وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) فرقہ وارانہ دہشتگردی کیخلاف اور ملی حقوق کی بازیابی کیلئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے 87 روز تک بھوک ہڑتال کرکے پاکستان کی سطح پر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ عدم تشدد پر مبنی اس تحریک نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو متاثر کیا، یہی وجہ بنی کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھوک ہڑتال کیمپ میں آکر علامہ ناصر عباس سے اظہار یکجہتی کیا اور مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے  نے بھوک ہڑتال ختم ہونے کے بعد ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل سے پہلا خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

سوال: دہشتگردی نے ملک میں عام افراد کا جینا دوبھر کر دیا ہے، آپ نے اس پر تاریخی بھوک ہڑتال بھی کی، اصل مسئلہ کہاں نظر آرہا ہے، ریاست سنجیدہ نہیں ہے یا کوئی اور مسئلہ نظر آرہا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں گذشتہ تین دہائیوں سے ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جو پاکستان کے قومی مفاد اور پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کے خلاف تھیں، جن میں سے ایک پاکستان کے اندر جہادی گروہ بنانا، لشکر بنانا یا تکفیریوں کو منظم کرنا تھا۔ ایسی پالیسی ترتیب دی گئی جس کا مقصد پاکستان کے عوام کو لسانی، علاقائی، قومی، مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنا اور ان کے درمیان نفرت پیدا کرنا تھا۔ یہ ایسی پالیساں تھیں، جن کے نتیجے میں پاکستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوگئے، جس کے باعث پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا اور نیشنل سکیورٹی داو پر لگی۔ یہی وجہ بنی کہ پاکستان کے شیعہ سنی اور اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہوئیں، دہشتگردی اور انتہا پسندی پر ریاستی ادارے تماشا دیکھتے رہے، گلگت بلتستان سے لیکر بلوچستان اور کراچی تک تکفیری دندناتے پھرتے رہے، لیکن یہ لوگ تماشا دیکھتے رہے، مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو سعودی عرب کی طرح، جیسے وہاں کے بادشاہوں اور انتہا پسند مذہبی حلقے میں اتحاد قائم ہوا، جس کے نتیجے میں وہاں پر سو سال پہلے ایک حکومت قائم ہوئی، جس نے پورے علاقے میں ظلم و ستم کیا اور عالمی استکباری قوتوں کیلئے کام کیا اور اسرائیل کیلئے رول ادا کیا۔ اسی انداز میں ضیاء کے زمانے میں اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے انتہا پسند ملاوں اور متشدد لوگوں کو جمع کیا، اس طرح ان کے درمیان اتحاد وجود میں آیا، تاکہ پاکستان کو بھی ایک خاص مسلک والا ملک بنایا جائے، جس میں فوجی اسٹیبلمشنٹ اور ان کے درمیان اتحاد ہو، یہ طاقتور ہوں، ان کے ذریعے افغانستان اور سنٹرل ایشیا کو اسٹریٹیجک ڈبیتھ بنایا جاسکے، یوں اس ریجن کے ذریعے عالمی استکباری قوتوں کے ایجنڈے کو عمل شکل دی جاسکے۔

یہ بڑا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے روس کو شکست دی ہے، یعنی افغانستان میں انہی جہادیوں کے ذریعے سے روس کی شکست دی گئی، آپ کی تو ذمہ داری بنتی تھی کہ آپ سب سے پہلے کشمیر کو آزاد کراتے، آپ امریکہ، سعودی عرب سمیت دیگر عرب شیخوں کو ساتھ ملا کر کشمیر کو آزاد کراتے، ان کو حقوق دلاتے، جو آج تک ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، پس معلوم ہوا کہ جہاد افغان پاکستان کا ایجنڈا نہیں تھا، افغانستان کا جہاد عالمی استکباری قوتوں کا ایجنڈا تھا، جس میں پاکستان استعمال ہوا۔ ان کے ایجنڈے میں پاکستان نے عمل کیا، ان کا ایجنڈا تھا کہ اہل تشیع اور اہل سنت کو کمزور کیا جائے۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں تکفیری قوتیں نام نہاد جہادی قومی اثاثہ ٹھہرے۔ آپ دیکھیں کہ اسی بنیاد پر ان نام نہاد تکفیریوں کو پاکستان کے ریاستی اداروں جن میں فوج اور نیوی شامل ہے، میں بھرتی کیا گیا۔ پاکستان میں آئیڈیالوجیکل تبدیلی کیلئے باقاعدہ کام کیا گیا، پاکستان کے اندر تمام ڈیفنس ہاوسز اتھارٹی کی مساجد میں انہیں تکفیری نظریہ رکھنے والے ملاوں کو بھرتی کیا گیا۔ انہیں مسجدیں دی گئیں۔ عملی طور پر ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ نتیجتاً پاکستان کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ پاکستان کی سب سے بڑی آبادی اہل سنت کی تھی، دوسری آبادی تشیع کی تھی، اسی طرح آپ دیکھیں کہ جب پاکستان بنا تو 25فیصد اقلیتیں تھیں، آج پانچ فیصد رہ گئی ہیں، وہ لوگ جنہوں نے اپنے انتخاب سے پاکستان کو چنا تھا، جنہوں نے بھارت جانے کے بجائے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی انہیں تکفیری دہشتگردوں نے مار مار کر بھگا دیا۔ اہل سنت بریلوی کی آئیڈلوجی تبدیل کی جا رہی ہے، ان کی مساجد پر قبضے کئے گئے۔ اہل تشیع کی یہ آئیڈلوجی تبدیل نہیں کرسکتے تھے، اس لئے انہیں مارنا شروع کر دیا اور ان کی تکفیر شروع کر دی، البتہ تکفیر فقط اہل تشیع کی ہی نہیں بلکہ انہوں نے اہل سنت کی بھی تکفیر کی۔ انہوں نے امام بارگاہوں پر حملے کئے، شخصیات کو شہید کیا، یہ چاہتے تھے کہ قادیانیوں کی طرح تشیع کو بھی منفور کر دیا جائے۔ یوں یہ ملک پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کیلئے جہنم بنا دیا گیا۔ ناامن بنا دیا گیا۔

سوال: بھوک ہڑتال کی ضرورت کیوں محسوس کی اور اسکے نتائج سے مطمئن ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں! ان حالات میں تشیع کے پاس چند راستے تھے، اس ملک کو چھوڑ کر بھاگ جاتے، سر جھکا لیں، انہیں تسلیم کرلیں یا عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنی وطنی، انسانی، دینی اور شرعی ذمہ داریوں کو پورا کریں، ہم بھاگنے والے نہیں تھے اور نہ ہیں، سر جھکانے والے، اسلحہ اٹھانے والے بھی نہیں ہیں، کیونکہ اسلحہ اٹھانے سے خانہ جنگی ہوگی اور ملک برباد ہوگا۔ ہمارے پاس چوتھا راستہ تھا کہ ہم عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنی آواز کو بلند کریں، کیونکہ ہم نے دھرنے دیئے، احتجاجات کئے، لانگ مارچ کیا، پریس کانفرنسز کے ذریعے اپنے نکتہ نظر کو سامنے رکھا، اپنے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے ہماری نہیں سنی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم نے دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع کیا، دراصل جب دہشتگردی کی آگ ان تک پہنچی، تب انہیں ہوش آیا، اس سے پہلے یہ ہماری لاشوں پر نظارہ گر تھے، تماشا دیکھتے تھے، سینکڑوں لوگ مارے جاتے تھے، ہلتے تک نہیں تھے۔ اب جب یہ دہشتگردی کی آگ ان کے بچوں تک پہنچی تو انہوں نے ہوش لیا۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ دہشتگرد تو خطرناک ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے پہلے کہا کہ نہیں دہشتگردوں سے مذاکرات ہونے چاہیئے۔ ہم نے اس کی بھی مخالفت کی تھی، ہم نے کہا کہ تھا کہ یہ بدعت ہے، جو تم کرنے جا رہے ہو، یہ مفسد فی العرض ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔ یہ وطن کے باغی ہیں، قاتل ہیں، ان کے ساتھ مذاکرات ایک بدعت بن جائیگی۔ انہوں نے اپنی ڈاکٹرائن میں تبدیلی کی، آپریشن شروع کیا، نیشنل ایکشن پلان بنا، ہم نے سب کو خوش آمدید کہا، ہم انہیں احتمال دیتے تھے کہ اب یہ کارروائی کریں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد مظلوموں کی امید ہو چلی تھی کہ اب انہیں سکھ کا سانس ملے گا، اب انہیں ریلیف ملے گا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

نیشنل ایکشن پلان کو تبدیل کر دیا گیا، ضرب عضب کی پشت پر خنجر مار دیا گیا، اہل تشیع اور اہل سنت سمیت عدم تحفظ کا شکار اقلتیوں پر دباو بڑھا دیا گیا، انہوں نے وہی پالیسی دوبارہ اپنا لی کہ اہل تشیع کو ریلیف نہیں دینا۔ انہیں پریشان رکھنا ہے، حتٰی اقلیتیں اور اہل سنت کو بھی ریلیف نہیں دیا گیا۔ آپ نے سوال کیا کہ بھوک ہڑتال کیوں کی، تو گذارش ہے کہ تازہ صورتحال ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، کراچی، پاراچنار، گلگت بلتستان سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے واقعات پر حکومت توجہ نہیں دے رہی تھی، اس پر ہم نے سوچا اس پر آواز اٹھانی چاہیے، گرمیاں شدید تھیں، اس لئے سوچا کہ عوام کو مشکلات میں ڈالنے کے بجائے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالتے ہیں، ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، اس حوالے سے بھوک ہڑتال کا سوچا گیا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق بھوک ہڑتال شروع کی گئی، تاکہ ظلم کے خلاف میدان میں آجایا، آواز بلند کی جائے، ظالموں کو رسوا کیا جائے، مایوسی کا خاتمہ کیا جائے، منافقت کو آشکار کیا جائے۔ پاکستان میں اس وقت منافقت ہو رہی ہے کہ جس طرح کشمیر میں ہو رہا ہے۔ ہم کشمیر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ No liberation with Occupation, اسی طرح پاکستان حوالے سے کہیں گے کہ No war against terrorists while considering The Takferis as a strigic assests, dividing them between good and bad terrorist.۔ یہ لوگ دہشتگردوں کو مینیج کرنا چاہتے ہیں، یہ دھوکہ ہے، یہ دہشتگردی کا خاتمہ نہیں چاہتے، جو ان پر حملے کرتے ہیں، ان کو مارنا چاہتے ہیں یا انہیں مینج کرنا چاہتے ہیں۔

آپ نے پوچھا کہ اس تحریک سے کیا حاصل کیا تو عرض خدمت ہے کہ ہم نے اپنی تحریک سے سماجی رابطوں کو بڑھایا ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات ہماری طرف آئے ہیں، تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ہمارے پاس آئی ہیں، ہمارے ساتھ ہمارے مطالبات کی حمایت کی ہے، ہماری مظلومیت میں ہمارا ساتھ دیا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے شہداء اور ان کی مظلومیت کو تکفیریت کے کفن میں دفن کر دیں، یا ایران سعودی پراکسی کا نام دیکر دفن کر دیں۔ ہم نے ایسے نہیں ہونے دیا۔ ہم نے خاموشی اختیار نہیں کی، ہم نے اپنی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ہے۔ دشمن اپنے مکر و فریب کے ذریعے چاہتا ہے کہ مظلوموں کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔ ہم نے اپنی مظلومیت کے تقدس پر داغ اور دھبہ نہیں لگنے دیا۔ یہ ہماری جدوجہد کا سرمایہ ہے۔ یہ ہماری میراث ہے۔ ہمیں اپنے شہیدوں کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیئے، ہم نے عزاداری سیدالشہداء مولا حسین علیہ السلام کے ذریعے تمام آئمہ کی شہادتوں کو زندہ رکھا ہے، ان کی مظلومیت کو فراموش نہیں ہونے دیا ہے، ان کے تقدس پر حرف نہیں آنے دیا ہے، ہماری جدوجہد بے سرمایہ نہیں رہ سکتی۔ لہٰذا ہم نے پُرامن دھرنے دیکر، پُرامن لانگ مارچ کرکے، پرامن احتجاجی بھوک ہڑتال کرکے ہم نے اپنی مظلومیت کے تقدس کو باقی رکھا، دشمن ہمیں تنہا کرنے کی سازشیں کر رہا تھا، جسے ہم نے ناکام بنایا، دنیا نے دیکھا کہ ہمارا دشمن کتنا پریشان تھا، سوشل میڈیا پر تکفیریوں کا پروپیگنڈا ان کی پریشانی کا منہ بولتا ثبوت تھا، لیکن الحمدللہ ہم نے اپنی کامیاب اور خوبصورت حکمت عملی کے ذریعے تکفیریوں کو شکست فاش دی، البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کچھ اپنے بھی غیروں کے پروپیگنڈا کا شکار ہوئے، کچھ اپنوں کی آواز بھی تکفیریوں کی آوازوں سے ملتی جلتی تھی، امید ہے کہ ہمارے اپنے ہوش کے ناخن لیں گے۔

سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک سے قوم کی بھی کوئی تربیت ہوئی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان کی قوم بیدار ہو چکی ہے، عوام آگاہ و بیدار ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ کون قوم و ملت کیلئے قربانیاں دینے والا ہے، قوم جانتی ہے کہ کون ان کیلئے مر مٹنے والا ہے، کون ان کیلئے میدان میں حاضر رہتا ہے، کون ان کیلئے دلسوز ہے اور کون قوم کو بے وقوف بنا کر، دھوکہ دیکر ذاتی فائدہ اٹھانے والا ہے۔ لہٰذا میں ان اپنوں سے کہتا ہوں کہ قوم دھوکہ کھانے والی نہیں ہے، قوم کو اب دھوکہ نہیں دیا جا سکتا، لہٰذا یہ ہوش کے ناخن لیں اور ایسے کام نہ کریں کہ جس سے قوم آپ سے نفرت کرنے لگے، اگر کوئی کام آپ کو پسند نہیں ہے تو چپ رہیں، یہ خاموشی اور چپ رہنا تمہارے حق میں بہتر ہے، ہم شہید قائد کے معنوی فرزند ہیں، شہید کی عظیم میراث کے وارث ہیں، ہم نے وہی پرچم اٹھایا ہوا ہے، جو شہید قائد کے ہاتھوں میں تھا، ہم خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے، لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے، میدان میں ثابت قدم رہیں گے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں میدان سے باہر نہیں نکال سکتی، ہم اپنی قوم و ملت و وطن پر فدا ہو جائیں گے، لیکن پیچھے ہرگز نہیں ہٹیں گے۔

سوال: آپ نے اسلام آباد میں شہید قائد کی برسی کے مرکزی اجتماع پر تحریک کو ایک نئی جہت دی ہے، اس حوالے سے کیا بیان کرنا چاہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان کے بارے میں آجکل یہ بات بہت مشہور ہے کہ ہمارا بیانیہ (narrative) کیا ہے، ہمیں ایک بیانیے (narrative) کی ضرورت ہے، کوئی کہتا ہے کہ ہمیں نیا پاکستان چاہیئے، کوئی کچھ اور کہتا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیئے، قائد اعظم کی تقاریر، بیانات، فرامین ہمارے سامنے موجود ہیں، ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، علامہ اقبال کے اشعار میں سارے حقائق موجود ہیں، ہمیں سبز ہلالی پرچم والا پاکستان چاہیئے، ہمیں انتہا پسندی کا حامل مسلکی پاکستان نہیں چاہیئے، امتیازی سلوک والا پاکستان نہیں چاہیئے، ہمیں ایسا پاکستان چاہیئے کہ جہاں عیسائی بھی چرچ میں بغیر کسی خوف و ڈر کے اپنی عبادات سکون و آسانی کے ساتھ انجام دے سکیں، سکھ اپنے گوردوارے میں، ہندوں اپنے مندر میں بلاخوف و خطر جائے، تمام مسلمان مساجد، امام بارگاہوں، درگاہوں، مزارات میں بلاخوف و خطر جائیں، پاکستان میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے نظریات دوسروں پر جبری طور پر مسلط کرے اور پاکستان کو ایک انتہا پسند مسلکی پاکستان بنائے، ہم تشیع اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ہم پاکستان کو ایک خاص سوچ رکھنے والا تکفیری مسلکی پاکستان نہیں بننے دینگے، اس کا راستہ روکنے کیلئے ہمیں ملک کو قائد و اقبال و سبز ہلالی پرچم والا پاکستان بنانا ہوگا، اس کیلئے ہم اپنی احتجاجی تحریک کو پورے پاکستان میں پھیلائیں گے۔ پاکستان کے جوانوں کو، بوڑھوں کو، مرد و زن کو سب کو اپنا پیغام پہنچائیں گے، انہیں اپنے ساتھ شامل کرینگے، ہماری تحریک کسی مسلک و مکتب کی جدوجہد نہیں ہے بلکہ یہ محب وطن پاکستانیوں کی جہدوجہد ہے، جس کا الحمدللہ آغاز ہوچکا ہے، دنیا نے دیکھا کہ جب ہم نے بھوک ہڑتالی کیمپ سے قائد و اقبال کے پاکستان کی باتیں شروع کیں، تو اس بیانیے (narrative) کو میڈیا نے بھی دہرانا شروع کر دیا، سیاسی شخصیات نے بھی اسے اپنی تقاریر میں کہنا شروع کر دیا، ہم نے پاکستان مارچ کی باتیں کیں، تو اب بہت سی سیاسی جماعتوں نے پاکستان مارچ کے بھی اعلانات کرنا شروع کر دیئے ہیں، ہمیں نیا پاکستان نہیں بلکہ ہمیں قائداعظم و علامہ اقبال والا پاکستان چاہیئے، یہی ہمارا بیانیہ (narrative) ہے، قائد و اقبال و سبز ہلالی پرچم والے پاکستان کے ذریعے ہی تکفیریت کو شکست دی جاسکتی ہے۔

سوال: 2 ستمبر کو مجلس وحدت مسلمین کی حکمت عملی کیا ہوگی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں ظلم کے خلاف ہماری لمبی اور طولانی لڑائی ہے، احتجاجی دھرنے ایک معرکہ تھا، لانگ مارچ ایک معرکہ تھا، بھوک ہڑتال ایک معرکہ تھا، اس کے بعد کئی معرکے آتے رہیں گے، دشمن میدان میں ہے، کام کر رہا ہے، دشمن نے پاکستان کے اہم اداروں میں نفوذ کر رکھا ہے، پاکستان کے فیصلہ ساز حلقوں میں دشمن کا نفوذ ہے، دشمن کا سیاسی نفوذ ہے، اسکا عسکری اسٹیبلشمنٹ میں نفوذ ہے، اسکا ثقافتی نفوذ ہے، اسکا میڈیا میں نفوذ ہے، لہٰذا یہ ایک دو دن کی نہیں بلکہ ایک طولانی لڑائی ہے، اپنے حقوق کیلئے بھی اور وطن کیلئے بھی، ان شاء اللہ ہم 2 ستمبر کو لاہور میں ایک انتہائی موثر اور باوقار دھرنا دینگے، فقط چند مطالبات کیلئے ہماری جدوجہد نہیں ہے، جب تک ہم ملک کو قائد و اقبال کا پاکستان نہیں بنا لیتے، ہم میدان میں حاضر رہینگے، ہماری جہدوجہد جاری رہے گی۔

سوال: پاکستان کا قومی مفاد کیا ہے اور اسکی حفاظت کیسے ممکن ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: قومی مفاد کی بہت ساری تعریفیں (definitions) بیان کی جاتی ہیں، میں آپ کو ایک تعریف بیان کرتا ہوں، جس کے اندر تقریباً ساری تعریفیں آجاتی ہیں: "the protection of physical, political and cultural identity against encroachments by other nation-states”. یعنی قومی مفاد کا معنی یہ ہیں کہ اہم جزو (vital component) ایک ملک کی physical, political and cultural identity ہیں، جن کا ہم تحفظ کرینگے، دوسرے ممالک کی جانب سے ہونے والے تجاوزات و مداخلت کے خلاف۔ فزیکل میں ہماری سرحدیں آجاتی ہیں، انکی حفاظت ہمارا قومی مفاد ہے، ملکی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی ہمارا قوم مفاد ہے، جس نظریئے کی بنیاد پر ہمارا پاکستان قائم ہوا، وہ ہمارا قومی مفاد ہے، اسی طرح ملک مین سیاسی نظام کو محفوظ و طاقتور رکھنا بھی قوم مفاد ہے، اسی طرح ملکی ثقافت کا تحفظ بھی قومی مفاد ہے۔ ملکی صورتحال سب کے سامنے ہے، ہماری سرحدوں کی کیا صورتحال ہے، دشمن جنگ ہمارے ملک کے اندر لے کر آگیا ہے، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا، فاٹا، سندھ کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، جنگ ہو رہی ہے، پاکستان کے قومی مفاد خطرات سے دوچار ہیں، حملوں کی زد میں ہیں، یہ کس کا نتیجہ ہے، جن کی ذمہ داری تھی قومی مفاد کا تحفظ، انہوں نے اپنی ذمہ داری انجام نہیں دی ہے، انہوں نے پاکستان میں یہ جو دہشتگرد پالے ہیں، تکفیری پالے ہیں۔ ان سب کا بیس کیمپ بھارت میں ہے، یہ عجیب بات ہے، ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور دوسری طرف جن کا بیس کیمپ بھارت میں ہے، انہی کے لشکر اور ٹولے پاکستان کے اندر بنائے ہوئے ہیں۔

آج بھارت انہیں استعمال کر رہا ہے، پاکستان کے خلاف، بھارت انہی دہشتگرد لشکروں اور ٹولوں کے ذریعے جنگ پاکستان کے اندر لیکر آ رہا ہے، بھارت شیعوں، اہل سنت بریلویوں کے ذریعے پاکستان میں جنگ نہیں کر رہا ہے، بلکہ بھارت ان کے ذریعے پاکستان کے اندر جنگ کر رہا ہے، جن کے مسلح لشکر، مسلح گروہ، مسلح جتھے ملک کے اندر ہمارے ریاستی اداروں اور عسکری اداروں نے بنائے ہیں۔ سیاسی نظام کو بھی جان بوجھ کر انتہائی کمزور کر دیا گیا ہے، جبکہ مضبوط سیاسی نظام ملکی قومی مفاد میں سے ہوتا ہے، سیاسی نظام، سیاسی ادارے، اسکی پوزیشن، اسکی جماعتیں سب۔ اسی طرح سے ثقافتی طور پر دیکھ لیں، ثقافتی طور پر ہمارے ملک کے اندر غیر اسلامی ثقافتی یلغار ہے، بھارتی فلمیں، ڈرامے، گانے، بھارتی ثقافت، غیر ملکی و غیر اسلامی و مغربی ثقافت، ایک یلغار ہے، کوئی ہے اسکا مقابلہ کرنے والا، اسے روکنے والا، یہ پیمرا نام ادارہ جو انہوں نے بنایا ہوا ہے، وہ بھی اس لئے کہ کوئی حکومت کے خلاف بات نہ کرے۔ ہمارے حکمرانوں کو صرف اور صرف یہ فکر لاحق ہے کہ ان کے خلاف کوئی بیان نہ دے، یہ سائبر کرائم بل بھی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے بنایا ہوا ہے، اس میں حزب اقتدار اور اپوزیشن دونوں شریک ہیں، کیونکہ جو بھی اپوزیشن ہے، وہ کہیں نہ کہیں حکومت بھی کر رہا ہے، کوئی خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہا ہے، کوئی سندھ میں، کوئی بلوچستان میں تو کوئی پنجاب میں، کوئی مرکز میں، یہ سارے حکمران ہیں، اس ملک میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جغرافیائی و نظریاتی سرحدیں، ہماری سیاسی و ثقافتی شناخت خطرات سے دوچار ہیں، ان پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے، اس میں تمام ریاستی اداروں کی نالائقی، نااہلی، مجرمانہ غفلت اور خیانتیں شامل ہیں۔

سوال: ترکی، روس اور ایران کی قربتیں بڑھنے کا امکان نظر آ رہا ہے، ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوگان روس کے بعد اب وہ پہلے اسلامی ملک کا دورہ کر رہے ہیں تو وہ جمہوری اسلامی ایران ہے، آپ اس منظر نامے کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دنیا کے Hot points میں گلف (Gulf) ایک انتہائی اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا 1947ء کے بعد سے ہی عرب اسرائیل تنازعہ گلف کے اندر مشہور و جاری ہے، سوویت یونین (موجودہ روس) کے بحیثیت سپر پاور ختم ہونے کے بعد امریکہ دنیا تنہا رہ گیا، پھر اس سے قبل 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوچکا تھا، جس سے پورے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک مزاحمت وجود میں آچکی تھی، جس کے بعد عرب اسرائیل تنازعہ تبدیل ہو گیا، اب سعودی یہ کردار ادا کررہے ہیں کہ عرب اسرائیل تنازعہ، ایران عرب تنازعہ میں تبدیل ہوجائے، اسرائیل اور مزاحمت بلاک کے درمیان جنگ میں، عرب منافقوں کے چہروں سے نقاب الٹ گیا تھا کہ یہ اسرائیل کے ایجنٹ ہے، اسرائیل سے رابطے میں ہیں، اسرائیل کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد جب مقاومتی مزاحمتی بلاک اور اسرائیل آمنے سامنے آگئے تو اس کے نتیجے میں خطے میں امریکہ کا بنایا ہوا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، سوویت یونین ( موجودہ روس) کے بکھرنے کے بعد امریکہ نے دنیا کو آرڈر دینے کی مختلف کوششیں کیں کہ نئی دنیا بنائی جائے جس میں امریکہ تنہا سپر پاور ہو۔ سلسلہ بڑھتا رہا، لہٰذا اب دنیا ایک عبوری دور (transitional period) سے گزر رہی ہے، دنیا re-shape ہو رہی ہے، نیا نظم دنیا میں آ رہا ہے، دنیا میں مختلف طاقتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں، وجود میں آ رہی ہیں، امریکہ نے کوشش کی کہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق شکل میں ڈھالیں، 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جنگ بھی اسی وجہ سے ہوئی، جس میں اسرائیل کی حزب اللہ کے ہاتھوں رسوا کن شکست کے بعد شام کے اندر دہشتگردی و خانہ جنگی شروع کی گئی، کیونکہ شام مقاومتی و مزاحمتی بلاک کا اہم ستون ہے، اگر خدانخواستہ یہ ٹوٹ جاتا ہے تو سمجھ لیں کہ امریکہ کی مرضی کا دنیا کو آرڈر مل جائیگا۔

یہ جو hot point ہے نا یہ۔۔ یہاں مقاومت کا بلاک بھی آگیا ہے، امریکہ ایک طرف روس کو بھی پیچھے دھکیل رہا تھا، کیونکہ امریکہ نے لیبیا میں روس کو پیچھے دھکیلا، امریکی کی کوشش تھی کہ روس کو اپنی سرحدوں کے اندر محدود کر دیا جائے، لہٰذا مقاومت کے بلاک نے مقابلہ شروع کیا تو روس نے بھی ساتھ دیا۔ یوں اس ریجن مین باقاعدہ پنجہ آزمائی شروع ہوگئی۔ اب چائنہ بھی ساتھ کھڑا ہو گیا، چین نے سیکیورٹی کونسل میں وویٹو کیا، امریکی بلاک میں اہم ممالک ترکی، اردن، قطر اور سعودی ساتھ تھے، پیسہ بھی دے رہا تھا اور بیس کیمپ بھی بنے ہوئے تھے۔ جیسے پاکستان بیس کیمپ بنا تھا روس کے خلاف، اسی طرح ترکی بھی شام کے خلاف بیس کیمپ بنا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ جنگ بیس دن اور ایک ماہ میں ختم ہوجائیگی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، آج پانچ سال ہوگئے، اپنی تمام طاقت اکٹھی کرلی ہے، لیکن بشار کو نہیں ہٹا سکے۔ امریکہ کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اس نے دیکھا کہ ترکی کو احساس ہوگیا کہ وہ آئندہ بڑی مشکلات کا شکار ہونے والے ہیں تو انہوں نے اپنے خارجہ تعلقات میں تبدیلی لانا شروع کر دی، ان کے بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ امریکیوں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ ترکی کوئی باقاعدہ اسٹینڈ لے لے تو انہوں نے فوجی بغاوت کرا دی۔ آپ ذہن میں رکھ لیں کہ امریکیوں نے مقاومتی بلاک کو کہاں سے مصروف رکھا ہوا ہے، افغانستان، عراق، شام، یمن، بحرین، لبنان اور یمن تک مصروف رکھا ہوا ہے۔ تاکہ ان کی توانائیاں بکھری رہیں۔ انہوں نے ترکی کے ساتھ خیانت کی، لیکن اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑا شفٹ آرہا ہے، اردوگان روس گیا، ایران کا وزیر خارجہ ترکی گیا، ایوان صدر میں نماز جمعہ ادا کی، ترکی ہم منصب نے ایرانی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔ جلد ترک صدر ایران آرہا ہے۔ یہ بڑی تبدیلی سامنے آرہی ہے۔ گویا اب دنیا ٹرانشنل پیریڈ مکمل کرنے والی ہے، دنیا اب ایک نئی شکل میں سامنے آنے والی ہے۔ مختلف طاقتیں سامنے آرہی ہے، اب امریکہ تنہا دنیا کو نئی شیپ نہیں دے سکتا، اس میں جتنی طاقتیں دنیا کو ری شیپ دینے میں سامنے آئیں گی، دنیا اتنی بہتر ہوتی چلی جائے گی۔

ترکی کا ایران اور روس کے ساتھ کھڑا ہونا امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی شکست ہے، ان ممالک کے لئے خطرناک ہے، جب ترکی کا بارڈر بند ہوگا تو دہشتگردوں کو شکست یقینی ہوگی، میں آل سعود، امریکہ اور اسرائیل کی شکست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ یمن میں ہونے والے دو روز قبل کے مظاہرے حقیقت میں ملین مارچ تھے، لاکھوں نے شرکت کی۔ سیاسی شخصیت نے کہا کہ یہ چار عرب ممالک ہم پر حملہ آور ہیں، ان کی کل آبادی سے زیادہ لوگ اس وقت ان کے خلاف یہاں جمع ہیں۔ آج ریفرنڈم تھا۔ سیاسی کونسل کے حق میں اور سعودیوں اور ان کے حامیوں کے خلاف عوام کا ریفرنڈم تھا۔ اس سے پوری دنیا بدلے گی۔ دنیا ری شپ ہو رہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت حلب میں چائینہ کے لوگ لڑ رہے ہیں سنکیانگ سے گئے ہوئے ہیں، کیوں امریکیوں کی سازش تھی کہ افغانستان کے بعد ان جہادیوں کو چائنہ اور روس کے خلاف لڑایا جائیگا۔ یہاں اب عقل مند ہوکر فیصلے کرنا ہوگا، پاکستان اگر ابھی بھی سعودی بلاک میں کھڑا رہے گا تو بہت بڑا نقصان اٹھائے گا۔ سعودیوں کی کوشش تھی کہ ایران اسرائیل تنازعہ کو عرب ایران تنازعے میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس کیلئے 34 ممالک کا اتحاد بنایا گیا، او آئی سی اور عرب لیگ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب عالمی صیہونیوں کی سازش کیلئے اہم کردار ادا کر رہا ہے، اگر پاکستان وہاں جاکر کھڑا ہوتا ہے اور جنگی مشقیں کرتا ہے اسرائیلوں کے ساتھ تو قائد اعظم کے اصولوں کے خلاف ہے، پاکستانی کبھی معاف نہیں کریں گے کہ اس کی فوج اسرائیلوں کے ساتھ جنگی مشقیں کرے، پاکستان کے عوام یہ برادشت نہیں کرتے کہ وہ فرقہ وارانہ اتحاد میں شامل ہو۔ جس کی سوچ فرقہ وارانہ ہو۔ پاکستان کے عوام کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ ان قوتوں کو کمزور کیا جائے جو اسرائیل کے خلاف لڑ رہی ہیں، جو قبلہ اول کی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ سید حسن ظفر نقوی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ وہ ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس کے فارغ التحصیل ہیں، دنیا بھر میں انقلابی مجالس پڑھنے کے حوالے سے مشہور ہیں، کراچی سے خصوصی طور پر علامہ ناصر عباس جعفری کا ساتھ دینے کیلئے اسلام آباد میں لگائے گئے ہڑتالی کیمپ میں تقریباً 70دن تک موجود رہے، تاہم عارضہ قلب کی تکلیف ہونے کے باعث تین دن اسلام آباد کے مقامی اسپتال میں زیرعلاج رہے، جہاں ان کی انجیوگرافی کی گئی اور بعد میں انہیں ڈاکٹرز کی ہدایت پر کراچی منتقل کر دیا گیا۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے 70 دن تک مظلومین کی آواز بلند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلام ٹائمز نے ان سے بھوک ہڑتالی کیمپ اور کشمیر کے معاملے پر ایک اہم انٹرویو کیا، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

 

سوال: 13 مئی سے شروع ہونیوالی اس بھوک ہڑتال سے ابتک کیا اہداف حاصل ہوئے ہیں۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: مختصراً یہ بتاتا ہوں کہ ہمیں یہ کامیابی ضرور ملی ہے کہ لوہے کے کانوں پر لوہے برسانہ شروع کر دیئے ہیں، پوری دنیا میں ہماری جدوجہد کی بات ہو رہی ہے، عالمی سطح پر اس معاملے کو پذیرائی ملی ہے، مظلوموں کی بات کو اب سنا جا رہا ہے، یہ اسی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، ابھی نامعلوم کہ کتنے دن اور بیٹھنا پڑے، یہ صبر آزما تحریک ہوتی ہے، دیکھئے کہ کامیابی کے رمز کیا ہیں۔؟ جب سیلاب آتا ہے تو بڑی بڑی چیزیں بہا کر ساتھ لے جاتا ہے، لیکن پتھر اپنے مقام پر باقی رہتا ہے، لیکن جب اسی بڑے پتھر پر مسلسل تین چار مہینے پانی کا قطرہ ایک مقام پر گرتا رہے تو اس جگہ پر ایک سوراخ بن جاتا ہے۔ یہ پھوک ہڑتال بھی اس قطرے کی ماند ہے، سمندر کا پانی تو ایک بار آکر چلے جائیگا، لیکن اس بڑے پتھر کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن قطرہ اس پر ضرور اثر ڈالے گا، یہ بھوک ہڑتال کا خیمہ بھی اس قطرے کی ماند ہے، اس پتھر میں سوراخ پڑ چکا ہے، ان کے اندر دو حصے ہوگئے ہیں، یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں، ہم پوری دنیا میں اپنی مظلومیت منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

جیسے گلگت بلتستان میں زمینوں کا مسئلہ تھا وہ رک گیا ہے، اسی طرح پارا چنار کا مسئلہ تھا، وہ 90 فیصد حل ہوگیا ہے، جیسے پاراچنار کے مومنین چاہتے تھے ویسے ہی حل ہوا ہے۔ مومنین خود کہہ رہے ہیں کہ ہم مطمئن ہیں، جس طرح ہم چاہتے تھے اسی طرح جرگہ بیٹھا ہے اور مسئلہ حل کیا ہے۔ ان کی تفصیلات جلد قوم کو بتائیں گے۔ باقی جگہوں پر نوٹیفیکیشن جلد جاری ہوں گے، کامیابی اور ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم اپنی استقامت کے ساتھ مطمئن ہیں۔ ہماری تحریک سے قوم مضبوط ہوئی ہے، اس سے اتحاد پیدا ہوا ہے، ہم جو دنیا کو عدم تشدد کی تحریک پیش کرنا چاہتے تھے، اس میں 100 فیصد کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے باور کرایا ہے کہ تشدد کے ذریعہ تشدد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کربلا نے بھی ہمیں یہی سکھایا ہے، تلوار کے اوپر خون کی فتح تھی، ہاں دفاع واجب ہے۔ جہاں پر دشمن حملہ آور ہو جائے، اس کا دفاع کریں۔ سید سجاد اور حضرت زینیب کی تحریک نے یزیدیت کو گالی بنا دیا۔ یہ خیمہ ان ظالموں پر قطرے کی ماند سوراخ کرتا رہے گا۔ ابراھہ کے لشکر کو ابابیل کی کنکیریوں نے ختم کیا تھا، اس حکومت کو مظلموم وہ سبق سکھائیں گے کہ یہ یاد رکھیں گے۔

سوال: علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ اب شہداء کے ورثاء بیٹھیں گے، کیا کوئی حکمت عملی میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: دیکھیں! حکمت عملی پہلے نہیں بتائی جاتی، پہلے سے طے کردہ چیزیں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں، اب دوسری حکمت عملی سامنے آئی ہے، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے بہت دباو ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ سینکڑوں شہداء کے ورثاء یہاں اظہار یکجہتی کیلئے آچکے ہیں۔ یہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے دباو آیا ہے کہ اب ایک ہی بندہ فقط بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھے گا، اب شہداء کے ورثاء ایک ایک کرکے بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ابھی پاکستان مارچ سمیت کئی آپشن موجود ہیں۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

سوال: حکومت کیساتھ رابطوں کی کیا صورتحال ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: جی دیکھیں رابطے کیوں نہیں ہوئے، رابطے تو ہوئے ہیں اور مسلسل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں، اسی طرح ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے ملاقات ہوئی ہے، اس کے علاوہ ہوم سیکرٹریز، چیف سیکرٹری سب آتے ہیں اور رابطے میں ہیں، لیکن مسئلہ وہیں اٹکا ہوا ہے کہ ہم آپ کے مطالبات تسلیم کرتے ہیں، بس آپ بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ بھائی مسئلہ ماننے یا تسلیم کرنے کا تھوڑا ہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عملی طور پر کچھ چیزیں تو جاری کریں نا۔ کوئی چیز لکھنے میں سامنے تو آئیں ناں، کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔ کچھ تو عملی ہو۔ ہم کوئی ضد پر تھوڑا اڑے ہوئے ہیں، بھائی آپ خود کہتے ہیں کہ آپ کے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، بس اس پر عمل کریں۔ اتنی سی بات ہے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ کسی حکومت گرانے کی تحریک کا حصہ نہیں بن رہے۔ اس کو ہم نے بار بار کہا ہے اور زور دیکر کہا ہے۔ ہماری تحریک فقط اہل تشیع کے حقوق کیلئے ہے۔ اس کو مان لو، ہم اٹھ کر چلے جائیں گے۔ ہم صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی ایجنڈے کے تحت نہیں بیٹھے ہیں۔

سوال: اہم مطالبات کیا ہیں، جن پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو آپ لوگ اٹھ جائیں گے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: پنجاب اور کے پی کے میں اور بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن ہونا چاہیے۔ بلآخر کراچی میں آپریشن ہوا یا نہیں۔ آخر فاٹا میں آپریشن ہوا یا نہیں ہوا، چھوٹو گینگ کو پکڑنے کیلئے آرمی جاتی ہے یا نہیں۔؟ ہمارا سوال یہی ہے کہ جب فاٹا میں آپریشن ہوسکتا ہے تو ڈیرہ میں کیوں آپریشن نہیں کیا جاتا، وہاں آرمی کو کیوں نہیں اختیارات دیئے جاتے۔ ایپکس کمیٹی کا اجلاس تو وزیراعلٰی نے بلانا ہوتا ہے، ابتک اجلاس کیوں نہیں بلایا جاتا۔ پنجاب میں ہزاروں عزاداروں کے خلاف ایف آرز درج ہیں، ان کو واپس لیا جائے۔ گلگت بلتستان کی زمینیوں پر کیوں قبضہ کیا جا رہا ہے؟، سی پیک پر کام کرو گے تو کیا زمینوں پر قبضے کرو گے، جن لوگوں نے اپنے زور بازو سے ڈوگرا راج سے خطے کو آزاد کرایا اور اپنے آپ کو پاکستان کے حوالے کر دیا، تم ان کی زمینیں چھین رہے ہو، بالش خیل کی زمینیں چھین رہے ہو، جنہوں نے طالبان کے خلاف جنگ لڑی۔ آج تم انہی دہشتگردوں کو لاکر آباد کر رہے ہو۔ جو لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ان کے دلوں میں نفرت ڈال رہے ہو۔ ہمارے سیدھے سیدھے مطالبات ہیں، ان عمل کرو، ہم چلے جائیں گے۔ دو تین مطالبات مان لئے ہیں، باقی بھی مان لو، ہم چلے جائیں گے۔

سوال: کشمیر کے معاملے پر ملت جعفریہ کا کیا موقف ہے۔ عجب ہے کہ تشیع کشمیر کے معاملے پر وہ جذبہ جو قدس کے معاملے پر دکھاتی ہے وہ نہیں دکھاتی، جبکہ دیوبند اور اہل سنت حضرات جتنا جذبہ کشمیر کے معاملے پر دکھاتے ہیں، وہ قدس کیلئے نہیں دکھاتے، جبکہ دونوں اطراف میں مر مسلمان ہی رہے ہیں۔ اسکی وجہ بھی بیان فرما دیں۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: ہمارا کشمیر پر اٹل فیصلہ ہے۔ بدقسمتی سے معاملہ کو شیعہ سنی بنا دیا گیا ہے اور تفریق ڈال دی گئی ہے، 65ء کی جنگ کے بعد سے پوری ملت جس میں بلاتخصیص مذہب و فرقہ سب نے کشمیر کے معاملے پر ایک ہی موقف اپنایا ہے۔ ہم مسلمانوں ہونے کے ناطے اور پاکستانی ہونے کے ناطے کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیریوں کے معاملے پر جو کرسکتی تھی وہ کیا ہے، ہم نے مظاہرے بھی کئے ہیں، مشعل بردار ریلیاں بھی نکالی ہیں۔ تیسری بات کہ ہمیں حکمت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے جس طرح ملک کو شدت پسندی کی طرف لے جایا گیا، کشمیر افغانستان کے معاملے پر ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے جوان اس میں اس طرح شامل ہوں اور ان کی لسٹیں عالمی سطح پر جائیں۔ بدقسمتی کے ساتھ اس طرح ماضی میں رہا ہے۔ بعد میں وہی جہادی دہشتگرد بن گئے۔

جن لوگوں نے افغانستان اور دیگر جگہوں پر جہاد کیا، اس پر ان کو بھی، ان کے خاندان کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔ مسئلہ ملت کا نہیں ہے، پوری ملت کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، مسئلہ حکومت کا ہے کہ جس کی پالیسیاں صبح شام قلابازیاں کھاتی ہیں، اس کا مسئلہ ہے۔ ہم ان قلابازیوں کی وجہ سے اس ایکسٹریم لیول پر نہیں جانا چاہتے۔ کل ان کی پالیسی بدلے گی، یہ ان کے ساتھ تجارت شروع کر دیں گے۔ یہ وہ حکمران ہیں، جو کہتے ہیں کہ ایک لکیر کھچ گئی ورنہ ہم تو ایک ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہم ان سے کشمیر کے حوالے سے کیا توقع رکھیں، یہ کیا آواز اٹھائیں گے۔ جس کے حکمران بھارت میں جاکر کہتے ہوں کہ یہ ایک لکھیر کھچ گئی تھی، ورنہ تو ہم تو ایک ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کمزوری شیعہ سنی میں نہیں ہے بلکہ یہ کمزوری حکمرانوں میں ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پوری ملت کی آواز سب کو سنائی دیتی ہے، لیکن حکمرانوں کی آواز اتنی نحیف پڑ چکی ہے کہ کسی کو سنائی ہی نہیں دیتی۔

سوال : پاکستان 34 ملکی اتحاد کا حصہ بنا، ساتھ کھڑا ہوگیا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک نے بھی کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کیا۔ یہ خارجہ پالیسی کی ایک اور ناکامی نہیں ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: اس وقت بھی ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آپ جو یہ معاہدے کر رہے ہیں، فلاں ملک پر حملہ ہوا تو آپ جائیں گے، فلاں ملک پر یہ ہوا تو ہم یہ کر دیں گے، کیا کسی ایک معاہدے کی شق میں یہ بات ڈلوائی ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر حملہ آور ہوا تو یہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ جنگ ہوئی تو کوئی ہماری امداد کو آئیگا؟، ابھی جو کشمیر میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ ان 34 ملکوں میں سے کسی ایک ملک کا نام لے لیں اور بتائیں کہ کسی ایک ملک نے آپ کی حمایت کی ہو اور بھارت کی مذمت کی ہو۔ کوئی ایک ملک بھی آپ کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی کا کچھ پتہ نہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ کب یہ کہاں پھینک دیں۔ اس لئے ہمیں تدبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہم دانشمندی کے ساتھ آگے چلتے ہیں۔ پاکستان کی پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، حکمرانوں کا کچھ پتہ نہیں کہ کب اپنی پالیسی تبدیل کر دیں۔ جس طرح ان کی سشما سوراج اور دیگر بیان دیتے ہیں، ان کا جواب تک یہ لوگ نہیں دیتے۔ یہاں تک وہ کہہ گئے ہیں کہ ہم پاکستان پر بمباری کریں گے، کیا یہاں سے کوئی جواب دیا گیا۔ کیا سارا ملبہ پاکستان پر ہی ڈالنا ہے۔ اگر فوج نے ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر آپ اپنا بوریا بستر اٹھائیں اور چلے جائیں۔ نہ خارجہ پالیسی ہے اور نہ داخلہ پالیسی ہے، کشمیر کے معاملے پر حکومت کی کوئی پالیسی ہی واضح نہیں ہے۔ قوم کو پتہ نہی نہں کہ پالیسی ہے کیا۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)حجة الاسلام مولانا سید باقر عباس زیدی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ مدرسہ المہدی و جامعہ امامیہ کراچی کے پرنسپل اور ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں، جبکہ وہ مسجد المصطفٰی (ص) گلشن معمار کراچی میں امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے رکن ذیلی نظارت بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا سید باقر عباس زیدی کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک اور شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے 7 اگست کو اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی تحفظ پاکستان کانفرنس کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے پس منظر، محرکات اور اب تک حاصل ہونے والے فوائد کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی تحریک کے کئی محرکات ہیں، شیعہ ٹارگٹ کلنگ، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضے ہیں، ملک میں خصوصاً پنجاب میں عزاداری کے خلاف سازشیں، بانیان مجالس، عزاداروں، ذاکرین کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آریں کاٹنا، جس کے ذریعے عزاداری سیدالشہداؑ کو محدود کیا جائے، عوام کو عزاداری سے دور کیا جائے، مجموعی طور پر اگر ہم کہیں تو شیعہ حقوق کی بات ہے، اس کے علاوہ بھی کئی محرکات ہے، مثلاً لاہور ہائیکورٹ میں شیعہ ججوں کے ساتھ مسائل تھے، ایک اطلاع کے مطابق انہیں فارغ کرنا تھا، لیکن انہیں ایم ڈبلیو ایم کی اسی احتجاجی تحریک کی وجہ سے بحال کیا گیا ہے، بہرحال جو سیاست آمر جنرل ضیاء نے شروع کی تھی کہ ریاستی اداروں میں وہابیت کو داخل کیا جائے، اہم عہدوں، مقامات، جگہوں سے شیعیان حیدر کرار کو ہٹایا جائے، انہیں یہاں پہنچنے سے روکا جائے، یہاں تک کہ پاک فوج سے نعرہ حیدری تک کو ختم کر دیا گیا، ضیاء دور میں ریاستی و ملکی اداروں میں شیعہ حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے فرقہ پرست پالیسیاں داخل کی گئیں، آج جتنے بھی ادارے موجود ہیں، چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں، چاہے عسکری ادارے ہوں، پولیس کے ادارے ہوں یا دیگر مختلف ریاستی و ملکی ادارے ہوں، وہاں وہابی تکفیری فکر کے لوگ بٹھائے گئے ہیں، جو تشیع کے حوالے سے انتہائی تعصب رکھتے ہیں، ایسی ضیاء طرز تفکر کے مسائل ابھی بھی موجود ہیں، آل سعود نے پاکستانی ریاستی اداروں میں اپنا اثر و نفوذ مزید بڑھانے کیلئے دوبارہ فنڈنگ کی، پیسے دیئے، مزید کام شروع کیا ہوا ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعہ حقوق اور ملکی سالمیت و بقاء کی جنگ لڑی ہے۔

بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم شیعہ حقوق کی جنگ عدالت میں جا کر قانونی طور پر لڑیں گے، لیکن کیا پاکستان میں عدلیہ کسی چیز کا حل ہے، پاکستانی عدلیہ ہر اعتبار سے بک جاتی ہے، اس میں بااثر عناصر اپنی مرضی کا جو فیصلہ کرا لیں، لہٰذا ضروری ہے کہ شیعہ مسلمان پاکستان میں اپنا وزن بڑھائیں، ہم بھی ملک میں اول درجے کے پاکستانی ہیں، ہمیں بھی یکساں حقوق حاصل ہیں، جن کی حفاظت ہونی چاہیئے، ہم نے پاکستان بنایا ہے، ہم ہی پاکستان بچائیں گے، ہم نے قیام پاکستان کیلئے بھی خون دیا، آج بھی ہم اپنا خون دیکر ملک کو بچا رہے ہیں، ہمارے خون ہی کی تاثیر ہے جو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہونے بچا ہوا ہے، ورنہ تکفیری وہابی عناصر جن کے تانے بانے امریکا اسرائیل سے ملتے ہیں، یہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرچکے ہوتے، اسی تناظر میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے جو سب سے اہم کام کیا ہے، وہ آمر جنرل ضیاء کے طرز تفکر، تکفیری وہابی عناصر، امریکی اسرائیلی نمک خوار ایجنٹوں کی ناپاک سازشوں و ارادوں کے آگے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں، شیعہ حقوق کو غضب کرنے کے سلسلے کے آگے رکاوٹ بن گئے، بڑھتی ہوئی شیعہ کلنگ کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے، جس ملت تشیع کو پاکستان میں تیسرے درجے پر دھکیلنے کی سازش کی گئی، جسے ملک میں تنہا کر دینے کی سازش کی گئی تھی، آج علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے اسی ملت تشیع کو قومی دھارے کے مرکز میں کھڑا کر دیا ہے، ملت تشیع کے خلاف تمام سازشوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہوگئے ہیں، کیونکہ ہم قائداعظم و اقبال کا پاکستان چاہتے ہیں، جو ظلم و زیادتی سے پاک ہو۔

قائد مسائل کو جانتا ہے، مختلف رازوں کو پہچانتا ہے، لیکن بعض اوقات اسے از خود اقدامات کرنے پڑتے ہیں، اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری میں یہ قائدانہ خصوصیات ہیں، جس سے انہوں نے نہایت خوبصورت، مدبرانہ، قائدانہ انداز میں استفادہ کیا، اقدام کیا، احتجاجی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا، آج جس ملت تشیع کو سیاسی دھارے سے نکالنے کی سازش ہو رہی تھی، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے قائدانہ اقدام کے باعث تمام برجستہ سیاسی و مذہبی جماعتیں اور شخصیات احتجاجی کیمپ پر آئیں، راجہ صاحب اور ملت تشیع سے اظہار یکجہتی کیا، ہمارت مطالبات کی غیر مشروط حمایت کی، سب نے اس بات کا اقرار کیا، تائید کی کہ ہمارے مطالبات پاکستان کے آئین و دستور و قانون کے مطابق جائز ہیں، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیئے۔ ہمارے مطالبات میں دہشتگرد عناصر کے خلاف آپریشن کرنا بھی شامل ہے، جیسا کہ کئی مقامات پر شروع ہوچکا ہے، کہیں پر شروع ہونے والا ہے، پارا چنار میں اہل تشیع پر فائرنگ کا واقعہ تھا، اس احتجاجی بھوک ہڑتال کے نتیجے میں وہاں جرگہ بیٹھا، اس نے فیصلہ کیا، ہمارے بزرگ عالم دین علامہ عابد حسین الحسینی نے اس کے نتیجے کو قبول کیا، خیبر پختونخوا حکومت اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہمارے بہت سارے مطالبات و مسائل کو قبول کیا، ان سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے، انہوں نے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے ہماری تجاویز بھی مانی ہیں، ان تمام پر ایک حد تک عمل درآمد شروع بھی ہوگیا ہے، یہی عمل درآمد ہم پنجاب میں بھی چاہتے ہیں، اس حوالے سے نواز حکومت سے ایک دو بار مذاکرات بھی ہوئے ہیں، لیکن ڈیڈ لاک باقی ہے، لیکن امید ہے کہ ان شاء اللہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تن تنہا جس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، اس کے نتیجے میں پنجاب سے بھی جلد مثبت خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔

اسلام ٹائمز: کیا ملت تشیع قومیات کے حوالے سے مایوس ہے، جسکے خاتمے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے یا پھر قومی دھارے کا حصہ بن رہی ہے، جس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے دور میں پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، شہید قائد کے پیچھے تھی، اگرچہ شہید قائدؒ کو بہت زحمت اٹھانی پڑی، لیکن اس کے نتیجے میں لوگوں نے ان کا بڑا ساتھ دیا اور شیعہ حقوق کیلئے قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، ناصرف شیعہ حقوق بلکہ اسلام کی سربلندی و وطن عزیز کی بقاء و سالمیت کی خاطر لوگ انکے ساتھ جمع ہوگئے، شہید عارفؒ کے بعد سے ایک خلا پایا جاتا ہے، شیعہ حقوق کی جنگ کے حوالے سے، ان کے بعد آنے والی قیادت میں وہ صلاحیت و اہلیت نہیں تھی، شہید عارفؒ کے بعد آنے والی قیادت نے شیعہ حقوق کیلئے اور تشیع کے دفاع و ترقی کیلئے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا، اس صورتحال کے پیش نظر شہید قائدؒ کے ساتھیوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی بناد رکھی، لہٰذا آج ایم ڈبلیو ایم پاکستان میں شیعہ حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے، ملت تشیع کا کردار مجموعی طور پر بہت اچھا اور مثبت ہے، عوام آہستہ آہستہ جب آگاہ ہوتی ہے تو ساتھ دیتی ہے، عوام کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی آگاہ ہے، وہ ایم ڈبلیو ایم کے مطالبات سے بھی آگاہ ہیں، عوام نے مجلس کا ساتھ بھی دیا ہے۔ دراصل ماضی میں عوام کئی بار دھوکہ کھا چکی ہے، لہٰذا عوام بہت حساس ہوچکی ہے، لیکن اب جب قائدین اور علماء کرام یہ ثابت کرینگے کہ وہ میدان میں ثابت قدم ہیں، بھاگنے والے نہیں ہیں، تو عوام جو ایک حد تک میدان میں وارد ہوچکی ہے، مزید وارد ہوگئی، اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب قائد اور عوام میں مطلوبہ ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی، عوام اپنے قائد سے جدا، پیچھے اور دور نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جس کے انتہائی مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ اسے مزید اچھی طرح پہچانے اور سمجھے، کیونکہ قائد جتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو لیکن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک عوام ساتھ نہ دے، اس تحریک میں بھی عوام نے ایک حد تک ساتھ دیا ہے، پورے ملک سے لوگ آئے ہیں، لوگ احتجاج، علامتی دھرنوں، ریلیوں، مظاہروں میں بھی شریک ہوئے۔ بعض اوقات قائد صورتحال کی سنگینی اور حساسیت کو دیکھ رہا ہوتا ہے، لیکن عوام اس سطح پر معاملات کو نہیں دیکھ پا رہی ہوتی، لہٰذا آہستہ آہستہ ایم ڈبلیو ایم کی کوشش ہے کہ عوام بھی اپنے حقیقی قائد کے ساتھ اسکی فکر کے مطابق قیام کریں، ملک میں اپنے خلاف ہونے والے مظالم کیخلاف اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز حق بھی بلند کریں، ساتھ دیں۔ بہرحال علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی پرخلوص احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک جاری ہے اور ہم ہر طرح سے ان کے ساتھ ہیں اور ان شاء اللہ شیعہ حقوق کی اس جنگ میں ہم ہمیشہ میدان میں رہیں گے، ہم ہر ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرتے رہیں گے، یہی کربلا کا پیغام ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم پاکستان 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اسکے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد عارف حسین الحسینیؒ نے پاکستان میں شیعہ حقوق کیلئے جو جدوجہد کی، دراصل اس سے عہد و پیمان کرنا ہے، تجدید عہد کرنا ہے، اس کا احیا کرنا ہے، شہید قائدؒ نے جو جدوجہد کی، اسے اسی مقام پر دوبارہ لانے کیلئے آج ہم میدان میں کھڑے ہیں، اتحاد بین المسلمین، اسلام کی سربلندی، وطن عزیز کی سالمیت و بقا و ترقی، شیعہ حقوق، پاکستان کی آزاد خارجہ و داخلی پالیسی جو شہید قائدؒ کی جدوجہد کے بنیادی نکات تھے، ہم بھی آج انہیں نکات کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں، کرتے رہینگے، یہ پہلے بھی ہماری ذمہ دار تھی اور رہے گی، اسی لئے ہم ہر سال شہید قائدؒ کا یوم شہادت مناتے ہیں، تاکہ شہید کے افکار و جدوجہد پر گفتگو ہو، ان سے سبق حاصل کریں، اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین شہید قائدؒ کی 28 ویں برسی کے موقع پر 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے، اس تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے ہم پاکستان میں ملت تشیع کیخلاف سازشوں میں مصروف امریکی اسرائیلی گماشتوں اور نمک خواروں کو یہ پیغام دینگے کہ وہ ملت تشیع کو دبانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے، ملت تشیع کے سر کو جھکانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے، وہ ناکام و نامراد ہونگے ان شاء اللہ۔ ہم ان شاء اللہ 7 اگست کے تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے اپنی احتجاجی تحریک کو مزید مؤثر بنائیں گے، پُرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے، اپنے مطالبات پر عمل درآمد کروائیں گے ان شاء اللہ۔

اسلام ٹائمز: مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: اگر نواز حکومت ہمارے مطالبات پر عمل درآمد شروع کر دیتی ہے تو احتجاجی بھوک ہڑتال بھی ختم ہو جائیگی، ہم پھر سے یکسوئی کے ساتھ ملت کی تربیت، تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود، سیاسی، تعلیمی، صنعتی، معاشی، تجارتی و دیگر تمام میدانوں میں ملت کی ترقی کیلئے اپنے امور کو انجام دینگے، جس کی ہمارے پاس منصوبہ بندی بھی موجود ہے، الحمد اللہ ابھی بھی ان امور پر کام جاری و ساری ہے، لیکن مزید یکسوئی و بہترین انداز میں امور کو انجام دینگے۔ بہرحال راجہ صاحب کی اس احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے نتیجے میں حکومت نے کافی حد تک بہت سی باتوں کو مانا ہے، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضوں کے مسئلے کو بھی حکومت نے کہا ہے کہ اگر کوئی قبضہ ہوگیا ہے تو وہ چھڑا کر دینگے، خیبر پختونخوا کے حوالے سے میں پہلے عرض کرچکا ہوں، پنجاب کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بات چیت جاری ہے، کچھ باتوں پر ڈیڈ لاک باقی ہے، ان شاء اللہ اس حوالے سے بھی اچھی خبریں آئیں گی، بہرحال ہمارا کام ہے اپنی ذمہ داری ادا کرنا، میدان میں حاضر رہنا، اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں ترقی کرنا ہے، ہمیں دشمن کا راستہ روکنا ہے، یا ہمیں نقصان کو کم سے کم کرنا ہے، ان تمام حوالوں سے ہم میدان میں کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہینگے، پاکستان میں تشیع زندہ تھی، ہے اور رہیگی، عزاداری اور حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی تمام کوششوں کو ان شاء اللہ ناکام بناتے رہینگے، پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے ذریعے تکفیریت و وہابیت کو رائج کرنے کی سازشوں کو ناکام بناتے رہینگے۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) ریاض حسین بنگش کا بنیادی تعلق پاراچنار کے علاقہ لقمان خیل سے ہے، وہ زمانہ طالب علمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے منسلک رہے، اور بعدازاں امامیہ آرگنائزیشن پاراچنار ریجن کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی ملی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، اور ایم ڈبلیو ایم پاراچنار کے سیکرٹری جنرل کی مسئولیت ان کے کندھوں پر ہے، انہوں نے پاراچنار کے داخلی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلٰی تعلیم یافتہ اور اہل ساتھیوں پر مشتمل کابینہ تشکیل دی ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے حالیہ دورہ پاراچنار کے حوالے سے ریاض حسین بنگش کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

سوال: آپکی جماعت کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے گذشتہ دنوں پارا چنار کا تین روزہ دورہ کیا، انکا یہ دورہ کیسا رہا۔؟
ریاض حسین بنگش: ان کا یہ دورہ بہت ہی اچھا اور کامیاب رہا، یہ ایک تاریخی دورہ تھا، جس میں عوام کی ان سے محبت دیدنی تھی، لوگ بہت خوش ہوئے، ان کی مایوسی اور ناامیدی نئے جوش اور ولولہ میں تبدیل ہوگئی، عوام کا رسپانس بہت ہی زبردست تھا، عوام میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا، میں سمجھتا ہوں کہ آغا صاحب کا یہ دورہ موجودہ صورتحال میں ایک تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔

سوال : اس دورہ میں عوام کے علاوہ انکی کن کن طبقات اور تنظیموں سے ملاقاتیں ہوئیں۔؟
ریاض حسین بنگش: اس دورہ میں ان کی تقریباً ہر قسم کے طبقات سے ملاقاتیں ہوئیں، یہاں لوکل یا ملکی سطح پر جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، ان سب سے راجہ صاحب کی نشست ہوئی، جن میں سیاسی جماعتوں نے ان سے داخلی معاملات پر تعاون طلب کیا، جس پر علامہ راجہ ناصر عباس صاحب نے ان سے بھرپور تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی کہ انشاءاللہ ہم آپ کیساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی مذہبی جماعتیں ہیں، ان کے رہنماوں سے ملاقاتیں ہوئیں، دریں اثناء جن علاقوں میں 10 ہزار کے لگ بھگ آبادی ہے، وہاں بھرپور اجتماعات ہوئے، وہاں کے متاثرین سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، ان کی حوصلہ افزائی کی، اس کے علاوہ شہداء کے گھر والوں سے تعزیت کی، علاوہ ازیں یہاں پر فلاحی اداروں جیسے کہ علی ٹرسٹ یتیم خانہ، وہاں پر بھی گئے، ان کو تقریباً 50 ہزار روپے امداد بھی دی، اس کے علاوہ فلاحی کاموں میں مصروف عمل حیدری بلڈ بنک کو بھی بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی، ان کے علاوہ بھی یہاں جتنے فلاحی ادارے ہیں، ان کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ علامہ صاحب نے مرکز کے علمائے کرام اور تحریک حسینی کے رہنماوں سے بھی اہم ملاقاتیں کیں، انہوں نے ان سب کی مشکلات اور مسائل کو بہت خلوص سے سنا اور ہر ممکن تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

سوال: پارا چنار کے داخلی مسائل کے حوالے سے اس دورہ کیوجہ سے کوئی بہتری کی امید نظر آئی۔؟
ریاض حسین بنگش: علامہ راجہ ناصر عباس صاحب نے اپنے اس دورہ میں جس چیز پر زیادہ فوکس کیا، وہ وحدت اور ولایت تھی، وہ جہاں بھی گئے، وہاں اتحاد و وحدت اور ولایت کو اپنی تقاریر میں اولیت دی، مقامی لوگوں نے اس بات کو بہت غور سے سنا اور اس حوالے سے ان کی حوصلہ افزئی ہوئی، انہوں نے علامہ صاحب کو اتحاد و یگانگت برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔

سوال: آپکے خیال میں علامہ صاحب کا یہ دورہ اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ثابت ہوا اور عوام کا کیا رسپانس ہے۔؟
ریاض حسین بنگش: آپ یہ سمجھیں کہ آغا صاحب کا یہ دورہ 80 فیصد کامیاب ثابت ہوا، ہماری مالی مجبوریوں کی وجہ سے ہم عوام تک اس طرح رابطہ بھی نہیں کرسکے، ہمارے پاس یہاں آفس بھی نہیں ہے، عوام ہم سے ٹیلی فون پر رابطے کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آپ کا آفس کہاں ہے، ہم آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ مالی مشکلات آڑے آرہی ہیں، راجہ صاحب کا دورہ بہت موثر رہا، لوگ جوق در جوق مختلف ذرائع سے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم آفس اور دیگر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے عوام اور ہمارے درمیان رابطہ کا فقدان نظر آرہا ہے۔

سوال: پاراچنار کے موجودہ حالات اب کیسے ہیں، ہمارے قارئین کو آگاہ فرمایئے گا۔؟
ریاض حسین بنگش: جب سے ہمارے نئے پیش امام صاحب آئے ہیں، اس کے بعد سے لوگوں میں دوریاں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں، اب تک جمعہ کے جتنے بھی خطبات دیئے گئے ہیں، ان میں لوگوں کو اتحاد و وحدت کی زیادہ تلقین کی گئی ہے، جس کہ وجہ سے لوگوں میں دوریاں ختم ہو رہی ہیں، تاہم چیزوں کو بہتر بنانے میں وقت لگے گا، ظاہر بات ہے کہ دشمن نے ہمیں تقسیم کرنے کیلئے بہت کام کیا تھا، اب اس کی سازشیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔

سوال: پارا چنار کے عوام کیلئے ہمارے توسط کوئی پیغام دینا چاہئیں گے۔؟
ریاض حسین بنگش: میں سب برادران کا شکریہ اس وجہ سے بھی ادا کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ صاحب کے دورہ کے حوالے سے ہم زیادہ تشہیری مہم بھی نہ چلا سکے، تاہم پھر بھی ایک جذبہ اور ولولہ کی وجہ سے جس جس کو معلوم ہوتا رہا، انہوں نے خود سے ہمارے ساتھ رابطے کئے، اور علامہ صاحب کے اس دورہ کو کامیاب کرانے میں اپنا حصہ ڈالا، جہاں جہاں بھی اجتماعات ہوئے، ان سب میں دوستوں کا کردار رہا، ہر جماعت خواہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی، انکی خواہش تھی کہ راجہ صاحب ہمارے ساتھ ایک نشست کریں، ہم پاراچنار کے عوام، عمائدین، مذہبی و سیاسی رہنماوں، علمائے کرام اور تنظیمی کارکنوں کا آپ کے توسط سے شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)علامہ محمد امین شہیدی کا شمار پاکستان کے جید، معتبر اور چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے، ان کا تعلق گلگت سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف اسلامی کی ترویج کے لئے تشکیل دیا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال پر اسلام ٹائمز نے ان سے ایک تفصیلی اور اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

 

سوال: 34 ممالک کے اتحاد کے بعد چوتھی دفعہ آرمی چیف اور وزیراعظم سعودی عرب جا رہے ہیں، اُنہیں یہ کس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، آپ جب دنیا کو گلوبل ولیج کہتے ہیں تو ہر گائوں اور ویلیج کا ایک چوہدری بھی ہوتا ہے اور چوہدری کی اجازت کے ساتھ اس گائوں میں ہر کام انجام پاتا ہے، زمینوں پر ہل بھی چلتا ہے، میلے بھی لگتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ ادارے بنتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ نمازیں پڑھی جاتی ہیں، چوہدری کی دشمنی اور دوستی ہی گائوں والوں کی دوستی اور دشمنی کا معیار بن جاتی ہیں، دنیا کا اس وقت چوہدری امریکا ہے اور امریکی پالیسز کے نتیجے میں آپ مشرق وسطٰی میں لاکھوں لوگوں کا خون خرابہ دیکھ رہے ہیں، یہ اسی پالیسی کا حصہ ہے، تھڑد ورلڈ میں جتنے بھی ممالک ہیں وہ اسی پالیسی پر کاربند ہیں، اس لئے کہ اس پالیسی سے نکل کر یہ اپنی حیات کھو دیتے ہیں، ان کی مشکل یہ ہے کہ اگر یہ اس پالیسی کے دائرے سے نکلنا چاہیں تو ان کو موت نظر آتی ہے، ہمارا سسٹم اور پورا ملک اس وقت ورلڈ بنک کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، آپ اس لئے ورلڈ بنک کو، اقوام متحدہ کو اور جو امریکی شرائط ہیں، ان شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے انٹرنل اور ایکسٹرنل پالیسی بناتے ہیں۔ یہ جو 34 ممالک کی یا اس وقت 20 ممالک کی بات چیت چل رہی ہے، شروع میں جس طرح سے تنقیدیں بھی ہوئیں اور پھر اس کو بعض لوگوں نے سراہا بھی، لیکن سعودیوں نے کیا کہا۔؟ سعودیوں نے کہا کہ اگر امریکی ہماری کمان سنبھالیں گے تو پھر ہم میدان جنگ میں اتریں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلے سے ایسا منصوبہ ہے کہ جس میں امریکہ پیٹھ پیچھے موجود ہے، سعودیوں نے انہی کے کہنے پر اسرائیلیوں کی منصوبہ بندی کے تحت یہ پروگرام شروع کیا، جس کے ویڈیو ثبوت اسرائیلی تھنک ٹینکس کے اعتراف کی صورت میں موجود ہے اور گویا امریکیوں کو یہ دعوت دی، اپنی طرف سے دی، جبکہ یہ پروگرام امریکیوں کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جب پروگرام اور منصوبہ امریکیوں کا ہوگا تو اس سے نواز شریف صاحب مثتنیٰ نہیں ہیں۔

نواز شریف صاحب نے گذشتہ اپنے تین سال میں جو قرضے لئے ہیں، آپ اس کی مقدار دیکھ لیں، یہ مقدار زرداری کے دور اور اس سے پچھلے دور کی نسبت بہت زیادہ ہے اور اتنا سارا قرضہ ان کو کس بنیاد پر مل رہا ہے؟ اس بنیاد پر کہ یہ امریکی پالیسیوں کے سامنے پوری طرح سے سر تسلیم خم ہیں، لہٰذا کسی ایسے اتحاد میں ان کا شامل ہونا ان کی اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس امریکی اور اسرائیلی پالیسی کے مطابق ہے، جس سے یہ نکل نہیں سکتے۔ اگرچہ انہوں نے اعلان تو کیا ہے کہ یہ کسی ایسی جنگ میں نہیں کودیں گے، لیکن اس وقت جو ہمارے سامنے چیزیں ہیں، اس کے مطابق لگتا یہ ہے کہ داعش کے متبادل کے طور پر ان کے زیر قبضہ علاقوں میں یہ خود جائیں گے، جن جن علاقوں میں داعش کا قبضہ تھا، ان علاقوں میں روس کے حملوں، ایرانیوں کی مقاومت، حزب اللہ، بشار الاسد، عراقی فورسز نے ملکر داعش کا صفایا کیا ہے۔ اب طاقت کا توازن اس پورے خطے کے اندر بگڑ چکا ہے، اب وہ والی صورتحال نہیں رہی جو تین سال پہلے تھی، اب جب ٹیبل پر مذاکرات کیلئے بیٹھتے ہیں تو سعودیوں کے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے، جس کی بنیاد پر وہ سودا بازی اور بارگین کرسکیں، اس لئے کہ مسلسل جو یہ دہشت گرد قوتیں تھیں، ان کو سعودیوں اور امریکیوں نے پروموٹ کیا تھا اور اب بھی ان کو اسلحہ دے رہے ہیں، ان دہشت گردوں یعنی داعش اور النصرہ وغیرہ کے پاس اب زمین نہیں رہی، جب زمین نہیں رہی تو پھر بارگیننگ کس بات پر؟

آپ مسلسل سن رہے ہیں کہ داعش اور اس طرح کے دیگر گروپس مثلاً النصرہ وغیرہ وغیرہ ہیں، ان کے خلاف جس طرح کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس کے نتیجے میں ہر روز ان کو پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے، اس پسپائی کے نتیجے میں خود امریکیوں کی اس خطے میں گرفت کمزور پڑ رہی ہے، سعودی جس ہدف کے تحت آئے تھے، ان کا وہ ہدف کمزور پڑ رہا ہے، جو گذشتہ دنوں مذاکرات ہوئے تو ان مذاکرات میں سعودیوں کے پاس بولنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا، جو داعش اور ان کی نمائندہ کونسل کے لوگ تھے، وہ میٹنگ سے اٹھ کر آگئے کیونکہ ان پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا اب یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کرلیں، آپ نے سنا ہوگا کہ یمن میں وہ مسلسل ایک سال سے بمباری کر رہے ہیں اور ادھر انہوں نے حوثیوں سے مذکرات شروع کر دیے ہیں اور یہ مذاکرات پس پردہ ہیں، پہلے تو وہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک سال مسلسل بمباری کی، 28000 بے گناہ لوگوں کو قتل کیا، یمنی عوام کے پورے انفراسٹریکچر کو تباہ کر دیا، ہسپتالوں کو تباہ کر دیا، تعلیمی اداروں کو تباہ کر دیا، بازاروں کو تباہ کر دیا، یعنی وہ جو سوشل چیزیں ہیں جن سے عام عوام فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کو تباہ کرکے مرد و زن، بچوں، بوڑھوں کو خون میں لت پت کر دیا، یمنی مظلوم عوام کو تباہ و برباد کرنے کے بعد آخر کار ان کے حصے میں صرف اور صرف ذلت آئی، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اب وہ مجبوراً حوثیوں سے مذکرات کرنے چلے گئے ہیں، جبکہ پہلے یہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، یعنی مجموعی طور پر ان کی پالیسز جو اس خطے کے اندر تھیں، اس پالیسی میں ان کو عراق، شام اور یمن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور لبنان میں تو وہ پہلے ہی شکست خوردہ ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ انہوں نے پہلے لبنانی فوج کو اربوں ڈالر اور اسلحہ کی مدد دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد کہا کہ لبنانی حکومت، فوج اور لبنانی ریاست حزب اللہ کی تقویت کا باعث ہیں، اس لئے ان کو ہم مدد نہیں دیں گے، جب تک یہ حزب اللہ کو دہشت گرد ڈکلیئر نہیں کرتے۔ یعنی حزب اللہ جس نے لبنان کو بچایا ہے، وہ دہشت گرد ہیں اور داعش جن کو انہوں نے Create کیا وہ ان کے ہیروز ہیں، اس صورتحال میں انہوں نے ابھی جو جنگی مشقیں کی ہیں، اس پر جتنا پیسہ خرچ کیا، وہ بھی آپ کے سامنے ہیں، ان کی اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ لہٰذا یہ ایک ایسے راہ حل کی تلاش میں ہیں، جس میں ان کی عزت بچ سکے اور کسی طرح سیاسی صورتحال میں وہ اس مقاومتی بلاک کے مقابلے میں ایک بارگیننگ پوزیشن حاصل کرسکیں، اس لئے یہ مذاکرات اور کانفرنسز کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو اللہ کیلئے کام ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے، جو ابلیس کیلئے ہوتا ہے بظاہر اس کا دب دبہ، اس کا شور شرابا نظر آتا ہے لیکن بہت کم عرصے میں اس کی ہوا نکل جاتی ہے اور سعودیوں، امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ یہی ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ دیکھ لیں کہ ان کی قسمت میں مزید ذلت و رسوائی آئے گی، فائدہ ان کو نہیں ملے گا اور خطے میں ان کے جو تمام اہداف ہیں، ان میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال: انٹیلی جنس بیورو کے چیف کا ایک بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ شام گئے ہیں، داعش میں شامل ہوئے، اسی طرح انٹیلی اداروں نے یہاں سے داعش کیلئے کام کرنیوالے لوگ بھی پکڑے، لیکن چوہدری نثار داعش کا وجود نہیں مانتے، بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھ بند کر لینے جیسا معاملہ تو نہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: حقیقت یہ ہے کہ انٹرنلی چوہدری نثار کو پتہ ہے، فوج کو بھی بہت اچھی طرح پتہ ہے، باقی ایجنسیوں کو بھی بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ داعش پاکستان میں کہاں کہاں موجود ہے۔ داعش اگر آپ عربوں کو کہتے ہیں تو پاکستان میں عرب نہیں ہیں، داعش اگر اس فکر اور سوچ کو کہتے ہیں تو وہ فکر اور سوچ ہے، وہ لشکر جھنگوی کی صورت میں موجود ہے، سپاہ صحابہ کی صورت میں ہے، طالبان کی صورت میں ہے، القاعدہ کی صورت میں ہے، حزب التحریر کی صورت میں ہیں، ان گروپس نے بڑے بڑے دھماکے کئے ہیں اور انہی گروپوں کے لوگ ان دہشت گردوں اور گروپوں میں شامل تھے، چاہے وہ اغوا ہو، چاہے وہ خودکش حملے ہوں، چاہے وہ کار بم بلاسٹ وغیرہ ہوں، ابھی شبقدر میں دھماکہ ہوا ہے، کس نے کیا؟ طالبان نے، اور انہوں نے بیان کیا دیا؟ کہ ہم نے ممتاز قادری کا بدلہ لیا ہے، اب آپ دیکھ لیں کہ کہاں کہاں وہ مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا ممتاز قادری کو Follow کرنے والے دہشت گرد ہیں؟ جو آپ اسی طرح کی دہشت گردی ذریعے سے بے گناہ انسانوں کو مار کر بیلنس کرنے کی کوشش کریں، ظاہر ہے کہ مقصد ایکسپلائٹ اور سوء استفادہ کرنا ہے، اس معاشرے کے اندر ایسے لوگ ابن الوقت تخریبی ذہن رکھنے والے، تفرقہ سے سوء استفادہ کرنے والے بہت موجود ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا پورا خطہ شدت پسندی کے خطرے میں ہے، اس لئے کہ داعش خود اسلام آباد میں موجود ہے، اگر یہ بیان غلط تھا تو بتا دیں، کیوں دیا تھا، اگر صحیح تھا تو پھر آپ انکار نہ کریں، اس وقت جو انکار ہو رہا ہے، وہ صرف اور صرف عوامی پریشر سے بچنے اور لوگوں کو تسلی دینے کیلئے ہے، کہیں کوئی پریشانی شروع نہ ہوجائے، لیکن اندرون خانہ خوفزدہ تو ہیں، کارروائیاں بھی کر رہے ہیں اور جو اس وقت تک آپریشن ہوئے ہیں، وہ کس کے خلاف ہوئے ہیں؟ انہی گروپوں کے خلاف ہوئے ہیں اور مختلف جگہوں پر آپریشن ہو رہے ہیں۔

دہشت گرد موجود ہیں تو آپریشن ہو رہے ہیں، آئے دن گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ان کا وجود ہے تو گرفتاریاں ہو رہی ہیں، وہ لوگ جو طالبان سے منحرف ہوچکے ہیں، طالبان کو جنہوں نے چھوڑ دیا وہ داعش میں شامل ہو رہے ہیں اور ان لوکل داعشیوں کی سرپرستی کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو پہلے طالبان اور دیگر شدت پسندوں کی سرپرستی کرتے تھے، لشکر جھنگوی والے داعش کے Right Hand کے طور پر ہیں، ریاستی اداروں نے ملک اسحاق اور اس کی پوری ٹیم کو کیوں مارا؟ اس لئے کہ اس نے اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر داعش کے پراجیکٹ کو پاکستان کے اندر لانچ کرنا شروع کر دیا تھا، اس لئے آپ نے اس کو مارا ہے، اس لئے کہ آپ کو داعش نظر آرہی تھی، لہٰذا انکار کرنا اور بیان بازیاں کرنا یہ ایک الگ بات ہے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ مختلف شہروں میں وہ موجود ہیں اور ریاست ان داعشی اور لشکر والے دہشت گردوں سیے برسرِ پیکار ہے، لیکن کس حد تک سنجیدگی ہے، یہ ایک الگ سوال ہے، اس پر دو آراء ہوسکتیں ہیں، دو آراء موجود ہیں کہ سنجیدگی ہوتی تو فلاں فلاں جگہ آپ نے کیوں نہیں قدم اٹھایا، بعض جگہوں پر واقعی انہوں نے سنجیدگی سے قدم اٹھایا اور بعض جگہوں پر انہوں نے سنجیدگی سے قدم نہیں اٹھایا، یعنی اب بھی Pcik & Choose ہے، Pick & Choose کا سلسلہ ختم ہوجائے تو داعش کا وجود بھی ختم ہوجائیگا۔ لیکن اس سے مقابلے کیلئے جہاں پر فورسز کو میدان میں آنا ہے، وہیں پر امت مسلمہ کو بھی اتحاد کے ساتھ، اتفاق کے ساتھ اپنے مشترکہ دشمن کی شناخت کرتے ہوئے میدان میں آنا چاہیے، ورنہ داعش کی جو فکر اور سوچ ہے وہ نہ سنی کو چھوڑتی ہے، نہ شیعہ کو چھوڑتی ہے، وہ ہر اس قوت کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں، جو ان کے مفادات کی راہ میں حائل ہوں، ان کی آئیڈیالوجی ایک بحث ہے، لیکن ان کے مادی مفادات دوسری بحث ہے، جب وہ اپنے ہی لوگوں کو پنجاب میں مار کر شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دے سکتے ہیں، جیسے پچھلے سال ہوا اور وہ سارا گینگ پکڑا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ دین و ایمان نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے، وہ آئیڈیالوجی کو بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا ہمیں اس حوالے سے متوجہ اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔

سوال : آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی تھے، قوانین پر آپکی نظر ہوگی، تحفظ خواتین ایکٹ پر بہت شور شرابا مچا ہوا ہے، اسکی کونسی شقیں ہیں، جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کو سفارشات بھیجنی چاہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: میں اس ایشو پر 7 سے 8 ٹی وی چینلز پر بات کرچکا ہوں اور بالکل واضح طور پر موقف دیا ہے کہ اس کو شرعی متنازعہ مسئلے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس قانون سازی کا تعلق شریعت سے کم اور سماج، سماجی رویوں، کلچر، تہذیب اور لوگوں کے رہن سہن کے طور طریقوں سے زیادہ ہے، شریعت عورت اور مرد کو مساوی حقوق دیتی ہے، شریعت نے عورت اور مرد کو شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت دی ہے، شریعت نے بعض مخصوص موضوعات اور حالات کے علاوہ عورت کو ایک آزاد فرد کی حیثیت سے قبول کیا اور مرد کو بھی کوئی اجازت نہیں دی کہ عورت کی اس آزادی کو صلب کرے، میاں بیوی کے رشتے میں شوہر کی اجازت اور باہمی تعلق اور رضا مندی کے نتیجے میں عورت ہر جائز اور قانونی کام کرنے میں آزاد ہے، جو اس کی حرمت، اس کی حیا اور اس کے مقام سے متصادم نہ ہو، عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے، پاکستان میں چونکہ مخصوص کلچر کا مسئلہ ہے، یہ کلچر ہندوئوں سے متاثر ہے۔ یہاں پر عورت کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے، شریعت کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے کلچر کی وجہ سے، بھارت میں اگر ایک عورت کا شوہر مر جاتا ہے اور وہ دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے تو طوفان اٹھ جاتا ہے، کیوں؟ وہاں کے ہندوانہ کلچر کی وجہ سے ہے، پاکستان میں بھی خواتین کو اسی طرح کے کلچرل مسائل کا سامنا ہے، ان کلچرل مسائل، ناانصافیوں اور مظالم سے عورت کو بچانا مرد کی بھی ذمہ داری ہے، عورت کی بھی ذمہ داری ہے اور ریاست کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو قانون سازی ہوئی، اس قانون سازی کو مذہب کیخلاف کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ جب قانون سازی کی بات شروع ہوئی اور تو کیا کسی نے بھی یہ سوال کیا کہ یہ قانون آپ کے سماجی رویوں کے خلاف ہے۔۔۔؟

اس کے نتیجے میں سماج میں، معاشرے میں فلاں فلاں خرابیاں پیدا ہوں گی تو اس قانون سازی کے سماجی اور تہذیبی اثرات کو زیر بحث لانے کی بجائے فوراً شریعت سے متصادم قرار دیا گیا اور پھر شریعت کے خلاف ایک طوفان اٹھایا گیا، کیونکہ مذہب کو نشانہ بنانا مغرب کا ایجنڈا ہے، اس ایجنڈے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی یہ قانون سازی دراصل مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جب بھی موقع ملتا ہے، کسی بھی بہانے سے شریعت اور پاکستانیوں کی قانون سازی نہیں بلکہ مغربی استمار کے ایجنڈے کا حصہ ہے، میں یہ بات تمام چینلز پر کہہ چکا ہوں کہ یہ پاکستان کا ایجنڈا نہیں ہے، یہ ایجنڈا امریکی وزارت دفاع کا ایجنڈا ہے۔ ہنری کسینجر اور برزنسکی جمع ہوئے 9/11 کے بعد امریکن تھنک ٹینک کے 53 لوگوں کو انہوں نے جمع کیا، انہوں نے یہ منصوبہ بندی کی کہ ہمیں اسلام سے لڑنے کیلئے کن کن میدانوں میں کس طرح سے کام کرنا چاہیے، اس حوالے سے تھرڈ ورلڈ کیلئے ایک کمیٹی بنی، اس کمیٹی کا چیف ذلمے خلیل زاد ہیں، جو افغانستان میں پہلے امریکی سفیر تھا، بعد میں عراق میں امریکن سفیر بنا اور اس کی بیوی اس ٹیم کی کوآرڈینٹر ہے، اس کے ساتھ بارہ افراد کی ایک ٹیم تھی، انہوں نے بارہ پوائنٹ طے کئے، جن کے ذریعے سے اسلامی دنیا سے ان کی اسلامی حمیت اور روح کو چھینا جا سکتا ہے اور In the long term مسلمانوں کو مسلمان رکھتے ہوئے مغربی ذہن کا حامل بنایا جاسکتا ہے، اس پر انہوں نے منصوبہ بندی کی، اس میں تعلیم، نظام تعلیم، نصاب تعلیم، کلچر، میڈیا، فلاح اور رفاہ عامہ کے بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں، جس کا ایک مظہر US AID کی صورت میں اس وقت فعال ہے، جس کا ایک مظہر ترکی سیلابی علاقوں میں امداد کی صورت میں ہے، پیسہ امریکیوں کا ہے اور چہرہ ترکیوں کا ہے۔

عراق میں جو کچھ ہوا، یہ سب اس منصوبے کا حصہ ہے، اس میں سے ایک چیز انسانی حقوق کا چہرہ ہے، اس میں سے ایک عنوان تعلیم ہے، اس میں سے ایک عنوان حقوق زن۔ اس پر انہوں نے عورت کو آزادی دلانیکے نام پر تیسری دنیا میں قانون سازی کا کام کیا، عورت کی آزادی کا اسلامی تصور اور ہے، مغربی تصور اور ہے، اسلام میں عورت کی آزادی کا تصور اس کی معاشرتی زندگی میں ولی کی رضا مندی کے ساتھ ہر کام کی مکمل آزادی سمیت عورت کی عزت و حرمت کی پاسداری ہے، اس کے حیاء کی پاسداری ہے، اس کی عزت نفس کی پاسداری ہے، اس کے لئے حدود و قیود جو اللہ نے بیان کئے ہیں، ان حدود و قیود میں اس کی تربیت بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایسا کردار ادا کرسکے جو ایک عورت کا معاشرے اور گھر کے اندر ہوسکتا ہے، مغرب کی نگاہ میں عورت کی آزادی کیا ہے کہ اس کے کپڑے اتار دو، اس کو بکنے والی چیز بنا دو، اس کو نمائش کا ذریعہ بنا دو، اس کو ہر اس جگہ استعمال کرو، جہاں پر کوئی چیز نہیں بکتی عورت کے بدن کی نمائش کے طور پر اس کو بیچ دو، یہ ہے عورت کی مغربی آزادی۔ اس آزادی کو تھرڈ ورلڈ میں پروموٹ کرنے کیلئے انہوں نے جو یہ منصوبہ بنایا ہے، اس منصوبے میں ورلڈ بنک، چونکہ امریکیوں کے تابع ہے اس لئے اس کو بھی شامل کیا گیا ہے، لہٰذا اب اگر کوئی تھرڈ ورلڈ کا ملک قرض لینا چاہے، ورلڈ بنک سے تو ورلڈ بنک کی شرائط کیا ہوتی ہیں؟ پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ تعلیم کے نظام میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، دوسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ نصاب میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، تیسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ انسانی حقوق کیلئے فلاں فلاں کام کریں گے، چوتھی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ حقوق نسواں کیلئے فلاں فلاں قانون سازیاں کریں گے۔

یہ ان شرائط میں سے ایک شرط ہے، جس پر ہماری پنجاب حکومت نے آنکھ بند کرکے عمل کیا، ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اس قانون سازی کے نتیجے میں مستقبل میں پاکستان کے اندر خاندانوں کی اکائی کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے، لہٰذا اس کا براہ راست تعلق اسلام سے کم اور آپ کے کلچر اور آپ کی علاقائی تہذیب و ثقافت سے بہت زیادہ ہے، آپ کی علاقائی تہذیب اور آپ کا کلچر اس مغربی کلچر کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا، جس میں آپ اس طرح کے قوانین پاس کرتے ہیں، اس قانون کی شقیں پڑھیں، میں ان شقوں کو چار دفعہ پڑھ چکا ہوں، یورپ کے اندر اگر بچے کو باپ ڈانٹتا ہے تو وہ ایک نمبر ملاتا ہے، پولیس آتی ہے اور باپ کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے، کیا یہاں پر آپ اس کلچر کے متحمل ہیں؟ اس طرح کی قانون سازی کے نتیجے میں اس کلچر کو پروموٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوگا، بے راہ روی، فحاشی، مادر پدر آزاد معاشرہ کی تشکیل اور عورت کا آزادی کے نام پر گھر کی نسبت باہر زیادہ رہنا اور اگر بھائی، باپ، شوہر یا بیٹا اعتراض کرنا چاہے تو سیدھا جیل جائے، یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے آپ اپنی تہذیبی روایات کا اپنے ہی ہاتھوں سے گلا گھونٹتے ہیں۔ لہٰذا اس قانون کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا، قانون کو معاشرے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے بنانا چاہیے، قانون ایسا ہونا چاہیے جو عورت کے تمام شرعی اور قرآنی حقوق کی حفاظت کرے، ظلم و ستم سے اسے محفوظ رکھ سکے، معاشرتی جاہلانہ روایات کی بھینٹ چڑھنے سے عورت کو مکمل طور پر بچائے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی پاکدامنی، عفت، عزت و حرمت کی پاسبان بھی ہو اور عورت کو معاشرے میں قابل فروخت ’’چیز‘‘ کی بجائے باوقار اور سربلند انسان بننے میں مدد دے۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ اصغر عسکری کا بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر سے ہے، ان کا شمار ملک کے متحرک اور فعال علمائے کرام میں ہوتا ہے، انہی خدمات کے نتیجے میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اس وقت وہ انچارج مرکزی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیو ایم اور مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی ملی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جبکہ جامع الرضا(ع)اسلام آباد میں مدرس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے داعش کی پاکستان میں موجودگی، لال مسجد، دہشت گردی اور دیگر اہم موضوعات سے متعلق علامہ اصغر عسکری کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید باقر النمر نفس ذکیہ کے قتل پر پاکستان میں احتجاج کم ہوا، شہید کا چہلم بھی خاموشی سے گزر گیا، کیا وجوہات ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: شہید باقر النمر ایک آفاقی شخصیت تھے اور ان کی سعودی عوام کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد انکے بلند ویژن کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں ان کا بھرپور تعارف تھا، اسی لئے ان کی شہادت پر امریکن صدر بھی بیان دینے پر مجبور ہوتا ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم بھی مذمتی بیان جاری کرتا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں اس سانحے پر احتجاج کی بات ہے، تو میرے خیال میں تقریبا ملک کے تمام بڑے شہروں میں بھرپور احتجاج ہوئے اور اسلام آباد میں ایک ہفتہ کے اندر تین بڑی ریلیاں ہوئیں۔ اگرچہ آپ کی بات درست ہے کہ جس سطح پر احتجاج ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہو پایا۔ تمام شیعہ جماعتیں اگر اپنی ذمہ داری ادا کرتیں تو شاید اس سے بڑھ کر احتجاج ہوسکتا تھا۔ جہاں تک چہلم کی بات ہے تو تعزیتی ریفرنس بہت سے شہروں میں ہوئے کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور اسلام آباد وغیرہ میں ایک لمبی لسٹ ہے ہمارے پاس، چونکہ ہم نے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سے تمام اضلاع میں رابطے کئے، ہمارے علم میں ہے کہ کہاں کہاں شہید باقر النمر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی میں اس حوالے سے بہت بڑے بڑے اجتماعات ہوئے۔ جس میں شہید کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی فوج سعودی اتحاد میں شامل ہے، اور آئندہ دنوں میں چونتیس ملکوں کے اتحاد میں اہم کارروائیاں بھی کرسکتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کا کیا ردعمل ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! 34 ممالک کے اتحاد کا ڈرامہ اب دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ سعودی حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ورنہ دنیا کو معلوم ہے کہ جس اتحاد میں دہشت گردی اور داعش کے خلاف فرنٹ لائن پر جو ممالک ہیں، اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے اور وہ اتحاد کس حد تک چل سکتا ہے۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے، چونکہ ان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ سعودیہ پہلے یمن کی جنگ سے تو نکلے، پھر شام جانے کی بات کرے۔ یمن کے انصار اللہ ہی سعودی حکومت کے خاتمے کا باعث بنیں گے اور جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستانی حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اس اتحاد کا حصہ بننے کی کھل کر بات نہیں کی۔ چونکہ پاکستان جانتا ہے کہ افغان وار میں جا کر اسے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہاں ملکوں کے آپس میں دفاعی معاہدے ہوتے ہیں۔ سعودیہ کے ساتھ پاکستان کے کچھ دفاعی معاہدے ہیں۔ فوجی تربیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر حکومت پاکستان اس اتحاد کا باقاعدہ حصہ بن کر شام کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتی ہے تو اس کے خلاف نہ صرف مجلس وحدت مسلمین بلکہ پاکستان کی عوام بھرپور احتجاج کرے گی۔ کیونکہ ملکی مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس پر کبھی سودے بازی نہیں کرنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف پرعزم ہے لیکن دہشتگردی کا عفریت ختم ہونیکا نام نہیں لے رہا، گذشتہ دنوں جامع القائم ٹیکسلا پر بھی دہشتگردانہ حملے کی کوشش کی گئی، کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔؟
علامہ اصغر عسکری: اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی، مگر صرف فوج کافی نہیں ہے بلکہ حکومت اور عوام کو بھی ساتھ دینا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کے 22 نکات پر کتنی سنجیدگی سے عمل ہوا ہے؟ ایک اہم سوال ہے؟ ہمارے وزیر داخلہ صاحب اعتراف تو کرتے ہیں کہ بعض مدارس میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، مگر ان مدارس میں سے کسی ایک مدرسہ کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا یہ فوج کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ آج بھی انہیں مدارس میں دوسرے مسالک کے لوگوں کا کفر پڑھایا جا رہا ہے اور پھر اس میں علما و مفتیاں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کالعدم جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بلکہ ملک کی بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں انہیں اپنے ساتھ بٹھاتی ہیں۔ ان سے تعاون کرتی ہیں۔ تو جب تک یہ تمام طبقات اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے، پاکستان میں امن ایک خواب رہے گا۔

اسلام ٹائمز: جنوبی پنجاب میں ٹارگٹڈ آپریشن کی بات کی گئی، تاہم عمل درآمد نظر نہیں آرہا، کیا کہیں گے۔؟
علامہ اصغر عسکری: جنوبی پنجاب دہشت گردوں کا گڑھ ہے، کے پی کے، کراچی، اندورن سندھ بلکہ بلوچستان میں جہاں جہاں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ اس کے دہشت گردوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے، لیکن حکومت چونکہ سنجیدہ نہیں ہے، خاص طور پر پنجاب حکومت کو اپنے اقتدار سے سروکار ہے۔ عوام مرتی ہے تو مرتی رہے۔ یہ ان کا مسئلہ نہیں، ہاں جس دن یہ دہشت گرد ان حکمرانوں کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور انکے لئے خطرہ بنتے ہیں تو پھر وہ انکو مار بھی دیتے ہیں، جیسے ملک اسحاق کو مارا گیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت کی ترجیج کبھی عوام رہی ہی نہیں ہے بلکہ اپنے مفادات کے لئے اس ملک میں سیاست ہوتی ہے۔ ہمارا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ جب تک ان علاقوں میں آپریشن نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے اور یہاں آپریشن نہیں ہوگا کیونکہ حکومت کے بعض وزرا کے ان دہشت گردوں سے رابطے ہیں اور وہ ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لال مسجد مافیا اس قدر طاقتور کیوں ہے کہ وزیر داخلہ بھی کوئی اقدام اٹھا نہیں پا رہا۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! لال مسجد کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاتی، آج حکمرانوں سے پاکستان کی پوری عوام کا یہی سوال ہے کہ کیا وجہ ہے وزیر داخلہ صاحب ایک طرف تو کہتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی FIR نہیں ہے، ہوگی تو کاروائی کریں گے اور جب FIR کا ریکارڈ دیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ اسلام آباد کی انتظامیہ کے لوگ رات کی تاریکی میں مولانا کو تھانے لاتے ہیں، تاکہ FIR ختم کرائی جا سکے، جبکہ کسے نہیں پتہ کہ لال مسجد نے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو بنانے اور باقی رکھنے میں لال مسجد کا کردار ہے۔ ملک کے آئین کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے خلاف تو غدارِ وطن کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لال مسجد اتنی طاقتور نہیں بلکہ ہمارے حکمران بزدل ہیں، ورنہ حکومتوں کے پاس بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنا مفاد اور اپنا اقتدار عزیز ہے، وہ کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے، جس سے انکے اقتدار اور مفاد کو ذرہ برابر خطرہ ہو۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کئی پریس کانفرنسز میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، آپ اس حوالہ سے کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! اب میڈیا اتنا آزاد ہے کہ لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے، حقیقت میں اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ سب سے بڑا سپورٹر خود مولوی عبدالعزیز ہے اور پھر پاکستان بھر میں جو لوگ ابو بکر بغدادی کو ویلکم کہہ رہے ہیں اور داعش کی وال چاکنگ کر رہے ہیں، یہ کون ہیں؟ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ یہ کالعدم جماعتیں ہیں، باقاعدہ کوئی داعش کا سٹریکچر نہیں ہے۔ یہ دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ داعش ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے۔ جو لوگ بھی اس آئیڈیالوجی کے حامی ہیں، وہ داعش ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو داعش سے منسلک نہ کرتے ہوں۔ اصل وجہ وہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا کہ اگر وزیر داخلہ صاحب یہ مان بھی لیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود ہے، تو پھر خود ان کی کارکردگی زیر سوال آتی ہے اور کبھی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔ بہرحال جس دن ہمارے حکمران ان دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ ہوگئے، تو پھر ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ جن لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے، آپ لسٹ اٹھا کر دیکھیں 360 افراد میں سے صرف 25 فیصد دہشت گرد تھے، ورنہ تو عام ذاتی جھگڑوں میں جو لوگ ملوث تھے، ان کو پھانسی ہوئی ہے۔

Page 2 of 3

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree