وحدت نیوز(لاہور) حکومت پنجاب کے پاس مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل برادر سید ناصر عباس شیرازی کی فوری رہائی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ،اگر پنجاب حکومت نے ملت تشیع کے خلاف تعصب پر مبنی کاروائیاں ختم نہ کیں تو ملت جعفریہ کا ہر فرد گھروں سے کفن پہن کر نکل پڑے گا ان خیالات کا اظہارصوبائی سیکرٹری عزاداری کونسل رانا ماجد علی نے وحدت ہاؤس پنجاب میں اربعین کے انعقاد کے بعد انتظامی کارکنوں سے ملاقات میں کارکنوں کی شب و روز محنت اور بہترین انتظامات پر فخراج تحسین کیا اور کہا کہ اربعین سیدالشہداء کے عالمی سطح پر تاریخ بشریت کے سب سے  بڑے اجتماع نے مکتب تشیع کی حقانیت کا علم بلند کر کے سر فخر سے  بلند کردیا ہے۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) چونکہ عالم اسلام دو حصوں شیعہ اور سنی میں تقسیم تھا، اس لئے بوڑھے استعمار نے بڑی چالاکی کے ساتھ چار جعلی مذاہب کی بنیاد رکھنے کی پلاننگ کی، دو کے لئے عرب اور دو کے لئے عجم کو چنا گیا اور پھر ان علاقوں سے اہم شخصیات کا انتخاب کیا گیا،مجلس وحدت مسلمین صوبہ کے خیبرپختونخواہ کے سیکرٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی نے بہائیت اور دیگر انحرافی مذاہب اور تحریکوں کے حوالے سے بین الاقوامی خبر رساں ادارے  کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عالمی استکباری طاقتیں اسلام سے خوفزدہ ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ استعماری طاقتیں انسانیت کا استحصال کرتی ہیں، اور ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلام ہے۔ لہذا ان طاقتوں نے اسلام کے خلاف سازش کی اور اٹھارویں صدی میں اسلام مخالف تحریکوں اور نئے انحرافی جعلی مذاہب کی بنیاد رکھی گئی۔ چونکہ عالم اسلام دو حصوں شیعہ اور سنی میں تقسیم تھا، اس لئے بوڑھے استعمار نے بڑی چالاکی کے ساتھ چار جعلی مذاہب کی بنیاد رکھنے کی پلاننگ کی، دو کے لئے عرب اور دو کے لئے عجم کو چنا گیا اور پھر ان علاقوں سے اہم شخصیات کا انتخاب کیا گیا۔

ان چار انحرافی مذاہب میں سے وہابیت اسلام کے نام پر بڑی تیزی سے پروان چڑھا، قادیانیت نے بھی پذیرانی حاصل کی، تاہم شیعہ دنیا میں بننے والی انحرافی مذاہب تیزی سے پروان چڑھنے میں ناکام رہے، جس کی بڑی وجہ شیعیت میں اجتہاد کی ہے۔

اسی طرح ان کے عقائدی ٹارگٹ بھی مختلف تھے،وہابیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روحانی پہلو کو کم کرنے اور قادیانیت ختم نبوت کو ٹارگٹ کرنے کے لئے میدان عمل میں اترے، شیخیت نے غلو کو پروان چڑھایا اور بہایئت کے ذریعے عقیدتی کے ساتھ ساتھ اخلاقی انحراف پیدا کیا گیا جیسا کہ محارم کے ساتھ شادی وغیرہ۔

پاکستان میں قادیانیت کے خلاف شعور موجود ہے لیکن بہائیت کے خطرات سے پاکستانی عوام آگاہ نہیں ہیں۔ ایران میں ناکامی کے بعد بہائیت نے برصغیر اور یورپ کا رخ کیا ہے، بہائیت کا نظریاتی مرکز غاصب صہیونی ریاست  کے شہر حیفہ میں ہے، بہائیت باقی تینوں سے زیادہ خطرناک ہے، ان کا مرکز اسرائیل ہے، شمالی علاقہ جات سے لیکر کراچی تک بہائیت کے چھوٹے بڑے مراکز موجود ہیں، عوام، خواص، اداروں اور وزارت داخلہ اور مذہبی امور کو اس حوالے سے حساسیت دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) قانون اور شعور کا گہرا تعلق ہے، انسان جتنا باشعور ہوتا ہے اتنا ہی قانون پسند بھی۔ ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ طالبا ن  اور داعش سے نفرت کرو، اس لئے کہ وہ قانون شکن ہیں، وہ ملک اور دین کی بدنامی کا باعث ہیں، وہ خواتین کو کوڑے مارتے ہیں ، وہ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں اور وہ۔۔۔

ظاہر ہے ہر محب وطن پاکستانی ، اپنے ملک اور آئین کی بالادستی کے لئے طالبان  اور داعش کے خلاف کمر بستہ ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ قانون شکنی اگر جرم ہے تو پھر سرکاری لوگوں کے ذاتی عقوبت خانوں کو کیا نام دیا جائے!

 قانون سے کھلواڑ اگر بے شعوری کی دلیل ہے تو لوگوں کا ماورای قانون اغوا اور لاپتہ ہونا کس بات پر دلالت کر رہا ہے!

 ملک اور دین کی بدنامی اگر قبیح ہے تو پھر ائیر پورٹ پر خواتین کی پٹائی کر کے کونسی نیک نامی کمائی گئی ہے!

خواتین کو کوڑے مارنا اگر قابلِ مذمت ہے تو پھر کسی مستور کو برہنہ کر کے گلی کوچوں میں پھرانے کو کیا کہا جائے!!!

گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں  تھانہ چودہوان کی حدود میں گرہ مٹ کے کچھ مسلح افراد نے ذاتی دشمنی کے باعث مخالف خاندان کی 16 سالہ بچی شریفاں کو اس وقت ننگا کر کے گائوں میں گھومنے پر مجبور کر دیا جب وہ جوہڑ سے پانی بھر کے گھر واپس آ رہی تھی۔

غنڈوں نے مدد کے لئے چیختی ہوئی اس  برہنہ بچی کو کسی سے چادر تک نہ لینے دی،  شیطانیت ایک گھنٹے تک رقص کرتی رہی لیکن پولیس یا ہمارے انتہائی حساس اداروں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔

یہ سب ُاس صوبے میں ہوا جس میں غیرت اور مذہب کے نام پر قتل کرنے کو بہادری سمجھا جاتا ہے۔  اور جہاں کچھ عرصہ پہلے مشال خان کو توہین مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

اسی صوبے میں   ایک گھنٹے تک  مسلمان بچی کو برہنہ کرکے  اس پر  تشدد کیا جاتا رہا لیکن   کسی کے مذہب کی توہین نہیں ہوئی، کسی جہادی کی رگِ جہاد نہیں پھڑکی، کسی مُلّا نے ایک مسلمان بچی کی آبرو بچانے کے لئے کوئی فتوی نہیں دیا، کسی مسجد کے سپیکر سے کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، کسی تنظیم کے جیالے اپنے دیس کی بیٹی کی ناموس بچانے کے لئے میدان میں نہیں اترے، جی ہاں اور اس ایک گھنٹے میں کسی قانونی ادارے کے نزدیک ملک میں کسی قسم کی کوئی قانو ن شکنی نہیں ہوئی۔

جب بچی کے ورثاء تھانے رپوٹ درج کرانے گئے تو  وہاں پر کوئی طالبان یا داعش کے کارندے  ڈیوٹی پر نہیں تھے بلکہ ہمارے قانون کے محافظ براجمان تھے، جنہوں نے باثر ملزمان کے ساتھ مل کر لڑکی کے خاندان کو دباو میں لانے کے لئے اس کے  بھائی پر بھی ایک مقدمہ درج  کر لیا ۔

چونکہ یہ سب کچھ کرنے والے طالبان، القاعدہ یا داعش نہیں ہیں لہذا یہ سب کچھ برا بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف صحافیوں پر حملوں اور تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے تو چونکہ یہ سب کچھ طالبان ، القائدہ یا داعش کی ریاست میں نہیں ہو رہا لہذا ہمارے ہاں  اس کے ہونے میں کوئی قباحت بھی نہیں سمجھی جاتی۔

قباحت تو تب ہے کہ جب طالبان کے اذیت کدوں میں کسی پر ٹارچر کیا جائے لیکن اگر  کسی سرکاری ٹارچر سیل میں جمشید دستی جیسے کسی شخص پر بچھو چھوڑے جائیں تو یہ قانون، مذہب  اور آئین کے عین مطابق ہے۔

اسی طرح اسی طرح  معروف سیاستدان ، ناصر شیرازی ایڈوکیٹ کو لاپتہ ہوئے آج کئی دن گزر چکے ہیں،  چونکہ انہیں لاپتہ کروانے میں وزیر قانون  کا ہاتھ ہے لہذا یہ گمشدگی بھی قانونی ہے اور اس میں دینی، شرعی اور قانونی اعتبار سے کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ویسے بھی تو اِ س مُلک میں  ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔

آپ خود دیکھ لیجئے ! برما اور کشمیر کی بیٹیوں کی ناموس کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر رونے والے مولوی حضرات کے اپنے دیس میں ایک نوعمر مسلمان بچی کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس پر کسی مولانا کے اشک نہیں گرے، کسی مولوی نے جہاد کی بات نہیں کی کسی مفتی نے کفر کا فتوی نہیں دیا۔۔۔

اور عجب اتفاق ہے کہ سیاسی عناصر جس طرح مشال خان کے قتل میں ملوث تھے اُسی طرح ڈی آئی خان کے واقعے میں بھی غنڈوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

اب یہ بھی خبریں ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہو رہی ہے یعنی  مولویت و جمہوریت رسمی طور پر پھر سے ایک ہو رہے ہیں۔ اچھا ہے  ایسا ہی ہونا چاہیے چونکہ ہمارے ہاں رائج مولویت اور جمہوریت کی لوح محفوظ پر  عوام کی تقدیر میں یہی کچھ لکھا ہے۔  

عوام کے ساتھ جو مرضی ہے ہوتا رہے، حوا کی بیٹی گھنٹوں برہنہ پھرائی جاتی رہے یا سالوں، ٹارچر سیلوں میں بچھو چھوڑے جائیں یا سانپ، کسی وکیل پر تشدد ہو یا صحافی پر ، اس پر کبھی بھی ہمارا  مقامی مذہبی ٹھیکیدار  یا  سیاستدان  نہیں بولے گا۔

ہمارے ہاں دین اور قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ چلتا رہے گا چونکہ یہی ہمارے ہاں کی مولویت اور جمہوریت ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(بیروت) حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے امریکہ اور اور سعودی عرب کو داعش کا بانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کا مکمل خاتمہ قریب ہے۔ جنوبی بیروت میں اربعین حسینی کے موقع پر عزاداروں کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب نے داعش کو بنایا تھا، تاہم اسلامی انسانی اقدار کے خلاف اتنی بڑی سازش کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق اور شام میں داعش کی مکمل نابودی نزدیک ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعودی عرب نے سعد حریری کو ریاض بلا کر یرغمال بنا رکھا ہے اور انہیں استعفٰی دینے پر مجبور کیا گیا ہے اور یہ لبنان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے سعد حریری سے زبردستی استعفٰی دلوا کر نہ صرف لبنانی وزیراعظم بلکہ پوری لبنانی قومی کی توہین کی ہے۔

سید حسن نصراللہ نے خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سعودی عرب، اسرائیل کو لبنان پر حملے کے لئے اکسا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سعودی عرب نے لبنان پر حملے کے عوض اسرائیل کو اربوں ڈالر کی پیشکش کی ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے صراحت کے ساتھ کہا کہ سن دو ہزار چھے میں بھی سعودی عرب کے کہنے پر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تھا۔ انہوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ وہ لبنان کی موجودہ صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اسی طرح اربعین مارچ کو بے مثال واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ اس سال بھی کروڑوں افراد چہلم کے موقع پر کربلا آئے، جن میں ہر ملک اور ہر قوم سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

دیگر ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے سعودی عرب پر لبنانی وزیرِاعظم سعد حریری کی گرفتاری اور اسرائیل کو حملہ کرنے پر اکسانے کا الزام عائد کر دیا۔

سید حسن نصر اللہ نے سعد حریری کے حوالے سے ان کے وزارت عظمٰی سے استعفٰی دینے کے فیصلے پر دوسرا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کے وزیرِاعظم کو سعودی عرب نے قید کر رکھا ہے اور انہیں اب تک لبنان واپس جانے کی اجازت نہیں ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعد حریری کی صورتحال اب تک واضح نہیں، لیکن ان کو موصول ہونے والی ٹیلی فون کالز جن میں ان کے سیاسی مخالفین کی کالز بھی شامل ہیں، سے واضح ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے سبکدوش لبنانی وزیرِاعظم کی آزادانہ نقل و حمل پر پابندی ہے۔ لبنان کے 47 سالہ سعد حریری نے اچانک 4 نومبر کو لبنانی وزارتِ عظمٰی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور اتفاق سے اسی دوران سعودی عرب میں اعلٰی شخصیات کی گرفتاریوں کی مہم کا آغاز ہوگیا تھا، تاہم اب تک سعد حریری نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کب سعودی عرب واپس لبنان پہنچیں گے، جہاں صدر میشال نعیم عون ان کا رسمی طور پر استعفٰی قبول کریں گے۔

گذشتہ روز (10 نومبر کو) لبنان میں موجود سعودی سفیر ولید بخاری سے ملاقات کے بعد لبنانی صدر میشال نعیم عون کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سعد حریری کو لبنان واپس آنا چاہیے، لیکن انہوں نے لبنان کے وزیراعظم کی ریاض میں موجودہ حالت کا ذکر نہیں کیا۔ صدر میشال نعیم عون نے سعودی سفارت کار ولید بخاری سے ملاقات کے دوران ان حالات کے بارے میں انہیں آگاہ کیا تھا کہ جن کی وجہ سے سعد حریری کا استعفٰی قابلِ قبول نہیں۔ لبنانی صدر جن کی سیاسی حمایتی جماعت حزب اللہ جو سعودی عرب کی شدید مخالت ہے، سعد حریری کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور سعودی حکومت سے ان کے حوالے سے وضاحت بھی طلب کی۔ امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلر سن نے سعد حریری کو اپنا ساتھی قرار دیتے ہوئے لبنان کے اندرونی اور بیرونی حلقوں کو لبنان کی سرزمین کو پراکسی وار کے طور پر استعمال نہ کرنے کے لئے خبردار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ، لبنان کی خود مختاری، آزادی اور سیاسی اداروں کی مکمل حمایت کرتا ہے جبکہ لبنانی کی خود مختادی کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی عمل کی مخالفت کرتا ہے۔

لبنان اور سعودی عرب سے گہرے تعلقات رکھنے والے فرانس کے صدر ایمانیول میکرون نے 9 نومبر کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا اچانک دورہ کیا۔ فرانس کی وزارتِ خارجہ نے فرانسیسی ریڈیو پر بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ سعد حریری کی نقل و حمل پر کوئی پابندی نہیں، تاہم اس حوالے سے لبنانی سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ انہیں نظر سعودی عرب میں نظر بند کر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سعد حریری فرانسییسی صدر کے دورہ یو اے ای سے قبل ابوظہبی میں موجود تھے، جس سے ہمیں لگتا ہے کو وہ آزاد ہیں۔ سعودی عرب سے موصول ہونے والی مبینہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو لبنان پر حملے کے لئے اکسانا انتہائی خطر ناک عمل ہے۔

وحدت نیوز(مظفرآباد، جہلم ویلی، باغ، نیلم، میرپور، کوٹلی) ریاست آزاد کشمیر میں چہلم امام حسین علیہ السلام مذہبی جوش و خروش سے منایا گیا۔ تمام جلوس پرامن طور پر اختتام پذیر، ہزاروں کی تعداد میں عزاداروں نے شرکت کرتے ہوئے امام حسینؑ اور ان کے جانثار ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تفصیلات کے مطابق دنیا بھر کی طرح آزاد کشمیر میں بھی چہلم امام حسینؑ بھرپور انداز میں منایا گیا۔ اس موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات تھے۔ مقررین نے امام حسینؑ اور ان کے جانثار ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ تا ہم مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کی جانب سے مرکزی رہنماء سید ناصر عباس شیرازی سمیت لاپتہ افراد کی گمشدگیوں اور علامہ سید تصور نقوی پر حملہ کرنے والے مجرمان کی عدم گرفتاری پر احتجاج کیا گیا۔ تمام مرکزی جلوسوں میں قرارداوں کے ذریعے پنجاب حکومت سمیت ارباب اقتدار پر شدید تنقید کی گئی۔خطباء و مقررین نے سید ناصر عباس شیرازی کے اغوا کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے پنجاب حکومت کا سیاہ کارنامہ قرار دیا۔ رانا ثناء اللہ کے کردار کو گھناؤنا قرار دیتے ہوئے حکومت پنجاب سے انتقامی کاروایاں و ملت تشیع کے ساتھ ناروا سلوک بند کیے جانے مطالبات سامنے آئے۔

مقررین نے ملک بھر سے لاپتہ شیعہ افراد کی جلد از جلد بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے ماورائے عدالت اقدامات کو ملکی استحکام کے خلاف گہری سازش سے تعبیر کیا۔ میرپور میں علامہ سید تنویر حسین شیرازی، کوٹلی میں مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل سید طاہر حسین بخاری، باغ میں ضلعی رہنماء ڈاکٹر مزمل رضوی، ہٹیاں بالا میں مجلس وحدت کے ریاستی رہنماء سید عاطف ہمدانی، نیلم میں ضلعی رہنما سید فضائل نقوی اور مظفرآباد مجہوئی کے مرکزی جلوس سے ریاستی رہنماء مولانا سید حمید حسین نقوی نے جلوسوں کے شرکاء سے خطاب میں ملت تشیع کیساتھ کیئے جانے والے بہیمانہ سلوک پر چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے نوٹس لینے اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ مقررین نے آزاد کشمیر حکومت کی علامہ تصور جوادی کیس پر آزاد کشمیر حکومت کی عدم توجہی کی بھرپور مذمت کی اور مجرمان کے نہ پکڑے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب چہلم کے بعد مرکزی رہنماء کی عدم بازیابی اور علامہ تصور جوادی کیس پر عدم توجہی کے خلاف کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہیں صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔ جلد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے میدان میں اتریں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے انتخابی الائنس میں شمولیت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، مجلس وحدت مسلمین نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ انتخابی الائنس بنانے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، مرکزی سیکرٹری سیاسیات سمیت دیگر مرکزی رہنما چہلم امام عالی مقام کے سلسلے میں مراسم عزاء میں مصروف ہیں، مجلس وحدت مسلمین کے کسی بھی ذمہ دار نے نہ ہی کسی انتخابی الائنس کے اجلاس میں شرکت کی ہے اور نہ ہی ہمارے ساتھ کسی نے اس حوالے سے مشاورت کی ہے، ایم ڈبلیوایم کے تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ روابط ہیں، تاہم کسی بھی الائنس یا اتحاد کا فیصلہ مجلس وحدت کا اعلیٰ اختیاراتی ادارہ شوری عالی کرتا ہے۔ انہوں نے ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیوایم سید ناصر شیرازی کی جبری گمشدگی کیخلاف ہمارے ساتھ آواز بلند کی، انشاء اللہ ملک سے لاقانونیت، کرپشن اور انتہا پسندی کیخلاف ہم خیال جماعتوں سے مل کر جدوجہد جاری رکھیں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree