شیعت نیوز: ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ یمن جنگ، اس کے نتائج اور اس جنگ کے تناظر میں ایران سعودی عرب اور ایران امریکہ کشیدگی کے موضوع پرایک بین الاقوامی خبر رساں ادرے نے سید ناصر عباس شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا، اس انٹرویو کا پہلا حصہ پیش ہے۔ (ادارہ)

سوال:  سعودی عرب نے دولت اور طاقت کے بل بوتے پہ یمن پر جو جنگ مسلط کی، اس میں سعودی اہداف کیا تھے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ حرمین شریفین بھی سعودی عرب میں ہیں، عمرہ، حج کی وجہ سے سعودی عرب کو کافی آمدن ہوتی ہے۔ بلیک گولڈ یعنی کہ تیل کی سب سے زیادہ پیداوار اسی ملک کی ہے، جس کے باعث دنیا میں پیسے کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ مضبوط بادشاہت تھی تو وہ سعودی عرب تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیاروں کا خریدار ملک بھی ہے۔ سعودی عرب کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ بہت مضبوط اتحاد ہے۔ یمن جنگ میں بھی دونوں کا باقاعدہ اشتراک تھا۔

یمن دنیا کا اور خطے کا غریب ترین ملک ہے۔ پہلے یمن دو حصوں میں تقسیم تھا۔ پھر دونوں حصے اکھٹا ہوئے۔ شمالی یمن اور جنوبی یمن۔ ایک حصہ اس کا صحراوں پہ مشتمل ہے۔ دنیا میں القاعدہ عراق کے بعد القاعدہ یمن خطرناک ترین برانچ سمجھی جاتی تھی۔ یمن کے اندر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان میں حوثی ایک باقاعدہ عوامی جمہوری سسٹم کے خواہش مند تھے، جبکہ ہادی المنصور جسے اس شرط پہ حکومت سونپی گئی تھی کہ وہ دو سال کے اندر انتخابات کرائے گا اور اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرے گا۔ منصور ہادی نے یہ نہیں کیا اور اپنی حکومت کو دوام دینے کی کوشش کی۔ جس پہ حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے۔ جنہیں بزور طاقت دبانے کی کوشش کی گئی، مگر منصور ہادی حکومت عوام کو دبانے میں ناکام رہی۔ عوامی مظاہروں پہ منصور ہادی بھاگ کر سعودی عرب چلا گیا اور سعودی عرب نے منصور ہادی حکومت کے قیام کیلئے یمن پہ جنگ مسلط کر دی۔ یمن میں حوثی بنیادی طور پہ اہلسنت کے ساتھ اتحاد رکھتے ہیں۔شافعی اور حوثی یمن کی ساٹھ فیصد آباد ی کی نمائندگی رکھتے ہیں۔

سوال: سعودی عرب نے دولت اور طاقت کے بل بوتے پہ یمن پر جو جنگ مسلط کی، اس میں سعودی اہداف کیا تھے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ حرمین شریفین بھی سعودی عرب میں ہیں، عمرہ، حج کی وجہ سے سعودی عرب کو کافی آمدن ہوتی ہے۔ بلیک گولڈ یعنی کہ تیل کی سب سے زیادہ پیداوار اسی ملک کی ہے، جس کے باعث دنیا میں پیسے کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ مضبوط بادشاہت تھی تو وہ سعودی عرب تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیاروں کا خریدار ملک بھی ہے۔ سعودی عرب کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ بہت مضبوط اتحاد ہے۔ یمن جنگ میں بھی دونوں کا باقاعدہ اشتراک تھا۔

یمن دنیا کا اور خطے کا غریب ترین ملک ہے۔ پہلے یمن دو حصوں میں تقسیم تھا۔ پھر دونوں حصے اکھٹا ہوئے۔ شمالی یمن اور جنوبی یمن۔ ایک حصہ اس کا صحراوں پہ مشتمل ہے۔ دنیا میں القاعدہ عراق کے بعد القاعدہ یمن خطرناک ترین برانچ سمجھی جاتی تھی۔ یمن کے اندر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان میں حوثی ایک باقاعدہ عوامی جمہوری سسٹم کے خواہش مند تھے، جبکہ ہادی المنصور جسے اس شرط پہ حکومت سونپی گئی تھی کہ وہ دو سال کے اندر انتخابات کرائے گا اور اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرے گا۔ منصور ہادی نے یہ نہیں کیا اور اپنی حکومت کو دوام دینے کی کوشش کی۔ جس پہ حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے۔ جنہیں بزور طاقت دبانے کی کوشش کی گئی، مگر منصور ہادی حکومت عوام کو دبانے میں ناکام رہی۔ عوامی مظاہروں پہ منصور ہادی بھاگ کر سعودی عرب چلا گیا اور سعودی عرب نے منصور ہادی حکومت کے قیام کیلئے یمن پہ جنگ مسلط کر دی۔ یمن میں حوثی بنیادی طور پہ اہلسنت کے ساتھ اتحاد رکھتے ہیں۔شافعی اور حوثی یمن کی ساٹھ فیصد آباد ی کی نمائندگی رکھتے ہیں۔

ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ اگر جمہوری طریقہ بھی اپنایا جائے تو انہی کی حکومت بنے گی۔ فوج کی اکثریت بھی ان کے ساتھ تھی۔ سعودی عرب جو کہ پہلے سے ہی یمن پہ اپنے اثر اور حاکمیت کو خطرے میں دیکھ رہا تھا۔ اس نے پہلے سے ہی کئی جنگیں شروع کی ہوئی تھیں۔ سعودی عرب سے ملحقہ یمن کا علاقہ حوثی قبائل کا ہے۔ اس اعلانیہ جنگ سے قبل بھی سعودی عرب نے حوثیوں پہ کئی حملے کئے ہیں، جو کہ کئی کئی ماہ جاری رہے ہیں۔ تاہم سعودی عرب نے دیکھا کہ حوثی یمن میں حکومتی سطح پہ فعال ہو رہے ہیں تو پھر اس کے بعد اعلانیہ جنگ مسلط کر کے سعودی عرب نے بھیانک حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ سعودی عرب نے اس جنگ میں ہدف یہ رکھا کہ تین ماہ کے اندر منصور ہادی حکومت کو دوبارہ قائم کرنا ہے اور یمن میں حوثی کردار کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے اور منصور ہادی حکومت کے ذریعے یمن کو پھر سے اپنے تابع رکھنا ہے۔

سوال: یمن کیخلاف جارحیت کرنیوالے اتحاد کتنے ہیں اور سعودی عرب کو یمن سے اتنی مزاحمت کا اندازہ تھا۔؟
سید ناصر شیرازی: سعودی عرب کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ یمن کے اندر سے مزاحمت اتنی شدید ہو سکتی ہے۔ یمن پہ حملہ آور دو طرح کے اتحاد قائم ہیں۔ ایک سولہ ملکی اتحاد ہے، جس میں بیشتر مغربی ممالک ہیں۔ دوسرا اتحاد چالیس ملکی اتحاد ہے کہ جس میں مسلم ممالک شامل ہیں، اس کو اسلامک الائنس کا نام دیا گیا ہے اور اس کی عسکری کمانڈ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پاس ہے۔ ان دونوں اتحادوں نے یمن کے حوالے سے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ انہوں نے یمن پہ کارپٹڈ بمباری کی ہے، یہاں سے اندازہ لگائیں کہ اقوام متحدہ میں یمن میں ہونے والے جانی و مالی نقصان سے متعلق عظیم تباہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں انسانی ہاتھوں سے جو بھیانک ترین تباہی پھیلی ہے وہ یمن میں آل سعود کے ہاتھوں پھیلی ہے اور عالمی و جنگی قوانین کی جتنی دھجیاں یمن میں اڑائی گئی ہیں بلکہ اڑائی جا رہی رہیں، وہ کہیں اور دیکھائی نہیں دیتیں۔ جمہوریت کے نام نہاد متوالے یہاں جمہوری نظام کے لیے آگے نہیں آتے۔

جنگوں میں جن ہتھیاروں پہ پابندی ہے، ان کا نہ صرف یمن میں استعمال جاری ہے، بلکہ ان غیر قانونی ہتھیاروں کی باقاعدہ خرید و فروخت جاری ہے اور یہ ہتھیار بیچنے والے اور خریدنے والے بھی وہی ممالک ہیں کہ جو ظاہراً ان ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف شور مچاتے ہیں۔ یمن اس وقت بدترین قحط کا شکار ہے، وہاں غذا نہیں ہے، دوا نہیں ہے۔ وہاں زندگی کی بنیادی ضرورت میسر نہیں ہیں۔ بچوں کو غذا اور دوا کی قلت کا اس حد تک سامنا ہے کہ دنیا میں بھوک اور متعددی امراض کے ہاتھوں مرنے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد یمن کے اندر ہے اور یہ سب اس جنگ کی وجہ سے ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سعودی عرب کو یمن کے اندر اتنی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور ننگے پاؤں پھرنے والے یہ لوگ سعودی عرب کے اندر اس حد تک گھس جائیں گے کہ وہ جنگ جسے تین مہینوں میں سعودی عرب جیتنا چاہتا ہے، کئی سالوں پہ محیط ہو جائے گی اور اس جنگ کے نتیجے میں صورتحال یہ ہوجائے گی کہ یمن کے اندر حوثی مضبوط ترین پوزیشن میں ہوں گے، سیاسی لحاظ سے بھی، عسکری لحاظ سے بھی
ہاں تک کہ نظم اور استحکام کے حوالےسے بھی، ان کے علاقے مستحکم اور پرامن ہوں گے۔

سوال:جنگ زدہ یمن میں حوثی مجاہدن کے زیرکنٹرول علاقے اور منصور ہادی کے زیراثر علاقوں کے حالات میں کیا فرق ہے؟
سید ناصر شیرازی: آج حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں استحکام ہے، جبکہ جہاں منصور ہادی یا سعودی اثر زیادہ ہے، یعنی عدن وغیرہ میں امن و امان کی بدترین کیفیت ہے۔ مختلف گروہوں کی وہاں آپس میں مسلسل لڑائی چل رہی ہے۔ تازہ لڑائی جو ابھی وہاں پہ جاری ہے۔ وہ دو گروہوں کے مابین ہے۔ ایک گروہ کو متحدہ عرب امارات سپورٹ کرتا ہے کہ جن کو علیحدگی پسند کہا جاتا ہے، یہ گروہ عدن میں ایک علیحدہ حکومت قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔ دوسرا بڑا گروہ منصور ہادی کا ہے، جسے سعودی عرب کنٹرول کر رہا ہے۔ وہ مشترکہ حکومت کا قائل ہے، یہ سعودی گروہ بھی اس لیے مشترکہ حکومت کا قائل ہے، کیونکہ انہیں یہ اندازہ ہے کہ اگر حکومتیں دو ہو گئیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نادرن یمن سو فیصد حوثیوں کے زیر کنٹرول ہے اور سعودی عرب کی سرحد کے اوپر صورتحال مزید خراب رہے گی۔ یہ وہ کیفیت ہے کہ جس میں یمنیوں نے ایک بڑی جنگ لڑی ہے۔ یمن کی مزاحمت میں موجود لوگوں کا واحد راستہ جو سمندر سے انہیں ملاتا ہے وہ حدیدہ کا ہے۔ اس اتنے بڑے پورے اتحاد نے کوئی تین مرتبہ یہاں جنگ کرنے اور اسے اپنے زیر کنٹرول کرنے کی کوشش کی، مگر انہیں منہ کی کھانا پڑی اور حوثیوں نے انہیں ایک انچ بھی اندر داخل نہیں ہونے دیا زمین، فضائی اور بری تینوں لحاظ سے یہ بڑے حملے تھے اور اس پورے خطے میں اس طرح کا اتنا بڑا حملہ پہلے کبھی نہیں ہوا ہے مگر اس کے باوجود حوثیوں کو کامیابی ملی جبکہ حملہ آور اتحاد کو منہ کی کھانا پڑی۔

سوال:سعودی اتحاد کیخلاف برسرپیکار حوثیوں کے عزم و ارادے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکی مزاحمت کامیاب رہیگی؟
سید ناصر شیرازی: عبدالمالک الحوثی نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ لوگ ہمیں تکبر سے ڈرانا چاہتے ہیں، ہمیں دبانا چاہتے ہیں، مگر یہ لوگ ہمیں شعب ابی طالب میں بھی نہیں دبا سکے تھے اور اگر یہ لوگ ہمیں اپنی طاقت سے ڈرانا چاہتے ہیں اور طاقت سے دبانا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں کربلا میں بھی اپنی طاقت سے نہیں دبا سکے تھے۔ حوثیوں نے نہ صرف سعودی اتحاد سے اپنے علاقے، اپنی زمین کو بچایا ہے، وہاں استحکام رکھا ہے، انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے اسے کٹہرے میں بھی کھڑا کیا ہے اور ساتھ اپنی جنگی استعداد کا بھی بھرپور اظہار کیا ہے اور یہ اظہار بھی سعودی عرب کے اندر اس کے حساس مقامات پہ کیا ہے۔ حوثیوں نے جو کہا، وہ کرکے دیکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ائیرپورٹس کو نشانہ بنائیں گے وہ انہوں نے کرکے دیکھایا۔ حوثیوں نے اعلان کیا کہ آپ نے جو کرائے کے قاتل بلائے ہوئے ہیں، ہم انہیں نشانہ بنائیں گے، انہوں نے یہ بھی کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سعودی اتحاد نے یمن پہ حملوں اور جارحیت کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ بڑی جوابی کارروائی کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کر دیکھایا۔ حوثیوں کے ایک حملے کے نتیجے میں سعودی عرب کی پچاس فیصد تیل کی پیداوار رک گئی۔ اس ایک جوابی کارروائی کے نتیجے میں دنیا میں تیل کی قیمتوں میں بدلاو آیا اور ایک ہی دن میں دنیا کو سپلائی ہونے والے تیل میںبیس فیصد کمی واقع ہو گئی۔

یہ اس ایک بڑی جوابی کارروائی کا نتیجہ تھا کہ جس کے بارے میں حوثیوں نے پہلے ہی اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ بھی دیکھایا کہ وہ زمینی سطح پہ بھی اتنے طاقتور ہیں کہ حملہ آور فوج کے خلاف بھرپور کارروائی کرسکتے ہیں۔ ابھی تازہ کارروائی کی ویڈیوز جاری ہو چکی ہیں۔ جس میں حوثیوں نے دنیا کے مختلف ممالک سے بلائے گئے کرائے کے قاتلوں کے علاوہ بڑی تعداد سعودی فوجیوں کو گرفتار کیا ہے اور بڑی تعداد سعودی قیمتی گاڑیوں کی ہے جو تباہ ہوئے ہیں۔ حملہ آور اتحاد کے تین بریگیڈ کم از کم تباہ ہوئے ہیں۔ فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جو بیلنس آف پاور ہے وہ اس وقت یمنیوں کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ حوثیوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ سعودی عرب جو کہ سیاحت کو فروغ دینا چاہتا ہے، مذہبی اثر سے نکال کر آزاد ملک بنانا چاہتا ہے۔ اسے اس وقت نہ ہی مذہبی حلقوں کی پذیرائی حاصل ہے اور خاشقجی قتل کے بعد اور یمن بحرانوں کے بعد نہ ہی اسے آزاد دنیا سے تائید و حمایت مل رہی ہے، داخلی سطح پہ شاہی خاندان کے ناروا سلوک اور مذہبی طبقے کو سائیڈ لائن کرنے کی وجہ سے، اہل تشیع کے ساتھ بدسلوکی کے باعث سعودی حکومت داخلی و خارجی سطح مسلسل تنہائی کی جانب گامزن ہے۔ سعودی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ یمنیوں کی اس جاری مزاحمت کے مقابلے میں کھڑی ہو سکے۔

سوال:متحدہ عرب امارات دوران جنگ سعودی عرب کا ساتھ کیوں چھوڑ رہا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: یمنی اس جنگ میں اس حد تک ثابت قدم رہے ہیں کہ سعودی عرب کے حلیف اسے دوران جنگ ہی چھوڑنا شروع ہو گئے ہیں، اسی وجہ سے متحدہ عرب امارات نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔ یو اے ای کو بھی یہ خبر ہو چکی ہے کہ اگر ان کے ملک میں بھی یمنیوں نے اس طرز کی کوئی کارروائی کر دی کہ جیسی انہوں نے سعودی عب میں انجام دیں ہیں تو انہیں شدید مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یو اے ای کو اندازہ ہے کہ ان کے ملک میں جو یورپی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے افراد کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے، ایک واقعہ کے بعد ہی سب کے سب واپس چلے جائیں گے، کیونکہ اگر امن نہیں ہو گا تو یہاں کوئی نہیں رہیگا۔ یواے ای اس وقت پیچھے ہٹ چکا ہے۔ عدن کے اندر دونوں گروہوں کے مابین تصادم ہے اور الائنس میں سعودی عرب اور یواے ای کے مابین بھی تصادم ہے۔ یمن جغرافیائی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ دنیا کے پینسٹھ فیصد آئل کا راستہ یہی ہے۔ سب سے بڑی تجارتی گزرگاہ ہے۔ یورپ اور ایشیا کے مابین مختصر ترین راستہ ہے۔ یمن میں حوثی حکومت کا مطلب اس اہم ترین راستے پہ ان کا تصرف ہے، جو سٹریٹجک حوالے سے بہت اہم ہے۔

عالمی طاقتوں کے اس جنگ میں مفادات ہیں۔ آرامکو پہ جو حملہ حوثیوں نے کیا ہے، بحرین میں موجود امریکی بحری بیڑا اس سے محض پچاس کلومیٹر دور ہے۔ یہ ایک واضح اور کھلا پیغام اس بیڑے کو بھی ہے کیونکہ وہ بیڑا اس حملے کی نشاندہی کرنے میں یا اسے روکنے میں ناکام ہوا ہے۔ اس سے پہلے جو حملے سعودی عرب میں کئے گئے تھے، جن میں ایک بیلسٹک میزائل حملہ اور دوسرا ڈرون اٹیک، وہ عرب امارات سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور تھا۔ گویا یہ واضح اور کھلا پیغام یو اے ای کیلئے بھی تھا کہ ایک سو کلومیٹر مزید آگے جانا تو کوئی بڑی بات نہیںہے۔ حوثیوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ یو اے ای بھی ان کی رینج میں ہےاور اگر یو اے ای نے یہ خیانتیں جاری رکھیں تو حوثی اس کے خلاف بھی بڑا اقدام کریں گے۔ اب دنیا بھی اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ حوثی بڑا اقدام کر بھی سکتے ہیں اور انہوں نے کئے بھی ہیں۔ یمن میں سعودی اتحاد کو بالآخر پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ سعودی عرب کی اقتصادی صورتحال بری طرح تباہ ہوچکی ہے اور آئندہ کچھ عرصے میں بدترین اقتصادی مشکلات کا شکار ہوجائے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ سعودی بادشاہت کے تکبر کی ناک یمن کی خاک پہ رگڑی جارہی ہے اور آپ اسے عصر حاضر کا معجزہ قرار دے سکتے ہیں۔

سوال: حوثیوں کو ایران کی جانب سے کتنی مدد حاصل ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ساری صورتحال میں کہا جارہا ہے کہ یمن کے حوثی بنیادی طور پر ایران سپانسرڈ ہیں۔ ایران کے ساتھ ان کا جغرافیائی لنک نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لیے آسان ہے کہ سمندری محاصرہ توڑ کر وہ ان تک پہنچے۔ حوثیوں کے پاس زمینی راستے دو ممالک سے ہیں، ایک سعودی عرب سے اور دوسرا عمان سے۔ ظاہر ان دونوں ممالک سے ایران کی حوثیوں تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔ ہوائی اڈے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ایران کے پاس نہ زمینی راستہ ہے اور نہ سمندری کہ حوثیوں تک رسائی حاصل کرے۔ اس صورتحال میں ایران کو اگر یمن میں حوثیوں تک رسائی ملی بھی ہے، تو اس میں بڑی وجہ سعودی عرب کی حماقت ہے اور بدترین ظلم و طاقت کا استعمال ہے کہ جس کے نتیجے میں یمنیوں کا ایران کی جانب جھکاؤ ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یمنی ایران کی رہبریت، ایران کی لیڈر شپ اور عالمی استعمار کے مقابلے میں ایران کے قیام سے متاثر ہیں اور نظریاتی طور پر وہ ایران کے بہت قریب آچکے ہیں۔ جب نظریاتی تعلق قائم ہو جائے تو پھر باقی چیزیں کافی آسان ہو جاتی ہیں۔ اب تو حوثیوں نے سعودی عرب سے اتنا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان حاصل کر لیا ہے کہ وہ کئی سالوں تک لڑنے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کیلے وہ تیار بھی ہیں۔

سوال:کیا سعودی عرب یمن میں حوثی حقیقت کو تسلیم کرلے گا۔؟
سید ناصر شیرازی: اب سعودی عرب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ کمپرومائز کی جانب آئے، مذاکرات ہوں اور سعودی عرب طاقت کے استعمال کی حماقتوں سے آئندہ کیلئے باز رہے۔ اگر چہ سعودی عرب کی پوری کوشش ہو گی کہ اس جنگ کے بعد بھی یمن اندرونی عدم استحکام کا شکار رہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ آئندہ یمن کے امور میں حوثیوں کا کلیدی و بنیادی کردار ہو گا۔ یہ وہی حوثی ہیں کہ جو الموت امریکہ، الموت اسرائیل کے قائل ہیں۔ جو نظریاتی فکری لحاظ سے انقلاب ایران کے بہت قریب ہیں اور اس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی میں سعودی عرب واضح شکست کھا چکا ہے۔ ایران کا اثر و رسوخ اس لحاظ سے خطے میں مسلسل بڑھ رہا ہے کہ ایران نے مظلوموں کی حمایت کی ہے۔ ان کی اقتصادی، سیاسی حمایت کی ہے اور عین ممکن ہے کہ انہیں تکنیکی تربیتی مدد بھی فراہم کی ہو مگر یہ درست ہے کہ سعودی عرب کو جتنا بھی ردعمل مل رہا ہے وہ یمن کی زمین سے آرہا ہے اور وہ یمنی ہی دے رہے ہیں۔ حوثیوں نے اگر انقلاب اسلامی ایران سے امداد لی بھی ہے تو وہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی بدترین دہشتگردی اور بدترین جارحیت کے خلاف لی ہے، جو ان کا بنیادی حق ہے اور انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

سوال:یمن کے تناظر میں ایران کے سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ معاملات کونسی سمت اختیار کریں گے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں جو کشیدگی اور تناؤ تھا وہ اب سعودی عرب کو بالآخر جھکنے پہ مجبور کر رہا ہے۔ جیسا کہ ابھی سعودی عرب نے کہا بھی ہے کہ مذاکرات شروع کئے جائیں تو مذاکرات کیلئے مسئلہ یمن ہی ہے۔ سعودی عرب موجودہ اقتصادی صورتحال کو مزید برقر ار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسے بہت زیادہ فنڈنگ کرنا پڑ رہی ہے، کرائے کی جو فوج اس نے منگوائی ہوئی ہے، اس پہ بھی اس کو بہت زیادہ اخراجات کرنے پڑ رہے ہیں اور ان کے مطالبات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ خطرے کی اس بجتی ہوئی گھنٹی اور تیزی سے کم ہوتے اتحادیوں کے باعث سعودی عرب مذاکرات کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ سعودی عرب پہ عالمی پریشر بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جمال خاشقجی والا مسلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ وہ بیک چینل ڈپلومیسی کو استعمال کرکے ایران کے ساتھ معاملات کو تھوڑا بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ مکمل طور پر تمام معاملات درست شائد نہ ہوں مگر کم از کم یمن کی حد تک معاملات بہتر ہوں اور آہستہ آہستہ سعودی عرب اس حقیقت کو قبول کر لے کہ یمن کے اندر آئندہ فیصلہ سازی حوثیوں کے ہاتھ میں ہے۔

سعودی عرب، ایران امریکہ تعلقات کا مستقبل بھی یہ ہے کہ اس خطے میں جو یمن جنگ ہوئی ہے۔ اس میں صرف سعودی عرب کو شکست نہیں ہوئی ہے، بلکہ جو سولہ رکنی اتحاد ہے، امریکہ اس اتحاد کا حصہ ہے، ان کی فیولنگ وغیرہ امریکہ ہی کرتا ہے، ملٹری ایڈوائزر امریکی ہیں۔ وہ بدترین شکست کا شکار ہوئے ہیں۔ امریکہ اس خطے کے اندر سعودی عرب کے اوپر کافی انحصار کرتا ہے۔ خطے کے اندر امریکہ جو اہداف اپنے غیر مسلم چہرے کی وجہ سے اسلامی ممالک سے حاصل نہیں کر سکتا، وہ تمام اہداف امریکہ سعودی عرب کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ امریکہ یمن پہ براہ راست حملہ نہیں کر ے گا۔ امریکہ نے عراق اور شام میں جو کام کئے ہیں وہ امریکہ کیلئے بہت مشکل ہیں مگر وہی اہداف، وہی کام اس نے سعودی عرب کے ذریعے انجام دیئے ہیں۔ خواہ وہ داعش کی صورت میں ہو۔ دہشتگردوں کی صورت میں یا کسی اور صورت میں۔ خطے میں امریکی اوزار کا اگر کوئی کام کررہا ہے تو وہ آل سعود ہیں۔

یمن کے تناظر میں جہاں تک ایران امریکہ تعلقات کی بات ہے تو ایران نے بہت کامیابی کے ساتھ سفارتی جنگ بھی جیتی ہے اور عسکری جنگ بھی جیتی ہے۔ عسکری جنگ سے مراد یہ ہے کہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ اس کی جنگی استعداد، جدید عسکری ٹیکنالوجی پہ عبور اور اس کا ماہرانہ استعمال، ایران کے مخالفین کے اندازوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایران نے سیاسی اور عسکری دونوں حوالوں سے اپنی مہارت کا بہت عمدگی کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ وہ امریکی ڈرون کہ جو مالیت کے اعتبار سے صرف دو تیار کئے گئے اور ان میں سے ایک کی مالیت ایرانی فوج کے ایک سالہ بجٹ کے برابر ہے، اس ڈرون کو نہ صرف ایران نے بڑی مہارت کے ساتھ پکڑا ہے بلکہ اس کے بعد آنے والے ردعمل کو بھی اپنی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر استعمال کیا ہے۔

(جاری ہے)

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس بھیانک ناکام منصوبہ بندی کی تفصیل جس کے تحت علی عبد اللہ صالح نے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف بغاوت کی تاکہ وہ دوبارہ سے یمن کا بلا شرکت غیرے حاکم بن جائیں، اور اپنے بیٹے کو جو اس وقت عرب امارات میں مقیم ہیں یمن کا صدر بنایا جائے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔ انصار اللہ کے خلاف بغاوت کی پلاننگ اب سے تقریبا 8مہینے پہلے ہوئی۔ اس پلاننگ میں محمد بن زاید(ابوظبی کا ولی عہد)، جنرل شاول موفاز(سابق اسرائیلی وزیر دفاع)، محمد دحلان کے علاوہ علی عبد اللہ صالح شریک تھے۔ ان سب کے علاوہ مقتول یمنی صدر صالح کے بیٹے احمد علی عبد اللہ صالح نے اس میٹنگ میں خصوصی شرکت کی۔۔

ساری پلاننگ ابوظبی میں ہوئی، جس میں بغاوت کی ساری تفصیلات محمد بن زاید کی طرف سے طے کی گئیں۔ اس کے بعد مزید میٹنگز کے لیے سقطری کے خوبصورت جزیرے کا انتخاب کیا گیا جسے سابق یمنی صدر عبد ربہ منصور نے اماراتیوں کو بیچا تھا۔ اس جزیرے میں لگ بھگ 9دفعہ ان کی میٹنگز ہوئیں، جن میں جنوبی یمن میں تعینات اماراتی آفیسرز کے علاوہ اسرائیلی آفیشلز نے بھی شرکت کی جن کے نام شاوول موفاز نے دئیے تھے۔

پلاننگ کے تحت علی عبد اللہ صالح کے قریبی 1200ساتھیوں کو عدن کے شہر میں موجود اماراتی فوجیوں کے اڈے میں خصوصی ٹریننگ دی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کاصنعاکی بغاوت میں اہم کردار ہونا تھا اور ان کا تعلق علی عبد اللہ صالح کی پارٹی سے نہیں تھا۔ ان لوگوں کو سابق اسرائیلی فوجی آفیسرز نے بھی ٹریننگ دی۔۔ صنعا اور اس کے اطراف میں 6 ہزار لوگوں کو الگ سے ٹریننگ دینے کے لیے بجٹ منظور کیا گیا۔ محمد بن زاید کے کنٹرول روم نے فروری سے لے کر جون 2018تک، علی عبد اللہ صالح کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے، تقریبا 290ملین ڈالرز عدن سے صنعا منتقل کئے۔یہ اس100 ملین ڈالرز کے علاوہ ہے جو اگست اور اکتوبر کے مہینے میں علی عبد اللہ صالح کو دئیے گئے۔۔

طے پایا کہ 24اگست 2017کوبغاوت کرنا ہے۔ لیکن اماراتی اور اسرائیلی آفیسرز نے بعد میں کاروائی کو آگے کی کسی تاریخ تک موخر کر دیا۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ عبد اللہ صالح کے لوگ ابھی مکمل تیار نہیں ہوئے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ انصار اللہ کے حوثیوں تک اس پلاننگ کی خبر پہنچ چکی تھی، لہذا انہوں نے دار الحکومت اور اس کے اطراف میں اپنا قبضہ مضبوط کر لیا تھا۔ جو آفیسرز اس پلاننگ میں شامل تھے اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ دار الحکومت صنعا اور اطراف میں 8 ہزار لوگوں کو مسلح تربیت دی جائے ۔ اس مقصد کے لیے مقامی ٹرینرز کے علاوہ، داعش سے بھاگے ان16 افراد سے بھی مدد لینے کا فیصلہ ہوا جو اس وقت عدن میں موجود تھے جو جنگی امور اور امداد میں ماہر تھے۔ان سب کے علاوہ چار سابق اسرائیلی آفیسرز بھی تھے جو اماراتیوں کی مدد سے علاقے میں پہنچے تھے۔

دار الحکومت صنعا کے49 خفیہ مقامات پر اسلحہ چھپایا گیا تاکہ کاروائی کے وقت افراد کے درمیان ضرورت کے تحت تقسیم کیا جا سکے۔ کس وقت کاروائی کا آغاز ہو نا ہے وہ سب سے چھپا کررکھا گیا تاکہ انصار اللہ کو سرپرائز دیا جا سکے تا کہ مقابلے میں وہ لوگ فوری طور پر کوئی دفاعی قدم ن اٹھا سکیں۔ یہ پلاننگ انتہائی احتیاط کے ساتھ ، بہت زیادہ سوچ وبچار سے کی گئی ۔ فنی اور دفاعی حوالے سے یہ ایک مکمل منصوبہ تھا۔

یہی وجہ تھی کہ علی عبد اللہ صالح 3 دسمبر تک انصار اللہ کے سامنے لچک دکھانے کو تیار نہ تھے، چونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس اسلحے کی اور لڑنے والوں کی کمی نہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ 6گھنٹے میں دار الحکومت پر قبضہ کرلیں گے۔ جب انصار اللہ کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ اب بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں رہا، تو انہوں نے مذاکرات کرنے والوں سے کہا کہ وہ علی عبد اللہ صالح کو ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیںلیکن شرط یہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف بغاوت سے باز آئیں۔

اگر اس بات کو نہیں مانتے تو ہم صنعا اور اس کے اطراف کو صرف 3گھنٹوں میں اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اور پھر 2 اور 3 دسمبر کو یہی کچھ ہوا۔ جب صنعا میں حالات علی عبد اللہ صالح کے بالکل خلاف ہوگئے ، وہ بھاگنے پر مجبور ہوا۔ اس حوالے سے اپنے بیٹے کے ذریعے متحدہ عرب امارات کے ساتھ پہلے سے ہم آہنگی کی گئی۔ جب علی عبد اللہ صالح کا قافلہ صنعا سے نکلا تو امارات کے جنگی جہاز ان کی فضائی نگرانی اور حفاظت پر مامور تھے۔

اس قافلے میں صالح کی بکتر بند گاڑی کے علاوہ تین بکتر بند گاڑیاں آگے اور تین پیچھے حفاظت پر مامور تھیں۔ ان کے علاوہ جدید اسلحے سے لیس مختلف ٹیوٹا پک اپس بھی ساتھ ساتھ حفاظت کی خاطر چل رہی تھیں۔سعودی اتحاد نے صنعا سے لے کر سنحان تک صالح کے راستے میں آنے والے انصار اللہ کے مختلف چیک پوسٹس پر فضائی حملے کئے۔صالح سنحان جا رہا تھا۔ سنحان پہنچنے سے پہلے ، مآرب کے راستے میں انصار اللہ اور قبائل کے مجاہدین کمین لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے قافلے پر ٹینک شکن میزائلوں کی بارش کر دی۔ اس کے علاوہ بھاری ہتھیاروں سے انتہائی قریب سے حملہ کیا گیا۔

ان کی کوشش تھی کہ علی عبد اللہ صالح کو زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ سعودی اتحاد کے طیاروں نے بھی اسی جگہ پر بمباری شروع کر دی تاکہ انصار اللہ کے مجاہدین کو عبد اللہ صالح کو گرفتار کرنے سے روکا جا سکے۔ چونکہ انہیں ڈر تھا اگر صالح گرفتار ہوا تو امارات، سعودی عرب اور اسرائیل کی اس سازش سے پردہ اٹھ جائے گا۔در حقیقت عبد اللہ صالح کو مارنے کا فیصلہ سعودی اتحاد کی طرف سے ہوا تاکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے براہ راست عسکری تعاون پر پردہ پڑا رہے۔


تحریر: محمد صادق الحسینی
مترجم: عباس حسینی

وحدت نیوز(قم المقدسہ)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و سیکرٹری امور خارجہ ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی  نے حوزہ علمیہ قم کے مدرسہ رسول اعظم میں پاکستان طلاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ پاکستان کی امید ہیں اور ملت پاکستان کی امیدیں اس وقت علماء سے وابستہ ہیں ۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو انقلاب اسلامی و رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے ساتھ متمسک رکھیں اور نظام ولایت فقیہ کو نہ فقط سمجھیں بلکہ اس عالمی نہزت کا حصہ بنیں۔ انہوں نے یمن کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر سعودیہ نے فضائی حملے نہ روکے تو آئندہ چند دنوں میں حوثی انقلابی سعودیہ کے اندر تک پیش قدمی کر سکتے ہیں اور انصاراللہ اس خطے کے اندر حزب اللہ کے ہم پلہ طاقت ہے۔ علاوہ ازیں گلگت بلتستان الیکشن کے حوالے سے طلاب کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خطہ شیعان حیدر کرار کا خطہ ہے اور وہاں پر حکومت کا حق بھی شیعوں کو ہے ہم وہاں کی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں ان کے آئینی حقوق دلانے کے لئے ہر ممکن حد تک جائیں گے۔ اور ہم پر امید ہیں کہ آئندہ الیکشن کے اندر موالیان حیدر کرار کی حکومت بنے گی۔ اس نشست میں مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے قائمہ مسئول اور حجتہ الاسلام آقائے شیخ گلزار جعفری و دیگر اساتذہ کرام نے بھی شرکت کی۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویڑن کے سیکریٹری جنرل آغا سید علی رضوی نے ڈویژنل سیکرٹریٹ میں یمن کی تشویشناک صورتحال پر ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی عرب کی جانب سے یمن پر فضائی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور چونکہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ مل کر خطے میں اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کررہا اس لیے پاکستان کو ہرگز یمن کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ سعودی عرب نے ماضی میں بھی اس روش پر عمل کی ہے اور مصری حکومت کے خاتمہ میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا، سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جس نے امریکہ کے ساتھ مل کر شام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی، پاکستان، عراق، افغانستان، یمن سمیت دیگراسلامی ممالک کے نامساعد حالات کے ذمہ دار سعودی عرب ہے انہوں نے وطن عزیز پاکستان کو فرقہ واریت اور دہشتگردی میں دھکیل کے رکھ دیا ہے۔اس موقع پر ایم ڈبلیوایم گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ مظاہر علی موسوی، سیکریٹری فلاح وبہبود علامہ احمد علی نوری ، فدا حسین اور دیگر بھی موجود تھے۔

 

آغا علی رضوی نے مزید کہا کہ دفتر خارجہ کی ترجمان کے مطابق سعودی عرب نے یمن میں تحریک انصاراللہ کے خلاف لڑائی میں اتحاد کا حصہ بننے کے لئے پاکستان سے رابطہ کیا ہے، اس سلسلے میں ہم پاکستانی حکمرانوں کو باور کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو فرقہ واریت کی جنگوں میں ملوث نہیں ہونی چاہئے، اس سے نہ فقط پاکستان کا امیج خراب ہوگا، بلکہ داخلی طور پر دہشتگردی کا شکار ملک کو مزید مشکلات آئے گی۔پاکستان مقروض اور مجبور ملک ہے ،ہماری خارجہ پالیسی ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتی، پاکستانی فوج صرف پاکستان کے دفاع کے لئے ہے، اگر پاکستانی فوج یمن میں گراؤنڈ آپریشنز میں حصہ لیتا ہے تو پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ تناو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ پاک فوج پاکستان کا ایک مضبوط ادارہ ہے ، یہ اسلام کا لشکر ہے اور اس وقت پا کستانی فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ جو کی ملکی سا لمیت اوراستحکام کی حفاظت کی جنگ ہے۔ لہٰذا نواز شریف اپنے ذاتی احسانا ت کا بدلہ چکانے کی خاطر ملکی سلامتی کو داو پر نہ لگائے۔انہوں نے حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا رویہ بدلیں ورنہ ہم اپنی قیاد ت کے حکم کے منتظر ہیں اور اگر ہماری قیادت اجازت دے تو ہم ملک گیر احتجاج کریں گے اور ان حکمرانوں کی نیندیں حرام کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یمن کے اندر سعودی عرب کی جارحیت انسانی حقوق ،عالمی قوانین اور پڑوسی ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی ہے،سعودی عرب اسرائیل کے ایماء پر پاکستان کو اس جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے،پاکستان کے غیرت مند اور شجاع افواج رینٹ این آرمی نہیں جو کوئی بھی پیسوں کے بل بوتے پر خرید سکے۔

 

آغاعلی رضوی نے مشرق وسطیٰ کے ممالک خصوصاً خلیجی تعاون کونسل کو خبردار کیا کہ عمان کی پیروی کرتے ہوئے سعودی عرب کے اس ظالمانہ کاروائی میں شریک نہ رہے اورانکے ساتھ عسکری و سیاسی تعاون بند کرے۔کیونکہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ مل کر خطے میں اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ یمن کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات سے شدید خوفزدہ ہے۔ یمن میں امریکی سفارتخانے کا بند کیا جانا اور اس سے اہم یہ کہ وہاں موجود تمام اسناد و مدارک کو جلا دیا جانا اور حتی امریکیوں کے زیر استعمال اسلحہ کو بھی نابود کر دیا جانا، امریکہ کے شدید خوف کی نشاندہی کرتا ہے۔ صنعا میں امریکہ کے اہم انٹیلی جنس مراکز کی بندش ایک طرح سے یمن کے سیاسی حالات پر امریکی گرفت کے کمزور ہونے اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے سلسلے میں امریکہ کی مایوسی کو ثابت کرتی ہے۔لہذا امریکہ یمن میں بلاواسطہ فوجی مداخلت سے اظہار عجز کرنے کے بعد یمنی عوام کے خلاف بالواسطہ سکیورٹی اور فوجی مداخلت پر مبنی اقدامات انجام دے رہاہے۔سعودی سلفی افواج کا یمن پر حملہ دراصل یمنی عوام کے ارادے اور آزادی پر حملہ ہے ،جب کہ یمنی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں اور خالصتا عوامی تحریک انصاراللہ اور یمنی افواج کا سعودی و اسرائیلی پٹھو ہادی عبد الرب منصور کے خلاف حریت پسند تحریک چلانا عوامی حق خود ارادیت ہے اور اس کو دبانے کے لئے سعودی عرب نے یمنی عوام کو ٹارگٹ کیا ہے اور کل رات یمنی علاقوں میں جو شب خون مارا گیا اس سے سعودی سفاکیت کا واضح چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔

 

انہوں نے عالمی اداروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کو چاہیے کہ وہ سعودی اور عرب ممالک کی اس بے جا مداخلت اور شب خون مارنے کے خلاف کاروائی کریں کیونکہ یہ یمن کے تشخص پر حملہ ہے، ہم اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب کی اس بڑھتی ہوئی جارحیت کو لگام دے اور یمنی عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا پورا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا بہتر فیصلہ کر سکیں۔انہوں کا مزید کہا کہ حکومت پاکستان ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو برولے کار لائیں اور دوسروں کی جنگ میں شرکت ہو کر ملکی سلامتی اور داخلی وحدت کو درو پر نہ لگائیں۔

وحدت نیوز (مشہد مقدس) مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کے سیکریٹری جنرل  حجۃ الاسلام عقیل حسین خان نے کہا ہے کہ مسلمانوں کی تمام بدبختیوں کی وجہ سعودی حکمران ہیں،اس وقت  دنیائے اسلام میں   تفرقہ اور  فساد کی جڑ سعودی عرب کے فاسق و فاجر  اور امریکہ  اسرائیل کے پٹھو اور اسرائیل کی حمایت میں مسلمانوں سے برسرپیکار ہیں ۔کیونکہ انہوں نے آج تک مسلمانوں کو تکفیریت اور انتشار کے علاوہ کچھ نہیں دیا   ۔جبکہ امریکہ اسرائیل کی خوشنودی کے لئے شام عراق لبنان فلسطین یمن کے خلاف علی الاعلان محاذ کھول رکھے ہیں لیکن انہوں نے بیت المقدس کی آزادی کے لئے آج تک   کچھ نہیں کیا بلکہ اسکے برعکس اسرائیل سے ساز باز کے زریعے حزب اللہ ،شام ،لبنان ،حماس کو ہمیشہ کمزور کرنےکی کوشش کی ہے۔

 

انہوں  نے کہا کہ اب  دینائے اسلام کے سامنے سعودی حکمرانوں کا ابلیسی چہرہ واضح ہو چکا ہے کیونکہ کل انہوں نے مصر میں اخوان المسلمین کی عوامی حکومت کو گرانے کے لئے اربوں ڈالر ز خرچ کر کے ایک ڈکٹیٹر کو مسلط کیا،جبکہ عراق شام لبنان   کی عوامی حکومتوں کو گرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اب یمن کے مظلوم عوام پر بارود برسایا جا رہا ہے۔اور اسکا انجام بھی انشاءاللہ بہت جلد سعودی بادشاہت کا خاتمہ ہے کیونکہ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

 

علامہ عقیل حسین خان نے پاکستانی حکمرانوں کو بھی متنبہ  کیا کہ کسی بھی صورت میں یمن کی  جنگ کا حصہ نہ بنیں کیونکہ یہ جنگ سعودیہ نے شروع کی ہے  اور خود وہی اسکا نتیجہ  بھی بھگتے گا،جبکہ افغانستان میں امریکی جنگ  کا ہم حصہ بنے جسکا خمیازہ ابھی تک  پاکستانی عوام بھگت رہی  ۔اور اب کسی صورت میں پاکستان کے غیور عوام پاکستانی حکومت کو یہ غلطی دہرانے کی ہرگز اجازت نہیں دینگے۔

وحدت نیوز (صنعاء) تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک حوثی نے کہا ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی جارحیت، امریکہ اور صیہونی مفادات کی تکمیل کے لیے ہے، ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق عبدالملک الحوثی نے جمعرات کی رات ایک بیان میں یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور سعودی عرب کو ظالم ہمسایہ قرار دیا- تحریک انصار اللہ کے سربراہ عبدالملک الحوثی نے کہا کہ یمن پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس سے ان کی جارحیت اور وحشتی پن ظاہر ہوتا ہے- انہوں نے کہا کہ یمن پر سعودی عرب کے حملے صیہونی مفادات کی تکمیل کے لیے ہیں کیونکہ سب سے پہلے صیہونی حکومت نے انقلاب یمن پر تشویش کا اظہار کیا تھا- انہوں نے کہا کہ یمن میں اب سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے مشترکہ مفادات وجود میں آ چکے ہیں- انہوں نے کہا کہ یمن پر حملہ کرنے والے عرب ممالک مغرب کی کٹھ پتلیاں اور پٹھو حکومتیں ہیں جو یمن کی تباہی اور اسکی تقسیم اور یمن کی قوم میں تفرقہ پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں- عبدالملک حوثی نے کہا کہ ان ملکوں نے یمن میں اپنے ایجنٹوں کو برسر اقتدار لانے کےلئے اربوں ڈالرخرچ کئے ہیں لیکن جب انہیں مالی، سیاسی اور میڈیا کی سطح پر ناکامی ہوئی تو انہوں نے اپنے مکروہ چہرے سے نقاب ہٹا کر یمن پر جارحیت شروع کر دی- انہوں نے کہا کہ جارح ممالک یمن پر حملے کر کے اس کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں-

Page 1 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree