وحدت نیوز(آرٹیکل) ’’پھر ایک وقت ایسا آیاکہ محل کے ایک ادنیٰ ملازم،جس کا کام مکھیاںمارناتھا اس نے مکھی مارنیوالی چھڑی سے مطلق العنان شہنشاہ جس کی جنبش ابرو ایران کاقانون بنتا تھا،جن کی بادشاہت کاڈھائی ہزار سالہ جشن منایا جا رہا تھاکی گردن پر زور سے مارا اور چلًا کے کہااس چھڑی سے میں نے آج بارہ مکھیاںماری ہے کاش تم تیرھویں مکھی ہوتی! شہنشاہ نے بے بسی سے ملازم کی طرف دیکھا،ٹھنڈی آہ بھری اور تھکے تھکے قدموں سے محل کی جانب چل دئیــ‘‘ میرا دوست مجھے ایک ایسی کہانی سنا رہا تھا جس پر یقین نہیں کیاجا سکتا مگر دوست کی آنکھوں میںشرارت یا مذاق کاعنصرنہیں تھا اور ویسے بھی وہ دوست انتہائی راست گو  شخص تھا۔

جی ہاں یہ سچی کہانی ایران کے شہنشاہ رضاشاہ پہلوی کی ہے جس کی فولاد جیسے مضبوط بادشاہت کو ایک بوریا نشین نے خاک میںملا دیا اور  وہ بادشاہ جو اپنے ہاتھ کی گھڑی کو درست کرنا توہین سمجھ کے ملک کے کیلنڈرمیں ردو بدل کرتاتھا اس پرمحل کے اپنے ایک ملازم نے مکھیاں مارنے والی چھڑی سے حملہ کیا، انقلاب کے بعد اس چھڑی کی باقاعدہ نیلامی ہوئی ایک ایرانی سوداگر نے اس چھڑی کو اچھے خاصے دام میں خرید لیا۔

یہ گذشتہ صدی کی ناقابل یقین واقعات میںسے ایک ہے جب ایک درویش اور بوریانشین شخص نے خودکو خادم مغرب کہلانے والے شہنشاہ کی شہنشایت کو للکارا اور اس بتکوعوامی طاقت سے پاش پاش کر ڈالا،وہ شہنشاہ جو امریکی صدر کو اپنا باس کہتا تھا اور واشنگٹن کو ایران کا دارالحکومت،جس نے ایران میںموجود تمام ا مریکیوں کو سفارتی حیثیت دے دی تھی اس کا خیال تھا کہ امریکہ کی آشیرباد اسے اور اسکی حکومت کوقیامت تک محفوظ بنالیںگے،مگر جب بوریا نشیں خمینی نے اس کا بوریا بسترگول کروادیا تواسی امریکہ نے اسے پناہ دینے سے انکار کردیا ،  انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذارتے ہوئے وہ بلآخربہادر شاہ ظفر کا شہرہ آفاق مصرع گنگناتے ہوئے مصر میں دفن ہو گئے۔

آج ایرانی قوم باوقار اور خودمختار قوم بن کے اپنے اس عظیم لیڈر کو سلام پیش کر رہے ہیں اور اس عظیم انقلاب کی چھتیسویںسالگرہ منا رہے جس نے ایران کا سر فخر سے بلند کیا، اگرآج دنیا نے ایران کو پرامن ،خودمختاراور غیرت مندقوم تسلیم کیا ہے تو اسی انقلاب کی مرہون منت ہے،آج اگر ایران پر کوئی عالمی اقتصادی پابندی نہیںہے تو،آج اسرائیل کی قبلہ اول پر ناجائز قبضے کو للکارنے والی واحد اسلامی ریاست ہے تو،آج دنیا میں اتحاد بین المسلمین کی داعی ہے تویہ سب اسی انقلاب کی مرہون منت ہے جو انیس سو اناسی میں بپا ہوا،جسے ناکام کرنے کے لئے اہل مغرب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اس مرد آہن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔

حکیم الامت  علامہ اقبال مرحوم سے کسی نے امامت کے بارے میں استفسار کیا،آپ نے اس کی حق میں دعا فرمائی کہ جن رازوں سے میں آشنا ہوں میری دعا ہے کہ حق تعالیٰ تجھ پر بھی وہ راز آشکار کرے، پھر امامت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا
ہے وہی تیرے زمانے کا امام ِبرحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

کیا انیس سو اسی کی دہائی میں ایرانی قوم کو جن چیزوں پر فخر کرنی چاہئے تھی ان سے بیزار نہیں تھے؟کیا اس وقت کے سپرپاورز سے تعلقات  سے وہ قوم بیزار نہیں ہوئے؟ پھر آگے حضرت اقبال امامت کی مزیدتشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

موت کے آئنے میں دکھلا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے

کیا آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران وہاں کے نوجوانوں کے لئے زندہ رہنا دشوار بلکہ موت سے گلے لگانا آسان نہیں تھا؟
تاریخ گواہ ہے جہاں  بلند نگاہ،آہنی عزم والے مردقلندر نے قیادت کی ، وہاں شہنشائت کے بتوں کو سرنگوں کر دی۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ قوموں کو زندہ رکھنے کے لئے روٹی،کپڑا۔مکان،مشین،فیکٹریاں،سڑکیں،موٹرویز،اورڈالرزضروری ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انا۔ضمیر،اور عزت نفس بھی قوموں کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے مظلومین کو عزت نفس اور غیرت کا درس دیا۔
تو اٹھا قوم کی کشتی کا محا فظ بن کر
تیری تدبیر نے طوفان کا رخ موڑدیا

 تحریر: ممتاز حسین ناروی
(This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.)

وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک کسان اپنے دوست کے پاس گیا اور اُس سے کہا مہربانی کر کے اپنا خچرکچھ دیر کے لئے مجھے دے دو میں بازار سے گندم لاکر واپس پہنچا دوں گا۔ دوست نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا انتہائی معذرت ! خچراس وقت گھر پر نہیں ہے ہمارے ہمسائے کو کوئی ضروری کام پیش آیا تھا جس کہ وجہ سے وہ خچرکو لے کر گیا ہے ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ اچانک اندر سے خچرکی آواز آئی۔کسان خچرکی آواز سن کرکہنے لگا تم تو کہہ رہے تھے کہ خچرگھر پہ نہیں ہے پھر یہ آواز کیسی؟دوست نے کہا تم کتنے احمق و بے وقوف ہو میں تمھارادوست اور انسان ہوتے ہوئے میری بات پر یقین نہیں کر رہے ہو اور خچرجو کہ ایک حیوان ہے اُس کی بات پر یقین کر رہے ہو بہت افسوس کی بات ہے۔۔
اس وقت دنیا بھر میں امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈٹرمپ کی دھواں دار تقریریں اوراشتعال و تعصب پر مبنی احکامات نے ہل چل مچادی ہے ، ساری دنیا کی بات ایک طرف خود امریکی میڈیااور عوام کوبھی یقین نہیں آرہا کہ امریکہ کو بھی کبھی ایسا وقت دیکھنا پڑے گا۔سپر پاور جو دوسروں کو تہذیب ، آزادی و جمہوریت کے درس دیتاتھا آج خود درس کا مستحق ہوگیا ہے۔ امریکی صد ارتی انتخابات، ہیلری کلنٹن کی شکست اورروس کی مداخلت یہ سب ایک الگ موضوع ہیں۔ اگر ہم چند سال پیچھے کی جانب دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے کس طرح امریکی عوام اور دنیاکو بے وقوف بنایا ہے، صرف دوہزار ایک سے اب تک یعنی ان سولہ سالوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے نام پرامریکی آمریت اورجھوٹ سب کے سامنے ہے، اس کی تازہ مثالیں عراق ،عرب اسپرنگ اورشام ہیں۔ کس طرح عالمی حقوق کے چیمپیئن نے جھوٹ کے ذریعے ساری دنیا میں خصوصا مشرق وسطی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر داعش جیسے تکفیریوں کو پروان چڑھایا، ڈیموکریسی اور آزادی کے نام پر ملکوں کو تباہ کیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے تک یہ سب ایک پردے کے پیچھے ہو رہا تھا۔ مغربی عوام سمیت مسلمان بھی یہی سوچتے تھے کہ امریکہ انسانی حقوق کا حامی ہے چونکہ امریکی حکومت و یہودی لابی اپنے مکرو فریب کو ایک پُرکشش لبادے میں اوڑھ کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے۔انھوں نے کس طرح افغانستان، عراق، تیونس، مصر، لیبیا، ترکی، شام، ایران،سوڈان، سومالیا اور یمن میں عوامی دوست بن کر انسانیت کو تباہ کیا (پاکستان میں ڈرون اٹیک اور ڈومور کی باتیں الگ ہیں )یہ سب کے سامنے عیاں ہے لیکن کبھی مسئلہ فلسطین و کشمیر پر کوئی ایسا ردعمل نہیں دکھایا، فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و بر بریت اُس کو کبھی نظر نہیں آئی، غاضب اسرائیل کے پاس موجود ایٹم بم کبھی نظر نہیں آیا لیکن صدام کے کیمیائی ہتھیار، پاکستان کی ایٹمی طاقت اور ایران کے مزائیلوں سے اُس کی نیندیں حرام ہیں۔ دوسرے ممالک کے پُر امن حالات کو خراب کرتے کرتے اب نوبت خود اپنی آئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ایک ایسے صدر سامنے آگے ہیں جس نے اوباما، بش اورامریکی ڈیموکریسی کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔لیکن جب دشمن مدمقابل آتا ہے تو اُس کے ہمراہی بھی کھل کے سامنے آجاتے ہیں, جب ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک پر پابندی عائد کردی تو تقریبا ساری دنیا نے اس کی مخالفت کی تمام انسانی حقوق اور تارکین وطن کے تحفظ کی تنظیموں نے مظاہرے اور عدالت سے رجوع کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے امریکہ سے فوری طور پر سفری پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کر دیااُدھر جرمن چانسلر انجیلا میرکل کا کہناتھا پابندیاں غلط اور نزاع انگیز ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں کی حمایت میں برطانیہ میں جاری آن لائن پٹیشن پر دستخطوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اِدھر ایران نے بھی امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا ہے  لیکن مسلمانان اسلام اُس وقت دنگ رہ گئے جب سعودی عرب کے وزیر تیل خالد الف لیح اورمتحدہ عرب امارات کے وزیر دفاع شیخ عبد اللہ بن زید النہیان نے امریکی فیصلے کا دفاع کیا۔
آخر مسلمان حکمران کیوں ہوش کے ناخن نہیں لیتے امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہے، افغانستان سے شروع ہوئی جنگ آج گھر گھر پہنچ گئی ہے. صدام اور قذافی سمیت دیگر پیروکاران مغرب کوامریکہ نے استعمال کرنے کے بعد ایک ایک کر کے ختم کر دیا ہے. دنیا کے کسی کونے میں بھی کوئی حقوق انسانیت اور آزادی بشر کی بات کرے تو امریکہ و اسرائیل اُس کے خلاف صف بندی شروع کرتے ہیں یہ سب ان چند سالوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہونے کے باوجود مسلمان اور مسلم حکمران کیوں مغرب کی گود میں بیٹھتے ہیں اور ان سے اپنی بقاء کی بھیگ کیوں مانگتے ہیں؟ اب تو گرین کارڈ کی خاطر اسلام کو گالیاں دینے والوں کی بھی عقل ٹھکانے آگئی ہوگی۔ دنیا کے کسی جگہ پر ایک چیونٹی مر جائے تو واویلا مچانے والے امریکہ میں نسلی تعصب اور مظاہروں پر خاموش کیوں ہے؟ مسلم خواتین کے پردے کو دقیانوسی اور دہشت گردی کہنے والے آج ٹرمپ کی کھلی بدمعاشی پر اور تعصب پر کیوں خاموش ہیں؟ ان کو صرف ایک ہی ڈائیلاگ یاد رہتا ہے تمھارا کتا ،کتا ہے ہمارا کتا ٹومی ہے۔ دیگر مسلم ممالک اور او آئی سی کو مسلم ممالک پر پابندی اور ٹرمپ پالیسی پر خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے اور ایران کی طرح جامع اورمنہ توڑ جواب دینا چاہیے جو تمام مسلمانوں کے مفاد میں ہو ورنہ امریکہ جھوٹ بولتا رہے گا اورکل ہماری باری ہوگی۔

تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا کے ہر جاندار کی طرح انسان بھی تحفظ کا متلاشی ہے،قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے،  قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے، جوقانون کو پامال کر کے انسان سے تحفظ چھین لے اور انسان کو خوف و خطرے اور دہشت و وحشت میں مبتلا کر دے اسے دہشت گرد کہتے ہیں۔جو بھی  لوگوں کو عدم تحفظ کا احساس دلائے وہی دہشت گرد ہے، کل تک کہا جاتاتھا کہ مذہبی پارٹیاں اور قبائلی تنظیمیں دہشت گردی کرتی ہیں  لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے کئی لوگوں کو یہ حقیقت سمجھ میں آئی کہ دہشت گردی کا لفظ ایک مہر کی طرح ہے جسے ہمارے ہاں مخصوص مشینری جسے چاہے اس پر لگا دیتی ہے۔

اگر کوئی مذہبی تنظیم ہتھیار اٹھا ئے تو دہشت گردی ہے لیکن اگر  ہارون آباد میں مسلم لیگ (ضیاء) کے کارکن پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر فائرنگ کر کے لوگوں کو  ہلاک  اور زخمی کردیں تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ  سیاسی پارٹیوں کے درمیان فرینڈلی فائرنگ ہے۔

اسی طرح اگر طالبان کہیں پر لوگوں کو ڈرا کر بھتہ لیں تو یہ سراسر دہشت گردی ہے لیکن  اگر اسلام آباد میں  ایک سب انسپکٹر اور دو کانسٹیبل ایک شہری کو زیر حراست رکھ کر تشدد کا نشانہ بنائیں اور ماہانہ بیس ہزار بھتہ وصول کرتے رہیں ، بلاخروہ شہری  ،ایس پی صدر کے ہاں شکایت کر کے اپنی جان چھڑوائے تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ قانون کے رکھوالوں کی والہانہ ادا ہے۔

اگر  فیس بک پر کچھ لوگ اغوا اور لاپتہ ہو جانے والے افراد کی تلاش کے لئے شور شرابہ کریں تو وہ بھی دہشت گرد ہیں لیکن اگر کچھ لوگ ڈنکے کی چوٹ پر  طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی سرپرستی کا اعلان کریں تو وہ  دہشت گرد نہیں بلکہ شریف شہری ہیں۔

اگر امریکہ اور بھارت چاہیں تو عشرہ کشمیر کا اعلان کرنے والے حافظ سعید بھی دہشت گرد ہیں اور اگر امریکہ اور بھارت نہ چاہیں تو جہاد کشمیر اور افغانستان میں فرقہ پرست ٹولوں اور لوگوں کو گھسانے والے  بھی دہشت گرد نہیں۔

یہاں پر عجیب صورتحال ہے! بلوچ اگر شعور کی بات کرے، سندھی اگر تفکر کی بات کرے ، پختون اگر غیرت کی بات کرے اور پنجابی اگر اپنے تمدن کی بات کرے تو وہ دہشت گرد ہے ، لیکن  اگر بلوچ کو فیس بک کی میز سے، سندھی کو گھر کی دہلیز سے، پختون کو ایجنسی سے اور پنجابی کو بازار سے لاپتہ کردیا جائے تو یہ دہشت گردی نہیں۔

لوگوں کو لاپتہ کرنے سے مجھے وہ پریس کانفرنس بھی یاد آرہی ہے جو چند روز پہلے لاپتہ ہونے والے افراد کی ماوں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں نے اسلام آباد پریس کلب میں کی ہے۔  یہ ہزاروں سال پرانے کسی فرعون کے محل میں لگی ہو کچہری کی داستان نہیں بلکہ  یہ  اکیسویں صدی کی ایک جمہوری حکومت کے دارلحکومت میں کی جانے والی پریس کانفرنس  کی رودادہے۔یہ ہماری قوم کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں ہیں،جن سے تحفظ کا احساس چھین لیا گیا ہے، جو اپنے پیاروں کی تلاش میں اخباروں کی سرخیوں کی زینت بن رہی ہیں۔۔۔

جویہ کہہ رہی ہیں کہ  رات کے اندھیرے میں اُن کے پیاروں کو کیوں گرفتار کیا گیا اور انہیں اب تک کس جرم میں گرفتار رکھا ہوا ہے؟

جو یہ پوچھ رہی ہیں کہ  ہمارے گھروں کا تقدس کیوں پامال کیا گیا اور قانون کے رکھوالوں نے ہماری چار دیواری کے اندر زبان درازی کیوں کی!؟

جو یہ پوچھ رہی ہیں کہ  قانون انہیں تحفظ دینے میں شرمندہ کیوں ہے!؟

جب سے  ہمارے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان  نے یہ کہا ہے کہ لوگوں کو غائب کرنا حکومت کی پالیسی نہیں  تب سے یہ سوال اور بھی شدت سے ابھر رہا ہے کہ پھر وہ کون ہے  جو حکومت اور قانون کو خاطر میں ہی نہیں لاتا!؟

پھر وہ کون ہے جو پنجابی ، سندھی، بلوچی اور پٹھان کوزبردستی  حکومت اور قانون کے خلاف  اٹھا رہا ہے !؟

پھر وہ کون ہے جو شیعہ اور سنی کے تعصب کو خواہ مخواہ زندہ کررہا ہے!؟

پھر وہ کون ہے جو آج پھر ۱۹۷۱ جیسے حالات پیدا کرکے بنگلہ دیش کی طرح لوگوں کو  ملک و قانون  سے بیزار کر رہاہے!؟

پھروہ کون ہے جو لوگوں کو جگتو فرنٹ کی طرز پر دھکیل کر لے جارہاہے!؟

پھر وہ کون ہے جو اپنے آپ کو ملک اور قانون سے بالاتر سمجھتا ہے ، جو عوام کو گھاس نہیں ڈالتا اور جس کے سامنے سیاستدان اور وزرا سب بے بس نظر آتے ہیں!!!؟

آخر میں ارباب اقتدار سے ہماری یہی عرض ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کی طرح انسان بھی تحفظ کا متلاشی ہے،قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے،  قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے،  اگر آپ اس ملک کے باسیوں کو دہشت گردوں سے نجات نہیں دلا سکتے تو خدا را اس ملک کے باسیوں کا قانون سے اعتماد نہ چھینئے۔۔۔ قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے۔

 

تحریر۔۔۔۔۔۔نذرحافی

علیؑ کی شیر دل بیٹیؑ

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب رسول خدا (ص) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے کیا دیکھا کہ رسول خدا (ص) بلند آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔ جناب فاطمہ (س) نے آپ سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا "بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی۔" کتب تاریخی میں شریکۃ الحسین کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ھاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، کاملہ، عاقلہ، عابدہ، زاھدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء۔

عالمہ غیر معلمہ کا بچپن معصومین کی زیرنگرانی رہا۔ آپکی خوش قسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی ماں سیدہ نساءالعالمین حضرت فاطمہ (س) ہیں، وہ فاطمہ جو دختر رسول ہے، جس کی رضا میں خدا راضی اور جسکے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے۔ وہ فاطمہ جو بضعۃ الرسول ہے، جو خاتون جنت ہے، وہ فاطمہ کہ جس کی عبادت پر پروردگار مباہات فرماتا ہے، وہ فاطمہ جس کی چکی جبرئیل علیہ السلام چلاتے ہیں۔ اگر باپ کو دیکھیں تو حیدر کرار جیسا باپ ہے، آپ نے امام علی (ع) جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پائی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کے لئے "اسوہ حسنہ" ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔ لہذٰا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا (ص)، امام علی (ع) اور فاطمہ زہرا (س) جیسی بےمثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کس قدر بہترین اور مقدس ماحول میں ہوئی۔

آپ کی شادی 17 ہجری میں آپ کے چچازاد بھائی عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے، جن کے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔ (البتہ آپکی اولاد کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے) کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بےمثال واقعہ ہے۔ لہذٰا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین (ع) اور ان کے جانثاروں نے ایک مقدس اور اعلٰی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی، لیکن اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام قربانیان ضائع ہو جاتیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، "کربلا در کربلا می ماند گر زینب نبود۔" لٰہذا اگر ہم آج شہدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہا کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔

بلاشبہ اسی وجہ سے انہیں "شریکۃ الحسین" کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کی راہ میں جہاد کیا تو شریکۃ الحسین سلام اللہ علیہا نے اپنے کلام اور اپنے خطبات کے ذریعے اس جہاد کو اس کی اصلی منزل تک پہنچایا۔ کربلا میں سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اس کے مخالفین کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا ہے، لیکن نائبۃ الحسین سلام اللہ علیہا کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہوگیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اس کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے، یزید کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اور حسین آج بھی زندہ ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تحریر۔۔۔۔ محمد جان حیدری

آخر غریب کس طرح بات کرتا!

وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک آدمی کو بات کرنے والا طوطا بہت پسند تھا ایک دن وہ پرندہ فروش کے پاس گیا اور ایک خوبصورت بات کرنے والا طوطا خرید لایا ایک دن گزر گیا لیکن طوطے نے ایک حرف نہیں بولا اگلے دن وہ دوکاندار کے پاس آیا اور کہنے لگا بھائی صاحب جو طوطا میں خرید کے لے گیا تھا وہ تو ایک حرف بھی نہیں بولتا اور تم تو کہہ رہے تھے کہ وہ بات کرتا ہے؟ دکاندار نے پوچھا کیا طوطے کے پنجرہ میں آئینہ ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں کیوں؟ دکاندار نے کہا طوطہ جب آئینہ میں اپنا عکس دیکھتا ہے تو بات کرنے لگتا ہے۔ خریدار ایک آئینہ لے کر گیا اور ایک روز بعد پھر واپس آیا کہنے لگا بھائی آئینہ نصب کردیا تھا طوطہ پھر بھی بات نہیں کرتا۔ دکاندار نے کہا کیا پنجرہ میں سیڑھی ہے؟ اس نے کہا نہیں دکاندار نے کہا بے وقوف طوطا تو سیڑھیوں کا عاشق ہے اسی لئے وہ کچھ نہیں بول رہا۔ خریدار کچھ غصے کی حالت میں واپس گیا اور آگلے دن پھر غصے کی حالت میں واپس آیا، دکاندار نے جب خریدار کو دیکھا تو اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا فورا سوال کر ڈالا کیا طوطے کے پنجرہ میں جھولا ہے؟ اس نے غصے میں جواب دیا نہیں، دکاندار نے کہا بس مسلۂ ہی حل ہوگیا طوطا تو جھولا جھولتے ہوئے بات کرتا ہے، خریدار کچھ کہہ نہ سکا اور ایک جھولا خرید کر واپس ہوا۔ چوتھے روز خریدار روتے ہوئے دکاندار کے پاس گیا اور کہنے لگا طوطا مرگیا میرا طوطا مر گیا۔۔۔ دکاندار نے جب اس کی حالت دیکھی تو دلاسہ دیتے ہوئے پوچھا کیا تمھارے طوطے نے مرتے ہوئے بھی کوئی بات نہیں کی؟؟ اس نے روتے ہوئے جواب دیا کیوں نہیں اس نے بات کی۔ دکاندار نے پوچھا کیا بات کی ، طوطے نے کیا بولا؟؟ خریدار نے کہا طوطے نے مرنے سے پہلے انتہائی ضعیف آواز میں مجھ سے پوچھا کیا اُس دکان پر طوطوں کے لئے کھلونوں کے علاوہ کوئی کھانے پینے کی چیزیں نہیں تھی ۔۔۔؟!

وطن عزیز میں بھی عوام اور حکمرانوں کے درمیان کچھ ایسے ہی رشتے قائم ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک دستاویز کے زریعے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 29.5 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ جو تعداد کے تناسب  سے تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ افراد بنتی ہے۔ دستاویز ات کے مطابق اس طریقے کار کے تحت پاکستان میں غربت کی لکیر کو ہر فرد کے ماہانہ خرچہ 3030 روپے مقرر کیا گیا جس کے تحت اگر کسی شخص کی ماہانہ آمدن 3030 روپے سے کم ہے تو اس کا شمار خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں ہوگا۔اس حساب کے مطابق جن لوگوں کی روزانہ آمدن ایک ڈالر سے زیادہ ہے انہیں غربت کی لکیر سے اوپر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی معیار کے حساب سے بات کی جائے تو 3030کے بجائے 5000 یا تقریبا 600 روپے ماہانہ کمانے والے افراد غربت کی لکیر سے باہر ہونگے اور اس لحاظ سے پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔اب غربت کی وجہ سے ایک فیملی پر کیا کیا اثرات پڑھتے ہیں یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں،کھانے پینے سے لیکرتعلیم،شادی غرض ہر چیز پر ہی اثر انداز ہوتی ہے یہاں تک کہ زندگی اور موت کا بھی مسئلہ بن جاتی ہے، لوگ اپنے لخت جگر کو چند پیسوں کے عوض بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، قابل لائق اور زہین بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔۔۔اور ایسی ہی ناجانے کتنی مشکلات سامنے آتی ہیں ۔۔ھر قدم پھونک پھونک کے اٹھانا پرھتا ہے۔۔اور آج کل کے حالات میں بین الااقوامی خط غربت کے حساب سے بھی پاکستان میں کوئی کماتا ہے تو وہ صرف 12گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے آنے والے بل کی نظر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس غربت سے صرف بچوں کی زندگیوں پر پڑھنے والے اثرات کو دیکھیں توہماری انکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملکی آبادی کا 69فیصد حصہ غذا کے حوالے سے غیر محفوظ ہے اور عام طور پر لوگوں کی غذا کا بڑا حصہ روٹی پر مشتمل ہوتا جب کہ گوشت ،پھل،ڈیری مصنوعات کا استعمال بہت کم ہوتا ہے، یوں ملک کی تقریبا ستر فیصد آبادی کو صحت مند قرار نہیں دیا جاسکتا۔اُوپر سے لوگوں کی بڑی تعداد ایسی گندم کا استعمال کر رہی ہے جس میں بیکٹریا موجود ہیں اور اس سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں "خواتین اور بچوں کی نصف آبادی غذا میں وٹامن موجود نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا شکار ہیں، اور بچوں میں ہونے والی اموات میں سے 45فیصد اموات نامکمل غذا کی وجہ بتائی جاتی ہے"۔ یہ غربت کی وجہ سے پڑھنے والے اثرات پر ایک چھوٹی سی رپورٹ ہے۔

اب اگر ہم اپنے حکمرانوں کی جانب دیکھیں تو عوام کی بھوک ،پیاس،غربت کے حقیقی درد سے کوسوں دور وزیر اعظم صاحب ملتان میں میٹرو کا افتتاح کرتے ہوئے کہتے ہیں " میٹرو بنے سے قبل طالب علم، نوجوان اور غریب افراد کتنی مشکل سے سفر کرتے تھے اور کتنا کرایہ دے کر جاتے تھے ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔!! "
بلکل صحیح فرمایا ہے جناب وزیر اعظم صاحب (میں بذات خود میٹرو کا مخالف نہیں۔۔لیکن اہم مہم بھی کوئی چیز ہے۔۔اور میٹرو۔۔!کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں کچھ نہ ہونے سے میٹرو ہی صحیح) آپ ابھی یہ سوچ رہے ہیں اور ہم تو سوچ رہے تھے کہ تین دفعہ وزیر اعظم بنے کے بعد تو ملتان کیا پاکستان بھر سے غربت کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا، آپ تو سفر کی مشکلات کا ذکر کر رہے ہیں ہم تو وی آئی پی پروٹوکول سے کوئی غریب بیمار زندہ بچ کے ہسپتال پہنچ جائے تو شکر ادا کرتے ہیں،آپ تو کرایوں کی بات کرتے ہیں ہم تو 24گھنٹوں میں ایک وقت کی عزت کی روٹی مل جائے اور زندہ رہے تو خوشی خوشی میلوں پیدل چلنے کو تیار ہیں۔آپ تو کہتے ہیں پاکستان کے ہر شھر کو خوبصورت بنائیں گے، بلکل درست بات کی آپ نے لیکن ہم کہتے ہیں اس شہر کو خوبصورت بنانے سے پہلے یہاں بسنے والوں کو خوبصورت بنے کے موقعے فراہم کیے جائیں، آپ بیروزگاروں کا کچھ سوچیں تو ہم خود اپنے اپنے گلی کوچوں ،سڑکوں اور شہروں کو خوبصورت بنائیں گے۔ آپ نے 28 ارب 88 کروڑ کی لاگت سے ملتان میٹرو تعمیر کروایا ہے یقیناًبڑی رقم ہے قابل تعریف ہے آپ کا بہت بہت شکریہ لیکن اگر آپ اس میں سے صرف دس ارب ملتان کے جوانوں اور بچوں کی تعلیم پرخرچ کرتے، دس ارب غریب عوام پراور پانچ ارب سے ٹرانپورٹ کا نظام درست کرواتے تو یہ شھر جنت بنتا اور 3 ارب 88 کروڑ بھی آپ کی آف شورز ایکاونٹز میں جمع ہو جاتا یوں عوام بھی خوش ہوتے اور آپ کو بھی فائدہ پہنچتا کم از کم اگلے الیکشن میں آپ ملتان میں پیسے بہانے اور گلوبٹ کو میدان میں اتارنے کی زحمت سے بچ جاتے ۔۔۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

جگہ خالی ہے۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا میں ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے، ایک صاحب  اپنے ایک دوست کی کامیاب گھریلو زندگی پر بہت رشک کرتے تھے۔  ایک دن انہوں نے اپنے دوست سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی آپ کی کامیاب اور خوشگوار گھریلو زندگی کا راز کیا ہے!؟ ان کے دوست نے گلا صاف کرنے کے بعد کہا کہ ہماری کامیاب گھریلو زندگی کا راز یہ ہے کہ ہم نے کاموں کو آپس میں تقسیم کر رکھا ہےکاموں کو تقسیم کرنے کا طریقہ انہوں نے یہ بتایا کہ میں تو چھوٹے موٹے کاموںمیں الجھتا ہی نہیں، چھوٹے موٹے کام میری بیگم صاحبہ کرتی ہیں اور بڑے بڑے کام میں خود کرتا ہوں۔

انہوں نے خود ہی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹے چھوٹے کام مثلا دکانوں سے سودا سلف خریدنا،کھانا پکانا،گھر کی صفائی کرنا،کپڑے دھونا، بچوں کو پڑھانا،۔۔۔یہ سب کام صبح سے شام تک  بیگم صاحبہ کرتی ہیں۔ جبکہ  بڑے بڑے کام  مثلا بی بی سی سننا،اخبار پڑھنا، سیاستدانوں کے بیانات کا موازنہ کرنا، پارٹیوں کے حالات پر نگاہ رکھنا وغیرہ یہ سب کام  صبح سے شام تک میں خود کرتا ہوں۔

ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے بھی کاموں کو تقسیم کررکھا ہے، چھوٹے موٹے کام عوام کے ذمے ہیں اور بڑے بڑے کام ہمارے سیاستدان خود کرتے ہیں۔ چھوٹے موٹے کام مثلا  محنت کرنا، تعلیم حاصل کرنا، میرٹ کی امید رکھنا،   نوکری کی تلاش کرنا، روزگار کے لئے مواقع ڈھونڈنا، جلسے جلوسوں میں دھمال ڈالنا، وقت پر پانی اور بجلی کے بل جمع کروانا۔۔۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام عوام کے ذمے ہیں لیکن  بڑے بڑے کام مثلا پانامہ لیکس  پر بیانات دینا، وکی لیکس کا تجزیہ کرنا، سوئس بینک اکاونٹس وغیرہ جیسے بڑے بڑے مسائل ہمارے حکمرانوں کے ذمے ہیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ   جس ملک میں زرداریوں کے گھوڑے مربے کھاتے ہیں اسی ملک میں عام لوگوں کو ڈاکٹر جعلی سٹنٹ ڈال دیتے ہیں۔ جس وقت ایک شہر میں لوگ شریف برادران کے جلسے میں آئی لو یو کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں ، اسی وقت ایک دوسرے شہرمیں ایک پولیس والا ایک رکشہ ڈرائیور کو ڈنڈے مار کر لہو لہان کردیتا ہے، جن دنوں ہمارے وزیراعظم کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات کررہے ہوتے ہیں ،انہی دنوں ہمارے ہاں سے سوشل ایکٹوسٹ اغوا ہونے لگتے ہیں، جس حکومت میں حکمران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، اسی حکومت میں برقیات والے لوگوں کو بغیر میٹر ریڈنگ کے بل بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کا عام آدمی  وزیر اعظم کے جلسے میں نعرے لگانے، بلاول کے پنڈال میں دھمال ڈالنے اور عمران خان کے دھرنے میں بھنگڑا ڈالنے کے بعد پھر سے اپنے بچوں کو  ٹاٹ سکولوں میں بھیجنے، غیرمعیاری تعلیم دلوانے، گندہ پانی  اور کیمیکل ملا دودھ پلانے پر مجبور ہے۔

ہمارے لیڈر چھوٹے موٹے کاموں میں پڑتے ہی نہیں، کوئی سیاستدان فرسودہ تھانے ، کچہری  اور پٹواری کلچرکے خلاف کھلی کچہری نہیں لگاتا،کوئی لیڈر منشیات اور کلاشنکوف کے خاتمے کو اپنے ایجنڈے میں قرار نہیں دیتا،  کوئی غیر معیاری نظام تعلیم کے خلاف لانگ مارچ نہیں کرتا، کوئی  انسانوں کو آلودہ غذا کھلانے، گندہ پانی  اور دودھ پلانے  کے خلاف دھرنا نہیں دیتا، کوئی دہشت گردی کی ٹریننگ دینے والے مدارس کے خلاف ہڑتال نہیں کرتا۔

اس ملک میں جس کے پاس پیسہ،منصب  یا اقتدار ہے وہ  کامیاب ہے، وہ جو چاہے کرلیتا ہے، وہ ائیر مارشل سے سیاسی رہنما بن جاتاہے، وہ چیف آف آرمی اسٹاف سے صدر پاکستان بن جاتا ہے، وہ  دہشت گرد اور نادہندہ  ہونے نیز جعلی اسناد کے باوجود اسمبلیوں میں پہنچ جاتاہے۔

یقین جانیے!پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستان کا عام آدمی وہیں کھڑا ہے جہاں قیام پاکستان سے پہلے کھڑا تھا اورپاکستان میں ایک ایسے لیڈر کی جگہ آج بھی خالی ہے جو  فرقے کے بجائے اسلام کی بات کرے، جو صوبے کے بجائے ملک کی خاطر لڑے ، جو  تنقید کے بجائے تعمیر کر کے دکھائے، جو بھنگڑوں کے بجائے شعور عام کرے، جو کرسی کے بجائے انصاف کی خاطر اٹھے اور جو  اقتدار کے بجائے اقدار کی خاطر قربان ہوجائے۔ایک ایسے رہنما کی جگہ تو آج بھی خالی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ  کیا ہے کوئی جو اس خالی جگہ کو پر کر سکے!!!؟


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree