وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام آرمی پبلک سکول کے شہداء کی پہلی برسی کے موقع پر ملتان پریس کلب کے سامنے شمعیں روشن کی گئیں، اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ قاضی نادر حسین علوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد عباس صدیقی، مہر سخاوت سیال، وسیم عباس زیدی، مرزا وجاہت علی، سید دلاور عباس زیدی اور دیگر موجود تھے۔ شرکاء نے اس موقع پر شہدائے آرمی پبلک سکول اور شہدائے پاراچنار کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے شہداء نے قوم میں ایک نئی روح پھونکی ہے ہماری سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہے، جب تک عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت دہشتگردی کے خلاف کھڑی نہیں ہوگی اس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس موقع پر اُنہوں نے شہدائے پاراچنار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی اس وقت ایک عالمی مسئلہ ہے حکمرانوں کی جانب سے دہشتگردوں کی سرکوبی کی بجائے اُن کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ قاضی نادر حسین علوی نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول ہمارے حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا اور دہشتگردوں کی حمایت جاری رکھی۔ جب تک دہشت گردوں کے سرپرستوں کی بیخ کنی نہیں کی جائے گی شہداء کے ورثاء کو انصاف نہیں ملے گا۔ گزشتہ دنوں شہداء کے ورثاء کی جانب سے کیا جانیوالا احتجاج حکومت کے لمحہ فکریہ ہے، ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں شہدائے آرمی پبلک سکول کے ورثاء کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ اس موقع پر دہشت گردی کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی، مظاہرین نے دہشتگردی کے خلاف کتبے اُٹھا رکھے تھے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے نائیجیریا میں نہتے شہریوں پر بہیمانہ تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائیجریا میں نہتے شہریوں پر گولیاں چلا کر ظلم اور بربریت کی شرمناک مثال قائم کی گئی ہے، شیخ ابراہیم زکزاکی کے بیٹوں اور بیوی سمیت درجنوں معصوم مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ شیخ ابراہیم زکزاکی عالم اسلام کے عظیم رہنما ہیں، جن سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی عقیدت ہے، ان کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ داری براہ راست نائیجیرین حکومت اور افواج پر عائدہوتی ہے۔ انہوں نے نائیجرین حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس المناک سانحے کے ذمہ داران کا تعین کرکے انہیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ انہوں نے پاراچنار میں ہونے والے بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے باوجود دہشتگردی کے سانحات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دہشتگردوں کے خلاف ملک بھر میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا جائے۔ پوری قوم ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے۔ دھشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی، مذہبی اور مالی سہولت کاروں کا خاتمہ بھی از بس ضروری ہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور سانحہ کی برسی کے موقع پر ہم ان معصوم شہداء کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ملک سے معصوم انسانوں کے قاتل دھشت گردوں کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر کراچی میں شہدائے آرمی پبلک اسکول سے اظہار یکجہتی و بلندی درجات کیلئے یوم شہداء منایا گیا۔ اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کے مختلف ڈسٹرکٹس میں قرآن خوانی اور شہدائے خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے شمع روشن کی گئی اور تعزیتی جلسہ منعقد کئے گئے۔ ایم ڈبلیو ایم کراچی کی جانب سے مرکزی پروگرام نمائش چورنگی پر منعقد ہوا جس میں شمع روشن کی گئیں۔ چراغاں میں ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ باقر زیدی، علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ مبشر حسن، علی حسین نقوی، سید میثم رضا، ڈاکٹر مدثر حسین، ناصر حسینی، رضوان پنجوانی، روح اللہ حسین سمیت ایم ڈبلیو ایم کارکنان و شہر قائد کی عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور شہدائے آرمی پبلک اسکول میں شہید بے گناہ معصوم بچوں کی یاد میں شمع روشن کیں۔
اس موقع پر شرکاء سے خطاب میں علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ سانحہ پشاور تاریخ کی بدترین دہشتگردی ہے، یہ ملک خداداد پاکستان کے قلب میں وہ داغ ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتا، آج ملک و اسلام دشمن عناصر کی ہار کا دن ہے، پوری قوم دہشتگردی کے خلاف متحد ہے، ننھے پھولوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، آج کے دن ہم ان دلیر ماؤں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس ملک کی بقاء و سلامتی خاطر اپنے بچوں کو قربان کر دیا، انشا اللہ وہ دن بہت جلد ضرور آئے گا جس دن اس ملک سے دہشتگردی انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ چراغاں میں علامہ احسان دانش نے شہدائے کے بلندی درجات کیلئے فاتحہ خوانی اور خصوصی دعا کرائی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) مجھے اس وقت بہت عجیب لگا، جب میں نے ایک بچے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے نبیﷺ بچوں سے محبت کرتے تھے، بچوں کو چومتے تھے اور جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں، وہ گندے لوگ ہوتے ہیں۔ ہاں ہمارے بچے بالکل ٹھیک سمجھے ہیں کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گندے لوگ ہوتے ہیں، اس وقت ہمارا وطنِ عزیز گندے لوگوں میں گھرا ہوا ہے، ہم نے مل کر ہی اپنے ملک کو ان گندے لوگوں سے پاک کرنا ہے۔ ہر سال سولہ دسمبر کو ننھے منّے شہیدوں کا مقدس لہو ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ گندے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، اس لئے کہ گندے لوگ، ملک، ملت اور دین و مذہب سب کو گندہ کر دیتے ہیں۔
تاریخِ بشریت پر بچوں کے بڑے احسانات ہیں، حضرت مریمؑ کی عصمت و طہارت کی گواہی گہوارے سے ایک بچے نے ہی دی تھی، جنابِ یوسف ؑ کی بے گناہی کا ثبوت ایک بچہ ہی بنا تھا، تیرہ رجب المرجب کو بیت اللہ میں ایک بچے کی ولادت سے دنیائے توحید میں اجالا ہوا تھا اور 61 ھجری میں باطل کو ابدی شکست دینے والا بھی ایک شش ماہہ بچہ تھا۔ گذشتہ روز سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کی پہلی برسی کے موقع پر قم المقدس میں ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی نشست رکھی گئی۔ نشست کے دوران جب بچے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس اکیسویں صدی میں بھی انسان اتنا بے بس ہے اور انسانیت اتنی مظلوم ہے کہ انسان نما درندے کسی قانون یا ضابطے کی پابندی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
یمن، بحرین اور کشمیر و فلسطین میں بے کس خواتین، کم سن بچوں اور ضعیف العمر افراد کو کھلے عام درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، شام اور سعودی عرب میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، پاکستان و افغانستان میں پرامن لوگوں کو دھماکوں سے اڑایا جا رہا ہے، مقامی سیاست سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک کمزوروں کا خون چوسا جا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی طور پر کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آرہا۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہی پوری دنیا میں کشت و کشتار کے سارے نیٹ ورکس کو بھی چلا رہے ہیں اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علمبردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی دوغلی پالیسی ہے، وہی ان کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے بھی اپنا رکھی ہے، ان کے تربیت یافتہ دہشت گرد ایک طرف تو نہتے انسانوں اور بچوں کا قتلِ عام کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے آپ کو مسلمان اور مجاہد اسلام بھی کہتے ہیں۔
مجھے اس وقت بہت عجیب لگا، جب میں نے ایک بچے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے نبیﷺ بچوں سے محبت کرتے تھے، بچوں کو چومتے تھے اور جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں، وہ گندے لوگ ہوتے ہیں۔ ہاں ہمارے بچے بالکل ٹھیک سمجھے ہیں کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گندے لوگ ہوتے ہیں، اس وقت ہمارا وطنِ عزیز گندے لوگوں میں گھرا ہوا ہے، ہم نے مل کر ہی اپنے ملک کو ان گندے لوگوں سے پاک کرنا ہے۔ ہر سال سولہ دسمبر کو ننھے منّے شہیدوں کا مقدس لہو ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ گندے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، اس لئے کہ گندے لوگ، ملک، ملت اور دین و مذہب سب کو گندہ کر دیتے ہیں۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک زمانہ تھا کہ جب انسان جہالت، بدبختی و گمراہی کے گھپ اندھیروں میں گم تھا۔ آنکھیں رکھنے کے باوجود وہ کبھی اس دیوار تو کبھی اس دیوار سے ٹکراتا تھا۔ عین اسی وقت چند افراد اٹھے اور انھیں چند نے ایک ایسی ملت کو تشکیل دیا کہ جس کے نقش ہزاروں سال دنیا کے سینے پر ثبت رہے اور آج بھی باقی ہیں۔ کل کی طرح آج بھی زمانہ انھیں افراد کو امتِ اسلامیہ کے نام سے جانتا ہے۔ یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ جب ملّتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں یعنی وہ اصول، ضوابط و اخلاقی اقدار کہ جن پر ان کی بناء تھی، ان میں بگاڑ آنے لگے تو تاریخ گواہ ہے کہ پھر بھی چند افراد نے ہی آکر ان کی گرتی ہوئی اقدار کو سہارا دیا۔ اپنے زور ِبازو و زور ِعمل سے ان اصولوں کو قائم رکھا کہ جن کی بدولت انھوں نے عزّت کے آسمانوں میں پرواز کرنا سیکھا تھا کہ واقعہ کربلا جس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بھی اپنے اشعار میں یہ کہتے ہیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقّدر کا ستارہ
یعنی قوم و ملت کا اتار، چڑھاؤ افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ ہر فرد کو ملّت میں ایک درخشاں ستارے کی اہمیت حاصل ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ
فردِ قائم ربط ِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، بیرونِ دریا کچھ نہیں
یعنی ایسے افراد کہ جو قوم و ملّت کے رابطے سے خارج ہوں، وہ ہرگز سود مند نہیں ہوتے بلکہ ملت کے وہی افراد مفید و کار آمد ثابت ہوتے ہیں کہ جو ملّت کے ساتھ مضبوط رابطے میں ہوں۔ اسی طرح جب ملّت کا ہر طبقہ دوسرے طبقوں کے ساتھ مضبوط رابطے میں ہوگا تو ملّت کے جسم کا کارآمد جزء ثابت ہوگا وگرنہ نہیں۔ بالکل اسی طرح اگر معاشرے میں موجود تمام اصناف کے افراد کا دِقت سے مطالعہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ معاشرے میں شہید ایک ایسی صنف ہے کہ جسے باقی تمام اصناف میں تغمہءِ امتیاز حاصل ہے، کیونکہ اس صنف کے افراد کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے کہ جو ہمیشہ اپنی جان کا نذرانہ دے کر بے جان و بے روح ملّت کو تازہ دم کرتے ہیں۔ زمانے میں یہی وہ افراد ہیں کہ جنہوں نے اپنے زور بازو و عمل سے ہمیشہ ملّت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچایا ہے۔ شہید وہ افراد ہیں کہ جو ملّتیں تشکیل دیتے ہیں ، جو قوموں کو ان کی کھوئی ہوئی عزّت و عظمت واپس دلاتے ہیں۔
اگر 61 ھجری میں ملّت اخلاقی گراؤ و تنزلی کا شکار ہو کر مرجھا جائے اور اس میں زندگی کی رمق باقی نہ رہے، تب بھی ہمیں 72 شہداء ہی نظر آتے ہیں کہ جو ملّت کی حیات کے لئے اپنی زندگی ملّت کو تحفے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی طرح اگر 2014ء جیسے ماڈرن دور میں ملّت پاکستان نہ صرف یہ کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے بلکہ اس حد تک کہ بالکل اندھی، بہری و گونگی ہوجائے کہ جو ہر روز ظلم کے سورج کو ایسے دیکھے کہ گویا اس کو دیکھائی ہی نہ دیتا ہو، مظلوم کی چیخ و پکار کو ایسے سنے کہ جیسے اس کو سنائی ہی نہ دیتا ہو اور ظالم کے ظلم پر ایسا سکوت اختیار کرے کہ گویا اس کو بولنا آتا ہی نہ ہو۔ جب ملّتیں و افراد اس حد تک گر جائیں کہ انسان، شناختِ انسان کھو بیٹھے، تب جا کر انھیں ایک ایسے ہی گروہ کی ضرورت پڑتی ہے کہ جو اپنے معصوم و پاکیزہ خون کے چھینٹوں سے سوئی ہوئی و مردہ قوم میں زندگی کی ایک نئی امید جگائیں۔ تب جا کر ہمیں پشاور کے ان ننھے پھولوں کی ضرورت پڑتی ہے کہ جو اپنے خون کے قطروں سے شبنم کا کام لیتے ہوئے مرجھائی ہوئی قوم میں تازگی پیدا کریں۔
16 دسمبر ملّت پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 16 دسمبر ملّت پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ 16 دسمبر ملّت پاکستان کو دو بڑے سانحات کی یاد دلاتا ہے۔ 16 دسمبر کو پشاور کی سرزمین پر بہایا جانے والا ان معصوم بچوں کا خون پوری ملّت پاکستان سے کچھ ذمہ داریوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ظلم کے خلاف مبارزے کی ذمہ داری ، سکوت توڑنے کی ذمہ داری، اپنی صفوں میں اتحاد و ؤحدت کو برقرار رکھ کر دشمن کے خلاف ایک ہونے کی ذمہ داری، کیونکہ آج خود یہ واقعہ اور اسی طرح سرزمین ِجنوبی ایشیاء میں سکولوں پر ہونیوالے ایک ہزار 2 سو 59 حملوں میں سے تقریباً 836 کا پاکستان سکولوں پر حملہ ہونا، اس بات کا کھلا و واضح ثبوت ہے کہ آج دشمن ہم سے زیادہ خوف زدہ ہے اور ہمارے شاہین دشمن کی آنکھوں میں تیر کی طرح چْبھ رہے ہیں۔ لہذا یہاں ہماری ذمہ داری خوف سے ڈر کر گھر بیٹھنا نہیں بلکہ پہلے سے خوف زدہ دشمن کہ جو اب بوکھلاہٹ کا بھی شکار ہے، کے خلاف میدان عمل میں آنا ہے۔
ہم پشاور کے ان ننھے بچوں کے خون کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جن کے پاکیزہ خون نے ملّت پاکستان کی رگوں میں شعور اجاگر کیا، مگر ساتھ ساتھ افسوس اس بات کا ہے کہ جس طرح شہداء نے اپنی ذمہ داری کو انجام دیا، اس طرح ہم اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے سکے۔ ہم نے کل بھی 16 دسمبر سے سبق نہ سیکھا اور آج بھی اس کو ایک فراموش پہلو بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ گذشتہ دنوں میرے ایک فاضل دوست نے 16 دسمبر کو بہت اچھے انداز میں یاد کیا اور بھارت جیسے دشمن کی طرف توجہ تو دلائی، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے جو سبق ہمیں ملتا ہے، یا آئندہ جو ذمہ داریاں ملّت پاکستان کے کاندھوں پر عائد ہوتیں ہیں، ان کو بالکل نظرانداز کیا۔ فاضل دوست کے مطابق آج ہمیں 45 برس گزر گئے مگر ہماری بے حسی کی انتہاء ہوگی کہ ہمیں احساس بھی ہوا تو نریندر مودی کے کہنے سے۔ آیا ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر بقول اقبالؒ یہ مردہ قوموں کی علامت ہے،اقبال ؒ اس بارے میں کہتے ہیں کہ
ہے یہی نشاں زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
دوسری بات یہ کہ آج صرف ملّت پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام امت مسلمہ نے ان اصولوں و ضوابط کو پس ِ پشت ڈال دیا ہے کہ جن سے قومیں عظمت و سربلندی کے راستے طے کرتیں ہیں۔ آج ہم دنیا کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ تو ضرور ذکر کرتے ہیں کہ برطانیہ و فرانس نے اپنے مفاد کی خاطر سلطنت عثمانیہ جیسی عظیم اسلامی سلطنت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، مگر ہماری توجہ ان عوامل، اسباب و اس خاندان سے ہٹ جاتی ہے کہ جس کی مدد کے بغیر یہ کام ممکن نہ تھا اور نہ صرف یہ کہ ہم اس خاندان ِ آل سعود کو بھول جاتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ آج یہ غدار و غاصب خاندان امت اسلامیہ کی لیڈنگ کا دعویدار ہے۔ آج امت اسلامیہ کو سوویت یونین کا ٹکڑے ہونا تو نظر آتا ہے مگر اسی سوویت، افغانستان، عراق، بحرین، شام و یمن میں موجودہ اسلامی اقدار کی دھجیاں اْڑتی ہوئی نظر نہیں آتیں، کیونکہ ہم نے اپنے و اپنے آقاؤں کے مفاد کے پیش نظر ایک طرفہ اصولوں کو اپنایا ہوا ہے۔
1971ء میں تو مشرقی پاکستان میں مسلمان بنگالی ہندؤں کے نوکر و قرضدار تھے۔ ان کے تعلیمی اداروں پر ہندؤوں کا قبضہ تھا۔ نصاب ایسا تھا کہ جس میں دو قومی نظریئے کی نفی تھی مگر ہم نے مسلسل اپنی غفلت و بے حسی کی طرف دھیان نہ دیا۔ یہاں تک کہ 16 دسمبر نے ہمارے منہ پر ایک ایسا طمانچہ مارا کہ جس کی شدّت سے ملّت پاکستان کچھ دیر کے لئے سونا گویا بھول سی گئی۔ ملّت پاکستان میں کچھ عرصے کے لئے بے چینی و اضطرابی کی لہر دوڑی مگر آہستہ آہستہ لہو پھر سرد ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ ملّت پاکستان نے اپنی اس غفلت کو ایسے بھلایا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ آج ایک بار پھر میرا ملّت پاکستان سے سوال ہے کہ کیا ہم نے کل کے 16 دسمبر سے عبرت لی؟ کیا آج پھر ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود ذہنی غلامی کا شکار نہیں۔؟ کیا آج پھر ہمارے تعلیمی ادارے و تعلیمی نظام مغرب کے زیرِ اثر نہی۔؟ کیا آج پھر ہمارے نصابِ تعلیم کا تعین ہمارا دشمن کرتا ہے، کیا آج پھر ہم اپنے شاہینوں کو خاک بازی کا درس نہیں دے رہے۔؟ کیا آج ہمارے پاس ہماری خودی موجود ہے۔؟ ہمیں ہر سال 16 دسمبر کو شہید بچوں کے مزاروں پر جاکر اپنے دشمنوں کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم نے آج اپنے دشمن کو نہ پہچانا تو شاید کل کا طلوع ہوتا سورج ہم نہ دیکھ سکیں۔
تحریر: ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(قم) ایم ڈبلیو ایم قم کے زیرِ اہتمام سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر بچوں کے ساتھ ایک خصوصی نشست رکھی گئی۔اس موقع پر ننھے منے بچوں نے تقاریر ،اشعار اور نظموں کے ساتھ اپنے وطن سے محبت اور دہشت گردوں سے نفرت کا اظہار کیا،شہدا کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی اور ایم ڈبلیو ایم قم کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری اور سیکرٹری سیاسیات عاشق حسین آئی آر نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے محرکات سے بچوں کو آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ پورے عالمِ اسلام خصوصاً پاکستان کو سعودی عرب اور امریکہ کی سازشوں سے آگاہ اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔اس نشست کا اہتمام ایم ڈبلیو ایم قم کے شعبہ سیاسیات نے کیا تھا۔