وحدت نیوز (انٹرویو)  معروف سکالر اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے فلسطینیوں پہ اسرائیلی حملے کے اسباب پہ ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شام کے اندر وہ علاقے جو اسرائیل کے بارڈر کے ساتھ لگتے ہیں، وہاں مزاحمتی بلاک زیادہ مضبوط ہوگیا  ہے۔ اسرائیل کی پریشانی اس حوالے سے بڑھ گئی ہے، کیونکہ پہلے لبنان والا اس کا بارڈر غیر محفوظ تھا اور اب شام والا بھی اس کیلئے غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اگر دونوں سرحدوں پہ اسرائیل مخالف قوتیں مضبوط ہوں تو دونوں بارڈر خود اسرائیل کیلئے چکی کے دو پاٹ ثابت ہوتے ہیں، جس میں یہ پس جائیگا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ  چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ  اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار  کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ سید ناصر شیرازی مشرق وسطٰی کے موضوع پہ انتہائی گرفت رکھتے ہیں تو ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے نے اسی تناظر بالخصوص فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کی حالیہ بربریت اور شام میں مختلف ممالک کے اہداف اور  حالیہ شام اسرائیل جھڑپ کے بارے میں سید ناصر عباس شیرازی کیساتھ ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا ہے، اس نشست کا تفصیلی احوال انٹرویو کیصورت میں پیش خدمت ہے۔


سوال: اسرائیل نے حال ہی میں فلسطینیوں کیخلاف طاقت کا بے محابہ استعمال کرکے ظلم و بربریت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے، اس اسرائیلی جارحیت کے بنیادی مقاصد یا محرکا ت کیا ہیں۔؟

سید ناصر شیرازی: اس کی مختلف وجوہات اور مقاصد ہیں۔ میں مختصر الفاظ میں بتاتا ہوں۔

اول یہ کہ اسرائیل کمزور ہے اور اپنی کمزوری چھپانے کیلئے کمزور پہ طاقت کا استعمال کرکے مرعوب کرنا چاہتا ہے۔اسرائیل کی تزویراتی گہرائی بہت کم ہے۔ اس کا جغرافیہ بہت چھوٹا ہے۔ اس کے پڑوس میں اسکی حمایت نہیں پائی جاتی اور دنیا میں ایسا ملک بدترین بحران کا شکار رہتا ہے کہ جس میں یہ کمزوریاں ہوں اور وہ خطے میں اپنے اتحادی نہ رکھتا ہو۔ اسرائیل نے ہمیشہ اپنی اس کمزوری کو مختلف طریقوں سے کم کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی حمایت اور اس کی ویٹو پاور کے ذریعے اور اپنے جارحانہ کردار کے ساتھ یعنی پڑوسی ممالک کو طاقت کے زور پہ دبا کر اسرائیل نے ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تازہ صورت حال کی وجہ یہ بنی ہے کہ اسرائیل کبھی بھی اپنی کمزوری کو آشکارا نہیں کرنا چاہتا کہ وہ کمزور ہو رہا ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی یہ کمزوری آشکار ہونے لگتی ہے تو وہ ایسے جارحانہ اقدامات کے ذریعے یہ باور کراتا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ اسرائیل کمزور ہوچکا ہے، وہ اسرائیل کہ جو گریٹراسرائیل کی بات کرتا تھا، جو دجلہ و فرات کے پانیوں پہ جانے کی بات کرتا تھا، اسے اپنی ہی سرحد پہ دیواریں بنانا پڑ رہی ہیں، یعنی وہ خود محدود ہو رہا ہے۔ اس کی اپنی معاشی استعداد میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے اور معاشی حالت اتنی اچھی نہیں جا رہی۔


مشرق وسطیٰ میں اس کا اپنا سارا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ حزب اللہ اس کے اپنے بارڈر پہ پہلے سے بہت طاقتور اور قدرت مند ہوچکی ہے۔ شام میں بشارد اور اس کی اتحادی مزاحمتی قوتیں بہت طاقتور ہوچکی ہیں اور عالمی سطح پہ بھی اس کو درکار حمایت نہیں مل رہی۔ اس کی اپنی کمزوریاں کھل کر سامنے آنا شروع  ہوگئیں تھیں۔ شام کی سرزمین سے اس کے ایف سولہ طیارے کو گرایا گیا، جو کہ غیر متوقع ہے۔ اسی طرح ایف سولہ کے علاوہ ان کے فوجی مقامات پہ حملوں کا ہونا اسرائیلی کمزور ی کا اظہار ہیں۔ جس سے توجہ ہٹانے کیلئے اسرائیل نے فلسطینیوں پہ بدترین حملے کئے ہیں۔ ان پہ ظلم کیا ہے اور بدترین بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔  اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کا سب سے بڑا دفاع خود امریکہ ہے، جو شام میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے اور شام کے وہ علاقے جو اسرائیل کے بارڈر کے ساتھ لگتے ہیں، وہاں مزاحمتی بلاک زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ اسرائیل کی پریشانی اس حوالے سے بڑھ گئی ہے، کیونکہ پہلے لبنان والا اس کا بارڈر غیر محفوظ تھا  اور اب شام والا بھی اس کیلئے غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اگر دونوں سرحدوں پہ اسرائیل مخالف قوتیں مضبوط ہوں تو دونوں بارڈر خود اسرائیل کیلئے چکی کے دو پاٹ ثابت ہوتے ہیں، جس میں یہ پس جائیگا۔ اس کے علاوہ غوطہ جو کہ بشارد حکومت کے خاتمے کیلئے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی آخری امید تھی، اس میں

انہیں توقع تھی کہ مشرقی غوطہ کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔ اسی کے ذریعے انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور یہاں موجود دہشتگرد جو اسرائیلی ہتھیاروں سے لیس ہیں، ان کے ذریعے دمشق پہ قبضہ کیا جاسکے گا۔ اب یہ امید بھی ٹوٹ گئی اور دمشق کے تمام اطراف مزاحمتی قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں پہ رٹ آف دی  گورنمنٹ قائم ہوگئی ہے۔ اب ان مزاحمتی قوتوں کا اگلا ہدف گولان ہائٹس کے نزدیکی وہ اسٹریٹجک علاقے ہیں، جو اسرائیل کے نزدیک ہیں، جہاں پہ اگر مزاحمتی قوتیں کاملاً اپنا تسلط قائم کر لیں اور وہاں سے دہشتگردوں کو نکال باہر کریں تو اسرائیل کی اپنی بقاء پہ سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ اسرائیل نے شام کو اس حد تک آفر کی ہے کہ  یہاں موجود شدت پسند عناصر کو وہ اپنے علاقے میں جگہ دینے کو تیار ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس علاقے میں لبنانی حزب اللہ اور اسرائیل مخالف مزاحمتی قوتیں نہ آئیں۔ بہرحال مشرقی غوطہ میں ناکامی بڑی وجہ بنی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پہ اپنا غصہ نکالا ہے۔

غلامانہ ذہنیت کا مالک محمد بن سلمان بھی ایک وجہ ہے
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکہ و اسرئیل کو عالم اسلام سے اتنی غلامانہ ذہنیت رکھنے والا بندہ نہیں مل سکتا تھا، جیسا انہیں محمد بن سلمان کی صورت میں ملا۔ وہ کام جو امریکہ اپنے نان اسلامک چہرے کی وجہ سے نہیں کرسکتا اور وہ کام کسی اسلامی چہرے سے لیتا ہے یعنی سعودی عرب، جو سب سے زیادہ امریکی اہداف کیلئے کام کرتا ہے، جس میں نام نہاد اسلامی اتحاد کی تشکیل، پھر اسلامی ممالک کی کانفرنس کہ جس کی صدارت ٹرمپ نے کی۔ اس کے علاوہ اسلامی تشخص رکھنے والے معاشرے کو یورپ کی طرز پہ منتقل کرنا، مقدس سرزمین کو فحاشی کے مراکز میں بدلنا، یہ ساری وہ چیزیں ہیں، جو محمد بن سلمان نے کیں۔ انہیں یہ بھی توقع  تھی کہ یہ اسلامی دنیا کو محمد بن سلمان کی مدد سے اسی طرح ہینڈل کر لیں گے کہ مخالفت اور مزاحمت دونوں ہی پست ترین سطح تک چلی جائیں اور اب اس سے اگلے مرحلے میں ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ جو کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر ایک ملک کے طور پہ  تسلیم کر لیا جائیگا اور اس ملک میں فلسطینیوں کی واپسی کا خواب، خواب ہی رہ جائیگا تو اس تناظر میں اسرائیلی حملوں کی ٹائمنگ انتہائی اہم تھی۔ تاہم یہ ساری منصوبہ بندی اسرائیل اور ان کے ساتھیوں کو الٹ پڑ گئی ہے۔ محمد بن سلمان کو اپنے ملک و خطے میں وہ حمایت حاصل نہیں رہی، یہ محمد بن سلمان کا ہی فقرہ ہے کہ

’’فلسطینی یا تو اسرائیل کی بات مان لیں یا پھر اپنا منہ بند رکھیں۔‘‘

ؓBACK TO PALESTINE MOVEMENT
فلسطینیوں نے ایک تحریک بھی شروع کی ہوئی ہے کہ جس کا عنوان ہے ’’فلسطینیوں کی فلسطین میں واپسی‘‘ اور اس تحریک میں شدت بھی ہونی تھی، کیونکہ ماہ مئی میں ہی فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بیدخل کیا گیا تھا۔ 15 مئی یوم نکبہ ہے۔ فلسطینی اس حوالے سے اپنی تحریک شروع کئے ہوئے تھے، اس میں شدت اور  تصادم بھی اس وجہ سے زیادہ تھا کہ ایک طرف یہ نظریہ تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے اور دوسری طرف فلسطینی اپنی زمین پہ واپس جانے کی تحریک شروع کئے ہوئے ہوں اور اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم نہ کر رہے ہوں تو یہ ایک بڑی نظریاتی جنگ تھی اور جب کوئی نظریہ سے ہار جاتا ہے تو بندوق کا سہارا لیتا ہے، یہی کام اسرائیل نے کیا ہے۔ نظریئے سے شکست کھانے کے بعد فلسطینیوں پہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی تحریک پہ بدترین ظلم کیا ہے اور ایک مہینے میں تقریباً پہلے 62 افراد شہید ہوئے اور 15 مئی کے دن 60 افراد شہید ہوئے۔ اسرائیل کو یقین تھا کہ ایسے موقع پہ طاقت کے جابرانہ استعمال سے فلسطینیوں کو جھکا لے گا۔

اسرائیل پہ ٹرمپ کا دست شفقت اور ٹرمپ کا یہودی داماد
حملوں کی وجوہات میں اسرائیل کو حاصل ٹرمپ کی اعلانیہ مدد بھی ہے۔ ٹرمپ کا اپنا داماد جو کہ یہودی ہے۔ یہودی لابی کبھی بھی اتنی طاقتور امریکہ میں نہیں رہی۔ چنانچہ ٹرمپ کا اپنا مزاج، اس کا حکومت میں ہونا بھی اس ظلم کی وجہ بنا ہے۔ اس ظلم کے بعد جو عالمی ردعمل تھا، اس کو کنٹرول کرنے میں بڑی حد تک امریکہ نے  تعاون کیا ہے۔ اس معاملے پہ عرب لیگ کا جو اجلاس ہوا ہے، اس میں جی سی سی ممالک کا کوئی سربراہ شریک نہیں ہوا ہے۔ اس ظلم کے خلاف جو قرارداد پیش ہوئی تو اسے بھی امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ اس ظلم کے خلاف جو ردعمل اسلامی دنیا سے متوقع تھا، اسے بھی دبانے میں امریکہ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یعنی ٹرمپ کی  موجودگی بھی اسرائیل کے اس جرم عظیم کی ایک وجہ بنی ہے۔

مزاحمتی بلاک کی سیاسی کامیابیوں سے اسرائیل ناخوش
اس کے علاوہ لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی، عراق میں حشدالشعبی کی کامیابی بھی انہیں آئندہ کیلئے ایک بڑے خطرے کے طور پر نظر آرہی ہے، کیونکہ ان کامیابیوں سے عوام میں جو احساس فتح، احساس برتری پیدا ہوا ہے، جس کو کاونٹر کرنے کیلئے نہتے افراد پہ اسرائیل نے طاقت کا استعمال کیا ہے۔ بہرحال طاقت کا استعمال  اگر نہتے لوگوں پہ ہوگا تو وہ بربریت کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ رہبر معظم نے فلسطینیوں کی جو حمایت کی بات کی اور جو مزاحمتی قوتوں سے جو فرمایا کہ آپ اسرائیل کو ختم ہوتے دیکھیں گے اور فلسطین کی آزادی دیکھیں گے اور بیت المقدس کی آزادی سنت الہیہ میں سے ہے اور 25 سال کی ڈیڈ لائن،جس میں  سے چند سال گزر چکے ہیں، وہ بھی چل رہی ہے تو اسرائیلی اس کو نوٹ کرتے ہیں۔ اس فرمان کے نتیجے میں فلسطینیوں میں جو امنگ، احساس فتح تھا، اس کو کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ظلم میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اصلی روپ دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس ظلم کے خلاف دنیا کی طرف سے جو ردعمل  آیا ہے، وہ حوصلہ افزا ہے، گرچہ وہ اتنا نہیں ہے کہ جتنا آنا چاہیئے تھا، مگر اس کے باوجود اس ردعمل سے فلسطینیوں کی کاز کو تقویت ملی ہے۔

سوال: امریکی سفارتخانہ بیت المقدس میں منتقل ہونے سے مقدمہ فلسطین کو کیا نقصان پہنچا۔؟
سید ناصر شیرازی: پہلی بات تو یہ کہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے تحت مذاہب کا مشترکہ ورثہ ہے، جس میں عیسائی، یہودی اور مسلمان شامل ہیں۔ چنانچہ اگر یہ کبھی بنا تو یہ آزاد سٹی بن سکتا ہے کہ جس میں تمام مذاہب اور مسالک کے افراد کو جانے کی اجازت ہوگی۔ چنانچہ یہ آزاد شہر تو ہوسکتا ہے مگر اسرائیل کے  دارالحکومت کے طور پر کبھی بھی نہیں ہوسکتا، یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ہے۔ اسرائیل کا جو نظریاتی ہدف ہے کہ جو اس کی ریاست کا دارالحکومت یا پایہ تخت ہے، وہ بیت المقدس یا یروشلم کو ہی بنایا جائے۔ اس کے بعد یہیں سے ہی وہ گریٹر اسرائیل کے خواب کو دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا آئیڈیل موقع ان کے ہاتھ لگا ہے کہ ٹرمپ  مزاج کے لحاظ سے بھی ان کے ہم آہنگ ہے اور اس کا داماد خود بھی یہودی ہے۔ لہذا اس موقع کو انہوں نے بہترین سمجھا۔ امریکہ نے ستر سال میں اپنے غیر جانبدار ہونے کی دلیل یہی رکھتا تھا، حالانکہ وہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہا، مگر غیر جانبدار رہنے کی اس کے پاس اکلوتی دلیل یہی تھی کہ اس نے اپنا سفارتخانہ بیت  المقدس میں نہیں بنایا۔ بہرحال ٹرمپ سے یہودیوں نے یہ فائدہ اٹھایا ہے۔ گرچہ یہ ابھی ایک فیصلہ ہے کہ جس میں اس جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہاں امریکی سفارتخانہ بنے گا اور رفتہ رفتہ یہاں منتقل ہوگا۔ اس امریکی فیصلے میں کئی ناکامیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ امریکی صدر جس نے اس افتتاح میں جانا تھا، وہ نہیں گیا، اس کے خلاف اتنا عالمی پریشر آیا ہے۔ اس منتقلی پہ امریکہ کو درکار حمایت حاصل نہیں ہوئی ہے اور جو قرارداد بھی آئی ہے تو اس میں دنیا کے چند چھوٹے چھوٹے ملک کہ جن کا نام عالمی سیاست میں ہی شامل نہیں  ہے، ان کے علاوہ پوری دنیا نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ جس میں یورپ، افریقہ اور دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔ یہ امریکہ و اسرائیل کی ناکامی ہے۔ کوئی بھی اقدام جس پہ آپ کو عالمی تائید ملتی ہے تو اسے کامیابی گردانا جاتا ہے، کوئی بھی ایسا اقدام کہ پوری دنیا جس کی نفی کر رہی ہو، اسے ناکامی ہی  سمجھا جائے گا۔ ایک مقبوضہ علاقہ ہے، جہاں پہ قوت طاقت کے بل بوتے پہ قابض افواج کا پہرہ ہے۔ وہاں آپ ایک عمارت کو اپنا سفارتخانہ قرار دیتے ہیں تو کئی سوالات آپ پہ ثبت ہوں گے۔ یہ تو ایسا فیصلہ ہے کہ ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ میں جانے والے محمد بن سلمان وغیرہ کو بھی اس کی مخالفت کرنا پڑی ہے۔ جب تک دنیا کے باقی ممالک وہاں اپنے سفارتخانے منتقل نہیں کرتے، وہاں نہ تو سفارتکاری کا ماحول بن سکتا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پہ اسے وہ حیثیت حاصل ہوسکتی ہے کہ جو آپ دینا چاہتے ہیں۔ یہ امریکی سفارتکاری کی بہت بڑی ناکامی اور اسرائیل کی دنیا میں تنہائی ہے۔

سوال: اسرائیلی حملوں کیخلاف اوآئی سی سمیت دیگر اسلامک فورمز سے جو ردعمل سامنے آیا، کیا وہ قابل اطمینان ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: اقوام متحدہ تو امریکی کٹھ پتلی تھی۔ ویسے بھی پانچ ممالک کے پاس ویٹو پاور موجود ہے، لہذا ان سے کوئی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیئے، کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود بھی جنرل کونسل کے اندر جو قراردادیں آئی ہیں تو ان میں اسرائیل کو اور امریکہ کو ہزیمت کا سامنا  کرنا پڑا ہے اور عالمی برادری ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی ہے۔ لہذا یہ جو فورم ہے، اپنی غیر جانبداری اور اہمیت کھو چکا ہے، مگر مغرب اور امریکہ زدہ سمجھے جانے والے اس فورم پہ بھی امریکہ اور اسرائیل کو حمایت نہیں ملی ہے اور انہیں بدترین تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری جانب جب ہم عرب لیگ کی بات کرتے ہیں  تو چونکہ اس پہ سعودی اثر غالب ہے اور اس کے علاوہ اس فورم نے ان عرب ممالک کی رکنیت ہی منسوخ کی ہوئی ہے کہ جو اپنے حق کی بات کرتے ہیں، جیسا کہ شام، جو کہ عرب ملک ہے مگر عرب لیگ میں نہیں، اسی طرح یمن ہے، جو عرب ملک ہونے کے باوجود عربوں کے ہی نشانہ پہ ہے۔ عرب لیگ اس وقت جی سی سی کے  ہاتھ میں ہے اور جی سی سی سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ عرب لیگ سے ماسوائے ایک قرارداد مذمت کے اور زیادہ توقع عبث ہے۔ اسرائیل کے خلاف فرنٹ مورچہ تو شام ہے۔ شام اس وقت عرب لیگ کا معطل رکن ہے۔ اب اگر او آئی سی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ ایک مناسب اقدام ہے کہ او آئی سی نے اس پہ ایک ہنگامی  اجلاس بلایا ہے۔ اس اجلاس میں دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے ہیں، البتہ وہ سربراہان شریک نہیں ہوئے کہ جو سعودی اثر میں ہیں۔ ترک قیادت سے ان تمام تحفظات کے باوجود کہ جن میں ترکی کے اندر اسرائیلی سفارتخانے کا قائم رہنا، ان کی تقریبات، ٹریڈ کا جاری رہنا کہ جس کے ذریعے انہوں نے اسرائیل کو  قبول کیا ہوا ہے، ان سب کے باوجود ترکی کا اقدام انتہائی مناسب تھا اور او آئی سی نے علامتی طور پر ہی سہی مگر اس معاملے پہ ایک صفحہ پہ ہونے کا اظہار کیا ہے۔

سوال: کثیر الملکی سعودی فوجی اتحاد کا ردعمل کیا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: تمام تر صورتحال میں وہ اسلامی اتحاد بھی اپنے کردار کے لحاظ سے عیاں ہوا ہے کہ اس کا اسلامک مفاد اور اسلامی دنیا کے ایشوز سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ خالصتاً فرقہ وارانہ بنیادوں پہ مزاحمتی ممالک ایران اور اس کے حامیوں کے خلاف مسلکی بنیادوں پہ تشکیل دیا گیا ہے، جو کہ بہت خطرناک ہے  اور امت مسلمہ کیلئے بدترین بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اس میں ایک بدترین چیز پاکستان کے سابق آرمی چیف کا اس کی قیادت کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب امت مسلمہ شام میں امریکی حملوں کی مذمت کر رہی تھی تو اس وقت سعودی عرب اور ترکی ان حملوں کی توجیہات پیش کر رہے تھے تو پھر کیسے اور کس منہ سے آپ فلسطینیوں کے حقوق یا ان کی آزادی یا ان پہ اسرائیلی حملوں کے خلاف بات کرسکتے ہیں۔ عرب ملکوں کا معاملے میں کوئی اچھا کردار نہیں رہا۔ وہ مزاحمتی قوتیں کہ جنہوں نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے، وہاں آنے والی سیاسی تبدیلیاں مزاحمتی عمل کی تائید و حمایت میں جا رہی ہیں۔ جو کہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل میں  انتہائی اہم اور کارآمد ہیں۔

سوال: شام اور اسرائیل کے مابین جھڑپ سے اسرائیلی دفاع کو نقصان پہنچا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: شام ایک ایسا میدان ہے کہ جہاں روس، امریکہ،حزب اللہ، ایران، ترکی اور کردوں کا مفاد موجود ہے۔ چنانچہ شام میں مختلف قوتوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل رہا ہے۔ تاہم زمینی حقائق میں بشارد الاسد اور مزاحمتی قوتوں نے ملکر ملک کے بڑے حصے سے دہشتگردوں کو نکال باہر کیا ہے۔ اس کے بعد باقی  دنیا کے مفادات یہاں بتدریج کم ہونا شروع ہوئے ہیں یا ان کے حصول کے امکانات بتدریج کم ہوئے ہیں۔ مزاحمتی بلاک کا شام میں طاقتور ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اندرونی علاقوں کی جنگ سے وہ تقریباً فارغ ہوچکے ہیں اور بیرونی اسٹریٹجک ایریاز میں جنگ منتقل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ جیسے گولان ہائیٹس کے نزدیکی علاقے، قونیطرہ، قلمون وغیرہ میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور یہاں اگر حزب اللہی قوتیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر اسرائیل کی آئندہ شکست میں شام اور ان علاقوں کا بڑا کردار ہوگا۔ اسرائیل نے بھی ان چیزوں کو نوٹ کیا اور ردعمل میں شام کو کئی مقامات پہ ہٹ کیا ہے۔ جس میں ایران کے کئی افراد شہید ہوئے ہیں۔ گرچہ ایران اور شام کے درمیان بہترین ہم آہنگی موجود ہے، مگر چونکہ اسرائیل نے شام پہ حملہ کیا تھا اور اس کا جواب بھی شام سے ہی گیا ہے، تو یہ جواب شام نے ہی دیا ہے۔ ابھی تک ایران نے اس  کا جواب نہیں دیا ہے۔ ایران نے واضح کہا ہے کہ جب ہم جواب دیں گے تو اعلان کرکے جواب دیں گے۔ ایران کے پاس جو میزائل سسٹم ہے، اس کیلئے آئرن ڈوم کو ناکام بنانا، جو اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم ہے، بے بس ہے۔ ایران، حزب اللہ اور شام کے مفاد میں یہی تھا کہ جب اسرائیل پریشر کو کم کرنے کیلئے شام میں مختلف مقامات پہ حملے کرے تو یہ اس کو کاونٹر کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیلی ایف سولہ کو مار گرانا، اسرائیل کے فرنٹ مورچوں کو نشانہ بنانا، اسرائیل کے اندر ایک ہنگامی صورتحال کا ہونا، وہاں لوگوں کا زیر زمین بنکرز میں منتقل ہونا اور لوگوں کا وہاں بھی بنیادی ضروریات کا پورا نہ ہونا، اسرائیل کی فوجی طاقت کے غبارے سے ہوا نکلنے کے مترادف ہے۔

سوال: کیا ایران اپنے شہید فوجیوں کا انتقام لے گا۔؟
سید ناصر شیرازی: دونوں جانب سے ہونے والے ان حملوں میں دونوں فریقوں نے اپنے مسلز ٹسٹ کئے ہیں، اسرائیل کو شدت سے اس بات کا بھی احساس ہوا ہے کہ مزید کچھ ہونے کی صورت میں ردعمل کہیں شدید ہوسکتا ہے۔ مزاحمتی بلاک جو شام میں موجود ہے، وہ نہ تو ایف سولہ بنا رہا ہے اور نہ ایف تھرٹی، وہ آئرن ڈوم بھی  نہیں بنا رہا ہے۔ تاہم وہ ایسی ٹیکنالوجی پہ ضرور کام کر رہا ہے کہ جو ان تمام ٹیکنالوجیز کو کاونٹر کرکے اسے نیوٹرل کرسکے۔ اس کیلئے گرچہ سرمایہ کم درکار ہے، مگر ردعمل میں چوٹ شدید پہنچا سکتے ہیں اور اسرائیلی حملے کے جواب میں اپنی قوت کا معمولی اظہار انہوں نے کیا ہے۔ یہ کھلا پیغام ہے اسرائیل کیلئے کہ اگر  تم ہماری کسی کمزوری کو نشانہ بنانے کی کوشش کرو گے کہ ہم داخلی جنگ میں ہیں تو آپ بدترین بحران سے دوچار ہوں گے۔ سیر کا جواب سوا سیر سے شام اور اس کی اتحادیوں نے دیا ہے۔ اسرائیلی حملے میں ایران کے فوجی شہید ہوئے ہیں اور ایران نے اعلان کیا ہے کہ ان کا انتقام وہ ضرور لے گا مگر اس کیلئے وہ وقت اور  جگہ کا انتخاب خود کریگا۔ ایران کا یہ اعلان بھی اسرائیل کیلئے ایک لٹکتی تلوار ہے۔ اب اسرائیل کی کوشش یہی ہے کہ اس ممکنہ ایرانی ردعمل کو کسی طور روکا جاسکے اور اس کی کوئی ممکنہ گارنٹی حاصل کی جا سکے۔


انٹرویوبشکریہ۔۔۔اسلام ٹائمز




وحدت نیوز (انٹرویو) اپنے خصوصی انٹرویو میں سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے منافقانہ روش ترک کرنا ہوگی، امریکی اور سعودی بلاک سے نکلنا ہوگا، دہشتگردوں کے سہولتکاروں کو بھی سزا دینا ہوگا، کالعدم جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے سے اجتناب برتنا ہوگا، ایم ایم اے دور میں تکفیری ذہنیت کے لوگوں کو بھرتی کیا گیا، ڈیرہ اسماعیل کے حالات کی خرابی کی ایک وجہ پولیس میں موجود تکفیری ذہنیت ہے۔ عمران خان کے وزیر ڈرپوک ہیں، ڈرپوک قیادت دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
 
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، انہوں نے بہت ہی کم عرصہ میں قیام کرکے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ علمی حوالے سے بہت مضبوط ہیں، اسکے علاوہ حالات حاضرہ کا بہت ہی زبردست تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ ایران کی سرزمین قم المقدس میں دینی تعلیم حاصل کی، اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجلس کے مرکزی پروگراموں میں اہل سنت جماعتوں کے قائدین موجود ہوتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے  نے علامہ ناصر عباس جعفری سے موجودہ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

سوال : دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے اب تک کی جانیوالی کوششوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ جب تک آپ دہشتگردی کے درخت کو نہیں کاٹیں گئے یا فقط اس کی شاخیں کاٹتے رہیں گے، آپ پاکستان کے عوام کی جان اور مال کی حفاظت نہیں کرسکتے، دہشتگردی کے مقابلے کے لئے چار سے پانچ اقدامات ضروری تھے، جو کرنے چاہیئے تھے، مثال کے طور پر ان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا، سیاسی لحاظ سے تنہا کرنا، سماج میں ان کی جڑوں کو ختم کرنا، مذہبی طور پر ان کا مقابلہ کرنا اور عسکری لحاظ ان کو غیر مسلح اور ان کا مقابلہ کرنا، اس کے علاوہ عوام کو شعور دینا کہ یہ عوام اور ملک کے دشمن ہیں، ان سے تعاون نہ کریں۔ حکمران کہتے ہیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے، بھائی صاحب انکا مذہب ہے، یہ اللہ اکبر کہتے ہیں، یہ اپنا مکتب فکر رکھتے ہیں، یہ بکتے اور دوسروں کے لئے کام کرتے ہیں۔ جب تک آپ دشمن کے بارے میں کنفیوژ ہیں اور سوسائٹی کو آگاہ نہیں کرتے، دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہے گا، چند لوگوں کو آپ مار کر کہتے ہیں کہ دہشتگردوں کو مار دیا، اصل کام تو آپ نے کیا ہی نہیں، دہشتگرد ہمارے معاشرے میں سکیورٹی تھریٹ ہیں اور یہ تھریٹ کم ہوتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک جامع کوشش نہیں ہو رہی، آپ نے دیکھا کہ پچھلے دنوں تکفریوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ایک بیانیہ تیار کرایا گیا اور اس پر دستخط کرائے گئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس نے تکفیر کی، کیا اس کو سزا ملنی چاہیے؟، جس نے انتہا پسندی کو فروغ دیا، اس کو کیا سزا ملی۔؟ ضیاءالحق کے دور سے انتہا پسندی کو زیادہ ہوا ملی ہے، اس کی بنیادی وجہ ہماری افغان پالیسی تھی، اس افغان پالیسی نے پاکستان کو عوام کے لئے جہنم بنا دیا، پالیسی بنانے والوں سے کسی نے پوچھا ہے کہ تم نے یہ پالیسی کیوں بنائی تھی؟، کسی کو جواب دینے کے بلایا گیا؟، جب احتساب ہی نہیں تو پھر ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے کیا ہوگا۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ناقص اپروچ اور ناقص پلاینگ کی گئی ہے، اس پلاننگ میں انتہا پسندی پھیلانے والوں کو ٹچ تک نہیں کیا گیا۔

سوال: ناقص اپروچ سے مراد کیا ہے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: دیکھیں پاکستان جس بلاک میں تھا، اس بلاک نے دہشتگردی کو دنیا میں پھلایا ہے، وہ امریکن بلاک کہلاتا ہے، تمام دنیا میں بڑے بڑے دہشتگرد بنانے میں امریکہ کا بڑا رول ہے، اس دہشتگردی پھیلانے میں سعودی عرب بھی ملوث ہے، امریکی آل سعود کے ساتھ ملکر داعش کو اس خطے میں لائے ہیں، ویسٹرن ایشیاء کے بعد اب افغانستان میں داعش کو لایا جا رہا ہے، مقصد اس ریجن کو ڈسٹرب رکھنا ہے، ہم (حکمران) کہتے ہیں کہ امریکہ اور آل سعود ہمارے دوست ہیں، یمن کے اندر القاعدہ مصبوط ہو رہی ہے، داعش کو مضبوط کیا جا رہا ہے، یہ یمن کے ان علاقوں میں ہو رہا ہے، جہاں سعودیوں کا ہولڈ ہے یا پھر یو اے ای کا اثرو رسوخ ہے، آپ نے دیکھا کہ شام میں پوری دنیا سے تکفیریوں کو جمع کیا گیا، ان دہشتگردوں کو ٹرینگ دی گئی اور مسلح کیا گیا۔ یہی حال عراق کا ہے، اب اگر آپ دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آپکو اس بلاک سے نکلنا ہوگا، اس اپروچ کے ساتھ کہ امریکہ اور سعودی عرب ہمارے دوست ہیں، دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔

سوال: تو آپکی نگاہ میں کیسے اقدامات کی ضرورت ہے، جس سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہو۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ پورے پاکستان کے اندر بغیر کسی تمیز کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بےنقاب کرکے ان کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہوگی۔ اداروں میں موجود گھس بیٹھیئے جو ضیاء الحق کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں بھی بےنقاب کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو امریکی بلاک سے نکلنا پڑے گا، یاد رکھیں کہ امریکہ کو اس ریجن میں ناامنی سوٹ کرتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک کے آپس میں تعلقات بہتر نہ ہوں۔ لہٰذا پاکستان کو اس طرف آنا پڑے گا۔

سوال: ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ رکنے کا نام کیوں نہیں لے رہی۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ڈی آئی خان ایک مظلوم علاقہ ہے، یہاں کے لوگ پاکستان سے اور آپس میں محبت کرنے والے لوگ ہیں، اس علاقے کیساتھ وزیرستان لگتا ہے، اسٹریٹیجک حوالے سے بہت اہم علاقہ ہے، سی پیک کا مغربی روٹ یہاں سے گزرنے والا ہے، یہاں کئی عوامل کارفرما ہیں، زمینوں کی اہمیت بڑھ چکی ہے، ڈیرہ میں عام عوام اور غریب لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، اہلیبت علیہ السلام کے ماننے والوں کو مارا جا رہا ہے، یہ ٹارگٹ کلنگ خیبر پختونخوا کی حکومت اور اس کی مثالی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہاں پر جگہ جگہ پولیس اور ایف سی کی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ پوسٹیں عوام کیلئے نہیں بلکہ دہشتگردوں کی حفاظت کیلئے بنائی گئی ہیں، جب کوئی مارا جاتا ہے تو وزیراعلٰی بات تک نہیں کرتا، یہ لوگ وہاں جاتے تک نہیں، سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھیں کہ کیسے بےخوف ہوکر لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دہشتگردوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ کیا آپ ڈیرہ کی تین سڑکوں کی حفاظت نہیں کرسکتے؟، اتنی چیک پوسٹیں ہونے کے باوجود قاتل کیسے قتل کرکے چلے جاتے ہیں، اس کا کوئی جواب دے گا۔؟ دراصل یہ آپس میں ملے ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ جیل ٹوٹی تو انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا، ان کو پہلے سے پتہ تھا کہ جیل ٹوٹے گی، ڈیرہ میں جو کینٹ کا بریگیڈیئر تھا، اس نے پہلے وزٹ کیا اور بتایا کہ جیل کو کیسے محفوظ بنانا ہے، اس کی سکیورٹی کرنی ہے، اس کے بعد جیل پر حملہ ہوتا ہے، جیل کے تالے ٹوٹتے ہیں، جیل کے تمام قیدیوں کو وہ ساتھ لیکر چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں جتنے بھی شیعہ قیدی تھے، ان کو وہاں پر شہید کردیا جاتا ہے۔

آپ اندازہ لگائیں کہ ڈی آئی خان سے لیکر وزیرستان تک کئی چک پوسٹیں آئیں، لیکن ایک بھی فائر نہیں کیا گیا، وہ محفوظ انداز میں اپنی منزل پر پہنچ گئے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس بندے کی ڈیوٹی تھی، اس علاقے کی سکیورٹی کی، اس کو نکالا نہیں جاتا بلکہ اس کی پرموشن کی جاتی ہے۔ یہ سب جوابدہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ملک کا نظام درست نہیں ہے، گڑبڑ کرنے والے لوگ اداروں میں موجود ہیں، جیل ٹوٹ گئی، دہشتگرد آئے اور گزر بھی گئے، راستے میں کتنی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، کتنے کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا، کسی نے روکا تک نہیں، میں کہتا ہوں کہ پاکستان کو بربادی کی طرف لیکر جایا جا رہا ہے، شاخیں کاٹ رہے ہیں، دہشتگردی کی جڑیں نہیں کاٹ رہے، ان کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور میں داخل ہوچکا ہے، پاکستان کے اندر اگر درست اقدامات نہ ہوئے اور اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ فقط غریب لوگ مارے جا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ انکے بچے بھی مارے جائیں گے، پشاور آرمی سکول کا واقعہ ان کو جنجھوڑنے کیلئے کافی تھا۔ یہ آگ ان کے گھروں تک پہنچے گی، پہلے بھی پہنچی تھی اور آئندہ بھی پہنچے گئی، ڈیرہ میں جو رکشہ ڈرائیور اٹھارہ سال کا مارا گیا، وہ بھی کسی کا بلاول اور کسی کا حمزہ تھا۔ امام علی علیہ السلام کا قول ہے کہ حکومتیں کفر سے باقی رہ سکتی ہیں لیکن ظلم پر نہیں۔

سوال: بھوک ہڑتال کے دنوں عمران خان خود چل کر آپکے پاس آئے تھے، اسکے باوجود ڈیرہ میں حالات نہیں بدلے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: مجھے تو لگتا ہے ان کی حکومت بہت کمزور ہے، یہ لوگ دہشتگردوں سے خوف زدہ ہیں، پچھلے واقعات کے اندر جب عمران خان نے اپنے ایک وزیر کو فوکل پرسن بنایا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ لوگ مجھے مار دیں گے، میں نے تو یہاں رہنا ہے، یہاں ان کا ہولڈ ہے، اب اندازہ لگائیں کہ ان کے تو وزیر دہشتگردون سے ڈرتے ہیں، یہ عوام کا تحفظ کیسے کریں گے۔ یہاں تو عوامی نمائندوں کا یہ حال ہے تو یہ دہشتگردوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ میں عمران خان سے سوال کرتا ہوں کہ ڈی آئی خان میں تو آپ کا ایک ایم پی اے موجود ہے، وہ لوگوں کے پاس کیوں چل کر نہیں جاتا۔ دیکھیں وہاں ہم پر ظلم ہو رہا ہے، لوگوں کا جانی نقصان ہو رہا ہے، ڈی آئی خان ہماری قتل گاہ بنا ہوا ہے، عمران خان کو خود وہاں پر جانا چاہیے تھا، ابھی تک کیوں نہیں کیا۔؟ عمران خان پنجاب میں تو جگہ جگہ پہنچ جاتا ہے، کسی اور صوبے میں ظلم و زیادتی ہو تو فوراً پہنچ جاتا ہے، لیکن اپنے صوبے میں یہ جانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ پوائنٹ سکورنگ کرتا ہے، دوسروں کو نیچا دکھاتا ہے، یہ انسانی مسئلہ ہے، عمران خان کے لوگ دلیر نہیں ہیں، یہ ڈرتے ہیں، ڈرپوک حکمران دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

ہمیں عمران خان سے مایوسی ہوئی ہے، انہیں خود ڈی آئی خان جانا چاہیے تھا، وہاں پر ہماری زمینوں پر قبضے کئے جا رہے ہیں، تین سو ستائیں کنال سے زیادہ زمین وہاں امام بارگاہ کے نام پر وقف ہے، محکمہ اوقاف کی جانب سے نگران دور میں جعلی طور پر انتقال کرایا گیا اور قبضہ کیا گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ زمین انتقال چڑھ چکی تھی، اب اس پر قبضہ کرکے کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں، افسوس اس بات ہے کہ ہندوں اور عیسائیوں کی زمین پر قبضہ نہیں کیا گیا، لیکن سرکاری سرپرستی میں وہاں پر 2013ء میں یعنی نگران حکومت کے دور میں قبضہ کیا گیا۔ ہم نے بار بار کہا کہ جعلی انتقال کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے، لیکن وہ نہیں کر رہے۔ عمران خان تحریک انصاف کی بات کرتا ہے انصاف چاہتا ہے، بابا دیگ کا ایک چاول چک کرو تو پوری دیگ کا پتہ چل جاتا ہے، ہمیں افسوس ہے کہ ڈیرہ میں امن قائم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا، ہم کہتے ہیں کہ آرمی چیف خود دلچسپی لیں۔ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں۔ ہم سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے پر بھی مشاورت کر رہے ہیں۔

سوال: 2018ء کے الیکشن کے حوالے کیا سوچ رہے ہیں۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ان شاء اللہ الیکشن میں بھرپور شرکت کریں گے، لوگوں کی رہنمائی کریں گے، کوشش کریں گے کہ کسی مناسب پارٹی سے اتحاد ہو جائے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھی کوشش کر رہے ہیں، بلآخر ہم ایک مذہبی سیاسی جماعت ہیں۔

سوال: کیا ایم ایم اے کا حصہ بنیں گے، اگر رابطہ کیا جائے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ہم ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنیں گے، ایم ایم اے نے جو کام کیا، کے پی کے میں ہم ابھی تک اسے بھگت رہے ہیں، ان لوگوں نے متعصب لوگوں کو بھرتی کیا، میرٹ کی پامالی کرکے تکفیریوں کو بھرتی کیا گیا، ہر ادارے کے اندر تکفیری سوچ کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان لوگوں نے جو ایک بڑا کام کیا وہ یہ کہ ایجوکیشن، ہیلتھ، پولیس اور ایجنسی میں جگہ جگہ پر اپنے لوگوں کو بھرتی کیا، اگر ایم ایم اے کی کسی بھی صوبے میں حکومت آگئی تو آپ سمجھیں کہ وہ صوبہ برباد ہو جائے گا، یہ لوگ ہر ادارے میں اپنی سوچ کے حامل افراد بیٹھانا چاہتے ہیں، یہ میرٹ کے قاتل ہیں۔ ان کی چھتری تلے دہشتگرد اور انتہا پسند پرواز چڑھتے ہیں۔ ڈی آئی خان میں پولیس میں ان کے لوگ ہیں، یہ لوگوں کی ریکی کرواتے ہیں، ڈی آئی خان میں اعلٰی عہدوں پر فائز لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ ہمارے لئے ایم ایم اے دور میں بھرتی کئے گئے لوگ بڑا مسئلہ ہیں، اس وقت جو ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور قتل عام ہو رہا ہے، اس کی ایک وجہ وہ لوگ ہیں، جو اس وقت بھرتی کئے گئے۔ ایم ایم اے میں تکفیری اور انتہا پسند لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔

سوال: کسی جماعت نے رابطہ کیا۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ہمارے ساتھ پیپلزپارٹی نے رابطہ کیا ہے اور عمران خان نے بھی رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

وحدت نیوز (انٹرویو) اپنے خصوصی انٹرویو میں بلوچستان کے وزیر قانون کا کہنا تھا کہ آپ چار ماہ کی بات چھوڑیں، صرف چار دن دیکھ لیں، آپکو پتہ لگ جائیگا کہ ان چار دنوں میں وہ کام ہوئے ہیں، جو چار سال میں نہیں ہوسکے۔ وزیر صبح سے لیکر رات گئے تک اپنے آفسز میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر چھاپے پڑ رہے ہیں، میرے اپنے ڈیپارٹمنٹ جہاں بےضابطگیاں ہوئی ہیں، انکے خلاف ایکشن لیا ہے، چار ماہ میں وہ کام کرکے دکھائیں گے، جو یاد رکھا جائیگا۔
 
بلوچستان کے وزیر قانون آغا محمد رضا کا تعلق  کوئٹہ شہر سے ہے وہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما اور شوریٰ عالی کے رکن بھی ہیں، آغا رضا نے 2013ء کے عام انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، حال ہی میں وزیراعلٰی ثناء اللہ زہری کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں فرنٹ لائن پر تھے، انکو پیچھے ہٹنے کیلئے کروڑوں روپے کی آفر بھی کرائی گئی، لیکن آغا رضا اپنے اسٹینڈ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے اور یوں وزیراعلٰی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی، ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے  نےمجلس وحدت مسلمین سے تعلق رکھنے والے  صوبائی وزیر قانون سے تمام تر سیاسی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

02سوال: آپ پر ایک الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ آپ نے غیرجمہوری قوتوں کیساتھ ملکر ثناء اللہ زہری کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے، کیا کہتے ہیں۔؟
آغا محمد رضا: اگر کوئی جمہوریت پسند شخص یہ الزام لگاتا تو تب یہ سوچا جا سکتا تھا، مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص (نواز شریف) جو خود ضیاء الحق جیسے ملعون ترین ڈکٹیٹر کے کندھوں پر بیٹھ کر اس منصب پر پہنچا، وہ دوسروں پر الزام تراشی کر رہا ہے، میں ان الزامات کو بےسروپا باتوں سے تشبیہ دوں گا، کیونکہ ہم یہ تبدیلی آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے لائے ہیں، ہم نے ایک آئین کی شق کا استعمال کیا ہے اور نیا وزیراعلٰی لائے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی غیر قانونی و غیر آئینی اقدام ہے، آپ کسی بھی سیاسی ورکر یا آئینی ماہر سے پوچھ لیں، وہ بتا دیں گے، اگر اسی آئین کے تحت الیکشن کرائے جا سکتے ہیں، حلف اٹھایا جا سکتا ہے تو وزیراعلٰی بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں غیر قانونی یا اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر تو آئین کی کسی شق کا استعمال کسی کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بنانا ہے تو  پھر میں الیکشن میں حصہ لینے کو بھی اسٹیبلمشنٹ کی بی ٹیم سمجھتا ہوں۔ یہ غیر منتطقی باتیں ہیں، جس میں کوئی صداقت نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اسٹیبلمشنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر کون وزارت عظمٰی کے منصب تک پہنچا ہے۔

سوال: پھر اہم سوال یہ بنتا ہے کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے آپ لوگوں کو مجبور کیا کہ نیا قائد ایوان لائیں۔؟
آغا محمد رضا: جی اصل وجہ یہ تھی کہ حکومت چند ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی تھی، ترقیاتی کام نہیں ہو پا رہے تھے، کرپشن اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھی، ظاہر ہے کہ ہم نے بھی عوام میں جانا ہے، ہم نے اپنی یونین کونسل میں جانا ہے، لوگ آکر ہمارا گریبان پکڑتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ آپ نے ان پانچ برسوں میں کیا کیا ہے، ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، کیونکہ انہوں نے ترقیاتی فنڈز روک رکھے ہیں، اتنی آسامیاں خالی پڑی ہیں، ان کو پر نہیں کیا گیا، لوگوں کی نگاہ میں ہمیں 25 کروڑ روپے سالانہ ملتے ہیں، لیکن گراونڈ پر صورتحال تو کچھ اور ہے۔ صرف یہ میری پریشانی نہیں بلکہ سب کی پریشانی تھی، اسی لئے 41 ارکان نے تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیا، اسی وجہ سے ہمیں کامیابی ملی ہے۔ اکتالیس ارکان کا مطلب یہ ہے کہ واضح اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور سب کا غم ایک ہے۔ یہ تحریک حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف تھی، جو کامیاب ہوئی۔ سادہ الفاظ میں یہی کہوں گا کہ حکومت مخالف تحریک دراصل فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور لاقانونیت کے خلاف تھی۔ الحمداللہ ہم نے اس مسئلے کو اٹھایا اور ہم نے دیگر ارکان کو بھی راستہ دکھایا، جو تبدیلی کا راستہ تھا اور ہم کامیاب ہوئے ہیں، ہم نے ظلم اور ناانصافی کیخلاف اپنی آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، ہر محاذ پر مظلوموں کی جنگ جاری رکھیں گے۔

سوال: کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلٰی کی تبدیلی کا مقصد سینیٹ الیکشن پر اثرانداز ہونا تھا، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
آغا محمد رضا: میں اس تاثر کو رد کرتا ہوں، پتہ نہیں لوگ کہاں سے رائے گھڑ لیتے ہیں، یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم سینیٹ الیکشن پر اثرانداز ہوں گے اور نئی حکومت توڑ دیں گے۔ میں ایک سوال کرتا ہوں کہ یہ جو حکومت تبدیل کرنے کی ایک خواری کاٹی گئی ہے، کیا فقط دس پندرہ دن کیلئے تھی؟، باکل بھی نہیں۔ یہ ساری باتیں ہیں، ان میں کوئی صداقت نہیں۔ الیکشن وقت پر ہونگے اور یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ سینیٹ پر بھی کوئی اثرانداز نہیں ہوگا۔

سوال: یہ کیا ہوا جیسے ہی آپ لوگوں نے حلف اٹھایا ساتھ ہی کچھ دیر بعد دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہوگیا، کیا یہ کوئی پیغام تو نہیں تھا۔؟
آغا محمد رضا: جی باکل یہ ایک مسیج تھا کہ جو جرات آپ لوگوں نے دکھائی ہے اور یہ کام کیا ہے، اس کا انجام بہت بھیانک نکلے گا، میں سمجھتا ہوں کہ اصل میں یہ پارلیمنٹ کے اوپر حملہ تھا، میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں فورسز کے جوانوں کو جہنوں نے بروقت کارروائی کرکے دہشتگردوں کو روکا، ورنہ آپ اس جگہ کو جا کر دیکھیں، یہ تو چند میٹر پر دہشتگردی کا واقعہ ہوا۔ یہ مین گیٹ سے جہاں سے ہم نکلتے ہیں، اسی راستے پر ہوا ہے۔ اسمبلی سے واپس آتے ہوئے ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا، ورنہ ہمیں بھی مار دیا جاتا۔

سوال: یہ کس کیطرف سے مسیج تھا۔؟04
آغا محمد رضا: (ہنستے ہوئے)، ظاہر ہے اسکا جواب تو اتنا مشکل نہیں ہے، آپ خود پہنچ سکتے ہیں، کون تھے جنہوں نے اسمبلی کے ارکان کو دھمکانے کی کوشش کی۔

سوال: کیا اسکا اندازہ تھا کہ اگر تحریک عدم لائے تو آپ لوگوں پر اسطرح کے واقعات بھی ہوسکتے ہیں۔؟
آغا محمد رضا: خطرہ نہیں بلکہ سب کو یقین ہو چلا تھا، مطلب جب تحریک عدم اعتماد کی بات ہوئی، اسی دن سے صاف نظر آرہا تھا، پچھلے چار سال کی کارکردگی آپ کے سامنے تھی اور سب کو پتہ تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔

سوال: اہم سوال یہ ہے کہ ان چار ماہ میں کیا ہوسکتا ہے، کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ فوری طور پر بڑی تبدیلی لے لائیں۔؟
آغا محمد رضا: آپ چار ماہ کی بات چھوڑیں، صرف چار دن دیکھ لیں، آپ کو پتہ لگ جائیگا کہ ان چار دنوں میں وہ کام ہوئے ہیں، جو چار سال میں نہیں ہوسکے۔ وزیر صبح سے لیکر رات گئے تک اپنے آفسز میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر چھاپے پڑ رہے ہیں، میرے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جہاں بےضابطگیاں ہوئی ہیں، ان کے خلاف ایکشن لیا ہے، چار ماہ میں وہ کام کرکے دکھائیں گے، جو یاد رکھا جائیگا۔

سوال: آپ نے کیا ذہن بنایا ہوا ہے کہ اہم ایشوز کون سے ہیں، جنہیں فوری حل کرنا ضروری ہے۔؟
آغا محمد رضا: سب سے پہلے بے روزگاری کا خاتمہ ہے، جو فنڈز روکے گئے ہیں، ان کی بحالی ہے، اسی طرح کرپشن کا خاتمہ ہے، نئی بھرتیوں کو میرٹ پر پُر کرنا ہے۔ تقرریاں اور تبادلے میرے پاس ہیں، انہیں آن میرٹ کروں گا۔

سوال: ایک پریس کانفرنس میں آپ نے 35000 پوسٹوں پر بھرتیاں کرنیکا اعلان کیا ہے، کیا یہ ممکن ہے۔؟
آغا محمد رضا: دیکھیں میں نے یہ کہا ہے کہ پینتیس ہزار پوسٹوں کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن تاحال ان پر فقط پانچ ہزار بھرتیاں ہوئی ہیں، باقی تیس ہزار خالی پڑی ہیں، اس حوالے سے جلد انٹرویوز اور ٹیسٹ ہوں گے، یہ پوسٹیں فقط کوئٹہ نہیں بلکہ پورے بلوچستان کیلئے ہیں۔ ہم یہ آسامیاں میرٹ پر پُر کریں گے۔

سوال: دہشتگردی جو وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اسکے سدباب کیلئے کیا اقدامات اٹھائیں گے۔ نئی حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی حکمت عملی ہے۔؟
آغا محمد رضا: اصل میں جو نئی ٹیم بنی ہے، یہ سب ایک پیج پر ہیں، دہشتگردی، کرپشن اور بےروزگاری سمیت تمام ایشوز پر نئی ٹیم ایک پیج پر ہے، ایک بات واضح ہے کہ مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، اس کے حل کیلئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروکار لائیں گے، باقی دہشتگردی ایک عالمی مسئلہ ہے، جس میں کئی ممالک ملوث ہیں، اس کا خاتمہ فوری طور پر ممکن نہیں ہے، البتہ بہترین حکمت عملی سے دہشتگردوں سے نمٹا جاسکتا ہے اور واقعات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔

03سوال: مخالفین کا کہنا ہے کہ آپ نے جتنے بھی منصوبے شروع کئے تھے، وہ آج بھی مکمل نہیں ہوسکے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
آغا محمد رضا: آپ کو ایک وجہ تو بتا دی ہے کہ وزیراعلٰی کی تبدیلی لائی ہی اس لئے گئی ہے، کئی سالوں سے ہمارے ترقیاتی فنڈز رکے ہوئے تھے، البتہ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں اور پرامید ہوں کہ جتنے بھی منصوبے شروع کئے تھے، وہ مکمل ہوں گے، وہ عوام کو نظر آئیں گے۔ اگر ثناء اللہ زہری کی حکومت ہمارے فنڈز نہ روکتی تو آج ہمارے یہ منصوبے مکل ہوچکے ہوتے اور ہمیں یہ اقدام کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی، یہ اقدام کیا ہی اسی لئے ہے کہ ہمیں اگنور کیا جا رہا تھا۔ ہم نے یہ قدم اٹھایا ہی اسی لئے ہے کہ اربوں روپے کے پروجیکٹس ادھورے پڑے ہیں۔

سوال: تو کیا یہ منصوبے ان ان چار ماہ میں مکمل ہو جائیں گے۔؟
آغا محمد رضا: اگر ان چار ماہ میں مکمل نہیں ہو پاتے تو کم از کم ایسے اقدامات کئے جاسکتے ہیں کہ یہ ادھورے منصوبے مزید آگے تکمیل کی طرف بڑھیں۔ نامکمل کام بھی مکمل ہوتے ہیں، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

وحدت نیوز (انٹرویو) جی بی کے معروف عالم دین اور نامور عوامی لیڈر آغا علی رضوی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر نئی صف بندی ہوچکی ہے۔ اس نئی عالمی معاشی اور سیاسی صف بندی میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان بلوغت کیطرف جا رہا ہے اور اس نے عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تاہم سیاسی طور پر بھی ان نام نہاد اتحادی ممالک سے الگ ہونیکی ضرورت ہے جنہوں نے ستر سالوں میں پاکستان میں ناامنی اور قرضے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کی معیشت کو سود کی دلدل میں دھکیل دیا، پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسا دیا، پاکستان کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ اب ان آقاوں سے نجات حاصل کرنیکی کوشش ہے اور مقدسات کے نام پر بھی پاکستان نے بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ افغان وار اور طالبان مقدسات کے ہاتھوں یرغمال ہونیکا نتیجہ ہے۔ ریاستی اداروں کو اب پاکستان کے مفادات کیمطابق سابقہ تجربات کی روشنی میں واضح خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنیکی ضرورت ہے۔
 
حجت الاسلام آغا سید علی رضوی کا تعلق اسکردو نیورنگاہ سے ہے۔ وہ حوزہ علمیہ قم اور مشہد کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ گلگت بلتستان میں انقلابی تحریکوں کے سرخیل رہے ہیں۔ انجمن امامیہ بلتستان میں تبلیغات کے مسئول کے طور بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انقلابی فکر کے حامل جوانوں اور عوام میں ان کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ انہیں پورے خطے میں مقاومت و شجاعت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تمام ملی اور قومی بحرانوں میں عوام کی نطریں ان پر ہوتی ہیں۔ سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ گرفتار بھی ہوئے، تاہم حکومت عوامی ردعمل کے سبب فوری طور پر رہا کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ جی بی میں گندم سبسڈی کے خاتمے کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں بنیادی اور مرکزی شخصیت انکی ذات تھی اور انہوں نے حکومت کو عوامی تائید سے بارہ روزہ تاریخی دھرنے کے بعد سبسڈی بحال کرنے پر مجبور کیا۔ حالیہ دنوں میں انجمن تاجران کیجانب سے غیر قانونی ٹیکس کے خلاف سولہ روزہ دھرنے میں بھی وہ صف اول کا کردار ادا کرتے رہے اور اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عوامی حقوق کیلئے ہمہ وقت اور ہر حال میں میدان میں رہنے کے سبب خطے کے عوام انکے معترف ہیں۔ اسوقت عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان سمیت مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کی مسئولیت بھی انکے کندھوں پر ہے۔ مقبول عوامی لیڈر آغا علی رضوی سے غیر ملکی خبررساں ادارےنے ملکی اور علاقائی صورتحال پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

سوال: سب سے پہلے دسمبر اور جنوری کی سخت ترین سردی میں ٹیکس کیخلاف 16 روزہ تحریک کی کامیابی پر آپکو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ اس کامیابی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
آغا علی رضوی: آپ کا شکریہ، میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کی کامیابی پر مبارکباد کے مستحق انجمن تاجران کے سربراہ غلام حسین اطہر اور عوامی ایکشن کمیٹی جی بی کے سربراہ مولانا سلطان رئیس ہیں۔ انکی شجاعت، بہادری، حکمت عملی اور جہد مسلسل کے نتیجے میں یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ان کے بعد گلگت بلتستان کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں، جنہوں نے علاقائیت، لسانیت، فرقہ واریت اور دیگر حکومتی سازشوں کا مقابلہ کرکے اسے کامیاب کیا۔ جہاں تک اس تحریک کی کامیابی کا سوال ہے تو ٹیکس کی معطلی کو میں جزوی کامیابی قرار دیتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور منسوخی کو معطلی بنا دیا۔ ساتھ ہی حکومت کے ساتھ تین نکاتی ایجنڈے پہ معاہدہ ہونے کے بعد لانگ مارچ کو ختم کیا تھا۔ اس میں سے ایک نکتہ آئندہ جی بی کے عوام پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لگانے کی حامی بھرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل اور انٹرنیشنل کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات کو جی بی اسمبلی کو دینا طے پایا تھا، لیکن حکومت اس میں سنجیدہ نہیں لگتی۔

سوال: ذرائع کیمطابق حکومت نئے ٹیکس ایکٹ کے تحت گلگت بلتستان کے عوام پر ٹیکس لگانیکی کوششوں میں ہے، آپکا کیا لائحہ عمل ہوگا۔؟
آغا علی رضوی: وفاقی حکومت کی کوشش ہوگی کہ جی بی کے حقوق سے محروم غریب عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالے، لیکن ہم عوامی طاقت سے ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں اربوں روپے جی بی کے عوام پہلے ہی وفاق کو دے رہے ہیں، ستر سالہ محرومی کے بعد ٹیکس کا نفاذ بہت بڑا ظلم ہے۔ یہاں پر موجود عوام کا معیار زندگی انتہائی پست ہے اور وہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق بھی میسر نہیں۔ ایسے میں عوام ٹیکس کیسے برداشت کرے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پورے گلگت بلتستان میں ایک معیاری ہسپتال نہیں، ایک بین الاقوامی معیار کے مطابق یونیورسٹی نہیں، ایک میڈیکل کالج نہیں، ایک انجینئرنگ کالج نہیں، انفرا اسٹریکچر تباہ حال ہے، سڑکیں خستہ حال ہیں، جس خطے میں ایک لاکھ میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کے مواقع ہوں، وہاں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ اس جنت نظیر وسائل سے بھرپور خطے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے ایماء پر بھرتیوں میں من مانیاں اور ٹھیکوں میں بندر بانٹ یہاں تک کہ منصوبوں کی تقسیم میں نا انصافیاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں آپ عوام سے کس طرح ٹیکس لینے کی بات کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کونسے بڑے عوامی منصوبے تیار کئے ہیں، جو عوام کا معیار زندگی بلند ہونے میں ممد و معاون ثابت ہوئے ہوں۔ وفاقی جماعتوں کا کام دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ریاستی طاقت استعمال کرکے الیکشن کو ہائی جیک کرنا اور بعد میں ریاستی طاقت و فورتھ شیڈول کے ذریعے مخالف جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے علاوہ کیا رہ گیا ہے۔ ستر سالوں میں اس خطے کے عوام کو اپنے پاوں پہ کھڑا کرنے کے لئے کونسا کام کیا گیا ہے۔

سوال: آپ مسلم لیگ نون کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بلتستان یونیورسٹی دی اور گلگت اسکردو روڈ دیا، کیا یہ بڑے کام نہیں۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! مسلم لیگ نون کی ہم مخالفت برائے مخالفت نہیں کرتے۔ یہ چیز واضح کر دوں کہ کسی بھی جماعت سے مخالفت کرنا ہمارا جمہوری حق ہے اور دشمنی کسی سے نہیں، اگر وہ ریاست کے دشمن نہ ہوں۔ یہ الگ بات کہ مسلم لیگ نون کی حکومت ہمارے ساتھ دشمنوں سے بدتر سلوک کرتی ہے۔ اس جماعت سے اختلافات نظریاتی اور عملی دونوں بنیادوں پر ہے۔ نظریاتی طور پر آپ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کی تربیت ایسے آمر نے کی، جس نے ملک میں فرقہ واریت کا آغاز کیا، جس نے طالبان جیسے ناسور کی بنیاد رکھی، جس نے پاکستان آرمی کے اسٹریٹیجی کو تبدیل کرکے امریکہ کی نیاتی جنگ افغانستان میں لڑی، جس کے نتائج آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ یہی نواز شریف اس وقت غالباً پنجاب کا وزیر قانون اور بعد میں ضیاءالحق کے دست راست کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اسی دور میں فرقہ واریت کو ہوا ملی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ اس فرقہ واریت کی لعنت میں وطن عزیز کے کتنے سرمایہ کار، کتنے ڈاکٹرز، کتنے پروفیسرز، کتنے جج جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، آپ جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جانتے ہیں کہ اس جماعت کے رہنماوں کے ساتھ انڈیا کے براہ راست رابطے ہیں۔ یہ الزام دوسروں پہ لگاتے ہیں جبکہ یہ خود انڈیا کے تجارتی شراکت دار ہیں۔ ان کی ملوں میں انڈیا کے ملازمین ہیں، مودی کو گھروں میں بلانے والے ہیں۔ گویا پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے یہ امین نہیں رہے۔ پانامہ کی کہانیاں الگ سے ہیں، ملک پہ قرضوں کا بوجھ الگ کہانی ہے۔

جی بی کے حوالے سے خصوصی طور پر مجھے جو دکھ ہے، وہ یہ ہے کہ معرکہ کرگل میں ہمارے شیر دل جوان ان سرحدوں کو واپس لائے، جو 71ء کی جنگ میں ہم نے گنوا دیئے تھے، اس کے علاوہ کرگل کے ٹائیگر ہل اور کافر پہاڑ تک سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ دوسرے الفاظ میں کرگل پر بھی قبضہ جمایا تھا اور دشمن فوج کو دھول چٹا دی تھی۔ اچانک اسی نواز شریف کے ساتھ انڈیا کے سربراہ کے مذاکرات ہوتے ہیں اور یہ ہماری فورسز کو واپس بلانے پر راضی ہو جاتا ہے۔ میں آج بھی جاننے سے قاصر ہوں کہ معرکہ کرگل کے جوانوں کا خون کس قیمت پہ بیچ دیا گیا۔ ہمیں بتایا جائے کہ ان مذاکرات میں کیا معاملات طے پائے تھے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے، جب اس عظیم فتح کے نتائج کچھ نظر نہیں آتے۔ یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اس جماعت سے اختلافات ہیں اور یہ بھی عرض کردوں کی انکے سیاسی آقا کے دور میں ہی جی بی میں باقاعدہ لشکر کشی ہوئی، ادارے تماشائی بن کر بیٹھے رہے، جسے سانحہ 88 کہا جاتا ہے، اس لشکر کشی پر آج تک ایف آئی آر نہیں ہوسکی۔ ذمہ داران کا تعین نہیں ہوسکا۔ قوم کو بتایا جانا ضروری ہے کہ اس دن سے حالیہ دنوں تک شاہراہ قراقرم بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوتی رہی۔ یہاں پر فرقہ واریت کو ترویج ملی، جبکہ جی بی میں تمام مسالک ایک دوسرے سے محبت کرتے اور صدیوں سے محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے تو آپ مجھے بتا دیجئے کیا سابقہ الیکشن میں گلگت اسکردو روڈ اور بلتستان یونیورسٹی انکے الیکشن کے منشور میں تھی کہ نہیں۔ دوسرے الفاظ میں عوامی مینڈیٹ ہی انہی منصوبوں کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ عوام نے انہیں جتوایا ہی اسی منشور کے سبب تھا تو ان کا کون سا احسان ہے۔ اقتدار پہ پہنچایا ہی اسی کام کے لئے تھا تو کرنا انکی مجبوری تھی۔ رہی بات گلگت اسکردو روڈ پر بھی تحفظات اپنی جگہ قائم ہے۔ اس کے لئے تخمینہ شدہ بجٹ میں کئی ارب روپے کم کئے گئے، میری اطلاعات کے مطابق اس پرانے نقشے کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ اس بات کی تصدیق کسی حکمران جماعت کے رکن اسمبلی نے برملا کی ہے۔ اس وقت صوبائی حکومت خود گلگت اسکردو روڈ کی جزوی تفصیلات بتانے سے قاصر ہے، اسکا معیار کیا ہوگا اور تکمیل کب ہوگی، یہ الگ سوال ہے۔ دوسری بات آپ یونیورسٹی کے حوالے سے پوچھ رہے تھے تو میں عرض کروں کہ کہاں کی یونیورسٹی کی بات کر رہے ہیں آپ۔ قراقرم یونیورسٹی کے کیمپس کا نام تبدیل کرنا کونسا بڑا کارنامہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کے آئی یو کا کیمپس قائم رہتے اور نئے سرے سے ایک معیاری یونیورسٹی قائم کرتے، مگر اس میں بھی خطے کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
 
سوال: ایک معاملہ اٹھا تھا کہ حکمران جماعت اور اراکین اسمبلی کی طرف سے آپ کو مختلف نمبرز سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں، کیا وہ نمبرز ٹریس ہوئے کہ نہیں۔؟
آغا علی رضوی: (مسکراتے ہوئے) یہ چیزیں عوامی تحریک کا حصہ ہے اور ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ہم اپنی توانائیاں ان چیزوں پر صرف نہیں کرسکتے۔ ہمیں کرنے کے بہت کام نہیں۔ جی بی کے عوام کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں، اسے میں آسانی سے نمٹ سکتا ہوں۔ اور یقیناً حکومت کی طرف سے کوششیں ضرور ہوتی ہیں۔ وہ بھی نون لیگ جیسی حکومت ہو جسکے پاس کوئی اقدار نہیں ہوتا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ جب عوامی حقوق کے لیے نکلے ہیں تو ظالموں سے مقابلہ کسی بھی صورت ہونا ہے۔ ظالم قوتیں اپنی پوری کوشش کریں گی کہ انکی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے لیکن جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہیں جب تک زندگی رہے گی ہر چھوٹے سے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ظلم کے سامنے ڈٹتا رہوں گا۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں عوامی جدوجہد اور انصاف کی بالادستی کے لیے کوشش کرنے سے نہیں روک سکتی۔ البتہ جن نمبروں سے مسیجز موصول ہوئے ہیں ان کی نقاب کشائی کی جائے گی، خطے کے امن اور میرے دوست احباب کے جذبات کے پیش نظر ظاہر ہے معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنا ہوگا۔ میں اداروں تک بھی تفصیلات پہنچا دوں گا اور اس سلسلے میں واضح ہو رہا ہے کہ کون کون مزموم عزائم رکھتے ہیں۔
 
سوال:کیا یہ بات درست ہے کہ آپ کی جماعت کو سی پیک پر تحفظات ہے۔؟
آغا علی رضوی: سی پیک پاکستان کے معاشی استحکام کا ضامن ہے۔ اس کی تعمیر کسی بھی قیمت پر ہونا ضروری ہے، البتہ پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے۔ ہمیں سی پیک پر کسی قسم کے تحفظات نہیں۔ اسے پاکستان کے لیے ناگزیر سجھتے ہیں تاہم اس کی تقسیم میں حکومتوں نے بڑی خیانتیں کی ہیں۔ ہمیں تحفظات ہیں تو اس بڑے منصوبے کو خراب کرنے اور اس کے ثمرات کو عوام تک نہ پہنچانے کے سلسلے میں موجود رکاوٹوں پر تحفظات ہیں۔ دیکھیں! سی پیک جیسا بڑا منصوبہ یہاں سے گزرتا ہے لیکن اس میں جی بی کی تعمیر و ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ سی پیک میں جی بی کو بڑا حصہ ہے، لیکن منصوبے کے نقشوں اور تفصیلات جو میرے پاس ہیں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ کاغذات سے ہٹ کر بھی اگر کام ہوتا ہو تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس سلسلے میں حکمرانون سے بھی پوچھا گیا تو ان کے پاس بھی کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔ صرف یہی کہتے ہیں کہ جی بی کو حصہ ہے۔ اس معاملے پر جب آواز بلند کی جاتی ہے تو فوری طور پر اس آواز کو سی پیک کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کرنے کی خیانت کی جاتی ہے۔

وہ تمام منصوبے جو پاکستان کے معاشی استحکام کا باعث ہو ہم ان میں مددگار ہیں۔ لیکن یہ کوئی منطق نہیں کہ پنجاب میں اربوں کے منصوبے اسی پیک کے ذریعے ہو جیسے اورینج ٹرین منصوبے پر عمل ہو اور جی بی میں کچھ بھی نہ ہو۔ میرا مطالبہ ہے کہ سی پیک میں تمام صوبوں کو برابر حصہ دیا جائے اور جو صوبے زیادہ مستضعف ہو ان کو دوسروں سے فوقیت دی جائے۔ یہ کسی صورت انصاف نہیں کہ سارے منصوبے تخت لاہور میں انڈیل دیں۔ اصل میں پاکستان کا استحکام ہی اسی میں ہے تمام خطے مستحکم ہوں اور کسی بھی خطے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ مشرقی پاکستان کی علحیدگی ہی نااہل حکمرانوں کی غلط پالیسی اور احساس محرومی کا نتیجہ تھا۔ اس سلسلے میں عوامی مہم بھی چلائیں گے اور مقتدر حلقوں سے بھی گزارش کریں گے۔ ساتھ ہم ساری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سی پیک اور دیگر علاقائی حوالے سے آرمی چیف کے نام ایک کھلا خط بھی بھیج دیں گے۔ اس میں واضح طور پر لکھ دیں گے کہ وطن کے حقیقی محبین کو معتصب قوتین کس طرح غدار بناکر پیش کر رہی ہیں اور ہمارے ساتھ کس طرح کے ناروا سلوک جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سی پیک کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو ان قوتوں سے پہنچ سکتا ہے جو اپنے اقتدار کی خاطر اس خطے میں بے چینی پھیلا رہی ہیں اور عوام جو کہ خطے کا محافظ ہے، کو غیروں کا ایجنٹ بنا کر پیش کر رہی ہیں۔
 
 
سوال:گندم سبسڈی تحریک کے بعد حالیہ ٹیکس مخالف تحریک میں آپ نے کیا کھویا اور کیا پایا۔؟
آغا علی رضوی: حالیہ ٹیکس مخالف تحریک سخت ترین موسم میں شروع کی گئی تھی۔ موسمی حالات کے پیش نظر میں ذاتی طور پر فکر مند بھی تھا کہ منفی پندرہ سینٹی گریڈ کی سردی میں عوام کو کیسے گھروں سے نکالیں۔ اس کا آغاز انجمن تاجران نے کیا تھا اور انکے ساتھ میدان میں عوامی ایکشن کمیٹی سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں موجود تھیں۔ جب عوام پر جاری ظلم کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو عوام نے جس طرح کی استقامت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال ستر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس ٹہٹھرتی سردی میں جس طرح عوام کا سمندر امڈ آیا ناقابل یقین تھا۔ میں اپنے عوام کو داد دیتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں۔ لانگ مارچ کا فیصلہ ہوا تو اس دوران ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ڈیزل اور پیٹرول پمپس بھی بند کر دئیے تھے، اس کے باجود عوام کا سمندر آیا، ساری ساری رات جاگ کے گزارے، اس سخت سردی میں کھلی گاڑیوں کی چھت پر بیٹھ کر سفر کیے۔ میں جب جوانوں کے جذبات اور جذبہ فداکاری دیکھتا ہوں تو شرمندہ ہوتا ہوں۔ اس تحریک میں کھویا کچھ بھی نہیں البتہ بہت کچھ پایا۔ لوگوں میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوا، شعور پیدا ہوا، لوگوں نے فرقہ واریت کی بت کو توڑ دیا، عوام نے علاقائیت کے طوق کو گردن سے اتارا، لوگوں نے محبت عام کی۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ عوام نے یہ بات تسلیم کرلی کہ اگر عوام متحد ہو کر میدان میں آجائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
 
سوال:گلگت بلتستان کے وہ کونسے مسائل ہیں جو سب سے اہم ہیں اور آپ کسی بھی قیمت پر خاموش نہیں رہ سکتے۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم کسی بھی ظلم پہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ یہ ہمارے جماعت کے لیے طرہ امتیاز ہے کہ ہم ہر ظلم کے خلاف میدان میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چاہے وہ ظلم چھوٹا ہو یا بڑا۔ ہم ہر مظلوم کے حامی اور ظالم کے مخالف ہیں۔ اگر جی بی کی بات کی جائے تو گندم سبسڈی، ٹیکس کے علاوہ خالصہ سرکار کے نام پر عوامی اراضی پر قبضہ بڑا ظلم ہے۔ یہاں کے وسائل کو لوٹنا ظلم ہے۔ یہاں پر میرٹ کی دھجیاں اڑانا ظلم ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور دہشتگردی تو تعلیمی اداروں کو خراب کرنا، معیار تعلیم کو گرانا ہے۔ ان تمام مظالم پر ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں اور جائیں گے۔
 
سوال: دفاعی اہمیت کے حامل خطہ ہونے کے ناطے آرمی کی جی بی میں فعالیت کو آپ جمہوری اقدار کی راہ میں رکاوٹ نہیں تسلیم کرتے اور یہ کہ آپ اپنے خطاب کے دوران اکثر آرمی سے مطالبہ کرتے ہیں اس طرح آپ اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرتے ۔؟
آغا علی رضوی: میری خواہش ہے کہ ریاست کے تمام ادارے مضبوط ہوں۔ عدلیہ انصاف کی بالادستی کسی قیمت پر قائم رکھے، مقننہ اپنی سرگرمیاں مثبت انداز میں سرانجام دیں، اسی طرح مجریہ بھی اپنے دائرے میں کام کرے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مقننہ میں قومی مفاد کو فرد کے مفادات پر قربان کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومتوں نے اثر نفوذ قائم کر کے ریاستی اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ انتظامیہ ریاست سے زیادہ حکومت کی وفاداریاں نبھاتی ہیں۔ پولیس حکومت کی فورس بن جاتی ہے۔ اس میں واحد آرمی ہے جو حکومتی فورس نہیں بلکہ ریاست کی فورس ہے اور ہونی چاہے۔ اگرچہ آرمی سے بھی مختلف موضوعات پہ شکایت ہوسکتی ہے اور ہے۔ ماضی کے کچھ فیصلوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اسوقت آپ دیکھتے ہیں کہ وہ فورس جس نے آپ کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنی تھی آج آپ کی سڑکوں کی حفاظت کے لیے بھی پہنچی ہوئی ہے۔ سیلاب آئے تو فوج، زلزلہ آئے تو فوج، دھرنا کنٹرول کرنا ہو تو فوج یعنی آپ ہر جگہ اپنی نالائقی چھپانے کے لیے فو ج کو استعمال کرتی ہے اور بعد میں جمہوریت کا رونا بھی روتے ہیں باوجودیکہ نامساعد حالات میں آپ کا آئین ان چیزوں کی اجازت دے دیتا ہے۔

جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہیں کہ یہاں پر اگر کوئی معیاری تعلیمی ادارہ ہے تو فوج کا، ہسپتال ہے تو فوج کا، کوئی اہم کالج ہے تو فوج کا گویا، اکلوتی یونیورسٹی فوجی حکمران کے دور میں بنی، سدپارہ ڈیم فوجی حکمران کا منصوبہ، ابھی گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر فوج کے پاس، گویا انکی فعالیت ہر میدان میں سب سے زیادہ ہے۔ میں جمہوری اقدار اور حکومت پر یقین رکھتا ہوں لیکن بتائیں اس خطے کو آپ کے جمہوری حکمرانوں نے کیا دیا۔ جب تک فوج کردار ادا نہ کرے آپ کے جمہوری حکمران عوام سے مذاکرات کے لیے ٹیبل پر آنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہے آپکی جمہوریت کا رویہ اور انداز۔ لہٰذا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جی بی کی تعمیر و ترقی میں پاک فو ج کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اور امید ہے آئندہ بھی اس سے بڑھ کر کرار ادا کرے گی۔ ان سے مطالبات کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے تو ظاہر ہے سب سے زیادہ بااختیار اور موثر ادارہ فوج ہی ہے۔ ان سے مطالبات کرنا کوئی جرم نہیں۔ حکومتوں سے مطالبات کرنا موجودہ حالات میں حماقت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ جی بی کی حکومت کے اپنے ہاتھ میں کچھ نہ ہو اور وفاقی آقاوں سے سامنے ہاتھ ملتے رہنے اور انکی تعریف کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہ ہو تو آپ ان سے کیا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ رہی فوج سے مطالبات کرنے کے نتیجے میں مشکلات کا ذکر تو کبھی ہم نے ذاتی مفادات کے حوالے سے مطالبہ نہیں کیا۔ ہم نے خطے کی تعمیر و ترقی، خطے کے استحکام، خطے میں امن و امان کی بالادستی، خطے میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے آواز بلند کی ہے اور کرتا رہوں گا۔ یہ خطہ، یہ عوام اور اسکی ترقی و خوشحالی ہی تو پاکستان کی خوشحالی ہے۔
 
سوال:اس وقت عالمی حالات میں کیا تبدیلیاں آرہی ہے اور اس کا پاکستان بلخصوص گلگت بلتستان پر اثرات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس میں آپ کیا کردار ادا کریں گے۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! بہت اہم سوال آپ نے کیا۔ عالمی طور پر سماجی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر بہت بڑی مثبت تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں۔ اگر سماجی طور پر دیکھیں تو اقوام عالم کے افکار کو غلط رخ دینے کی جو کوششیں کی گئی ہیں وہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ بلخصوص اسلام جو کہ دین فطرت ہے اسکے آفاقی اور کامل ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، تاہم جن ادیان کو اسلام سے خطرہ تھا انہوں نے کئی عشروں پر محیط کوششوں کے بعد اسلام کی غلط تعبیر کی کوشش کی۔ اس کے لیے اسلامی مکاتب فکر کے اختلافات کو ہوا دینا، دہشتگرد جماعتوں کو بنانا، اسلامی ممالک میں اثر نفوذ پیدا کرکے اس کے اقدار کو ختم کرنا اور فساد پھیلانا شامل ہے۔ لیکن اقوام عالم جان چکی ہیں کہ اسلام کی اصل تعلیمات کیا ہیں، اسلام کیسا معاشرہ چاہتا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کے سرمایے اب ضائع ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور سخت کوشش ہوگی، بلخصوص پاکستان کے معاشرہ میں موجود اقدار و تہذیب کو خراب کرنے کی کوشش ہوگی۔ اس کے علاوہ اقتصادی اور سیاسی طور پر دیکھیں تو دنیا نئے سیاسی عمل میں داخل ہوچکی ہے۔ یک قطبی یا دو قطبی طاقت زمانہ گزر چکا ہے۔ دنیا کے جو سپر طاقتیں تھیں معاشی و سیاسی طاقتیں تھیں اور دنیا میں ایک پتہ بھی انکی مرضی سے نہیں ہلتا تھا اب چھوٹے سے چھوٹا ملک جیسے کیوبا ہے کوریا ہے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگا ہے۔

عالمی سطح پر نئی صف بندی ہو چکی ہے۔ اس عالمی نئی معاشی اور سیاسی صف بندی میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان بلوغت کی طرف جا رہا ہے اور عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تاہم سیاسی طور پر بھی ان نام نہاد اتحادی ممالک سے الگ ہونے کی ضرورت ہے جنہوں نے ستر سالوں میں پاکستان میں ناامنی اور قرضے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کی معیشت کو سود کی دلدل میں دھکیل دیا، پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسا دیا، پاکستان کو بدنام کر کے رکھ دیا۔ اب ان آقاوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش ہے اور مقدسات کے نام پر بھی پاکستان نے بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ افغان وار اور طالبان مقدسات کے ہاتھوں یرغمال ہونے کا نتیجہ ہے۔ ریاستی اداروں کو اب پاکستان کے مفادات کے مطابق سابقہ تجربات کی روشنی میں واضح خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

مختصر طور پر گلگت بلتستان کے حوالے سے عرض کروں تو میں سمجھتا ہوں کہ جی بی اس وقت دنیا کا حساس ترین علاقہ بن چکا ہے۔ سماجی طور پر بھی یہاں پر تبدیلی لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں یہاں اثر نفوذ بڑھا چکی ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حساس ادارے خواب خرگوش سو رہے ہیں اور امریکہ ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ پیسوں کی وسیع تر سرمایہ گزاری ہو چکی ہے اور میں ثبوت بھی پیش کر سکتا ہوں کہ آپ کے قانون ساز اداروں تک انہوں نے غیر معمولی جگہ بنالی ہے اور عوام میں بھی اثر نفوذ پیدا کر لیے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نجات دہندہ بشیرت ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر واقعی وہ پاکستان کا دوست ہے تو ستر سالہ دوستی کے نتیجے میں پاکستان پہلے سے کمزور کیوں ہوا انکی مدد سے طاقتور ہونا چاہیے تھا۔ ان کے علاوہ یورپی طاقتوں کی سرگرمیاں بھی یہاں تیز ہو گئی ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق یہاں دہشتگرد جماعتوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ جی بی اس وقت اکنامکل ہب بننے جا رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی مستقبل اس خطے کے امن و امان پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں گلگت بلتستان میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے، بھائی چارگی اور اخوت کی فضاء قائم کرنے کے لیے ہم پہلے سے میدان میں ہے اور اب بھی رہیں گے۔

سی پیک کے حوالے سے جیسا کہ عرض کیا گیا جی بی کو برابر حقوق نہیں ملے ہیں، میں نے جب اس سلسلے میں مشاہد حسین سید سے بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کے وزیراعلٰی کو بولنا چاہیے۔ چنانچہ ہم مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتے ہیں اس منصوبے کے گزرنے کے بعد جہاں پاکستان کو معاشی استحکام ملے ایسے منصوبے شامل کریں جس سے اس حساس اور پاکستان کے لیے قابل فخر خطے کے غریب و محروم عوام کی خوشحالی کا باعث ہو۔ اگر سی پیک میں بلتستان کی اہم شاہراہ، تمام اضلاع کے ہسپتال، ہائیڈرل پاور پراجیکٹس اور چند تعلیمی ادارے شامل کیا جائے تو اس خطے کے عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ ایک اہم بات آپ کو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سی پیک منصوبے کے بعد امریکہ، انڈیا سمیت یورپی ممالک کی نگاہیں جی بی پر جم گئی ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کو بھی ہشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اداروں کو چاہیے کہ منفی طاقتوں کو پنپنے کا موقع نہ دیں۔ اس خطے میں ناامنی پھیلنے کا موقع نہ دیں۔ منفی طاقتیں ہی مسائل کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ اگر سیاسی جدوجہد کو غداری کا نام دے، ایکشن پلان کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرے، مخالفت جماعت کو دیوار سے لگانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کرے یا خطے میں عوام دشمن پالیساں بنائیں، سکیورٹی کے نام پر بنیادی انسانی حقوق بلخصوص آزادی رائے سلب کرے تو یہ سب دشمن کے عزائم کو تقویت پہنچانے کا باعث ہوگا۔ عوام کو انکے حقوق دیں، شفاف سیاسی عمل جاری رکھیں، جمہوری اقدام کی پاسداری کریں، مخالف جماعتوں کو برداشت کریں، عوامی حقوق سلب نہ کریں، قومی سرمایے کا غلط استعمال نہ کرے، میرٹ کو بحال کرے تو سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس معاشرے میں انصاف ختم ہو جائے وہاں کا معاشرہ متزلزل ہونا فطری امر ہے اور اس معاشرے کو ٹھیک طاقت اور جیلوں کے ذریعے نہیں بلکہ انصاف کی بالادستی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے ریاستی ادارے ان باتوں کو گہرائی میں لیں گے اور حقوق سے محروم اس عوام کی خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
 
سوال: آپ گلگت بلتستان کے عوام کو مختصر طور کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
آغا علی رضوی: میں عوام سے گزارش کروں گا کہ اتحاد کو قائم و دائم رکھیں، باشعور رہیں، قربانی کا جذبہ پیدا کریں، ظلم کے خلاف اٹھنے کی ہمت پیدا کریں، وفاقی حکومتوں کے دلاسوں پر یقین کیے بغیر خود انحصاری کے طرف بڑھیں، تعلیم پر خصوصی توجہ دیں، لسانیت اور فرقہ واریت کے بت کو پاش پاش کریں، وطن عزیز پاکستان کے استحکام و سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں، کسی بھی شر پسند کو اس خطے کے امن کو خراب کرنے نہ دیں۔ متحد رہ کر جدوجہد جاری رکھیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا مضبوط ترین اور مستحکم ترین خطہ بنے گا۔

وحدت نیوز (انٹرویو) علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، انہوں نے بہت ہی کم عرصہ میں قیام کرکے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ علمی حوالے سے بہت مضبوط ہیں، اسکے علاوہ حالات حاضرہ کا بہت ہی زبردست تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ ایران کی سرزمین قم المقدس میں دینی تعلیم حاصل کی، اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجلس کے مرکزی پروگراموں میں اہل سنت جماعتوں کے قائدین موجود ہوتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے  نے علامہ ناصر عباس جعفری سے موجودہ ملکی صورتحال اور مشرق وسطٰی کے حالات پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

سوال: سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پاکستان کے سیاسی حالات پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے، جس کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا، پاکستان کے دشمن ایک ہوچکے ہیں، نواز شریف اور لیگی حکومت کے اقدامات اس مادر وطن کو اور بحرانوں کی طرف دھکیل رہے ہیں، اس وقت حکومت کون کر رہے ہیں اور کیسے چل رہی ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں، پوری حکومت کی توجہ فقط نواز شریف کو بچانے پر صرف ہو رہی ہے، ایک کرپٹ وزیراعظم کو اتنے مواقع دیئے جا رہے ہیں کہ وہ جو ملک کیخلاف کرسکتا ہے اور بول سکتا ہے، اسے بولنے دیا جا رہا ہے، کیا آج سے پہلے ایسے تھا؟، اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کہاں ہو رہا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ اس بحران کو اتنا طول دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف سی پیک مکمل کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب یہ بحران بھی چل رہے ہیں۔

سوال: پاکستان کے حالات پر کیا کہتے ہیں، دہشتگردی ختم ہونیکا نام ہی نہیں لے رہی، ملک کو بحرانوں سے کیسے نکالا جائے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں آج تک جو کچھ بھی ہوا وہ ہمارے خلاف ہوا، دہشتگردی کی وجہ سے پاکستان میں اسی ہزار پاکستانی شہید ہوئے ہیں، جس میں بیس ہزار صرف شیعہ شہید ہیں، جتنی بھی نسل کُشی ہوئی، اس میں اندرونی اور بیرونی سازش کار ایک پیج پر تھے اور ہیں، ان کے نشانے پر پاکستانی ہیں، یہ بھی مار کر پاکستان کو ہی کمزور کرنا چاہتے تھے، انڈیا کی مداخلت پاکستان میں سب کے سامنے ہے، خاص طور پر بلوچستان کے حالات سب پر واضح اور عیاں ہیں، بلوچستان ہر طرف سے حملوں میں گھرا ہوا ہے، دنیا بھر کی ایجنسیاں وہاں پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے اندر شیعہ اور سنی جیتنا آج قریب ہیں پہلے نہیں تھے، ہم جتنا قریب ہوں گے، اتنا ہی دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرسکیں گے، ہم اس وطن کو خوبصورت بنائیں گے اور اس کو آگے لے کر جائیں گے، بحرانوں سے نکالیں گے۔ یہ ہماری مادر وطن ہے، اس کو ہم نے بنایا تھا اور ہم ہی بچائیں گے۔

سوال: حکومت پاکستان سے کیا مطالبہ کرتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میں تو یہ چاہتا ہوں پاکستان کے اندر یہ جو مسائل دن بہ دن آگے بڑھ رہے ہیں، چاہے وہ سیاسی ہوں، اخلاقی ہوں، سوشل ہوں یا سکیورٹی سے مربوط مسائل ہیں، یہ پاکستان کیلئے نہایت ہی خطرناک ہیں، میں پاکستان کی حکومت اور پاکستان سے محبت کرنے والوں سے عرض کرتا ہوں کہ پاکستان کو بچائیں اور جن لوگوں نے پاکستان پر حکومت کی اور جن کے پاکستان سے باہر بینک بیلنس ہیں، وہ خدارا پاکستان کو مسائل اور بحران سے نکالیں۔ بہت ہوگیا اب اس مادر وطن کو ترقی کے راستے پر ڈالیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم تو ڈوبے تمہیں بھی لیکر ڈوبیں گے۔ کچھ قوتیں پاکستان کے دشمنوں سے ملکر ملک کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔

سوال: پاک ایران تعلقات پر کیا کہتے ہیں، خاص طور پر آرمی چیف کے حالیہ دورہ ایران کی تناظر میں کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، پاکستان کو ایک سازش کے تحت کوشش کی گی تھی کہ اس کو اپنے ہمسایہ ممالک سے الگ کیا جائے، اس کے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر مسائل ہوں اور اسے ایران سے دور رکھا جائے، یہ دشمن کا پلان تھا، جس کے نتیجے میں پاکستان کو کمزور کرنے اور اپنی مرضی کے فیصلے پاکستان سے کرانے کیلئے سازش بنی گئی، دراصل یہ پاکستان کے دشمن طاقتوں کی کوشش تھی، آرمی چیف نے ایران کا دورہ کیا ہے، جو بہت زبردست بات ہے اور اب حالات بہتری کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں، ابھی آپ دیکھیں کہ جب ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کا افتتاح ہوا تو اس میں پاکستان کے وزیر (حاصل بزنجو) کو بھی ساتھ کھڑا کیا گیا، اس سے دشمن کو پیغام گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اب پاکستان ترقی کی طرف جا رہا ہے، اگر ہماری سمت درست ہوگئی تو ہمیں اس راستے سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان، چین، ترکی، روس، عراق اور ایران ایک بلاک بن جائے تو افغانستان میں موجود فورسز کا بھی مقابلہ کیا جاسکتا ہے، اس سے پاکستان کی مشرقی سرحد کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے، اسی طرح پاکستان کا چین پر انحصار بھی ختم ہو جائے گا، پاکستان پر جو عالمی پریشر ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گا اور یوں پاکستان بحران سے نکل جائے گا۔

پاکستان کو ایران کے ساتھ تعلقات کسی اور ملک کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرنے چاہئیں، پاکستان کو اپنا قومی مفاد لیکر چلنا چاہیئے، اس کو سامنے رکھ کر اپنی قومی پالیسی ترتیب دینی چاہیئے، ابھی ایران کی طرف سے گیس پائپ لائن پاکستان کے بارڈر تک آئی ہوئی ہے، اگر یہ گیس پاکستان میں آجاتی ہے تو ہمارے توانائی کے مسائل حل ہو جائیں گے، پاکستان میں سستی گیس آجائے گی اور ہماری فیکٹریاں چل پڑیں گی۔ سی پیک پاکستان میں آرہا ہے، اگر پاکستان نے اپنا گھر ٹھیک نہ کیا تو بہت مشکلات سے دوچار ہو جائیگا، میرے خیال میں ایران پاکستان تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں، توانائی شعبہ میں اہم پیشرفت ہوسکتی ہے، پاکستان سے چین تک گیس پائپ لائن جا سکتی ہے، جس سے پاکستان کو بھی فائدہ پہنچے گا، یاد رکھیں کہ پاکستان پانچ ارب لوگوں کو آپس میں ملاتا ہے، پاکستان اگر اچھے تعلقات بناتا ہے تو ایشیاء کو طاقتور بنائے گا اور خود بھی طاقتور ہوگا۔

سوال: آپ نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی اور مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے، مجلس کیا کرنے جا رہی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں ہمارا اصولی موقف شروع دن سے واضح ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ظلم ہوا ہے، ان کے چودہ افراد کا خون بہایا گیا ہے، خواتین کے منہ میں گالیاں ماری گئی ہیں، ان کو انصاف نہیں ملا، انہیں انصاف ملنا چاہیئے۔ اس معاملے پر ہم ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیا کسی اور ملک میں قاتل شخص وزیراعلٰی رہ سکتا تھا؟، جس وزیر قانون کے حکم پر یہ ہوا، وہ آج بھی صوبائی وزیر قانون ہے۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نامزد ہوچکے ہیں۔ اب انہیں سزا ہونا باقی ہے۔ انہیں مظلوموں کی آہ لے جائیگی۔ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتیں ماڈل ٹاون کے معاملے پر ہم آواز ہیں اور مجلس کی آواز بھی ساتھ ہے۔

سوال: ٹرمپ کے بیت المقدس سے متعلق بیان کے بعد کیا اتحاد بین المسلمین کو مزید فروغ دیکر قبلہ اول کے مسئلے کو مزید بہتر انداز میں اجاگر نہیں کیا جا سکتا، اس حوالے سے کیا کوششیں کی جاسکتی ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ہم اگر آج اکٹھے نہیں ہوئے تو قبلہ اول مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا، مسلمانوں کو پوری دنیا میں اکٹھا ہونا چاہیے، امت مسلمہ اگر یکجا ہو جائے تو مسلم حکومتوں کو اپنی سمت درست رکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، یہ اتحاد خود امت مسلمہ کی عزت و وقار کے لئے لازم ہے اور امت کو جو خطرات لاحق ہیں، اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن نے ہمیں کہا ہے کہ ہم اتفاق اور اتحاد سے رہیں۔ وحدت اور اتحاد حکم قرآنی ہے، جس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

سوال: ٹرمپ کے اقدام کے بعد مشرق وسطٰی کی کیا تصویر بنے گی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: اللہ نے ہمارے دشمنوں کو احمق قرار دیا ہے، قرآن میں ہے کہ انہوں نے بھی چال چلی اور اللہ نے بھی اپنی چلی، بہتر چال اللہ ہی چلنے والا ہے، اللہ کی طرف سے جو چالیں چلی جاتی ہیں، وہ مومنین کی طرف سے چلی جاتی ہیں، خدا نے ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کو رسوا کر دیا ہے اور پچھلے کئی سالوں کی انویسمنٹ پر پانی پھر دیا ہے، وہ کوشش کر رہے تھے کہ عرب کی اسرائیل سے توجہ ہٹا کر ایران کی جانب کر دی جائے اور ایران کو دشمن بنا دیا جائے، عرب ممالک کیلئے ایران کو اسرائیل سے بھی بڑا تھریٹ بنا دیا جائے، اسرائیل ایران دشمنی کو شیعہ سنی میں تبدیل کر دیا جائے، انہوں نے کوشش کی کہ فلسطین کے ایشو کو ہٹا کر ایران عرب کا ایشو بنا دیا جائے۔ یہی وجہ بنی کہ انہوں نے شام کو ڈسٹرب کیا، عراق کو تباہ کیا، داعش کو لایا ہی اسی کام کیلئے گیا تھا۔ یمن پر حملہ کرایا گیا۔ اسی طرح لبنان کے حالات خراب کئے گئے، سعد حریری سے استعفٰی دلوایا گیا، ایران کے ترکی سے اور ترکی کے ایران سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ٹرمپ کے ایک عمل نے سب کچھ الٹ کر دیا، اب امت مسلمہ کا دوبارہ ترجیحی ایشو فلسطین بن گیا ہے، تمام ممالک اسرائیل کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہوا ہے۔ دشمن نے اپنی چال چلی اور اللہ نے اپنی چال۔

وحدت نیوز(انٹرویو) سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس سے قبل مرکزی سیکرٹری سیاسیات کی ذمہ داری انکے پاس تھی۔ ناصر شیرازی آئی ایس او پاکستان کے بھی مرکزی صدر رہے ہیں جبکہ متحدہ طلباء محاذ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اپنی سیاسی دانست کی بدولت بہت قلیل عرصے میں ایم ڈبلیو ایم کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر نہ صرف متعارف کروایا بلکہ شہرت کی بلندیوں  پر بھی پہنچایا۔ ناصر شیرازی پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ حلیم طبیعت کے مالک ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد اور پاکستان میں قیام امن کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھی تحریک کے روح رواں ہیں۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی رٹ پٹیشن بھی دائر کرنے کے بعد اس کی پیروی کر رہے تھے کہ اغواء کر لئے گئے۔ ایک ماہ کی قید کے بعد بازیاب ہوئے تو سب سے پہلے "ایک بین الاقوامی  خبر رساں ادارے " نے ان کیساتھ گفتگو کی، جو قارئین کیلئے پیش کی جا رہی ہے۔

سوال : سب سے پہلے تو آپکو اور آپکے اہلخانہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ آپ خیر و عافیت سے گھر واپس پہنچ گئے، یہ بتایئے کہ وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے آپکو اغواء کیا اور انکے مقاصد کیا تھے۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے اغواء کرنیوالے لوگ کسی سکیورٹی ادارے کے اہلکار ہی تھے، وہ کس ادارے کے تھے یہ مجھے علم نہیں۔ واپڈا ٹاؤن سے یکم نومبر کو مجھے اس وقت اغواء کیا گیا، جب میں اپنی اہلیہ اور بچوں کیساتھ خریداری کے بعد واپس گھر جا رہا تھا، مجھے 2 ماہ اور 2 سال کے بچوں کے سامنے گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا گیا اور 2 سے 3 گاڑیاں تھیں، جن میں وہ لوگ سوار تھے۔ انہوں نے وہاں سے مجھے اغواء کیا اور کسی نامعلوم جگہ پر جا کر بند کر دیا۔ کچھ عرصہ وہاں رکھا گیا، اس کے بعد مجھے ایک اور جگہ پر منتقل کر دیا گیا۔ اس دوسری جگہ کا بھی مجھے علم نہیں کہ وہ کون سی جگہ تھی۔ بہرحال اغواء کاروں نے ملک کے آئین کو پامال کیا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا اور مجھے، جو ایک سیاسی جماعت کا کارکن ہوں، اغواء کیا گیا۔ جہاں تک ان کے مقاصد کی بات ہے تو مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھے کیوں اغواء کیا، وہ کیا چاہتے تھے، یا ان کے پیچھے کون تھا۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ مجھے اغواء کرنیوالوں کے مقاصد کیا تھے۔

سوال : آپکی جماعت تو اسکا ذمہ دار پنجاب حکومت اور رانا ثناء اللہ کو ہی ٹھہراتی رہی اور مسلسل احتجاج میں پنجاب حکومت کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا۔؟
ناصر عباس شیرازی: ویسے دیکھا جائے تو بحیثیت صوبے کے وزیر قانون کے طور پر شہریوں کے تحفظ ذمہ داری رانا ثناء اللہ پر ہی عائد ہوتی ہے، لاہور جیسے شہر سے ایک بندہ اغواء ہو رہا ہے اور لاہور پولیس اور پنجاب حکومت کو پتہ ہی نہیں چلتا؟ جس ادارے نے بھی اغواء کیا تھا، وہ فرشتے آسمان سے تو نہیں اترے تھے، یہیں سے ہیں نا، لیکن پنجاب حکومت ایک ماہ میں میرا سراغ نہیں لگا سکی، میں مسلسل ایک ماہ جبری قید میں رہا، پنجاب حکومت نے میری بازیابی کیلئے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا۔؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس اغواء میں رانا ثناء ہی ملوث دکھائی دیتا ہے۔ پولیس مسلسل عدالت میں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی، یہ سب پولیس کی غفلت کا نتیجہ اور صوبائی حکومت کی ناکامی ہے۔

سوال : دوران حراست اغواء کار آپ سے کس قسم کے سوالات کرتے رہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ان کے سوالات بے مقصد تھے، بے تکے سوالات کرتے رہے، یہ کہ مجلس وحدت مسلمین کی قریبی جماعتیں کون سی ہیں، کن کن جماعتوں کیساتھ آپ کے تعلقات بہت اچھے ہیں، کون سی جماعت آپ سے دور ہے، کس جماعت کیساتھ آپ کی نہیں بنتی، گلگت بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین کی پوزیشن مضبوط کیوں ہے۔ آپ وہاں الیکشن میں کیوں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ لوگوں کی جماعت کے مقاصد کیا ہیں۔ وغیرہ وغیرہ، یہ وہ سوالات تھے، جو عام سے بھی سادہ ہیں۔ یہ سب باتیں تو عام ہیں، بچہ بچہ جانتا ہے ایم ڈبلیو ایم کا منشور کیا ہے، ہم سیاست میں کن جماعتوں کے ہم خیال ہیں، لیکن حیرت ہے کہ وہ اس قسم کے بے تکے سوالات کرکے پتہ نہیں کیا جاننا چاہتے تھے۔

سوال : لیکن رانا ثناء اللہ کو آپکی جماعت خصوصی طور پر ہدفِ تنقید کیوں بنا رہی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: رانا ثناء اللہ وہ وزیر قانون ہیں، جنہوں نے خود قانون اور آئین کو پامال کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے لاہور ہائیکورٹ میں رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی رٹ پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ ہر فرد ریاست میں قانون اور آئین کے سامنے جوابدہ ہے، پھر رانا ثناء اللہ کیوں نہیں، میرے اغواء میں رانا ثناء اللہ ہی ملوث ہے، مجھے میرے اڑھائی سال کے بیٹے کے سامنے اغواء کیا گیا۔ کیا کوئی قانون، آئین یا اخلاقیات اس حرکت کی اجازت دیتے ہیں؟ مجھے اغواء کرنیوالوں نے قانون شکنی کی۔ انہوں نے اپنے ہی ملک کا آئین پامال کر دیا، جس کی حفاظت کا انہوں نے حلف اٹھا رکھا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔

سوال : آپکو جس جگہ پر رکھا گیا، وہ کیسی تھی؟ کوئی حوالات تھی یا کوئی گھر تھا۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے ایک تنگ و تاریک جگہ پر رکھا گیا تھا، میرے اغواء سے صرف یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس کی لاٹھی ہے، بھینس اسی کی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی بات نہیں کی جا سکتی، یہاں تو پھر طاقتور منہ زور ہو جائے گا، جس کے پاس 4 بندے ہوں گے، وہ منہ زور ہو جائے گا۔ جب معاشرے میں قانون و انصاف کی حکمرانی نہ رہے تو معاشرے بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں اور پاکستان کو بھی اسی بگاڑ کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو، یہاں قانون کی عملداری ہو، یہاں وحدت کو فروغ ملے، میرا جرم کیا تھا؟ یہی کہ میں وحدت کی بات کر رہا تھا، میں نے شیعہ اور سنی کو متحد کیا، میں نے تکفیریوں کو بے نقاب کیا، میں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور اس کے جواب میں مجھے اغواء کر لیا گیا۔

سوال : سکیورٹی ادارے جب بھی کسی کو اغواء کرتے ہیں، کوئی جرم ہوتا ہے تو اٹھاتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میرا کوئی جرم ہے تو عدالتیں موجود ہیں، وہاں میرے خلاف رٹ دائر کریں، میرا جرم ثابت کریں، میرا کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو میں سزا کیلئے تیار ہوں، لیکن یہ کون سا قانون ہے کہ بے جرم و خطا آپ کسی شہری کو اٹھائیں، بلکہ معصوم بچوں کے سامنے اٹھائیں اور ایک ماہ تک اسے جبری قید میں رکھیں، عدالت میں ٹرائل ہو تو پیش نہ کریں۔ یہ کونسا قانون ہے، یہ تو جنگل کا قانون ہوا، پاکستان میں تو باقاعدہ ایک آئین موجود ہے، قانون ہے، عدالتیں ہیں، ان سب کی موجودگی میں اگر کوئی اس قسم کی حرکت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کی مخالفت کر رہا ہے، وہ کوئی ثبوت رکھتے ہیں تو عدالت میں پیش کریں۔ ایسے اغواء کرکے تو وہ اپنا کیس کمزور کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ایسے کلچر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں کو آئین کی سربلندی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھے۔

سوال : ایک وزیر قانون کیسے قانون شکنی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پنجاب سے اغواء ہوا ہوں تو ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، جس نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ صوبے میں جنگل کا قانون ہے۔ شریف برادران نے ہمیشہ انتقامی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو دوسروں کو انسان نہیں سمجھتے۔ یہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ہیں، پھر انہیں ایسے دو چار وزیر بھی مل جاتے ہیں، جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں، وہ بھی ان کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، یہی اصل میں ان کو بھی گمراہ کرتے ہیں، ان کی گردن کا سریا اصل میں یہی وزیر ہوتے ہیں، جیسے رانا ثناء اللہ نے پنجاب کے وزیراعلٰی کو مٹھی میں لے رکھا ہے، پنجاب کا پورا کنٹرول وزیر قانون کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سکیورٹی فورسز کی بھی نگرانی کرتا ہے، وہی کابینہ کمیٹی برائے امن و امان سمیت صوبے کے دیگر معاملات چلاتا ہے۔ اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے، سب کچھ ایک وزیر کے ہاتھ میں دیدیا گیا ہے، اب اگر کوئی بقول چودھری شیر علی مجرمانہ ذہنیت کا مالک ہو اور اس کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو انجام یہی ہوگا کہ کوئی ملک میں آزادانہ گھوم پھر نہیں سکے گا۔ رانا ثناء اللہ کے کارنامے میڈیا والے جانتے ہیں، شائع یا نشر اس لئے نہیں کرسکتے کہ وہ اقتدار میں ہے، جس دن رانا ثناء اللہ کا اقتدارختم ہوگیا، وہ بے نقاب ہو جائے گا۔ میڈیا اس کی اصلیت بے نقاب کرے گا۔ اس کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو چودھری شیر علی سے پوچھیں، جنہیں شہباز شریف نے خاموش رہنے کا کہا ہے۔ ورنہ ماضی قریب میں جب چودھری شیر علی نے رانا ثناء اللہ کا کچا چٹھہ کھولا تھا تو لیگی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی تھی اور پارٹی ٹوٹنے کے قریب تھی، لیکن شہباز شریف نے دونوں کو بیان بازی سے روک دیا اور معاملہ سرد پڑ گیا۔ کچھ عرصے بعد یہ معاملہ پھر گرم ہوگا اور دونوں بیچ چوراہے ایک دوسرے کی ہنڈیا پھوڑیں گے، وہ وقت قریب ہے۔

سوال : آپکا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
ناصر عباس شیرازی: آئندہ کا لائحہ عمل میری سیاسی جدوجہد ہے، جسے جاری رکھوں گا، جلد ہی اعلٰی قیادت سے ملاقات کروں گا۔ ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم کے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ہم نے آئندہ 2018ء کے الیکشن میں بھی بھرپور طریقے سے حصہ لینا ہے، اس کی حکمت عملی طے کی جائے گی اور میں نے رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی جو رٹ پٹشین دائر کی ہوئی ہے، اس کی بڑھ چڑھ کر پیروی کروں گا۔ ہم ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہر شہری کو وہ حقوق ملیں، جو اسے آئین دیتا ہے۔ ہم ملک میں جنگل کا قانون نہیں چاہتے، ہم پرامن پاکستان کے قیام کیلئے سرگرم ہیں اور ان شاء اللہ ہم پاکستان کو قائد کا حقیقی پاکستان بنائیں گے۔ ہم آمروں کی پیداوار سے ملک کو نجات دلائیں گے، کرپشن اور انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے۔ ہمارے سیاسی جدوجہد کا مقصد پرامن اور خوشحال پاکستان ہے، جس میں تمام مکاتب فکر اور مذاہب کو مکمل مذہبی آزادی ہوگی۔ ہم پہلے بھی اسی کاز کیلئے جدوجہد کر رہے تھے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یہ اغواء اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہمیں ہمارے مشن سے نہیں روک سکتے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم جہاں شیعہ سنی کو ایک دوسرے کے قریب لائے ہیں وہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی قریب لائیں اور پاکستان میں ایسا امن قائم کریں کہ دنیا مثال دے۔ امن کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ہم تکفیریوں کے روز اول سے مخالف تھے اور اب بھی ان ملک دشمنوں اور اسلام دشمنوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔

سوال : جن جن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے آپکی بازیابی کیلئے ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیا، انکے حوالے سے کچھ کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی بالکل، میں مجلس وحدت مسلمین، تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ق، ملی یکجہتی کونسل ، سنی اتحاد کونسل، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی، امامیہ آرگنائزیشن سمیت دیگر سیاسی، سماجی رہنماؤں اور صحافی دوستوں کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے میری بازیابی کیلئے اپنے اپنے طور پر کوشش کی اور ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیا۔ یقیناً میری حمایت ایک سیاسی جماعت کے کاز کی حمایت تھی، جن دوستوں نے میرے اہل خانہ کی بھی ڈھارس بندھائی، بالخصوص اپنے وکلاء دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں۔ جن دوستوں نے پاکستان میں اور جنہوں نے کربلا میں میری بازیابی کیلئے دعائیں کیں، ان بہنوں، ماؤں اور بھائیوں اور بزرگوں کا ممنون ہوں اور دعاگو ہوں، اللہ تعالٰی ان تمام احباب کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Page 2 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree