قابل رحم ہے وہ قوم

وحدت نیوز(آرٹیکل) ’’قابل رحم ہے وہ قوم‘‘ یہ وہ تاریخی نظم ہے معروف لبنانی نژاد امریکی مصنف و شاعر خلیل جبران کا جو موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم گیلانی کو نا اہل کرنے والی سپریم کورٹ کے بینچ ممبر کے بطور اپنے ریمارکس میں لکھے۔ سپریم کورٹ کیطرفسے حکم پر گیلانی حکومت نے دو سال تک عملدرآمد نہیں کیا، یعنی آصف زرداری سمیت مشرف کیساتھ بینظیر کی این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کیخلاف کیسز کھلوانے کا کام نہیں کیا۔ نتیجتا عدلیہ کی توہین کا مرتکب قرار پاکر وزارت عظمیٰ سے جیالا وزیر اعظم نا اہل قرار پایا۔ یعنی کچھ اور نہیں بلکہ فوجی آمر صدر پرویز مشرف اور بینظر بھٹو کے درمیان این آر او کو سپریم کورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرار دینا بنیاد بنی۔ آج "جمہوریت بہترین انتقام ہے" کا خوبصورت نعرہ لگانیوالے بلاول بھٹو کو کوئی یاد دہانی کرائے، کہ اسی آمر جنرل کیساتھ انکی والدہ محترمہ این آر او کرکے واپس ملک آئیں تھی، اور انکے ایک وزیر اعظم کو اسی غیر قانونی این آر او کے طفیل سزا بھی ہوئی۔

اس تاریخی نظم میں سیاست دانوں، دانشوروں، اہل علم و دانش، سب کے کارتوت مختصر مگر جامع طور بیان ہیں۔ جیسے

قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے بازہوں
اور جس کے دانشورمحض شعبدہ باز اور مداری ہوں

پی پی کی اور نون لیگ کی لیڈر شپ تب اسی فوجی آمر پرویز مشرف کیساتھ این آر او کرکے اپنے اقتدار کیلئے راہیں ہموار کرتے رہے۔ جب مشرف کی رخصتی کا وقت آیا ، اسی بلاول کی پی پی پی نے گارڈ آف آنر پیش کرکے رخصت کیا۔ اور جب نون لیگ کی حکومت میں مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی، تو پی پی والے نون لیگ پرمعترض تھے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علیخان کا جملہ تھا، 'مشرف کو گارڈ آف آنر دینے والے (یعنی پیپلز پارٹی والے) سیاسی ڈرامہ کر رہے ہیں'۔ نون لیگ نے مشرف کیخلاف بغاوت کا کیس تو کیا جس کا پانچ سال بعد اب فیصلہ آگیا، مگر انہیں ملک سے جانے کی اجازت بھی کسی اور نے نہیں بلکہ اسی نون لیگ نے دی۔ سو

قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کوڈھول بجاکرخوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے

در اصل مسئلہ اس ملک کا یہ نہیں تھا کہ 2007 میں سپریم کورٹ کے ججز کو معطل کیا اور اسی چیف جج نے پلٹ کر آرمی جنرل پر مقدمہ چلانے کا آغاز کیا۔ پی پی کی پانچ سالہ حکومت کے بعد نواز شریف نے آرٹیکل 6 کے تحت اسے غداری کا مقدمہ بنایا۔ بلکہ اصل ایشو اس رونے دھونے کا تھا جو ہر سیاستدان کا وطیرہ رہا ہے۔ وہی کہ ملک کی تاریخ میں جمہوریت سے زیادہ آمریت رہی۔ مشرف کی آمریت تو 2007 میں نہیں بلکہ 1999 میں شروع ہوئی تھی۔ آئین اور عدلیہ معطل، پی سی او کے تحت من مانی تب شروع ہوئے۔ مگر آٹھ سالوں کے تمام کئے دھرے پر خاموشی اور جانے سے ایک سال قبل کے کام پر ’’سزائے موت؟‘‘ یہ کیس کرنے والوں کی پرائریٹی ظاہر کرتی ہے، کہ مستقبل کیلئے سول سوپر میسی یعنی آئندہ ملک پر شب خون مارکر آمریت کے امکان کو روکنا چاہتے تھے؟ اور عدلیہ کی آزادی چاہتے تھے؟ یا پہلے پی سی او کے تحت جج بن کر بعد میں پی سی او کے ذریعے ’معطل ہونے والا جج یعنی افتخار چوہدری‘ اوراقتدار کی کرسی سے ہٹائے جانیوالا ’سیاست دان، یعنی نواز شریف‘ اس آمر سے اپنا بدلہ لینا چاہتے تھے عدلیہ کے ذریعے؟ اب یہ اور ایسے کئی سوالات سوشل میڈیا پر اٹھتا نظر آرہے ہیں۔
اور نظم میں مجموعی طور پر پورے قوم کی حالت بیان ہے تو اس حقیقت کیساتھ ؎

قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کےجلوس کے سواکہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوااس کے پاس فخرکرنے کاکوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردنین تلوارکے نیچے نہیں آجاتی
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو
اور جس کا ہرطبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو

تحریر: شریف ولی کھرمنگی

وحدت نیوز(آرٹیکل) جدید دنیا میں غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کا کردار کافی حد تک بڑھتا چلا جا رہاہے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز کے قیام نے عوام کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے جیسے سنہرے خوابوں سمیت خواتین کی آزادی جیسے کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر نہ صرف بے راہ روی کو پروان چڑھایا ہے بلکہ ان ممالک میں عوام کے اندر ایسے گروہوں کو بھی جنم دیا ہے جو وقت آنے پر ان غیر سرکاری تنظیموں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنے ہی وطن کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔


ہم اس مقالہ میں تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک میں امریکی این جی اوز کے منفی کردار کو آشکار کرنے کی کوشش کریں گے۔خاص طور پر امریکن این جی اوز نے افریقا اور ایشیائی ممالک کو اپنا گڑھ بنا رکھا ہے اور یہاں پر امریکی مفادات کو ترجیح پر رکھنے کے لئے ان خطوں کے ممالک میں سرمایہ گذار ی کی جا رہی ہے۔

امریکن این جی اوز میں سر فہرست یو ایس ایڈ نامی این جی او یا ادارہ کہہ لیجئے شامل ہے۔

پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے ممالک میں اور اسی طرح سوڈان، مصر اور دیگر شمالی و جنوبی افریقائی ممالک میں امریکن این جی او ز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی ادارے کی جڑیں کافی مضبوط ہو چکی ہیں۔ جہاں یہ ادارے مختلف خطوں کے ممالک میں تعلیم اور صحت کا نعرہ لگا کر نام نہاد ترقی کے منصوبہ متعارف کرواتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ ان ملکوں کی جڑو ں کو کھوکھلا کرنے کے لئے بھی زہر گھولتے رہتے ہیں اور درست وقت پر اس زہر کو کار آمد بنانے کے لئے اس سے کام لیا جاتا ہے۔

حال ہی میں ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں شمالی افریقائی ممالک سمیت مغربی ایشیائی مماک بشمول سوڈان، عراق، لبنان میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے مشاہدہ اور تجربہ نے ا س بات کو مزید تقویت بخشی ہے کہ امریکن این جی اوز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی ادارہ ان ممالک میں حکومت مخالف احتجاجی تحریکوں کو امریکی حکومت کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے رخ موڑنے کا کام انجام دیتا رہاہے۔

اگر عراق کی مثال سامنے رکھی جائے تو مشاہدے میں آیا ہے کہ امریکن این جی اوز نے کئی ماہ قبل ہی عراق میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم کے نعرے دکھا کر انہیں امریکہ کا سفر کروایا جہاں پر ان کی خاص تربیت کے دوران اپنے وطن کے نظام کو مسترد کرنے کی خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی۔یہ عمل امریکن این جی اوز کی سرپرستی میں جاری رہا اور پھر نتیجہ میں دو ماہ قبل سوشل میڈیا سے ہی جمع ہونے والے چند سو لوگوں نے کہ جن کو انہی امریکی این جی اوز نے امریکہ کا سفر کروا کر تربیت فراہم کی تھی، انہوں نے عراق کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے تکنیکی ذرائع اور نعروں کا استعمال کیا جو یقینا ہرعام انسان کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں۔

لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں نے حکومت پر دباؤ بڑھانے اور نظام کو غیر فعال کرنے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور بد ترین تشدد کے نتیجہ میں کئی افراد کو جان سے مار دیاگیا۔۔۔
کئی ایک ایسی مستند ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں کہ جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ انتہائی مہارت کے ساتھ مخصوص قسم کے اسلحوں سے لوگوں کو گولیاں ماری گئی ہیں اور اسی طرح ایمبولینسز سے نکال کر جوانوں کی قتل کئے جانے کی ویڈیوز اور پھر ایک نوجوان کو قتل کرکے نذر آتش کرنے اور برہنہ حالت میں چوک پرلٹکائے جانے کی ویڈیوز ایک مخصوص اور منفی طرز فکر کی ترجمانی کرتی ہیں۔

اس بارے میں خود عراقی حکومت کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ امریکی این جی او ز نے گذشتہ چند ماہ میں نوجوانوں کو امریکہ لے جا کر جس تربیت سے پروان چڑھایا ہے اس وقت موجودہ سیاسی بحران کو پیدا کرنے میں انہی این جی اوز کا منفی کردار واضح ہو چکا ہے۔

دوسری طرف لبنان میں بھی اکتوبر کے مہینہ میں اسی قسم کا احتجاج شروع ہو اجو چند دن بعد لبنانی وزیر اعظم کے استعفی کی صورت میں کامیاب ہوتا نظر آیا لیکن لبنان کے احتجاج میں بھی یوا یس ایڈ کے خصوصی افراد کی جانب سے مظاہروں میں بھرپور شرکت اور مظاہرین کی مدد کرنے کے ٹھوس شواہد نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ امریکی این اجی او ز اس ملک میں بھی جہاں حکومت کے خلاف احتجاج کو پر تشدد رنگ دینے میں سرگرم عمل ہیں وہاں ساتھ ساتھ مخصوص گروہوں کی تربیت کے ذریعہ ملک کو غیر مستحکم کرنے اور سیاسی بحران کو پروان چڑھانے میں بھی پیش پیش ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سے شواہد سامنے آنے کے بعد لبنانی عوام نے احتجاج کو ترک کر دیا ہے جبکہ چند ایک لوگ ابھی بھی حکومت مخالف احتجاج میں شریک ہیں، البتہ احتجاج سے باہر نکل جانے والی عوام کی ایک بڑی تعداد نے لبنان میں امریکی این جی اوز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی این جی او کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کرتے ہوئے اس ملک دشمن ادارے کے دفاتر کو بند کر دیا ہے۔

سوڈان کی اگر بات کریں تو یہا ں بھی ستمبر کے مہینہ میں شروع ہونے والا احتجاج حکومت کے مستعفی ہونے کا باعث بنا ہے اور اسی طرح مصر میں بھی احتجاجی نے جنم لیا تھا اور اب یہ صورتحال پاکستان میں بھی آن پہنچی ہے کہ گذشتہ دنوں طلباء یکجہتی مارچ کے نام پر امریکی زدہ کھوکھلے نعروں اور انسانیت کی تذلیل نے امریکی این جی اوز کی ممالک میں مداخلت کے راز کو فاش کر دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ عراق، سوڈان،لبنان اور پاکستان میں ہونے والے مختلف احتجاجوں میں ایک بات قدرے مشترک پائی گئی ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں کی کوئی واضح قیادت سامنے نہیں آئی ہے جبکہ ان مظاہروں میں بے راہ روی اور ملک دشمن نعروں سمیت انسانیت کی تذلیل پر مبنی اقدامات او ر امریکی سامراج کے پیدا کردہ کھوکھلے نعروں سے ایک بات واضح ہو ئی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں امریکی این جی اوز ان ممالک کی جڑو ں کو کاٹنے کا کام کر رہی ہیں۔عراق و لبنان یا سوڈان میں کیا ہونا ہے ہمیں شاید نہیں معلوم، لیکن پاکستان ہمارا دیس اور ہماری جان ہے یہاں پر اس طرح کے اداروں کی جانب سے ملک کی جڑوں کو کاٹنے کے اقدامات کو سختی سے روکنا چاہئیے۔


تحریر: صابر ابو مریم

وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ چار دھائیوں سے امریکہ اور غرب اس خطے میں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پٹرول گیس اور دیگر وسائل کو لوٹنے کے لئے انھوں نے مختلف ممالک کے نظاموں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا. انکے ظلم وستم کا مقابلہ کرنے کے لئے مقاومت کا بلاک ابھر کر سامنے آیا. انھوں نے خباثت سے مذھبی رنگ دیکر جہان اسلام کو سنی اور شیعہ میں تقسیم کرنے پر کام کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہمارے مخالف تو بس شیعہ مسلمان ہیں. اور سنی مسلمان ہمارے اتحادی ہیں. حالینکہ سب سے زیادہ نقصان ان ممالک کے عوام کا ہوا جہاں پر اکثریت اھل سنت مسلمانوں کی ہے. اور امریکہ وغرب کی ان مسلط کردہ جنگوں میں اگر کوئی اعداد وشمار پر نظر کرے تو سب سے زیادہ قتل ہونے والے بھی اھل سنت مسلمان ہی ہیں. اس وقت جب مقاومت کی حکمت عملی و استقامت اور جوابی کارروائیوں سے اس خطے میں امریکہ شکست سے دوچار ہے. اور دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

 امریکہ اور غرب نے خلیجی ممالک بالخصوص سعودیہ وامارات کو لیبیا ، الجزائر ، تیونس ، مصر ، لبنان وسوریہ ، فلسطین وعراق اور یمن وبحرین سمیت دیگر اسلامی ممالک میں اس قدر استعمال کر لیا ہے کہ اب سعودیہ کا چہرہ پورے جہان اسلام میں امریکی اشاروں پر ناچنے اور خطے کے ان مذکورہ ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت کرنے اور انکے امن امان کو تباہ برباد کرنے ، آباد وشاد ممالک کو ویران کرنے کے لئے دہشگردی کی کھلی مدد کرنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکا ہے. اقوام عالم میں آل سعود کے خلاف بہت نفرتیں جنم لے چکی ہے. وہ اب اس قابل نہیں رہے کہ کوئی مسلمان انہیں اپنا پیشوا وراھنما قبول کر سکے. اب انکےطاقتدار کے زوال کا وقت آن پہنچا ہے اور انکی قیادت کا خاتمہ ہونے والا ہے . اقبال نے تو بہت عرصہ پہلے جہان اسلام کی نجات کا فارمولہ بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

مقاومت کا بلاک ہر گز فقط شیعہ بلاک نہیں بلکہ اس میں عراق ولبنان وشام وفلسطین ویمن کے اھل سنت صوفی ، مسیحی ، درزی ، ایزدی ، عاشوری ، علوی ، زیدی واسماعیلی. نیشنلسٹ وکیمونسٹ ولیبرل وغیرہ سب شامل ہیں . اور امریکہ واسرائیل کی استعماری پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور انکی غلامی کی بجائے انکے خلاف قیام اور ہر وسیلہ سے مقاومت کرنے کے موقف پر متحد ہیں۔

لیکن شاید امریکہ اور اسرائیل کی پیدا کردہ نفرتوں کا شکار مسلمان ابھی تک اس حقیقت کو درک کرنے کے قابل نہیں. اس لئے اب امریکہ کو شکست دینے والے مقاومت کے بلاک کے محور مرکز سے ھٹ کر سنی سیاسی اسلام کے دعویدار اخوان المسلمین جہان اسلام کو قیادت کا جدید نظام فراھم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. جبکہ سعودی عرب اب بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ھاتھ پاوں مار رھا ہے. انہیں ایرانی مسلمان بھائی کلمہ شھادت پڑھنے والا اسلام دشمن اور اسرائیلی وصہیونی ویہودی اسلام کا کا ھمدرد اور دوست نظر آتا ہے اس لئے ایران سے تعلقات منقطع کرتے ہیں اور امریکا وغاصب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر فخر کرتے ہیں۔

تاریخ عصر حاضر کے تناظر میں عالمی سنی قیادت

– پہلی عالمی جنگ سے پہلے جہان تسنن کی زعامت وقیادت ترکی کے پاس خلافت عثمانیہ کی شکل میں تھی۔
– اس کے کے بعد تدریجا سعودیہ کو یہ قیادت تفویض کی گئی. اور پورے سنی جہان اسلام کا سرپرست اور قائد وراھبر ال سعود کو بنایا گیا۔
– جب اردغان کو طاقتور کیا گیا تو اسے پھر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا خواب دکھایا گیا. اور اس نے سنی اسلام سیاسی ( اخوان المسلمین ) کو جذب کیا۔
– جب مصر میں محمد موسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے خلافت وقیادت سنی اسلام کی انگڑائی لی. سعودیہ نے جنرل سیسی کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا۔
– قطر کے اخوانی رجحانات نے اسے سعودیہ کا دشمن بنایا۔
– مہاتیر محمد نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اسرائيل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور حماس کی حمایت کی . تو ملائشیا میں سعودی نواز حکومت لائی گئی۔

– نون پریس کی رپورٹ کے مطابق کوالمپور میں ہونے والی کانفرنس اپنی نوعیت کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس ہے۔
– 2014 کو مہاتیر محمد نے اقتدار میں آنے سے پہلے اسلامی مفکرین کی بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ” اسلام کا سیاسی وفکری نظام ” بلائی۔
– دوسری بین الاقوامی کانفرنس بھی کوالمپور میں بعنوان ” ترقی واستحکام کے لئے حریت ودیموکریسی کا کردار ” منعقد کی کئی۔
– تیسری بین الاقوامی کانفرنس اخوان کے نفوذ کے ملک سوڈان میں بعنوان ” الحکم الرشید ” یعنی حکومت راشدہ منعقد ہوئی۔
– چوتھی بین الاقوامی کانفرنس استنبول میں ” الانتقال الدیمقراطی ” منقعقد ہوئی۔
– ابھی 18 سے 21 دسمبر 2019 کو پانچویں کانفرنس بعنوان “قومی استقلالیت کے حصول میں تعمیر وترقی کا کردار ” اور امت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر بحث کرنے کے لئے منعقد ہو رہی ہے جس میں پانچ ممالک ملائشیا ، ترکی ، پاکستان ، قطر اور انڈونیشیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے البتہ شرکت کے لئے 50 کے قریب اسلامی ممالک کہ جن میں ایران بھی ہے ان کو دعوت دی گئی ہے. اس کے علاوہ جہان اسلام کے 450 مفکرین کو بھی ان مسائل پر بحث کرنے کے لئے دعوت دی گئی ہے. کانفرنس کے انعقاد کے بعد سب کچھ سامنے آ جائے گا کہ یہ مفکر کیا فقط اھل سنت ہیں یا کسی شیعہ مفکر کو بھی دعوت ہے. یا پھر اھل سنت میں سے بھی فقط اخوان المسلمین عالمی کے مفکرین اور انکے طرفدار ہی مدعو ہیں یا دیگر اھل سنت مفکرین بھی شریک ہو رہے ہیں۔

– ملائشیاء کے وزیر اعظم مھاتیر محمد نے اپنے بیان میں جن زیر بحث آنے والے اہم مسائل کا تذکرہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

مسلمانوں کی مجبورا ھجرت ، اقتصادی مسائل ، قومی وفرھنگی شناخت ، اسلام فوبیا ، مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرتیں ، انٹرنیٹ وٹیکنالوجی، ترقی واستقلال ، صلح امن اور دفاع ، استقامت اور حکومت راشدہ ، عدالت وآزادی وغیرہ شامل ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور ملیشیاء کے ساتھ ملکر امت کو درپیش مسائل کہ جن میں فلسطین اور روھینگیا کے مسلمانوں کے مسائل ہیں اس سلسلے میں تعاون کو بہتر بنائیں گے. اور ان مشکلات کا حل تلاش کریں گے۔

ترکی کے صدر کے مشیر یاسین اقطای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ سعودی عرب ،امارات ،اور مصر وغیرہ طاقتور ملک میانمار ، کشمیر ، فلسطین ، ترکستان ، سوریہ کے مسلمانوں کی مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں جبکہ یہی وہ ممالک ہیں جو یمن ، لیبیا اور مصر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور جو کچھ ان پر گزر رہا ہے یہی ان مسائل کا موجب و منبع ہیں۔

ملائشیاء کانفرنس اور قضیہ فلسطین

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کو اولویت دی جائے گی. امریکی سفارتخانے کے قدس شريف میں منتقل ہونے اور اسے مقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی امریکی تائید کے بعد جب دنیا بھر میں اس عمل کی مذمت کی گئی. تو اسی دوران اقوام متحدہ میں عربی واسلامی ممالک کی نمائندگی میں ترکی کے صدر نے قرار داد پیش کی اور موقف اختیار کیا کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لئے اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں بلاواسطہ مذاکرات ہونے چاہئیں. جسے 128 اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لیا گیا.
فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ھنیئۃ کی شرکت بھی متوقع ہے. امریکہ واسرائیل اب فلسطین کے مسئلے پر حماس سے معاملات پر راضی ہیں. بشرطیکہ اس کا عسکری ونگ کنٹرول ہو جائے. جیسے پہلے یاسر عرفات اور محمود عباس سے معاملات چلتے رہے اور حماس وجہاد اسلامی اور مقاومت کے باقی گروہ دشمن رہے. اب یوں نظر آ رھا ہے کہ حماس محمود عباس کی جگہ لینے والی ہے اور یہی معاملات کرے گی. اور پوری دنیا کے اخوان المسلمین بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں گے ترکی اور قطر کے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب ، بحرین، اردن ومصر کے تعلقات قائم ہیں. حماس اسرائیل مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد ملائشیا وپاکستان ودیگر اسلامی ممالک کے راستے ہموار ہو جائیں گے. فقط مقاومت کا بلاک کہ جس میں ایران ، عراق ، شام ، لبنان اور یمن و فلسطینی مقاومتی گروہ ہیں وہ غاصب صہیونی حکومت کے مد مقابل رہ جائیں گے۔

قطری اقتصادی تعاون اور مالی امداد کا منصوبہ

قطر گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے. اور اسرائیلی قطری تعلقات اور الجزیرہ کی شکل میں میڈیا کے شعبے میں تعاون بھی سب جانتے ہیں. قطر نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ ملکر اقتصادی تعاون اور اسلامی ممالک کی ترقی کے لئے مالی امداد کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے. جس کے لئے تین مراکز بنائے جا رہے ہیں. مشرق وسطیٰ کے لئے مالی امداد وتعاون کا مرکز دوحہ میں اور یورپ کے لئے ترکی میں اور ایشیا کے باقی ممالک کے لئے کوالمپور میں مرکز بنایا جائے گا. اس پر دوحہ ، استنبول اور کوالمپور حکومتوں کے مابین معاملات طے پا چکے ہیں. اور تینوں مراکز کے لئے 3 ٹریلین ڈالرز کی امداد کا بجٹ بھی طے پا چکا ہے۔

تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) عراق تیل کے ذخائر کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس پر گذشتہ 16 سال سے امریکی قبضہ ہے. اسے اقتصادی و سیاسی طور پر امریکہ نے مکمل طور پر جکڑ رکھا ہے. اور اسکے مقدر کے بڑے بڑے فیصلے امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتے. ملک کی سیکورٹی، اقتصادی و سیاسی پالیسیوں میں امریکہ اپنے تسلط اور نفوذ کے ذریعے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے. جب 25 اکتوبر 2018 کو عادل عبدالمہدی نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تو کیونکہ یہ شخص خود ماہر اقتصادیات ہے اس نے ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کے لئے جو روش اپنائی اس کی پالیسیوں اور اقدامات سے عراق امریکی ھاتھوں سے نکل رہا تھا. ایسے میں امریکہ نے اس کو راستے سے ہٹانے کے لئے اپنی پراکسیز میدان میں اتاریں. جنہوں نے کرپشن کے خاتمے اور عوام کی محرومیوں کا کارڈ استعمال کیا. تاکہ لوگوں کی توجہ امریکہ اور وزیراعظم عراق کے مابین حقیقی اختلاف اور اسکے محرکات و عوامل سے ہٹائی جاسکے. مقامی و بین الاقوامی میڈیا نے بھی انہیں پراکسیز کے پروپیگنڈے کو ان ناگہانی حالات کا موجب قرار دیا. اور یہ مطالبات بھی عوام کے دل کی آواز تھے اور انکے بنیادی حقوق کا تذکرہ اور کرپشن ومحرومیوں کے خاتمے کا مطالبہ ان کو سڑکوں پر لانے کا سبب بنا.

اس لئے ہم نے کوشش کی کہ قارئیں کو حقائق سے آگاہ کریں اور عراقی صحافت میں جو ابحاث حالات خراب ہونے سے پہلے چل رہی تھیں اسے انکے سامنے پیش کریں۔ اس لئے ہم نے اپنے پہلے مضمون میں سابق وزیراعظم عادل عبدالمھدی کے ان اقدامات کا تذکرہ کیا جو انھوں نے ملک کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے دلیری کے ساتھ اٹھائے اور امریکی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر چین کا دورہ کیا. اور دوسرے مضمون میں تفصیل کے ساتھ لکھا کہ انہیں وطن سے وفا کرنے کے جرم کی سزا دی گئی.  اور وہ بنیادی وجوھات جو حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں ان پر روشنی ڈالی.  جبکہ تیسرے مضمون میں امریکی حکومت عراق کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے اسے امریکی صدر کے بیانات سے واضح کیا.  اور عراق کے اس کرپٹ نظام کی تشکیل کے لئے کئے جانے والے امریکی اقدامات کو دلائل کے ساتھ بیان کیا.

اپنے تیسرے کالم میں ہم نے حوالے کے ساتھ بیان کیا کہ امریکی صدر کہتا ہے

1- عراق کی آرمی (سابقہ) کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کیا جا چکا ہے. اب انکے پاس ایک کمزور فوج ہے.
 2- اور عراقی معاشرہ ایک کرپٹ معاشرہ ہے.
3- انکے لیڈر بدعنوان اور کرپٹ ہیں.
  4- ایسے عراقیوں کا کوئی وجود نہیں. ( وہ کہ جس کو عراق کی فکر ہو ).
5- وہ مختلف گروہوں اور قبائل میں بٹے ہوئے ہیں.

امریکہ اس وہم میں تھا کہ اب وہ جو کچھ کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے۔ لیکن وہ شاید بھول گیا تھا کہ عراق کی تاریخ بہت طولانی ہے اسے کوئی نہ ختم کر سکا ہے نہ ختم کر سکے گا. عراق کی تاریخ بشریت کی تاریخ کی ابتداء تک جا پہنچتی ہے . کیونکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام  اور آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام اسی ملک عراق کے شہر نجف اشرف میں سردار الاولیاء امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے پہلو  میں دفن ہیں.  اور تا قیامِ قیامت یہ ملک رہے گا.  اور اسی سرزمین پر وہ حکومت بھی قائم ہو گی جو پوری دنیا کے ظلم وجور کا خاتمہ کرے گی اور اسے عدل و انصاف سے پر کر دے گی.  جس کی بشارت سردار انیباء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحکم خدا دے چکے ہیں.

امریکہ گذشتہ سالوں میں دیکھ چکا ہے کہ اب عراق وہ نہیں جو وہ بنانا چاھتا تھا. درست ہے کہ امریکہ نے عراقی فوج کو ختم کرنے کے بعد سوچا تھا کہ اب یہ ملک ایک کمزور ملک ہے. جس کے پاس کوئی دفاعی طاقت نہیں. اب اسے تقسیم کیا جا سکتا ہے اور اس پر داعش کو مسلط کیا جا سکتا ہے. اور وہاں پر مقدسات کی بیحرمتی کی جاسکتی ہے اور انہیں مٹایا جا سکتا ہے. لیکن اسے مرجعیت رشیدہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ جس کے ایک فتویٰ سے ایسی عوامی رضا کار فورس بن سکتی ہے جو اس کے غرور و تکبر کو توڑ سکتی ہے. اور اسکے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا سکتی ہے. اسے تاریخ سے عبرت لینی چاھیے تھی۔ ایک زمانہ تھا جب پورے کا پورا کفر اکٹھا ہو کر مرکز اسلام پر حملہ آور ہوا تھا اور اسلام کو نابود کرنا چاھتا تھا. تو اس وقت جس بابصیرت مجاھد سلمان فارسی کی کامیاب دفاعی پالیسی کو قبول کرتے ہوئے رسول اللہ نے شہر کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا تھا. کل ایمان امام نے بڑھ کر کل کفر کو شکست سے دوچار کیا تھا. آج پھر  اسی سلمان کی قوم مجاھد اسلام حاج قاسم سلیمانی نے اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق دفاعی پالیسی مرتب کی اور خود اپنے جانبازوں کے ساتھ ملکر کر میدان عمل میں اترے اور  مرجعیت کے فتویٰ کی لاج رکھی. جس کے نتیجے میں بہادر عراقی سپہ سالاروں اور مجاھدین نے حشد الشعبی تشکیل دیکر اس زمانے کے کلِ کفر کی بنائی ہوئی داعش کے ناپاک وجود سے سرزمین عراق کو پاک کیا. اور عراق کی تقسیم اور علحیدہ ملک کردستان کے قیام کا خواب چکنہ چور کیا. اس وقت عراق اور خطے میں شکست خوردہ امریکہ اپنے سامنے سے بڑی بڑی دفاعی لائنز کو ہٹانا ضروری سمجھتا ہے تاکہ اسکا استعماری تسلط قائم رکھ سکے۔ عراق میں امریکہ کے سامنے بنیادی دفاعی لائنز یہ ہیں۔

1- حشد الشعبی
2- مرجعیت رشیدہ کا نفوذ
3- عراقی و ایرانی ایمانی ر
شتہ اور باھمی تعاون.
4- محب وطن سیاسی لیڈرشپ.

اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے امریکہ جن قوتوں کو استعمال کر رہا ہے؟ ان کا اور اس حوالے سے پارلیمانی اتحادوں اور پارٹیوں کے کردار اور موقف کا تذکرہ ہم اپنے اگلے کالم میں کریں گے۔(جاری ہے)

تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) حسب معمول رات کے ایک پہر گزرنے کے بعدجب گھر پہنچا تو دیکھا بجلی نہیں ہے۔ بجلی نہ ہونے پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا کیونکہ میں سکردو میں رہتا ہوں جہاں بجلی صرف یا ارباب اقتدار اور عہدہ دار کے گھر میں یا امیر کے گھرمیں ہوتی ہے۔ بے چارے عوام کے گھروں میں ، گرمیوں کے موسم میں جب پانی کی فراوانی ہوتی ہے تب بھی بجلی نہیں ہوتی ہے تو اب سردیوں میں کہاں بجلی ہوگی۔ جبکہ سنا ہے کہ سدپارہ ڈیم میں پانی لیکیج کا سوراخ اتنا بڑا ہوا ہے جس میں وزیر بجلی کو بھی ڈالا جائے تو سوراخ بند نہ ہونے پائے۔ اور گزشتہ دوماہ سے مسلسل ڈیم سے پانی کو ضائع کیا جارہا ہے جس کی وجہ سمجھنے سے میں آج بھی قاصر ہوں۔

بہر کیف بجلی کا انتظار کرتا رہا اچانک بجلی آگئی تو فورا وائی فائی آن کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب کی تحریر نظر سے گزری جس میں موصوف نا معلوم نے ایم ڈبلیو ایم کے حوالے سے کچھ باتیں تحریر کی ہیں۔ موصوف مذکور کی کچھ باتوں نے مجھے بھی قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ میں تو حق اور حقیقت کا متلاشی ہوں جہاں حق اور حقیقت نظر آ جائے فورا کود جاتا ہوں۔ مجھے کچھ حق نظر آیا ایم ڈبلیو ایم میں جس کی وجہ سے اس سیاسی مذہبی پارٹی کا ایک ادنا سا نظریاتی کارکن ہوں۔ موصوف نا معلوم لکھتا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم ایک پریشر گروپ ہے مگر سیاسی جماعت نہیں ہے، کیونکہ ان کو سیاست نہیں آتی۔ میں موصوف سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ سیاست سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اگر آپ کی سیاست سے مراد وہ ہے جو آج ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں میں ہورہا ہے، مثلا کرپشن' لوٹ کھسوٹ ' اقربا پروری اور اپنوں کوٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنا۔ تو جناب عالی! یہ سیاست نہیں ہے یہ تو لوٹ مار ہے۔ اگر آپ اسی کو سیاست سمجھتے ہیں تو ہمیں ایسی سیاست نہیں آتی۔ یہ والی سیاست ہم کرتے بھی نہیں۔ ایم ڈبلیو ایم اقدار اور میرٹ کی بات کرتی ہے جو کہ مقدس امر اور عبادت ہے۔ آپ کو یاد ہوگا اسی بلتستان میں نوکریاں بکتی تھیں، سرعام رشوت لیتے تھے، اور محکمہ ایجوکیشن کو اصطبل بنایا گیا تھا۔ سب سے زیادہ قانون شکنی ہوتی رہی۔ مگر آج الحمد للہ سر عام کسی کو نوکری فروخت کرنے کی جرآت نہیں ہوتی ہے تو یہ ایم ڈبلیو ایم ہی کی وجہ سے ہے۔

یوں تو بلتستان کا کونسا ایسا سیاست دان ہے جس نے مذہب کا سہارا نہ لیا ہو۔ آج جو بھی سیاست دان ہے تو مذہبی کارڈ اور علماء کی وجہ سے سیاست دان ہے اور انہی سیاست مداروں نے سب سے ذیادہ مذہبی کارڈ استعمال کرکے سیاست دان بنے اور سب سے ذیادہ مذہبی پارٹی کودھوکہ بھی دیا اور مذہبی پارٹی کے ساتھ خیانت بھی کی۔ گزشتہ الیکشن میں بھی ایک بے ضمیر نے مذہبی جماعت کا سہارا لیا اور مذہب کو گندا کرنے کے لئے ہاتھ پیر بہت مارا۔ مگر مرد حر آغا علی رضوی نے اس بے ضمیر کی مٹی پلید کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے نام کو داخل دشنام کیا۔ واضح رہے ضمیر کا سودا صرف اس نے نہیں کیا تھا بلکہ مبینہ طور پر شگر حلقے سے نمایندے عمران ندیم نے بھی ضمیرکا سودا کرکے بہت کچھ کمایا تھا۔ مگر ان کی ضمیر فروشی پہ سب خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کے حلقے اور جماعت میں کوئی سید علی رضوی نہیں !!! مگر بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حلقہ 2 میں ایک ضمیر فروش کو ضمیر فروشی کی سزا ملی اسکا سارا کریڈیٹ ایم ڈبلیو ایم کو ہی جاتا ہے۔ جس نے جیتی ہوئی سیٹ کو قربان کیا مگر بے ضمیری کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا۔ آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم کو سیاست نہیں آتی ۔۔۔۔؟ سابقہ الیکشن گواہ ہے کہ پہلی مرتبہ سیاست میں آتی ہے ایک پارٹی اور دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پہ سامنے آتی ہے۔ مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی اور سیاست کے میدان میں ماھر ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

ایم ڈبلیو ایم ہر جائز عوامی مطالبے میں صف اول میں رہی ہے۔ جتنی تحریکیں اور مطالبات اس ایک دہائی میں ہوئی ہے ان میں فرنٹ لائن پر کونسی جماعت نظر آتی ہے؟ انکی قیادت کس نے کی؟ یہ سیاست کا نہ آ نا کہلاتا ہے تو پھر ایسے ہی سہی۔ ایم ڈبلیو ایم یہی سیاست کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ہر نا انصافی پر عوام کی آواز بنتی رہی ہے، آگے بھی بنتی رہیگی۔ عوام کے حق میں ہر جائز مطالبہ کرتی رہی ہے ، آگے بھی کرتی رہیگی۔ ہر کرپٹ چور اور اقربا پرور کیخلاف اٹھتی رہی ہے آئندہ بھی اٹھتی رہے گی۔ ایم ڈبلیو ایم ہر ناجائز کام کیخلاف بولتی رہی ہے، آئندہ بھی بولتی رہیگی۔ ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے اور قائدین کی طرفسے اپنی تاسیس سے ابتک علاقے میں امن و امان کیلئے کوششیں بچہ بچہ تک کو معلوم ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم ہمیشہ علاقے میں اتحاد و اتفاق کے فروغ کیلئے صف اول میں رہی ہے۔

تعصب، پا بازی، لسانی و علاقائی اور مسلکی منافرت کے سد باب کیلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دہشت گردی اور حکومتی جبر کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند رہی ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔ ہماری سیاست یہی ہے، ہم اسی کو سیاست سمجھتے ہیں، یہی سیاست ہم جانتے ہیں، اور ہم یہی سیاست کرتے رہیں گے۔ جن کاموں کو آپ سیاست سمجھتے ہیں وہ ہمیں آتی ہے تو بھی نہیں کرتے۔ اور ہمیں کوئی سکھانے کی کوشش کرے تو بھی ہم نہیں کریں گے۔ یہی آپ کا اعتراف ہے کہ ہم موجودہ دور میں رائج لوٹ کھسوٹ، ٹھیکیدار نوازی، کمیشن خوری، نوکری، پروموشن اور تبادلوں کو سیاست کے نام پر نہیں کرتے۔ ہم عوامی فنڈز کو منظور نظر لوگوں کی آشیربادی کیلئے اور عوام پر اپنا احسان سمجھ کر استعمال کرنے اور پیش کرنے کو بھی سیاست نہیں بلکہ منافقت سمجھتے ہیں۔ ہم ووٹ بنانے کیلئے تختیاں لگانے اور فیتے کاٹنے کو بھی سیاست نہیں سمجھتے، یہ بھی عوامی پیسے عوامی امور میں خرچنا ہے کسی سیاسی مداری کے گھر کے پیسے نہیں، نہ اسکا احسان ہوتا ہے عوام پر۔ ہم اقدار کی سیاست کرنا جانتے، قانون اور انصاف کی سیاست کرنا جانتے ہیں، عوامی آواز بننے اور عوام کا ساتھ دینے کی سیاست جانتے ہیں۔ اگر آپکے خیال میں ایسا کرنا سیاست ہے تو ہم یہی جانتے ہیں۔

ازقلم: شیخ فداعلی ذیشان

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب عادل عبد المہدی نے عراق کی وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا اس وقت یہ ملک غیر ملکی قرضوں ، کرپشن اور بےروزگاری کی دلدل میں غرق ہو چکا تھا.  داعش اور دیگر تکفیری دہشتگردی کے گروہوں نے اس کی تباہی وبربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی. اجتماعی طور پر ملک کی عوام کے مابین کرد ، سنی اور شیعہ کی بلند دیواریں کھڑی کی جا چکی تھیں.  ایسے حالات میں اس نے ملک کی تعمیر وترقی ، عوام کی فلاح وبہبود اور روشن مستقبل کے لئے"عراق اولا" کے عزم کے تحت اپنی سیاسی واقتصادی پالیسی بنائی.  اور ملک کے زخمی جسم اور نظام کے لاغر بدن میں کینسر کی طرح پھیلے ہوئے اور راسخ شدہ جراثیم پریشان ہوئے. تمام تر خود غرض ملکی لٹیروں اور بیرونی استعماری طاقتوں کے لئے اسکی یہ روش ناقابل قبول تھی. اور انکے مفادات کا خطرہ لاحق ہو چکا تھا. اس لئے اب اس حکومت کا چلنا اور سیاسی استحکام اور اقتصادی پالیسیوں کا روکنا اندرونی مافیا اور بیرونی لٹیروں کے لئے ضروری ہو گیا تھا. اس لئے سب نے ملکر ایسے حالات بنائے کہ اسکو مجبورا استعفیٰ دینا پڑا.  اور ملک وعوام کے مستقبل کو مجہول کی طرف دھکیل دیا گیا. اور دوسرے الفاظ میں عراق کے استقلال اور روشن مستقبل کی خاطر عادل عبدالمہدی نے ناتوان وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی سیاسی خود کشی کو قبول کیا لیکن مسلط کرپٹ نظام اور طاقتور طاقتوں کو ایک مرتبہ جھنجوڑ کر رکھ دیا.

عراقی وزیراعظم کے اھم اقدامات

1- عراق کی زیر بناء کو مضبوط کرنے اور اقتصادی طور پر استقلالیت کے لئے متعدد آپشنز کی طرف توجہ دی اور عراقی تیل کی فروخت کے لئے نئی منڈیوں کی طرف رخ کیا منصب سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی عراق نے اردن اور مصر سے اس سلسلے میں اقتصادی معاھدے کئے. اور عراق جو کہ افریقی منڈی سے بہت دور تھا ان معاہدوں کے بعد اسے وہاں تک رسائی حاصل ہوئی. اس اقدام کی اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اگر ابنائے ھرمز کے ذریعے تیل کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ بھی پیدا ہو جائے تو عراق کے پاس تیل کی ترسیل کے لئے ایک متبادل راستہ ہو گا.

2- اسی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے عراق نے بجلی کی پیدوار  کے منصوبے کو ترقی دینے کے لئے جرمنی کی سیمنس کمپنی کے ساتھ ایک سنہری معاہدہ کیا. اور اسی بجلی پیداوار بڑھانے کے لئے الزبیدیۃ بجلی گھر اور صلاح الدین میں ایک بجلی گھر کے منصوبے کو وسعت دی.

3- زراعت کی پیداوار کو بڑھانے اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی اہم اقدامات کئے.  ملک کی غذائی امنیت کے استحکام کے لئے گندم کے ذخیرے کے لئے پائیدار  کنکریٹ کے بڑے بڑے اسٹور تعمیر کئے.  کہ جن میں چار ملین ٹن گندم اسٹور ہو سکتی ہے جس سے تین سال تک عراق کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے. کسانوں سے گندم کی خریداری کا آسان میکانیزم بنایا کہ جس میں بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے دور اور  6 لاکھ دینار فی ٹن کے ریٹ پر بے سابقہ اور بروقت فقط 72 گھنٹوں میں کسانوں کو مالیاتی ادائگیاں کی گئیں.

4- سب سے اھم اقدام 19 سے 23 ستمبر 2019 کا پانچ روزہ چین کا دورہ تھا کہ جس کے نتیجے میں " النفط مقابل الاعمار " یعنی تیل بالمقابل تعمیر عراق کا معاھدہ طے پایا. اور جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین دس سال کے دوران  500 بلین ڈالرز ٹریڈ کی سطح جا پہنچی.  اور طے پایا کی چینی کمپنیاں فوری طور پر کام شروع کریں گی. اور عملی طور پر 40 چائنی کمپنیوں نے پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کا کام شروع بھی کردیا.

یہ سارے اقدامات نہ تو کرپٹ سیاستدانوں کے لئے قابل قبول تھے اور نہ ہی عراق کے فیصلوں پر مسلط بین الاقوامی طاقتوں کے لئے قابل قبول تھے. چین کے ساتھ ان ھونے والے معاہدوں کے بعد عادل عبدالمہدی کے خلاف کرپشن کی عادی بااثر شخصیات اور بھاری بھاری کمیشن لینے والے گروہ اور استکباری طاقتیں سب ملکر سامنے آ گئے . امریکی صدر ڈونلڈ ٹرامپ نے ٹویٹ کیا. " کہ بالکل معقول نہیں کہ ہم عراق کو آزاد کرائیں اور معاملات غیروں سے ہوں " اور پھر تو ملکی وبین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا الیکٹرانک فورسسز نے عادل عبدالمہدی پر چڑھائی کر دی. اور عراق میں گذشتہ 16 سال سے ہونے والی ساری کرپشن ، بے روزگاری اور عوام کی محرومیوں کا زمہ دار فقط اور فقط عادل عبدالمہدی اور اسکی حکومت کو قرار دیا.

ملاحظہ: کالم کے اختتام پر رائٹر لکھتا ہے کہ  عادل عبدالمہدی صحافیوں ، میڈیا اینکرز، بوٹ چاٹنے والوں اور مکھیوں کے چہرے صاف اور خوبصورت بنانے والوں کے حق میں بہت کنجوس تھا.  

(عراقی رائٹر عبدالکاظم حسن الجابری کے کالم سے ماخوذ ، بتاریخ  12/11/2019 )

ترجمہ وتحریر:  علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی

Page 4 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree