وحدت نیوز (آرٹیکل) 11 جنوری کی رات کو جلال آباد اور چھموگڑ سے دو ڈھائی سو لوگ مقپون داس پہنچے اور شہیدوں کے مزار کے سامنے روڈ کی دوسری طرف تعمیراتی کام شروع کر دیا،صبح وہاں پر موجود لوگوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں کو اطلاع دی اور ایک ہی گھنٹے کے اندر ہنوچل اور شوتہ نالہ سے کافی لوگ جمع ہوگئے ،پولیس بھی تب تک پہنچ چکی تھی،پولیس کی موجودگی میں طرفین میں تصادم ہوا،گولیاں چلیں اور شدید پتھروں کی بارش ہوئی جسکے نتیجے میں کئی  لوگ زخمی ہوئے اور شوتہ نالہ سے تعلق رکھنے والے ایک  عمر رسیدہ  عبدالرحمن  نامی شخص کو دو گولیاں لگیں ،ایک گولی سینے میں اور دوسری ٹانگ میں، جس کو فوری طور پر اسپتال پہنچا دیا گیا اور ابھی اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے۔

اسکے بعد پولیس اور این ایس فورسز ،ڈی سی صاحب ،شیخ مرزا صاحب بھی علماء کے وفد کے ساتھ پہنچ گئے اور طرفین سے مذاکرات کرکے طرفین کو شرعی فیصلے پر راضی کرلیا اور جلال آباد سے چھموگڑ اور حراموش سے آئے ہوئے  لوگوں کو واپس جانے کا کہہ کر خود بھی واپس  چل دیے۔

               اس واقعے کو اب تین دن گزر گئے ہیں لیکن طرفین اپنی اپنی  جگہ پرڈٹے ہوئے ہیں۔گویاپورا جلال آباد،چھموگڑ،حراموش مقپون داس ۔۔۔ سب  ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں ، کشیدگی اور جنگ کے چانسز سو فیصد موجود،ڈی سی کی آ مد اور طرفین کو ہٹائے بغیر فورسز کے ساتھ اچانک غائب ہونا اور طرفین کو اسی جنگ کی حالت میں اپنے حال پر چھوڑ دینا،انتظامیہ کا خاموش تماشائی بننا، وزیر اعلی سمیت تمام عوامی نمائندوں کا دلچسپی نہ لینا،یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں بلکہ  اس کی چند وجوہات ہوسکتی ہیں۔

                پہلی وجہ یہ ہے کہ   اقتصادی راہداری کے مسئلے پر حکومت کے اوپر جو پریشر ہے اور بالخصوص وزیر اعلی کے اوپر گلگت بلتستان کی تقسیم کے ایشوپر عوام کی طرف سے جوردّعمل سامنے آیا ہے اس سے جان چھڑوانے کے لئے اس مسئلے کو گرم کیاگیاہے۔

                دوسری وجہ  یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی بڑا حادثہ کروا کر گلگت بلتستان کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

               تیسری وجہ یہ بھی  ہے کہ حکومت عوام کو آپس میں لڑا کر اقتصادی راہداری زون کے لئے اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے چونکہ اقتصادی راہداری زون کے لئے گلگت بلتستان میں جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ سب سے مناسب ہے اور حکومتی اداروں میں مقپون داس اقتصادی راہداری زون کے لئے زیر بحث ہے۔

               اور چوتھی وجہ یہ  بھی ہوسکتی ہے کہ خود  خود طرفین کے کچھ افراد بکے ہوئے ہوں اور وہ سرکار کے ایجنڈے کو عملی کرنے کے لئے کشت و خون کرواناچاہتے ہوں۔

 ہمارا موقف یہ ہے کہ علاقے میں امن و امان قائم رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اس کو اقتصادی راہداری زون کے لئے حاصل کرنا چاہتی ہے تو کیا صرف یہی ایک حل ہے کہ لڑا واور حکومت کرو ، اور سادہ لوح عوام کا قتل عام کروا دو۔

حکومت کو اس کے علاوہ دیگر طریقوں پر بھی سوچناچاہیے۔ چلیں حکومت کو رہنے دیں کیا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ  درمیان میں آکر اس مشکل کو رفع دفع کریں اور قیمتی جانوں کے زیاں سے لوگوں کو بچائیں۔

  ان کو بھی رہنے دیں وہ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کہاں ہیں جو انتخابات کے دوران گھر گھر،قریہ قریہ جاکر لوگوں سے ووٹ مانگتی ہیں اور بیچارے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے ووٹ لیتی ہیں۔طرفین میں تمام پارٹیوں کے ووٹرز موجود ہیں،پی پی ہو یا نون لیگ، تحریک انصاف ہو یا تحریک اسلامی۔ وحدت مسلمین ہو جماعت اسلامی۔کہاں ہیں یہ سب پارٹیاں!؟

کیاابھی اس کا انتظارکیاجارہاہے  کہ  پہلےچالیس پچاس آدمی قتل ہوجائیں اور پھرسامنے آیاجائے تاکہ میڈیا میں کوریج بھی مل جائے اور سوشل پروٹوکول کا بھی مناسب انتظام ہو۔ چلیں ان کو بھی رہنے دیں،اس علاقے کے وہ عمائدین،سماجی اور دینی شخصیات کہاں ہیں جو انتخابات میں اپنے آپ کو کئی  کئی مہینے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کمپین کے لئے وقف کرتی  ہیں!؟

               کیا بلتستان،استور،نگر جلال آباد،بگروٹ،حراموش اور دوسرے علاقوں کے عمائدین کا اخلاقی فریضہ نہیں بنتا کہ درمیان میں آکر اس مشکل کو سلجھانے کی کوشش کریں۔

ہم یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ   اپنی اہمیت کے اعتبار سےمقپون داس حراموش بلتستان کا گیٹ وےہے۔یہ گلگت اور بلتستان کو ملانے والے پل عالم بریج سے چند قدموں کے فاصلےپر ہے۔مقپون داس ایک وسیع وعریض میدان ہے جو کہ جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان میں منفرد ہے چونکہ یہ دو دریا،دریائے بلتستان اور دریائے گلگت کا سنگم اور قدرت کا بے نظیر خوبصورت منظر ہے۔اس پر نہ صرف پاکستانی حکومت کی نظریں ہیں بلکہ اپنی جغرافیائی منفرد نوعیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں خاص طور پر چائنہ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

 یہ زمین کا خوبصورت ٹکڑا دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے لیکن یہاں پر پانی میسر نہیں۔ اس کی وجہ پاکستانی حکومت کی بالعموم اور گلگت بلتستان کی حکومت کی بالخصوص عدم توجہ ہے۔ پورے پنجاب کو سیراب کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا دریا،دریائے سندھ اسی بنجر میدان کے کنارے سے گزرتا ہے۔چونکہ یہ میدان دریا سے کافی بلندی پر واقع ہے جسکی وجہ سے ابھی تک یہ آباد نہیں ہے۔جو لوگ اس وقت وہاں زندگی گزار رہے ہیں پانی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مشکلات کے شکار ہیں ،اس وقت وہاں کی کل آبادی 103 گھرانوں پر مشتمل ہیں جن کا تعلق حراموش کے دو گاؤں ہنوچل اور شوتہ نالہ سے ہے اور اس میں 88 جنگ میں شہید ہونے والے بلتستان کے دو شہیدوں کا مزار بھی ہے۔

 یہاں پر رہنے والے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لئے پانی کا بندوبست کرتے ہیں۔کافی سال پہلے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت واٹر چینل بنانا شروع کر دیا اور ابھی بھی زیر تعمیر ہے۔ اور اس واٹر چینل پرکام تیزی سے نہ ہونے کی وجہ لوگوں کی اقتصادی مشکلات اور حکومت کی عدم توجہ ہے۔

               یہ وسیع وعریض میدان حراموش اور جلال آباد ،چھموگڑ کے لوگوں کے بیچ متنازعہ ہے ۔چند سال پہلے ان دو فریقوں کے درمیان ایک ہفتہ جنگ ہوئی اس کے بات کئی سال کورٹ میں اس کا کیس چلتا رہا یہاں تک کہ ڈیڑھ سال پہلے سیشن کورٹ نے اس کا فیصلہ حراموش کے حق میں سنا دیا۔جس کے فورا بعد حراموش کے لوگوں نے یہاں گھر بنا نےشروع کر دیے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے بچوں سمیت لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں اور اس میدان کو اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی کا راز سمجھتے ہیں۔

اس وقت ہمارے حکومتی ادارے اور کرپٹ عناصر اس خوبصورت وادی کو خون سے رنگین کرکے،اس جنت ارضی کو جہنم بناکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔یہ دانشوارانِ ملت،علمائے کرام اور مخلص سیاستدانوں کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے کو فوراً حل کروائیں۔

 

تحریر۔۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر

وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱  کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پرگلگت بلتستان  کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے کبھی بھی   دریغ سے کام  نہیں لیا۔

اس کے باوجود ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان  جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیر اعظم نے (جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انھیں کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔

بعد ازاں  جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انھیں کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔

 البتہ پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے ، بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔آخر کار 9/ اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں  کوئی  نمائندگی  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟

جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی  پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی  دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ  (ن) جیتنے  کی صورت میں ہم آپ کو مکمل  آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن  ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی  سناٹا چھا گیا۔  اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی  حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی  ہے" ﴿6﴾ اب یہاں  پر چند  سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا  اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟  کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی  اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا  ایجنٹ بن کر  ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾ اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں:  کیا  یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چین اور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ  پڑے ۔ دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر   سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب  حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اب اتنے حقائق سامنے آنے کے بعد وزیر اعلی خود سے  ان کی تائید کریں  یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ  ہر صورت میں اتنا تو ضرور واضح ہوگیا کہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کا وزیر اعلی قرار پانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ  کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں  جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا  اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور  قومی  و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی  آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں  اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔  پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے  تو اگلے مرحلے  میں عوام  ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب  اس سیلابی ریلے کو روکنا  حکومت  کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور  و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں گے۔

حوالہ جات:1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015

2: روزنامہ آج،4ستمبر2009

3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات

4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009

5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015

6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔

7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔

8:ایضا

 

 

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (گلگت) گلگت بلتستان کی تقسیم کی بات کرکے وزیر اعلیٰ حق حکمرانی کھو چکے ہیں ،فوری طور پر اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے وزیر اعلیٰ کا محاسبہ کیا جائے۔اس متنازعہ بیان کے پیچھے یا تو کوئی گہری سازش چھپی ہوئی ہے یا پھر وزیر اعلیٰ کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور ممبر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ڈاکٹر حاجی رضوان علی نے کہا ہے کہ مجیب الرحمن اور حفیظ الرحمن کی سیاست میں مماثلت پائی جاتی ہے ،ایک نے بنگلہ دیش کو پاکستان سے جدا کردیا تو یہ صاحب استور اور بلتستان کو ہم سے جدا کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔وزیر اعلیٰ کے متنازعہ بیان کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ کارفرما ہے اس سازش کے پیچھے اصل محرکات کا پتہ لگاکر حقائق کو منظر عام پر لایا جائے اور وزیر اعلیٰ پر علاقے سے غداری کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے۔وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام اراکین اسمبلی کی توہین کے ساتھ ساتھ اس متفقہ قرار داد کی نفی بھی ہے جس کی حال ہی میں اراکین اسمبلی نے متفقہ طور پر حمایت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگرحفیظ الرحمن کی منطق کو صحیح تسلیم کیا جائے تو پھر یہ علاقے کسی زمانے میں ڈوگرہ راج اور سکھوں کی عملداری تھے ،اسی طرح خود کشمیری مہاراجہ گلاب سنگھ کی عمل داری میں بھی رہے ہیں۔انہیں چاہئے کہ جو جوعلاقے جس جس کی عملداری میں رہے ہیں ان سب کو لوٹادیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو کشمیری ہی کیوں یاد آرہے ہیں کیا 16 دنوں تک گلگت بلتستان ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں رہا،موصوف میں ہمت ہے گلگت بلتستان کی آزاد حیثیت کا مطالبہ کیو ں نہیں کرتے؟کیوں اس خطے کی ایک بڑی آبادی کو کشمیر کی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مقتدر حلقوں کو تجویز پیش کی کہ اگر تووزیر اعلیٰ کی یہ حرکت دانستہ ہے تو ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے اور اگر نادانستہ ہے تو پھر انہیں کسی مینٹل ہسپتال میں داخل کیا جائے۔

وحدت نیوز (گلگت) عوامی ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام گلگت میں ایک اہم اجلاس کا انعقاد ہوا، جس میں عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماء نظام الدین، صفدر علی، فدا حسین، کریم خان، عثمان احمد، پروفیسر یاسف الدین، نائب خان، شیخ شبیر حکیمی، زکریا ایڈووکیٹ، شاہ عالم، حسنین رمل، رحمت علی، ممتاز ایڈووکیٹ، وجاہت علی کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء غلام عباس، آغا علی حیدر، ڈاکٹر علی گوہر، مطہر عباس و دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا عوامی ایکشن کمیٹی ایک بار پھر عوامی حقوق کے لیے ملکر جدوجہد کرے گی۔ اجلاس میں شرکاء نے کہا کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور تمام مسائل جوں کے تں ہیں۔ حکومت گندم کوٹے مین بتدریج کمی کر رہی ہے، جس سے جی بی میں قحط جیسی صورتحال ہے۔ حکومت کی جانب سے لوڈشیڈنگ کی کمی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں اور غریب عوام پر ٹیکسز کا بوجھ نئی صوبائی حکومت کا تحفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت واضح کرے کہ وہ ایکشن کمیٹی کا باقی ماندہ چارٹر آف ڈیمانڈ حل کرنا چاہتی ہے یا احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کررہی ہے۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس ﻭﺣﺪﺕ ﻣﺴﻠﻤﯿﻦبلتستان ڈویژن ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮔﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮﮦ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺪﺍﺩﯼ رقوم کی ﺗﻘﺴﯿﻢ کی گئی،ﻣﺠﻠﺲ ﻭﺣﺪﺕ ﻣﺴﻠﻤﯿﻦ ﮐﮯ ﺻﻮﺑﺎﺋﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺣﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﻧﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﻏﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺷﺎﮦ نے زلزلہ ﻣﺘﺎﺛﺮﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﻗﻮﻡ ﺗﻘﺴﯿﻢ کے چیک تقسیم کیئے،زلزلہ متاثرین نے مشکل کی اس گھڑی میں ایم ڈبلیوایم کی جانب سے مالی تعاون پر دلی مسرت اور خوشی کا اظہار کیااور علامہ ایم ڈبلیوایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت اسکردو روڈ کی خستہ حالی پر صوبائی حکومت کی توجہ نہ ہونا افسوسناک اور انکی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بلتستان میں بدترین اور اعصاب شکن لوڈشیڈنگ صوبائی حکومت کا عوام کو خصوصی تخفہ ہے۔ گلگت بلتستان میں ایسی حکومت برسراقتدار آئی ہے کہ احتجاج کے بغیر شہریوں کو انکے حقوق تک نہیں دیتے۔ اس بدترین دور حکومت میں عوام کو حقوق کی خیرات مانگنے کی بجائے حقوق کو چھیننے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت گلگت بلتستان کے عوام پر احسان نہ جتائیں گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان پر جو احسانات کیے ہیں اسکا عشر عشیر واپس نہیں ملا سکا ہے۔اضلاع ہو یا گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر،آئینی حقوق ہوں یا ترقیاتی بجٹ یہ سب عوام کا حق ہے کوئی ہم پر احسان نہ جتائیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی قوانین کے مطابق اب بھی وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر مزے کر رہے ہیں اور عوام کا استحصال ہے۔گلگت بلتستان کے عوام سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس مختلف مدات میں دے دیتے ہیں جبکہ ان ٹیکس کے عوض نہ این ایف سی ایواڈ میں حصہ ہے اور نہ بجٹ اتنے ہیں کہ جی بی ترقی ہو سکے۔گلگت بلتستان کے عوام نے کے ٹو، نانگا پربت اور دریائے سندھ کی رائیلٹی کا ذکر تک نہیں کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام کو علم نہیں ہے۔ اگر گلگت بلتستان سے وفاقی حکومت جو فائدے اٹھاتے ہیں انکی فہرست ظاہر کی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ جتنی وفاقی حکومتیں بنی ہیں سب نے گلگت بلتستان کے ساتھ خیانتیں کیں ہیں اور عوام کا استحصال کیا ہے۔ اگر ہم حقوق کی بات کرتے ہیں کہ ہماری حب الوطنی پر سوال اٹھا تا ہے حالانکہ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے جنہوں نے ستر سالوں تک اس خطے کو پاکستان کا آئینی حصے نہیں بننے دیا ۔ ہم ان تمام مسائل پر خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زبانی دعوئے ستر سالوں سے سنتے آرہے ہیں اگر کچھ کرنا ہے تو عملی تو پر کرو اور اسکا عوام پر احسان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ ہم کسی سے خیرات نہیں مانگتے بلکہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں تشخص ملے، ایف سی ایوارڈ میں ہمارا حصہ ہو،ہمارے وسائل کی رائلٹیز ملے، جو ٹیکسز مختلف مدات میں یہاں کے عوام دیتے ہیں اسکا خطے کو بھی فائدہ ملے، عالمی طور پر جو جو سبسڈیز اس خطے کے ہیں ان پر ڈاکہ ڈالنے کی بجائے یہاں کے عوام کو دی جائے۔یہاں کی عوام غیور عوام ہے اور اپنا حق لے کر رہے گی۔ اس خطے کے ساتھ مزید مذاق برداشت نہیں کی جائے گی، ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ پاکستان میں گلگت بلتستان کے عوام کو تیسرے درجے کا شہری نہ رہنے دی جائے اور آئینی مسئلہ فوری حل کر ے۔

Page 7 of 8

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree