وحدت نیوز (کوئٹہ) ۲۸ویں سالانہ وحدت اسلامی کانفرنس کے موقع پرتہران میں ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ اسلام دشمن سامراجی قوتیں مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور انتشار کو ہوا دے رہی ہیں۔امت مسلمہ متحد ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو نا کام بنائے، عالمی استعماری قوتیں تکفیریت کو امت مسلمہ کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہی ہیں ، ایست حالات میں فوط وحدت ہی امت مسلمہ کا بہترین ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے، شام اور عراق میں شکست کھانے کے بعد پاکستان عالمی تکفیریت اگلا ہدف ہے، جہاں پہلے سے ان کیلئے زمینہ سازی کی جاچکی ہے، در ین اثناء علامہ مقصود علی ڈومکی نے دنیائے اسلام کے ممتاز شخصیات سے ملاقات کی۔

وحدت نیوز (لبنان)  پریس ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی نے کہاہےکہ اربعین پرکروڑوں لوگوں کا جمع ہونا محسن انسانیت امام حسین ؑ سے عشق و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، ہر طبقہ فکر اور ذی شعور انسان سید الشہداء سے عقیدت رکھتا ہےاورانہوں نے  اپنی محبت و عقیدت کا اظہار چہلم امام حسین ؑ پر دے دیا ہے۔

 

صحافی کا اربعین پر کروڑوں لوگوں کا عراق کی طرف آنا اور داعش کے خطرے پر سوال کے جواب میں ڈاکٹرعلامہ شفقت شیرازی نے کہاکہ داعش کی غلط فہمی ہے کہ لوگ ان سے خوف زدہ ہیں یہ تو روایت رہی ہے کہ امام حسین ؑ کے دشمنوں نے ہر دور میں کوشش کی ہے کہ لوگ کربلا سے درس لینے کے لئے زیارت پر نہ آئیں اور لوگ درس حریت اور ظلم کے خلاف قیام کا درس نہ لیں ۔ کیونکہ کربلا انسانیت کو مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف قیام کا راستہ دکھاتی ہے۔ لہذا آج اگر داعش لوگوں کو ہراساں کر کے روکنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ مومنین کربلا نہ آئیں اور پاکستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کی طرف سے تفتان بارڈر پر مومنین پر حملوں اور مومنین کو حکومت کی طرف سے کوئی خاطر خواہ سکیورٹی نہ ملنے کے باوجود لوگوں کے بڑے بڑے قافلے عازم سفر کربلا ہوئے ہیں جو کہ دہشت گردوں کے نام پیغام ہیں کہ ہم جھکنے والے نہیں بکنے والے نہیں ۔ اور مومنین جناب فاطمہ زہراؑ اور اہلبیت علیہم السلام کو پرسہ دینے کے پیدل جوق در جوق زیارت امام حسین ؑ کے لئے نکل پڑے ہیں۔

 

پاکستان کے اندر سیاسی تحرک اور آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے سوال پر انہوں نے واضح فرمایا کہ پاکستان کے اندر کرپشن زدہ حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی ۔ کیونکہ اس کی بنیاد ایک منظم دھاندلی پر رکھی گئی ہے اور جس کا بار ہا اظہار اپوزیشن اور خود وزیر داخلہ نے بھی پارلیمنٹ کے اندر کیا ہے۔ اور حکومت کا متعصابہ رویہ اوراپوزیشن کے لوگوں پر ظلم و تشدد سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنی دھاندلی اور زیادتی کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔حالیہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے شرکاء پر مختلف موقعوں پر تشدد اور بالخصوص فیصل آباد کے اندر تحریک انصاف کے کارکنا ن پر حملہ اور کچھ کارکنا ن کی شہادت اور زخمی ہونے والے کارکنان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور یہ خون ضرور ان ظالمین کو نیست و نابود کرے گا۔ اور فتح مظلومین کی ہوگی اور ظالم مٹ کر رہے گا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تربیت علامہ سید احمد اقبال رضوی نے ”اسلام ٹائمز“ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم عمامے والے علماء اہل سنت کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ خود دشمنان اسلام و پاکستان کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ تکفیری قوتیں اس مارچ کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، ان کو شیعہ سنی اتحاد اچھا نہیں لگ رہاانہوں نے اپنے انٹر ویومیں مذید کہا کہ پاکستان میں گذشتہ تیس پینتیس سالوں سے ان قوتوں کا غلبہ تھا جو پاکستان بننے کی مخالف رہی ہیں۔ وہ طبقہ جس نے پاکستان کو بنایا تھا، اسے پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے آہستہ آہستہ ہٹا دیا گیا اور اس طرح ملکی سیاسی توازن کو بگاڑا گیا۔ دہشت گردی، تشدد اور تکفیری افکار کی حامل قوتوں کو آہستہ آہستہ اوپر لایا گیا۔ طاہرالقادری، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کی جماعتوں کا مارچ میں اکٹھے ہونا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بہت بڑا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ان معتدل قوتوں کی جانب لوٹ رہا ہے جو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں، پاکستان فوج کے حامی ہیں، جنہوں نے کبھی بھی پاکستان فوج اور ریاست کے ساتھ بغاوت نہیں کی۔ لیکن پاکستان میں ایسی قوتیں جو ملکی دفاع کی ضامن پاک فوج کے جوانوں کو شہید کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ قوتیں جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا، ان دہشت گردوں کو یہ طبقہ شہید سمجھتا ہے۔ طاہرالقادری اور دیگر شیعہ سنی جماعتوں کی پارٹنرشپ سے اس تکفیری مائنڈ سیٹ کا غلبہ ختم ہو رہا ہے۔ تکفیری قوتیں اس مارچ کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، ان کو شیعہ سنی اتحاد اچھا نہیں لگ رہا، جیسا کہ آپ نے بھی کہا کہ اس مارچ کا سب سے بڑا نتیجہ شیعہ سنی اتحاد کا قائم ہونا ہے۔ جب ہم عمامے والے علماء اہل سنت کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ خود دشمنان اسلام و پاکستان کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔

 

دوسرے سوال کے جواب میں علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ  یہ واضح ہے کہ نواز لیگ سعودی عرب کا سرمایہ ہے۔ ظاہر ہے جہاں سعودی عرب ہے وہاں امریکہ بھی ہے۔ لہذا وہ حکومت (امریکی حکومت) جو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دیتی ہے۔ غزہ میں ظلم و بربریت جاری ہے لیکن وہ اسرائیل کا ساتھ دیتی ہے۔ وہ امریکہ جو اسرائیل کا ساتھ دیتا ہے، پاکستان میں نواز شریف کا ساتھ دیتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ نواز شریف کو پانچ سال مکمل کرنے چاہییں۔ یہ واضح دلیل ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں امریکی مفادات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے تو وہ خود میدان میں کود پڑا ہے اور نواز شریف کو بچانا چاہتا ہے۔ ہماری اس موومنٹ کی صداقت کی دلیل ہے کہ امریکہ اس کی مخالفت پر اتر آیا ہے۔

 

شرکائے دھرناکے حوصلوں اور جذبے کے حوالے سے کیئے گئے سوال کے جواب میں علامہ احمد اقبال رضوی کاکہنا تھاکہ دھرنے کو دس روز گزر چکے ہیں لیکن لوگ طاہر القادری صاحب کے ساتھ صبر و استقامت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ملت تشیع جو عرصہ دراز سے دھرنوں وغیرہ کی عادی ہے، ہم کربلا والوں کے حوصلے بلند ہیں، اگر بیس دن بھی مزید بیٹھنا پڑے، لوگ بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ لوگ کشتیاں جلا کر آئے ہیں اور طاہرالقادری اور دیگر لوگوں کے لئے بھی یہ آخری چانس ہے۔

 

 احتجاجی تحریک میں ایم ڈبلیوایم کی شمولیت کے بعد پڑنے والے اثرات کے سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد اور تاسیس اپنی شرعی ذمہ داری کی انجام دہی کی خاطر رکھی گئی تھی۔ جس کام میں بھی مجلس نے ہاتھ ڈالا ہے، اللہ نے اس میں برکت عطا فرمائی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مجلس کی لیڈر شپ نے مخلصانہ طریقہ سے اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دیا، ہم نے نتیجہ کی کبھی پروا نہیں کی۔ لہذا آج تک اللہ تعالٰی نے ہمیں کامیابی عطا کی۔ انشاءاللہ اس نئے سیاسی فیز میں اپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ ہم فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تشیع اور سنی شیعہ اتحاد و وحدت کے لئے ایک بہت بڑا سنگ میل ثابت ہوگا۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری آج کل پنجاب کے بھرپوردورہ جات کر رہے ہیں اور تنظیمی فعالیت کو بڑھا رہے ہیں، ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے گذشتہ دنوں میں بلتستان میں ایک تاریخی جلسہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مجلس وحدت مسلمین نے آئندہ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا بھی اعلان کیا۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن، نواز حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس اور گلگت بلتستان میں سال کے آخر میں ہونے والے الیکشن میں اپنائی جانے والی پالیسی پر ایک جامع انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

 

اسلام ٹائمز: حکومت کا پہلے طالبان سے مذاکرات کرنا اور اب فوج کے آپریشن کے اعلان کے بعد حمایت کا اعلان، اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ حقیقت میں طالبان کی مدد کرنا اور ان دہشتگردوں کو مضبوط بنانا تھا اور عوام میں ان کے خلاف موجود نفرت کو کم کرنا تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں جو سپورٹ سکیورٹی اداروں کو ملنی چاہئے تھی اس میں کمی آئی۔ ہماری سیاسی حکومت نے طالبان کی وکالت کی اور انہیں اسٹیک ہولڈر بنا دیا اور انہیں ریاستی اداروں کے مقابلے میں لیکر آگئے۔ دہشتگردوں کے بارے میں یہ رائے رکھنا کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں حقیقت میں سرنڈر کرنا ہے۔ مذاکرات کی بات کرنے سے مراد حقیقت میں شکست تسلیم کرنا ہے، حکومت کی طرف سے اس حد تک طالبان کو فری ہینڈ اس لئے دیا گیا تھا کہ کیونکہ طالبان نے انہیں الیکشن میں سپورٹ کیا تھا اور ان کے مدمقابل قوتوں کو الیکشن کمپین نہیں چلانے دی گئی تھی۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو الیکشن کے دوران اٹھا لیا جاتا ہے اور وہ آج تک طالبان کے پاس ہے، ہماری حکومت نے اس کو چھڑانے کیلئے کیا کیا ہے؟ عجیب نہیں کہ ملک کے اندر سے ایک بندہ اغوا کر لیا جاتا ہے اور ملک کے اندر ہی اسے رکھا جاتا ہے اور کوئی چھڑوا نہیں سکتا، ان طالبان نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی تھی، اور ہمارے حکمران ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے رہے اور انہیں فرصت دیتے رہے۔ کراچی واقعہ کے بعد پاک فوج نے حکومت پر دو جمع دو کی طرح واضح کر دیا کہ ہم آپریشن کرنے جا رہے ہیں، آپ نے دیکھا کہ جب فوج نے اعلان کر دیا تو نواز شریف نے دو دن بعد اعلان کیا۔ اس سارے عمل سے واضح ہوجاتا ہے کہ دہشتگردی سے متعلق فوج اور حکومت کہاں کھڑی ہے۔ الحمد اللہ پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آخری دہشتگرد کے خاتمہ تک یہ آپریشن جاری رہے گا اور پاک فوج اپنے عوام کی امیدوں پر پورا اترے گی۔

 

اسلام ٹائمز: میاں صاحب نے قومی اسمبلی سے خطاب میں دہشتگردوں کے خلاف فوج کی حمایت اور آپریشن کا تو اعلان کیا لیکن فرقہ وارنہ دہشتگردی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: آپ دیکھیں ناں کہ فرقہ وارنہ دہشتگردی کے پیچھے بھی یہی قوتیں ہیں جن کے خلاف فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے، جب فرقہ وارنہ دہشتگردی کرنا ہوتی ہے تو اس کیلئے لشکر جھنگوی کا نام استعمال کیا جاتا ہے، جب ریاستی اداروں اور فوج پر حملے کرنا ہوں تو طالبان کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ تمام ایک ہی سوچ کے حامل لوگ ہیں جنہیں ہم تکفیری کہتے ہیں۔ اگر تکفیری سوچ کو کچل دیا جائے تو ہمارا ملک ترقی کریگا اور اس ملک میں خوشحالی آئی گی۔ ان کے خلاف سنجیدگی کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ اس آپریشن کو فقط شمالی وزیرستان تک محدود رکھنا درست نہیں، ان مدارس اور لوگوں کو بھی پکڑنا ہوگا اور کچلنا ہوگا جو ان کیلئے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں اور انہیں مختلف شہروں میں پناہ دینے کے ساتھ ساتھ مکمل مدد فراہم کرتے ہیں۔

 

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق میاں صاحب نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انکا فوج سے تصادم ہے، اس پر کیا کہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: نواز شریف پاکستان میں تیرہ سال بعد واپس آئے ہیں اور وہی پرانا ذہن لیکر آئے ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان کے خاص حالات اور خاص خصوصیات ہیں، یہاں میاں صاحب سعودی عرب کے اسٹریٹیجک پاٹنر ہیں۔ یہاں سعودی عرب کے شہزادوں کا آنا جانا تیز ہوگیا، ہزاروں لوگوں کو بحرین بھیجا گیا، 25 ہزار پاکستانیوں کو بحرین کی قومیت دی گئی ہے۔ ان کا کام وہاں کے مظلوم لوگ جو گذشتہ چار برسوں سے جمہوریت کی تحریک چلا رہے ہیں، اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں، اس تحریک کو کچلنے کیلئے ان افراد کو وہاں کیلئے بھرتی کیا گیا۔ پاکستان کے اندر نواز شریف کی حکومت سعودی عرب کی اسٹریٹیجک پارٹنر بن چکی ہے، ضیاءالحق کے دور کی پالیسی کو دہرایا جا رہا ہے، شام کے معاملے پر ان کا اسٹینڈ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں شفٹ آیا ہے۔ پاکستان اور اس کے اطراف میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ان حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کیا کریں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بزنس مین لوگ ہیں، انہیں اپنے بزنس کی فکر پڑی ہے۔ ملکی مفاد پر اپنے بزنس کو فوقیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی یہ جعلی قیادت ہے جو دھاندلی کے ذریعہ اقتدار میں آئی ہے، اگر حقیقی قیادت ہوتی تو یہ تبدیلی نہ آتی۔
ان لوگوں نے فوج کو ایسے پرندے کی ماند بنانے کی کوشش کی ہے جو پنجرے میں بند ہو، وہ پھڑ پھڑا تو سکے لیکن اڑ نہ سکے۔ فوج پر میڈیا، علاقائی ممالک اور دیگر پریشرز ڈلوائے گئے جس کا مقصد یہی تھا کہ میاں صاحب اپنی طاقت میں اضافہ کریں، جس کے نتیجے میں یہ اتنے طاقتور ہوجائیں کہ وہ کریں جو سعودی عرب چاہتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ پاکستان کے داخلی اور خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کا نقش اور رول بڑھ گیا ہے۔ اگر یہ سمجھدار ہوتے تو یہ ایسا نہ کرتے، کسی بھی معاملے پر جہاں اختلاف پیدا ہوجاتا تو یہ اس سے لاتعلق ہو جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، آپ نے راولپنڈی میں عاشور کا واقعہ دیکھا کہ انہوں نے کھل کھلا کے تکفیری ٹولے کا ساتھ دیا اور آج تک ان کے ساتھ کھڑے ہیں، کیا حکومت اور اسٹیٹ اپنے عوام کے خلاف کھڑی ہوتی ہے یا فریق بنتی ہے۔؟ راولپنڈی کے واقعے میں پنجاب حکومت ہمارے مقابلے میں آئی ہے، اس واقعہ میں وکیل پنجاب حکومت نے کیا۔ عملی طور پر نون لیگ کی حکومت تکفیریوں کی سرپرست حکومت ہے۔ عنقریب آپ دیکھیں گے کہ تکفیری ٹولہ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے والا ہے، جیسے ہی حقیقی لیڈر شپ کیلئے کوئی تحریک چلے گی، ان تکفیریوں کے بیانات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ وہ افراد جنہیں 35 سالوں سے پشت پناہی کی گئی، وہ نواز شریف کےساتھ  کھڑے ہوجائیں گے۔

 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری ایک بڑے اتحاد بنانے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے کوششیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں، مجلس وحدت مسلمین کس حد تک اس حوالے سے انکے ساتھ ہوگی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں ہر وہ اتحاد جو پاکستان کو سعودیوں کے قبضے اور استعماری ایجنٹوں سے نجات دلائے، دھاندلی زدہ لوگوں سے نجات دلائے، تکفیریوں کے حامیوں سے نجات دلائے، ایسا اتحاد جو پاکستان میں نفرتوں کو مٹائے اور امن کو فروغ دے، ناامنی کے خاتمے کیلئے کام کرے، محبت اور امن کو فروغ دے، ہم اس کا ساتھ دیں گے اور اس سے لاتعلق نہیں رہیں گے۔ ہم اس وطن کے اندر تکفیری ٹولے کی شکست کیلئے جس نے 35 سال سے اس ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور ملک کو تباہی کی طرف لے گئے ہیں، انکے خلاف جو بھی حقیقی تحریک چلے گی، ہم اس کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

 

اسلام ٹائمز: اگر تحریک کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے اور کوئی آمریت نافذ ہوجاتی ہے تو پھر کیا ہوگا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: نواز شریف کی حکومت ایک جعلی حکومت ہے جو دھاندلی کرکے ایوانوں میں پہنچی ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے، سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان کے اندر دھاندلی ہوئی ہے، ایسے حکمرانوں کو کیا حق ہے کہ وہ حکمرانی کریں، جن لوگوں نے ریٹرننگ افسران کے ذریعہ مینڈیٹ چرایا ہو، اور ڈاکہ ڈالا ہو، انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ حکومت کریں، پاکستان میں جمہوری اصلاحات لانی پڑیں گی، دھاندلی سے پاک اور آزاد الیکشن کمیشن کا قیام لانا پڑیگا، جدید طرز الیکشن کا استعمال کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں جتنے بھی طبقات ہیں انہیں احساس محرومی سے نکالنے کیلئے ایک ایسے انتخابی نظام کو رائج کرنا ہوگا جس سے لوگوں کو اطمینان ہو، اس وقت جو بہترین نظام ہے وہ متناسب نمائندگی کا نظام ہے، جس کے تحت پارلیمنٹ میں تمام طبقات کی نمائندگی ہوگی اور وہ اپنے حقوق کی بات کرسکیں گے۔ اس سے طبقات کے اندر احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا اور اس سیاسی مافیا سے بھی نجات ملے گی، اگر ان تمام چیزوں کیلئے کوئی گرینڈ الائنس بنتا ہے جس میں ان تمام ایشوز پر بات کی جاتی ہے تو ہم اس کا حصہ بنیں گے۔

 

اسلام ٹائمز :گلگت میں آپ لوگوں نے ایک تاریخی جلسہ کیا، آئندہ انتخابات کے حوالے سے وہاں پر آپکی کیا حکمت عملی ہوگی۔ کہیں آپ لوگوں کی موومنٹ سے شیعہ ووٹ تقسیم تو نہیں ہوگا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: گلگت بلتستان کے اندر مجلس وحدت مسلمین کافی مضبوط ہے، مجلس کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اس کیلئے اسٹینڈ لیتے ہیں اور حقیقی لوگ ہیں جو ان کی جنگ لڑ رہے ہیں، عوام ہم پر اعتماد کر رہے ہیں، بارہ دن کے دھرنوں نے ثابت کیا کہ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت عوام کے حقوق کیلئے لڑنے والی ہے نہ کہ جھکنے اور بکنے والی قیادت ہے۔ یہ اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ اٹھارہ مئی کو گلگت بلتستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کیا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں شیعہ سنی اور نور بخشی سمیت تمام طبقات نے شرکت کی۔ ہم الیکشن میں مذہب کی بنیاد پر نہیں جائیں گے۔ ہم اہلیت، لیاقت، استعداد اور قابلیت کی بنیاد پر جائیں گے۔
ہم لوگوں کے پاس جائیں گے اور کہیں کہ یہ ہمارا امیدوار ہے، اگر آپ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے اہل سمجھتے ہیں تو اسے اپنی خدمت کیلئے ووٹ دیں۔ ہم شیعہ، سنی، نور بخشی سب ملکر الیکشن لڑیں گے اور اہل لوگوں کو لیکر آئیں گے، تاکہ 67 سال سے محروم لوگوں کی احساس محرومی کو ختم کیا جا سکے، انہیں انکے حقوق دلوائے جاسکیں، وہاں ترقی اور پیشرف ہوسکے، بہترین اسکولنگ سسٹم ہو، بہترین ہیلتھ کا نظام متعارف کرا سکیں، لوگوں کی معیشت بہتر سکے، اگر دیندار، امانت دار اور انصاف پنسد لوگوں کو آگے لایا گیا تو وہاں کے لوگوں کی 67 سال کی احساس محرومی کو سالوں میں ختم کیا جا سکتا ہے، لوگ تبدیلی دیکھیں گے۔ مجلس وحدت کوشش کرے گی اس انداز میں انتخابات میں داخل ہو کہ وہاں کے لوگ اطمینان محسوس کریں، حساسیت پیدا نہ ہو، ہراسمنٹ پیدا نہ ہو، کوئی طبقہ خوف زدہ نہ ہو، ہم سنی، شیعہ، اسماعیلی اور نوربخشی سمیت تمام طبقات کو ساتھ رکھیں گے۔ ہم کوشش کریں گے وہاں ایک خوبصورت الیکشن کرایا جاسکے، جس سے اس خطے اور پاکستان کو فائد ہو۔

 

اسلام ٹائمز: کیا ایسی صورتحال بھی بن سکتی ہے مجلس وحدت مسلمین وہاں پر اہل سنت لوگوں کو بھی اپنا امیدوار بنائے یا انہیں ٹکٹ دے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جی امکان ہے کہ ہم انہیں بھی ٹکٹ دیں، اس حوالے سے اہل سنت کے دوست ہم سے رابطہ کر رہے ہیں، ہمارے ٹکٹ پر اہل سنت، اسماعیلی اور نور بخشی بھی آسکیں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ایک ایسا اتحاد وجود میں آئے جس میں تمام طبقات موجود ہوں اور ہم سب ملکر الیکشن لڑیں، مذہب کے نام پر یا فرقوں کے نام پر نہیں بلکہ اہلیت اور لیاقت کی بنیاد پر الیکشن لڑیں گے۔ مذہب ایک مقدس چیز ہے، اگر حلقے میں شیعہ شیعہ کے خلاف الیکشن لڑے تو وہاں مذہب کیوں استمال ہو؟، ہم فرقہ یا مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ ہم لوگوں سے استعداد، لیاقت اور صلاحیت کی بنیاد پر ووٹ مانگیں گے، اگر لوگوں نے ہم اعتماد کیا تو ٹھیک ہے نہیں تو ہم دوبارہ ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ جدوجہد رکھیں گے کہ ان کا اعتماد حاصل ہوسکے اور ہم ان کی خدمت کرسکیں۔

 

اسلام ٹائمز: شام کے الیکشن ہونا اور صدر بشار الاسد کا ایک پار پھر منتخب ہونا، کیسی تبدیلی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہ اہم تبدلی ہے، شام میں الیکشن حقیقت میں تکفیریت اور دہشتگردی کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ 70 فی صد سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور بشار الاسد نے 87 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ چار سالہ دہشتگردی، امریکہ، اسرائیلی اور سعودی عرب کی مداخلت کے باوجود مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے۔ اس بلاک نے انہیں ہر میدان میں شکست دی ہے، انہوں نے مسلح جدوجہد کی تو اس میں شکست دی، اخلاقی طور پر شکست ہوئی ہے کہ شام کی اکثریت عوام کے دل بشار الاسد کی طرف مبذول ہوئے، قانونی طور پر انہیں شکست ہوئی کہ سکیورٹی کونسل میں وہ کوئی قرار داد پاس نہ کرا سکے۔ میڈیا پر یہ رسوا ہوئے ہیں، اسی طرح انہیں سیاسی شکست ہوئی ہے۔ یہ بڑی تبدیلی ہے۔ مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے وہ ان تمام استکباری قوتوں کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے اور انکا مقابلہ کرسکتا ہے۔ دہشتگرد اور انکے آقا سب مایوس ہیں کہ تین سال جنگ لڑنے باوجود وہ بشار الاسد کو نہ ہٹا سکے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکی وزیر خارجہ لبنان گیا ہوا تھا، جہاں اس نے شام کے معاملے میں حزب اللہ اور ایران سے مدد مانگی ہے، یہ ان کی شکست ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کو عراق میں بھی شکست ہوئی ہے، وہاں لوگوں نے 66 فی صد سے زائد ووٹ کاسٹ کئے۔ عراق کے عوام نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ دہشتگردوں سے ڈرنے والے نہیں، اس ملک میں بھی دہشتگردی اور دہشتگردی کرانے والے ممالک کو شکست ہوئی ہے۔ جو ممالک عراق اور شام میں آگ لگا رہے ہیں، انہیں بھی یہ آگ اپنی لپیٹ میں لے گی، دنیا مکافات عمل کا نام ہے۔ جب آپ کسی کے گھر میں آگ لگاتے ہیں تو آپ کے بھی گھر میں آگ لگے گی۔ یہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ مقاومت کا بلاک اتنا مضبوط ہوا ہے کہ چند دن قبل سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب اگر اسرائیل نے کوئی ایڈونچر کیا تو ہم آپ کے علاقے الجلیل پر قبضہ کرلیں گے۔ اس اعلان کے بعد اسرائیلی پریشان ہیں۔ انہوں نے کوشش کی تھی کہ وہ دہشتگردی کے ذریعہ مقاومت کے بلاک کو کمزور کریں گے لیکن وہ اور مضبوط ہوگیا ہے۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) دہشت گرد طالبان کی افزائش اور مذہبی تفرقے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، ان چیلنجوں اور ۲۰۰ ملین پاکستانی عوام کی حفاظت کی ذمہ داری علماء پر ہے۔مجلس وحدت مسلمین اسلام آباد جو ایک اہم اسلامی تنظیم ہے کے مطابق ان تکفیری گروپوں  اور ان کے فتنہ پرور منصوبوں کو ملک سے مکمل طور پر ختم کر نے کی ضرورت ہے۔طالبان نے پاکستان کو دہشت گردی اڈا بنا رکھا ہے ۔جسے صفحہ ہستی سے ختم کر نا ضروری ہے ۔ان خیالات کا اظہار مجلس و حدت مسلمین پاکستان کے سیکریٹری  جنرل حجتہ الااسلام شیخ ناصرعباس جعفری نےمعروف لبنانی خبر رساں ادارے العہد کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا انہوں نے طالبان سے مذاکرات کرنے کو سختی سے منع کیا اس لئے کہ جو دہشت گرد تکفیری گروہ جو ہزاروں پاکستان عوام کے قتل میں ملوث ہیں۔جو ہمارے دستور و آئین کو نہیں مانتے ہم ان سے کیسے مذاکرت کریں؟ یہ خارجی گروہ آئینی اور قانونی اعتبار سے خارج از اسلام  ہیں اس لئے کے انہوں نے اسلامی ریاست میں بلاجواز اسلحہ اٹھا رکھا ہے،  شیخ ناصرعباس جعفری نے اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان قتل و دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ہے اور ۶۰ ہزار سے زیادہ افراد جن میں عورتیں مرد،بچے،اساتذہ اور علماء شامل ہیں کو قتل کیا ۔انھوں نے مذید کہا کہ طالبان کے لئے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور یہاں بنیادی طور پر دو قومیں سنی اور شیعہ آباد ی کے ساتھ چند اقلیتی قومیں رہتی  ہیں ۔ اب ماضی قریب میں چند تکفیری گروہوں نے عسکریت پسندی کا آغاز  کیا اور پاکستان میں دہشت گردکاروائیاں  کرنا شروع کیں  اب ہم کس بنیاد پر ان سے گفتگو کریں؟حکومتی سیاسی جماعتوں نے ابھی ہونے والے انتخابات میں طالبان سے مدد حاصل کی ۔

 

العھد نے پاکستان میں امن و سلامتی کے حوالے سے  ایک سوال میں پوچھا کہ سلام آباد میں بعض سیاسی قیادتیں  ان (طالبان)سے گفتگو کے خواہاں ہیں ۔اس کے جواب میں شیخ صاحب (علامہ راجہ ناصر عباس)نے کہااس لئے کہ ان لوگوں نے عام انتخابات کے دوران طالبان سے مدد حاصل کی ہے اور بلیٹ بکس پر قبضہ کر کے لوگوں کو ووٹ کاسٹ کر نے سے روگ دیا اب یہی لوگ حکومت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔شیخ جعفری نے اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے کہا کہ حکومتی لوگ  طالبان سے جان چھڑانے کے لئے کبھی طالبان کے ساتھ جنگ کا ڈرامہ کر تے ہیں تو کبھی ان سے مذاکرات کر نے کا ڈھونگ رچاتے ہیں تاکہ عوام خاموش رہے۔

 

مجلس وحدت مسلمین  دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں  ڈال کر اپنے موقف پر ثابت قدم ہے،شیخ ناصر جعفری نے مجلس وحدت مسلمین کے مختلف مالک میں موجود دیگر گروپوں سے تعلقات کے بارے میں پوچھےگئے  ایک سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان اور تکفیری گروہ کے ساتھ مقابلے کرنے کیلئے مسلمانوں کے صفوں کو مضبوط کر نے کے لیے ہم تعاون کرتے ہیں اور یہ اس بات کی وضاحت کر تے ہوئے کہا کہ پاکستان میں الحمداللہ ۲۰ کروڈ مسلمان آباد ہیں جو طالبان کے حوالے سے متفق ہیں۔
جن کی اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وطن عزیز میں بیرونی مداخلت ہرگز قابل قبول نہیں کی جائے گی۔ہم امریکی،خلیجی،اور یورپی مداخلت کو پاکستان میں ہرگز قبول نہیں کرتے اس لئے کہ پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کر نے کی مطلب پاکستان کی جڑوں کو کھوکلا کر نا ہے۔ان اسباب کی وضاحت کر تے ہوئےانہوں نے  کہا کہ کیونکہ پاکستان ایک مسلمان ایٹمی طاقت کے حامل ملک ہے۔بیرونی اہداف میں یہ شامل ہے کہ وہ اس قوت کو کمزور کرے تاکہ علاقے میں مغربی منصوبوں کے لئے کوئی رکاوٹ نہ رہے۔

 

انھوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کا بھی یہی منصوبہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر تفرقے پیدا کر ے جس کا نتیجہ پاکستان کو کمزور کر نا ہے۔پچھلے تین مہینوں میں سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی وفود کےپاکستان کے دورے کے حوالے سے شیخ ناصر عباس نے کہاکہ  یہ دورے دراصل موجودہ حکومت اور آل سعود کے درمیان  اشتراک عمل کی دلیل ہیں اور پاکستان کا وزیر اعظم نواز شریف جو طالبان سے خفیہ طورپر تعاون کر تا رہتاہے۔

 

شیخ ناصر جعفری نے مزید کہا کہ سعودی عرب کے دوست پاکستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔آخر میں انھوں نے ایک سوال پر اپنی گفتگو کو مکمل کیا ۔کیا یہ بات قرین عقل ہے کہ  مٹھی بھردرندے  طالبان دنیا کے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والےمہذب لوگوں پر غالب آئیں ؟؟؟

وحدت نیوز(قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم  کے سیکرٹری جنرل علامہ غلام محمد فخرالدین نے جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کی جانب سے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں امام حسین علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ کلمات ادا کرنے کے خلاف اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے کہ کربلا کی جنگ حق و باطل کا وہ معرکہ تھا کہ جس میں نواسہ رسول (ص) امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف قیام کرکے اسلام کو ایک نئی زندگی عطا کی، منور حسن کی جانب سے کربلا کی جنگ کو دو اصحاب کی جنگ قرار دینا نواسہ رسول امام حسین (ع) کی توہین اور رسول اکرم (ص) کی تعلیمات سے غداری کے مترادف ہے۔

Page 6 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree