوں کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور ان کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے سے عاجز ہے ’’ بالفرض ایک ایسا شخص پیدا ہو بھی جائے کہ جو صحیح سیاست کو اجرا کرے… (لیکن)وہ سیاست، سیاست انبیاء ؑ کا ایک پہلو ہے۔ اولیاء کی سیاست بھی تھی اور اب علمائے اسلام کی بھی سیاست ہے۔ انسان کا فقط ایک پہلو نہیں ہے اسی طرح معاشروں کے بھی فقط ایک پہلو نہیں ہیں۔ انسان فقط ایک حیوان نہیں ہے کہ کھانا پینا اور پہننا اس کا تمام ہم وغم ہو۔ شیطانی سیاست ہو یا صحیح سیاست، وہ امت کے فقط ایک پہلو کی ہدایت کرتی ہے اور وہ اس کا حیوانی اور مادی پہلوہے اور اس قسم کی سیاست، اسلام میں انبیاء واولیاء کیلئے ثابت ہونے والی سیاست کا ایک ناقص سا جز ہے۔ وہ اقوام وملل اور فرد ومعاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ معاشرے اور انسان کیلئے جتنی بھی مصلحتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ ان کی طرف راہنمائی کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
یہ امام خمینی ؒ کے اخلاقی وسیاسی نظریے کا مرکزی نکتہ ہے لہذا ہمارا سروکار دو علوم اور دو مستقل نظریوں سے نہیں ہے۔ سیاست اخلاق کا تسلسل ہے اور اخلاق، سیاست کی بنیاد۔ گزشتہ ابحاث میں غور وفکر سے یہ نکتہ بخوبی روشن ہوجاتا ہے۔ اسلام کا مقصد انسان کے مادی اور معنوی پہلوؤں کی پرورش وتربیت کرنا ہے لہذا ان دونوں پہلوؤں کو ایک ہی سمت اور ایک ساتھ حرکت کرنی چاہئے۔ جس کیلئے اسلام نے انسان کیلئے کچھ احکام اور قوانین وضع کئے ہیں۔ ان احکام میں سے کچھ تو فردی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اجتماعی مقاصد لئے ہوئے ہیں، بعض تربیتی پہلو کے حامل ہیں اور بعض سیاسی حیثیت کے۔ لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ لہذا ان احکام میں چند خصوصیات ہونی چاہئیں: اول یہ کہ ان کو انسان کے تمام وجودی پہلوؤں پرمشتمل ہونا چاہئے۔ دوم یہ کہ یہ اپنے اپنے میدان میں جامعیت کے حامل ہونے چاہئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تضاد بھی نہ رکھتے ہوں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوں۔ درحقیقت تمام اسلامی احکام ایسی ہی خصوصیات کے حامل ہیں۔

امام خمینی ؒ کی نظر میں ’’ اسلام میں انسان کی پوری زندگی کیلئے یعنی جس دن وہ متولدہوتا ہے اس سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک کے احکام اور دستورات موجود ہیں‘‘۔اسی طرح ان احکام میں جامعیت اور انسجام بھی موجود ہے۔ بقول امام خمینی ؒ ’’اس انسان کیلئے کہ جو ہر چیز کا مجموعہ ہے یعنی جو عالم طبیعت سے لے کر ماورائے طبیعت اور عالم الٰہیات تک کے مراتب کا حامل ہے، اسلام کے پاس نظریہ اور لائحہ عمل موجود ہے۔‘‘ لہذا تمام اسلامی احکام پیکر واحد کی حیثیت رکھتے ہیں ’’اسلام کی دیانت فقط عبادی دیانت ہی نہیں… اسی طرح وہ صرف ایک سیاسی مذہب ہی نہیں، بلکہ عبادی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ اس کی سیاست، عبادات میں مدغم ہے اور اس کی عبادت، سیاسیات کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یعنی وہی عبادی پہلو سیاسی پہلو بھی ہے‘‘۔

امام خمینی ؒ صراحت کے ساتھ اخلاق اور دینی سیاست کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں اور ان دونوں کی وحدت کے نظریہ پر تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔ یہی حکم کہ جو قرآن میں ہے جس کے مطابق مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک اخلاقی حکم ہے (لیکن ساتھ ہی) ایک اجتماعی وسیاسی حکم بھی ہے۔ مومنین اور اسلام کے دوسرے مختلف گروہ کہ جو خدا اور پیغمبر اسلام ؐ پر ایمان رکھتے ہیں اگر باہم برادر بن جائیں تو جس طرح ایک بھائی، بھائی پر محبت کی نگاہ ڈالتا ہے، سب گروہ ایک دوسرے پر محبت کی نگاہ ڈالیں، تو یہ بات ایک عظیم اسلامی اخلاق کے علاوہ اور عظیم اخلاقی ثمرات رکھنے کے علاوہ، ایک عظیم اجتماعی حکم بھی ہے جس کے عظیم اجتماعی اثرات ہیں۔

بہرحال، امام خمینی ؒ کے نظریہ کا خلاصہ اور ان کے افکار کا لب لباب اخلاق اور سیاست کی یگانگی اور وحدت ہے اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ جس کیلئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ اخلاق اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں تو پھر جھوٹ، ظلم وستم بے عدالتی، حق تلفی وغیرہ فردی سطح پربھی بری ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اسلامی حکمران کو ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن محال نہیں۔ اسلامی نظام کے حقیقی مقاصد ومصالح کی حفاظت اور طولانی مدت تک سیاسی اقتدار کا تحفظ فقط اخلاقی اصولوں کی پابندی اور ہر قسم کے دھوکہ وفریب سے دوری اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ اس اصول اور قاعدے کو کوئی بھی مسلمان حکمران نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سیاسی اقتدار کی حفاظت اور اخلاق کے بارے میں تاکید پر مبنی امام خمینی ؒ کا یہ قول ہمیشہ ہمارا نصب العین ہونا چاہئے کہ جس میں انہوں نے فرمایا: ’’آپ اپنے اسلامی کردار اور رفتار کے ساتھ اس تحریک کی حفاظت کریں اور اسے آگے بڑھائیں اور اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ خداوند متعال ہی ہماری تائید فرماتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلامی اخلاق ورفتار کے ذریعے اس اقتدار کی حفاظت کریں کہ جس نے ہمیں فتح ونصرت تک پہنچایا ہے‘‘۔

پس نتیجہ یہ کہ نہ صرف ہمیں سیاست کو اخلاقی بنانا چاہئے ، بلکہ اخلاقی معیار کے مطابق سیاست کرنی چاہیے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد اور حقیقت یہی ہے اور تاریخ بھی اس نظریے کے فروغ اور سربلندی کی گواہ ہے۔ اگر کہیں اس نظریہ نے شکست کھائی بھی ہے تواس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نظریہ ہمیشہ شکست کھاتا رہے گا اور ناقابل عمل ہے۔ آج اکثر سیاسی مفکرین کو اس حقیقت کا ادراک حاصل ہوگیا ہے کہ فقط اخلاقی سیاست کے ذریعے ہی باقی رہنا ممکن ہے۔اور امام خمینی ؒ نے یہ نظریہ عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے اورعملی سیاست میں اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست کی یاد تازہ کرد ی ہے ۔


تحریر۔۔۔۔۔۔سید رمیزالحسن موسوی

وحدت نیوز(گلگت) وائس آف شہداء کے ترجمان سید فیصل رضا عابدی نے گلگت کے حلقہ3 کے علاقے جوتل میں عوامی اجتماع سے خطاب میں کہا ہے کہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق سے محروم رکھنا زیادتی ہے، رواں الیکشن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی تاریخ کا آخری الیکشن ہوگا، آئندہ انتخابات میں یہاں کے غیور عوام نیشنل اسمبلی کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرینگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کے ہراول دستے میں گلگت کے نوجوان اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں، نواز لیگ نے پاک فوج اور ملک کے ساتھ غداری کا ثبوت دیا ہے، سرزمین گلگت بلتستان سے نواز لیگ کو جتوانا دہشت گردوں کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔ فیصل عابدی نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ خطے کی بقاء اور آئینی حقوق کی جنگ کے لئے ایم ڈبلیو ایم کے امیدواروں کا ساتھ دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی بی کی حالیہ قانونی حیثیت کا فارمولہ ان کا تیار کردہ تھا، جس کو پی پی پی حکومت نے عملی جامہ پہنایا۔

وحدت نیوز (سکردو) گلگت بلتستان کے عوام بیدار ہے8 جون مظلومین کی فتح کا دن ثابت ہوگا،ن لیگ دھاندلی کے سر پر الیکشن جیتنے کے خواب دیکھنا بند کر دیں،ہم کسی بھی قسم کی ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی امور خارجہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہدی آباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،مہدی آباد پہنچنے پر عوام کی جانب سے علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی کا والہانہ استقبال،فلگ شگاف نعروں سے مہدی آباد کی فضا گونج اُٹھی،علامہ شفقت شیرازی کا کہنا تھا یہ بات ہمارے علم میں آئی ہے کہ ن لیگ نے سیالکوٹ،گجرانوالہ سے گلوں بٹوں کے ڈیتھ سکواڈ کے گلگت بلتستان روانگی علاقے کی امن کے لئے تشویشناک ہے،ہم کسی بھی غیر مقامی کی الیکشن میں مداخلت کو ہرگس برداشت نہیں کریں گے،گلگت بلتستان کے انتظامیہ نوٹس لیں،ن لیگ کی شکست نوشتہ دیوار ہے،اور وہ اپنی شکست کو چھپانے کے لئے کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کر سکتی ہے جس سے یہ پرامن علاقہ عدم استحکام کا شکار ہوگا،انہوں نے کہا کہ ماروی میمن کی جانب سے بے نظیر انکم سپورٹس کے نام پر لوگوں سے شناختی کارڈ جمع لیے جا رہے ہیں،الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کو پیشگی اطلاع کے باوجود خاموشی مضحکہ خیز ہیں،پری پول ریگنگ پر یہاں کے انتظامیہ مکمل خاموش ہیں،گلگت بلتستان کو کسی بڑے بحران سے دوچار ہونے سے بچانے کے لئے افواج پاکستان الیکشن کی خود مکمل نگرانی کریں،علامہ شفقت شیرازی کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو برسوں سے بیووقف بنانے والے اس دفعہ نامراد رہیں گے۔

وحدت نیوز (ہنزہ نگر) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے پاکستان میں برسر اقتدار حکمرانوں نے استحصال اور ظلم و جبر کا بازارگرم کر رکھا ہے اور حکمران عیاش،ظالم، شرابی اور جابر ہیں۔ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے بجائے اپنے عیاشیوں اور کرپشن میں مگن ہیں جس کی وجہ سے وطن عزیز دہشت گردی بد انتظامی اور افراتفری کا شکار ہے۔ ملک میں کرپشن کاآج یہ حال ہے کہ نوازشریف امیر اور پاکستان غریب ہے پنجاب ہو یا گلگت بلتستان غریب ہر جگہ پسا جارہا ہے اور طاقت ور اپنے زور بازو سے اور ناجائز طریقے سے ملکی وسائل اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کرہے ہیں۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ہوپر نگر کے عوام سے اپیل کی وہ اس بار اپنے حقوق کے ضامن تنظیم کو ووٹ دیکر آزمائیں اور ظالم اور جابر حکمرانوں کو اس بار مسترد کرکے ان کو ان کی حیثیت کا احساس دلائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر گلگت بلتستان میں عادل منصف عوام پرست حکومت ہوتی تو بے پناہ وسائل سے ملا مال یہ خطہ آج سویزرلینڈ سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتا مگر ان غافل ظالم اور کرپٹ حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے آج یہ علاقہ بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام اس بار ایسے امیدواروں کا انتخاب کریں جو شفاف ماضی کے حامل ہیں اور ایسے پارٹی کو ووٹ دے جو انصاف، میرٹ ، قانون کا بول بالا کرے جو عوام کے مفاد کے لئے قانون سازی کرے۔ یہ کام ایم ڈبلیو ایم اگر عوام گلگت بلتستان کا تعاون رہا تو کرسکتی ہے ۔ ہم ایسا حکومت قائم کریں گے جو پاکستان اور چاروں صوبوں کے لئے مشالی ہوگا۔ ہم یہاں تعلیمی انقلاب لائینگے اور اس علاقے کے آینئی حقوق چھین کر لائیںگے اور مظلوم کو باعزت جینے کا حق دینگے۔

سنی اتحاد کونسل پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضانے اپنے خطاب میں کہا کہ آج اختیار عوام کے ہاتھ میں ہے، عوام کھلی آنکھوں سے لوگوں کا انتخاب کریں۔ مجھے امید ہے کہ گلگت بلتستان کے باشعور عوام اس بار اپنے گھر کے لئے ڈاکووں کا انتخاب نہیں کریںگے۔ عوام لوگوں کا ماضی دیکھ کر ووٹ کریں۔ حامد رضا نے کہا کہ نواز حکومت دراصل تکفیریت اور دہشت گردی کی علمبردار ہے اورنواز شریف جیسے نااہل شخص کو پرائمری سکول میں داخل کرنے کی ضرورت ہے جو امریکی صدر سے بات کرنے کے لئے اپنے ساتھ پرچی لیکر گیا تھا ۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ حق اور میرٹ کے لیئے آٹھ جون کو ایم ڈبلیو ایم کے امیداور کو کامیاب کریں۔ تقریب سے علمائے کرام کے علاوہ ایم ڈبلیوایم کے امیدوارحاجی رضوان نے بھی خطاب کیا۔

وحدت نیوز (شگر) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان کے حلقہ نمبر 6 کے امیدوار فدا علی شگری کی انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے، انتخابی مہم کے سلسلے میں جہاں جلسہ، جلوس، ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے، وہیں ایک بات کہ جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا وہ یہ ہے کہ پروفیسر فدا علی شگری کی انتخابی مہم میں اہل حدیث خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندہ نے جب ان خواتین سے استفسار کیا کہ وہ کس مقصد کے تحت پروفیسر فدا علی شگری کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں تو ان میں سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے نام کی طرح اتحاد و وحدت کو پورے شگر میں پروان چڑھایا ہے، اس حلقہ میں راجہ اعظم خان اور عمران ندیم کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لینا بھی ایک انقلاب سے کم نہیں کیونکہ شگر میں راجہ اعظم خان اور عمران ندیم کے مقابلے میں انتخابات میں اپنا امیدوار کھڑا کرنا بھی بہت بڑا اقدام تھا جس کا ان انتخابات سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے پروفیسر فدا علی شگری کی صورت میں ایک قابل، ایماندار اور دیندار شخص کو ہمارے نمائندہ کے طور پر متعارف کروایا ہے اور پسے ہوئے مظلوم طبقے کو ایک حوصلہ فراہم کیا ہے لہٰذا ایسے لائق شخص کی انتخابی کیمپین چلانے کو ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔

وحدت نیوز (سکردو) پاکستان کے نامور عالم دین اور قائد گلگت بلتستان مرحوم شیخ غلام محمد کے فرزند علامہ مرزا یوسف حسین کا ”اسلام ٹائمز“ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ گلگت بلتستان انتخابات میں شیعہ جماعتوں کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا، کیونکہ میں لوگوں کو ایم ڈبلیو ایم کی طرف متوجہ دیکھتا ہوں، کیونکہ لوگ کافی حد تک انکی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں، اس لئے ووٹ بھی انہیں دینگے۔ پھر یہاں لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نفرت کرتے ہیں، کیونکہ مہدی شاہ حکومت نے پانچ سال حکومت کی، لیکن قوم کے مسائل حل نہیں کئے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ کچھ لوگوں کو نوکریاں دیں گے، تو سارے لوگ اگلی بار بھی ووٹ دینگے، مگر صورتحال یہ ہے کہ مہدی شاہ کے اپنے حلقے میں اسے شکست ہوتی دکھائی دے رہی ہے، وہ جیت نہیں رہا ہے۔ بہرحال شیعہ جماعتوں کا ووٹ تقسیم نہیں ہوگا، کیونکہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ وہ ایم ڈبلیو ایم کو ووٹ دینگے، اسے کامیاب بنائیں گے۔ شیعہ قوم جسے سازش کے تحت سلا دیا گیا تھا، مگر ایم ڈبلیو ایم نے میدان میں آکر اپنی کارکردگی سے قوم کو بیدار کر دیا ہے، اسی بیداری کے باعث قوم بھی ان سے مطمئن ہے، اور ایم ڈبلیو ایم خود بھی چاہتی ہے کہ موقع سے مثبت فائدہ اٹھائے، اور اگر موقع ملتا ہے تو یہ قوم کے اہم مسائل کو حل کی طرف توجہ دیں اور ان مسائل کو حل کرائیں۔

 انہوں نے کہا کہ  گلگت بلتستان انتخابات کے حوالے سے اب تک کے جو میرے مشاہدات ہیں، اس حوالے سے مذہبی جماعتوں میں مجلس وحدت مسلمین کی بہت اچھی پوزیشن ہے، کیونکہ ایم ڈبلیو ایم کی اب تک کی کارکردگی عوام کیلئے متاثر کن بھی ہے، اور عوام ان سے مطمئن بھی ہے، بلتستان کے تقریباً تمام حلقوں سے ایم ڈبلیو ایم نے امیدوار کھڑے کئے ہیں، میرے حساب سے ایم ڈبلیو ایم پانچ نشستوں پر اسکردو سے کامیابی حاصل کر لے گی، گلگت میں ایم ڈبلیو ایم کی اچھی پوزیشن ہے۔

وحدت نیوز (سکردو) ایم ڈبلیو ایم کے نامزد امیدوار حلقہ 5کھرمنگ ڈاکٹر شجاعت میثم نے کہا ہے کہ کھرمنگ کے عوام کوجھوٹے ضلع اور کالج کے نام پرگمراہ اور بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ عوام اب باشعور ہوچکا ہے اور کسی ایسے جھوٹے اعلانات اور وعدوں پر یقین نہیں کرینگے۔اور کھرمنگ سے مورثی سیاست کو ختم کریں گے۔کھرمنگ کی عوام کو گذشتہ دو دہائیوں سے دو افراد کی بالادستی اور اقتدار کی خاطر آپس میں دست و گریباں کیا جارہا تھا۔ایم ڈبلیو ایم نے میدان سیاست میں آکر ان بتوں کو توڑا ہے اور عوام کی بالادستی کو یقینی بنانے غریب اور متوسط طبقوں کی نمائندگی کیلئے عوام کی آواز بنیں گے۔اور کھرمنگ کی عوام اور علاقے کی محرومیوں کا ازالہ کرینگے۔کھرمنگ کی عوام جھوٹے نعرے اور اعلانات کرنے والوں کو مسترد کرتے ہوئے عوامی پارٹی کو مضبوط کریں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree