وحدت نیوز (آرٹیکل) بعض لوگ آج ان کی شہادت کو اکیس برس ہونے کے باوجود سمجھ نہیں پائے کہ ان کی شخصیت میں اس قدر جاذبیت اور مقناطیسیت کیوں تھی، بلاشبہ وہ شہادت سے پہلے کی زندگی میں تو بے حد جاذبیت رکھنے والے شہید قائد کے بعد سب سے بڑی شخصیت تھے، مگر ان کی شہادت کے بعد بھی ان کی جاذبیت اور مقناطیسیت کا یہ عالم بہت سے لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈالے ہوئے ہے اور وہ انگشت بدندان ہیں کہ اکیس برس ہونے کو آئے، نوجوان آج بھی ان کی شخصیت کو آئیڈیالائز کرتے ہیں، ان کے مزار پہ دیوانہ وار آتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کی یاد میں گریہ ہوتا ہے، ان کی باتوں، ان کی کہانیوں، ان کے کارناموں، ان کے شجاعانہ قصوں، ان کے فلاحی منصوبوں، ان کے یادگار اور پر اثر لیکچرز، ان کے دلنشین خطابوں، ان کے حیران کر دینے والے منصوبوں اور ان کی زندگی کے ان گنت و لامتناہی سلسلوں کا تذکرہ ہوتا ہے، انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، انہیں سلام عقیدت اور نذرانہ محبت پیش کیا جاتا ہے۔

یہ سب واقعی بہت حیران کر دینے والا ہے اور ہر اس شخص کیلئے اس میں حیرت کا مقام ہے، جس نے شہید ڈاکٹر کو زندگی میں نہیں دیکھا اور جس کو ان کی قربت نصیب نہیں ہوسکی اور جو ان سے فیض نہیں پا سکا یا جسے ان سے کسی بھی وجہ سے رغبت نہیں تھی، مگر ہر اس دوست کیلئے جس نے ان کی قربت حاصل کی، جس نے انہیں کام کرتے دیکھا، جس نے انہیں متحرک اور مسلسل فعال پایا، جس نے انہیں لوگوں کا درد محسوس کرتے دیکھا، جس نے انہیں قومیات میں اپنی زندگی کے قیمتی ایام، ماہ و سال خرچ کرتے دیکھا، جس نے انہیں ایثار و قربانی کی عملی تصویر بنے دیکھا، جس نے انہیں نوجوانوں کے مسائل حل کرتے دیکھا، جس نے انہیں افق پاکستان پر روشن اور چمکتے، دمکتے دیکھا، اس کے سامنے یہ محبتوں اور عقیدتوں کے نچھاور ہونے والے پھول اور جاذبیت کے یہ نمونے کسی بھی طور انجانے اور غیر فطری نہیں، ہاں۔۔یہ اس خلوص کا انعام ہی تو ہے جو وہ لوگوں پر نچھاور کرتے تھے، یہ اس قربانی اور ایثار کا بدل ہی تو ہے جو وہ کسی عام سے انسان کیلئے دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے تھے، یہ اس درد کا حاصل ہی تو ہے جسے اپنے سینے میں سجائے وہ کراچی سے لیکر بلتستان تک اور کوئٹہ سے لیکر پاراچنار تک کے مومنین کیلئے محسوس کرتے تھے۔

بھلا کوئی اور ہے تو اسے سامنے لایا جائے کہ جو ان کا مقابلہ کرسکے، جس کی خدمات اور کارناموں کی فہرست اور خلوص و مہربانی کا معیار ان کے عشر عشیر بھی ہو، جس کے دن اور رات، ماہ و سال مسلسل قومی زندگی کا آئینہ ہوں، جس پر اعتماد کیا جاتا ہو، جو امید اور آسرا محسوس ہوتے ہوں، جو ظاہر و باطن میں ایک جیسے ہوں، جو گفتار و کردار میں یکساں ہوں، جو اندر و باہر ایک ہی طرح کے ہوں، جو دور اور نزدیک، سفر و حضر اور دکھ و خوشی میں ایک ہی جیسے ہوں، جن کی رفتار سب سے تیز ہو، جس کا کردار سب سے بلند ہو، جس کی نگاہ سب سے دور بین ہو، جس کا ہدف سب پہ بھاری ہو، جس کا جینا خوشنودی خدا کیلئے ہو اور جس کا مرنا راہ آئمہ و انبیاٗ ہو، ہمیں تو کوئی اور ان کے مقابل نظر نہیں آتا، اگر کوئی ہوتا تو اس کی خوشبو بھی آج سب کو مہکا رہی ہوتی، سب کو جلا رہی ہوتی، سب کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی، میرے خیال میں اس میدان میں ان کے مقابل دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر

عادت سے مجبور

وحدت نیوز (آرٹیکل) دور کسی گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ اس کے تمام تر جائیداد ایک کھیت، رہنے کے لئے ایک کمرہ اور ایک گھوڑا تھا کمرہ کے ساتھ ہی گھوڑے کو باندھنے کے لئے چھوٹا سا اصطبل تھا یہ اصطبل اس قدر چھوٹا تھاکہ گھوڑا اِدھر اُدھر ہل نہیں سکتا تھا۔ کسان رات کو گھوڑے کو اصطبل میں بند کرتااور صبح نکال کر اس چھوٹی سی کھیت کے پاس چرانے لے جاتااور اس پر سفر کرتا اور محنت مزدوری کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا تھا۔

کسان کا گھوڑے کو بند کرنے کا طریقہ کچھ مختلف تھا وہ شام ہوتے ہی گھوڑے کو سر کی طرف سے اصطبل کے دروازے کے پاس کھڑا کرتا اور پیچھے سے مار کر اسے آگے کی جانب دھکیلتا اور پھر گھوڑے کو اندر اصطبل میں بھیج کر دروازہ بند کرتا تھا۔ جب صبح گھوڑے کو نکالنا ہوتا تو پیچھے کی جانب سے رسی کو پکڑ کر کھینجتا یوں گھوڑا ریورس پوزیشن میں ہی پیچھے کی طرف آتے اور اصطبل سے باہر نکلتا۔

ایک دن کوئی امیر شخص وہاں آیااور اس نے وہ گھوڑا خریدنا چاہا اس امیر شخص نے گھوڑے کی قیمت ادا کی اور گھوڑے کو لے کر واپس اپنے گھر پہنچا۔ امیر شخص نے جب اس گھوڑے کی عادتیں دیکھیں تو کافی پریشان ہو،ا ہوا کچھ یوں کہ اس امیر شخص کے پاس بیس کے قریب گھوڑے موجود تھے اور ان کے لئے اس نے بڑا اصطبل خانہ بنوایا ہوا تھا تاکہ گھوڑے آرام سے اس میں بیٹھ سکیں اور گھوم پھر سکیں، لیکن غریب آدمی کے گھوڑے کی عادتیں باقی سب سے مختلف تھی۔۔۔اس بڑے اصطبل خانہ میں بھی یہ گھوڑا بالکل سیدھے طریقہ سے داخل ہوتا تھا اور تھوڑا سا چل کر رک جاتا تھا اور ہوشیار پوزیشن میں کھڑا رہتا تھا اور نہ ہی ادھر اُدھر ہلتا جلتا تھا، باقی سارے گھوڑے ادھر ادھر پھرتے تھے مگر یہ گھوڑا اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہتا، امیر مالک کو مزید حیرت تب ہوئی جب صبح اس نے اصطبل خانے کا دروازہ کھولا تو سارے گھوڑے باہر نکل آئے مگر اُس غریب کا گھوڑا لاکھ کوشش کے باوجود باہر نہیں نکلا نہ ہی وہ دائیں بائیں موڑا،امیر آدمی جب تمام طرح سے ناکام ہوچکاتو اس نے غریب آدمی کو بلا نے بھیجا اور تمام واقعہ سنایا، غریب آدمی اپنے گھوڑے کی عادتوں سے واقف تھا وہ سمجھ گیا کہ کس طرح گھوڑے کو باہر نکلنا ہے۔ غریب آدمی اصطبل خانے گیا اور دیکھا کہ دروازہ کھولا ہوا ہے مگر گھوڑا اپنے جگہ پر ساکت کھڑا ہے غریب آدمی نے گھوڑے کی رسی کو پکڑا اور پیچھے کی جانب کھنچا رسی کو کھنچنا تھا کہ گھوڑا فورا ریورس پوزیشن میں پیچھے کی جانب چلنا شروع کیا اور اس طرح اصطبل خانے سے باہر نکل آیا اور پھر باقی گھوڑوں کی جانب جانے لگا امیر آدمی اس گھوڑے کی حرکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔

ایسے ہی کچھ صورت حال پاکستانی عوام کی بھی ہے ہم لوگ ہر وقت ظلم، ناانصافی، غربت، بے روز گاری، دہشت گردی اور کرپشن وغیرہ کا رونا روتے ہیں۔ آئے روز کہی نہ کہی مظاہرے، خودکشی، خودکش بم دھماکہ اور اسکولوں پر حملوں جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور عوام بھی اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ پہلے ایسے سانحات کبھی کبھی رونما ہوتے تھے لیکن اب ایسے واقعات کا ہونا تعجب نہیں ہوتا بلکہ کم اور زیادہ کے مرنے پر بات ہوتی ہے اور کم نقصان پر شکر ادا کرتے ہیں ۔

ناانصافی کا بول بالا ہے امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو تا جا رہا ہے....آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری عام، حکمران ملکی اقتصاد کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی اقتدار کو بچا نے میں مصروف ہے، قومی خزانے خالی ہیں، قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر حکمرانوں کے پرسنل اکاؤنٹس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ان کے بچے غیر ملکی اعلی اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور غریب کے پاس اتنی بھی وسعت نہیں کی گلی محلے میں کھولے ہوئے کاروباری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ عوامی آمدو رفت کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور ذاتی فائدہ مند والی سڑکیں اور میٹرو آباد۔۔میڑو تو بنا یا گیا ہے مگر اس روڑ پر چلنے والے رکشے گاڑیوں کے لئے کوئی متبادل نظام نہیں۔
بحر حال تمام تر مشکلات اور اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہم پاکستانیوں میں اور اس گھوڑے میں کوئی فرق نہیں ہم چارر سال غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور ظلم کا رونا روتے ہیں مگر جیسے ہی الیکشن قریب آتے ہیں ہم اپنے پورانے رویش پر واپس آجاتے ہیں اور ان ہی حکمران جماعتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جن کو کئی دفعہ آزما چکے ہیں اور ان کے ہرجھوٹ اور فریب سے ہم واقف ہوچکے ہیں ، جنہوں نے ہر دفعہ عوام کو لولی پوپ اور جھوٹے دعووں کے سوا کچھ نہیں دیا اور اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے بعد ملک کو مزید قرضوں میں ڈوبو کر عوام کے تن سے لباس اتار کر چلے جاتے ہیں۔۔۔۔ہم بھی اپنی عادتوں سے مجبور انہی حکمران جماعتوں کو ووٹ دے کر ان کو اقتدار میں لے آتے ہیں پھر کچھ مہینوں کے بعد احتجاج جلسہ جلوس اور رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے۔

عوام کو ان حکمرانوں کے تمام تر مفادات کا علم ہے مگر پھر بھی ہر بار ایک ہی غلطی دہرا تے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے لگام کو ان حکمرانوں کے ہاتھوں میں دیا ہوا ہے اور وہ جس طرح چاہیں ہمیں چلاتے ہیں اور ہمیں اس چیز کا عادی بنا دیا گیا ہے کہ ان کے سوا کوئی نہیں پاکستان میں تمام تر طاقت ان ہی چند خاندانوں کے پاس ہے اور ہم بھی اپنی طاقت(عوامی طاقت) سے بے خبر اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ نہیں معلوم وہ وقت کب آئے گا کہ ہم سندھی ،بلوچی، پنجابی ، مہاجراور دیگر علاقائی و خاندانی سیاست کے فریب کردہ خول سے باہر نکلیں گے اور اپنے زہن کو وسیع کر کے ملکی اور عوامی مفادات کے لئے کام کریں تاکہ وطن عزیز پاکستان کو درپیش مسائل کا حل نکال سکیں اور عالمی دنیا میں پاکستان کے امیچ کو بہتر بنایا جاسکیں، مگر افسوس ہم اس وسیع دنیا میں جہاں تمام تر سہولیات اور آرائش موجود ہیں، زندگی گزارنے کے اصول موجود ہیں اسلام اور قرآ ن موجود ہیں جس سے ہم اپنی تمام مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں مگر ہم نے صرف چند پیسوں کے عوض، کچھ دنیا داری کی لالچ میں ہمیشہ اپنی غلامی کی عادتوں کو بر قرار رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس وسیع اورروشن دنیا کو بھی اپنے اوپر تنگ کیا ہو ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) وقت اور انسان کا بہت پرانا تعلق ہے ۔ہمارا یہ جہان وقت کے اعتبار سے تین  حالتوں سے خالی نہیں ۔ ماضی ،حال اور مستقبل۔ لیکن اگر دقّت سے مشائدہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ترقی و تکامل اور استفادے کے اعتبار سے انسان صرف اور صرف ایک ہی زمانے یعنی حال میں ہے ۔کیونکہ نہ تو انسان  اپنے آنیوالے لمحے کی خبر رکھتا ہے کہ آیا وہ اس میں موجود ہوگا بھی یا نہیں ۔اور نہ ہی گزرے ہوئے اوقات سے استفادہ ممکن ہے ۔لہذا انسان جو کچھ بھی ہے  حال میں ہے ۔نہ تو گزرے پر اظہار تاسّف و افسوس اُسے آگے بڑھا سکتا ہے ۔اور نہ ہی آنیوالے  وقت میں داخل ہونے کی  فقط تمنّا و خواہش اسے کسی منزل تک پہنچا سکتی ہےاور نہ ہی انسانی زندگی و حیات میں اس قدر بقاء و پائیداری ہے کہ انسان اس پر اعتماد کرتے ہوئے عزّت ، وسربلندی  کے مختلف راستوں کو طے کرےاور نتیجۃً صحیح راستے کا انتخاب کرکے اپنی منزل و مراد کو حاصل کرے۔

تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آیا کوئی ایسا راستہ و راہِ عمل ہے کہ جس کو اختیار کرتے ہوئے انسان  اپنے لمحات کو ضائع کیے بغیر اپنی اس مختصر سی زندگی میں ہی اپنی منزل و مقصود کو پالے؟

تو اس کا جواب ہاں میں دیا جاسکتاہے ۔جی ہاں!

وہ  راستہ جو انسان کو ماضی سے فائدہ اٹھا کر مستقبل کو سنوارنے پر اکساتاہے وہ ہے انسان کا تاریخی کرداروں سے استفادہ کرنا ۔اور یہ ایک معتبراور  مؤثر ترین راہِ عمل ہے ۔
ابتداءِ زمانہ و خلقت ِ آدم سے لےکر موجودہ انسان کے حالیہ سانس تک ، اس دورانیے میں رونما ہونے والے ہر  کردار ، حدوث ،تغیّر و تبدّل کو تاریخ کا نام دیا جاتاہے ۔ تاریخ ایک ایسا جامع مضمون ہے کہ جو ہر اچھے و بْرے ، امیر وغریب ،آقاو غلام اور ظالم و مظلوم جیسے کرداروں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔
لہذا اگر آج کا مصروف ترین انسان بھی یہ چاہے کہ وہ اپنے قیمتی لمحات کو ضائع کیے بغیر  ترقی و تکامل کی راہوں پر گامزن ہو ، تو حتماً اسے چاہے کہ وہ تاریخ کے عظیم و کامیاب  ترین کرداروں کو اپنی نگاہ میں رکھتے ہوئے  زندگی کے پْر خطر راہوں کو طے کرے ۔اگر انسان تاریخ ساز شخصیات کا مطالعہ کرتا رہے تو  یقیناً وہ غفلت و جہالت سے جی چرانے لگے گا اور ترقی و عزت کی شاہراہ پر چلنا شروع ہوجائے گا چونکہ انسان کے ارتقا کے لئے ضروری ہے کہ اس کے سامنے  کوئی  رول ماڈل ، آئیڈیل و ہیرو موجود رہے۔

مثالی انسان  ایسے کردار ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسان زندگی کے مراحل کو طے کرنے اور مشکلات کو بطریق احسن حل کرنے کی سوچتا ہے۔
ہر انسان کی نظر میں ایک آئیڈیل کردار ہوتاہے۔ انسان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اپنے آئیڈیل و ہیرو کی طرز ِزندگی کے مطابق ڈھالے ۔
ہمارے ہاں چونکہ شخصیات کو متعارف کروانے سے زیادہ شخصیات کشی کا روج ہے اس لئے  آج ہمار ی نوجوان نسل کے رول ماڈل اہلِ مغرب میں سے کو ئی کردار یاٹی وی ڈراموں اور فلموں کے ہیرو ہی ہوتے ہیں۔

اسلامی شخصیات کی عزت و تکریم نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب سب کچھ  تعلیم، لباس ،  رہن وسہن ،زبان ، سب کچھ مغربی اقدار میں ڈھلتا جارہاہے ۔
اگر ہم آج بھی اپنی دینی و علمی شخصیات کو ان کا مناسب مقام دینے پر راضی ہوجائیں اور اپنی نوجوان نسل کے سامنے کسی بھی دینی و  علمی شخصیت کے بارے میں صرف وہی کہیں جس کا ہمیں سو فیصد علم ہو تو آج بھی ہماری نسل ہمارے علمائے کرام کو اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل بنا سکتی ہے۔

مجھے اس وقت بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب ہمارے جوان علمائے کرام کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں،اور بعض تو عمامے کو ٹائر تک بھی کہتے ہیں۔اس میں جوانوں کا قصور نہیں بلکہ ان  بزرگوں کا قصور ہے جنہوں نے  ہماری نوجوان نسل کے دل سے روحانیت اور لباسِ روحانیت کا احترام کھرچ کھرچ کر نکال دیاہے۔
اس کڑے وقت میں شہید علامہ غلام محمد فخرالدین  ہمارے لئے ان تاریخی و زندہ کرداروں میں سے ہیں جن کی متحرک زندگی کا مطالعہ کرنا ہم سب کے بہت ضروری ہے۔

قابلِ فخر ہیں وہ برادران جنہوں نے شہید کے بارے میں آراو نظریات کو جمع کیا۔میں اپنے قارئین سے گزارش کروں گا کہ وہ اس لنک سے شہید منیٰ کی زندگی پر تالیف کی جانے والی کتاب کو ڈاون لوڈ کرکے اس کا مطالعہ ضرور کریں۔

https://www.docdroid.net/v8uF92k/-book-1.pdf.html

آخر میں دست بستہ  یہی عرض کروں گا کہ اپنے مکتب کی جو خدمت ہم  عوام النّاس کو،اپنی اتنظیموں،اداروں اور علمائے کرام کی اخلاقی،انقلابی اور انتھک جدوجہد سے آشنا کرکے انجام دے سکتے ہیں وہ   اداروں اورعلمائے کرام کے باہمی  اور اندرونی اختلافات کو لوگوں میں پھیلا کر انجام نہیں دے سکتے۔

 

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساجد علی  گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) حاسد کو زندہ سمجھنا خود زندگی کے ساتھ مذاق ہے،حاسد کیا کرتا ہے؟! وہ پہلے مرحلے میں مدّمقابل جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، جب نہیں بن پاتا تو پھر مدّمقابل کو گرانے کی سعی کرتا ہے، جب اس میں بھی ناکام ہو جاتا ہے تو پھر مدّمقابل کو مختلف حیلوں اور مفید مشوروں کے ساتھ میدان سے ہٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، جب اس تگ و دو میں بھی ناکام ہوجائے تو پھر مدّمقابل کی غیبت اور کردار کشی پر اتر آتا ہے۔ جب کھل کر غیبت اور کردار کشی بھی نہ کرسکے تو پھر اشارے کنائے میں ہی غیبت پر گزارہ کرتا ہے۔ اگر اس سے بھی اس کے حسد کی آگ نہ ٹھنڈی ہو تو پھر وہ اس انداز سے تعریف کرتا ہے کہ جس سے اس کے ارد گرد کے لوگ غیبت کرنے میں اس کی ہمنوائی کریں۔اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی حاسد خود اپنی ہی نظروں میں شکست خوردہ اور مرا ہوا ہوتا ہے۔

 جس طرح ایک شخص کو دوسرے سے حسد ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک قوم اور ایک تنظیم کو بھی بعض اوقات دوسری سے حسد ہو جاتا ہے۔
 قومی اور تنظیمی حاسد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

 اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام افراد سے اور تنظیمیں ممبران سے تشکیل پاتی ہیں۔ اقوام میں افراد کی شمولیّت کسی حد تک اجباری اور کسی حد تک اختیاری ہوتی ہے، جبکہ تنظیموں میں شمولیّت فقط اختیاری ہوتی ہے۔

اقوام میں اجباری شمولیّت کی مثال یہ ہے کہ جو شخص بھی یہودی خاندان میں متولد ہوتا ہے، وہ بہر صورت یہودی قوم کا فرد ہی متصور ہوگا۔ اب اقوام میں اختیاری شمولیت کی مثال یہ ہے کہ ایک یہودی کلمہ طیّبہ پڑھ کر اپنی سابقہ یہودی قومیّت سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اختیاری طور پر ملت اسلامیہ کا فرد بن جاتا ہے۔

سیاسی نظریات کے مطابق تنظیمی ممبر شپ کے لئے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر شخص جس خاندان میں پیدا ہو وہ موروثی طور پر اپنے ابا و اجداد کی پارٹی کاممبر بھی ہو۔ پارٹی کا ممبر بننے کے لئے اسے فارم پُر کرنے پڑتے ہیں اور مختلف تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس طرح ایک وقت میں ایک قوم کے اندر مختلف تنظیمیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح ایک تنظیم کے اندر بھی مختلف اقوام کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اقوام کی تشکیل رنگ، نسل، مذہب، علاقے، خاندان یا دین پر ہوتی ہے، اسی طرح تنظیموں کا انحصار بھی مذکورہ عناصر میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔

 عام طور پر اقوام اپنی مشکلات کے حل کے لئے تنظیموں کو وجود میں لاتی ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح افراد زندگی اور موت کے عمل سے گزرتے ہیں، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کو بھی زندگی اور موت سے واسطہ پڑتا ہے۔

 قرآن مجید کی نگاہ میں بہت سارے لوگ بظاہر کھانے پینے، حرکت اور افزائش نسل کرنے کے باوجود مردہ ہیں، اسی طرح بہت سارے لوگ بظاہر جن کا کھانا پینا، حرکت کرنا اور افزائش نسل کا سلسلہ متوقف ہو جاتا ہے وہ زندہ ہیں اور قرآن مجید انہیں شہید کے لقب سے یاد کرتا ہے۔

 افراد کی مانند اقوام اور تنظیمیں بھی دو طرح کی ہیں، کچھ زندہ ہیں اور کچھ مردہ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جس طرح افراد کی ظاہری حرکت زندگی کا معیار نہیں ہے، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کی ظاہری حرکت اور فعالیت بھی زندگی کی غماض نہیں ہے۔ حرکت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حرکت کی سمت کیا ہے، چونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص زندگی کی آغوش میں بیٹھا ہوا ہو، لیکن موت کی طرف حرکت کر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص موت کے سائے میں جی رہا ہو، لیکن زندگی کی طرف گامزن ہو۔

عبداللہ ابن ابیّ جیسے بہت سارے لوگ بظاہر پیغمبر اسلام (ص) کے پرچمِ حیات کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کی سمت ہلاکت و بدبختی تھی۔ اسی طرح سلمان و ابوذر جیسے لوگ ظہورِ اسلام سے پہلے ہلاکت و بد بختی کے سائے میں جی رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کا رخ حقیقی زندگی کی طرف تھا۔ بظاہر دونوں طرف حرکت تھی، اسی حرکت نے عبداللہ ابن ابیّ کو ہلاکت تک پہنچا دیا اور اسی حرکت نے سلمان (ر) و ابوذر (ر) کو حیاتِ ابدی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح تنظیموں کی زندگی میں بھی فقط ظاہری حرکت اور فعالیّت معیار نہیں ہے، بلکہ حرکت کی سمت کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ ہمارے دور کی بات ہے کہ طالبان نے بہت زیادہ فعالیت کی، لیکن اس کے باوجود طالبان مرگئے، اس لئے کہ ان کی حرکت کی سمت غلط تھی، لیکن حزب اللہ سربلند ہے، اس لئے کہ حزب اللہ کی حرکت کی سمت نظریات کی طرف ہے۔ طالبان کے نظریات سعودی عرب اور امریکہ سے درآمد شدہ تھے، چنانچہ ریاض وواشنگٹن کی پالیسی بدلتے  ہی ان کی نظریاتی موت بھی واقع ہوگئی۔

 یاد رکھئے! جھوٹ، ظلم و تشدد اور دھونس دھاندلی سے تنظیموں کو کبھی بھی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اب طالبان کی محبت کا دم بھرنے والے دھڑوں کو یہ نوشتہ دیوار ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ حاسد کی مانند مردہ تنظیمیں بھی اپنے ہی ممبران کی نظروں میں مری ہوئی ہوتی ہیں۔ جہاں پر تنظیموں کی نظریاتی موت واقع ہوجائے، وہاں پر ان کے تابوت اٹھانے سے وہ زندہ نہیں ہو جایا کرتیں۔

 ہمیں یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اور تنظیموں کی اساس ان کے عقائد اور نظریات پر قائم ہے۔ اسلامی تنظیموں کی زندگی میں ان کے نظریات اس قطب نما کی مانند ہیں، جس سے سمت معلوم کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملی تنظیم کی سمت مشخص نہ ہو اور حرکت نظر آئے تو اس کے ناخداوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی سمت درست معیّن کریں اور پھر حرکت کریں۔ بصورتِ دیگر وہ جتنی حرکت کرتے جائیں گے، اتنے ہی منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔

جو طاقت تنظیم کی حرکت کو کنٹرول کرتی ہے اور تنظیم کو نظریات کی سمت پر کاربند رکھتی ہے، وہ اس کے تربیّت یافتہ ممبران ہوتے ہیں۔ اگر کسی تنظیم میں تربیّت کا عمل رک جائے یا کھوکھلا ہوجائے تو وہ بھنور میں گھومنے والی اس کشتی کی مانند ہوتی ہے، جو جتنی تیزی سے حرکت کرتی ہے، اتنی ہی ہلاکت سے قریب ہوتی جاتی ہے۔

 کسی بھی تنظیم کے ممبران کس حد تک تربیّت یافتہ ہیں، اس کا اندازہ ان کی جلوتوں سے یعنی نعروں اور سیمیناروں سے نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا پتہ ان کی خلوتوں سے چلتا ہے۔ جس تنظیم کے ممبران کی خلوتیں نظریات سے عاری ہوں، ان کی جلوتیں بھی عارضی اور کھوکھلی ہوتی ہیں۔ جب کسی تنظیم کے پرچم کو تھامنے والے افراد کی خلوتوں میں رشک کی جگہ حسد، حوصلہ افزائی کی جگہ حوصلہ شکنی، تعریف کی جگہ تمسخر، تکمیل کی جگہ تنقید، تدبر کی جگہ تمسخر، خلوص کی جگہ ریا اور محنت کی جگہ ہنسی مذاق لے لے تو اس تنظیم کی فعالیّت اور حرکت کو زندگی کی علامت سمجھنا یہ خود زندگی کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔

 ہماری ملّی تنظیموں کو ہر موڑ پر اس حقیقت کو مدّنظر رکھنا چاہیے کہ نظریات پر سمجھوتے کا نتیجہ تنظیموں کی موت کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ تنظیمیں نعروں سے نہیں بلکہ نظریات سے زندہ رہا کرتی ہیں اور نظریات کی پاسداری صرف اور صرف تربیّت شدہ ممبران ہی کرتے ہیں۔ جہاں پر تنظیموں میں ممبران کی نظریاتی تربیّت کا عمل رک جائے، وہاں پر تنظیموں کو مرنے اور کھوکھلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ غیر تربیّت یافتہ افراد تنظیموں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور پھندے کی مانند تنظیموں کے گلے میں اٹک جاتے ہیں۔

تنظیموں میں تربیّت کا عمل کسی صورت بھی نہیں رکنا چاہیے چونکہ تربیّت ایسی کیمیا ہے جو زندگی کی لکیر اور خون کی تاثیر کو بھی بدل دیتی ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) شاید آپ کو تعجب ہوگا،یہ واقعتا تعجب کی بات ہے ،بعض ملکوں میں ایسا بھی ہے کہ والدین  اپنے  بچوں سے زیادہ اپنے ”کتے “ ”بلی“ سے پیار کرتے ہیں اور بعض اسلامی ملکوں میں بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں  پر کس قدر جانوروں سے پیار کیاجاتاہے،دینِ اسلام نے بھی جانوروں کے حقوق پر روشنی ڈالی ہے  ،حتی کہ  یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب بھی آپ گوشت کھائیں تو تھوڑا سا گوشت ہڈی کے ساتھ رہنے دیں کیونکہ یہ جانوروں کا حق ہے ۔لیکن دوسری طرف دنیا میں  اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کیا جارہاہے۔

البتہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ بالکل یہ نہیں سوچتے کہ کون یہ کررہا ہے اور کیوں ؟!
 کون ہے جو پاکستانی حکمرانوں کو چند ڈالرز دے کر دہشت گردی کے مراکز کو تحفظ دلواتاہے؟
کون ہے جو ہمارے سیاستدانوں کوفرقہ واریت کی راہ پر چلنے پر مجبور کرتا ہے؟
کون ہے  جو جس لسٹ میں چہتا ہے بغیر پوچھے ہمارے ملک کانام دے دیتا ہے؟
کون ہے جو دینی مدارس اور مجاہدین کے نام پر ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دے رہاہے؟
اور کون ہے جو شام،عراق،لبنان سمیت  ساری دنیا کے اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو متحرک رکھے ہوئے ہے؟
آپ فقط اسی سال میں دیکھیں یمن میں انسانیت سوز جرائم انجام دیئے  گئے، آل سعود نے اہلِ یمن پر مصائب کے پہاڑ تورے لیکن ملت اسلامیہ خاموش رہی!
عراق میں عرصہ  دراز سے سعودی لابی کشت و خون کررہی ہے لیکن مسلمان خاموش ہیں! شام میں خون کے دریا بہادئیے گئے ہیں لیکن مسلمان خاموش ہیں!
 دنیا میں وہ اقوام اور تنظیمیں جو جانوروں کے حقوق کے لئے بھی چیختی ہیں،آلِ سعود کے مظالم کی بھینٹ چڑھنے والے انسانوں کے قتلِ عام پر خاموش ہیں۔
یہ خاموشی بلا سبب نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام   مل جل کر آل سعود کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو قتل کروا کر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک انسانوں کی قیمت جانوروں سے بھی کم ہے۔ہمیں جانوروں کے حقوق کو دیکھ کر متعجب ہونے کے بجائے آل سعود کی درندگی کو دیکھ کر اپنے تعجب کا اظہار کرنا چاہیے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔ابراہیم صابری

وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلامی تعلیمات میں بلا کسی تفریق و امتیاز کے انسانی فضائل و کمالات (جو کہ انسانوں کی برتری کا معیار ہیں) کی نسبت مردو عورت دونوں کی طرف دی گئی ہے
    فضائل و کمالات کا منشاانسان کا جسم نہیں ہے بلکہ اس کی روح اور نفس ہے اور روح کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے
    وہ آیتیں جو علم اور جہالت، ایمان اور کفر، عزّلت اور ذلّت، سعادت اور شقاوت، فضیلت اوربرائی، حق و باطل، سچّائی اور جھوٹ، تقویٰ اور فسق، اطاعت اور عصیاں، فرمانبرداری اور سرکشی، غیبت اور عدمِ غیبت، امانت اور خیانت اور ان جیسے دیگر امور کوکمالات اور نقائص جانتی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اچھائی یا برائی نہ مذکّر ہے نہ مؤنّث اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان یا کافر کا بدن، عالم یا جاہل، پرہیزگاریا فاسق، صادق یا کاذب نہیں ہے
    دوسرے الفاظ میں علمی اور عملی مسائل میں جو کہ فضیلت اور کمال کا معیار ہیں اگرکہیں بھی مذکّر اور مؤنّث کی بات نہیں ہے، تو یقیناً روح جو کہ ان صفات سے مزین ہے، وہ بھی مذکّر و مؤنّث کے دائرہ سے خارج ہوگی
    مرحوم علّامہ طباطبائی اس سلسلہ میں یوں رقم طراز ہیں: مشاہدہ اور تجربہ کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ مردو عورت ایک ہی نوع کے دو افراد ہیں دونوں کا تعلّق فردِ انسانی سے ہے، چونکہ جو کچھ مردوں میں آشکار ہے وہی عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے
    کسی بھی نوع کے آثار اور علامات کا ظہور اس کے خارجی وجود کا مظہر ہوا کرتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ ان دو صنفوں کے مشترکہ آثار و علامات میں شدّت اور کمی پائی جاتی ہو لیکن یہ اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ دونوں صنفوں کی حقیقت میں کسی قسم کا کوئی فرق پایا جاتا ہو
    یہاں سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ نوعی فضائل اور کمالات جو ایک صنف کی حد امکاں میں ہیں وہ دوسری صنف کے لئے بھی ممکن ہیں، اس کی ایک مثال وہ فضائل اور کمالات ہیں جو ایمان اور اطاعتِ پروردگار کے سایہ میں مرووعورت دونوں حاصل کرسکتے ہیں، وہ جامع ترین کلام جو اس حقیقت کو بیان کرتا ہے یہ آیت ہے
 أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ(۱)
میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم ایک دوسرے کا حصّہ ہو
    اس کے علاوہ سورۂ احزاب میں اسی حقیقت کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے اور مردو عورت کی معنوی خصوصیات کو ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ایک ساتھ قرار دیا گیا ہے اور دونوں کے لئے کسی امتیاز کے بغیر ایک ہی جزا قرار دی گئی ہے، انسانی روح کے اعتبار سے دونوں کو ایک ہی مقام عطا کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس سورہ میں مردوں اور صنف نسواں اور ان کی ممتاز صفات کو ایک جامع عبارت میں بیان کیا گیا ہے اور ان دونوں صنفوں کے اعتقادی، اخلاقی، عملی صفات اور جزا کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔
ارشادِ ربّ العزّت ہے
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْقَانِتِينَ وَ الْقَانِتَاتِ وَ الصَّادِقِينَ وَ الصَّادِقَاتِ وَ الصَّابِرِينَ وَ الصَّابِرَاتِ وَ الْخَاشِعِينَ وَ الْخَاشِعَاتِ وَ الْمُتَصَدِّقِينَ وَ الْمُتَصَدِّقَاتِ وَ الصَّائِمِينَ وَ الصَّائِمَاتِ وَ الْحَافِظِينَ فُرُوجَہُمْ وَ الْحَافِظَاتِ وَ الذَّاکِرِينَ اللَّہَ کَثِيراً وَ الذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ مَغْفِرَۃً وَ أَجْراً عَظِيماً (۳)
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچّے مرداور سچّی عورتیں اورصابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خداکا بکثرت ذکرکرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیّا کر رکھا ہے
    مشہور ومعروف مفسّر مرحوم طبرسی مجمع البیان میں رقمطراز ہیں، جب جنابِ جعفرابن ابی طالب کی زوجہ اسماء بنت عمیس اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ سے واپس آئیں تو رسالت مآب حضرت ختمیٔ مرتبتﷺ کی ازواج سے ملاقات کے لئے گئیں، اس موقع پر آپ نے ازواجِ رسولﷺ سے جو سوالات معلوم کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آیا قرآن میں عورتوں کے سلسلہ میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں،ان کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے، اسماء بنت عمیس پیغمبراکرمﷺ کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کی اے خدا کے رسول! عورت کی ذات خسارہ و نقصان میں ہے ،رسولِ خداﷺ نے فرمایا تم نے کہاں سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے؟
اس نے عرض کی
’’اسلام اور قرآن میں عورتوں کے لئے مردوں جیسی کسی فضلیت کو بیان نہیں کیا گیا ہے‘‘
    اس موقع پر مذکورہ آیت نازل ہوئی، جس نے خواتین کو اس بات کا اطمینان دلایا کہ خدا کے نزدیک قرب اور منزلت کے اعتبار سے مرداور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں برابر ہیں، سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ دونوں عقیدہ،عمل اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں ۔
    مذکورہ آیت میں مردوں اور عورتوں کے لئے دس صفات کو بیان کیا گیا ہے جن میں بعض صفات کا تعلّق ایمان کے مراحل،یعنی زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اوراعضاء و جوراح سے عمل سے ہے۔ ان میں سے کچھ صفات زبان، شکم اور جنسی شہوت کے کنٹرول سے مربوط ہیں، یہ تین صفتیں انسانی اور اخلاقی زندگی میں سرنوشت ساز کردار ادا کرتی ہیں، مذکورہ آیت کے ایک دوسرے حصّہ میں سماج کے محروم اور پسماندہ طبقہ کی حمایت، سخت اور ناگوار واقعات کے سامنے صبر اور بردباری  اور ان تمام پسندیدہ صفات کی پیدائش اور بقا کے اصلی عامل یعنی یادِ خدا کا تذکرہ کیا گیا ہے
آیتِ کریمہ کے آخر میں ارشاد ہو رہا ہے کہ:
پروردگارِ عالم نے ان مردوں اور عورتوں کے لئے اجرِ عظیم مہیّا کر رکھا ہے جو مذکورہ صفات سے مزین ہو ں پروردگارِ عالم پہلے مرحلہ میں بخشش کے پانی سے ان کے گناہوں (جوان کی روح کی آلودگی کا سبب ہیں) کو دھودیتا ہے، اس کے بعد انہیں اس اجرِ عظیم سے نوازتا ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
عورت کی پاک و پاکیزہ زندگی، ایمان اور نیک عمل کی مرہونِ منّت ہے،قرآنِ مجید کی آیات میں عورت کی انسانی شخصیت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اوراسے مردوں کے ہم پلّہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ربّ العزّت ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً وَ لَنَجْزِيَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا يَعْمَلُونَ(۵)
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان بھی ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔
    مذکورہ آیت میں پاکیزہ حیات کو ایمان اور نیک عمل کے نتیجہ کے طور پر ایک کلّی قانون اور اصول کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، حیاتِ طیّبہ سے مراد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں سکھ چین، امن و امان، صلح اور دوستی، محبّت، باہمی تعاون اور دیگر انسانی اقدار کا دور دورہ ہو جس سماج میں ظلم، سرکشی، استکبار،جاہ طلبی اور خواہشات ِنفسانی کی پیروی سے وجود میں آنے والے دکھ درداور ظلم و ستم کی دور دور تک کوئی خبر نہ ہو، پروردگارِ عالم ایسے معاشرے کے افراد کو ان کے اعمال کے مطابق بہترین جزا دے گا ۔
    مذکورہ آیت میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ان تنگ نظر افراد کو دندان شکن جواب دیا گیا ہے جو ماضی اور حال میں عورت کی انسانی شخصیت کے بارہ میں شک و شبہ میں مبتلا تھے اور اس کے لئے مرد کے انسانی مرتبہ سے پست مرتبہ کے قائل تھے، یہ آیت عالمِ انسانیت کے سامنے عورت کے سلسلہ میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان کر رہی ہے اور اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کچھ کوتاہ فکر اور تنگ نظر افراد کے برعکس اسلام مردوں کا دین نہیں ہے بلکہ وہ عورتوں کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دیتا ہے
    اس مقام پر سب سے اہم نکتہ جو لائق ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ مفسّرین نے پاکیزہ حیات کے بارے میں مختلف آراء و نظریات اور تفاسیر پیش کی ہیں، مثال کے طور پر بعض مفسّرین نے حیاتِ طیّبہ کو رزقِ حلال اور بعض دیگر نے قناعت اور اپنے حصّہ پر راضی رہنے بعض دوسرے مفسّرین نے پاکیزہ زندگی کو روزمرّہ زندگی میں عبادت اور رزقِ حلال سے تعبیر کیا ہے، لیکن اس لفظ کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ مذکورہ تمام معنیٰ اور ان کے علاوہ دیگر معانی بھی اس کے دائرہ میں آسکتے ہیں، حیاتِ طیّبہ سے مراد وہ زندگی ہے جو تمام برائیوں، ہر قسم کے ظلم و ستم، خیانتوں، عداوتوں، اسارتوں، ذلّتوں اور حق تلفیوں اور ان جیسی دیگر مذموم صفات سے پاک و پاکیزہ ہو ۔
قرآنِ مجید میں مثالی خواتین کا تذکرہ:
    قرآن مجید کی نگاہ میں فضائل و کمالات کے حصول میں مردوعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس آسمانی کتاب میں صرف کلّیات کو ہی بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان تعلیمات کو عینی شکل میں بیان کر نے کے لئے عالمِ انسانیت کے سامنے بعض مثالی خواتین کو پیش کیا ہے
قرآنِ مجید کی داستانوں اورقصّوں کی روح اخلاقی اور انسانی مسائل ہیں، وہ ان اہم مسائل کو قصّہ اور داستان کے سانچے میں بیان کرتا ہے، ان قصّوں اور داستانوں میں بھی عورت کا کردار بہت نمایاں ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے:
     حضرت ابراہیم ِ خلیل علیہ السّلام اور جنابِ سارہ:
    قرآنِ مجید نے اخلاقی اور انسانی فضائل و کمالات کو بیان کرتے وقت جہاں صاحب فضیلت مردوں کا تذکرہ کیا ہے وہیں مثالی خواتین کا نام بھی لیا ہے چونکہ نیک کردار مردو عورت دونوں ہی دیگر افراد کے لئے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں، یعنی نیک کردار مردو عورت اچھے مردو عورت کے لئے نمونۂ عمل ہیں اور بد کردار مردوعورت، برے مردو عورت کے لئے اسوہ ہیں
    حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا شمار اولوالعزم پیغمبروں میں ہوتا ہے جن کو بڑھاپے کے عالم میں فرشتوں نے ایک عالِم اور بردبار فرزند کی بشارت دی، چنانچہ یہی خوشخبری فرشتوں نے آپ کی زوجہ کو بھی دی فرشتوں نے جنابِ ابراہیم علیہ السّلام سے کہا
 فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِيمٍ‌  (۶)
    پھر ہم نے انہیں ایک نیک دل فرزند کی بشارت دی
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ عَلِيمٍ‌  (۷)
ہم آپ کو ایک فرزندِ دانا کی بشارت دینے کے لئے اترے ہیں
جناب ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا:
 قَالَ أَ بَشَّرْتُمُونِي عَلَی أَنْ مَسَّنِيَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ‌  (۸)
اب جب کہ بڑھاپا چھا گیا ہے تو مجھے کس چیز کی بشارت دے رہے ہو۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے
 قَالُوا بَشَّرْنَاکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ‌ . قَالَ وَ مَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِّہِ إِلاَّ الضَّالُّونَ‌  (۹)
انہوں نے کہا
ہم آپ کو بالکل سچّی بشارت دے رہے ہیں خبردار! آپ مایوسوں میں سے نہ ہو جائیں
ابراہیمؑ نے کہا کہ:
رحمتِ خدا سے سوائے گمراہوں کے کون مایوس ہو سکتا ہے
گذشتہ آیات سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام پر بڑھاپا چھا چکا تھا لیکن فرشتوں نے آپ سے کہا: آپ مایوس نہ ہوں، چونکہ فرشتوں کی بشارت اور خوشخبری ہمیشہ ہی سچّی اور حق ہوا کرتی ہے،اس کے علاوہ کوئی بھی مؤمن شخص کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا،چونکہ مایوسی کے معنیٰ ہیں( معاذاللہ )خدا کی قدرت اور توانائی کے بارے میں بدگمانی، یہ مایوسی کفر کی حد تک ہے، کسی بھی انسان کو ناامّیدی اور مایوسی کا حق نہیں ہے ۔
    قرآن ِ مجید جنابِ ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ کی بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’ وَ امْرَأَتُہُ قَائِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَ مِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ‘‘ (۱۰ ) ابراہیم کی زوجہ اسی جگہ کھڑی تھیں یہ سن کر ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی بشارت دے دی اور اسحاق کے بعد پھر یعقوب کی بشارت دی چونکہ خدا کےفرشتے صرف صاحبانِ کمال اور برگزیدہ افراد پر نازل ہوتے ہیں اور الٰہی وحی اور حقائق کو ان پر نازل کرتے ہیں لہٰذا مذکورہ بالا آیات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ بھی آپ کی ذاتِ گرامی کی طرح کمال کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھی جس کی بنا پر فرشتوں کی بشارت کی سزاوار قرار پائیں ۔
فرعونی ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے والی خواتین:
ظلم و ستم سے پیکار کے میدان میں مرد و زن دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے میں خواتین کا کردار حیرت انگیز ہے، قرآن ِ مجید نے ایسی تین خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی حفاظت اور تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جناب موسیٰ کی مادرِ گرامی، ان کی بہن اور فرعون کی بیوی نے جناب موسیٰ کی پرورش کا بیڑا اٹھایا، ان خواتین نے اس دور کے ناگفتہ بہ سیاسی حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جنابِ موسیٰ کی جان بچائی
جب حکمِ الٰہی کے مطابق جناب ِ موسیٰ کی مادرگرامی نے اپنے جگرگوشہ کو صندوق میں ڈال کے دریائے نیل کی موجوں کے حوالہ کردیا تو ان کی بہن سے کہا : اس صندوق کا پیچھا کرو۔فرعون کی زوجہ نے فرعون سے کہا : اس بچّہ کو قتل نہ کرو شاید اس سے ہمیں فائدہ پہنچے یا ہم اس کو گود لے لیں، قرآن ِ مجید کا ارشاد ہے
أَوْحَيْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِيہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْہِ فَأَلْقِيہِ فِي الْيَمِّ (۱۱)
وَ قَالَتْ لِأُخْتِہِ قُصِّيہِ فَبَصُرَتْ بِہِ عَنْ جُنُبٍ وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۲)
"اور ہم نے مادرِ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچّے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو، اور انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ تم بھی ان کا پیچھا کرو تو انہوں نے دور سے موسیٰ کو دیکھا جب کہ ان لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں تھا۔"
فرعون کی بیوی نے بھی کہا:
 قُرَّۃُ عَيْنٍ لِي وَ لَکَ لاَ تَقْتُلُوہُ عَسَی أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَداً وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۳)
"یہ تو ہماری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لہٰذا اسے قتل نہ کرو کہ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہم اسے اپنا فرزند بنالیں اور وہ لوگ کچھ نہیں سمجھ رہے تھے۔"
 فرعون کے زمانہ میں نوزائیدہ بچّہ کی صنف معلوم کرنے کے لئے ہر دودھ پلانے والی عورت کا پیچھا کیا جاتا تھا، تاکہ لڑکا ہونے کی صورت میں اسے قتل کردیا جائے، اس خطرناک ماحول میں جنابِ موسیٰ کی بہن کی طرف سے ایک دائی کی تجویز کوئی معمولی اقدام نہیں تھا بلکہ ایک خطرناک اقدام تھا، موت سے روبرو ہونے کا مقام تھا اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کی مادرِگرامی کا حاملہ ہونا اور بچّہ کو پیدا کرنا سب صیغۂ راز میں تھا، یہ تجویز اور بھی زیادہ خطرناک تھی، لیکن اس پر عمل ہوا اور فرعون کی زوجہ کی تجویز کو بھی قبول کر لیا گیا۔
جنابِ مریم، ان کا مرتبہ اور مقام:
جنابِ مریم بھی ان خواتین میں سے ہیں جن کے مرتبہ، عظمت اور کرامت کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، قرآن مجید نے آپ کی ذاتِ والا صفات کو صاحبانِ ایمان کے لئے نمونۂ عمل  قرار دیا ہے،
 ارشاد ہوتا ہے :
 وَ مَرْيَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيہِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہِ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ‌(۱۴)
 اور مریم بنت عمران کو بھی (اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے ) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی
 آیاتِ قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنابِ مریم کی کفالت حضرتِ زکریا علیہ السّلام کے ذمّہ تھی، جب بھی جنابِ زکریا محرابِ عبادت میں جنابِ مریم کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے تو وہاں قسم قسم کے میوہ اور غذائیں دیکھتے تھے، جنابِ مریم علیہا السّلام ان پھلوں اور غذاؤں کے سلسلہ میں فرمایا کرتی تھیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے، پروردگارِ عالم نے  انہیں بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے
 ارشادِ ربّ العزّت ہے
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْہَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّی لَکِ ہٰذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللہِ إِنَّ اللہَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ(۱۵)
جب زکریا علیہ السّلام محرابِ عبادت میں داخل ہوتے تو مریم کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے کہ یہ کہاں سے آیا اور مریم جواب دیتیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے رزقِ بے حساب عطا کردیتا ہے۔
 قرآن کے اعتبار سے یہ بات مستند ہے کہ فرشتے جنابِ مریم سے گفتگو کیا کرتے تھے اور آپ کی باتوں کو سنا کرتے تھے،
ارشاد ہوتا ہے
 وَ إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللہَ اصْطَفَاکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصْطَفَاکِ عَلَی نِسَاءِ الْعَالَمِينَ‌ .
يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِي وَ ارْکَعِي مَعَ الرَّاکِعِينَ‌ (۱۶(۱۶)
 اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ہے اے مریم! تم اپنے پروردگار کی اطاعت کرو، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
پس عورت بھی عالمِ ملکوت تک رسائی حاصل کرسکتی ہے، وہ بھی فرشتوں کی مخاطب قرار پاسکتی ہے ۔مردوں اور عورتوں میں عفّت اور پاکدامنی کےمتعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
قرآنِ مجید نے عفیف اور پاک دامن انسان کے تعارف کے لئے مرداور عورت دونوں کی مثال پیش کی ہے، اس میدان میں مرد اور عورت دونوں ہی جلوہ افروز ہیں
قرآن ِ مجید نے مردوں میں سے حضرت یوسف علیہ السّلام اور عورتوں میں سے جناب مریم علیہا السّلام کو عفّت اور پاکدامنی کے نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے، حضرتِ یوسف بھی امتحان میں مبتلا ہوئے اور اپنی عفّت کی وجہ سے نجات حاصل کی، جنابِ مریم علیہا السّلام کا بھی امتحان لیا گیا وہ بھی اپنی عفّت کے سایہ میں نجات سے ہمکنار ہوئیں۔
قرآنِ مجید نے حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے امتحان کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
 وَ لَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَ ہَمَّ بِہَا لَوْ لاَ أَنْ رَأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ (۱۷)
اور یقینا اس (مصری) عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے،
اس عورت نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کا پیچھا ضرور کیا لیکن جناب ِ یوسف نے نہ صرف یہ کہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس کے مقدّمات کو بھی فراہم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس گناہ کا تصوّر بھی نہیں کیا چونکہ وہ اپنے پرودگار کی دلیل کا مشاہدہ کرچکے تھے، ان پر الزام لگانے والے آخر کار ان کی بے گناہی کے اعتراف پر مجبور ہوگئے
 الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُہُ عَنْ نَفْسِہِ وَ إِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ(۱۸)
توعزیزمصر کی بیوی نے کہا:
اب حق بالکل واضح ہو گیا ہے کہ میں نے خود انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ صادقین میں سے ہیں
ان الفاظ کے ذریعہ عزیزِ مصر نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کی طہارت کی گواہی دی اور بتایا کہ نہ فقط جنابِ یوسف برائی کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ برائی بھی ان کی طرف مائل نہیں ہوئی
 کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَ الْفَحْشَاءَ مِنْ (۱۹)
یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں،
 قرآن کا ارشاد ہے کہ ہم نے گناہ کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ جنابِ یوسف کی طرف جائے
حضرت یوسف تمام عالم انسانیت کے لئے عفّت اور طہارت کا نمونہ ہیں حضرتِ مریم بھی ملکہ ٔ عفّت کے اعتبار سے جنابِ یوسف سے کسی درجہ کم نہیں ہیں بلکہ وہ جنابِ یوسف کی ہم پلّہ یا ان سے بھی بالا ہیں، چونکہ قرآنِ مجید جناب مریم کی حالت کو بیان کرتے ہوئے
 فرماتا ہے
قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِيّاً (۲۰ )
 اور انہوں نے کہا کہ اگر تو خوفِ خدا رکھتا ہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں،
 جنابِ مریم نہ صرف یہ کہ بذاتِ خود گناہ کی طرف مائل نہیں ہیں بلکہ اس فرشتہ کو بھی امربالمعروف کرتی ہیں جو انسانی شکل وصورت میں متمثّل ہوا تھا اور فرماتی ہیں اگر تم خوفِ خدا رکھتے ہو تو یہ فعل انجام نہ دو حالانکہ حضرتِ یوسف نے خدا کی دلیل اور برہان کا مشاہدہ کیا جس کی وجہ سے یہ قبیح فعل انجام نہیں دیا۔
نتیجہ اور ماحصل :
اس مقالہ میں انسانی اقدار کے حصول میں مردو عورت کی برابری کو بیان کیا گیا اور اس حقیقت کو ثابت کیا گیا کہ مردو عورت یکساں طور پر راہِ تکامل اور کمال کو طے کرسکتے ہیں اور میدانِ عمل میں بھی فضائل و کمالات سے یکساں طور پر مزین ہو سکتے ہیں بعض کامل مردوں اور خواتین کو بطورِ مثال پیش کیا گیا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ یہ ہمسری اور یکسانیت محض تھیوری اور نظریہ تک محدود نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں بھی یہ دونوں صنفیں ان اقدار سے ہمکنار ہوئی ہیں ۔


تحریر : آیۃ اللہ العظمی جوادآملی حفظ اللہ تعالیٰ
ترتیب و تدوین : ظہیرالحسن کربلائی


 حوالہ جات
۱۔ سورہ آل عمران، آيہ ۱۹۵.
۲۔الميزان، ج 4، ص 94.
۳۔ سورہ احزاب، آيہ 35.
۴۔ مجمع البيان، ج 7، ص 357  358؛ نورالثقلين، ج 4، ص 275.
۵۔ سورہ نحل، آيہ 97.
۶۔سورہ صافات، آيہ 101.
۷۔سورہ حجر، آيہ 53.
۸۔سورہ حجر، آيہ 54.
 ۹۔حوالہ سابق، آيہ 56
10. سورہ ہود، آيہ 71.
11. سورہ قصص، آيہ 7.
12. سورہ قصص، آيہ 11.
13. سورہ قصص، آيہ 9.
14. سورہ تحريم، آيہ 12.
15. سورہ آل عمران، آيہ 37.
16. سورہ آل عمران، آيہ 42 / 43.
17. سورہ يوسف، آيہ 24.
18. سورہ یوسف، آيہ 51.
19. سورہ يوسف، آيہ 44.
20. سورہ مريم، آيہ 17.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree