وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کی ’’وحدت کانفرنس‘‘  میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نےاپنی اہلیہ محترمہ بیگم پروین سرور کے ہمراہ خصوصی شرکت کی ۔اپنےخطاب میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ برصغیر میں دین اسلام پھیلنے کا کریڈٹ صوفیاء اور اولیاء کرام کو جاتا ہے، جنہوں نے محبت اور اتحاد کا پیغام عام کیا، آج مسلم امہ کو جتنے بھی چیلنجز کا سامنا ہے ان کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان اتفاق کرلیں، آج جو قیامت صغریٰ کشمیریوں پر گزر رہی ہے اس کا بھی علاج ہو سکتا ہے، فلسطین میں جو بھائی ظلم و بربریت کا شکار ہو رہے ہیں، بیت المقدس کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، بیت المقدس کی آزادی کیلئے ہر مسلمان اور مذہبی آزادی پر یقین رکھنے والوں کو جدوجہد کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری امت حضور(ص) کی تعلیمات پر عمل کرکے متحد اور کامیاب ہو سکتی ہے، اگر ہم حضور (ص) اور صحابہ کرام کے راستے پر چلنا شروع کریں تو ہماری شان و شوکت ہمیں واپس مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے نبی(ص) سے سیکھنا ہے ان کی خوبیاں سیکھنی ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا ان کو لیڈر مانتی ہے، میں افواج پاکستان، علماء کرام، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان سے دہشت گردی اور فرقہ واریت کو شکست دیدی ہے، جس طرح آج علماء ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں جب ملک گیر سطح پر جمع ہو جائیں گے، ہمارا ملک ریاست مدینہ جیسا بن جائے گا، اب غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آ رہے ہیں، بدھسٹ آئے ہوئے ہیں، انڈیا میں اقلیتوں پر ظلم ہوتا ہے لیکن پاکستان کرتارپور سکھوں کیلئے کھول رہا ہے، جتنی مذہبی آزادی اقلیتوں کو پاکستان میں ہے دنیا میں شاید کہیں بھی نہیں۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ ہم اقلیتوں کو وہ حقوق دے رہے ہیں جو ریاست مدینہ میں حاصل تھے۔ میرے دل میں علماء کیلئے بے حد احترام ہے، میں نے ہمیشہ علماء کو عزت دی ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ صاحبزادہ فضل کریم سمیت دیگر علماء میرے دوست تھے، میں مجالس عزاء میں بھی شرکت کرتا رہا ہوں کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔

وحدت نیوز (لاہور)  ایوان اقبال لاہور میں مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام بسلسلہ عید میلاد النبی(ص) ہونیوالی وحدت کانفرنس میں تمام مذاہب، تمام مسالک اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سمیت ملک بھر سے آئے مشائخ عظام نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سربراہ مجلس وحدت مسلمین راجہ ناصر عباس نے یہاں اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے لئے میلاد نبی(ص) عید بھی ہے، اگر آسمان سے آخری نبی(ص) آئے تو وہ کیوں عید کا دن نہیں ہوگا اس لئے ہمارے لئے ربیع الاؤل کا مہینہ برکتوں، جشن کا مہینہ اور یہ ایام ہیں اسی طرح ان کی نسل سے تعلق رکھنے والے حضرت امام جعفر علیہ اسلام کی تشریف آوری بھی اسی مہینے میں ہوئی ہے۔ دنیا میں سات کروڑ سے زائد سادات ہیں، تعلیمات اہلبیت(ع) کو دنیا میں پہنچانے میں انکا مرکزی کردار، عزت اور اہمیت اور شرف ہے، اس لئے ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا تعلق رسول(ص) اور اہلبیت سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس دور میں ہم ہیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ فتنوں کا دور ہے، دشمن کھل کر سامنے آ چکا ہے، نفاق کے چہرے سے پردہ ہٹ چکا ہے، حملہ آور چاہتا ہے کہ اپنے تسلط کو پوری امت مسلمہ پر نافذ رکھے لیکن قرآن کہتا ہے کہ دنیا کے فرعونوں کو تسلط پیدا نہیں کرنے دینا خواہ وہ کسی بھی قسم کا تسلط ہو، ان انسان دشمن درندوں، انسانیت کے قاتلوں کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دینا، حضرت علی علیہ السلام کی آخری وصیت تھی کہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گار بننا، اس دنیا میں ظالموں کا ایک گروہ ہے جس کا سربراہ امریکہ ہے، اس کے ساتھی مسلمانوں کی صفوں میں گھس بیٹھے ہیں جو اثر انداز ہوتا ہے، ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرتا ہے تاکہ ہم بٹ جائیں اور فاصلے پیدا ہو جائیں پھر یہ کہتا ہے کہ آپ امریکہ کو قبول کرلو، اس شیطان کے شیلٹر تلے آ جاؤ اسی میں فائدہ ہے۔

علامہ راجہ ناصرعباس نے کہا کہ امام خمینی خود سید زادہ ہیں جو دشمن کی سازشوں کو دیکھتے ہیں انہوں نے ہفتہ وحدت کا اعلان کرکے دشمن کو مایوس اور امت مسلمہ کو ایک کیا، ہماری عبادت گاہوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی، یہ دشمن کے آلہ کار تھے، جو وطن کو کمزور اور کھوکھلا کر رہے تھے اس کا مقابلہ ہم نے وحدت سے کیا، آج وہ گلدستہ موجود ہے، جس نے تکفیر اور دہشتگردی کو شکست دیکر امت کو اتحاد کی لڑی میں پرویا، ہمارا ظاہر اور باطن ایک ہے، ہم پاکستان بنانے والوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے اسلاف نے پاکستان بنایا تھا، ہم ملے تھے پاکستان بن گیا، ہم نے اکٹھے ہوکر دشمنوں کو شکست دے ڈالی، ہم سب یہاں موجود ہیں ہم سب آگے بڑھیں گے، ہم میں کسی کے ہاتھ مظلوموں کے خون سے نہیں رنگے بلکہ ان کے ہم مخالف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں لیکن جہاں قانون کی عملداری نہ ہو وہاں انصاف نہیں ملتا، کرپٹ کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔

علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ عمران خان نے کرپٹ لوگوں کو پکڑنا شروع کیا تو ان پر یہودیوں کے ایجنٹ جیسے الزامات لگنا شروع ہو گئے، لیکن الزامات لگتے ہیں اور لگیں گے، دنیا میں ایک ہی فرعون، جلاد اور شمر ہے یہ سارے جلاد ہمارے لئے شمر ہیں، سارے لوٹنے والے شمر ہیں، سارے سیاسی فرعون جو مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، سارے ہی فرعون ہیں، لیکن ہم نے اکٹھے رہ کر آگے بڑھنا ہے ایک دوسرے کی توانائیوں سے استفادہ کرنا ہے، مسلمانوں کی وحدت کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم دشمن کے مقابلے میں اکٹھے ہوکر اسے شکست دیں اور آخری مرحلہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اپنا کر پوری دنیا پر غالب آ سکتے ہیں، ان شاء اللہ یہاں ایسی شخصیات اور ان کی اولادیں موجود ہیں، ہم اس تمام سرمائے کو اکٹھا کرکے اس وطن کو ریاست مدینہ بنائیں گے، یہ سبز ہلالی پرچم والا پاکستان ہے یا قائداعظمؒ کا پاکستان ہے، جس کے پاس سبز پاسپورٹ ہے وہ ہمارا بھائی ہے، یہ ہمارا رشتہ اللہ کے آخری نبیﷺ کی سنت کا رشتہ ہے یہ ہمیشہ مضبوط ہوگا اور اس ملک کی تقدیر بدل ڈالے گا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) ہندوستان،امریکہ اوراسرئیل کا گٹھ جوڑ پاکستان سمیت ایشیا کی امن کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔لائن آف کنٹرول پر مسلسل جارحیت کا مقصد پاکستان کو جنگ کی طرف دھکیلنا ہے ۔یہ شیطانی مثلث خطے کو بدامنی کے ذریعے غیر مستحکم رکھنا چاہتاہے ۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیوایم پاکستان علامہ سید احمد اقبال رضوی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت پر عالمی قوتوں کی خاموشی افسوسناک ہے،دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم و بربریت ہوئی ہے اقوام متحدہ سمیت عالمی استعماری طاقتوں نے تماشا ہی دیکھا ہے۔

علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ پاکستان کے غیور عوام سربکف تیار ہیں،ہم دشمن کی ہر سازش کو باہمی اتحاد ویکجہتی سے ناکام بنائیں گے،دنیا بھر میں مختلف ممالک کے عوام خائن کرپٹ حکمرانوں کیخلاف سڑکوں پر ہے پاکستان واحد ملک ہے جہاں چوروں ڈاکوں کو بچانے کے لئے اسلام کا نام لے کر عوام کو سڑکوں پر لایا جا رہا ہے،ہمیں اس حساس دور میں باہر سے زیادہ اپنے اندر گھسے دشمن قوتوں کے آلہ کاروں سے خطرہ ہے،ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے محب وطن طبقے کو دیوار سے لگا کر ملک دشمنوں کو پرموٹ کیا ،اور اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے،ہمیں اپنے ماضی کے غلط فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی،بصورت دیگر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

وحدت نیوز(انٹرویو) ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ یمن جنگ، اس کے نتائج اور اس جنگ کے تناظر میں ایران سعودی عرب اور ایران امریکہ کشیدگی کے موضوع پہ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے سید ناصر عباس شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا، اس انٹرویو کا دوسرا اور آخری حصہ پیش ہے۔ (ادارہ)

سوال: کیا امریکہ ایران پہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران نے امریکہ اور اس کے مغربی بلاک کو بڑا موثر جواب دیا ہے، امریکہ کے کہنے پہ جب برطانیہ نے ایران کے ایک بڑے تیل بردار جہاز کو جبرالڈ میں روک کر عملے سمیت اسے اپنی تحویل میں لیا تو ایران نے کم ازکم چار جہاز جس میں ایک بڑا برطانوی جہاز شامل ہے کو خلیج کے اندر روک کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس وقت تک ایک جہاز بھی واپس نہیں کیا کہ جب تک ایران کا بحری جہاز اپنا پورا سفر مکمل کرکے واپس نہیں پہنچ گیا۔ تو ایران نے ملٹری چیلنج دیا ہے۔ آج کے دور کے اندر برطانوی جہازوں کو پکڑنا، یورپی ممالک کے جہازوں کو روکنا، امریکی جہاز کو گرانا بڑے چیلنج ہیں اور ایران نے یہ کر دیکھائے ہیں۔ امریکہ خلیج میں جو عالمی فوج تعینات کرنا چاہتا تھا تو وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف ایران کا اثرورسوخ خطے میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی جنگ ہوئی تواس کا میدان بھی ایران کا منتخب کردہ ہو گا۔

 امریکہ خطے میں اجنبی ہے جبکہ اسی خطے میں ایران نے ہر حوالے سے اپنی برتری ثابت کی ہے۔ وہ ممالک جہاں امریکی بیڑے موجود ہیں، وہاں کی حکومتوں کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔ جن جگہوں پہ امریکی اڈے موجودہیں وہ ایرانی ہتھیاروں کی پہنچ اور دسترس میں ہیں۔ خواہ وہ پانچواں بحری بیڑا ہو، قطر کے اندر ان کے اڈے ہوں۔ سعودی عرب، عرب امارات کے اندر امریکی اڈے ہوں تو یہ تمام ایران کی پہنچ سے باہر نہیں ہیں بلکہ ایران کے میزائلز کی رینج میں اور نشانے پہ ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ باتوں میں تو کہیں آگے تک جا سکتا ہے مگر جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایرانی سفارتکاری کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے یورپ کے اندر بھی امریکہ کو بدنام کیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یورپ اپنے اندر توانائی نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کے مقابلے میں ایران کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکا۔

سوال: امریکی پابندیوں کا ہتھیار اب کی بار کتنا کارگر ثابت ہوگا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: امریکی پابندیوں کے باوجود ایران نے سیاسی اور اقتصادی یہ فائدہ حاصل کیا ہے کہ تقریباً ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے ایران اور چین کے درمیان معاہدے طے پائے ہیں۔ یادر ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا معاہدہ ٹوٹل چھپن ارب ڈالر کا ہے جبکہ چین اور ایران کے درمیان ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے ہیں۔ اسی طرح ترکی نے بھی انکار کیا ہے کہ ہم ایرانی تیل کی خریداری بند نہیں کریں گے۔ اسی طرح روس نے انکار کیا ہے یعنی امریکہ جو پابندیوں کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر ایران کے خلاف تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہا تھا۔ ایران نے عملی طور پر اس ہتھیار کو بھی بیکار کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بلآخر پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ امریکہ اس خطے کے اندر رہ کر ایران کے ساتھ جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسے عراق سے بھی ردعمل مل سکتا ہے، شام سے مل سکتا ہے۔ لبنان، یمن، ایران سے جواب مل سکتا ہے۔ اس کی سمندری، زمینی فوجیں سب غیر محفوظ ہیں، وہ کوئی بڑا آپریشن لانچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

خطے میں جو امریکی اتحادی ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ وہ کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی جنگ کی صورت میں یورپ کے اوپر جو اثر پڑے گا، اس کے نتیجے میں اقتصادی بحران کا بھی خدشہ ہے، یورپ اس کے لیے تیار نہیں ہے لہذا ایک بڑی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خطے میں سیاسی جنگ جاری رہے گی، جیسی کہ ایک جنگ ابھی عراق میں جاری ہے کہ جس میں ایران ٹارگٹ ہے۔ عراق میں حکومت کے مخالف جو مظاہرے جاری ہیں، ان کے پیچھے بھی امریکہ ہے، اس میں بھی امریکہ کو شکست ہو گی کیونکہ زمینی صورتحال میں ایرانیوں کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ ایرانی اتحاد خطے کے اندر روز بروز مضبوط اور پاور فل ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر زمینی حقائق آپ کے موافق نہ ہوں، تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو مخالف فریق کی قوت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو بھی بالآخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ خطے میںفیصلہ سازقوت ایران ہے۔ نتیجے میں جو پرو ایران عناصر مزید مضبوط ہوں گے اور پرو امریکہ عناصر رفتہ رفتہ کمزوری کا شکار ہوتے جائیں گے۔

مستقبل قریب میں ایران اور امریکہ کے مابین براہ راست مذاکرات کا امکان بھی دیکھائی نہیں دیتا اور ایران امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ بھی طے پاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پچھلے معاہدے کے اندر جو ایران کی کمزوری تھی اور امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کی صورت میں انہیں اس کمزوری پہ قابو پانے کا بہانہ مل گیا۔ اس وقت ایران اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو بھی بڑھا رہا ہے اور نیوکلیئر استعداد کو بھی بڑھا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں قوتیں کسی ملک کے پاس ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس قوت کے اظہار کیلئے ان کے پاس سیاسی قوت اور عوامی تائید بھی موجود ہو تو پھر کوئی ملک ان کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ لہذا ایران نے پرامن مقاصد کیلئے اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو بھی بڑھانا شروع کیا ہوا ہے اور میزائل ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا ہے۔ چنانچہ خطے میں امریکہ کا مستقبل زوال پذیر ہے۔ یمن نے امریکہ اور پرو امریکہ عناصر کے زوال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف انقلابی رجحان اور مزاحمت کو تقویت ملی ہے۔ یہ مزاحمت کی فتح ہے کہ اس نے اسرائیل کو اس طریقے سے ہٹ کیا ہے کہ اب اسرائیل سکڑنا شروع ہوگیا ہے۔ بالآخر اسرائیل بھی اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا، جو کہ ایک اور بڑی امریکہ کی شکست ہو گی۔ ڈیل آف دی سنچری ناکام ہو چکی ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت کے نتیجے میں اسرائیل کا پھیلاؤ رک گیا ہے۔ اس میں ایران کا کردار ہے، ایران کی کامیابی ہے اور اسی طرح خطے میں اب اسرائیلی اہداف اور آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ گولان کے اندر بھی اسرائیل کے خلاف شام کی طرف سے مزاحمت شروع ہو چکی ہے۔

سوال: امریکہ ہمیشہ سے ناقابل اعتبار ہے، مسئلہ کشمیر پہ ثالثی کا کردار کیا ایران کو سونپا جا سکتا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران اچھا ثالث ہے یا امریکہ۔ دونوں کے موثر ہونے کی قوت کو شمار کرتے ہیں۔ امریکہ ایک بڑا ملک جو کہ سپرپاور ہونے کا دعویدار ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ میں بہت موثر ہے۔ امریکہ ایک بڑی ملٹری پاور بھی ہے۔ پاکستان کے جتنے تعلقات امریکہ کے ساتھ ہیں، اس سے کہیں زیادہ امریکہ کے تعلقات انڈیا کے ساتھ ہیں۔ بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ملک ہے اور کئی گنا بڑی اقتصادی قوت ہے۔ امریکہ اور بھارت کے دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منظر نامے میں بھی امریکہ بھارت کے ساتھ ہے، اقتصادی، سیاسی تعلقات کے لحاظ سے بھی امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے، جیسا کہ اسرائیل کا معاملہ ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں کے مفادات ،معاہدات اور تعلقات اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ جس کے بعد امریکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات کرا تو سکتا ہے مگر اس مسئلہ کا حل نہیں کرا سکتا۔ جب تک کوئی ملک جارح کو جارح کہہ کر اسے پیچھے ہٹنے پہ آمادہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس وقت تک وہ ایک اچھا ثالث نہیں بن سکتا۔

دوسری جانب ایران ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے اب تک چار سطحوں پہ پاکستان کے موقف سے ہم آہنگ ردعمل دیا ہے۔ اب تک امریکہ نے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو کے خاتمے کیلئے کوئی باقاعدہ مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ ہر مرتبہ یہ کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک کہیں گے تو میں ثالثی کیلئے تیار ہوں، مطلب نہ بھارت کہے گا اور نہ ثالثی ہو گی۔ ایران سٹینڈ لینے والا ملک ہے۔ ایران کی جو ٹاپ لیڈر شپ ہے، نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس کا نوٹس لیا ہے بلکہ اس پہ بات کی ہے۔ اسے عالمی مظلوم خطوں میں شمار کیا ہے۔ پوری دنیا کو کشمیر کیلئے صدا بلند کرنے کا درس دیا ہے۔ اسی طرح ایران کی وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ کے کم ازکم دو سیشن ہو چکے ہیں، جس میں بھارت کے خلاف مشترکہ قرارداد پاس ہوئی ہے۔ اسی طرح ایران میں جو آئمہ جمعہ ہیں، جو مراجع عظام ہیں، انہوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کی شدید مذمت کی ہے اور مقبوضہ کشمیر کو عالم اسلام کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں ایران یہ پوزیشن رکھتا ہے کہ اس سے ثالثی کرائی جائے۔ مسئلہ کشمیر پہ ثالثی وہی کرا سکتا ہے کہ جو جارح کو جارح کہہ سکے۔ پاکستان کو نام نہیں بلکہ موقف سوٹ کرتا ہے۔

امریکہ نہ ظالم کو ظالم کہہ سکتا ہے اور نہ مظلوم کی حمایت کر سکتا ہے، اس کے مقابلے میں ایران میں یہ چیز تو ہے۔ اب ایسا نہیں کہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں بلکہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں مگر ان مراسم کے باوجود ایران نے اپنے اصولی موقف کو غالب رکھا ہے۔ اس بات کی پروا نہیں کی ہے کہ اس اصولی موقف کے نتیجے میں اس کے معاشی یا اقتصادی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن پاکستان چونکہ امریکہ کے زیر اثر سمجھا جاتا ہے تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کے بجائے ایران کو ثالثی کا کردار دے۔ ایران کشمیر کے معاملے پہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو کم تو کر سکتا ہے مگر ثالثی کا کردار اس وقت ادا ہو سکتا ہے کہ جب دونوں ممالک اسے یہ اختیار و مقام دیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر پہ پاکستان کیلئے امریکہ سے زیادہ ایران سودمند ہے۔ جب تک اس خطے میں اس مسئلہ کو گھمیر نہیں سمجھا جائے گا، اس وقت تک اس مسئلہ کا عملی طور پر حل شائد ممکن نہ ہو۔ مسئلہ کو گھمبیر بنانے سے مراد یہ ہے کہ اس مسئلہ کو اتنا فلیش پوائنٹ بنایا جائے کہ عالمی برادری بھارت کو مجبور کرے کہ آو مذاکرات کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرو اورکشمیریوں کو بھی ایک فریق کے طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے حل کیا جائے۔

 کشمیریوں نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ وہ کھڑے ہو گئے ہیں۔ خوف بھارت کے اوپر ہے۔ بھارت کی دس لاکھ فوج خوفزدہ ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہ کرفیو ختم نہیں کرر ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہاں حالات کو غیر معمولی انداز میں قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح رہی تو بھارت نے جو آرڈیننس پاس کیا ہے ، یہ آرڈیننس اسی طرح اپنی مدت پہ ختم ہو جائے گا اور اسے باقاعدہ قانونی شکل نہیں دے سکیں گے۔ کشمیری اس آرڈیننس کے خلاف کھڑے ہیں۔ پاکستان اس قضیئے کا وکیل ہے، اگر پاکستان نے اچھی وکالت کی تو بھارت پہ اتنا دباؤ بہرحال آئے گا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پہ کوئی پیش رفت کر سکے۔ کشمیر ی اگر اپنے اصولی موقف پہ اسی طرح ڈٹے رہے اور انہوں نے اگر اپنی مزاحمت کو عالمی مزاحمت کے ساتھ اٹیچ کرلیا تو یقینا ان پہ بھی کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے، مگر اس کیلئے انہیں قربانی کے ایک بڑے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہو گی۔ میرے خیال میں کرفیو کے خاتمے کے بعد بھارتی فوج کو کشمیریوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور عالمی سطح پہ فضا ایسی بن جائے گی کہ بھارت کو بالآخر مذاکرات کی جانب آنا پڑے گا۔

سوال: مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پہ تحفظات ہیں یا نہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد مارچ پہ تحفظا ت ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اسے خود صاف ہونا چاہیئے اور اپنے ہی دعویٰ کے برعکس اس نے کوئی کام نہ کیا ہو۔ مولانا فضل الرحمان اس جگہ پہ مظاہرے اور لاک ڈاؤن کو شام غریباں قرار دیتے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ بڑا غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے کیونکہ ایسی چیزیں پارلیمنٹ میں ڈسکس ہوتی ہیں، مذاکرات سے ایسے معاملات حل ہوتے ہیں اور یہ خانہ بدوشوں والا سلسلہ نہیں ہے کہ جو بھی اٹھے اور آکر اپنی جھونپڑی لگا لے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمان کو آج اس جگہ آنا پڑ رہا ہے کہ جب کبھی اسلام آباد لاک ڈاؤن ہوا تھا تو کئی اپوزیشن جماعتیں یک جان تھیں اور حکومت کے خلاف اکھٹی تھیں مگر آج جب مولانا اسلام آباد کا رخ کرنے جا رہے ہیں تو اس وقت لیڈنگ اپوزیشن پارٹیوں جن میں پی پی پی ہے، پی ایم ایل نواز ہے، انہوں نے بھی مولانا کا ساتھ دینے بالخصوص مذہبی کارڈ کی بنیاد پہ ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔ مولانا مسائل پیدا کر سکتے ہیں مگر ان کا ایجنڈا اس وقت عوامی نکتہ سے بالکل کلیئر نہیں ہے۔

مہنگائی و دیگر مسائل کے باوجود عوام موجودہ حکومت سے نفرت کی فضا میں نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کبھی بھی عوامی مسائل پہ سیاست نہیں کی ہے بلکہ مہنگائی و دیگر عوامی مسائل جب جب ہوئے ہیں تو مولانا فضل الرحمان خود اس میں فریق رہے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ پہلی مرتبہ ایک حکومت مولانا کے بغیر چل رہی ہے، مولانا کا حصہ نہ وفاق میں ہے اور نہ خیبر پختونخوا میں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کیلئے قابل برداشت نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کیلئے وہ متحرک ہیں، انہیں خبر ہے کہ اگر مزید کچھ عرصہ ایسا گزرا کہ جس میں وہ پاور کوریڈور میں نہ ہوئے تو وہ مزید اپنے سیاسی وجود کو بچا نہیں سکیں گے۔ یہ خوف ہے کہ جس کی وجہ سے وہ احتجاج کرر ہے ہیں مگر نہ ہی انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور نہ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ یہ تنہائی کسی طرح ان کیلئے مفید نہیں ہے اور ان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ اس ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں جو کہ معاشی لحاظ سے بھی سودمند نہیں اور عوامی مسائل میں بھی مزید اضافے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

سوال: حالیہ اربعین امام حسین (ع) پہ عراقی حکومت نے پاکستانی زائرین کیلئے ویزوں کا اجرا بند رکھا، اس پالیسی پہ کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: عراقی حکومت کی پاکستانی زائرین کیلئے ویزہ پالیسی قابل مذمت ہے۔ بدقسمتی سے دو پرانے حلیف پاکستان اور بنگلہ دیش صرف ان دو ممالک کیلئے یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ ان دو ممالک سے جو مسائل ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ امن و امان کا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔ عسکریت پسند زائرین کے کور میں عراق گئے ہیں، بعض لوگ جاب وغیر ہ کیلئے بھی گئے ہیں کہ یہاں سے گئے ہیں اور وہاں جاکر جاب کیلئے رہ گئے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ ہیں، ان سب کو حقیقت مان بھی لیں تو بھی اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے پالیسی ان چیزوں سے مبرا ہونی چاہیئے۔ ان کیلئے بعض دیگر اقدامات کیئے جا سکتے ہیں تاکہ دشمن عناصر اس سے استفادہ نہ کر سکیں۔ پاکستان دنیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا ملک ہے کہ جہاں سے زائرین کی بہت بڑی تعداد زیارات کیلئے جاتی ہے۔ زائرین کا حق ہے کہ انہیں بروقت ویزہ ملے اور ان کے زیارات کے حق میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ عراق کی موجودہ حکومت کی جو منیجمنٹ ہے، اس کی صلاحیت پہ بھی بہت سارے سوالات ہیں۔ کرپشن، بیروزگاری ہے وہاں۔ یہ عراقی حکومت کی انتظامی نااہلی ہے کہ زائرین سید الشہدا کو ویزہ پابندیوں کا سامنا ہے۔ عراقی حکومت کو منفی چیزوں کی روک تھام کیلئے ضرور حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے مگر ویزوں کے جاری نہ کرنے کی پالیسی ناقابل قبول ہے۔ اس پالیسی کی ہم سب مذمت کرتے ہیں۔ اس بات کی تاکید و مطالبہ کرتے ہیں کہ محرم اور اربعین کے موقع پہ زائرین امام حسین (ع) کو فوری اور آسان ویزوں کے اجرا ء کا عمل ممکن بنایا جائے۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے74ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اقوام عالم پر واضح کیا ہے کہ اگر عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کچھ نہ کیا تو دو ایٹمی ممالک آمنے سامنے ہوں گے یہ وقت اقوام متحدہ کی آزمائش کا ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلائے۔

مسئلہ کشمیر:

 وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے لیے خصوصی طور پر آیا ہوں، نریندر مودی کی جارحیت کی وجہ سے کشمیر میں تاحال کرفیو نے لوگوں کو محصور کررکھا ہے اور وہ لوگ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں ہیں، گزشتہ 30 سال میں ایک لاکھ کشمیریوں کو مار دیا گیا جب کہ دس ہزار خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 11 قرار دادوں کے باوجود بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کی اور کرفیو نافذ کردیا، مزید ہزاروں فوجی بھیجے اب تک وہاں کرفیو نافذ ہے، بھارت کی حکومت آر ایس ایس کے نظریے پر چل رہی ہے اور مودی اس کے نمائندے ہیں یہ نظریہ مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت انگیز برتاؤ کرتا ہے، مودی کی الیکشن مہم میں کہا گیا کہ یہ تو محض ٹریلر ہے پوری فلم ابھی باقی ہے مودی آر ایس ایس کے رکن ہیں جو کہ ہٹلر اور مسولینی کے نظریے پر چلتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا سوچے کہ کشمیر میں خونریزی کا کشمیری باشندوں پر کیا اثر ہوگا؟ یہ سوچا کہ جب وہاں سے کرفیو ختم ہوگا تو وہاں کیا صورتحال ہوگی؟ کیا بھارت میں موجود کروڑوں مسلمان کیا یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟  کشمیر سے کرفیو کیوں نہیں اٹھایا جارہا؟ ایسا کیا ہے جو وہاں فوجیں بڑھائی جارہی ہیں؟ نظر آنے والوں پر پیلیٹ گن سے فائرنگ کی جارہی ہے، 80 لاکھ مسلمان 5 اگست سے اب تک وہاں کیسے جی رہے ہیں؟ دنیا اس معاملے پر کیوں خاموش ہے؟ اگر 80 لاکھ یہودی اس طرح اتنے دنوں سے محصور ہوتے تو کیا ہوگا؟ بھارتی فوجی گھروں میں گھس کر خواتین کو زیادتیوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا یہ انتہائی نازک وقت چل رہا ہے کہ جب دو ایٹمی قوتیں آمنے سامنے ہیں ہم جنگ کے حامی نہیں لیکن جنگ چھڑی تو ہم لاالہ الا اللہ پر یقین رکھتے ہیں کہ آخری وقت تک لڑیں گے، جنگ ہوئی تو ہمارے پاس لڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا جس کا اثر پوری دنیا پر پڑےگا، اگر خونریزی ہوئی تو اسلام پسندی کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ہوگی۔

عمران خان نے اقوام عالمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت عملی اقدم اٹھانے اور اقوام متحدہ کی آزمائش کا وقت ہے سب سے پہلے بھارت فوری طور پر کشمیر میں گزشتہ 55 روز سے نافذ کرفیو ختم کرے، 13 ہزار کشمیریوں کو رہا کرے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائے۔

منی لانڈرنگ کا سدباب:

وزیراعظم نے منی لانڈرنگ کے سدباب پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امیر افراد اربوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے یورپ کے بینکوں میں منتقل کردیتے ہیں اس کے نتیجے میں ٹیکس کی آدھی رقم قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے اسی وجہ سے ہمارے ملک کا قرضہ 10برسوں میں چار گنا بڑھ گیا، ہم نےمغربی دارالحکومتوں میں کرپشن سے لی گئی جائیدادوں کا پتا چلایا لیکن ہمیں مغربی ملکوں میں بھیجی گئی رقم واپس لینے میں مشکلات کاسامنا رہا،امیر ممالک کو چاہیےکہ وہ غیر قانونی ذرائع سےآنیوالی رقم کے ذرائع روکیں کیونکہ غریب ملکوں سے لوٹی گئی رقم غریبوں کی زندگیاں بدلنے پر خرچ ہوسکتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں:

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کو کلائمٹ چینج کا سامنا ہے متعدد رہنماؤں نے اس بارے میں بات چیت کی مگر دنیا کے لیڈرز اس ہنگامی صورتحال کا ادراک نہیں کررہے، پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جسے کلائمنٹ چینج سے سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے، 80 فیصد پانی گلیشئر پگھلنے سے آتا ہے جو کہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم میں واقع ہے، کلائمنٹ چینج سے نمنٹے کے لیے لیے پاکستان دس ارب درخت لگارہا ہے، وہ ممالک جو گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کاسبب بن رہے ہیں وہ کلائمٹ چینج کے ذمہ دار ہیں۔وزیراعظم عمران خان نےکہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عالمی رہنما سنجیدہ نہیں، ایک ملک ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔

اسلامو فوبیا:

وزیراعظم نے کہا کہ میرا تیسرا ایشو اسلام فوبیا سے متعلق ہے، 1.3 ارب مسلمان اس دنیا میں رہتے ہیں جو کہ یورپ اور امریکا میں اقلیت ہیں، نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا پھیلا، بعض ممالک میں مسلمان خواتین کا حجاب پہننا معیوب ہوگیا یہ سب کیا ہے؟ یہ سب اسلامو فوبیا ہے، اسلام صرف ایک ہی ہے جو کہ حضرت محمدﷺنے دیا، کچھ مغربی لیڈروں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ دیا جس کی وجہ سے اسلامو فوبیا پھیلا اور اس میں اضافہ مسلمانوں کے لیے خطرناک ہے، افسوس کی بات ہے کہ بعض مغربی ممالک کے سربراہان اسلام پرستی اور بنیاد پرستی کے الفاظ استعمال کررہے ہیں حالاں کہ دہشت گردی کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

گستاخانہ مواد:

وزیر اعظم نے کہا کہ نائن الیون سے قبل تامل ٹائیگرز خودکش حملے کرتے تھے یہ تامل ٹائیگرز ہندو تھے لیکن کسی نے انہیں دہشت گردی سے نہیں جوڑا جب کہ نائن الیون کے حملوں کو اسلام سے جوڑ دیا گیا، نبی کریمﷺ نے ریاست مدینہ قائم کی جس میں اقلیتوں اور خواتین کو حقوق دیے گئے یہ پہلی فلاحی ریاست تھی جس میں غلامی کا خاتمہ ہوا اور سب لوگوں کو ان کے حقوق دیے گئے، ریاست مدینہ میں حاصل شدہ ٹیکس کی رقم غریبوں پر خرچ کی جاتی تھی، جب اسلام کی توہین پر مسلمانوں کا ردعمل سامنے آتا ہے تو انہیں انتہا پسند کہہ دیا جاتا ہے، مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺکی توہین کی کوشش مسلمانوں کے لیے بہت بڑا معاملہ ہے جس طرح ہولوکاسٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے تو یہودیوں کو برا لگتا ہے یہ آزادی اظہار رائے نہیں دل آزاری ہے۔

پاک بھارت تعلقات:

وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے سفارتی و تجارتی سطح پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن بھارت بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث نکلا ہے ہم نے بلوچستان میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پکڑا، میں نے مودی سے کہا ہمیں بھارت کی دہشت گردی کا سامنا ہے، پاکستان نے تمام دہشت گردی کے گروپس ختم کردیے ہیں اقوام متحدہ سے درخواست ہے کہ اپنا مشن بھیج کر چیک کرالیں، اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی لیکن بھارت نے ٹھکرادی، ہمیں پتا چلا کہ بھارت پاکستان کوایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنیکی سازش کررہا ہے۔

دہشتگردی کیخلاف جنگ:

پاکستان نے 1989ء میں سویت وار اور نائن الیون کے بعد امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی حالانکہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا، ہمارے 70 ہزار فوجی اور شہری اس جنگ میں شہید ہوئے،  میں نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) یوں تو پاکستان کی تاریخ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی بھی سطح پر قائم کرنے کی خواہاں نظرا ٓتی ہے۔ان تعلقات میں کبھی بھی برابری کا عنصر نہیں پایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو غیر اہم سمجھا اور وقت آنے پر اپنے مفادات کے لئے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے والے حکمرانوں کے ذریعہ اپنا ایجنڈا مکمل کیا۔امریکہ اور پاکستان کے مابین اس نوعیت کے تعلقات اسلئے بھی زور پکڑتے چلے گئے کیونکہ امریکی حکومت نے براہ راست پاکستان کے مختلف اداروں کے ساتھ بڑی بڑی ڈیلز کرنا شروع کر دیں اور بعد ازاں افراد کو امریکی مفادات کی خاطر مال ومتاع اور مراعات کے عوض استعمال کیا جاتا رہاہے۔یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور ایسے حالات میں ملک کی پالیسیوں کو کسی سمت چلانا اور کوئی ایسی حکمت عملی وضع کرنا کہ جس کا امریکی مفادات سے ٹکراؤ ہو انتہائی مشکل ہے۔

بہر حال، ماضی کے بعد اب کچھ بات حال کی کرتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے کچھ عرصہ قبل امریکہ کا دورہ کیا اور اس دورہ کو بہت گرمجوش دورہ قرار دیا جا رہا تھا اور پھر حکومتی رویہ میں بھی اس قدر تیزی دیکھنے کو آئی کہ جیسے اندھے کو دو آنکھیں مل جاتی ہیں۔یعنی وزیر اعظم سمیت ملک کے تمام ادارے اور اعلیٰ عہدیداروں نے امریکہ سے ایک مرتبہ پھر لولگا لی تھی کہ چلو اچھے دنوں کا آغاز ہو گا۔حکومت شاید اس بات پر بھی زیادہ خوش دکھائی دیتی تھی کہ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی بات کی ہے چلو اب تو مظلوم کشمیریوں کا مسئلہ حل ہو ہی جائے گا۔مجموعی طور پر پاکستان کا سوفیصد جھکاؤ امریکہ کی طرف چلا گیا جیسا کہ امریکہ ہی کا ئنات کا خدا ہے اور سب کو روٹی دینے والا ہے۔دنیا کے متعدد ممالککی حکومتیں شاید امریکہ کو خدا ہی کا درجہ دیتی ہیں۔لیکن پاکستان جیسے بڑے ملک کو اپنے وقار اور عزت کا خود پاس رکھنا چاہئیے یا کم سے کم بولیویا جیسے چھوٹے ملک سے ہی سبق حاصل کرنا چاہئیے کہ جس نے امریکہ کو خدا نہیں مانا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر امریکی حکومت کی ثالثی کے بیان کے بعد حکومت پاکستان نے اپنی تمام تر توجہ کامرکز امریکی صدر کو بنالیا۔لیکن یہاں حکومت میں موجود سیاست مداروں سے کوئی یہ سوال تو کرلیتا کہ کیا امریکہ صدور نے آج تک مسئلہ فلسطین کا حل نکال لیا؟ کیا یہ بات درست ہے کہ دنیا کی باعزت اقوام کی تقدیر کے فیصلے امریکی صدور کریں؟ کیا امریکہ واقعی انسانی حقوق کا پاسدار ہے اگر ہے تو پھر امریکہ کی تاریخ میں ہیرو شیما، ناگا ساکی سمیت ویت نام،افغانستان اور عراق کے بد نما داغ کیوں ہیں؟ کیا امریکی حکومت بھارت اور اسرائیل کو ایک جیسی مسلح ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی حکومت نہیں ہے؟اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جو پاکستان کے تعلی ادارو ں میں تعلیمی نشو نما حاصل کرنے والے نوجوانوں کے اذہان میں ابھررہے ہیں؟ آج مسئلہ کشمیر پر حکومت کی ناکام پالیسیوں پر پورے ملک کی سیاسی جماعتیں آواز اٹھا رہی ہیں۔ان کی اس آواز کو صرف یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ اپوزیشن سیاست کررہی ہے لیکن میں یہ سمجھتاہوں کہ ان کی باتوں میں ستر فیصد صداقت اور شاید تیس فیصد سیاسی عزائم ہیں۔

تاہم حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ امریکہ کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو بالخصوص کشمیری سوالیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں، کشمیریوں کو جواب دے اور بتائے کہ پاکستان نے مسئلہ کشیر پر کیا اقدامات انجام دئیے ہیں اور پاکستان کی عالمی سطح پر سفارتکاری کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ اس عنوان سے ذمہ دار افراد کا تعین کیا جائے اور ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔محترم وزیر اعظم صاحب! آپ کے پڑوس میں ایک ملک ایران بھی موجود ہے جو امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کے بغیر ترقی کے کئی میدانوں میں کئی ایک ممالک سے آگے نکل چکا ہے،مشکلات اور مصائب کے باوجود عزت ووقار پر کوئی سودے بازی قبول نہیں کر رہا۔میں آپ کی خد مت میں اسی پڑوسی ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی ایک تقریر کا جملہ یہاں پیش کئے دیتا ہوں،”امریکہ پر کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا،امریکہ جھوٹ او مکاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا“۔اس جملہ میں بہت بڑا سبق موجود ہے۔

پس ضرورت اس امرکی ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق امریکی وعدوں پر یقین اور تکیہ کرنے سے مسئلہ کشمیر کبھی حل ہونے والا نہیں ہے اور ابھی اقوام متحدہ کے اجلاس کے لئے بھارتی وزیر اعظم کے نیو یارک پہنچنے پر امریکی صدر کی جانب سے انکے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور امریکی تاریخ میں کسی بھی غیر ملکی سربراہ کے لئے منعقدہ جلسہ جوکہ سب سے بڑا جلسہ قرار دیا جا رہاہے یہ سب باتیں آپ کو متنبہ کرنے کے لئے ہیں کہ اب بھی وقت ہے امریکی غلامی کا طوق گردنوں سے نکال پھینکیں۔ٓآج پاکستان سے کمزور معیشت رکھنے والے اور چھوٹے ممالک امریکہ کے ساتھ بغیر تعلقات کے ترقی کر رہے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت پاکستان سعودی عرب کے نا تجربہ کار شہزادہ محمد بن سلمان کی باتوں میں آ کر بذریعہ سعودی عرب امریکی غلامی کا طوق اپنی گردنوں کی زینت بنانے کو ترجیح دے رہی ہے۔

آج امریکہ سے اربوں اور کھربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدنے والا سعودی عرب اپنا دفاع خود نہیں کر سکتا ہے اور پاکستان جیسا ایک بڑا اسلامی ملک حیرت کی بات ہے کہ آل سعود حکمرانوں کے ذریعہ امریکہ تک پہنچنے کو اپنی عزت وحمیت سمجھتاہے؟خلاصہ یہ ہے کہ لومڑی کی صحبت میں رہنے سے شیر بھی لومڑی بن جاتاہے اور اگر لومڑی شیر کی صحبت اختیار کرے تو لومڑی بھی شیر بن جاتی ہے۔اب یہ فیصلہ وزیر اعظم صاحب کو ہی کرنا ہے کہ وہ کس صحبت کو اختیار کریں گے؟ آج دنیا کی سیاست کا محور تبدیل ہو چکا ہے،امریکہ سپر پاور ہو اکرتا تھا اب نہیں ہے۔

اگر پاکستان خطے میں مضبوط کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنا ناگزیرہیں،آج جنوبی ایشیاء کے سیاسی افق پر ایران، روس، چین واضح طور پر نظر آ رہے ہیں اور انکا نقش عالمی سیاسی افق پر بھی دیکھا جا رہاہے۔آج یہی امریکی صدرکہ جس سے ہمارے حکمران ملنے کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں، یہ امریکی صدر ٹرمپ آج ایران کے صدر روحانی نے ملنے کو تڑپ رہا ہے۔اپنا فون نمبر تک ان کو دے رہاہے کہ ایک فون ہی کر لو، جاپان کے وزیر اعظم کے ذریعہ خط بھیج رہا ہے لیکن جواب میں اس خط کو کھولا ہی نہیں جاتا اور کوئی جواب دینا گوارا نہیں کیا جاتا۔کاش میرے وطن کے حکمرانوں کو بھی یہ بات سمجھ آ جائے کہ امریکہ قابل اعتبار نہیں ہے۔

 

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

Page 5 of 31

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree