وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی نے جامع مسجد قصر بتول شادمان میں 2ستمبر وزیر اعلیٰ ہاوس دھرنا کے سلسلے میں آگاہی مہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کی بے حسی اور مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے کے سبب ہم احتجاج پر مجبور ہیں،پنجاب کے حکمران عوامی ایشوز کو ایڈریس کرنے سے زیادہ میٹرو میٹرو کھیلنے میں مصروف ہیں،کیونکہ ان کا مقصد عوامی خدمت نہیں اپنے مفادات کا حصول ہے،لاہور کو پیرس بنانے کے دعویداروں کی قلعی دو دن کی بارش نے کھول دی ہے،انہوں نے کہا ہم ہر صورت دو ستمبر کو دھر نا دینگے اور مطالبات پر عملدرآمد تک یہ جاری رہیگا،پنجاب میں ہمارے خلاف منظم منصوبہ بندی کیساتھ کاروائیاں جاری ہیں،نیشنل ایکشن پلان پنجاب میں آل شریف کے مخالفین پر لاگو ہیں،دہشتگرد اور ان کے سہولت کار اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں،علامہ اعجاز بہشتی نے کہا کہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے ہر سیاستدان کیخلاف کاروائی حکومت اور ریاستی اداروں پر فرض ہے،پاکستان ازل سے ہیں اور ابد تک رہے گا اور اس کے دشمن رسوا ہو کررہیں گے۔

وحدت نیوز (ڈیرہ اسماعیل خان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے دورہ ڈی آئی خان کے آخری روز مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہے، جبکہ وطن عزیز میں تکفیر کے نام پر نفرتیں باںٹی جا رہی ہیں۔ شہریوں کے درمیان نفرت و نفاق کی وجہ سے ملک کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ڈی آئی خان جو کہ پرامن شہر تھا، آج دہشتگردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ اس شہر کے باسی ایک دوسرے محبت کرنے والے انتہائی پرامن لوگ تھے، مگر آج دہشت گردی نے اس شہر کی تہذیب، ثقافت، ماحول کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ آج اس شہر کے گوشے گوشے میں بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے، یہ خونریزی کرنے والا تکفیری ٹولہ ہے۔ آخر یہ تکفیری ٹولہ کیسے اتنا منظم ہوگیا ہے کہ ملک کا کوئی ادارہ اور شہری ان سے محفوظ نہیں۔

قائد وحدت کا مزید کہنا تھا کہ ڈیرہ میں چن چن کر لوگوں کو قتل کیا گیا، ضیاء الحق ملعون، فضل الحق کے دور سے ہمیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر اس کے باوجود ہم اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے۔ ہمارے لئے آج پورے ملک کو ڈی آئی خان اور غزہ بنا دیا گیا ہے۔ بیس ہزار سے زائد ہمارے شہداء ہیں، لیکن اس کے باوجود وطن کے ساتھ ہمارے اخلاص میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ایک طرف ہمیں تکفیری ٹولہ قتل کرتا ہے، جبکہ دوسری جانب ریاستی اداروں نے ہمارے نوجوانوں کو اغواء کیا ہوا ہے۔ علامہ راجہ ناصر نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ انتہائی نازک مسئلہ ہے، ہم انہیں نہیں بھول سکتے۔ ریاستی اداروں کے پاس ہمارے افراد اگر زندہ ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، اگر انہیں شہید کر دیا گیا ہے تو ان کی میتیں ہمارے حوالے کی جائیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر اس ظلم کی کیا حد ہے، جیلوں میں ہمارے لوگ محفوظ نہیں ہیں، حکومتی سرپرستی میں جیل کے اندر انہیں ذبح کیا جاتا ہے، ریاستی اداروں کی قید میں افراد کی لاشیں دریا کے کنارے سے ملتی ہیں۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دوٹوک الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہمارے مسنگ پرسنز ظاہر کئے جائیں۔ آن دی ریکارڈ ہے کہ جیل پر حملے سے ایک ہفتہ پہلے خاص شخصیت نے جیل کا دورہ کیا تھا۔ رپورٹس میں جن لوگوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جیل حملے کی ذمہ دار شخصیات کو مزید حساس عہدوں پر تعینات کر دیا گیا ہے، جو کہ باعث تشویش ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے خیبر پختونخوا حکومت اور چیئرمین پی ٹی آئی کو مخاطب کرکے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے خودکش حملے میں وکلاء کے جانی نقصان پر آپ کو تشویش بھی ہے اور ان کے خانوادوں کا درد بھی محسوس کرتے ہیں، کیا ڈی آئی خان میں شہید ہونے والے وکلاء پاکستانی شہری نہیں تھے کہ ان کیلئے نہ ہی عمران خان آپ آئے اور نہ ہی وزیراعلٰی نے آنے کی ضرورت محسوس کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران احساس سے عاری ہوچکے ہیں، شہیدوں کا، مظلوموں کا درد محسوس کرنا چاہیئے نہ کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔ راجہ ناصر نے مزید کہا ہے کہ آج کا پاکستان قائداعظم کا پاکستان کم اور تکفیری ٹولے کا پاکستان زیادہ ہے۔ قائداعظم کے پاکستان میں 25 فیصد اقلیتیں تھیں، آج پانچ فیصد ہیں۔ قائداعظم کی کابینہ میں تمام مکاتب و مذاہب کے لوگ شامل تھے، آج کیا صورت حال ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے، صرف کراچی میں اس کا وجود نظر آتا ہے مگر وہاں بھی تکفیری ٹولہ آزاد ہے۔

قائد وحدت نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عزاداری پر کسی بھی قسم کی قدغن ناقابل قبول ہے۔ عزاداری کو محدود کرنے میں دہشت گرد ناکام و نامراد ہوئے ہیں۔ عزاداری کے خلاف جو کام دہشت گرد نہیں کرسکے، وہی کام ریاستی ادارے کر رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر عزاداری کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، جو غیر اسلامی ممالک میں بھی نہیں ہیں۔ علامہ راجا ناصر نے صحافیوں سے سوال کیا کہ کیا مجالس اور سٹیج حسینی (ع) سے کبھی دہشتگردوں یا طالبان کی حمایت کی گئی تھی، جو مجالس پر ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔؟ انہوں نے مزید کہا کہ بریلویوں اور شیعہ کو دباؤ میں رکھ کر دہشت گرد ٹولے کو آزاد چھوڑا گیا۔ جس کے نتیجے میں آج کوئی ملک میں کوئی شے، کوئی ادارہ محفوظ نہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی جنگ امریکہ اور آل سعود کا ایجنڈا تھا۔ ریاستی اداروں کی طرف سے مخصوص سوچ رکھنے والوں کو مجاہد بنایا گیا، جن کو اب انڈیا نے خرید لیا ہے اور وہ اب مادر وطن کی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان مذاق بن چکا ہے، کراچی کے علاوہ کہیں بھی آپریشن نہیں کیا جا رہا، نیشنل ایکشن پلان کے مطابق پانچ شعبوں میں کام کرنا تھا، جن میں عسکری شعبہ، سیاسی، سوشل، معاشی اور نظریاتی شعبہ تھا، لیکن نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردوں کے بجائے مظلوم طبقہ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ عزاداری کو محدود کرنے کے لئے کئی سالوں سے دہشت گرد کوششیں کرتے رہے لیکن ناکام رہے، اب ریاستی اداروں کی طرف سے عزاداری کو محدود کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں اور یہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے غیرت مند اور با وفا بیٹے ہیں. بیس ہزار سے زائد شہادتیں دینے کے باوجود ہم نے کبھی بھی ریاست کے خلاف بات تک نہ کی، لیکن ریاستی اداروں کے غلط فیصلوں کے خلاف بات کرتے رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف دہشت گرد ہمیں بسوں سے اتار اتار کر مار رہے ہیں اور بم دھماکے و ٹارگٹ کلنگ کا ذریعے نسل کشی کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ریاستی اداروں کی طرف سے بھی ہم پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جن میں کئی کی لاشیں مختلف مقامات پر پھینکی گئی، جو ڈرل سے ظلم کی گئی تھی، جبکہ کئی نوجوان اب گذشتہ کئی سال سے غائب ہیں. مسنگ پرسنز کے معاملے پر کسی صورت خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ گرفتار افراد اگر کسی جرم میں ملوث ہیں تو عدالت میں پیش کرکے مقدمات چلائے جائیں اور زندہ یا مردہ جو بھی صورتحال ہے، ہمیں مسنگ پرسنز دیت جائیں، بصورت دیگر اس معاملے کو پورے پاکستان میں اٹھائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو بھرتی کیا گیا، بدلتے حالات کے مطابق پولیس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ کے حق میں نہیں۔ آئین کے مطابق جمہوریت کے حق میں ہیں۔ الطاف حسین کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کوئی بھی غیرت مند بیٹا ماں دھرتی کو گالی نہیں دے سکتا۔ اہل تشیع کے بیس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا گیا، لیکن اہل تشیع نے ملک اور ریاست کے خلاف ایک لفظ تک نہ بولا اور اگر لاکھوں بھی شہید ہو جائیں، تب بھی وطن عزیز کے خلاف نہیں ہوسکتے، کیونکہ پاکستان ہمارا وطن ہے جو ہمارے آباؤ اجداد کی بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل ہوا، لیکن اب قائد اعظم و علامہ اقبال کا پاکستان گم ہوچکا ہے۔ ہم قائد اعظم کے پاکستان چایتے ہیں، جس میں تمام مسلمان و اقلیتوں کو حقوق ملیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے، بیرونی خطرے کا مقابلہ ایٹم بم سے کیا جاسکتا ہے، مگر اندرونی خطرے کا مقابلہ ایٹم بم بھی نہیں کرسکتا۔ روس کو باہر سے ایٹم بم کے ذریعے نہیں توڑا گیا، بلکہ وہ اندر سے ٹوٹا۔ آج پاکستان کو اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔ تکفیری ٹولوں کے نظم و نسق اور تربیت کا پارلیمنٹ سے کوئی بل منظور نہیں ہوا تھا۔ کشمیر کے نام پر تکفیری ٹولے کو نوازا گیا اور طاقت کا توازن خراب کیا گیا، آج وہی عدم توازن ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ریاست یا ریاستی اداروں کو خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اسی ٹولے سے ہے، جس کو انہوں نے خود پالا پوسا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں احتجاج کرنے سے روکا جاتا ہے، احتجاج پر ایف آئی آرز چاک کی جاتی ہیں، جبکہ احتجاج نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ بے گناہوں کی لاشیں کوئی اٹھانے کو تیار نہیں۔ شہید رضی الحسن ایڈووکیٹ کی میت سربازار پڑی رہی، کوئی اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا احتجاج ریاستی اداروں، پولیس کی حمایت ہے۔ میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے علامہ راجہ ناصر کا کہنا تھا کہ 2 ستمبر کو ہم پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیں گے۔ ریاست سے غلطی ہوئی ہے کہ اس نے ایک مخصوص ٹولے کو وسائل اور تربیت دیکر طاقتور کیا اور آج وہی ہمارا دشمن بنا ہوا ہے۔ عمران خان کی جماعت نے مولانا سمیع الحق کو بھتہ دیا ہے، مولانا سمیع الحق جو کہ طالبان کا باپ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ پولیس کی تربیت دہشت گردوں سے مقابلے کے تناظر میں نہیں کی گئی۔ ریاستی اداروں میں گھسی ہوئی کالی بھیڑوں کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیئے جائیں تو بھی ہم ریاست وطن کے خلاف کبھی بھی نہیں جائیں گے۔ پولیس میں دہشتگردوں کی بھرتی کا سلسلہ ختم ہونا چاہیئے۔ شہر میں دہشتگردی کا مزید کوئی سانحہ ہوا تو حکومت اور ادارے اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کے اعزاز میں پرتکلف ظہرانہ دیا گیا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)ننھا سا بچہ گرم ریت میں جھلس رہاہے،ماں سرکاری اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندہ کر دو بوند پانی مانگ رہی ہے۔۔۔

سورج دہک رہا ہے،آسمان سے آگ برس رہی ہے،ہر طرف لق و دق صحرا ہے،قیامت کی پیاس اورغضب کی  گرمی ہے۔ایک ماں اپنے نومولود بچے کے ہمراہ جان کنی کی حالت میں ہے ،باپ تنگ ہو کر احتجاجاً اپنے گلی پر چھری چلا دیتا ہے۔۔۔

تاریک بیابان ہے ،آدھی رات کو مسافروں کے قافلے شاہراہِ عام پر لوٹ لئے جاتے ہیں۔۔۔

دن دیہاڑے ،وسطِ بیابان میں چالیس کے لگ بھگ مسافروں کو گولیوں سے بھون دیا جاتاہے۔۔۔

کوئی سننے والا نہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں،لوگوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر کانوائی کے نام پر محاصرہ کر کے  کئی کئی ہفتوں تک لوٹا جاتا ہے۔

ایک ہزار کے بجائے پانچ ،پانچ ہزار کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔۔۔۔

یہ سینکڑوں سال پرانے کسی صحرا کی داستان نہیں  بلکہ یہ کوئٹہ سے تفتان کی روداد ہے،یہ کسی یہودی عورت کی پازیب چھننے کا غم نہیں بلکہ دخترِ اسلام کی حالت زار ہے۔یہ مغرب کے عشرت کدوں میں رقص کرنے والی کسی لیڈی کا غم نہیں بلکہ دخترِ مشرق کی بے حرمتی ہے۔

جی ہاں ! یوں  اگرکسی سرمایہ دار ،سیاستدان ، قومی و ملی لیڈر یا کسی ویسٹرن فیملی کا بچہ پیاس سے تڑپتا تو میڈیا چیخ اٹھتا،انسانی حقوق کی تنطیمیں سینہ کوبی کرتیں،عالمی برادری اشک بہاتی،لیڈر چیختے اور چلاتے ۔۔۔

جی ہاں ! یوں اگر   سرکاری اہلکاروں کے مظالم سے تنگ آکر یورپ کا کوئی شہری احتجاجا خود کشی کی کوشش کرتا تو ہمارے صدر مملکت اور وزیراعظم صاحب کی طرف سے بھی افسوس کا پیغام بھیجاجاتا۔۔۔

جی ہاں! اگر اس طرح کسی دوسرے مکتب کے زائرین کو گولیوں سے بھونا جاتا تو اُن کی یادگار بنائی جاتی،بین الاقوامی برادری کی طرف سے تعزیتی وفود آتے،تفتیشی ٹیمیں آتیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیاجاتا۔۔۔

جی ہاں!یوں اگر اس طرح کسی اور فرقے کے افراد کو کانوائے کے نام پر محاصرہ کرکے لوٹاجاتا،پانچ گنا زیادہ کرایہ وصول کیاجاتا،لوگوں کو گھنٹوں لائنوں میں کھڑا کیاجاتا،بیوی بچوں کے سامنے مردوں کو بے عزت کیاجاتا تو  اینٹی کرپشن کی فائلیں کھل جاتیں،مختلف شخصیات کی طرف سے از خود نوٹس لئے جاتے،عدالتیں حرکت میں آجاتیں۔۔۔

سرکاری اہلکاروں کی طرف سےشہریوں کی بے عزتی کرنا یہ نظریہ پاکستان،آئین پاکستان  اور انسانی اقدار کی توہین ہے۔قوم کی ماوں ،بہنوں ،بیٹیوں   اور بچوں کی توہین اور اہانت کرنا  یہ سراسر ہماری ملکی اور معاشرتی روایات کے خلاف ہے۔لیکن اس کے باوجود کوئی بھی اس درد کو محسوس نہیں کررہا،کوئی بھی اس ظلم کا نوٹس نہیں لے رہا،کوئی ادارہ بھی حرکت میں نہیں آرہا۔۔۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قوم ظلم سہنے  اور انصاف کی بھیک مانگنے کی عادی ہوجائے،دوسرے بھی اس پر رحم کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

تاریخ کے کسی موڑ پر عالمِ بشریت کے سب سے بڑے بہادر نے ہم جیسوں کو ہی پکار کر کہاتھا کہ  اے مردوں کی شکلوں میں نامردو تمہاری آبادیوں اور عزت و ناموس پرحملے ہو رہے ہیں اور تم۔۔۔


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی کے رہنما علامہ سید علی انور جعفری نے کہا ہے کہ پاکستان بنانے میں ہمارے آباو اجداد نے جانی و مالی قربانیاں دیں،اور آج پاکستان بچانے کے لئے بھی ہم اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں،ضیاءالحق کے دور میں پالے تکفیری دہشت گردوں نے اس وطن کی خوبصورت گلشن کو تباہ کر کے رکھ دیا ہماری نسل کشی انہوں نے کی جن کو ضیاءکی اسٹبلشمنٹ نے طاقت ور کیا،یہ گروہ وہی پاکستان کے دشمن ہیںجن کا بیس کیمپ انڈیا میں ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاو ¿س کراچی میں تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ علی انور جعفری نے کہا کہ حکمران اور ریاستی ادارے اگر پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا ہے تو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں،نیشنل ایکشن پلان کو مذاق بنایا جارہا ہے،اور اس نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردوں کے بجائے مظلوموں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران سن لیں ملت تشیع اب کسی بھی ظلم زیادتی کو برداشت نہیں کریں گے اور ہم اپنے حقوق کی دفاع کے ہر وہ آئینی و قانونی راستہ اپنائیں گے جو آئین و قانون نے ہمیں دیا ہے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے دو روز میں مسلسل چوتھی بار رابطہ کیا ہے اور 2 ستمبر کو وزیراعلٰی ہاوس لاہور کے باہر دھرنے کا اعلان واپس لینے کی درخواست کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کو مسلسل یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ ان کے مطالبات پر عمل درآمد ہو جائے گا، تاہم کچھ مزید وقت درکار ہے، لہٰذا وہ اپنے دھرنے کا اعلان واپس لے لیں۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وہ اس پر دو سو فیصد متفق ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین کے تمام مطالبات آئینی و قانونی ہیں۔ دوسری جانب علامہ ناصر عباس جعفری نے اعلان کیا ہے کہ 2 سمبر کو ہر صورت دھرنا دیا جائیگا، تاہم اگر مطالبات پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے تو وہ اپنا اعلان واپس لے لیں گے۔ یاد رہے کہ سات اگست کو ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کرتے ہوئے 2 سمبر کو وزیراعلٰی پنجاب ہاوس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل و سیکرٹری امور خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہماری اسٹبلشمنٹ کے پالے ہوئے مذہبی اثاثے ہوں یا سیاسی، قومی ہوں یا لسانی، سب کے سب ایکسپوز ہوچکے ہیں، انکی وطن دشمنی، قومی سرمایہ کی لوٹ مار، بیگناہ عوام کی بے دریغ قتل و غارت، دشمن ممالک کی ایجنٹی اور عدالت وانصاف کے قتل کی داستانیں کھل کر پوری قوم کے سامنے آچکی ہیں، فصلیں پک چکی ہیں، اب کٹائی کا موسم ہے اور اتنا بڑا قدم حکمرانوں کیلئے محب وطن عوام کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہر خائن کا احتساب ہو۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کیا نہیں دیکھ رہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کار اور ملک دشمن عناصر حکومتی مشینری کا حصہ ہیں، بعض اعلٰی سیاسی مناصب اور حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ ہونا تو یہ چاہییے تھا کہ ان مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا جاتا اور قانون کو نافذ کرنے والے پسی ہوئی مظلوم عوام کو ریلیف دیتے۔ ہمارے اداروں اور نیشنل ایکشن پلان کی ڈائریکشن با اثر لوگوں نے تبدیل کر دی ہے اور آج وہ محب وطن عوام کو ستانے میں مصروف ہیں۔ کبھی علماء کو اذیت دی جاتی، کبھی تنظیمی کارکنان کو اور اسی طرح زائرین و مسافرین سے معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور انھیں لوٹا جاتا ہے۔

حقیقی دہشتگردوں کو چھوڑ کر فرضی دہشت گرد پکڑے جا رہے ہیں۔ بے بنیاد اور تعصب کی بنا پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں اور پھر 90 دن مسلسل انھیں اور انکے غریب خاندانوں کو اذیت دینے کے بعد ثبوت نہ ملنے پر مجبوراً بری کر دیا جاتا ہے، لیکن اسٹیٹ کی رٹ کو چیلنج کرنے والے اور مقتدر اداروں کے سربراہان کو دھمکیاں دینے والے، پاکستان مردہ باد کہنے والے، ملک توڑنے کے لئے انڈیا سے روابط کرنے والے، شہر شہر قتل و غارت، دھماکے اور خودکش حملے کرنے والے، انکی برملا حمایت اور مدد کرنے والے آزاد پھرتے ہیں۔ بیگناہ عوام کو بیجا تنگ کرنے والے اداروں کے سربراہان، بااثر محب وطن افسران اور حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے بیگناہ تمام علماء کرام و کارکنان بالخصوص مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد کے مسئول علامہ عقیل حسین خان جو تقریباً ڈیڑھ ماہ سے اداروں کی تحویل میں ہیں، انہیں فی الفور رہا کریں، پورے ملک بالخصوص پنجاب میں شیعہ اور سنی جماعتوں کے کارکنان اور بانیان مجالس عزاء کے خلاف بنائے گئے کیسسز واپس لئے جائیں۔ تعصب و  سیاسی انتقام کے تحت جو نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے، انھیں خارج کیا جائے اور مذہبی و  شخصی آزادیوں پر عاید پابندیاں اٹھا کر عوام کو سکھ کا سانس لینے دیا جائے۔ وطن عزیز جس نازک دور سے گزر رہا ہے، اس وقت عوام کو اسٹیٹ سے متنفر کرنا اور مایوس کرنا ملک دشمن قوتوں کی خدمت ہوگی۔ حکمران اگر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے مخلص ہیں تو انہیں بیلنس پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ مخلص اور محب وطن عوام کی حمایت اور پشت پناہی کے ساتھ ہی وطن کے خائن عناصر کا خاتمہ ممکن ہے، اب ان جیانتکاروں اور خیانتکاروں کا مقابلہ کرنا اور وطن کی حفاظت کرنا ہر غیرتمند پاکستانی پر فرض ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree