وحدت نیوز (آرٹیکل) گزشتہ پانچ دنوں سے میرا خطہ گلگت بلتستان ایک بار پھر احتجاجات اور ہڑتالوں کی زد میں ہیں اس سے قبل گزشتہ ماہ منتخب نمائندوں کے وعدے پر احتجاجات کے سلسلے کو روک دیا گیا تھالیکن پورے ایک مہینے کے قریب صبر کرنے اور بھرپور موقع فراہم کرنے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان اور ان کے مقامی معتمدین اپنے وعدے وفا نہیں کر سکے۔

علاقہ ستر سالوں سے بنیادی شہری حقوق اور آئینی تحفظ کی ڈیمانڈ کرتی رہی ہےاور ہر بار عوام اسی لئے نمائندوں کو ووٹ دیکر منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کو انکے جائز حقوق دلانے کیلئے کوشش کریں. اہم مسئلہ کشمیر کا ہے جس کیساتھ نتھی کرکے اس خطے کو تا حال نہ تین میں نہ تیرہ میں رکھاگیا. کشمیر کے پاکستانی حصے کو تو نیم خودمختار حیثیت دے چکا, اور وہاں کے عوام اس کو بھی غنیمت سمجھتی ہے, لیکن ہم گلگت بلتستان والے نہ تو کسی صوبے کا حصہ ہے, نہ خودمختار. اور لاکھوں عوام کے کے پاس شناختی کارڈ ہونے, بلا روک ٹوک کے آنے جانے اور دیگر شہریوں کی طرح شناخت ہونے کے باوجود اس موجودہ سیٹ اپ کو کسی طرح سے آئینی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے،اس طرح یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جو کسی قانون کے تحت کسی ملک کا باقاعدہ حصہ نہیں. پاکستان اور چائنہ کے درمیان اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبے کو یوں تو حکومت پاکستان اپنے لئے معجزہ سمجھتی ہےاور یہ راہداری منصوبہ آغاز ہی گلگت بلتستان سے ہوتا ہے جس کو اب تک پاکستانی آئین اپنا حصہ نہیں سمجھتی،ظاہرا گلگت بلتستان کے عوام نے بھی اسوقت تک اس اہم ترین ایشو پر کوئی تحریک چلائی نہ اس میں اپنا حصہ مانگا، بلکہ جو وفاقی حکومت چاہتی ہے وہی کچھ ہوتا رہا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا رہے. ان کو بخوبی معلوم ہیں اس خطے کے عوام شریف ہیں، ان کے اوپر یس سر کے عادی لوگوں کو حکمران بنوائے ہوئے ہیں جو کہ وفاقی سکریٹری تک سے کیوں کہنے کی جرات نہیں رکھتےایسے میں حکمران اشرافیہ کی بیوقوفی کہیں یا کچھ اوراس اہم ترین خطے کے عوام کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیکر خوشحال بنانے کی بجائے گزشتہ حکومت کی جانب سے لایا ہوا ٹیکس ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012 کو بھی لاگو کرکے یہاں کے عوام کو تحریک چلانے پر مجبور کر دی۔

ہماری عوام کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے اور اگر نہیں تو ہونی چاہئے کہ اب تک کسی بھی سرکاری کاغذات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کیلئے بھی کوئی منصوبہ رکھا ہو. بلکہ خبر ہے کہ پہلے سے موجود سوست پورٹ کو بھی یہاں سے اٹھا کر حویلیاں منتقل کی جارہی ہے. دوسری طرف اس خطے کی متنازعہ حیثیت کو بھی دو لخت کرکے عوام کو لڑانے کی تیاریاں بھی اندرونی طور پر ہورہی ہیں. ان باتوں سے یہی سمجھ آتی ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان کو معاشی مفادات ملنے سے جن قوتوں کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہی ہیں وہی قوتیں پاکستان کے اداروں میں بیٹھے اپنے ہمدوروں کو بہتر استعمال کر رہے ہیں. گلگت بلتستان میں افراتفری کے ممکنہ فائدے انہی قوتوں کو ہی ہوسکتے ہیں جو جنوبی ایشیا میں اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنا چاہتی ہے۔

معاملہ اتنا گھمبیر نہ ہوتا اگر مقامی اسمبلی میں بیٹھے ایک سکریٹری کے اشاروں پر ناچنے والوں میں سے ایک دو ہی جرات کا مظاہرہ کرتے. انکے آقاوؤں سے کہتے کہ جی اس خطے کو امن و امان میں رکھنا نہ صرف ہماری سیٹوں اور حکومت کی بقا کیلئے ضروری ہے, بلکہ سی پیک سمیت پاکستان کو معاشی طور پر فایدہ ملنے والے منصوبوں کے دوام کیلئے بھی بے حد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔لیکن جسطرح بیرونی اشاروں پر ناچنے والے وفاق کے کرتا دھرتا مفادات کیلئے یس سر کہنے سے نہیں چوکتے, انہی کو مچھلیاں اور خشک میوہ جات بھیجنے والے مقامی بھی ان کی خوشنودی کیلئے اپنی سیاسی موت کا سامان ثابت ہونیوالی بیوقوفیوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اگر مقامی منتخب نمائندوں کے پاس عقل و شعور ہوتے تو ٹھٹھرتی سردی میں ہزاروں عوام کی مسلسل احتجاج, اور چار دنوں سے پہیہ جام شٹر ڈاون ہڑتال کے بعد کم از کم بلتستان کے نمائندے اپنی وزارتوں کی کرسی کو لات مار کر عوام کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوجاتے یقین کریں کم سے کم اگلے الیکشن میں سیٹ انکی پکی ہوجاتی, اور انکی نسلیں ان کے اوپر فخر کرتے۔۔۔۔لیکن اپنے ہی ووٹرز کو اپنی نا اہلیوں پر چیختے چلاتے اور مردہ باد کے نعرے لگاتے دیکھ کر بھی یہ طفل تسلیوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایک نا اہل سے وفاداری اور اسکی نمک حلالی پر تلے ہوئے ہیں. ان کو گزشتہ حکومت کا حشر بھی یاد ہے, اپنے قائدین کی نا اہلی تو تازہ تازہ واقعہ ہے, جس سے پتہ کسی اندھے کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کئی بار وزارت عظمیٰ پر رہنے کے باوجود بھی سڑکوں پر آکر اپنی نا اہلی کے خلاف رونا پیٹنا پڑجاتا ہے۔

 اس لئے ان لوگوں کو یاد دہانی کیلئے بقول شاعر۔۔۔۔
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

میں ان سطور کی توسط سے مقامی رہنماؤں کو بھی یہ بات باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ نہ پچھلی حکومت کیدور والا گندم کا ایشو تھا, نہ اب صرف ٹیکس ہے. گندم سبسڈی بھی ہمارا حق تھا اور ٹیکس کی مخالفت بھی ہمارا حق ہے, لیکن ان ایشوز کیساتھ حکومتیں آتی رہیں گی, ہم یوں ہی اپنے عوام کو لیکر نکلتے رہیں گے... لیکن اصل مسئلہ جو ہماری بنیادی شہری حقوق کا ہے, آئینی حیثیت یا خود مختار علاقے کے قیام کا, جب تک یہ طے نہ ہوجائے ہمیں بھینس کے آگے بینڈ بجاتے رہنا پڑیگا. ہماری آواز بہت زیادہ اٹھی تو وزیر اعلیٰ کی طرفسے سکریٹری اور سکریٹری کی طرف سے وعدے تک ٹلتا رہے گا اور بہت زیادہ بڑھ جائے تو شاید وزیر اعظم تک پہنچ جائے جو خود ایک نا اہل شدہ بندے کے اشاروں پر چلتا ہیاور اپنی کوئی حیثیت و شخصیت نہیں رکھتا،کم سے کم اس حالیہ تحریک سے جو نتیجہ نکلنا چاہئے وہ ٹیکس کے خاتمے کے ساتھ مقامی اسمبلی کے انتخابات کو وفاقی الیکشن کے ساتھ منعقد کرنے کو یقینی بنانے کی صورت میں نکلنا چاہئےتاکہ آئندہ کیلئے وفاقی حکومت کے زیر تسلط ہونیوالے الیکشن کے خمیازے سے بچ سکیں کیونکہ وفاق میں موجود حکومت کی وجہ سے ہی مقامی لوگ مفادات کیلئے ضمیر فروشی کرنے سے لیکر عوام کو سبز باغ دکھا کر ناجائز فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔


تحریر : شریف ولی کھرمنگی

 وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین کی محرم الحرام سے قبل مذہبی رہنمائوں،علمائے کرام اور سماجی رہنمائوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری، گزشتہ روز مجلس وحدت مسلمین کے وفد نے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی کی قیادت میں آل پاکستان انجمن تاجران کے چیئرمین خواجہ شفیق سے ملاقات کی، ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی، شہوار حیدر اور ملک عامر کھوکھر موجود تھے، خواجہ شفیق احمد نے مجلس وحدت مسلمین کے وفد سے ملاقات کے دوران محرم الحرام سے قبل امن اور اتحاد ووحدت کی فضا ہموار کرنے کے لیے ملاقاتوں کو خوش آئند قراردیا، خواجہ شفیق احمد نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران تاجران کی جانب سے عزاداروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا، ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار نقوی نے خواجہ شفیق کی جانب سے تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھیع تمام مذاہب کے علمائے کرام،مذہبی رہنما اور سماجی شخصیات کے ساتھ مل کر جنوبی پنجاب میں امن کے حوالے سے بھرپور کردار ادا کریں گے، محرم الحرام کے دوران انجمن تاجران کی جانب سے تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، محرم ہمیں ایک دوسرے کو برداشت، صبر اور بردباری کا درس دیتا ہے۔ صوبائی سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی نے کہا کہ ہم محرم الحرام سے قبل ایسی فضا ہموار کرنا چاہتے ہیں جو باقی صوبوں اور اضلاع کے لیے نمونہ عمل ہو، اُنہوں نے کہا کہ انتظامی سطح پر اُن افراد کو نظرانداز کیا جاتا ہے جو عوامی طاقت ہوتے ہیں ، مجلس وحدت مسلمین عوامی طاقت کی حامل جماعتوں اور شخصیات کو ساتھ لے کر چلے گی۔ 
 

وحدت نیوز (سکردو) انجمن تاجران بلتستان کے زیر اہتمام ایک ماہ سے سکردو اور گردو نواح میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف منعقدہ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین ضلع سکردو کے سیکرٹری جنرل مولانا فد ا ذیشان نے کہا ہے کہ بلتستان ایک عرصے سے اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اور حکمرانوں کو ٹس سے مس نہیں۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی اخبارات میں بیانات دینے کی حدتک ہے ۔گلگت بلتستان کی تقدیر بدلنے کی دعویدار حکومت عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات نہیں دلا سکی۔یہ حقیقت ہے کہ  بلتستان کی روشن تقدیر کو تاریکی میں بدل دی ہے۔ وزیر برقیات کا اپنا شہر اور حلقہ تاریخی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ وزیربرقیات کو دھمکیاں دینے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سکردو جیسے اہم شہر میں ہفتوں تک بجلی نہ آنا وزیر برقیات کی نااہلی اور انکے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ وزیر برقیات واپڈا ، پی ڈبیلیو ڈی حکام اور حفیظ الرحمان کے سامنے بے بس ہے۔ ان کی سننے کو کوئی تیار نہیں ہے۔

فداعلی  ذیشان نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت مزید گڈ گورننس کی بات نہ کرے۔ انہیں اقتدار میں آئے دو سال ہونے کو ہے لیکن عوام کو محرومیوں میں دھکیلنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے عوام سے زمینیں چھینے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ انتہائی قابل مذمت اور شرمناک عمل ہے۔ خالصہ سرکار کے نام پر عوامی ملکیتی اراضی پر کسی کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ لیگی حکومت ہوش کے ناخن لے اور زمینیں ہتھیانے سے باز رہے۔ مسلم لیگ نون کی مدح سرائی کرنے والے گھر سے باہر نکلیں اور عوام کا غم و غصہ دیکھیں۔ عوام موجودہ حکومت کی ناقص ترین کارکردگی سے بیزار ہے ۔سکردو میں بجلی کے مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو پورے بلتستان میں احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگا اور نااہل حکمرانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

Page 2 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree