وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ سید حسن ظفر نقوی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ وہ ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس کے فارغ التحصیل ہیں، دنیا بھر میں انقلابی مجالس پڑھنے کے حوالے سے مشہور ہیں، کراچی سے خصوصی طور پر علامہ ناصر عباس جعفری کا ساتھ دینے کیلئے اسلام آباد میں لگائے گئے ہڑتالی کیمپ میں تقریباً 70دن تک موجود رہے، تاہم عارضہ قلب کی تکلیف ہونے کے باعث تین دن اسلام آباد کے مقامی اسپتال میں زیرعلاج رہے، جہاں ان کی انجیوگرافی کی گئی اور بعد میں انہیں ڈاکٹرز کی ہدایت پر کراچی منتقل کر دیا گیا۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے 70 دن تک مظلومین کی آواز بلند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلام ٹائمز نے ان سے بھوک ہڑتالی کیمپ اور کشمیر کے معاملے پر ایک اہم انٹرویو کیا، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

 

سوال: 13 مئی سے شروع ہونیوالی اس بھوک ہڑتال سے ابتک کیا اہداف حاصل ہوئے ہیں۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: مختصراً یہ بتاتا ہوں کہ ہمیں یہ کامیابی ضرور ملی ہے کہ لوہے کے کانوں پر لوہے برسانہ شروع کر دیئے ہیں، پوری دنیا میں ہماری جدوجہد کی بات ہو رہی ہے، عالمی سطح پر اس معاملے کو پذیرائی ملی ہے، مظلوموں کی بات کو اب سنا جا رہا ہے، یہ اسی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، ابھی نامعلوم کہ کتنے دن اور بیٹھنا پڑے، یہ صبر آزما تحریک ہوتی ہے، دیکھئے کہ کامیابی کے رمز کیا ہیں۔؟ جب سیلاب آتا ہے تو بڑی بڑی چیزیں بہا کر ساتھ لے جاتا ہے، لیکن پتھر اپنے مقام پر باقی رہتا ہے، لیکن جب اسی بڑے پتھر پر مسلسل تین چار مہینے پانی کا قطرہ ایک مقام پر گرتا رہے تو اس جگہ پر ایک سوراخ بن جاتا ہے۔ یہ پھوک ہڑتال بھی اس قطرے کی ماند ہے، سمندر کا پانی تو ایک بار آکر چلے جائیگا، لیکن اس بڑے پتھر کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن قطرہ اس پر ضرور اثر ڈالے گا، یہ بھوک ہڑتال کا خیمہ بھی اس قطرے کی ماند ہے، اس پتھر میں سوراخ پڑ چکا ہے، ان کے اندر دو حصے ہوگئے ہیں، یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں، ہم پوری دنیا میں اپنی مظلومیت منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

جیسے گلگت بلتستان میں زمینوں کا مسئلہ تھا وہ رک گیا ہے، اسی طرح پارا چنار کا مسئلہ تھا، وہ 90 فیصد حل ہوگیا ہے، جیسے پاراچنار کے مومنین چاہتے تھے ویسے ہی حل ہوا ہے۔ مومنین خود کہہ رہے ہیں کہ ہم مطمئن ہیں، جس طرح ہم چاہتے تھے اسی طرح جرگہ بیٹھا ہے اور مسئلہ حل کیا ہے۔ ان کی تفصیلات جلد قوم کو بتائیں گے۔ باقی جگہوں پر نوٹیفیکیشن جلد جاری ہوں گے، کامیابی اور ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم اپنی استقامت کے ساتھ مطمئن ہیں۔ ہماری تحریک سے قوم مضبوط ہوئی ہے، اس سے اتحاد پیدا ہوا ہے، ہم جو دنیا کو عدم تشدد کی تحریک پیش کرنا چاہتے تھے، اس میں 100 فیصد کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے باور کرایا ہے کہ تشدد کے ذریعہ تشدد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کربلا نے بھی ہمیں یہی سکھایا ہے، تلوار کے اوپر خون کی فتح تھی، ہاں دفاع واجب ہے۔ جہاں پر دشمن حملہ آور ہو جائے، اس کا دفاع کریں۔ سید سجاد اور حضرت زینیب کی تحریک نے یزیدیت کو گالی بنا دیا۔ یہ خیمہ ان ظالموں پر قطرے کی ماند سوراخ کرتا رہے گا۔ ابراھہ کے لشکر کو ابابیل کی کنکیریوں نے ختم کیا تھا، اس حکومت کو مظلموم وہ سبق سکھائیں گے کہ یہ یاد رکھیں گے۔

سوال: علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ اب شہداء کے ورثاء بیٹھیں گے، کیا کوئی حکمت عملی میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: دیکھیں! حکمت عملی پہلے نہیں بتائی جاتی، پہلے سے طے کردہ چیزیں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں، اب دوسری حکمت عملی سامنے آئی ہے، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے بہت دباو ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ سینکڑوں شہداء کے ورثاء یہاں اظہار یکجہتی کیلئے آچکے ہیں۔ یہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے دباو آیا ہے کہ اب ایک ہی بندہ فقط بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھے گا، اب شہداء کے ورثاء ایک ایک کرکے بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ابھی پاکستان مارچ سمیت کئی آپشن موجود ہیں۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

سوال: حکومت کیساتھ رابطوں کی کیا صورتحال ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: جی دیکھیں رابطے کیوں نہیں ہوئے، رابطے تو ہوئے ہیں اور مسلسل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں، اسی طرح ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے ملاقات ہوئی ہے، اس کے علاوہ ہوم سیکرٹریز، چیف سیکرٹری سب آتے ہیں اور رابطے میں ہیں، لیکن مسئلہ وہیں اٹکا ہوا ہے کہ ہم آپ کے مطالبات تسلیم کرتے ہیں، بس آپ بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ بھائی مسئلہ ماننے یا تسلیم کرنے کا تھوڑا ہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عملی طور پر کچھ چیزیں تو جاری کریں نا۔ کوئی چیز لکھنے میں سامنے تو آئیں ناں، کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔ کچھ تو عملی ہو۔ ہم کوئی ضد پر تھوڑا اڑے ہوئے ہیں، بھائی آپ خود کہتے ہیں کہ آپ کے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، بس اس پر عمل کریں۔ اتنی سی بات ہے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ کسی حکومت گرانے کی تحریک کا حصہ نہیں بن رہے۔ اس کو ہم نے بار بار کہا ہے اور زور دیکر کہا ہے۔ ہماری تحریک فقط اہل تشیع کے حقوق کیلئے ہے۔ اس کو مان لو، ہم اٹھ کر چلے جائیں گے۔ ہم صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی ایجنڈے کے تحت نہیں بیٹھے ہیں۔

سوال: اہم مطالبات کیا ہیں، جن پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو آپ لوگ اٹھ جائیں گے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: پنجاب اور کے پی کے میں اور بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن ہونا چاہیے۔ بلآخر کراچی میں آپریشن ہوا یا نہیں۔ آخر فاٹا میں آپریشن ہوا یا نہیں ہوا، چھوٹو گینگ کو پکڑنے کیلئے آرمی جاتی ہے یا نہیں۔؟ ہمارا سوال یہی ہے کہ جب فاٹا میں آپریشن ہوسکتا ہے تو ڈیرہ میں کیوں آپریشن نہیں کیا جاتا، وہاں آرمی کو کیوں نہیں اختیارات دیئے جاتے۔ ایپکس کمیٹی کا اجلاس تو وزیراعلٰی نے بلانا ہوتا ہے، ابتک اجلاس کیوں نہیں بلایا جاتا۔ پنجاب میں ہزاروں عزاداروں کے خلاف ایف آرز درج ہیں، ان کو واپس لیا جائے۔ گلگت بلتستان کی زمینیوں پر کیوں قبضہ کیا جا رہا ہے؟، سی پیک پر کام کرو گے تو کیا زمینوں پر قبضے کرو گے، جن لوگوں نے اپنے زور بازو سے ڈوگرا راج سے خطے کو آزاد کرایا اور اپنے آپ کو پاکستان کے حوالے کر دیا، تم ان کی زمینیں چھین رہے ہو، بالش خیل کی زمینیں چھین رہے ہو، جنہوں نے طالبان کے خلاف جنگ لڑی۔ آج تم انہی دہشتگردوں کو لاکر آباد کر رہے ہو۔ جو لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ان کے دلوں میں نفرت ڈال رہے ہو۔ ہمارے سیدھے سیدھے مطالبات ہیں، ان عمل کرو، ہم چلے جائیں گے۔ دو تین مطالبات مان لئے ہیں، باقی بھی مان لو، ہم چلے جائیں گے۔

سوال: کشمیر کے معاملے پر ملت جعفریہ کا کیا موقف ہے۔ عجب ہے کہ تشیع کشمیر کے معاملے پر وہ جذبہ جو قدس کے معاملے پر دکھاتی ہے وہ نہیں دکھاتی، جبکہ دیوبند اور اہل سنت حضرات جتنا جذبہ کشمیر کے معاملے پر دکھاتے ہیں، وہ قدس کیلئے نہیں دکھاتے، جبکہ دونوں اطراف میں مر مسلمان ہی رہے ہیں۔ اسکی وجہ بھی بیان فرما دیں۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: ہمارا کشمیر پر اٹل فیصلہ ہے۔ بدقسمتی سے معاملہ کو شیعہ سنی بنا دیا گیا ہے اور تفریق ڈال دی گئی ہے، 65ء کی جنگ کے بعد سے پوری ملت جس میں بلاتخصیص مذہب و فرقہ سب نے کشمیر کے معاملے پر ایک ہی موقف اپنایا ہے۔ ہم مسلمانوں ہونے کے ناطے اور پاکستانی ہونے کے ناطے کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیریوں کے معاملے پر جو کرسکتی تھی وہ کیا ہے، ہم نے مظاہرے بھی کئے ہیں، مشعل بردار ریلیاں بھی نکالی ہیں۔ تیسری بات کہ ہمیں حکمت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے جس طرح ملک کو شدت پسندی کی طرف لے جایا گیا، کشمیر افغانستان کے معاملے پر ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے جوان اس میں اس طرح شامل ہوں اور ان کی لسٹیں عالمی سطح پر جائیں۔ بدقسمتی کے ساتھ اس طرح ماضی میں رہا ہے۔ بعد میں وہی جہادی دہشتگرد بن گئے۔

جن لوگوں نے افغانستان اور دیگر جگہوں پر جہاد کیا، اس پر ان کو بھی، ان کے خاندان کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔ مسئلہ ملت کا نہیں ہے، پوری ملت کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، مسئلہ حکومت کا ہے کہ جس کی پالیسیاں صبح شام قلابازیاں کھاتی ہیں، اس کا مسئلہ ہے۔ ہم ان قلابازیوں کی وجہ سے اس ایکسٹریم لیول پر نہیں جانا چاہتے۔ کل ان کی پالیسی بدلے گی، یہ ان کے ساتھ تجارت شروع کر دیں گے۔ یہ وہ حکمران ہیں، جو کہتے ہیں کہ ایک لکیر کھچ گئی ورنہ ہم تو ایک ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہم ان سے کشمیر کے حوالے سے کیا توقع رکھیں، یہ کیا آواز اٹھائیں گے۔ جس کے حکمران بھارت میں جاکر کہتے ہوں کہ یہ ایک لکھیر کھچ گئی تھی، ورنہ تو ہم تو ایک ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کمزوری شیعہ سنی میں نہیں ہے بلکہ یہ کمزوری حکمرانوں میں ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پوری ملت کی آواز سب کو سنائی دیتی ہے، لیکن حکمرانوں کی آواز اتنی نحیف پڑ چکی ہے کہ کسی کو سنائی ہی نہیں دیتی۔

سوال : پاکستان 34 ملکی اتحاد کا حصہ بنا، ساتھ کھڑا ہوگیا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک نے بھی کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کیا۔ یہ خارجہ پالیسی کی ایک اور ناکامی نہیں ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: اس وقت بھی ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آپ جو یہ معاہدے کر رہے ہیں، فلاں ملک پر حملہ ہوا تو آپ جائیں گے، فلاں ملک پر یہ ہوا تو ہم یہ کر دیں گے، کیا کسی ایک معاہدے کی شق میں یہ بات ڈلوائی ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر حملہ آور ہوا تو یہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ جنگ ہوئی تو کوئی ہماری امداد کو آئیگا؟، ابھی جو کشمیر میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ ان 34 ملکوں میں سے کسی ایک ملک کا نام لے لیں اور بتائیں کہ کسی ایک ملک نے آپ کی حمایت کی ہو اور بھارت کی مذمت کی ہو۔ کوئی ایک ملک بھی آپ کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی کا کچھ پتہ نہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ کب یہ کہاں پھینک دیں۔ اس لئے ہمیں تدبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہم دانشمندی کے ساتھ آگے چلتے ہیں۔ پاکستان کی پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، حکمرانوں کا کچھ پتہ نہیں کہ کب اپنی پالیسی تبدیل کر دیں۔ جس طرح ان کی سشما سوراج اور دیگر بیان دیتے ہیں، ان کا جواب تک یہ لوگ نہیں دیتے۔ یہاں تک وہ کہہ گئے ہیں کہ ہم پاکستان پر بمباری کریں گے، کیا یہاں سے کوئی جواب دیا گیا۔ کیا سارا ملبہ پاکستان پر ہی ڈالنا ہے۔ اگر فوج نے ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر آپ اپنا بوریا بستر اٹھائیں اور چلے جائیں۔ نہ خارجہ پالیسی ہے اور نہ داخلہ پالیسی ہے، کشمیر کے معاملے پر حکومت کی کوئی پالیسی ہی واضح نہیں ہے۔ قوم کو پتہ نہی نہں کہ پالیسی ہے کیا۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)حجة الاسلام مولانا سید باقر عباس زیدی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ مدرسہ المہدی و جامعہ امامیہ کراچی کے پرنسپل اور ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں، جبکہ وہ مسجد المصطفٰی (ص) گلشن معمار کراچی میں امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے رکن ذیلی نظارت بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا سید باقر عباس زیدی کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک اور شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے 7 اگست کو اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی تحفظ پاکستان کانفرنس کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے پس منظر، محرکات اور اب تک حاصل ہونے والے فوائد کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی تحریک کے کئی محرکات ہیں، شیعہ ٹارگٹ کلنگ، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضے ہیں، ملک میں خصوصاً پنجاب میں عزاداری کے خلاف سازشیں، بانیان مجالس، عزاداروں، ذاکرین کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آریں کاٹنا، جس کے ذریعے عزاداری سیدالشہداؑ کو محدود کیا جائے، عوام کو عزاداری سے دور کیا جائے، مجموعی طور پر اگر ہم کہیں تو شیعہ حقوق کی بات ہے، اس کے علاوہ بھی کئی محرکات ہے، مثلاً لاہور ہائیکورٹ میں شیعہ ججوں کے ساتھ مسائل تھے، ایک اطلاع کے مطابق انہیں فارغ کرنا تھا، لیکن انہیں ایم ڈبلیو ایم کی اسی احتجاجی تحریک کی وجہ سے بحال کیا گیا ہے، بہرحال جو سیاست آمر جنرل ضیاء نے شروع کی تھی کہ ریاستی اداروں میں وہابیت کو داخل کیا جائے، اہم عہدوں، مقامات، جگہوں سے شیعیان حیدر کرار کو ہٹایا جائے، انہیں یہاں پہنچنے سے روکا جائے، یہاں تک کہ پاک فوج سے نعرہ حیدری تک کو ختم کر دیا گیا، ضیاء دور میں ریاستی و ملکی اداروں میں شیعہ حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے فرقہ پرست پالیسیاں داخل کی گئیں، آج جتنے بھی ادارے موجود ہیں، چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں، چاہے عسکری ادارے ہوں، پولیس کے ادارے ہوں یا دیگر مختلف ریاستی و ملکی ادارے ہوں، وہاں وہابی تکفیری فکر کے لوگ بٹھائے گئے ہیں، جو تشیع کے حوالے سے انتہائی تعصب رکھتے ہیں، ایسی ضیاء طرز تفکر کے مسائل ابھی بھی موجود ہیں، آل سعود نے پاکستانی ریاستی اداروں میں اپنا اثر و نفوذ مزید بڑھانے کیلئے دوبارہ فنڈنگ کی، پیسے دیئے، مزید کام شروع کیا ہوا ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعہ حقوق اور ملکی سالمیت و بقاء کی جنگ لڑی ہے۔

بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم شیعہ حقوق کی جنگ عدالت میں جا کر قانونی طور پر لڑیں گے، لیکن کیا پاکستان میں عدلیہ کسی چیز کا حل ہے، پاکستانی عدلیہ ہر اعتبار سے بک جاتی ہے، اس میں بااثر عناصر اپنی مرضی کا جو فیصلہ کرا لیں، لہٰذا ضروری ہے کہ شیعہ مسلمان پاکستان میں اپنا وزن بڑھائیں، ہم بھی ملک میں اول درجے کے پاکستانی ہیں، ہمیں بھی یکساں حقوق حاصل ہیں، جن کی حفاظت ہونی چاہیئے، ہم نے پاکستان بنایا ہے، ہم ہی پاکستان بچائیں گے، ہم نے قیام پاکستان کیلئے بھی خون دیا، آج بھی ہم اپنا خون دیکر ملک کو بچا رہے ہیں، ہمارے خون ہی کی تاثیر ہے جو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہونے بچا ہوا ہے، ورنہ تکفیری وہابی عناصر جن کے تانے بانے امریکا اسرائیل سے ملتے ہیں، یہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرچکے ہوتے، اسی تناظر میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے جو سب سے اہم کام کیا ہے، وہ آمر جنرل ضیاء کے طرز تفکر، تکفیری وہابی عناصر، امریکی اسرائیلی نمک خوار ایجنٹوں کی ناپاک سازشوں و ارادوں کے آگے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں، شیعہ حقوق کو غضب کرنے کے سلسلے کے آگے رکاوٹ بن گئے، بڑھتی ہوئی شیعہ کلنگ کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے، جس ملت تشیع کو پاکستان میں تیسرے درجے پر دھکیلنے کی سازش کی گئی، جسے ملک میں تنہا کر دینے کی سازش کی گئی تھی، آج علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے اسی ملت تشیع کو قومی دھارے کے مرکز میں کھڑا کر دیا ہے، ملت تشیع کے خلاف تمام سازشوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہوگئے ہیں، کیونکہ ہم قائداعظم و اقبال کا پاکستان چاہتے ہیں، جو ظلم و زیادتی سے پاک ہو۔

قائد مسائل کو جانتا ہے، مختلف رازوں کو پہچانتا ہے، لیکن بعض اوقات اسے از خود اقدامات کرنے پڑتے ہیں، اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری میں یہ قائدانہ خصوصیات ہیں، جس سے انہوں نے نہایت خوبصورت، مدبرانہ، قائدانہ انداز میں استفادہ کیا، اقدام کیا، احتجاجی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا، آج جس ملت تشیع کو سیاسی دھارے سے نکالنے کی سازش ہو رہی تھی، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے قائدانہ اقدام کے باعث تمام برجستہ سیاسی و مذہبی جماعتیں اور شخصیات احتجاجی کیمپ پر آئیں، راجہ صاحب اور ملت تشیع سے اظہار یکجہتی کیا، ہمارت مطالبات کی غیر مشروط حمایت کی، سب نے اس بات کا اقرار کیا، تائید کی کہ ہمارے مطالبات پاکستان کے آئین و دستور و قانون کے مطابق جائز ہیں، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیئے۔ ہمارے مطالبات میں دہشتگرد عناصر کے خلاف آپریشن کرنا بھی شامل ہے، جیسا کہ کئی مقامات پر شروع ہوچکا ہے، کہیں پر شروع ہونے والا ہے، پارا چنار میں اہل تشیع پر فائرنگ کا واقعہ تھا، اس احتجاجی بھوک ہڑتال کے نتیجے میں وہاں جرگہ بیٹھا، اس نے فیصلہ کیا، ہمارے بزرگ عالم دین علامہ عابد حسین الحسینی نے اس کے نتیجے کو قبول کیا، خیبر پختونخوا حکومت اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہمارے بہت سارے مطالبات و مسائل کو قبول کیا، ان سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے، انہوں نے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے ہماری تجاویز بھی مانی ہیں، ان تمام پر ایک حد تک عمل درآمد شروع بھی ہوگیا ہے، یہی عمل درآمد ہم پنجاب میں بھی چاہتے ہیں، اس حوالے سے نواز حکومت سے ایک دو بار مذاکرات بھی ہوئے ہیں، لیکن ڈیڈ لاک باقی ہے، لیکن امید ہے کہ ان شاء اللہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تن تنہا جس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، اس کے نتیجے میں پنجاب سے بھی جلد مثبت خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔

اسلام ٹائمز: کیا ملت تشیع قومیات کے حوالے سے مایوس ہے، جسکے خاتمے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے یا پھر قومی دھارے کا حصہ بن رہی ہے، جس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے دور میں پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، شہید قائد کے پیچھے تھی، اگرچہ شہید قائدؒ کو بہت زحمت اٹھانی پڑی، لیکن اس کے نتیجے میں لوگوں نے ان کا بڑا ساتھ دیا اور شیعہ حقوق کیلئے قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، ناصرف شیعہ حقوق بلکہ اسلام کی سربلندی و وطن عزیز کی بقاء و سالمیت کی خاطر لوگ انکے ساتھ جمع ہوگئے، شہید عارفؒ کے بعد سے ایک خلا پایا جاتا ہے، شیعہ حقوق کی جنگ کے حوالے سے، ان کے بعد آنے والی قیادت میں وہ صلاحیت و اہلیت نہیں تھی، شہید عارفؒ کے بعد آنے والی قیادت نے شیعہ حقوق کیلئے اور تشیع کے دفاع و ترقی کیلئے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا، اس صورتحال کے پیش نظر شہید قائدؒ کے ساتھیوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی بناد رکھی، لہٰذا آج ایم ڈبلیو ایم پاکستان میں شیعہ حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے، ملت تشیع کا کردار مجموعی طور پر بہت اچھا اور مثبت ہے، عوام آہستہ آہستہ جب آگاہ ہوتی ہے تو ساتھ دیتی ہے، عوام کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی آگاہ ہے، وہ ایم ڈبلیو ایم کے مطالبات سے بھی آگاہ ہیں، عوام نے مجلس کا ساتھ بھی دیا ہے۔ دراصل ماضی میں عوام کئی بار دھوکہ کھا چکی ہے، لہٰذا عوام بہت حساس ہوچکی ہے، لیکن اب جب قائدین اور علماء کرام یہ ثابت کرینگے کہ وہ میدان میں ثابت قدم ہیں، بھاگنے والے نہیں ہیں، تو عوام جو ایک حد تک میدان میں وارد ہوچکی ہے، مزید وارد ہوگئی، اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب قائد اور عوام میں مطلوبہ ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی، عوام اپنے قائد سے جدا، پیچھے اور دور نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جس کے انتہائی مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ اسے مزید اچھی طرح پہچانے اور سمجھے، کیونکہ قائد جتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو لیکن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک عوام ساتھ نہ دے، اس تحریک میں بھی عوام نے ایک حد تک ساتھ دیا ہے، پورے ملک سے لوگ آئے ہیں، لوگ احتجاج، علامتی دھرنوں، ریلیوں، مظاہروں میں بھی شریک ہوئے۔ بعض اوقات قائد صورتحال کی سنگینی اور حساسیت کو دیکھ رہا ہوتا ہے، لیکن عوام اس سطح پر معاملات کو نہیں دیکھ پا رہی ہوتی، لہٰذا آہستہ آہستہ ایم ڈبلیو ایم کی کوشش ہے کہ عوام بھی اپنے حقیقی قائد کے ساتھ اسکی فکر کے مطابق قیام کریں، ملک میں اپنے خلاف ہونے والے مظالم کیخلاف اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز حق بھی بلند کریں، ساتھ دیں۔ بہرحال علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی پرخلوص احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک جاری ہے اور ہم ہر طرح سے ان کے ساتھ ہیں اور ان شاء اللہ شیعہ حقوق کی اس جنگ میں ہم ہمیشہ میدان میں رہیں گے، ہم ہر ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرتے رہیں گے، یہی کربلا کا پیغام ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم پاکستان 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اسکے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد عارف حسین الحسینیؒ نے پاکستان میں شیعہ حقوق کیلئے جو جدوجہد کی، دراصل اس سے عہد و پیمان کرنا ہے، تجدید عہد کرنا ہے، اس کا احیا کرنا ہے، شہید قائدؒ نے جو جدوجہد کی، اسے اسی مقام پر دوبارہ لانے کیلئے آج ہم میدان میں کھڑے ہیں، اتحاد بین المسلمین، اسلام کی سربلندی، وطن عزیز کی سالمیت و بقا و ترقی، شیعہ حقوق، پاکستان کی آزاد خارجہ و داخلی پالیسی جو شہید قائدؒ کی جدوجہد کے بنیادی نکات تھے، ہم بھی آج انہیں نکات کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں، کرتے رہینگے، یہ پہلے بھی ہماری ذمہ دار تھی اور رہے گی، اسی لئے ہم ہر سال شہید قائدؒ کا یوم شہادت مناتے ہیں، تاکہ شہید کے افکار و جدوجہد پر گفتگو ہو، ان سے سبق حاصل کریں، اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین شہید قائدؒ کی 28 ویں برسی کے موقع پر 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے، اس تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے ہم پاکستان میں ملت تشیع کیخلاف سازشوں میں مصروف امریکی اسرائیلی گماشتوں اور نمک خواروں کو یہ پیغام دینگے کہ وہ ملت تشیع کو دبانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے، ملت تشیع کے سر کو جھکانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے، وہ ناکام و نامراد ہونگے ان شاء اللہ۔ ہم ان شاء اللہ 7 اگست کے تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے اپنی احتجاجی تحریک کو مزید مؤثر بنائیں گے، پُرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے، اپنے مطالبات پر عمل درآمد کروائیں گے ان شاء اللہ۔

اسلام ٹائمز: مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: اگر نواز حکومت ہمارے مطالبات پر عمل درآمد شروع کر دیتی ہے تو احتجاجی بھوک ہڑتال بھی ختم ہو جائیگی، ہم پھر سے یکسوئی کے ساتھ ملت کی تربیت، تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود، سیاسی، تعلیمی، صنعتی، معاشی، تجارتی و دیگر تمام میدانوں میں ملت کی ترقی کیلئے اپنے امور کو انجام دینگے، جس کی ہمارے پاس منصوبہ بندی بھی موجود ہے، الحمد اللہ ابھی بھی ان امور پر کام جاری و ساری ہے، لیکن مزید یکسوئی و بہترین انداز میں امور کو انجام دینگے۔ بہرحال راجہ صاحب کی اس احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے نتیجے میں حکومت نے کافی حد تک بہت سی باتوں کو مانا ہے، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضوں کے مسئلے کو بھی حکومت نے کہا ہے کہ اگر کوئی قبضہ ہوگیا ہے تو وہ چھڑا کر دینگے، خیبر پختونخوا کے حوالے سے میں پہلے عرض کرچکا ہوں، پنجاب کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بات چیت جاری ہے، کچھ باتوں پر ڈیڈ لاک باقی ہے، ان شاء اللہ اس حوالے سے بھی اچھی خبریں آئیں گی، بہرحال ہمارا کام ہے اپنی ذمہ داری ادا کرنا، میدان میں حاضر رہنا، اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں ترقی کرنا ہے، ہمیں دشمن کا راستہ روکنا ہے، یا ہمیں نقصان کو کم سے کم کرنا ہے، ان تمام حوالوں سے ہم میدان میں کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہینگے، پاکستان میں تشیع زندہ تھی، ہے اور رہیگی، عزاداری اور حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی تمام کوششوں کو ان شاء اللہ ناکام بناتے رہینگے، پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے ذریعے تکفیریت و وہابیت کو رائج کرنے کی سازشوں کو ناکام بناتے رہینگے۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی لہر ایک بار پھر عروج پر ہے، حال ہی میں انسانی حقوق کے علمبردار خرم ذکی کو کراچی میں شہید کردیا گیا اور ڈی آئی خان میں دو وکلاء آصف زیدی اور مرتضی زیدی، دو اساتذہ اختر حسین اور مختیار حسین کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اسی طرح کراچی سے لے کر پارا چنار تک دہشتگردی کے واقعات میں کئی بے گناہ مومنین کو شہید کر دیا گیا۔ پاکستان میں‌ جاری شیعہ نسل کشی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دو ہفتے پہلے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا جو آج تک جاری ہے، اس دوران علامہ راجہ ناصر کی اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں‌ مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں‌ کے رہنماؤں‌ نے ان سے ملاقات کی اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسی موضوع پر بات کرنے کے لیے شفقنا اردو کی ٹیم نے حجت الاسلام غلام حر شبیری سے رابطہ کیا اور آپ سے تفصلی بات کی۔ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے اور آپ پاکستان اور یورپ کی مقبول مذہبی شخصیت ہیں۔ اس حوالے سے جو بھی بات چیت ہوئی وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔   

سوال: علامہ صاحب پاکستان میں جاری شیعہ کلنگ اور علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کے حوالے سے کیا کہیں‌ گے؟

 
علامہ غلام حر شبیری: پاکستان میں اہل تشیع حضرات کو نہ صرف ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کے ساتھ بہت ساری دیگر ناانصافیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جیسے ان کی املاک پر قبضہ کیا جا رہا ہے، فعال مومنین کی گرفتاری اور ایم ڈبلیو ایم کے کارکنان کے گھروں‌ پر چھاپے اور ان سے پوچھ گچھ، عزاداری کو محدود کرنے کے لیے ایک باقاعدہ پروگرام بنایا جا چکا تھا، کئی علماء کے مختلف شہروں‌ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور انہیں‌ محدود کرنے کی کوشش کی گئی، یہ وہ تمام اقدامات ہیں جن کی وجہ سے علامہ راجہ ناصر عباس نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔ یعنی پاکستان میں حکومت کی طرف سے شیعہ دشمنی کے عنوان سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو درک کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس نے بر وقت قیام کا فیصلہ کیا۔

سوال: علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کو دو ہفتے ہو گئے ہیں، آپ کے خیال میں اس اقدام سے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

علامہ غلام حر شبیری: دیکھیں، بھوک ہڑتال کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ قوم بیدار ہوئی ہے اور لوگ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اٹھے ہیں۔ اس کی مثال ہم نے مخلتف شہروں‌ میں‌ علامتی بھوک ہڑتالوں اور یکجہتی کیپمس کی صورت میں دیکھی ہے۔

دوسرا اثر یہ ہوا کہ شیعہ کا یہ کیس ایک طرح سے قومی ایشو بن گیا ہے، یعنی جتنی بھی پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں ہیں انہوں نے آ گر ہمارے مطالبات کو سنا، سمجھا اور ان کی حمایت کا اعلان بھی کیا ۔ ہر پارٹی کے نمائندے نے اس کیمپ میں جانا اپنے لیے ضروری سمجھا۔ حال ہی میں‌ عمران خان نے اس کیمپ کا دورہ کیا اور اپنے صوبے میں حکومت کو ہمارے مطالبات حل کرنے کی ہدایت کی جو بذات خود بڑی خبر ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں‌ میں‌ اہل تشیع کے مسائل جس حد تک اجاگر ہوئے ہیں وہ شاید ہی پہلے کسی دور میں ہوئے ہوں گے۔ نیشنل میڈیا نے اس بھوک ہڑتالی کیمپ  کی تحریک کو موثر انداز میں دکھایا ہے۔ راجہ صاحب سے بہت سے لوگوں‌ نے کہا کہ آپ یہ چھوڑ دیں ہم آپ کے مطالبات اسمبلی میں اٹھائیں گے لیکن انہوں‌ نے کہا کہ جب تک یہ مطالبات عملی طور پر انجام ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے میں پیچھے نہیں‌ ہٹوں گا۔

تیسرا اثر یہ سامنے آیا کہ حکومتی سطح پر متعلقہ اداروں پر دباؤ بڑھا ہے کہ پاکستان میں شیعہ قوم کو کبھی بھی نظر انداز نہیں‌ کیا جا سکتا اور اگر ایسا کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج بر آمد ہوں گے۔

علامہ راجہ ناصر عباس کے اس اقدام کا چوتھا بڑا اثر یہ ہوا کہ قوم میں ایک وحدت کی فضا پھیلی ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ قوم نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ باوجود ظلم و زیادتی کے ہم قانون کو ہاتھ میں‌ لینے والے نہیں‌ ہیں اور اس کی عملی مثال یہ ہڑتالی کیمپ ہے جس میں ہم مہذب شہریوں کی طرح اپنے مطالبات کو لے کر پُر امن طریقے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔

غیر ملکی سطح پر اس تحریک سے زیادہ تعداد میں لوگ متاثر ہوئے اور ہم نے دیکھا کہ یورپ کے مختلف ممالک، امریکہ وغیرہ میں لوگوں نے پاکستانی ایمبیسی کے سامنے احتجاج کیا جو بہت بڑی کامیابی ہے۔

سوال: علامہ راجہ ناصر عباس کی طرف سے کون کون سے مطالبات پیش کئے گئے؟

 
علامہ غلام حر شبیری: سب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، ملوث افراد کی گرفتاری اور انہیں‌ کیفر کردار تک پہچایا جائے، جن لوگوں‌ کی اراضی قبضے میں ہے اس کو واپس کیا جائے، پارا چنار کے واقعے میں‌ ملوث ایف سی اہلکاروں کو معطل کیا جائے، اس کے علاوہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

سوال: پیش کئے مطالبات پر کسی ممبر نے اسمبلی میں بات کی؟

 
علامہ غلام حر شبیری: وفاقی حکومت نے چند افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جو مجلس کی ٹیم سے ملکر مطالبات کی فہرست پر غور کرے گی، کے پی کے حکومت نے باقاعدہ مذاکرات کیے ہیں، اور مطالبات کے حل کے لیے ایک آرڈینینس بھی جاری کر دیا ہے۔

سوال: سنی علماء کی بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت اور ان کی علامہ راجہ ناصر عباس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

 
علامہ غلام حر شبیری: یہ بہت اہم بات ہے، اس سے قومی سطح پر وحدت کی فضا بنی ہے اور جو لوگ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو شیعہ سنی مسئلہ بنا کر پیش کر رہے تھے ان کے لئے ایک واضح پیغام گیا ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں‌ اور پاکستان میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں‌ ہے۔ راجہ ناصر صاحب روز اول سے سنی علماء کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، ان کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔

سوال: پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی پر ایک عام شیعہ کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

 
علامہ غلام حر شبیری: یہ ایک نازک مرحلہ ہے، اس وقت جتنے بھی شیعہ ہیں چاہے وہ پاکستان میں آباد ہوں‌ یا پاکستان سے باہر، ان سب کو چائیے کہ وہ اس تحریک کی حمایت کا اعلان کریں، چونکہ یہ تحریک ان کے مطالبات کے حصول میں آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انے والے وقت میں پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر انہوں نے اس وقت قیام نہ کیا تو وہ اپنے ہی ملک میں مشکلات میں پھنسے رہیں گے۔

اس کے علاوہ تمام شیعہ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر گروہی اختلافات کو ختم کر کے متحد ہو جائیں اور اس تحریک میں شامل ہوں‌ تا کہ حکومت وقت کے سامنے مضبوط تر ہو کر اپنا کیس لڑا جا سکے۔

سوال: علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کو دو ہفتے ہو گئے ہیں، آخری بار جب اپکی ان سے بات ہوئی تو انہوں نے آپ سے کیا کہا؟

 
علامہ غلام حر شبیری: اصل میں علامہ راجہ ناصر بہت ہی مضبوط عقیدہ رکھنے والے اور جرات مند شخص ہیں۔ اور ہم سب کو پتہ ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے عہد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں‌ ہیں۔ اس وقت وہ انتہائی پُر عزم ہیں‌ اور اپنے مطالبات کے حل تک وہ پیچھے نہیں‌ ہٹیں‌ گے۔ اگرچہ بہت سارے دوستوں نے علامہ صاحب سے اس سلسلے میں تجدید نظر کی گزارش کی لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیں اور میرے لیے دعا کریں کہ خدا مجھے اس قوم پر قربانی کی توفیق دے۔

سوال: مجلس علماء شیعہ یورپ کی جانب اس سلسلے میں کوئی بیان سامنے آیا ہے؟
علامہ غلام حر شبیری: اس حوالے سے شروع میں ایک بیان سامنے آیا تھا، اس کے علاوہ علماء انفرادی طور پر جہاں بھی ہیں ان کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔ لندن میں ہم نے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا تھا جس کا عنوان بھی یہی تھا، علماء نے اس مظاہرے میں تقاریر کیں اور ہمارا تنہا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت وہاں جلد از جلد ہڑتالی کیمپ میں جاکر ان کے مطالبات سنے۔

سوال: ہڑتالی کیمپ کے بعد حکومتی رویے سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟

 
علامہ غلام حر شبیری: دیکھیں‌، حکومت اس وقت خود اپنے ذاتی مسائل میں گھری ہوئی ہے، اور ان پر اس حوالے سے بہت زیادہ پریشر ہے اور اسی وجہ سے حکومت کی کوشش ہے کہ ہمارے مسئلے کو قومی اہمیت نہ ملے۔ علاوہ ازیں‌ یہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے مہینے کی 2 تاریخ کو سینٹ کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا جائے گا۔

سوال: پاکستان کے مختلف علاقوں‌ میں‌ اظہار یکجہتی کے لیے علامتی بھوک ہڑتالوں‌ کا سلسلہ بھی جاری ہے، ان تمام کاوشوں کا انجام کیا دیکھ رہے ہیں؟

 
علامہ غلام حر شبیری: ہمارا یقین ہے کہ اس طرح کے تحریکی کاموں اور لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والوں‌ کے ساتھ خدا کی مدد شاملِ حال رہتی ہے، امید کی جاتی ہے کہ اس وقت شیعہ قوم کے جو مطالبات علامہ راجہ ناصر نے پیش کیے ہیں ان کو سنا جائے گا اور راجہ صاحب باعزت طریقے سے اس تحرک کو انجام تک پہنچائیں گے، اور یہ اقدامات بہت نتیجہ خیز ہوں گے۔ لیکن جب میں‌ علامہ صاحب سے بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں‌ کہ ہمیں نتیجے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہمیں‌ اپنا وضیفہ انجام دینا ہے اور اگر انجامِ وضیفہ انسان کی غرض ہو تو نتیجے کی پرواہ کیسی؟!

سوال: بیرون ملک آباد پاکستانیوں کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

 
علامہ غلام حر شبیری: ہماری ان سے اپیل ہے کہ وہ حالات سے اگاہ رہیں، مختلف جگہوں پر اپنی آواز بلند کریں، اپنے سفارت خانوں تک اپنا پیغام پہنچائیں، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں تک اپنی آواز پہنچا کر احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ پاکستان میں شیعہ کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ بند ہو سکے۔

بشکریہ، شفقنا اردو

وحدت نیوز (بیروت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسن شیرازی نے بیروت میں حزب اللہ کے عالمی عربی چینل المنار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکمرانوں اور اداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے قائد وحدت نے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے اور ہمارے مطالبات وہ ہیں جو ہر پاکستانی کے مطالبات ہیں، کیونکہ ہم کسی طبقہ یا گروہ کے لئے آواز نہیں اٹھا رہے بلکہ ہم ان تمام مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کے لئے اٹھے ہیں، جن کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، جن کا قتل عام کیا جار ہا ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے اس انٹرویو میں سربراہ امور خارجہ نے بھوک ہڑتال سے پیدا ہونے والی عالمی بیداری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا کے مختلف ممالک میں قائد وحدت سے اظہار یکجہتی کے لئے پاکستانی کمیونییٹیز نکل کھڑی ہوئی ہیں اور بالآخر ان ظالم حکمرانوں کو ہمارے مطالبات ماننے پڑیں گے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماعلامہ امین شہیدی نے کہاہے کہ گلگت بلتستان کوآئینی حقوق نہ دیئے گئے توعلیحدگی پسندتحریکوں کو تقویت ملے گی،ایک روزنامے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت گلگت بلتستان کے بارے میں غافل نہیں بھارت جتنا گلگت بلتستان کےاشوزکو اٹھا تا ہے،پاکستان نہیں اٹھاتا، انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام گذشتہ سڑسٹھ سالوں سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں ،یہ احساس محرومی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے،گلگت بلتستان کو متنازعہ حیثیت کی وجہ سے اگر مکمل آئینی صوبہ نہیں بنایا جاسکتا تو پھرحکومت پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کووہ  حقوق دے جو بھارت نے مقبوضہ کشمیرکے عوام کو دیئے ہیں،مقبوضہ کشمیر کے عوام کو لوک سبھا اور راج سبھا میں نمائندگی دی ہوئی ہے، حالانکہ کے مقبوضہ کشمیربھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت متنازعہ ہے، انہوں نے کہا کہ جب تک اقوام متحدہ اپنا فیصلہ نہیں دیتااس وقت تک گلگت بلتستان کو بھی مقبوضہ کشمیر طرزکے حقوق دیئے جائیں ،سینٹ ،قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے،آئینی حقوق نہ دینا اور اس معاملے کو طول دینا خود مسلم لیگ نواز اورریاست پاکستان کے لئے بھی نقصان دہ ہے،وزیر اعظم میاں نواز شریف نے الیکشن میں آئینی حقوق کے وعدے کیئے اب ان کا فرض ہے کہ وہ ان پر عمل کریں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)علامہ محمد امین شہیدی کا شمار پاکستان کے جید، معتبر اور چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے، ان کا تعلق گلگت سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف اسلامی کی ترویج کے لئے تشکیل دیا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال پر اسلام ٹائمز نے ان سے ایک تفصیلی اور اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

 

سوال: 34 ممالک کے اتحاد کے بعد چوتھی دفعہ آرمی چیف اور وزیراعظم سعودی عرب جا رہے ہیں، اُنہیں یہ کس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، آپ جب دنیا کو گلوبل ولیج کہتے ہیں تو ہر گائوں اور ویلیج کا ایک چوہدری بھی ہوتا ہے اور چوہدری کی اجازت کے ساتھ اس گائوں میں ہر کام انجام پاتا ہے، زمینوں پر ہل بھی چلتا ہے، میلے بھی لگتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ ادارے بنتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ نمازیں پڑھی جاتی ہیں، چوہدری کی دشمنی اور دوستی ہی گائوں والوں کی دوستی اور دشمنی کا معیار بن جاتی ہیں، دنیا کا اس وقت چوہدری امریکا ہے اور امریکی پالیسز کے نتیجے میں آپ مشرق وسطٰی میں لاکھوں لوگوں کا خون خرابہ دیکھ رہے ہیں، یہ اسی پالیسی کا حصہ ہے، تھڑد ورلڈ میں جتنے بھی ممالک ہیں وہ اسی پالیسی پر کاربند ہیں، اس لئے کہ اس پالیسی سے نکل کر یہ اپنی حیات کھو دیتے ہیں، ان کی مشکل یہ ہے کہ اگر یہ اس پالیسی کے دائرے سے نکلنا چاہیں تو ان کو موت نظر آتی ہے، ہمارا سسٹم اور پورا ملک اس وقت ورلڈ بنک کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، آپ اس لئے ورلڈ بنک کو، اقوام متحدہ کو اور جو امریکی شرائط ہیں، ان شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے انٹرنل اور ایکسٹرنل پالیسی بناتے ہیں۔ یہ جو 34 ممالک کی یا اس وقت 20 ممالک کی بات چیت چل رہی ہے، شروع میں جس طرح سے تنقیدیں بھی ہوئیں اور پھر اس کو بعض لوگوں نے سراہا بھی، لیکن سعودیوں نے کیا کہا۔؟ سعودیوں نے کہا کہ اگر امریکی ہماری کمان سنبھالیں گے تو پھر ہم میدان جنگ میں اتریں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلے سے ایسا منصوبہ ہے کہ جس میں امریکہ پیٹھ پیچھے موجود ہے، سعودیوں نے انہی کے کہنے پر اسرائیلیوں کی منصوبہ بندی کے تحت یہ پروگرام شروع کیا، جس کے ویڈیو ثبوت اسرائیلی تھنک ٹینکس کے اعتراف کی صورت میں موجود ہے اور گویا امریکیوں کو یہ دعوت دی، اپنی طرف سے دی، جبکہ یہ پروگرام امریکیوں کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جب پروگرام اور منصوبہ امریکیوں کا ہوگا تو اس سے نواز شریف صاحب مثتنیٰ نہیں ہیں۔

نواز شریف صاحب نے گذشتہ اپنے تین سال میں جو قرضے لئے ہیں، آپ اس کی مقدار دیکھ لیں، یہ مقدار زرداری کے دور اور اس سے پچھلے دور کی نسبت بہت زیادہ ہے اور اتنا سارا قرضہ ان کو کس بنیاد پر مل رہا ہے؟ اس بنیاد پر کہ یہ امریکی پالیسیوں کے سامنے پوری طرح سے سر تسلیم خم ہیں، لہٰذا کسی ایسے اتحاد میں ان کا شامل ہونا ان کی اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس امریکی اور اسرائیلی پالیسی کے مطابق ہے، جس سے یہ نکل نہیں سکتے۔ اگرچہ انہوں نے اعلان تو کیا ہے کہ یہ کسی ایسی جنگ میں نہیں کودیں گے، لیکن اس وقت جو ہمارے سامنے چیزیں ہیں، اس کے مطابق لگتا یہ ہے کہ داعش کے متبادل کے طور پر ان کے زیر قبضہ علاقوں میں یہ خود جائیں گے، جن جن علاقوں میں داعش کا قبضہ تھا، ان علاقوں میں روس کے حملوں، ایرانیوں کی مقاومت، حزب اللہ، بشار الاسد، عراقی فورسز نے ملکر داعش کا صفایا کیا ہے۔ اب طاقت کا توازن اس پورے خطے کے اندر بگڑ چکا ہے، اب وہ والی صورتحال نہیں رہی جو تین سال پہلے تھی، اب جب ٹیبل پر مذاکرات کیلئے بیٹھتے ہیں تو سعودیوں کے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے، جس کی بنیاد پر وہ سودا بازی اور بارگین کرسکیں، اس لئے کہ مسلسل جو یہ دہشت گرد قوتیں تھیں، ان کو سعودیوں اور امریکیوں نے پروموٹ کیا تھا اور اب بھی ان کو اسلحہ دے رہے ہیں، ان دہشت گردوں یعنی داعش اور النصرہ وغیرہ کے پاس اب زمین نہیں رہی، جب زمین نہیں رہی تو پھر بارگیننگ کس بات پر؟

آپ مسلسل سن رہے ہیں کہ داعش اور اس طرح کے دیگر گروپس مثلاً النصرہ وغیرہ وغیرہ ہیں، ان کے خلاف جس طرح کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس کے نتیجے میں ہر روز ان کو پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے، اس پسپائی کے نتیجے میں خود امریکیوں کی اس خطے میں گرفت کمزور پڑ رہی ہے، سعودی جس ہدف کے تحت آئے تھے، ان کا وہ ہدف کمزور پڑ رہا ہے، جو گذشتہ دنوں مذاکرات ہوئے تو ان مذاکرات میں سعودیوں کے پاس بولنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا، جو داعش اور ان کی نمائندہ کونسل کے لوگ تھے، وہ میٹنگ سے اٹھ کر آگئے کیونکہ ان پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا اب یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کرلیں، آپ نے سنا ہوگا کہ یمن میں وہ مسلسل ایک سال سے بمباری کر رہے ہیں اور ادھر انہوں نے حوثیوں سے مذکرات شروع کر دیے ہیں اور یہ مذاکرات پس پردہ ہیں، پہلے تو وہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک سال مسلسل بمباری کی، 28000 بے گناہ لوگوں کو قتل کیا، یمنی عوام کے پورے انفراسٹریکچر کو تباہ کر دیا، ہسپتالوں کو تباہ کر دیا، تعلیمی اداروں کو تباہ کر دیا، بازاروں کو تباہ کر دیا، یعنی وہ جو سوشل چیزیں ہیں جن سے عام عوام فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کو تباہ کرکے مرد و زن، بچوں، بوڑھوں کو خون میں لت پت کر دیا، یمنی مظلوم عوام کو تباہ و برباد کرنے کے بعد آخر کار ان کے حصے میں صرف اور صرف ذلت آئی، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اب وہ مجبوراً حوثیوں سے مذکرات کرنے چلے گئے ہیں، جبکہ پہلے یہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، یعنی مجموعی طور پر ان کی پالیسز جو اس خطے کے اندر تھیں، اس پالیسی میں ان کو عراق، شام اور یمن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور لبنان میں تو وہ پہلے ہی شکست خوردہ ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ انہوں نے پہلے لبنانی فوج کو اربوں ڈالر اور اسلحہ کی مدد دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد کہا کہ لبنانی حکومت، فوج اور لبنانی ریاست حزب اللہ کی تقویت کا باعث ہیں، اس لئے ان کو ہم مدد نہیں دیں گے، جب تک یہ حزب اللہ کو دہشت گرد ڈکلیئر نہیں کرتے۔ یعنی حزب اللہ جس نے لبنان کو بچایا ہے، وہ دہشت گرد ہیں اور داعش جن کو انہوں نے Create کیا وہ ان کے ہیروز ہیں، اس صورتحال میں انہوں نے ابھی جو جنگی مشقیں کی ہیں، اس پر جتنا پیسہ خرچ کیا، وہ بھی آپ کے سامنے ہیں، ان کی اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ لہٰذا یہ ایک ایسے راہ حل کی تلاش میں ہیں، جس میں ان کی عزت بچ سکے اور کسی طرح سیاسی صورتحال میں وہ اس مقاومتی بلاک کے مقابلے میں ایک بارگیننگ پوزیشن حاصل کرسکیں، اس لئے یہ مذاکرات اور کانفرنسز کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو اللہ کیلئے کام ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے، جو ابلیس کیلئے ہوتا ہے بظاہر اس کا دب دبہ، اس کا شور شرابا نظر آتا ہے لیکن بہت کم عرصے میں اس کی ہوا نکل جاتی ہے اور سعودیوں، امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ یہی ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ دیکھ لیں کہ ان کی قسمت میں مزید ذلت و رسوائی آئے گی، فائدہ ان کو نہیں ملے گا اور خطے میں ان کے جو تمام اہداف ہیں، ان میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال: انٹیلی جنس بیورو کے چیف کا ایک بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ شام گئے ہیں، داعش میں شامل ہوئے، اسی طرح انٹیلی اداروں نے یہاں سے داعش کیلئے کام کرنیوالے لوگ بھی پکڑے، لیکن چوہدری نثار داعش کا وجود نہیں مانتے، بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھ بند کر لینے جیسا معاملہ تو نہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: حقیقت یہ ہے کہ انٹرنلی چوہدری نثار کو پتہ ہے، فوج کو بھی بہت اچھی طرح پتہ ہے، باقی ایجنسیوں کو بھی بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ داعش پاکستان میں کہاں کہاں موجود ہے۔ داعش اگر آپ عربوں کو کہتے ہیں تو پاکستان میں عرب نہیں ہیں، داعش اگر اس فکر اور سوچ کو کہتے ہیں تو وہ فکر اور سوچ ہے، وہ لشکر جھنگوی کی صورت میں موجود ہے، سپاہ صحابہ کی صورت میں ہے، طالبان کی صورت میں ہے، القاعدہ کی صورت میں ہے، حزب التحریر کی صورت میں ہیں، ان گروپس نے بڑے بڑے دھماکے کئے ہیں اور انہی گروپوں کے لوگ ان دہشت گردوں اور گروپوں میں شامل تھے، چاہے وہ اغوا ہو، چاہے وہ خودکش حملے ہوں، چاہے وہ کار بم بلاسٹ وغیرہ ہوں، ابھی شبقدر میں دھماکہ ہوا ہے، کس نے کیا؟ طالبان نے، اور انہوں نے بیان کیا دیا؟ کہ ہم نے ممتاز قادری کا بدلہ لیا ہے، اب آپ دیکھ لیں کہ کہاں کہاں وہ مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا ممتاز قادری کو Follow کرنے والے دہشت گرد ہیں؟ جو آپ اسی طرح کی دہشت گردی ذریعے سے بے گناہ انسانوں کو مار کر بیلنس کرنے کی کوشش کریں، ظاہر ہے کہ مقصد ایکسپلائٹ اور سوء استفادہ کرنا ہے، اس معاشرے کے اندر ایسے لوگ ابن الوقت تخریبی ذہن رکھنے والے، تفرقہ سے سوء استفادہ کرنے والے بہت موجود ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا پورا خطہ شدت پسندی کے خطرے میں ہے، اس لئے کہ داعش خود اسلام آباد میں موجود ہے، اگر یہ بیان غلط تھا تو بتا دیں، کیوں دیا تھا، اگر صحیح تھا تو پھر آپ انکار نہ کریں، اس وقت جو انکار ہو رہا ہے، وہ صرف اور صرف عوامی پریشر سے بچنے اور لوگوں کو تسلی دینے کیلئے ہے، کہیں کوئی پریشانی شروع نہ ہوجائے، لیکن اندرون خانہ خوفزدہ تو ہیں، کارروائیاں بھی کر رہے ہیں اور جو اس وقت تک آپریشن ہوئے ہیں، وہ کس کے خلاف ہوئے ہیں؟ انہی گروپوں کے خلاف ہوئے ہیں اور مختلف جگہوں پر آپریشن ہو رہے ہیں۔

دہشت گرد موجود ہیں تو آپریشن ہو رہے ہیں، آئے دن گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ان کا وجود ہے تو گرفتاریاں ہو رہی ہیں، وہ لوگ جو طالبان سے منحرف ہوچکے ہیں، طالبان کو جنہوں نے چھوڑ دیا وہ داعش میں شامل ہو رہے ہیں اور ان لوکل داعشیوں کی سرپرستی کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو پہلے طالبان اور دیگر شدت پسندوں کی سرپرستی کرتے تھے، لشکر جھنگوی والے داعش کے Right Hand کے طور پر ہیں، ریاستی اداروں نے ملک اسحاق اور اس کی پوری ٹیم کو کیوں مارا؟ اس لئے کہ اس نے اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر داعش کے پراجیکٹ کو پاکستان کے اندر لانچ کرنا شروع کر دیا تھا، اس لئے آپ نے اس کو مارا ہے، اس لئے کہ آپ کو داعش نظر آرہی تھی، لہٰذا انکار کرنا اور بیان بازیاں کرنا یہ ایک الگ بات ہے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ مختلف شہروں میں وہ موجود ہیں اور ریاست ان داعشی اور لشکر والے دہشت گردوں سیے برسرِ پیکار ہے، لیکن کس حد تک سنجیدگی ہے، یہ ایک الگ سوال ہے، اس پر دو آراء ہوسکتیں ہیں، دو آراء موجود ہیں کہ سنجیدگی ہوتی تو فلاں فلاں جگہ آپ نے کیوں نہیں قدم اٹھایا، بعض جگہوں پر واقعی انہوں نے سنجیدگی سے قدم اٹھایا اور بعض جگہوں پر انہوں نے سنجیدگی سے قدم نہیں اٹھایا، یعنی اب بھی Pcik & Choose ہے، Pick & Choose کا سلسلہ ختم ہوجائے تو داعش کا وجود بھی ختم ہوجائیگا۔ لیکن اس سے مقابلے کیلئے جہاں پر فورسز کو میدان میں آنا ہے، وہیں پر امت مسلمہ کو بھی اتحاد کے ساتھ، اتفاق کے ساتھ اپنے مشترکہ دشمن کی شناخت کرتے ہوئے میدان میں آنا چاہیے، ورنہ داعش کی جو فکر اور سوچ ہے وہ نہ سنی کو چھوڑتی ہے، نہ شیعہ کو چھوڑتی ہے، وہ ہر اس قوت کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں، جو ان کے مفادات کی راہ میں حائل ہوں، ان کی آئیڈیالوجی ایک بحث ہے، لیکن ان کے مادی مفادات دوسری بحث ہے، جب وہ اپنے ہی لوگوں کو پنجاب میں مار کر شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دے سکتے ہیں، جیسے پچھلے سال ہوا اور وہ سارا گینگ پکڑا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ دین و ایمان نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے، وہ آئیڈیالوجی کو بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا ہمیں اس حوالے سے متوجہ اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔

سوال : آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی تھے، قوانین پر آپکی نظر ہوگی، تحفظ خواتین ایکٹ پر بہت شور شرابا مچا ہوا ہے، اسکی کونسی شقیں ہیں، جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کو سفارشات بھیجنی چاہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: میں اس ایشو پر 7 سے 8 ٹی وی چینلز پر بات کرچکا ہوں اور بالکل واضح طور پر موقف دیا ہے کہ اس کو شرعی متنازعہ مسئلے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس قانون سازی کا تعلق شریعت سے کم اور سماج، سماجی رویوں، کلچر، تہذیب اور لوگوں کے رہن سہن کے طور طریقوں سے زیادہ ہے، شریعت عورت اور مرد کو مساوی حقوق دیتی ہے، شریعت نے عورت اور مرد کو شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت دی ہے، شریعت نے بعض مخصوص موضوعات اور حالات کے علاوہ عورت کو ایک آزاد فرد کی حیثیت سے قبول کیا اور مرد کو بھی کوئی اجازت نہیں دی کہ عورت کی اس آزادی کو صلب کرے، میاں بیوی کے رشتے میں شوہر کی اجازت اور باہمی تعلق اور رضا مندی کے نتیجے میں عورت ہر جائز اور قانونی کام کرنے میں آزاد ہے، جو اس کی حرمت، اس کی حیا اور اس کے مقام سے متصادم نہ ہو، عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے، پاکستان میں چونکہ مخصوص کلچر کا مسئلہ ہے، یہ کلچر ہندوئوں سے متاثر ہے۔ یہاں پر عورت کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے، شریعت کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے کلچر کی وجہ سے، بھارت میں اگر ایک عورت کا شوہر مر جاتا ہے اور وہ دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے تو طوفان اٹھ جاتا ہے، کیوں؟ وہاں کے ہندوانہ کلچر کی وجہ سے ہے، پاکستان میں بھی خواتین کو اسی طرح کے کلچرل مسائل کا سامنا ہے، ان کلچرل مسائل، ناانصافیوں اور مظالم سے عورت کو بچانا مرد کی بھی ذمہ داری ہے، عورت کی بھی ذمہ داری ہے اور ریاست کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو قانون سازی ہوئی، اس قانون سازی کو مذہب کیخلاف کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ جب قانون سازی کی بات شروع ہوئی اور تو کیا کسی نے بھی یہ سوال کیا کہ یہ قانون آپ کے سماجی رویوں کے خلاف ہے۔۔۔؟

اس کے نتیجے میں سماج میں، معاشرے میں فلاں فلاں خرابیاں پیدا ہوں گی تو اس قانون سازی کے سماجی اور تہذیبی اثرات کو زیر بحث لانے کی بجائے فوراً شریعت سے متصادم قرار دیا گیا اور پھر شریعت کے خلاف ایک طوفان اٹھایا گیا، کیونکہ مذہب کو نشانہ بنانا مغرب کا ایجنڈا ہے، اس ایجنڈے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی یہ قانون سازی دراصل مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جب بھی موقع ملتا ہے، کسی بھی بہانے سے شریعت اور پاکستانیوں کی قانون سازی نہیں بلکہ مغربی استمار کے ایجنڈے کا حصہ ہے، میں یہ بات تمام چینلز پر کہہ چکا ہوں کہ یہ پاکستان کا ایجنڈا نہیں ہے، یہ ایجنڈا امریکی وزارت دفاع کا ایجنڈا ہے۔ ہنری کسینجر اور برزنسکی جمع ہوئے 9/11 کے بعد امریکن تھنک ٹینک کے 53 لوگوں کو انہوں نے جمع کیا، انہوں نے یہ منصوبہ بندی کی کہ ہمیں اسلام سے لڑنے کیلئے کن کن میدانوں میں کس طرح سے کام کرنا چاہیے، اس حوالے سے تھرڈ ورلڈ کیلئے ایک کمیٹی بنی، اس کمیٹی کا چیف ذلمے خلیل زاد ہیں، جو افغانستان میں پہلے امریکی سفیر تھا، بعد میں عراق میں امریکن سفیر بنا اور اس کی بیوی اس ٹیم کی کوآرڈینٹر ہے، اس کے ساتھ بارہ افراد کی ایک ٹیم تھی، انہوں نے بارہ پوائنٹ طے کئے، جن کے ذریعے سے اسلامی دنیا سے ان کی اسلامی حمیت اور روح کو چھینا جا سکتا ہے اور In the long term مسلمانوں کو مسلمان رکھتے ہوئے مغربی ذہن کا حامل بنایا جاسکتا ہے، اس پر انہوں نے منصوبہ بندی کی، اس میں تعلیم، نظام تعلیم، نصاب تعلیم، کلچر، میڈیا، فلاح اور رفاہ عامہ کے بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں، جس کا ایک مظہر US AID کی صورت میں اس وقت فعال ہے، جس کا ایک مظہر ترکی سیلابی علاقوں میں امداد کی صورت میں ہے، پیسہ امریکیوں کا ہے اور چہرہ ترکیوں کا ہے۔

عراق میں جو کچھ ہوا، یہ سب اس منصوبے کا حصہ ہے، اس میں سے ایک چیز انسانی حقوق کا چہرہ ہے، اس میں سے ایک عنوان تعلیم ہے، اس میں سے ایک عنوان حقوق زن۔ اس پر انہوں نے عورت کو آزادی دلانیکے نام پر تیسری دنیا میں قانون سازی کا کام کیا، عورت کی آزادی کا اسلامی تصور اور ہے، مغربی تصور اور ہے، اسلام میں عورت کی آزادی کا تصور اس کی معاشرتی زندگی میں ولی کی رضا مندی کے ساتھ ہر کام کی مکمل آزادی سمیت عورت کی عزت و حرمت کی پاسداری ہے، اس کے حیاء کی پاسداری ہے، اس کی عزت نفس کی پاسداری ہے، اس کے لئے حدود و قیود جو اللہ نے بیان کئے ہیں، ان حدود و قیود میں اس کی تربیت بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایسا کردار ادا کرسکے جو ایک عورت کا معاشرے اور گھر کے اندر ہوسکتا ہے، مغرب کی نگاہ میں عورت کی آزادی کیا ہے کہ اس کے کپڑے اتار دو، اس کو بکنے والی چیز بنا دو، اس کو نمائش کا ذریعہ بنا دو، اس کو ہر اس جگہ استعمال کرو، جہاں پر کوئی چیز نہیں بکتی عورت کے بدن کی نمائش کے طور پر اس کو بیچ دو، یہ ہے عورت کی مغربی آزادی۔ اس آزادی کو تھرڈ ورلڈ میں پروموٹ کرنے کیلئے انہوں نے جو یہ منصوبہ بنایا ہے، اس منصوبے میں ورلڈ بنک، چونکہ امریکیوں کے تابع ہے اس لئے اس کو بھی شامل کیا گیا ہے، لہٰذا اب اگر کوئی تھرڈ ورلڈ کا ملک قرض لینا چاہے، ورلڈ بنک سے تو ورلڈ بنک کی شرائط کیا ہوتی ہیں؟ پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ تعلیم کے نظام میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، دوسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ نصاب میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، تیسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ انسانی حقوق کیلئے فلاں فلاں کام کریں گے، چوتھی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ حقوق نسواں کیلئے فلاں فلاں قانون سازیاں کریں گے۔

یہ ان شرائط میں سے ایک شرط ہے، جس پر ہماری پنجاب حکومت نے آنکھ بند کرکے عمل کیا، ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اس قانون سازی کے نتیجے میں مستقبل میں پاکستان کے اندر خاندانوں کی اکائی کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے، لہٰذا اس کا براہ راست تعلق اسلام سے کم اور آپ کے کلچر اور آپ کی علاقائی تہذیب و ثقافت سے بہت زیادہ ہے، آپ کی علاقائی تہذیب اور آپ کا کلچر اس مغربی کلچر کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا، جس میں آپ اس طرح کے قوانین پاس کرتے ہیں، اس قانون کی شقیں پڑھیں، میں ان شقوں کو چار دفعہ پڑھ چکا ہوں، یورپ کے اندر اگر بچے کو باپ ڈانٹتا ہے تو وہ ایک نمبر ملاتا ہے، پولیس آتی ہے اور باپ کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے، کیا یہاں پر آپ اس کلچر کے متحمل ہیں؟ اس طرح کی قانون سازی کے نتیجے میں اس کلچر کو پروموٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوگا، بے راہ روی، فحاشی، مادر پدر آزاد معاشرہ کی تشکیل اور عورت کا آزادی کے نام پر گھر کی نسبت باہر زیادہ رہنا اور اگر بھائی، باپ، شوہر یا بیٹا اعتراض کرنا چاہے تو سیدھا جیل جائے، یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے آپ اپنی تہذیبی روایات کا اپنے ہی ہاتھوں سے گلا گھونٹتے ہیں۔ لہٰذا اس قانون کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا، قانون کو معاشرے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے بنانا چاہیے، قانون ایسا ہونا چاہیے جو عورت کے تمام شرعی اور قرآنی حقوق کی حفاظت کرے، ظلم و ستم سے اسے محفوظ رکھ سکے، معاشرتی جاہلانہ روایات کی بھینٹ چڑھنے سے عورت کو مکمل طور پر بچائے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی پاکدامنی، عفت، عزت و حرمت کی پاسبان بھی ہو اور عورت کو معاشرے میں قابل فروخت ’’چیز‘‘ کی بجائے باوقار اور سربلند انسان بننے میں مدد دے۔

Page 4 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree