وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے رہنماء ارشاد حسین بنگش نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماوں کی جانب سے اسلام آباد میں پاکستان عوامی تحریک اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے دیئے جانے والے دھرنے کو تنقید کا نشانہ بنانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک و قوم کی خاطر گذشتہ دو ہفتے سے بھرپور استقامت اور ہمت کا مظاہرہ کرنے والے عوام کا مذاق اڑانا اور ان کی پاکیزہ اور حق پر مبنی جدوجہد پر اعتراضات اٹھانا انتہائی افسوسناک ہے، وحدت ہاوس سے جاری اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انقلاب مارچ میں شریک مائیں، بہنیں، جوان، بزرگ اور بچے اپنے اقتدار کیلئے نہیں بلکہ 20 کروڑ عوام کے حقوق کے حصول کیلئے گذشتہ دو ہفتوں سے سڑکوں پر ہیں، اور دھرنے میں فحاشی و عریانی کے نازیبا الزامات عائد کرنے والے شائد حقیقت سے واقف نہیں، انہوں نے کہا کہ انقلاب مارچ کے شرکاء ناچ گانوں کی بجائے نماز، دعا و مناجات، درود پاک، تسبیح اور دیگر عبادات الٰہی میں مصروف ہیں، ان مظاہرین نے اپنے نظم و نسق، اور رویئے سے عالمی میڈیا کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا، ارشاد حسین بنگش نے کہا کہ دھرنے کے شرکاء درود والے ہیں، بارود والے نہیں، انقلاب مارچ کے شرکاء کو تنقید کا نشانہ بنانے والے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں، رسول اکرم (ص) اور نواسہ رسول (ع) کے ان عاشقوں کو کامیابی اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے جلد نصیب ہوگی۔

وحدت نیوز(اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے زیراہتمام وفاقی حکومت کی مخالفت میں اور انقلاب مارچ کی حمایت میں جاری تحریک کے سلسلے میں آج بعد از نماز جمعہ کھرمنگ اور شگر میں ریلی نکالی گئی جبکہ سدپارہ، حسین آباد، حوطو، کواردو اور روندو میں جامع مساجد میں خطبہ ہائے نماز جمعہ میں وفاقی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ وفاقی حکومت کے خلاف جاری تحریک کے سلسلے میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع کھرمنگ کے زیراہتمام ایک احتجاجی ریلی بعد از نماز جمعہ کھرمنگ جامع سے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع کھرمنگ علامہ شیخ شبیر رجائی کی قیادت میں نکالی گئی۔ ریلی کے شرکاء نے کھرمنگ اسکردو روڈ اور اسکردو کرگل لداخ روڈ پر علامتی دھرنا بھی دیا۔

 

 بارڈر ایریا میں جاری دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل کھرمنگ علامہ شیخ شبیر رجائی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی پشت پر امریکہ کی موجودگی نہ صرف پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں بلکہ عالم اسلام پر خطرہ اور اسلامی بنیادی نظریات پر حملے کے مترادف ہے۔ امریکہ نہ اسلام کا وفادار ہے اور نہ پاکستان کا، لہذٰا وفاقی حکومت جن بنیادوں پر قائم ہے وہ بنیادیں ہی وطن کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان اس لیے نہیں بنا کہ یہاں پر حکومتیں امریکی ایماء پر قائم رہے، یہ ملک امریکیوں کا نہیں بلکہ پاکستانیوں کا ہے۔ پاکستانی عوام ہی اپنے ملک سے ایسے ملک دشمن عناصر کا خاتمہ کر کے دم لے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم وطن عزیز پاکستان کے انتہائی شمال اور حساس ترین آرمی ایریا اور بارڈر سے جہاں سے منٹوں کے فاصلے پر پاکستان کا دشمن انڈیا ہے پوری دنیا کو بالخصوص پاکستان آرمی کو پیغام دینا چاہیں گے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف آرمی کا آپریشن ملکی سلامتی کے لیے ضروری تھا اور پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کا دائرہ تنگ کر کے ملک پر عظیم احسان کیا اور دنیا جانتی ہے کہ وفاقی حکومت نے آپریشن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بھی بڑی کوشش کی جسے وطن کی غیور آرمی نے خاطر میں نہیں لائی۔ وہ حکومت جو دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے وہ وطن کی حفاظت اور سلامتی کا ضامن کیسے کہلایا جا سکتا ہے۔

 

دوسری طرف شگر چھورکھا میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع شگر کے زیراہتمام وفاقی حکومت کیخلاف اور انقلابی مارچ کی حمایت میں بھی ایک احتجاجی ریلی سیکرٹری جنرل شگر علامہ شیخ ضامن مقدسی کی قیادت میں نکالی گئی۔ شرکاء ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شیخ ضامن مقدسی، شیخ اسماعیل اور شیخ کاظم نے کہا کہ ملک میں اس وقت نواز خاندان کی حکومت ہے۔ جمہوریت اگر ملک میں ہوتی تو سانحہ ماڈل ٹاون میں دو درجن سے زائد لاشیں گرانے والوں کی جگہ ایوانوں کی بجائے زندانوں میں ہوتی۔ امریکہ کے موجودہ دھرنے کے حوالے سے جو موقف سامنے آیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ ماموری شہنشایت ہے۔ حقیقی اسلامی جمہوریت کے حصول کے لیے مامور شہنشاہوں کو ایوانوں سے باہر کرنا ضروری ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ملک میں عوام کو غلام سمجھنے والے حکمرانوں کا گھیرا تنگ کیا جائے اور حقیقی اسلامی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی جائے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) حکومتی مذاکراتی ٹیم مذاکراتی عمل میں سنجیدہ نہیں یہ ٹیم فقط دباوُ اور اپنے حواریوں کے طاقت کا زعم دکھانے کے لئے کام کر رہی ہے مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچانے کیلئے ان کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں اور نہ ہی یہ کسی بھی فیصلے کے لئے بااختیار ہے ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما نثار فیضی نے گذشتہ رات حکومتی مذاکراتی ٹیم سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں مرکزی رہنماوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ حکمران مکمل طور پر بے حسی اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے اُن کے رویوں سے یہ اندازہ لگانہ مشکل نہیں کہ وہ شاہراہ دستور پر ایک بڑے سانحے کی پیش بندی میں مصروف ہیں سانحہ ماڈل ٹاوُن کو انقلاب مارچ کے اتحادی جماعتیں کسی بھی  صورت پس پشت ڈالنے کے لئے تیار نہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے کل کے ہونے والی مذاکراتی سیشن میں حکومتی ٹیم پر یہ واضح کر دیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاوُن کے ایف آئی آر سمیت دیگر مطالبات کی منظوری تک ہم میدان میں ڈٹے رہیں گے نثار فیضی نے سی ڈی اے کی جانب سے آلودہ پانی کی فراہمی ظلم وبربریت قرار دیتے ہوئے شدید مذمت بھی کی۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن میں نے یہ بروقت لکھ دیا کہ میں اس مارچ کو انقلاب مارچ نہیں سمجھتا۔ اس کا انجام میری بات کو ثابت کرے گا۔ بندہ عرض کرچکا کہ اس کا مثبت پہلو شیعہ سنی اتحاد ہے، تکفیریوں کی تنہائی ہے، شیعہ مسلمانوں کی قومی دھارے کی سیاست میں واپسی ہے۔ اس مارچ کی کامیابی اس کا اسلام آباد پہنچنا، پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینا اور آج 21 اگست کی رات تک ثابت قدمی سے میدان عمل میں موجود رہنا ہے۔ مولا علی (ع) کا یہ قول لکھا جاتا ہے کہ ظالم کی ہرحال میں مخالفت کرو اور مظلوم کی ہر حال میں مدد کرو، کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل ظلم نہیں، کیا اس ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا غلط عمل ہے؟ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے 4 مطالبات اتحادیوں سے منوائے ہیں اور ان کے دس نکات کی حمایت کی ہے۔
کیا پاکستانی سیاست شیعہ مسلمانوں کیلئے شجر ممنوعہ ہے؟

 

تحریر: عرفان علی (بشکریہ اسلام ٹائمز)


پیامبر معصوم خدا حضرت یوسف علیہ السلام اگر بت پرست کاہنوں کی مملکت مصر کے عزیز کے مشیر ہوجائیں یا معصوم امام کے شیعہ علی بن یقطین بنو عباس کے بادشاہ کے وزیراعظم، ان کی حقانیت پر حرف نہیں اٹھایا جاسکتا۔ ان کا ان حکومتوں کا حصہ ہونا نہ ان حکومتوں کے حق ہونے کی دلیل بنتا ہے اور نہ ہی ان کا ایسا کرنا انہیں باطل پرست کرتا ہے۔ یہی سیرت انبیاء (ع) و اولیائے خدا (ع) رہی ہے۔ ہر دور کی امت اور امت کے سربراہ اپنے دور کے مخصوص ماحول اور حالات میں اپنی حکمت عملی وضع کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنا حق طلب کرنے کے لئے دربار میں جانا اور اپنا موقف بتانا، یا وقت کے حکمران کو مشورہ دینا کہ یہ کرو یہ مت کرو، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا اور مولائے متقیان علی علیہ السلام کی وہ سیرت طیبہ ہے کہ جو تاقیامت اہل تشیع کے لئے مشعل راہ ہے۔ پریکٹیکل لوگ انسانوں کو خیالی، کتابی باتوں میں نہیں الجھاتے، راہ حل سجھاتے ہیں، عملی بنا دیتے ہیں۔

 

اگر قوم بنی اسرائیل کی ہی مثال سے سبق لیا جائے، جیسا کہ بعض ایسے دوستوں کی رائے ہے، جو مجھ سے متفق نہیں یا میں ان کے نظریئے سے اختلاف کرتا ہوں اور بعض مقالوں میں دلائل سے ان کی بات کو رد کرچکا ہوں، تب بھی اس امت کی مثال گوسالہ پرست بنی اسرائیل جیسی نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے امت کو حضرت ہارون (ع) کی پیروی کی تاکید کی تھی اور گوسالہ پرستی اس حکم کی عدم تعمیل کی وجہ سے ہوئی۔ آج غیبت امام زمانہ (عج) کے اس پر فتن دور میں امت کے درمیان فقہائے عظام، مراجعین کرام بھی ہیں اور منجی عالم بشریت کے نائب برحق امام خامنہ ای بھی موجود ہیں۔ جن رہنماؤں اور ان کے پیروکاروں کو گوسالہ پرستوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، ان میں سے کون ہے جو مرجعیت کا مخالف ہے یا ولی فقیہ کے مقابلے میں نیا مکتب ایجاد کر رہا ہے؟ اس کے لئے انسان خود کو آئینے میں دیکھے۔

 

اس تمہید کے بعد، عرض یہ کہ کیا پاکستان جیسے ملک میں شیعہ مسلمانوں کا کوئی سیاسی کردار بنتا ہے یا نہیں، اس سوال کے جواب سے ہی شیعہ مسلمانوں کا موجودہ پاکستانی سیاست کے بارے میں کنفیوژن دور ہوسکتا ہے۔ امام خامنہ ای کی ایک تصنیف معصوم آئمہ علیہم السلام کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے۔ دور کیسا بھی ہو، آئمہ معصومین علیہم السلام کے دور سے زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا، اور اس پرفتن دور میں بھی آئمہ علیہم السلام اور ان کے ثابت قدم شیعوں نے سیاست کا میدان خالی نہیں چھوڑا تھا۔ حتیٰ کہ اقتداری سیاست پر بھی ان کی نظر تھی اور امت اسلام ناب محمدی کے مفاد میں علی بن یقطین جیسے لوگوں کا بنو عباس کے دور میں حکومت کا حصہ ہونا، اسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا، جو مولا علی (ع) کے دور میں ساتھ تھا، ان میں سے کوئی امام حسین (ع) کے خلاف میدان میں آیا، کوئی مولا علی (ع) کے دور میں ان کے ساتھ نہیں تھا، لیکن امام حسین (ع) کی حمایت میں آیا۔ پریکٹیکل زندگی کی یہ حقیقت کنفیوزڈ افراد کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔

 

لبنان میں امام موسٰی ال صدر کی حزب مستضعفین سے موجودہ حزب اللہ تک، عراق میں آیت اللہ باقر الصدر کی حزب الدعوہ سے موجودہ شیعہ دینی جماعتوں تک، بحرین کے شیخ عیسٰی قاسم کی علماء تنظیم سے شیخ علی سلمان کی الوفاق تک، پریکٹیکل شیعہ خیالی پلاؤ پکانے کے بجائے حالات کی بہتری کے لئے سیاسی میدان میں فعال ہیں۔ ان کے اتحادی کب کب کون کون ہوتے ہیں، اور کب وہ تبدیل ہوجاتے ہیں؟ ہمیں ان سارے پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایران کا تذکرہ کیوں نہیں کیا، تو یہ واضح کر دوں کہ شہید مرتضٰی مطہری، شہید جواد باہنر وغیرہ بھی جماعتوں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے تھے۔ امام خامنہ ای بھی باہنر شہید کی حزب جمہوری اسلامی کے پلیٹ فارم پر کافی عرصہ متحرک رہے۔

 

انقلاب اسلامی کی کامیابی تک ایران کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ پڑھ لیں، بنی صدر کون تھا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد صدر بننے تک یہ کس کا اتحادی تھا، وہ لوگ جنہوں نے حکومت اسلامی کے قیام کے اوائل میں خیانت کی، وہ کون تھے؟ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں آیت اللہ حسن مدرس اور 1950ء کے عشرے میں آیت اللہ کاشانی کس طرح بادشاہی حکومت کے دور میں پارلیمانی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ کیا وہ حکومتیں حسینی حکومتیں تھیں؟ کیا وہ نظام حسینی نظام تھا؟ کیا لبنان، بحرین میں حسینی حکومت ہے؟ وہاں پاکستان سے زیادہ خراب صورتحال ہے۔

 

اتحاد مشترکات پر بنتے ہیں، اختلافی معاملات میں اتحادی آزاد ہوتے ہیں یا کوئی ضابطہ ترتیب دیتے ہیں۔ امام خمینی کے بت شکن فرزند پاکستان کے خمینی علامہ عارف حسین الحسینی کی حکمت عملی کے عنوان کے تحت بندہ ایک مقالہ لکھ چکا ہے۔ اس کی روشنی میں کوئی آدمی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ پاکستانی سیاست سے یا الیکشن سے لاتعلق ہوجائے۔ لہٰذا وہ شیعہ تنظیمیں اور جماعتیں جو ملکی سیاست میں کسی بھی حد تک فعال ہیں، ان سے عوام کو بیزار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت یزیدی نظام کی مخالفت ہو رہی ہے وہ بھی ختم ہوجائے! اگر یہ مکتب جنرل ضیاء کے دور میں ہوتا تو وہ بخوشی اس کی سرکاری سرپرستی کرتے۔ شیعوں کو یہی نظریہ دے کر گمراہ کیا جاتا رہا ہے کہ سیاست ان کے کس کام کی؟ امام خمینی (رہ) کو بھی تو شہنشاہ ایران کے چمچوں نے یہی کہا تھا کہ آپ اس گند میں کیوں ہاتھ ڈالتے ہیں۔

 

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر رضا تقوی امریکی قونصلیٹ پر لبیک یارسول اللہ (ص) کا پرچم نصب کرتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے تو اسے جذباتی کام قرار دے کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، دیگر تنظیمیں ریلیاں اور عوامی اجتماعات کرتے ہیں تو ان پر تنقید ہوتی ہے، لیکن خود بھی ویسا ہی اجتماع کرتے ہیں۔ یہ قول و فعل کا ایک ایسا تضاد ہے جس کی مکتب اہلبیت (ع) میں کوئی اجازت نہیں۔ کسی کے عادل ہونے کی کم سے کم نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو ایسی بات سے منع نہیں کرتا جو وہ خود کرتا ہے۔ شہید رضا تقوی مجلس وحدت مسلمین کے ایک شیعہ سیاسی کارکن تھے۔ علامہ عارف حسینی کی تحریک جعفریہ کے مجاہد شیخ الشہداء مظفر کرمانی کی پوری زندگی سیاسی شیعت پر گذری۔ اپنی ذات میں انجمن اس عظیم آدمی نے کبھی بھی خیالی پلاؤ نہیں پکائے اور لوگوں کو کنفیوزڈ نہیں کیا بلکہ واضح صراط مستقیم دکھا دی۔ بعد میں جس بات پر ان کا اختلاف ہوا وہ بھی ولایت فقیہ کی اطاعت میں ہوا تھا، ذاتی اختلاف کسی سے نہیں تھا۔ لیکن تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شیخ الشہداء مظفر کرمانی کے جنازے میں ان کے قریب تصور کئے جانے والی ایک اہم شخصیت نظر نہیں آئی!

 

شہید محمد علی نقوی بھی تحریک جعفریہ کے سیاسی کارکن تھے۔ مفتی جعفر حسین سے لے کر علامہ صفدر نجفی تک، علامہ ضیاءالدین رضوی شہید سے علامہ علی موسوی تک، علامہ حیدر علی جوادی سے علامہ شیخ حسن صلاح الدین تک نامور و بزرگ علماء بھی سیاسی شیعہ رہنما تھے اور ہیں۔ جنرل ضیاء سے اپنا حق مانگنے وہ بھی گئے۔ علامہ حسن ترابی شہید کو دیکھیں، ان کے سیاسی کردار کی برکت تھی کہ دیوبندی علماء بھی کسی شیعہ عالم کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، ایسا علامہ عارف حسینی کے جنازے میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ علامہ عارف حسینی دیوبندی مولویوں سے بھی رابطے کر رہے تھے، تاکہ مکتب قرآن و اہلبیت (ع) کا وہ روشن چہرہ غیر شیعہ حضرات پر واضح کریں جو کہ اصل میں ہے، لیکن غلیظ پروپیگنڈا نے اس پر غلاف چڑھا دیا تھا۔

 

کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن میں نے یہ بروقت لکھ دیا کہ میں اس مارچ کو انقلاب مارچ نہیں سمجھتا۔ اس کا انجام میری بات کو ثابت کرے گا۔ بندہ عرض کرچکا کہ اس کا مثبت پہلو شیعہ سنی اتحاد ہے، تکفیریوں کی تنہائی ہے، شیعہ مسلمانوں کی قومی دھارے کی سیاست میں واپسی ہے۔ اس مارچ کی کامیابی اس کا اسلام آباد پہنچنا، پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینا اور آج 21 اگست کی رات تک ثابت قدمی سے میدان عمل میں موجود رہنا ہے۔ مولا علی (ع) کا یہ قول لکھا جاتا ہے کہ ظالم کی ہرحال میں مخالفت کرو اور مظلوم کی ہر حال میں مدد کرو، کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل ظلم نہیں، کیا اس ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا غلط عمل ہے؟ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے 4 مطالبات اتحادیوں سے منوائے ہیں اور ان کے دس نکات کی حمایت کی ہے۔ علامہ ساجد نقوی نے مطالبات کو جائز قرار دے کر افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی تاکید کی ہے۔ علامہ حامد موسوی نے بعض خدشات ظاہر کئے ہیں، جو صحیح بھی ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن غیب کا علم اللہ جانتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاست ہی نہیں بلکہ اقتدار بھی پاکستانی شیعوں کے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایک ذریعہ ہے اہداف کے حصول کا۔

 

امت اسلام ناب محمدی کے عظیم فرزندوں سے درخواست ہے کہ اللہ سے پرامید رہیں، حسن ظن رکھیں۔ لیکن زیادہ لمبی امیدیں نہ باندھیں، مجھے انقلاب نظر نہیں آرہا۔ اگر حکومت تبدیل بھی ہوجائے تو یہ نقلاب نہیں کہلائے گا۔ شہنشاہ وفا قمر بنی ہاشم حضرت عباس علمدار علیہ السلام کا علم پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بلند ہوا اور لہرایا، اس میں لبیک یاحسین علیہ السلام کے نعرے لگے اور سنی بریلویوں نے شیعہ مسلمانوں کی وفا پر اظہار تشکر کیا۔ ہمارا زاویہ نظر یہ ہے کہ یہ اتحاد امت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ ہے۔ پریکٹیکل لوگ میدان عمل میں رہتے ہیں۔ جو دوست کہتے ہیں کہ یہ نظام یزیدی ہے تو پھر اس کے مقابلے میں فیس بک کی خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری کے لئے کربلا میں حاضر و موجود رہنا ہوگا۔ تحرک پیدا کرنے کے لئے شریعتی کی تحریریں ہی بہت ہیں، جو میری رائے کے مخالف ہیں وہ متبادل بتائیں؟ یہ بھی غلط، وہ بھی غلط، صحیح کیا ہے؟ کان کو چہرے کے سامنے سے پکڑنا غلط اور وہی ہاتھ سر کے پیچھے سے گھما کر پکڑنا شاید درست ہے!

 

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب

وحدت نیوز(کراچی) مجلس و حدت مسلمین کراچی ڈویژن اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے اسلام آباد انقلاب مارچ کے حمایت اورغاصب  نواز  حکومت کے خلاف بعد نماز جمعہ رحمانیہ مسجد کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ، ایم ڈبلیوایم ، سنی اتحادکونسل اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنماعلامہ علی انورجعفری ،حاجی اقبال محمود ،صاحبزادہ اظہر رضا نے خطاب کیا، مظاہرین نے اسلام آبادمیں جاری پر امن انقلاب دھرنے کی حمایت ، اقتدار پر قابض نوازحکومت اور قاتل پنجاب حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

 

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئےعلامہ علی انوار کا کہنا تھا کہ نواز حکومت نے ظالم کی تمام حدیں پار کر دی ہیں ، ماڈل ٹاون میں بے گناہوں کا بے دریغ قتل عام کیا گیا، دس روز تک خواتین اور معصوم بچوں کو کڑے محاصرے میں رکھا گیا، عوام اپنے حقوق کےحصول  کی خاطراسلام آباد کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے ، ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا اصلاحاتی ایجنڈاعوام پاکستان کی آواز ہے، معاشرےکے تمام طبقات بنیادی اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ، استحصالی سیاسی نظام نے غریب و متوسط طبقے سے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا ہے، پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت مسلمین ، سنی اتحاد کونسل محروم عوام کو ان کا جائز حق دلوانے کے لئے سڑکوں پر نکلی ہے، آج امریکہ ، بھارت ، سعودیہ اور پاکستان میں برسرپیکار تکفیری دہشت گرد گروہ نواز حکومت کےتحفظ کی خاطر میدان میں اتر آئے ہیں ، جو نواز شریف کی حب الوطنی پر بد نماداغ کے سوا کچھ نہیں ۔

وحدت نیوز(اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کی جانب سے انقلاب مارچ کی حمایت میں یادگار شہداء اسکردو پر دھرنا دیا گیا۔ دھرنے کے شرکاء سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا سید مظاہر حسین موسوی، ڈویژن سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی، علامہ عابد حسین بہشتی، مولانا جان حیدری، شیخ زاہد حسین زاہدی، شیخ محمد باقری اور آغا اعجاز حسین موسوی نے خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ جعلی مینڈیٹ سے برسراقتدار آئی ہوئی بدمعاش حکومت پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے آئی ہے، انہیں نہ جمہوریت کی فکر ہے اور نہ ریاست کی۔ نواز حکومت کی جان کرسی اور اختیار میں ہے۔ نواز حکومت نہ صرف ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر سے ہمدردی رکھتی ہے بلکہ انکی پشت پناہی میں مصروف ہے۔ اگر نواز حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے تو پارلیمنٹ میں دہشت گردوں کی حکومت ہوگی اور پاکستان آرمی سمیت ریاستی حساس اداروں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ ملتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ نواز حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں کسی دہشت گرد، ظالم، بدعنوان قاتل اور جعلی مینڈیٹ کے ساتھ برسراقتدار آئی ہوئی حکومت حق حکومت کھو چکی ہے۔ نواز بدمعاش کو فوری طور پر مستعفی ہونا چاہیئے ورنہ پاکستان کی عوام انہیں مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مقررین نے کہا کہ نواز حکومت کے خلاف احتجاجی سلسلے کو بلتستان بھر میں پھیلایا جائے گا اور پورے بلتستان کو جام کر دیا جائے گا۔ مقررین نے کہا کہ بدمعاش حکومت انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شرکاء پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسلام آباد پولیس نے نہتی عوام کے خلاف آپریشن سے انکار کر کے ریاست دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ نواز حکومت نے اپنے خاندان کو ہی ریاست سمجھ رکھا ہے۔ ریاست کی حفاظت کے نام پر لوٹنے والے غداروں کو جب تک اقتدار کی کرسی کے باہر نہیں کیا جاتا ملک میں امن کا بھی کوئی امکان نہیں۔

 

دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ مسلم لیگ نون شریف خاندان کی لونڈی بن چکی ہے اور ملکی وزارتیں انکے خاندان میں منقسم ہیں۔ جمہوریت کا ڈنڈورا پیٹنے والی حکومت یہ بتائیں کہ پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دینے والے مظاہرین پر پانی بند کرنا کہاں کی جمہوریت اور انسانیت ہے۔ مسلم لیگ نون سیاسی تنظیم گلو بٹ فورس اور بوبی بٹ کی جماعت بن چکی ہے۔ نواز کی حکومت مسلم لیگ نون کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اگر مسلم لیگ نون نے گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں سیاسی جدوجہد جاری رکھنی ہے تو سیاسی اور انسانی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے بٹوں کو اپنے صفوں سے نکال باہر کریں اور شریف فیملی کی لونڈی نہ بننے دیں ۔ قرآئن سے لگ رہا ہے کہ شریف فیملی کی شہنشاہیت مسلم لیگ کو ملک کے منظر نامے سے غائب کر دے گی۔ اگر انہیں شہنشاہیت سے آزاد نہ کرایا تو اور شریف بدمعاشوں کے ایجنڈے پر چلاتا رہا تو یہ جماعت طالبان کی بٹ ورژن ثابت ہوگی۔

Page 3 of 5

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree