وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سربراہ علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت انتقامی سیاست پر اتر آئی ہے اور گلگت بلتستان میں مسلکی تعصبات کو ہوا دینا چاہتی ہے ۔ انکے کابینے میں وزرا کی تناسب، مخصوص نشستوں پر موجود افراد اور مجلس وحدت مسلمین و آئی ایس او کے رہنماوں کی گرفتاریاں اس بات کی دلیل ہے کہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان میں مسلکی تعصب کو ہوا دینا چاہتی ہے جسے ہم ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ سابقہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی کے باعث گلگت بلتستان کا امن تباہ ہو گیا تھا اور اسے اس خطے کے غیور عوام نے گندم سبسڈی تحریک کے دوران بحال کیا اور تمام مسلکی تعصبات کو خاک میں ملادیا اور اتحاد و وحدت کی فضا ء قائم کی ، لیکن انتخابات کے دوران بھی مسلکیت کی بنیادوں پر لوگ سامنے آئے یہ افراد پورے خطے کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہ صوبائی حکومت ایک خاص عینک سے دیکھتے ہیں انہیں تعصب کی عینک اتار کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے اور صوبائی حکومت کے خلاف احتجاجات کا سلسلہ شروع کریں گے، یمن کی حمایت کرنا دہشتگردی ہے تو یہ حمایت ہم پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ سعودی عرب کے بادشاہوں اور امریکہ کے پٹووں نے یمن کے مظلوموں پر حملہ کر کے ظلم کیا ہے اس پر خاموش رہنا اس ظلم میں برابر کے ذمہ دار ہے ۔ یہ ظلم عرب کے بادشاہ کر ے یا کوئی اور ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن عرب بادشاہوں کے فکری غلاموں کی جانب سے گلگت بلتستان میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والون پر انسداد دہشتگردی کا مقدمہ کرنا شرمناک ہے ۔ ان افراد کی گرفتاری یہاں کے امن کو خراب کرنے کی ساز ش ہے، حکومت ہوش کے ناخن لے اور بلاجوز ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں پر عائد مقدمات ختم کیا جائے ورنہ زیادہ تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔

وحدت نیوز (شگر) مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار برائے حلقہ6شگر فدا علی شگری نے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین شگر کی حالیہ الیکشن میں شکست کو آئندہ کیلئے کامیابی کی سیڑھی سمجھتا ہوں۔عید الفطر کے بعد پوری قوت کیساتھ علاقہ شگر میں تنظیم سازی اور یونٹ سازی کا عمل شروع کرینگے۔ایم ڈبلیو ایم کو ملنے والے پاکیزہ ووٹوں سے علاقہ شگر کی سیاسی عمارت کی بنیاد رکھے جائے گی جوکہ مستحکم اور مضبوط ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم بلتستان آغا علی رضوی سے ملاقات میں کیا. انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کو حالیہ الیکشن میں ملنے والی ووٹ پاکیزہ ہیں اور خالص پارٹی بنیاد پر ملے ہیں۔ہم ان ووٹوں سے ہم ایک مضبوط و مستحکم شگر کی بنیادیں اٹھائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے بعد شگر میں ایم ڈبلیو ایم کی تنظیم سازی کی جائے گی۔ اس طرح حالیہ الیکشن میں ہونے والے غلطیوں کا ازالہ ہوگااور آئندہ الیکشن لڑنے کیلئے ایک مضبوط بنیاد میسر ہوگی۔ہماری خواہش ہے کہ پارٹی کارکن پارٹی کی مضبوطی کیلئے پوری دلجمعی کیساتھ کام جاری رکھیں ۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) فافین نے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لئے 1151 پولنگ اسٹیشنوں میں سے 700 پولنگ اسٹیشنوں پر 183 تربیت یافتہ مبصر تعینات کر دیئے تھے، انہیں ووٹنگ اور کاونٹنگ کے حوالے سے تکنیکی پہلووں پر تربیت دی گئی تھی، ایک مبصر کو کم از کم چار پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی کا کام سونپ دیا گیا تھا، تاہم انتخابات کے اہم ترین اور حساس ترین مرحلے میں انہیں پولنگ بوتھ سے باہر رکھا گیا اور حقائق تک رسائی حاصل کرنے نہیں دی۔
 
رپورٹ: میثم بلتی

8 جون 2015ء کو گلگت بلتستان میں ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے منظم اور پرامن طریقے سے ووٹ ڈالے، تاہم ووٹوں کی گنتی اور نتائج مرتب کرنے کے عمل سے صحافیوں اور مبصرین کو دور رکھا گیا۔ گلگت بلتستان میں مختلف مقامات بالخصوص دیامر میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی، عالمی اور غیر ملکی مبصرین کا وجود نہیں تھا، یہ باتیں کسی نون لیگ مخالف جماعت کے رہنما کی جانب سے نہیں اٹھائی گئی بلکہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی جانب سے جی بی انتخابات کے بعد تیار کی گئی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہیں۔ فافین کی مکمل رپورٹ کو تاحال میڈیا پر آنے سے روک دیا گیا ہے، اسکے باوجود جو رپورٹ انہوں نے میڈیا کو جاری کر دی ہے، وہ گلگت بلتستان کے انتخابات کو مشکوک بنانے کے لئے کافی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا کہ انتخابات کو مکمل صاف و شفاف نہیں کہا جاسکتا، ورنہ انتخابی نتائج اور رپورٹ مرتب کرتے وقت مبصرین کو ساتھ رکھنے میں کیا قباحت تھی۔

فافین کی رپورٹ کے مطابق انتخابی عمل کو دیکھنے کے لئے گلگت بلتستان میں علاقی اور ملکی سینکڑوں مبصرین اور صحافیوں کو الیکشن کمیشن کی طرف سے کارڈ جاری کئے گئے، لیکن ووٹوں کی گنتی کے دوران اور نتائج مرتب کرنے کے عمل میں مبصرین اور صحافیوں کو دور رکھا گیا، مبصرین کو ووٹوں کی گنتی کے عمل کو دیکھنے سے بھی روکا گیا اور فافین کے کم از کم تیس مبصرین کو  پولنگ کے عملے اور سکیورٹی فورسز نے روکے رکھا اور انکے ساتھ بدسلوکی بھی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق فافین کے مبصرین کو سب سے زیادہ رکاوٹ ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران پیش آئی۔ نتائج کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ گلگت بلتستان کے بعض مقامات میں خواتین کو انتخابی عمل سے دور رکھا اور انہیں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھا گیا۔ ضلع دیامر میں بالخصوص داریل کے علاقے میں تمام تر حکومتی اقدامات اور دعووں کے باوجود خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا۔

انہوں نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی نشاندہی کی ہے کہ انتخابات کے دوران عالمی مبصرین کو بھی دور رکھا گیا اور اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی نشاندہی کی ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابی عمل میں یہ بھی ایک حقیقی مسئلہ تھا، جس کے باعث حقیقی منیڈیٹ کے ذریعے حکومت نہیں بن سکتی وہ ہے ہزاروں افراد گلگت بلتستان سے باہر ملک کے دوسرے شہروں میں آباد ہیں اور اس علاقے کا حصہ ہیں، لیکن وہ واپس آنے اور یہاں ووٹ ڈالنے سے قاصر تھے۔ اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان سے کم و بیش دو لاکھ افراد گلگت بلتستان سے باہر ملک کے مختلف مقامات پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور وہ سفری اخراجات برداشت نہ کرسکنے کے سبب انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے ہیں، جسکے باعث اس جمہوری عمل میں رخنہ پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ فافین نے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لئے 1151 پولنگ اسٹیشنوں میں سے 700 پولنگ اسٹیشنوں پر 183 تربیت یافتہ مبصر تعینات کر دیئے تھے، انہیں ووٹنگ اور کاونٹنگ کے حوالے سے تکنیکی پہلووں پر تربیت دی گئی تھی، ایک مبصر کو کم از کم چار پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی کا کام سونپ دیا گیا تھا، تاہم انتخابات کے اہم ترین اور حساس ترین مرحلے میں انہیں پولنگ بوتھ سے باہر رکھا گیا اور حقائق تک رسائی حاصل کرنے نہیں دی۔ ابھی تک میڈیا اور دیگر ذرائع سے باہر آنے والی فافین کی رپورٹ مجموعی طور پر شفاف الیکشن پر سوالیہ نشان ہے، تاہم مکمل رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد مزید حقاق سامنے آئیں گے۔ اس سلسلے میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گلگت بلتستان انتخابات کی شفافیت کے اعتبار سے مرتب ہونے والی رپورٹ کو مکمل طور پر منظر عام پر لانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

 

 

وحدت نیوز (آرٹیکل) قیام پاکستان سے لے آج تک اس ملک کی سیاست میں مختلف گروہوں نے حصہ لیا ہے، ہر ایک اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور تاحال کر رہا ہے۔ لیکن یہاں پر ایک چیز کا تذکرہ کرنا ضروری ہے اور وہ ملت تشیع کا پاکستانی سیاست میں کردار ہے۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے مارشل لاء کے دور میں باقاعدہ طور سیاست میں وارد ہونے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ ہم بطور سیاسی طاقت الیکشن میں حصہ لیں گے، تاکہ پارلیمنٹ کے اندر ہماری برابر نمائندگی ہوسکے۔ لیکن دشمن نے زیادہ عرصہ تک عظیم قائد کو ملت کے درمیان رہنے کی مہلت نہ دی اور انہیں شہید کر دیا گیا۔ شہید قائد کے بعد کچھ عرصہ تک اس سیاسی سفر کو جاری رکھا گیا، لیکن بعد میں یہ سیاسی سفر ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا، جس کی وجہ سے شیعہ ووٹ کبھی پی پی پی کی جیب میں چلا جاتا تو کبھی نون لیگ اپنے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے قائدین کو اپنے ساتھ ملا کر انہیں لمبی لمبی امیدیں دلا کر شیعہ ووٹ کو تقسیم کر لیتی ہے۔

گلگت بلتستان الیکشن
جی بی قانون ساز اسمبلی کے حالیہ الیکشن بھی کچھ ایسے ہی منفی پروپیگنڈے کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ علاقہ کہ جس کی آبادی کا 70 فیصد اہل تشیع پر مشتمل ہے، جس میں سے صرف 40 فیصد شیعہ امامیہ اثناء عشری ہیں، باقی 30 فیصد میں اسماعیلی اور نور بخشی ہیں، وہ لوگ مسلسل کئی سال سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں نہ تو آئینی حقوق دیئے جا رہے ہیں اور نہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سہولیات میسر ہیں۔ آئے روز ان کے اوپر نئی نئی مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، کبھی سانحہ چلاس تو کبھی سانحہ بابوسر، تو کبھی حکومت گندم سبسڈی کو ختم کرکے رہی سہی کسر پوری کر دیتی ہے۔ لیکن شیعہ اکثریتی علاقے میں دنیائے سیاست میں ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت نے وہاں کی عوام کو جائز حقوق کے حصول کے لئے قیام کرنے کا حوصلہ دیا۔ وہ سیاسی پارٹی جو مشکل کی ہر گھڑی میں وہاں کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے، چاہے وہ سانحہ چلاس ہو یا گندم سبسڈی کا مسئلہ۔ گلگت بلتستان میں ایم ڈبلیو ایم کی عوامی پذیرائی اور طاقت کو دیکھ کر دوسری سیاسی جماعتیں و بالخصوص موجودہ حکمران طبقہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا اور انہیں اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے، کیونکہ وہ تشیع کو بطور سیاسی طاقت دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں ملت تشیع ہمیشہ کی طرح چند مفادات کے عوض اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دے۔

حالیہ الیکشن میں ملت تشیع کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت کو دبانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اپنائے گئے، جن میں سے چند ایک عرض خدمت ہیں۔
1۔ شیعہ ووٹ کو تقسیم کرنا
نون لیگ نے شیعہ اکثریتی علاقے میں شیعہ نظریاتی ووٹ کو تقسیم کرنے لئے ایک کالعدم سیاسی جماعت سے پابندی اٹھا کر میدان میں اتارا۔ وہ جماعت جو ہمیشہ سے موجودہ حکومت کے حق میں کلی طور پر دستبردار ہوتی آئی ہے۔ جس جماعت کی تاریخ میں کبھی بھی نہیں ملتا کہ انہوں نے خود الیکشن لڑے ہوں۔ 1994ء میں الیکشن لڑا اور صرف 8 سیٹیں حاصل کیں، جبکہ پی پی پی کے ساتھ ملکر حکومت بنانے سے صرف 2 وزارتیں ملیں۔ 1999ء میں الیکشن میں حصہ لیا تو صرف 4 سیٹیں حاصل کیں اور بعد میں مشرف دور میں ہونے والے الیکشن میں کلی طور پر قاف لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ 2009ء میں ہونے والے الیکشن میں ایک بار پھر پی پی پی کے ساتھ الحاق کرکے ان کی الیکشن کمپین کا حصہ بن گئے۔ حالیہ الیکشن میں نون لیگ نے اسلامی تحریک پاکستان سے پابندی ہٹا کر اپنے مقاصد کے حصول کے شیعہ ووٹ کو تقسیم کیا۔

2۔ تکفیری ووٹ کو جمع کرنا
نون لیگ نے شیعہ ووٹ کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں 30 سے زائد تکفیری سوچ رکھنے والے عناصر کو امپورٹ کیا، جن کی سربراہی کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما اورنگزیب فاروقی کر رہے تھے۔ اس بات کا انکشاف پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما نے کیپیٹل ٹاک شو میں کیا ہے۔ اس طرح نون لیگ نے وہابی ووٹ کو اکٹھا کیا اور اسے تشیع کے مقابلے میں استعمال کیا۔

موجودہ الیکشن میں کامیاب شیعہ امیدواروں کا تناسب
عام طور پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک پاکستان کے الیکشن میں آنے سے تکفیری عناصر کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، وہ علاقہ جس کی آبادی کا 70 فیصد حصہ اہل تشیع پر مشتمل ہو، وہاں تکفیری امیدوار کس طرح اکثریت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتائج کے مطابق شیعہ امیدواروں کی تعداد کچھ اس طرح ہے۔
مجلس وحدت مسلمین: 2
اسلامی تحریک پاکستان: 2
پاکستان مسلم لیگ نون: 4
پاکستان پیپلزپارٹی: 1
اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں موجود اسماعیلی شیعوں نے بھی الیکشن میں بھرپور حصہ لیا، جن میں سے 2 اسماعیلی نون لیگ کے امیدوار تھے، ایک امیدوار کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا اور ایک امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑا ہوا۔
اب ذرا الیکشن میں کامیاب ہونے والی اہلسنت امیدواروں کی تعداد بھی ملاحظہ فرمائیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون: 6
جمیعت علمائے اسلام (ف): 1
آزاد امیدوار: 1
مجموعی طور پر کامیاب ہونے والے امیدواروں میں زیادہ تناسب شیعہ امیدواروں کا ہے، جو کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔

الیکشن کے نتائج سے نقصان کیا ہوا۔؟
الیکشن میں ایک شیعہ مذہبی جماعت نے بعض حلقوں میں مسلم لیگ نون کو سپورٹ کیا، اپنے امیدوار نون لیگی امیدواروں کے حق میں دستبردار کروائے اور باقاعدہ الیکشن کمپین میں نون لیگی امیدواروں کے ساتھ ملکر شیعہ ووٹ کو تقسیم کیا، اس کا جہاں پر ایک نقصان یہ ہوا کہ شیعہ ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹی کو ہرایا گیا اور عوام میں مایوسی پھیلائی گئی، دوسرا نقصان یہ ہوا کہ چاہے نون لیگ میں شیعہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، لیکن جی بی میں گورنمنٹ نون لیگ کی بنے گی۔ جن کی شیعہ دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جہاں پر ایک حلقہ میں شیعہ ووٹ کے تقسیم ہونے سے نون لیگی امیدوار اور مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کا صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمن کامیاب ہوا ہے۔ اس کے بیانات اور مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے لگ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کا اگلا وزیراعلٰی حفیظ الرحمن ہوگا، جو کہ تکفیری سوچ رکھنے والا اور کالعدم سپاہ صحابہ کا حمایت یافتہ امیدوار تھا۔ یہ وہ سب سے بڑا نقصان ہے جو وہاں کہ عوام کو ہوگا۔ جس کی بنیادی وجہ شیعہ ووٹ کو تقسیم کرکے نون لیگی امیدواروں کو کامیاب کرانا ہے۔

بطور شیعہ ایک سوال؟؟؟
گلگت بلتستان الیکشن میں کالعدم سپاہ صحابہ نے نون لیگی امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لئے نواز شریف سے ساز باز کی، الیکشن کمپین کا حصہ بنی اور اس خطے میں موجودہ تکفیری و اہلسنت ووٹ کو نون لیگ کی جھولی میں ڈال دیا۔ لیکن اسلامی تحریک پاکستان بھی نون لیگی الیکشن کمپین کا حصہ بنی ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کی شیعہ دشمنی تو سمجھ میں آنے والی بات ہے، لیکن اسلامی تحریک پاکستان کا نون لیگ کے ساتھ کھڑا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔؟؟ اگر اتنے عرصہ بعد الیکشن لڑنا ہی چاہتے تھے تو اپنے تشخص کے ساتھ لڑتے یا شیعہ جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کر لیتے۔؟؟ کیا نون لیگ کے ساتھ کالعدم سپاہ صحابہ کھڑی ہوئی نظر نہیں آئی؟ کیا اب اہل تشیع بھی کالعدم سپاہ صحابہ کے ساتھ کھڑے ہو کر نون لیگ جیسی سیاسی جماعتوں کو اور مضبوط کریں گے؟؟ یہ چند بنیادی سوالات ہیں جو آج تشیع کا درد رکھنے والے ہر نوجوان کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔
 
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین ہاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹا ک میں انکشاف کیا ہےکہ مسلم لیگ ن نے گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات میں ہمیں 6کروڑروپے کے عیوض خریدنے کی کوشش کی،انہوں نے بتایا کہ پروگرام میں موجود مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور گورنرگلگت بلتستان برجیس طاہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ حلقہ 5گلگت میں ن لیگ امیدوار نے مسجد کے ممبر پر 6کڑوڑ روپے رکھ کرکہا کہ ہمیں ووٹ دیں ، دوسری جانب فکر کے علاقے میں موجودہ نگراں حکومت میں شامل ن لیگی وزیر نے مجھے 60لاکھ کا چیک دیا کہ آپ یہ رکھ لیں اور ہماری حمایت کریں یہ چیک 9تاریخ کے بعد کیش ہو جائے گا، علامہ امین شہیدی نے کہا کہ جب ہمیں 6کروڑ میں خریدنے کی ن لیگ نے کوشش کی تو دوسروں کا کیا بھاو لگایا پتا نہیں ۔

وحدت نیوز (گلگت) گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں تاریخ کی بدترین ریاستی  دھاندلی کے باوجود مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے دو امیدوار ، سکردو حلقہ2سے  کاچوامتیاز حیدر خان اورہنزہ نگر حلقہ 5سے ڈاکٹر حاجی رضوان علی  قانون اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب قرار پائے ہیں ،واضح رہے کہ ن لیگ نے جانبدارگورنر، وزیر اعلیٰ ، الیکشن کمشنراور انتخابی عملے کی مدد سے گلگت بلتستان انتخابات میں بدترین دھاندلی کی، مسلم لیگ ن کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کی تیاریاں گذشتہ 6ماہ سے جاری تھیں ،جسےعملی جامع انتخابات کے دن راتوں رات انتخابی نتائج تبدیل کرکے پہنایا گیا، نتائج کی تبدیلی کے خلاف ایم ڈبلیوایم نےالیکشن اپلیٹ ٹریبونل میں درخواست دائر کا فیصلہ کیا ہےتفصیلات کے مطابق سکردوحلقہ3میں بھاری اکثریت سے کامیاب ایم ڈبلیوایم کے امیدوار وزیر محمد سلیم ،روندوحلقہ4میں راجہ ناصرعلی خان اورہنزہ نگرحلقہ 4میں ڈاکٹر علی محمد کے انتخابی نتائج کو24گھنٹے سے زائد عرصے تک روک کر تبدیل کیا گیا اور ووٹوں کو بغیر کسی وجہ کے مسترد قرار دیا گیا اس منظم دھاندلی میں مسلم لیگ ن نے ریٹرنگ افسران پر بھر پور دباوڈالا اورایم ڈبلیوایم کے خلاف نتائج تبدیل نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں ، آخری اطلاعات کے مطابق ایم ڈبلیوایم بلتستان ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ سید علی رضوی نے سینکڑوں کارکنان کے ہمراہ الیکشن کمیشن آفس کے باہر احتجاجی دھرنا دے  دیا ہے جس میں انہوں نے سکردو حلقہ 3اور روندوحلقہ  4کے ووٹوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کامطالبہ کیا ہے۔

قبل ازیں بدترین ریاستی  دھاندلی کے باوجود سکردو حلقہ2سےایم ڈبلیوایم کے امیدوار  کاچوامتیاز حیدر خان10125 ووٹ حاصل کرکے5325کی بڑی لیڈسےکامیاب ہوئے جبکہ ہنزہ نگر حلقہ 5سے ایم ڈبلیوایم کے امیدوار ڈاکٹرحاجی رضوان علی2436ووٹ لے کر500کی لیڈ سے کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مقابل آزاد امیدوار پرنس قاسم علی فقط 1932لیکر شکست کھا گئے، دونوں کامیاب امیداروں کے نتائج سامنے آنے کے بعد ایم ڈبلیوایم کے کارکنان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب کہ ہزاروں کی تعداد میں کارکنان ایم ڈبلیوایم کے دفاتر پر جمع ہونا شروع ہو گے جنہوں نے فلگ شگاف نعرت بازی کی، جبکہ ایم ڈبلیوایم بلتستان ڈویژن سے ایک شاندار ریلی بھی نکالی گئی جس کی قیادت ایم ڈبلیوایم بلتستان ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ آغا سید علی رضوی نے کی اس موقع پر کارکنان اور اہل علاقہ نے کاچو امتیاز حیدر خان کو تاریخی کامیابی پر مبارک باد پیش کی،کاچو امتیاز حیدر خان کا شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عوام نے مجھے جو بھاری مینڈیٹ دیا اور جس محبت کا اظہار مجھ سے کیا ہے میں اس کا ہر صورت پاس رکھوں گا، انشاء اللہ اسمبلی میں پہنچ کر عوام کے مسائل کا حل میری بنیادی ترجیح ہو گی  ، انہوں نے ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اوراور بلتستان ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ سید علی رضوی کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے ٹکٹ دے کر ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔دوسری جانب ڈاکٹر حاجی رضوان کے گھر بھی مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

Page 1 of 12

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree