وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور ممتاز تجزیہ کارسید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ کا بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ امریکہ نے بغداد میں دو جرائم کئے ہیں، ایک قاسم سلیمانی کی گاڑی پر حملہ کیا، دوسرا قاسم سلیمانی کو شہید کیا، عین الاسد پر حملہ گاڑی کا بدلہ تھا، قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لینا ابھی باقی ہے۔ فکری غلامی میں جکڑے سعودی حکمران امریکی مفادات سے ہٹ کر سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ناصر شیرازی نے کہاکہ جو میں نے ایران میں میں دیکھا ہے، وہ ایک جدید انقلاب دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک بار پھر انقلاب آگیا ہو، یہ دنیا کا سب سے بڑا جنازہ تھا، رہبر معظم نے فرمایا کہ پہلے میں شہید کے کاموں کی تائید کرتا تھا، شہادت کے بعد بھی ان کے کام کی تحسین کرتا ہوں۔ وہ شہید ہوکر بھی بڑا کام کر گئے۔ وہ زندہ رہ کر تو بہت کچھ کر رہے تھے، مگر شہید ہو کر بھی وہ بہت بڑا کام کر گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ مجھے ایران میں ایک بڑی تبدیلی نظر آئی، ایران کے عوام جو معاشی پالیسیوں سے پریشان تھے، وہ سب اپنی حکومت کی پشت پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف ایران میں نہیں بلکہ خطے میں دیکھی جا رہی ہے۔ عراق کی پارلیمنٹ اور عراقی آئمہ و علمائے کرام نے عراق میں امریکہ کے وجود کو مزید تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حاج قاسم سلیمانی کے جنازے میں اڑھائی کروڑ ایرانیوں نے شرکت کرکے ثابت کر دیا ہے کہ ایران اب ایک طرز پر ہی سوچ رہا ہے۔ جنازے میں ایرانی قوم کی یہ شرکت ایک قسم کا امریکہ مخالف ریفرنڈم تھا۔

ان کاکہنا تھاکہ پاکستان ان ممالک میں سے ہے، جس کے عوام نے بھرپور انداز میں امریکی اقدام کی مذمت کی ہے اور مذمت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ تمام مکاتب فکر امریکہ کیخلاف ایک آواز ہیں۔ پاکستان کے شیعہ اور سنی ایران کیساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان کے عوام خطے میں تناو کو پاکستان کے حق میں بہتر نہیں سمجھتے، کیونکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایران میں عدم استحکام پاکستان کیلئے درست نہیں اور پاکستان میں عدم استحکام ایران کیلئے ٹھیک نہیں۔ پاکستان کے عوام امریکہ دشمن اور مذہبی رجحان رکھنے والے ہیں۔ اب اکثریت کا جھکاو ایران کی طرف ہوچکا ہے۔ مردہ باد امریکہ ریلیاں نکلیں، یہ پاکستان میں بیداری کی ایک لہر ہے۔ اہلسنت جماعتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر مذمت کی۔ ملی یکجہتی کونسل کے وفد نے ایران کا دورہ کیا۔ ایرانی قوم کو پاکستان کے عوام کے جذبات پہنچائے۔

ناصرشیرازی نے کہاکہ پاکستانی حکمران بالخصوص وزارت خارجہ امریکہ کی بولی بول رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے حاج سلیمانی پر حملے کی جس طرح مذمت کی جانی چاہیئے تھی، وہ نہیں کی گئی، حتیٰ کہ حاج قاسم سلیمانی کو شہید تک کہتے ہوئے بھی ہمارے حکمران ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، اب عوامی دباو بہت زیادہ ہے۔ حکمرانوں کیلئے امریکہ کی حمایت کرنا مشکل ہوگا۔ اگر ایران امریکہ جنگ ہوتی ہے تو فوری طور پر اثر پٹرول کی قیمتوں پر پڑے گا، جس سے پاکستان میں ایک اور بحران جنم لے لے گا اور پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی بحران برداشت کرسکے۔ اس لئے ایران کا استحکام پاکستان کا استحکام ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر بھی دباو ہے، اس دباو کا اگلہ مرحلہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہوگا۔

وحدت نیوز(انٹرویو) ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ یمن جنگ، اس کے نتائج اور اس جنگ کے تناظر میں ایران سعودی عرب اور ایران امریکہ کشیدگی کے موضوع پہ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے سید ناصر عباس شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا، اس انٹرویو کا دوسرا اور آخری حصہ پیش ہے۔ (ادارہ)

سوال: کیا امریکہ ایران پہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران نے امریکہ اور اس کے مغربی بلاک کو بڑا موثر جواب دیا ہے، امریکہ کے کہنے پہ جب برطانیہ نے ایران کے ایک بڑے تیل بردار جہاز کو جبرالڈ میں روک کر عملے سمیت اسے اپنی تحویل میں لیا تو ایران نے کم ازکم چار جہاز جس میں ایک بڑا برطانوی جہاز شامل ہے کو خلیج کے اندر روک کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس وقت تک ایک جہاز بھی واپس نہیں کیا کہ جب تک ایران کا بحری جہاز اپنا پورا سفر مکمل کرکے واپس نہیں پہنچ گیا۔ تو ایران نے ملٹری چیلنج دیا ہے۔ آج کے دور کے اندر برطانوی جہازوں کو پکڑنا، یورپی ممالک کے جہازوں کو روکنا، امریکی جہاز کو گرانا بڑے چیلنج ہیں اور ایران نے یہ کر دیکھائے ہیں۔ امریکہ خلیج میں جو عالمی فوج تعینات کرنا چاہتا تھا تو وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف ایران کا اثرورسوخ خطے میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی جنگ ہوئی تواس کا میدان بھی ایران کا منتخب کردہ ہو گا۔

 امریکہ خطے میں اجنبی ہے جبکہ اسی خطے میں ایران نے ہر حوالے سے اپنی برتری ثابت کی ہے۔ وہ ممالک جہاں امریکی بیڑے موجود ہیں، وہاں کی حکومتوں کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔ جن جگہوں پہ امریکی اڈے موجودہیں وہ ایرانی ہتھیاروں کی پہنچ اور دسترس میں ہیں۔ خواہ وہ پانچواں بحری بیڑا ہو، قطر کے اندر ان کے اڈے ہوں۔ سعودی عرب، عرب امارات کے اندر امریکی اڈے ہوں تو یہ تمام ایران کی پہنچ سے باہر نہیں ہیں بلکہ ایران کے میزائلز کی رینج میں اور نشانے پہ ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ باتوں میں تو کہیں آگے تک جا سکتا ہے مگر جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایرانی سفارتکاری کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے یورپ کے اندر بھی امریکہ کو بدنام کیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یورپ اپنے اندر توانائی نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کے مقابلے میں ایران کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکا۔

سوال: امریکی پابندیوں کا ہتھیار اب کی بار کتنا کارگر ثابت ہوگا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: امریکی پابندیوں کے باوجود ایران نے سیاسی اور اقتصادی یہ فائدہ حاصل کیا ہے کہ تقریباً ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے ایران اور چین کے درمیان معاہدے طے پائے ہیں۔ یادر ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا معاہدہ ٹوٹل چھپن ارب ڈالر کا ہے جبکہ چین اور ایران کے درمیان ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے ہیں۔ اسی طرح ترکی نے بھی انکار کیا ہے کہ ہم ایرانی تیل کی خریداری بند نہیں کریں گے۔ اسی طرح روس نے انکار کیا ہے یعنی امریکہ جو پابندیوں کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر ایران کے خلاف تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہا تھا۔ ایران نے عملی طور پر اس ہتھیار کو بھی بیکار کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بلآخر پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ امریکہ اس خطے کے اندر رہ کر ایران کے ساتھ جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسے عراق سے بھی ردعمل مل سکتا ہے، شام سے مل سکتا ہے۔ لبنان، یمن، ایران سے جواب مل سکتا ہے۔ اس کی سمندری، زمینی فوجیں سب غیر محفوظ ہیں، وہ کوئی بڑا آپریشن لانچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

خطے میں جو امریکی اتحادی ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ وہ کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی جنگ کی صورت میں یورپ کے اوپر جو اثر پڑے گا، اس کے نتیجے میں اقتصادی بحران کا بھی خدشہ ہے، یورپ اس کے لیے تیار نہیں ہے لہذا ایک بڑی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خطے میں سیاسی جنگ جاری رہے گی، جیسی کہ ایک جنگ ابھی عراق میں جاری ہے کہ جس میں ایران ٹارگٹ ہے۔ عراق میں حکومت کے مخالف جو مظاہرے جاری ہیں، ان کے پیچھے بھی امریکہ ہے، اس میں بھی امریکہ کو شکست ہو گی کیونکہ زمینی صورتحال میں ایرانیوں کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ ایرانی اتحاد خطے کے اندر روز بروز مضبوط اور پاور فل ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر زمینی حقائق آپ کے موافق نہ ہوں، تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو مخالف فریق کی قوت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو بھی بالآخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ خطے میںفیصلہ سازقوت ایران ہے۔ نتیجے میں جو پرو ایران عناصر مزید مضبوط ہوں گے اور پرو امریکہ عناصر رفتہ رفتہ کمزوری کا شکار ہوتے جائیں گے۔

مستقبل قریب میں ایران اور امریکہ کے مابین براہ راست مذاکرات کا امکان بھی دیکھائی نہیں دیتا اور ایران امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ بھی طے پاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پچھلے معاہدے کے اندر جو ایران کی کمزوری تھی اور امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کی صورت میں انہیں اس کمزوری پہ قابو پانے کا بہانہ مل گیا۔ اس وقت ایران اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو بھی بڑھا رہا ہے اور نیوکلیئر استعداد کو بھی بڑھا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں قوتیں کسی ملک کے پاس ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس قوت کے اظہار کیلئے ان کے پاس سیاسی قوت اور عوامی تائید بھی موجود ہو تو پھر کوئی ملک ان کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ لہذا ایران نے پرامن مقاصد کیلئے اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو بھی بڑھانا شروع کیا ہوا ہے اور میزائل ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا ہے۔ چنانچہ خطے میں امریکہ کا مستقبل زوال پذیر ہے۔ یمن نے امریکہ اور پرو امریکہ عناصر کے زوال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف انقلابی رجحان اور مزاحمت کو تقویت ملی ہے۔ یہ مزاحمت کی فتح ہے کہ اس نے اسرائیل کو اس طریقے سے ہٹ کیا ہے کہ اب اسرائیل سکڑنا شروع ہوگیا ہے۔ بالآخر اسرائیل بھی اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا، جو کہ ایک اور بڑی امریکہ کی شکست ہو گی۔ ڈیل آف دی سنچری ناکام ہو چکی ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت کے نتیجے میں اسرائیل کا پھیلاؤ رک گیا ہے۔ اس میں ایران کا کردار ہے، ایران کی کامیابی ہے اور اسی طرح خطے میں اب اسرائیلی اہداف اور آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ گولان کے اندر بھی اسرائیل کے خلاف شام کی طرف سے مزاحمت شروع ہو چکی ہے۔

سوال: امریکہ ہمیشہ سے ناقابل اعتبار ہے، مسئلہ کشمیر پہ ثالثی کا کردار کیا ایران کو سونپا جا سکتا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران اچھا ثالث ہے یا امریکہ۔ دونوں کے موثر ہونے کی قوت کو شمار کرتے ہیں۔ امریکہ ایک بڑا ملک جو کہ سپرپاور ہونے کا دعویدار ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ میں بہت موثر ہے۔ امریکہ ایک بڑی ملٹری پاور بھی ہے۔ پاکستان کے جتنے تعلقات امریکہ کے ساتھ ہیں، اس سے کہیں زیادہ امریکہ کے تعلقات انڈیا کے ساتھ ہیں۔ بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ملک ہے اور کئی گنا بڑی اقتصادی قوت ہے۔ امریکہ اور بھارت کے دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منظر نامے میں بھی امریکہ بھارت کے ساتھ ہے، اقتصادی، سیاسی تعلقات کے لحاظ سے بھی امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے، جیسا کہ اسرائیل کا معاملہ ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں کے مفادات ،معاہدات اور تعلقات اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ جس کے بعد امریکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات کرا تو سکتا ہے مگر اس مسئلہ کا حل نہیں کرا سکتا۔ جب تک کوئی ملک جارح کو جارح کہہ کر اسے پیچھے ہٹنے پہ آمادہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس وقت تک وہ ایک اچھا ثالث نہیں بن سکتا۔

دوسری جانب ایران ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے اب تک چار سطحوں پہ پاکستان کے موقف سے ہم آہنگ ردعمل دیا ہے۔ اب تک امریکہ نے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو کے خاتمے کیلئے کوئی باقاعدہ مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ ہر مرتبہ یہ کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک کہیں گے تو میں ثالثی کیلئے تیار ہوں، مطلب نہ بھارت کہے گا اور نہ ثالثی ہو گی۔ ایران سٹینڈ لینے والا ملک ہے۔ ایران کی جو ٹاپ لیڈر شپ ہے، نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس کا نوٹس لیا ہے بلکہ اس پہ بات کی ہے۔ اسے عالمی مظلوم خطوں میں شمار کیا ہے۔ پوری دنیا کو کشمیر کیلئے صدا بلند کرنے کا درس دیا ہے۔ اسی طرح ایران کی وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ کے کم ازکم دو سیشن ہو چکے ہیں، جس میں بھارت کے خلاف مشترکہ قرارداد پاس ہوئی ہے۔ اسی طرح ایران میں جو آئمہ جمعہ ہیں، جو مراجع عظام ہیں، انہوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کی شدید مذمت کی ہے اور مقبوضہ کشمیر کو عالم اسلام کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں ایران یہ پوزیشن رکھتا ہے کہ اس سے ثالثی کرائی جائے۔ مسئلہ کشمیر پہ ثالثی وہی کرا سکتا ہے کہ جو جارح کو جارح کہہ سکے۔ پاکستان کو نام نہیں بلکہ موقف سوٹ کرتا ہے۔

امریکہ نہ ظالم کو ظالم کہہ سکتا ہے اور نہ مظلوم کی حمایت کر سکتا ہے، اس کے مقابلے میں ایران میں یہ چیز تو ہے۔ اب ایسا نہیں کہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں بلکہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں مگر ان مراسم کے باوجود ایران نے اپنے اصولی موقف کو غالب رکھا ہے۔ اس بات کی پروا نہیں کی ہے کہ اس اصولی موقف کے نتیجے میں اس کے معاشی یا اقتصادی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن پاکستان چونکہ امریکہ کے زیر اثر سمجھا جاتا ہے تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کے بجائے ایران کو ثالثی کا کردار دے۔ ایران کشمیر کے معاملے پہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو کم تو کر سکتا ہے مگر ثالثی کا کردار اس وقت ادا ہو سکتا ہے کہ جب دونوں ممالک اسے یہ اختیار و مقام دیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر پہ پاکستان کیلئے امریکہ سے زیادہ ایران سودمند ہے۔ جب تک اس خطے میں اس مسئلہ کو گھمیر نہیں سمجھا جائے گا، اس وقت تک اس مسئلہ کا عملی طور پر حل شائد ممکن نہ ہو۔ مسئلہ کو گھمبیر بنانے سے مراد یہ ہے کہ اس مسئلہ کو اتنا فلیش پوائنٹ بنایا جائے کہ عالمی برادری بھارت کو مجبور کرے کہ آو مذاکرات کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرو اورکشمیریوں کو بھی ایک فریق کے طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے حل کیا جائے۔

 کشمیریوں نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ وہ کھڑے ہو گئے ہیں۔ خوف بھارت کے اوپر ہے۔ بھارت کی دس لاکھ فوج خوفزدہ ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہ کرفیو ختم نہیں کرر ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہاں حالات کو غیر معمولی انداز میں قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح رہی تو بھارت نے جو آرڈیننس پاس کیا ہے ، یہ آرڈیننس اسی طرح اپنی مدت پہ ختم ہو جائے گا اور اسے باقاعدہ قانونی شکل نہیں دے سکیں گے۔ کشمیری اس آرڈیننس کے خلاف کھڑے ہیں۔ پاکستان اس قضیئے کا وکیل ہے، اگر پاکستان نے اچھی وکالت کی تو بھارت پہ اتنا دباؤ بہرحال آئے گا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پہ کوئی پیش رفت کر سکے۔ کشمیر ی اگر اپنے اصولی موقف پہ اسی طرح ڈٹے رہے اور انہوں نے اگر اپنی مزاحمت کو عالمی مزاحمت کے ساتھ اٹیچ کرلیا تو یقینا ان پہ بھی کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے، مگر اس کیلئے انہیں قربانی کے ایک بڑے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہو گی۔ میرے خیال میں کرفیو کے خاتمے کے بعد بھارتی فوج کو کشمیریوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور عالمی سطح پہ فضا ایسی بن جائے گی کہ بھارت کو بالآخر مذاکرات کی جانب آنا پڑے گا۔

سوال: مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پہ تحفظات ہیں یا نہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد مارچ پہ تحفظا ت ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اسے خود صاف ہونا چاہیئے اور اپنے ہی دعویٰ کے برعکس اس نے کوئی کام نہ کیا ہو۔ مولانا فضل الرحمان اس جگہ پہ مظاہرے اور لاک ڈاؤن کو شام غریباں قرار دیتے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ بڑا غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے کیونکہ ایسی چیزیں پارلیمنٹ میں ڈسکس ہوتی ہیں، مذاکرات سے ایسے معاملات حل ہوتے ہیں اور یہ خانہ بدوشوں والا سلسلہ نہیں ہے کہ جو بھی اٹھے اور آکر اپنی جھونپڑی لگا لے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمان کو آج اس جگہ آنا پڑ رہا ہے کہ جب کبھی اسلام آباد لاک ڈاؤن ہوا تھا تو کئی اپوزیشن جماعتیں یک جان تھیں اور حکومت کے خلاف اکھٹی تھیں مگر آج جب مولانا اسلام آباد کا رخ کرنے جا رہے ہیں تو اس وقت لیڈنگ اپوزیشن پارٹیوں جن میں پی پی پی ہے، پی ایم ایل نواز ہے، انہوں نے بھی مولانا کا ساتھ دینے بالخصوص مذہبی کارڈ کی بنیاد پہ ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔ مولانا مسائل پیدا کر سکتے ہیں مگر ان کا ایجنڈا اس وقت عوامی نکتہ سے بالکل کلیئر نہیں ہے۔

مہنگائی و دیگر مسائل کے باوجود عوام موجودہ حکومت سے نفرت کی فضا میں نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کبھی بھی عوامی مسائل پہ سیاست نہیں کی ہے بلکہ مہنگائی و دیگر عوامی مسائل جب جب ہوئے ہیں تو مولانا فضل الرحمان خود اس میں فریق رہے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ پہلی مرتبہ ایک حکومت مولانا کے بغیر چل رہی ہے، مولانا کا حصہ نہ وفاق میں ہے اور نہ خیبر پختونخوا میں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کیلئے قابل برداشت نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کیلئے وہ متحرک ہیں، انہیں خبر ہے کہ اگر مزید کچھ عرصہ ایسا گزرا کہ جس میں وہ پاور کوریڈور میں نہ ہوئے تو وہ مزید اپنے سیاسی وجود کو بچا نہیں سکیں گے۔ یہ خوف ہے کہ جس کی وجہ سے وہ احتجاج کرر ہے ہیں مگر نہ ہی انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور نہ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ یہ تنہائی کسی طرح ان کیلئے مفید نہیں ہے اور ان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ اس ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں جو کہ معاشی لحاظ سے بھی سودمند نہیں اور عوامی مسائل میں بھی مزید اضافے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

سوال: حالیہ اربعین امام حسین (ع) پہ عراقی حکومت نے پاکستانی زائرین کیلئے ویزوں کا اجرا بند رکھا، اس پالیسی پہ کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: عراقی حکومت کی پاکستانی زائرین کیلئے ویزہ پالیسی قابل مذمت ہے۔ بدقسمتی سے دو پرانے حلیف پاکستان اور بنگلہ دیش صرف ان دو ممالک کیلئے یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ ان دو ممالک سے جو مسائل ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ امن و امان کا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔ عسکریت پسند زائرین کے کور میں عراق گئے ہیں، بعض لوگ جاب وغیر ہ کیلئے بھی گئے ہیں کہ یہاں سے گئے ہیں اور وہاں جاکر جاب کیلئے رہ گئے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ ہیں، ان سب کو حقیقت مان بھی لیں تو بھی اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے پالیسی ان چیزوں سے مبرا ہونی چاہیئے۔ ان کیلئے بعض دیگر اقدامات کیئے جا سکتے ہیں تاکہ دشمن عناصر اس سے استفادہ نہ کر سکیں۔ پاکستان دنیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا ملک ہے کہ جہاں سے زائرین کی بہت بڑی تعداد زیارات کیلئے جاتی ہے۔ زائرین کا حق ہے کہ انہیں بروقت ویزہ ملے اور ان کے زیارات کے حق میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ عراق کی موجودہ حکومت کی جو منیجمنٹ ہے، اس کی صلاحیت پہ بھی بہت سارے سوالات ہیں۔ کرپشن، بیروزگاری ہے وہاں۔ یہ عراقی حکومت کی انتظامی نااہلی ہے کہ زائرین سید الشہدا کو ویزہ پابندیوں کا سامنا ہے۔ عراقی حکومت کو منفی چیزوں کی روک تھام کیلئے ضرور حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے مگر ویزوں کے جاری نہ کرنے کی پالیسی ناقابل قبول ہے۔ اس پالیسی کی ہم سب مذمت کرتے ہیں۔ اس بات کی تاکید و مطالبہ کرتے ہیں کہ محرم اور اربعین کے موقع پہ زائرین امام حسین (ع) کو فوری اور آسان ویزوں کے اجرا ء کا عمل ممکن بنایا جائے۔

وحدت نیوز (انٹرویو) سید ناصر عباس شیرازی ایڈوکیٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے ناصرعباس شیرازینے مشرق وسطیٰ اور کشمیر کی تازہ صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

سوال : کیا کشمیر ایشو پر حکومتی اقدامات کافی ہیں؟، دوسرا کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: کشمیر کے مسئلے پر حکومتی اقدامات ناکافی ہیں، میری نگاہ میں بہت زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حکومت میں دو الگ طرح کے مکتب فکر ہیں، ایک جس کو شاہ محمود قریشی صاحب لیڈ کرتے ہیں اور اس میں انکا انداز بہت زیادہ امیدوار نہیں ہوتا بلکہ وہ مشکلات کو زیادہ بتاتے ہیں، اپنی سیاسی اور اقتصادی مشکلات کو بیان کرتے ہوئے وہ انڈیا کے سحر کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، دوسرا مکتبہ فکر وہ ہے جسے خود عمران خان لیڈ کرتے نظر آتے ہیں، جس میں کہتے نظر آتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، آپ نے دیکھا کہ بھارتی صدر کو پاکستانی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دی گئی، یہ ایک مناسب بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کشمیریوں نے اس مسئلے کو اتنا بڑا کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی 70 سال کی غفلتوں کا مداوا کرسکتا ہے، تمام طبقات اس وقت بھارت کے خلاف ہوگئے ہیں، جو بھارت نواز تھے، وہ بھی مخالف ہوگئے ہیں اور بھارتی اقدام کو مسترد کرچکے ہیں، دس لاکھ دشمن کی فوج ٹریپ ہوگئی ہے، آپ کے پاس بہترین موقع ہے کہ لوکل لوگوں کی مدد کریں اور تحریک کو بڑھاوا دیں۔

یاد رکھیں کہ کشمیری آپ کو مددگار سمجھتے ہیں، ماحول بنانے میں وہ جتنی مدد کرسکتے تھے انہوں نے کر دی ہے، 50 دن کے کرفیو میں انڈیا کی فوج کا اس علاقے کو نہ کھولنا اور خوف میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ کشمیری بھارت کو قبول نہیں کر رہے، اس وقت انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں، اس کو اس طرح سے نہیں دکھایا جا رہا، جس طرح سے دکھانا چاہیئے تھا، عالمی سطح پر ایشو کو بہتر انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے، لابنگ کرنے کی ضرورت ہے، جب بھی کسی مسئلے کو دنیا نے حل کرنا ہوتا ہے، اس مسئلے کو بڑا بنانا پڑتا ہے، اس مسئلے کو سنجیدہ بنانے کی سخت ضرورت ہے کہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے، یہ مسئلہ بڑھا تو پورے خطے کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، اگر فوجیں آگے بڑھتی ہیں اور کشیدگی کی فضا قائم ہوتی ہے تو انڈیا پر پریشر آئے گا۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ برطانیہ یا امریکا مسئلہ حل کرے گا، تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی، برطانیہ نے ہی یہ مسئلہ چھوڑا اور امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ مسئلہ حل ہو، کشمیر پر یہی صورتحال برقرار رہی تو کشمیر تیزی سے عالمی مقاومت کے بلاک میں چلا جائیگا، جو فطری بلاک ہوگا۔ مزاحمت کے لوگ کسی کی طرف نہیں جھکیں گے، کیونکہ بالآخر عزت، غیرت کے معاملات ہیں، کشمیریوں کی عوتوں کی عزت و حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے، وہاں جارح لوگ ہیں، حقوق پامال کر رہے ہیں، پہلے بھی مزاحمت کے بلاک نے پسے ہوئے لوگوں کو کھڑا ہونا سکھایا ہے، اگر یہ معاملہ اس طرف چلا گیا تو بہت تیزی کے ساتھ تحریک جان پکڑے گی۔

سوال : کشمیر پر عالمی رسپانس کیسے دیکھ رہے ہیں، دوسرا وزیراعظم سعودی عرب کا تیسرا دورہ کر رہے ہیں، جبکہ سعودیہ نے ایک حرف تک نہیں کہا، ان دوروں کا مقصد کیا نظر آرہا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: کشمیر پر جو عالمی ردعمل ہے، وہ چونکہ ایک عرصے سے ہماری کشمیر کمیٹی کے ڈیڈ ہونے کی وجہ سے اس طرح نہیں اٹھ سکا، جس طرح اٹھنا چاہیئے تھا، کشمیر سیل مکمل طور پر ڈیڈ تھا، عملی طور پر کشمیر کے مدعی ہونے کے ناطے ہم اپنے کیس کو لے کر نہیں چل رہے تھے تو کشمیر کا مسئلہ دبا ہوا تھا، انڈیا نے آئینی ترامیم کرنے کی کوشش کی اور لوگوں نے جو مزاحمت کی ہے، اس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے، دنیا کا یہ کوئی چھوٹا علاقہ نہیں، جغرافیائی طور پر یہ علاقہ بہت اہم ہے، آبادی کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور سی پیک اور ترقیاتی کام کے حوالے بھی اس علاقہ کی اپنی اہمیت ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چائنہ کی ترقی کا راستہ سی پیک سے گزرتا ہے تو چائنیز کو روکنے کا راستہ بھی یہی سے گزرتا ہے، اس لحاظ سے عالمی ردعمل جو آیا ہے، وہ تقسیم ہے، امت مسلمہ امت کے طور پر کھڑی نہیں ہوسکی، اسلامی ممالک جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اچھے اور قریبی ہیں، ان میں یو اے ای اور سعودی عربیہ ہیں اور اس دورانیے میں دونوں ملکوں نے نہ صرف مودی کو دعوت دی بلکہ ویلکم کیا اور اعزازات سے نوازا ہے۔

 اسی طرح اس ایک اسلامی ملک جہاں پر عوامی اور حکومتی سطح پر کشمیری مزاحمت کو سپورٹ کیا گیا ہے اور پاکستان کے موقف کی تائید کی گئی ہے، ہم ابھی تک ان کے پاس نہیں گئے ہیں، اس کیفیت میں ہم نے دوست اور دشمن کی صحیح پہچان نہیں کی ہے، دشمن کے دوست کو دشمن بھی نہیں سمجھا جو ہماری ناکامی کی علامت ہے۔ اسی طرح ہم یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے میں ناکام ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کا کشمیر کا معاملہ اٹھانا آپ کی کارکردگی ہے، لیکن جس طرح سے اٹھانا چاہیئے تھا، نہیں اٹھایا گیا۔ ہماری لابنگ کمزور ہے، عالمی اور اسلامی ممالک میں بھی ہماری لابنگ کمزور ہے۔ میرے خیال میں حکومت نے اپنی آپشنز صحیح استعمال نہیں کیں، دفتر خارجہ کو فوری متحرک نہیں کیا۔ وزیراعظم سعودی عرب چلے گئے، مگر انہوں نے ایک حرف تک ادا نہیں کیا، آپ وہاں نہیں گئے، جہاں آپ کو مکمل سپورٹ مل سکتی ہے۔ سعودی عرب اور گلف ممالک پاکستان کے موقف کے حامی نہیں ہیں۔

سوال : حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا، لیکن مسائل جوں کے توں ہیں، آپ اسے کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: یہ درست ہے کہ حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے اور بعض جہتوں میں مثبت ترقی ہوئی ہے اور بعض وہ جہتیں بھی ہیں، جہاں بہت مثبت کام ہوسکتا تھا لیکن نہیں ہوا، جیسے لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کیلئے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیئے، اس کیلئے اضافی پیسوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، جہاں لا اینڈ آرڈر بہتر نہیں ہوتا، وہاں اقتصادی ترقی بھی نہیں ہوتی، اسی طرح غریبوں کیلئے جو بنیادی چیزیں فراہم ہوسکتی تھیں، جیسے کسان اور ایک عام آدمی کو بجلی، گیس اور دیگر چیزوں میں ریلیف دیا جاسکتا تھا، نہیں دیا گیا، الٹا زندگی کی دوڑ میں یہ طبقہ بہت متاثر ہوا ہے، ان کیلئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا ہے، ترقیاتی منصوبوں پر کچھ خرچ نہیں کیا جا رہا، اور فقط قرضے واپس کیے جا رہے ہیں، اس میں توازن قائم نہیں رکھا جا رہا۔

اس کے علاوہ کرپشن میں کمی ہوئی ہے، بڑے بڑے کرپٹ لوگ جن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا تھا، ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، اسی طرح ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جا رہا ہے، بجٹ خسارے میں کمی آئی ہے، برآمد اور درآمدت میں توازن آرہا ہے، لیکن جس طرح ہماری خارجہ پالیسی کو متوازن بنانا چاہیئے تھا، اس کو عملی طور پر نہیں بنایا جاسکا، جیسے آپ یمنیوں کے خون بہنے پر تو خاموش رہیں، لیکن تیل تنصیبات پر حملوں پر بات کریں، آل سعود کے ظلم پر خاموش رہیں، کچھ وراثت میں ملنے والی پالیسیاں ابھی تک چلائی جا رہی ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں ملک میں مثبت چیزوں میں بہتری نہیں آئی، مگر منفی چیزوں میں کمی ہوئی ہے۔

سوال : نیب کارروائیاں جاری ہیں، خورشید شاہ بھی اندر ہوگئے، اپوزیشن کہتی ہے سلکٹو جسٹس ہو رہا ہے، کیا واقعی ایسا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: نیب اور چیف جسٹس کے بیانات کو اگر آپ سامنے ملا کر پڑھیں تو یہ تاثر صرف چیف جسٹس نے نہیں لیا بکہ عوام میں بھی یہ تاثر ہے کہ سیلکٹو جسٹس ہو رہا ہے، یہ تاثر اگر صحیح ہو تو بذات خود یہ ایک غلط چیز ہوگی اور اگر یہ تاثر غلط بھی ہے، تب بھی حکومت کو اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومتی اور اتحادی حلقوں میں کرپٹ لوگوں کے خلاف تلوار نہ چلے، احتساب ہوتا ہوا نظر آنا چاہیئے اور سب کا ہونا چاہیئے۔ مجموعی طور پر حکومت کی کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی لگ رہی ہے اور اسے آگے بڑھنا چاہیئے، خورشید شاہ کے بعد اور شخصیات کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔

سوال : مولانا فضل الرحمان کے ممکنہ احتجاج کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس وقت مولانا فضل الرحمان مزاحمت کی سیاست کرتے نظر آرہے ہیں اور پیپلزپارٹی اور نون لیگ مزاحمتی سیاست سے دود دکھائی دے رہی ہیں، اس سے ان جماعتوں کا نقصان ہوگا اور ووٹ بینک بھی متاثر ہوگا۔ یہ جماعتیں عوامی پذیرائی بھی بہت کم کر بیٹھیں گی اور عین ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں توازن برقرار نہ رکھ سکے، یہ پریشر اب سندھ میں چلا گیا ہے، اپوزیشن مضبوط پریشر میں ہے، چیف جسٹس کی بات سے لگتا ہے کہ عدالت میں بھی سلکٹو جسٹس ہو رہا ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے کیس میں بہت کچھ واضح ہوگیا ہے۔ عدالت کو صرف سیاست دانوں کے ہی کیس نہیں سننے چاہیئے، خود ججز کے خلاف جو پہلے سے درج کیسز ہیں، انہیں بھی سننا چاہیئے۔

سوال : یمن تنازعہ کس کروٹ بیٹھتا نظر آرہا ہے، سعودی تنصیبات پر حملے اور الزامات کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: یمن تنازع بہت واضح ہے، جیسا کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ سعودی استعمار کی ناک یمن میں رگڑی جائے گی، یہ بالکل واضح ہوگیا ہے، کویت کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ابھی ایران نے صرف ایک چھینک ماری ہے اور پچاس فیصد تیل بند ہوگیا ہے، اگر ایران نے اس سے اوپر اقدام اٹھایا تو ان کا کیا حال ہوگا؟، یمنیوں کے وزیر دفاع نے تازہ پریس کانفرنس کی ہے اور انہوں نے واضح کہا ہے کہ کوئی جگہ ہماری پہنچ سے باہر نہیں ہے اور ہم اس سے مزید بڑھ کر بھی وار کرسکتے ہیں، کوئی جگہ ہماری اپروج سے باہر نہیں ہے، انہوں نے یو اے ای کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر امارات نے باقی فوج کو نہ بلایا تو آئندہ اسے بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ داد دینی چاہیئے کہ یمنیوں نے نپی تلی کارروائی کی ہے اور ایک بھی بندہ نہیں مارا گیا، بس آئل تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ حوثی اللہ پر توکل اور توسل میں بہت مضبوط ہیں۔

یمنیوں نے اپنی اہلیت، لیاقت اور استعداد کار میں بہت اضافہ کیا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری دکھائی ہے، یمنیوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں، لیکن انہوں نے سعودیہ اور یو اے ای کی اقتصادیات کو آگ دکھا دی ہے، مذاکرات کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، جنگ بند کریں۔ یہ جنگ ختم کرنا پڑے گی، یمنیوں کو اپنی حکومت بنانے اور چلانے میں آزاد چھوڑنا ہوگا، یہ جنوب اور شمال کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیں گے، اگر تقسیم کی سازش کامیاب نہ ہوئی تو انقلاب اسلامی سے متاثر سعودی عرب کے بارڈر پر ایک اور اسلامی حکومت ہوگی، جو مزاحمت کے بلاک کا حصہ ہوگی۔ ایک اور بات کہنا چاہوں گا کہ یمن نے یہ جو پندرہ سو کلو میٹر یا سولہ سو کلو میٹر دور ڈروں اٹیک کیا ہے، یہ ایک اور نشاندہی ہے کہ یہ بحرین سے 50 کلو میٹر دور حملہ ہوا ہے، جہاں امریکن پانچواں بحری بیڑا موجود ہے، جسے علم تک نہ ہوسکا اور ڈیٹکٹ تک نہیں کرسکا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی بحری بیڑے بھی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہو جائیں گے، جو سپر طاقت کیلئے ایک علامت ہے۔

سوال : جواد ظریف نے سی این این کو انٹرویو دیا ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو پھر ایران آخری امریکی سپاہی کی اس خطے میں موجودگی تک جنگ لڑے گا۔ اس بیان کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: جواد ظریف کا بیان بہت ہی زبردست بیان ہے، انہوں نے ایرانی پالیسی میں سے بعض چیزیں جس انداز میں بیان کی ہیں، ان میں سے چند نکات میں بیان کرتا ہوں۔ نمبر ایک یہ کہ امریکن فورسز یہاں جارح ہیں، وہ اس علاقے کی نہیں ہیں، وہ اجنبی ہیں، لہذا علاقے کے لوگ ان کو پسند نہیں کرتے، یہاں ان کے رہنے کا کوئی آئینی جواز ہی نہیں، مگر بعض ملکوں سے جبر کے ذریعے انہوں نے یہ اختیار لیا ہوا ہے، اگر اس خطے میں کوئی جنگ ہوتی ہے تو امریکا اس علاقے میں سروائیو نہیں کرسکتا، ایران کی جانب سے ڈرون اتارنا، ڈرون کو تباہ کرنا، آبی گزرگاہ پر جہازوں کو روکنا، ماضی میں خود امریکیوں کو ہاتھ باندھ کر لے جانا اور پھر چھوڑ دینا ثابت کرتا ہے کہ ایران بہت آگے ہے، فرض کرتے ہیں کہ یمنیوں کو ڈرون ٹیکنالوجی اور تکنیکی مہارت ایران نے دی ہے تو پھر بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران کی رسائی بہت آگے بڑھ گئی ہے، وہ یمن میں بھی ہے، عراق میں بھی ہے اور شام میں بھی ہے، وہ فلسطین میں بھی موجود ہے، اس صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکا ایران سے جنگ کرنے کی جرات کرسکتا ہے، جواب نہیں ہے۔

میں نے رائٹر میں مغربی صحافی کو پڑھا ہے، جو کہتا ہے کہ آخری بڑی جنگ چنگیز خان کی ہوئی اور وہ بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ اتنے بڑے جغرافیہ پر جنگ نہیں لڑی جاتی۔ یہ اس سے بڑا جغرافیا ہے، جہاں امریکی سلطنت غرق ہو جائی گی، یہ انقلابیوں کیلئے بہترین موقع ہوگا کہ وہ اسے سینڈوج بنا دیں۔ اوپن جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تیل والے ممالک جن کا کوئی نظریہ نہیں ہے، وہ مزاحمت نہیں کرسکتے۔ ایک حملے میں اگر تیل کی پیدوار آدھی رہ جاتی ہے اور ایک براہ راست جنگ جس میں ایران شامل ہو جائے تو پھر سوچیں کیا ہوگا۔؟ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کو سمجھ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، جو ان کی تباہی پر ختم ہو، وہ سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کے کندھے پر رکھ کر کام کریں گے، جو ہر صورت ناکامی ہے۔

وحدت نیوز (انٹرویو)علامہ راجہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چوتھی مرتبہ بھاری اکثریت سے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق ہے۔حوزہ علمیہ قم المقدس ایران سے دینی علوم حاصل کرنے کے بعد پاکستان تشریف لائے اورملک وملت  کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ اس دوران ملت جعفریہ میں لیڈرشپ کے بحران پرعلمائے کرام اور عمائدین ملت کے مطالبے پر مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے وہ مسلسل نبھا رہے ہیں۔ ملت جعفریہ پاکستان کو سیاسی شعور دینے میں بھی علامہ ناصر عباس جعفری کا کردار نمایاں ہے۔ شیعہ سنی یونٹی کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اتحاد امت کے داعی ہیں۔ تکفیریت اور دہشتگردی کیخلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارےنے ان سے موجودہ ملکی حالات پر تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

سوال: شاہ محمود قریشی کی وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران سے پہلے کی پریس کانفرنس اور الزامات کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصرعباس جعفری: شاہ محمود کی وزیراعظم کے دورہ ایران سے دو دن پہلے کی پریس کانفرنس انتہائی نامناسب تھی، اگر پاکستان کے کچھ تحفظات تھے بھی تو عمران خان وہاں جا کر بات کرسکتے تھے اور گفتگو ہوسکتی تھی، یہ ایک قسم کی اپنے ہی وزیراعظم کی پشت میں خنجر گھوبنے والی بات ہے اور اسکا کچھ فائدہ بھی نہیں، پاکستان کے قومی مفاد کو سویلین نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ وہ لائن ہے جسکا فائدہ پاکستان کی دشمن قوتوں کو ہوگا اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا کچھ ہو، تاکہ پاکستان کے اپنے ہمسائے ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی لائن نہیں لے رہے بلکہ انکی لائن لے رہے ہیں، جو ہمیں آگاہانہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب کس کا وزیر خارجہ ہے؟ اور کس کی زبان بول رہا ہے، کس کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے اور جب عمران خان ایران جا رہے ہیں تو یہ جاپان چلا گیا، اس اہم دورے کے موقع پر کہیں جانا پاکستان کو نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ ان لوگوں نے پاکستان کی خدمت نہیں کی۔

سوال: عمران خان کے دورہ ایران کو ان الزامات کے بعد  کیسا دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصرعباس جعفری: عمران خان کا یہ دورہ ایران اسٹریٹیجک لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جب امریکا کی طرف سے جمہوری اسلامی کو الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اسے دہشتگرد قرار دیا جا رہا تھا، ان حالات میں عمران خان کا پاکستان سے ایران جانا بہت اہمیت کا حامل ہے، یقیناً آل سعود اور امریکا اس سے خوش نہیں ہیں، یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، عمران خان کے دورے کو نقصان پہنچانا درحقیقت پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، پاکستان کو دہشتگرد قرار دینے کیلئے مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔

سوال:  کابینہ کی تبدیلی کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان اقتصادی لحاظ سے مشکل صورتحال میں پھنسا ہوا ہے، 98 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا ہوا ہے، ادائیگیوں اور خسارے میں فرق بہت زیادہ ہے، ان مشکل حالات میں اسد عمر صاحب کو وزیر خزانہ لگایا گیا، جب بہت مشکل صورتحال تھی، وہ کوشش کرتا رہا تھا کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے ملک کو بچایا جا سکے، میرے خیال میں جو راستہ اپنایا گیا اور جس طرح سے پاکستان کو ایک خاص سمت میں دھکیلا گیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی مشکلات حل کرانے کی کوشش کی گئی، جو اس ریجن میں امریکی کاز کو سپورٹ کرتے ہیں اور انکی طرف لے جایا گیا، اس کے نتیجے میں پاکستان کی مشکلات ناصرف بڑھیں بلکہ اہمیت بھی کم ہوئی اور پاکستان آئی ایم کے چنگل میں پھنستا چلا گیا۔

میرے خیال میں اسد عمر مزاحمت کر رہا تھا اور کوشش کر رہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے بچیں، لیکن وہ شائد مختلف قوتوں کو قابل قبول نہیں تھا، جس کے نتیجے میں اسے ہٹنا پڑا، آپ جانتے ہیں کہ عالمی بینک میں کام کرنے والے پاکستانی کو جب اسٹیٹ بینک یا وزرات خزانہ میں ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ پاکستان سے زیادہ ان (آئی ایم ایف) کے مقاصد کو اہمیت دیتا ہے، یہ لوگ پہلے بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور کام کرتے رہے ہیں، یہ اقتصادی حالت گذشتہ پالیسیوں کا نتیجہ ہی تو ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اقتصادی دباو میں آکر ایسے فیصلے کر رہا ہے اور ایسے فیصلے کئے جا رہے ہیں یا کرائے جا رہے ہیں، جن کا پاکستان کو فائدہ نہیں ہوگا۔

سوال:  بلوچستان میں پیش آنیوالے دہشتگردی کے حالیہ واقعات پر کیا کہتے ہیں۔ آپ خود بھی کوئٹہ گئے تھے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: آپ جانتے ہیں کہ جب سے پارلیمنٹ میں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ میں ایران جاوں گا تو اس کے بعد کوئٹہ شہر کے اندر دہشتگردی کی کارروائی کا ہو جانا اور وہ بھی اہل تشیع جو ہزارہ ہیں انکے خلاف ہوئی، یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے، ہزار گنجی میں اس وقت دھماکہ ہوا، جب اکثر لوگ بس میں ہی سوار تھے، اگر وہ اترے ہوتے تو بہت بڑا نقصان ہونا تھا۔ جو لوگ ہزارہ ٹاون سے سبزی منڈی جاتے ہیں، یہ کانوائے کی شکل میں جاتے ہیں۔ اس کارروائی کا مقصد بھی پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا تھا، بعض قوتیں چاہتی تھیں کہ عمران خان کا دورہ ایران نہ ہو۔ امید ہے کہ دورہ ایران کے بعد عمران خان پر واضح ہوگیا ہوگا کہ ایرانی لیڈر شپ کتنا پاکستان سے پیار کرتی ہے۔ آقا خامنہ ای سے ملاقات میں ان کو شعور ملا ہوگا، کیوںکہ ہمارے رہبر شعور بانٹتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اس خطے کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔

سوال:  لاپتہ افراد کا تاحال مسئلہ برقرار ہے، انکی رہائی  کیلئے کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، ویسے بہت بڑی تعداد لوگوں کی چھوڑ دی گئی ہے اور کچھ ابھی رہ گئے ہیں، یہ جو کراچی میں حالیہ واقعہ ہوا اور اسی کو بہانہ بنا کر بہت سے لوگوں کو اٹھایا گیا ہے، یہ پاکستان میں ایک عجیب سا سلسلہ چل رہا ہے، راولپنڈی کا واقعہ ہوا تو اس فتنے کو بہانہ بناکر یہ ہمارے گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے رہے، دشمنی کی اور بے گناہ جوانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، ان پر تشدد کیا گیا، اب جاکر ثابت ہوا کہ یہ مکمل طور پر پاکستان کے دشمنوں کی کارروائی تھی، جو لوگ استعمال ہوئے انہی کے اپنے تھے، مسجد میں آگ لگانے والے اور قتل کرنے والے بھی ان کے اپنے ہی تھے۔ پاکستان میں شیعہ سنی مسائل پیدا کرکے دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، جس میں یہ لوگ ناکام ہوگئے ہیں، اسی طرح سے کراچی میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔

ایک واقعہ ہوتا ہے، اسکے بعد یہ شیعوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، نوجوانوں کو اٹھا لیتے ہیں، اغوا اور غائب کر دیتے ہیں۔ ان کے اقدامات کا واحد مقصد ہے کہ دنیا پر واضح کیا جائے کہ اہل تشیع بھی دہشتگرد ہیں۔ تکفیر کے فتوے انہوں نے دیئے، قتل و قتال انہوں نے کیا، لشکر انہوں نے بنائے۔ پھر انہی لشکروں کو خود ہی مارا۔ پھر خود سکیورٹی اداروں کو کافر کہا گیا اور تکفیر کی گئی۔ کراچی میں جاری کارروائیوں اور عزداری سید الشہداء کے خلاف سازشوں کو روکنا ہوگا، آنے والے دنوں میں ایک اہم پریس کانفرنس کرنے جا رہا ہوں۔ اس پر ہم آواز اٹھائیں گے، ہمارے علماء کو شیڈول فور میں ڈالا جا رہا ہے، بےجا پابندی لگائی جا رہی ہیں۔ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔؟ اس وقت مسنگ پرسنز میں بیس سے پچیس لوگ رہ گئے ہیں، ہم ان کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے اور ذمہ داری بھی۔ قانون شکنی کسی صورت قبول نہیں، کسی نے کوئی ملکی قانون توڑا ہے تو اسے عدالت میں پیش کریں۔

سوال:  کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ان مشکلات سے نمٹنے کیلئے اتحاد بین المومنین وقت کی اشدت ضرورت ہے، مزید کیا اقدامات ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، مجلس وحدت مسلمین جب سے وجود میں آئی ہے، اس نے الحمداللہ داخلی طور پر کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ مومنین کے اختلافات کو ہوا ملی ہو یا تقسیم ہوئے ہوں، اپنے شیعوں کے تمام طبقات سے اچھے تعلقات ہیں، چاہیے علماء ہوں یا غیر علماء یا خود بانیان مجالس اور ذاکرین عظام سب سے بہترین تعلقات ہیں۔ ہماری اب تک یہی کوشش رہی ہے کہ ان سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔ اس کے علاوہ بزرگ علماء سے ملتے رہے ہیں، کم از کم پہلا مرحلہ یہ تھا کہ اختلافات میں شدت پیدا نہ ہو اور اس کو روکا جائے، الحمد اللہ تمام بزرگان سے ملتے رہے ہیں اور ملتے بھی رہیں گے۔ اتفاق و اتحاد کے حوالے سے باقاعدہ ان سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ اس نقطے پر بھی بات ہوتی ہے کہ ملی مشترکات جیسے، عزاداری، مسنگ پرنسز، تکفیر جیسے مسائل ہیں، ان سے ملکر نمٹا جائے۔ اسی طرح شہیدوں کے قاتلوں کو سزا دلوانا، دہشتگردی جیسے مسائل پر مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز(انٹرویو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل محترمہ سیدہ زہرا نقوی پی ٹی آئی کیساتھ ایم ڈبلیو ایم کی الیکشن 2018ء میں ہونیوالی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن پنجاب اسمبلی نامزدہوئیں۔ آپ دردمند پاکستانی اور فعال خاتون رہنما ہیں۔ محسنِ ملت مظلوم پاکستان ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی صاحبزادی ہیں، اسلام ٹائمز نے عورت مارچ، کالعدم تنظیموں اور ملکی حالات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

سوال : 8 مارچ کو عورت مارچ کیا گیا، ایک بہیودگی پھیلائی گئی، آپ کی نظر میں اس کے پیچھے کون ہے؟۔
محترمہ زہرا نقوی: مجھے ذاتی طور پر اس کے پیچھے ایک سازش نظر آرہی ہے، میں سمجھتی ہوں کہ عورت مارچ کے نام پر اسلام دشمنوں اور ملک دشمنوں نے اپنی کارروائی انجام دی، اس سے عورت کی تذلیل کی گئی اور انسانیت کی تذلیل کی گئی، اس پیغام کو کوئی پذیرائی نہیں ملی، میں سمجھتی ہوں کہ عام فییملیز، حتٰی جنہیں غیر متدین گھرانے سمجھا جاتا ہے، انہوں نے بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نعرے اور شعار شرف انسانی کے خلاف تھے، اقدامات خود بتا رہے تھے کہ یہ کسی کے پے رول پر تھے۔

سوال: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ عورت مارچ کے پیغام کو کوئی پذیرائی ملی ہے؟۔
محترمہ زہرا نقوی: دیکھیں خواتین کے جو حقیقی مسائل ہیں وہ یہ ہیں کہ خاتون سب سے پہلے انسان ہے اور انسانی حقوق جو اس کو ملنے چاہیئیں، اس سے اسے محروم رکھا گیا ہے۔ حتٰی ہمارے خاندانوں کے اندر جو ایک عورت کو حقوق ملنے چاہیئیں وہ نہیں مل رہے، جیسے بعض خواتین کو غذائی قلت کا سامنا ہے، تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے، علاج معالجہ کی سہولت نہیں دی جاتیں، ایک عورت کے فرائض ہیں تو اس کے کچھ حقوق بھی ہیں، بعض جگہوں پر خواتین کو حقیر سمجھا جاتا ہے، کہیں پر قرآن سے شادی کردی جاتی ہے، تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آئین پاکستان نے جو حقوق دئیے ہیں ان پر بحث ہونی چاہیئے، کیا آئین کے مطابق متعین کردہ خواتین کو حقوق مل رہے ہیں یا نہیں؟، اس موضوع پر بحث ہونی چاہیئے۔ اس وقت اسمبلیوں میں قانون سازی کی ضرورت ہے اور جو قانون بنے ہوئے ہیں ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، اگر آپ ان ایشوز کو اٹھائیں گے تو آپ کے پیغام کو پذیرائی ملے گی، ورنہ نہیں۔

سوال: پنجاب اسمبلی میں ابتک خواتین کے مسائل پر کتنی قانون سازی ہوئی ہے اور بطور خاتون رکن آپ نے کتنا حصہ ڈالا ہے؟۔
محترمہ زہرا نقوی: جی نہایت افسوس کے ساتھ بتا رہی ہوں کہ اس معاملے پر پنجاب اسمبلی میں ڈسکشنز تو ہوئی ہیں، مگر تاحال ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی، جس سے خواتین کے حقوق کو یقینی بنایا جاسکے۔ پرامید ہوں کہ جلد اس پر قانون سازی ہوگی۔

سوال: اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کو درست سمجھتی ہیں یا سمجھتی ہیں کہ عجلت سے کام لیا گیا ہے؟، عمران خان کے نوٹس لینے کو کیسے دیکھتی ہیں۔
محترمہ زہرا نقوی: میرے خیال میں اس معاملے پر ہمیں انصاف سے کام لینا چاہیئے، آپ ریکارڈ اٹھا کر چیک کرلیں کہ جتنی تنخواہ ممبران پنجاب اسمبلی کو دی جارہی ہے، اس سے اس کا گھر نہیں چلتا، اس نے عوام میں جانا ہوتا ہے، حلقے میں جانا ہے، حلقے کے عوام کے اس کے پاس آتے ہیں، اس نے مہمان نوازی بھی کرنی ہوتی ہے، تو ساٹھ ہزار میں وہ کیسے یہ سب کرسکتا ہے، تا وقتیکہ کوئی دوسرا راستہ انتخاب نہ کرے، اس کے علاوہ دیگر اسمبلیوں میں تنخواہیں دیکھیں تو اس لحاظ سے بھی کم ہیں۔ ان اراکین اسمبلی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، لیکن تنخواہیں وہی پر ہیں۔ میں ذاتی طور پر یہی سمجھتی ہوں کہ اتنی تنخواہ ضرور ہونی چاہیئے وہ باعزت طریقے سے زندگی گزار سکیں، یا وہ کسی دوسری طرف نہ دیکھ سکیں۔ جہاں تک وزیراعظم کی بات ہے تو ان کا نوٹس لینا بھی جائز تھا۔ ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، عوام کو امیدیں دلائیں تو پہلے ایسے اقدامات ہو جانے چاہیئیں جن سے عوام کو ریلیف مل سکے۔

سوال: دہشت گرد تنظیموں کے خلاف حالیہ اقدامات، کیا یہ انٹرنیشنل پریشر کی وجہ سے لئے گئے ہیں یا پھر ریاست نے فیصلہ کرلیا ہے؟۔
محترمہ زہرا نقوی: دہشتگردوں کے خلاف جو اقدامات کئے جارہے ہیں یہ ریاست کا اپنا فیصلہ ہے، ریاست نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ جب تک ہم دہشتگرد تنظیموں کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے ہم اپنے ملک کے اندر امن و امان قائم نہیں کر سکتے نہ دنیا کو کوئی مثبت پیغام دے سکتے ہیں، میں یہ نہیں کہوں گی اس میں انٹرنیشنل پریشر نہیں ہے، بلکہ انٹرنیشنل پریشر ہے، کیونکہ پاکستان کو بہت سارے الزامات اور باتوں کا سامنا ہے، بھارت سمیت جہاں بھی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔ یا ان واقعات میں پاکستانی ملوث پائے جاتے ہیں۔ اس سے پاکستان کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سبکی ہوتی ہے۔

سوال: پاک ایران تعلقات میں سیستان سانحہ کے بعد کشیدگی آئی، بہتری کے لیے کوئی حکومتی سطح پر اقدامات ہورہے ہیں۔؟
محترمہ زہرا نقوی: پاک ایران تعلقات میں بہتری کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور دونوں ممالک دہشتگردی کے معاملے پر ایک پیج پر ہیں، دہشتگرد امن کے دشمن ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں، اس میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے اور لوکل سہولتکار بھی یہ کام انجام دینے میں معاونت کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کی عسکری اور سیاسی قیادت کو ملکر ان واقعات کا سدبات کرنا چاہیئے۔

سوال: پاک انڈیا کشیدگی کے بعد کیا پاکستان واقعی عالمی تنہائی میں گیا ہے یا پھر بھارت کی یہ کوشش ناکام ہوگئی ہے۔؟
محترمہ زہرا نقوی: پاک انڈیا کشیدگی کے بعد پاکستان نے نہایت ہی اچھے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے پاکستان کا گراف اوپر گیا ہے، وزیراعظم کے امن کے پیغام کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے، ہم نے بھارتی پائلٹ کو رہا کرکے اخلاقی فتح حاصل کی ہے اور دشمن پر اپنی فضائی قوت کا بھی اظہار کیا ہے۔ بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش میں ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گیا ہے۔

سوال: نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملے کو کس نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ٹرمپ سمیت کچھ حکمرانوں نے پہلے اسے دہشتگردی قرار نہیں دیا، کیا کہتی ہیں؟۔
محترمہ زہرا نقوی: جی نیوزی لینڈ میں مسجد پر جو حملہ ہوا وہ نہایت ہی قابل مذمت ہے، مغرب نے جو سرمایہ کرکے مشرق وسطٰی کے امن کو تباہ کیا ہے، مسلمانوں کی سرزمین پر امنیت کو ختم کیا ہے اور ان کی تاریخ اور ورثے کو جس انداز میں برباد کیا ہے وہ پوری دنیا پر عیاں ہے، جو اقدامات مسلمانوں کے خلاف ہوئے اب اہل مغرب کو انہی کا سامنا ہے، مغرب نے دہشتگردی کو ہمارے کے خلاف بطور ہتھیار اپنایا۔ جو انہوں نے بیچ بوئے اس کی فصل انہیں خود کاٹنی پڑ رہی ہے۔ البتہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے نہایت عمدگی کے ساتھ معاملے کو ڈیل کیا ہے اور ایک بہتر انداز میں اپنی قائدانہ صلاحتیوں کو بروکار لاتے ہوئے ایک مثبت پیغام کو دنیا کے سامنے رکھا ہے جس پر وہ داد کی مستحق ہیں۔ جہاں ٹرمپ سمیت دیگر حکمرانوں کی بات ہے تو مغرب میں نسل پرستی کا عنصر بہت گہرا ہے، اسی لئے شروع میں ٹرمپ نے واقعہ کی مذمت نہیں، نائن الیون کے بعد مسلمانون کو نشانہ بنایا گیا، مگر نیوزی لینڈ کی مسجد میں سفید فام نے حملہ کرکے ثابت کیا ہے نسل پرست بھی دہشتگردی کرسکتے ہیں اور دنیا پر حقائق کھل گئے ہیں۔ اس وقعہ کے بعد مسلمانوں نے بھی نیوزی لینڈ میں نہایت ہی سمجھداری اور صبر سے کام لیا ہے۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی نے ایک بین الاقوامی خبررساںادارے کو انٹریو دیتے ہوئے کہاکہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک بڑی فتح ہے، نیب کی بھی کامیابی ہے جو کرپشن ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، نیب نے اس بار پرانی غلطیاں نہیں دہرائیں۔ نواز شریف کا اصل چہرہ بےنقاب ہوگیا ہے۔ آئندہ فیوچر میں کوئی ریلف ملتا نظر نہیں آرہا۔ بصورت یہ کہ نیب کے ساتھ یہ پلی بارگین کریں، وہ اس طرح کہ اگر قانون میں کوئی گنجائش موجود ہے تو،دہائیوں سے دونوں جماعتیں اس ملک پر مسلط ہیں، عملی طور پر باری سسٹم چل رہا تھا، فرینڈلی اپوزیشن کا بھی تاثر تھا، عملاً دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی کرپشن پر پردہ ڈالے رکھا ہے، کرپشن کو قانونی بنانے کی کوشش کی ہے، تمام تر دعوے ٹوپی ڈرامہ تھے، لوگ ان سے تنگ تھے، یہی وجہ تھی کہ عمران خان کی تبدیلی کا نعرہ مقبول ہوا، ایک عام آدمی نے اسے سپورٹ کیا، عمران خان نے آزاد خارجہ پالیسی کی بات کی، کڑے احتساب کی بات کی، اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کی، اس وجہ سے لوگوں نے ان پر اعتبار کیا۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ پاکستان میں کوئی انقلاب نہیں آیا، بلکہ ایک اتحادی حکومت وجود میں آئی ہے اور اس حکومت نے اپنے نعروں کی بنیاد پر کام شروع کیا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد دیکھا یہ گیا کہ ہے کہ عمران خان نے احتساب کے معاملے پر کوئی لچک نہیں دکھائی، یہ ایک انہونی سی بات ہے، کیونکہ روایت یہی رہی ہے کہ حکومت سے پہلے نعرے کچھ اور ہوتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد کچھ اور ہوتا۔ لیکن عمران خان نے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کرا دیا ہے اور اپنے اس نعرے میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔

انہوں نے مزید کہاکہ جن کے بارے میں تاثر تھا کہ اُن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، ان پر بھی ہاتھ ڈالا گیا ہے، تمام بااثر افراد کو جواب دہ بنا دیا گیا ہے، نواز شریف اور ان کی پارٹی کے کئی افراد نااہل قرار دیئے جاچکے ہیں، اب دوسری طرف بھی پیپلزپارٹی کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ سے لگتا ہے کہ احتسابی عمل اب سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اب زرداری اور ان کی فیملی کے لیے مشکلات زیادہ ہیں، اب سوئٹزرلینڈ سے پیسے کا مطالبہ کیا جانے کا امکان ہے۔ اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ میگاکرپشن کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا سیاسی منظر نامہ تاریک ہے، پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت رہی گی، التبہ ٹاپ لیڈر شپ کو سنجیدہ نتائج بھگتنا پڑیں گے، جن میں آصف علی زرداری، فریال تالپور اور ان کی ٹیم شامل ہے اور انہیں کرپشن پر سزائیں ہوں گی، نون لیگ کے اٹھارہ ضلعی ناظم پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں، اس پارٹی میں توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے، اس سے لگ رہا ہے کہ نون لیگ کا مستقبل تاریک ہے، ویسے بھی اسے اقتدار کی جماعت کہا جاتا ہے۔

انہوںنے مزید کہاکہ دونوں جماعتیں اس لیے سیاسی کیسز کہہ رہی ہیں کیونکہ انہوں نے یہ کھیل کھیلا ہے، اقتدار میں دونوں جماعتوں نے بظاہر ایک دوسرے کے احستاب کا نام لیا، لیکن عملاً ایک دوسرے کو سپیس دی ہے۔ یہ ماضی کی طرح معاملات کو گڈمڈ کرنا چاہتی ہیں، کیونکہ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی کیسز بنائے، اب یہ اسی تناظر میں ان معاملات کو سیاسی بنانا چاہتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان چیزوں میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے، چیزیں ثبوت کے ساتھ سامنے آرہی ہیں، سسٹم بھی انہی کا بنایا ہوا ہے، چیئرمین نیب بھی انہی کا لگایا ہوا ہے اور کیسز بھی پہلے کے چل رہے ہیں، تو پھر یہ کس بنیاد پر ان کیسز کو سیاسی قرار دے سکتے ہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں، کئی کمیشنز کو ہیڈ کرچکے ہیں، جاوید اقبال ایک باصلاحیت آدمی ہیں، انہوں نے نیب کو ایک ادارے کے طور پر بنانا شروع کر دیا ہے۔ایک بات جو فی الحال واضح نہیں ہے، وہ یہ اکراس دی بورڈ احتساب نظر نہیں آرہا، اس کو واضح ہونا چاہیئے، اگر حکومت اور اتحادیوں پر الزامات ہیں تو ان پر بھی کارروائی ہونی چاہیئے، یہ بات بھی واضح ہے کہ جہانگیر ترین انہی عدالتوں سے نااہل ہوچکے ہیں، علیم خان کے خلاف کیسز چل رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ نے پی ٹی آئی کے ایم این ایز پر ہاتھ ڈالا ہے، اعظم سواتی کی برطرفی ہوئی ہے، بابر اعوان نے خود استعفیٰ دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے اچھی رویت ڈالی ہے کہ اگر الزام لگا ہے تو وزراء نے مستعفی ہونے کو ترجیح دی ہے، جو اچھی چیز ہے۔

مشرق وسطیٰ خصوصاًشام اور یمن کے حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ناصرشیرازی نے کہاکہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ناکام ہوا ہے، اس وقت اس کیلئے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ شام میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھے، کیوںکہ طنف کا علاقہ جہاں امریکی موجود ہیں، چاروں طرف سے گھر چکا ہے۔ کرد جن پر امریکیوں کو اعتماد ہے، وہ اس وقت ترکی کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ ایران نے جو بلاسٹک میزائل شام میں داعش کے ٹھکانوں پر مارے ہیں، دراصل وہ امریکی انسٹالیشن کے دائیں بائیں گرے ہیں، نام داعش کا لیا گیا مگر پیغام امریکیوں کو دیا گیا۔ اس سے امریکیوں کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ امریکی انسٹالیشن ایران کے ٹارگٹ پر ہیں۔ دوسرا ٹرمپ ایک غیر متوازن آدمی ہے اور اس نے اپنے فیصلوں سے دنیا کو حیران کیا ہے، شروع میں اس نے کہا تھا کہ وہ شام سے نکلیں گے اور سعودیہ کے خلاف اسٹینڈ لیں گے، مگر پھر سعودیہ کا اتحادی بنا اور سعودیہ ہی کے کہنے پر شام میں رہنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہاکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شام میں دمشق حکومت کے قدم مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اور امریکہ کے لیے وہاں زمین تنگ ہونا شروع ہوگئی ہے۔ نہاد نام سپر طاقت کی شکست پر اسٹمپ لگ چکی ہے۔ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک بزنس مین آدمی ہے، وہ سوچ رہا ہے کہ شام میں نہ تیل کے کنویں ہاتھ میں آئے ہیں، نہ گیس کے ذخائر ہماری دسترس میں ہیں، نہ حکومتی امور پر میں کوئی مداخلت ہے تو پھر ایسے میں شام میں کیوں رہا جائے۔ امریکہ اس وقت شام اور افغانستان میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہا ہے، وہ جنگ کے اخراجات کم کرنا چاہتا ہے۔ خود امریکہ میں اپوزیشن نے شام سے نکلنے کو ایران اور شام کی فتح قرار دیا ہے۔ یہ امریکہ کے اتحادی داعش اور سعودی عرب کی ناکامی ہے۔ امریکی کی مشرق وسطیٰ کی مجموعی طور پر پالیسی ناکام ہوگئی ہے، یمن، عراق اور شام سمیت اوور آل پالیسی ناکام ہوئی ہے۔ تمام ملکوں کے لیے واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں ہے، جہاں جاتے ہیں، تباہی اور بربادی کا سامان لیکر جاتے ہیں۔امریکہ طالبان مذاکرات کےحوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغان مذاکرات ناقابل فہم ہیں، اس لیے بھی کہ طالبان نے کہا تھا کہ افغانستان میں غیر ملکی فووسز کا وجود نہیں ہونا چاہیئے، جب آپ کسی کو ٹیبل پر بیٹھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ اسے اسٹیک ہولڈر تسلیم کرچکے ہیں۔ امریکی اس حوالے سے کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی حد تک اسٹیک ہولڈر منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

Page 1 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree