وحدت نیوز ( خیر پور) ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کی طرح ضلع خیر پور کے مختلف علاقوں میں بھی رہبر کبیر امام خمینی (ر ہ) کے فرمان پر آزادی القدس ریلی نکالی گئی، مجلس وحدت مسلمین ضلع خیر پور کے زیر اہتمام جامع مسجد حیدری تا خیر پور پریس کلب تک مرکزی ریلی ضلعی سیکریٹری جنرل آغامنور حسین جعفری کی قیادت میں نکالی گئی ۔اس ریلی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، آصغریہ آرگنائزنشن اور شیعہ علماء کونسل بھی شریک تھیں، پریس کلب پہنچ کر ریلی نے جلسے کی صورت اختیار کر لی جس میں مولانا نشان حیدر ساجدی ، مولانا اسد اقبال ، سیدجمن شاہ اور وکیل امداد نے خطاب کیا۔

جب کہ رانی پور ، ٹھری میرواہ ، اور دیگر علاقوں میں بھی القدس ریلیا ں نکالی گئیں جن میں ظہیر عباس ، فقیر محمد شیخ ، زولفقار ہاجانو، شبیر احمد چانڈیو ، مولانا احسان رجائی ، ضمیر حسین سومرو، فدا حسین سولنگی ، استاد غلام اصغر، مالانا بنی بخش دانش اور زوار عبدالستار نے خطاب کیا ۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں مرد ، بزرگ اور بچے ریلی میں شریک تھے ،شرکاء ریلی نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر امریکہ اور اسرائیل مردہ باد ، اور القدس لنا کے نعرے درج تھے۔ریلی کے اختتام پر شرکاء ریلی نے امریکہ اور اسرائیل کے پرچم بھی نذر آتش بھی کیئے ۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) امام خمینی رہ کے فرمان کے مطابق عالمی یوم القدس کے سلسلے میں امام بارگاہ ہزارہ نیچاری علمدار رود کوئٹہ سے ایک عظیم الشان یوم القدس ریلی علماء کرام کے زیر پرستی آج کو نکالی گئی ۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ قوم سمیت دیگر مومنین مرد ، خواتین ، جوان ، بوڑھے اور بچوں نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء نے فلسطینی سے اظہار کی اور قدس کی آزادی کے شعار بلند کیے۔ جبکہ امریکہ ، اسرائیل اور شیطانی طاقتوں کے خلاف شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے اپنے نفرت کا اظہار کیے۔ ریلی امام بارگاہ ہزارہ نیچاری سے ہوتا ہوا علمدار روڈ نزد برما سیدآباد پہنچا جہاں پر ریلی کے شرکاء سے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ سیدہاشم موسوی ، علامہ ولایت حسین جعفری ، علامہ جمعہ اسدی اور مجلس وحدت مسلمین بلوچستان جنرل سیکرٹری مولانا مقصود علی ڈومکی نے خطاب کیے۔

انہوں نے کہاکہ اسرائیل کے ناپاک وجود مسلمانوں اور عالم اسلام کے خلاف ایک خطرناک سازش ہے جو مسلمانوں کو کمزور کرکے ختم کرنے درپے ہیں ۔اس صورت حال میں جب مسلمان مشکلات سے دوچار تھے تو ولی فقیہ امام خمینی رہ نے سازش کو بھانپتے ہوئے اپنے اجداد کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے فتویٰ دیا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کو طور منایاجائے کیونکہ یہ ہماری اسلامی غیرت کا سوال ہے کہ ناپاک اسرائیلی یہودی حیلے و بہانے فلسطین پر قابض ہوکر بیت المقدس کو یرغمال بنا ہواہے اور ہمارے مسلمان مظلوم فلسطینی بھائیوں کی زمینو ں قابض ہوئے ہیں، ہمارے فلسطینی مسلمانوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے ہزاروں فلسطینوں کوشہید کرکے عورتوں کے عصمت دری کی انہیں قیدی بنایاان کے بچوں کو یتیم کرکے انہیں بے گھر کردیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، ان ناپاک یہودیوں شیطانی طاقتوں کا منصوبہ اسلام کیلئے انتہائی خطرناک ہے لہٰذا ہمیں چاہیے شرعی فرض کو سمجھتے ہوئے امریکہ ،اسرائیل اور ان کے حواریوں کے خلاف کم ازکم صدائیں احتجاج بلند کریں۔

مقررین نے کہا کہ اگر آج امام خمینی رہ کی قیادت میں امریکہ واسرائیل کے خلاف جدوجہد کا آغاز نہ ہوتا تو خاکم بدہن یہ ناپاک اسلام دشمن عناصر مکہ اورمدینہ سمیت دیگر اسلامی ممالک پر قابض ہوکر ان پر بے پناہ ظلم ڈھاتے۔ اب ہمارے قائدین علماء سمیت تمام مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتی کہ وہ اسرائیل وامریکہ سمیت دیگر شیطانی طاقتوں کے خلاف آواز بلند کرکے اپنی اسلامی غیرت اور تشخص کا دفاع کریں ۔ انہوں نے ایک سیاسی ٹولہ کی بھی سخت مذمت کی جنہوں نے اپنے بیان میں کہاتھاکہ ہزارہ قوم کو یوم القدس کوئی تعلق نہیں انہوں نے کہ اس سیاسی ٹولہ کا سوائے مذہبی رسوامات اور اسلامی اقدار کے خلاف کا م کرنے سوا معاشرے میں کوئی کردار نہیں۔ریلی علمدارروڈ سے ہوتاہوا بہشت زینب س پر اختتام پذیر ہوا آخر میں شہداء القدس ریلی کوئٹہ کی یاد مناتے ہوئے ان قبروں فاتحہ خوانی کی گئی۔

birthوحدت نیوز (تہران)  امام خامنہ ای ۱۷ جولائی ۱۹۳۹ ع کو پیدا ہوئے۔ نواب صفوی جیسے عظیم انقلابی رہنما سے متاثر ہوتے ہوئے انہوں نے بھی انقلابی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اورجب امام خمینی نے شاہ ایران کی طاغوتی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ان کی قیادت میں فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔ قید و بند کی صعوبتوں اورشاہی تشدد بھی انہیں امام خمینی نے پیغام کو پھیلانے سے روکنے میں ناکام رہا۔ منافق دہشت گردوں نے انہیں نماز میں بم دھماکے میں اڑانے کی سازش کی لیکن اللہ تعالی کو ان سے کچھ اور ہی کام لینا تھا۔ اس حملے میں ان کا بازو شل ہوگیا۔ وہ دو مرتبہ ایران کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے علاوہ کئی اہم امور اور اداروں میں امام خمینی کے نمائندہ بھی رہے۔ امام خمینی کی رحلت کے بعد دنیائے اسلام کی مرجعیت کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آن پڑی اور تب سے بفضل خداوند متعال وہ ولی امر مسلمین کے منصب پر فائز احسن طریقے سے اپنی ذمے داریوں کو ادا کررہے ہیں۔ان کی ۷۴ ویں سالگرہ پر ہم امام زمان اور ان کے تمام پیروکاروں اور محبین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

مرجع جہانی، خامنہ ای امامی
                                                                                                                                                                                                           

تحریر: سید حسن بخاری



اس میں کوئی شک نہیں کہ آیت اللہ شہید محمد حسین بہشتی عالم تشیع کی ان چند شخصیتوں میں سے ہیں کہ جن کے پاس تنظیمی اور سیاسی امور کی انجام دہی کے لیے افراد کی تربیت کے مختلف پروگرامز اور راہ حل موجود تھے۔ وہ چیز جو شہید بہشتی کو اپنے ہم عصر مفکرین اور دانشوروں سے ممتاز کرتی ہے ان کے پاس اسلامی افکار و نظریات کا مکمل عملی پروگرام ہونا ہے۔ شہید بہشتی صرف سوچ و فکر کی دنیا میں محدود نہیں رہتے تھے بلکہ آپ سیاسی، حکومتی اور اجتماعی میدان کی ضروریات کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ آپ وقت کی ضروریات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے اور ایک عملی شخصیت کے مالک تھے۔ شہید بہشتی ایک معتدل، جامع، فہیم اور مستقبل کی فکر کرنے والی شخصیت تھے۔ شہید بہشتی سوچ و فکر کی دنیا کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ عملی سیاسی میدان کے بھی شہپر تھے۔ آپ فہم و فراست کی سیاست کی ایک روشن مثال تھے کہ جنہوں نے سخت ترین حالات میں انقلابی اور متدین افرادی قوت کی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ یہ تبدیلی جہاں ان کی مضبوط سوچ و فکر کی عکاس ہے تو وہیں ان کی مدبرانہ اور فہم و فراست سے بھرپور عملی سیاست کا نتیجہ بھی۔

 

شہید محمد حسین بہشتی کی بہت ساری تقریریں موجود ہیں کہ جن کے ذریعے آپ نے مدبرانہ سیاسی فعالیت کے عملی راہ حل پیش کئے اور انہیں مختلف سیاسی تنظیموں اور انجمنوں تک پہنچایا۔ شہید بہشتی صرف حکومت وقت پر تنقید پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک سب سے مہم مستقبل کے لیے ماہر اور ٹیکنیکل افرادی قوت تیار کرنا تھا۔ مثال کے طور پر آپ کی ایک تقریر جو آپ نے اپنی شہادت سے صرف ایک ہفتہ پہلے کی تھی، میں آپ نے اسلامی تنظیموں اور انجمنوں کے لئے متدین افرادی قوت کی اقلیت کو سیاسی افرادی قوت کی اکثریت میں تبدیل کرنے کے عملی راہ حل پیش کئے۔ شہید بہشتی کی اس تقریر کے اہم نکات میں تنظیمی فعالیت کی اہمیت، کمزور نکات کی نشاندہی اور اپنا محاسبہ، دوسروں سے مضبوط رابطہ، اور افراد کو جذب کرنے کی قوت، نظم و ضبط کی اہمیت، باصلاحیت اور ماہر عہدیداروں کی شناخت، اپنی معلومات اور مطالعہ میں اضافہ، مخالفین سے درست طریقے سے پیش آنا اور مستقبل کے بارے پر امید رہنا شامل ہیں۔ یہ سب نکات یعنی متدین سیاسی افرادی قوت کی تربیت۔ اگر ہم اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ کیا ہم متدین تربیت یافتہ سیاسی افرادی قوت تیار کرسکے ہیں یا نہیں؟ تو ہمارا جواب منفی میں ہوگا۔ اس حوالے سے ہماری اصل مشکل افراد کی بجائے راہنماوں کی طرف سے ہے، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شہید بہشتی کا کردار ادا کرنے والی شخصیت کا خلا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات اور نقصانات بھی اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم بہ عنوان قوم منظم ہوں اور ہمارے پاس تربیت یافتہ سیاسی افرادی قوت موجود ہو۔
 
شہید بہشتی اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں ایک الہی تنظیم کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک الہی تنظیم کسی صورت خود طلب یا ذات محور نہیں ہونی چاہیے۔ شہید بہشتی ایک خود طلب اور ذات محور اور اخلاص کو صرف اپنے اراکین میں دیکھنے والی تنظیم کو شیطانی، خدا کی مخالف اور اسلام مخالف تنظیم سمجھتے تھے۔


آیت اللہ شہید محمد حسین بہشتی کے اسلامی انجمنوں اور تنظیموں کے لئے دس سنہری اصول:
1۔ ایمان
جتنا ایمان مضبوط ہوگا، اتنے ہی کام آسان اور ہم ہدف کے نزدیک تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اپنے اندر ایمان کو کبھی کمزور نہ ہونے دینا، ایمان روز بروز مضبوط ہونا چاہیئے۔


2۔ عملی پروگرام
 ایسے عملی پروگرام تشکیل دیں کہ جن میں اسلامی اصول اور مومن و متدین افرادی قوت نمایاں نظر آئے۔ ایسے پروگرام تشکیل دیں کہ جس طرح ہمارے مومن بھائی اور مومنہ بہنیں دینی عمل میں اپنے غیر مسلمان ہم عصر لوگوں سے صالح ہیں، اسی طرح معاشرے کے لیے بھی ان سے زیادہ فائدہ مند ہوں۔ اگر آپ لوگوں کا عمل لوگوں کے لیے فایدہ مند ہوگا تو آپ ہمیشہ کے لئے ان کے دلوں میں زندہ رہیں گے، یہ قرآن کا وعدہ ہے (فاماالزبد فیذھب جفإ و اما ما ینفع الناس فیکمث فی الارض) سب بہہ جانے والا ہے اور وہ جو انسانوں کے لیے فائدہ مند ہے باقی رہے گا۔(رعد ۱۷) لہذا اپنی انفرادی خود سازی اور اجتماعی خود سازی میں اپنی انجمنوں اور تنظیموں کے ایسے پروگرام ترتیب دیں کہ لوگوں کی خدمت کے میدان میں سب سے نمایاں نظر آئیں، مگر یہ کام لوگوں سے تعریف وصول کرنے کے لیے نہ ہو بلکہ خدا کے لئے ہو۔


 
3۔ اپنے رابطوں کو مضبوط بنائیں
جب ایک گروہ اقلیت میں ہو تو اسے کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے وسیع اور مضبوط رابطوں سے وہ اپنی افرادی قوت میں اضافہ کریں۔ آپ جتنے زیادہ متحد اور تعداد میں زیادہ ہوں گے، طاقت کا احساس کریں گے۔


4۔ نئے افراد کو جذب کرنا
 ایک مسلمان قوت جاذبہ اور دافعہ دونوں کا حامل ہوتا ہے۔ تنظیمی لوگوں کی قوت جاذبہ بہت زیادہ ہونی چاہیئے۔ تنظیمی لوگوں کا کردار اور گفتار ایسی ہونی چاہیئے کہ اردگرد رہنے والوں کو ایک ایک کر کے اپنی طرف جذب کرے، بلکہ افراد کو اپنی طرف جذب کرنے کا آپ کے پاس پروگرام ہونا چاہیئے۔ کبھی ایسا نہ سوچیں کہ یہ جو ہمارے مخالف ہیں، بس ان کا کام ختم ہوچکا ہے اور اب یہ درست نہیں ہوسکتے، ایسا بالکل نہیں ہے، انسان تبدیل ہوسکتا ہے۔ بہت سارے اچھے اور نیک لوگ لڑکھڑانے لگتے ہیں اور بہت سارے برے افراد تبلیغ اور اچھے برتاو سے اچھے انسان بن جاتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات آپ کو نہیں بھولنا چاہئیں، اسلام کہتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحات تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
 
5۔ نظم و ضبط
جو بھی کام انجام دیں وہ تنظیمی نظم و ضبط کے مطابق ہو۔ ہم مسلمان نظم وضبط کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں، نظم وضبط کو زیادہ اہمیت دیں مگر فرعونی نظم و ضبط نہیں، کیونکہ بعض اوقات نظم و ضبط طاغوتی ہوجاتا ہے۔ ہمارا نظم و ضبط الٰہی و نورانی ہونا چاہیئے۔


6۔ صلاحیتوں کی شناخت اور نکھار
باصلاحیت افراد کی شناخت جو تنظیم کے کلیدی اور اہم عہدوں کے لئے موزوں ہوں اور قابلیت رکھتے ہوں بہت اہم ہے۔ بعض اوقات ہم ایک بہت متقی اور دین دار فرد کو ایک اہم عہدہ دے دیتے ہیں مگر کیونکہ وہ اس عہدے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہوتا، برا اثر چھوڑتا ہے۔ آپ لوگ اپنے اگلے دس سال کے لیے باصلاحیت افراد کی شناخت کریں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھار کر انہیں تیار کریں۔


7۔ اپنی معلومات میں اضافہ کریں
 اسلامی تعلیمات کا بہت مطالعہ کریں، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل مطالعہ بھی ہونا چاہیئے۔ آپ میں سے ہر ایک کا شرعی وظیفہ ہے کہ ہفتے میں کچھ وقت اپنے شعبے سے متعلق ٹیکنکل مطالعہ ضرور کریں۔ اس مطالعہ سے آپ کی ٹیکنکل صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہیئے۔


8۔ دشمن اور مخالفین سے درست طریقے سے پیش آنا
 اپنے مخالفین سے درست طریقے سے پیش آنا سیکھیں۔ بعض اوقات ہمارے برادران و خواہران مخالفین کے ساتھ سخت رویی سے پیش آنا چاہتے ہیں اور اپنے طرز عمل سے معاشرے میں خود ہی قصوروار ٹھہرتے ہیں۔ مخالفین سے پیش آنے کا طریقہ درست ہونا چاہیئے ، اپنے مخالفین سے پیش ّآنے کے طریقوں پر مل بیٹھیں، آپس میں بات کریں اور درست طرز عمل کو اپنائیں۔


9۔ اپنے اوپر تنقید
مجھے نہیں معلوم آپ تنظیموں اور انجمنوں کے افراد کبھی آپس میں اکٹھے ہو کر بیٹھتے اور یہ سوچتے ہوں کہ اس ہفتے میں ہمارے کاموں کے نقائص اور عیب کیا تھے۔ اس طرح بیٹھ کر ایک دوسرے کی غلطیوں کے بارے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (المومن مرآت المومن) یعنی مومن مومن کا آینہ ہے، آئینے کا ایک کام یہ ہے کہ وہ انسان کے عیب اسے بتاتا ہے۔ لہذا ہر ہفتے یا پندرہ دن بعد ایک گھنٹہ اکھٹے بیٹھیں، خندہ پیشانی کے ساتھ ہر کوئی اپنے عیب خود بیان کرے، پھر جو رہ جائیں وہ دوسرے بیان کریں، پھر سب کے عیب اور خامیاں بیان کی جائیں۔
 
10۔ مستقبل کے بارے پرامید رہیں
کسی بھی مسلمان کو ناامید ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمان سراپا امید ہے۔ جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ ہیں کہ مشکلات میں مایوس ہو جاتے ہیں۔ ایک مومن کو ہمیشہ پرامید ہونا چاہیئے۔ قرآن اور اسلام کی تعلیمات نے ہمیں کس قدر تاکید کی ہے کہ کوئی چیز پا لینے سے بہت خوش ہوں، نہ کوئی چیز چھن جانے پہ غمگین ہوں، یہ اس لئے ہے کہ اگر ایک دفعہ کوئی مصیبت آپ پر آن پڑے تو فوراً مایوس نہ ہوجائیں اور اگر خدا آپ کو یک نعمت یا کامیابی عطا کرے تو بہت خوش نہ ہوں، ہر دو حالت میں صبر سے کام لیا جائے۔ خدا سے امید ہے کہ اسی طرح امید، ایمان اور نیک اعمال سے اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہوں گے۔

 

بشکریہ: اسلام ٹائمز

barsi imam rehber speachوحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک)  انقلاب اسلامی ایران کے سربراہ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کے بیرونی دشمن اس فکر میں ہیں کہ موجودہ انتخابات کو ایران کے اسلامی نظام کے لئے انتباہ کے طور پر استعمال کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اسلامی کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ انتخابات کے حوالے سے ایرانی عوام سرد مہری کا مظاہرہ کرِیں، یا وہ انتخابات کے بعد فتنہ ایجاد کرنے کی کوشش کریں گے، سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ وہ اشتباہ کر رہے ہیں، لگتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ملت ایران کو پہچانا نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے تہران میں امام خمینی (ره) کی برسی کی مناسبت سے ہونے والے لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امام راحل، خمینی کبیر کو خدا، عوام اور اپنی ذات پر مکمل اعتماد تھا، ان کا کہنا تھا کہ امام خمینی کا یہ اعتقاد ہم میں بھی موجود ہونا چاہیئے، اور موجود انتخابات ہمارے ان اعتقادات کا مظہر ہونے چاہیئں۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایرانی عوام جہادی/ حماسی جذبہ سے ووٹ ڈالنے کے لئے نکلیں گے، ان کہ کہنا تھا کہ جس کام کو ذوق و شوق اور بھرپور جذبہ سے انجام دیا جائے اسے حماسہ کہتے ہیں۔آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کا مزید کہنا تھا کہ ہر وہ ووٹ جو آپ انتخابات میں موجود کسی بھی امیدوار کو دیتے ہیں، یہ دراصل جمہوری اسلامی کو ووٹ ہے، یہ ووٹ اسلامی نظام اور موجودہ انتخابات پر آپ کے اعتماد کا اظہار ہے۔ دوسرے مرحلے میں آپ اپنا ووٹ اس امیدوار کو دے رہے ہیں جسے آپ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے امیدواروں کی نسبت اس ملک کے مستقبل کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو یہ تصور کرتے ہیں کہ اس ملک میں ایک خاموش اکثریت ہے جو انقلاب اسلامی ایران کو قبول نہیں کرتی، لگتا ہے کہ وہ افراد 9 دی کو بھول گئے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی بھول گئے ہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کے گذشتہ 34 سالوں میں ملک بھر کے تمام شہروں میں 22 بھمن/ 11 فروری کو لاکھوں لوگ اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے دن انقلاب کی حمایت میں باہر نکلتے ہیں اور مردہ باد آمریکہ کے نعرے لگاتے ہیں۔

agha ali 2وحدت نیوز (بلتستان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے امام خمینی کی برسی کی مناسبت سے تعزیتی بیان میں کہا کہ امام خمینی وہ عظیم محسن ہیں جنہوں نے ایران سے ڈیڑھ ہزار سالہ تاج شہنشاہیت کو کربلا سے درس حریت لیتے ہوئے روند ڈالا اور حکومت اسلامی کو قائم کرکے کربلا کی عملی تفسیر کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم انقلاب اسلامی ایران کو دور جدید کے معرکہ حق و باطل سے تعبیر کرسکتے ہیں، امام خمینی نے صرف اور صرف روح اسلام اور بازوئے حیدری سے خیبر شہنشاہیت کے در کو اکھاڑ پھینک کر دنیا کے مظلوموں اور کمزوروں کے لیے مثال قائم کردی کہ حق والے اگر میدان میں ڈٹ جائیں تو یہود و سعود اور موساد و ساواک اور سی آئی اے کی سازشوں کو طشت از بام کرنا کوئی مشکل نہیں۔ انہوں نے امام خمینی کی وفات کے موقع پر کہا کہ ہمیں روح خمینی سے عہد کرنا چاہیے کہ ہم بھی نہتے ہیں اور امریکہ و اسرائیل سے لے کر ہندوستان اور طالبان جیسی شیطانی طاقتوں کے مد مقابل میں ہیں اور ہم بھی پاکستان میں خوف کے خیبر کو، دہشت گردی کے خیبر کو، بدامنی کے خیبر کو، استحصالی نظام کے خیبر کو اس طرح اکھاڑ پھینکیں گے جس طرح امام خمینی نے ایران میں ظلم و شہنشاہیت اور بربریت کے عظیم خیبر کو فتح کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ارادہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں موجود کمزوروں اور مستضعف لوگوں، مظلوموں اور محروموں کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔ ہم پاکستان میں جاری استحصالی شہنشاہی نظام کو اور امریکی ماموریت کو اس طرح روند ڈالیں گے جس طرح امام خمینی نے انقلاب اسلام برپا کرکے کیا۔ ہم پاکستان کے حقیقی محبوں اور مظلوموں کو مضبوط کریں گے۔ ہم پاکستان دشمن طاقتوں کے لیے وطن کی زمین تنگ کریں گے۔ دہشت گردوں، انتہاء پسندوں اور سی آئی اے، را کے ایجنڈوں پر کاربند قوتوں کے چنگل سے پاکستان کو آزاد کریں گے اور فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے، جہاں تمام مکاتب فکر اپنے اپنے عقائد کی روشنی میں زندگی بسر کر سکیں اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

Page 5 of 6

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree