وحدت نیوز (آرٹیکل) وطنِ عزیز پاکستان ہمیں جان سے بھی عزیز ہے اور یہ بہت سی منفرد خصوصیات کا حامل بھی ہے. بالخصوص اپنے محل وقوع ، باصلاحیت ومحنت کش 23 کروڑ عوام ، تجربہ کار ومضبوط آرمی و دفاعی پوزیشن اور ایٹمی طاقت ہونے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے. اس لئے ہمیشہ جارح استکباری طاقتیں اور خطے کے بعض مفاد پرست ممالک اس کے خلاف سازشوں کے خطرناک جال بُنتے رہتے ہیں. اور گذشتہ کئی دھائیوں سے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان متعدد بحرانوں کی لپیٹ میں آچکا ہے. جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہوکر اور اپنے قومی مفاد کو پہلی ترجیح قرار دیکر ان بحرانوں کا مقابلہ کرنے اور ان سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی اشد ضرورت ہے. ہمیں دنیا کی سپر پاورز ہوں یا خطے کے ممالک ان سب کی مداخلت اور نفوذ سے نجات حاصل کر کے دوطرفہ احترام، اپنے قومی مفاد وملکی وعوامی مصلحت و سلامتی واستقلال کی ضمانت کے ساتھ آبرومندانہ و متوازن تعلقات بنانے کی ضرورت ہے.

دانشور طبقے اور اہلِ اقتدار کو چاھیے کہ وہ دنیا بھر اور بالخصوص خطے کے بدلتے حالات سے ہر وقت آگاہ رہیں اور پاکستانی عوام کو بھی حقائق جیسے ہیں ویسے ہی بتائیں. تاکہ عام لوگوں کی سیاسی وفکری شعور کی سطح بلند ہو اور ہم ایک با شعور وآگاہ قوم بن کر کسی کے دھوکے میں نہ آئیں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے. اور حکمرانوں کو بھی اجازت نہ دیں کہ وہ دوسروں کے وکیل بن کر انکے وسیع تر مفادات اور اپنے عارضی و گروہی و ذاتی مفادات کی خاطر وطنِ عزیز کو کسی نئے بحران کی دلدل میں دھکیل سکیں.

ترکی دنیائے اسلام کا ایک اہم ملک ہے اور ہمیشہ سے ہمارے درمیان تعلقات برادرانہ اور دوستانہ رہے ہیں. بالخصوص مسئلہ کشمیر پر ترکی، ملائشیا، ایران اور چین کا دو ٹوک موقف قابل قدر ہے. پاکستان کو چاھیے کہ اپنی سفارت کاری کو مزید بہتر بنا کر انڈیا واسرائیل کے علاوہ دنیا بھر کے تمام ممالک سے مسئلہ کشمیر پر حمایت و تائید حاصل کرنے کی مزید کوشش کرے. اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ پہلے سے بہتر اور متوازن دو طرفہ تعلقات قائم کرے.

پاکستانی میڈیا وسوشل میڈیا پر جو ترکی کا چہرہ دکھایا جاتا ہے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے. اور کچھ بے بنیاد مواد بھی نشر ہوتا ہے. ہم نے گذشتہ کالم میں بغیر تحلیل وتجزیہ کے ” ترک اسرائیل تعلقات تاریخ کے آئینے میں” اس میں صرف ان حقائق کو بیان کیا جو ذرائع ابلاغ میں موجود ہیں اور کوئی بھی محقق ان حقائق کو تلاش کرکے ان کی تصدیق کر سکتا ہے. انہیں بیان کرنے کا مقصد ہرگز ترکی کی مخالف نہیں بلکہ وہ حقائق جو ساری دنیا جانتی ہے ان سے اپنے ملک کے عوام کو بھی آگاہ کرنا ہے. اور قوم کو جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہونے سے بچانا ہے. تاکہ تعلقات شعوری طور پر آگے بڑھیںاور ترکی کیونکہ اس وقت یونان ، شام اور لیبیا کے ساتھ جنگ کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہیں مسئلہ کشمیر کی حمایت کے بیان کے بدلے ہمیں کسی پرائی جنگ میں الجھا نہ دے. پھر چالیس سال بعد کہنا پڑے کہ ہم نے غلطی کی تھی.

سعودی وخلیجی شاہی خاندان ہمیں اپنی کرسی اقتدار کو بچانے کے لئے امریکہ افغانستان میں اور اپنے شریک خلیجی ممالک ہمیں یمن وبحرین و اردن وغیرہ میں ٹریننگ ومعلومات کا تبادلہ ودیگر عسکری تعاون لیتے رہے ہیں. اور ہمیں کرائے کے قاتل کا لقب ملتا رہا ہے. جب ہماری جنگ ہوتی ہے تو ہم تنہا لڑتے ہیں اور امید بھی نہیں کہ اگر خدانخواستہ نئی جنگ چھڑ گئی تو کوئی ملک انڈیا کے مقابلے میں اپنے فوجی ماہرین یا ہمارے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے فوج بھیجے گا. ممکن ہے کوئی بیان ہمارے حق میں دیدے یا کوئی ہمیں قرض دیدے لیکن خون ہمیں خود ہی دینا ہوگا.

اس لئے ہمیں بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہیں .جب گذشتہ صدی کے نوے کے عشرے کی ابتداء میں سوویت اتحاد ٹوٹا اور سویت یونین کے ممالک ٹکڑوں میں بٹ گئے اور امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا تو انقرہ کی سیاست میں بھی ایک نوعی تبدیلی آئی. ترکی امریکہ کا اتحادی تھا، ترکی نے بھی سوویت یونین کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے اور اپنے نفوذ کو خطے میں بڑھانے کا فیصلہ کیا. ترک سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ ، بلقان اور قوقاز کے ممالک پر انکا حق ہے. تو اس لئے اپنے ان توسیع پسندانہ عزائم کے لئے انہیں ایک طاقتور فوج کی ضرورت تھی.

امریکہ اور یورپ نے ترکی کو جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا. تو ان حالات میں ترکی کی نگاہیں اسرائیل پر پڑیں کہ جو جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے.دوسری طرف اسرائیل کو بھی خطے میں ایک مضبوط شراکت دار کی ضرورت تھی. ترکی کے سابق صدر ترگت اوزال نے ترکی کی تاریخ میں پہلی بار 1992 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو دو ملکوں کے مابین سفراء کی سطح تک بڑھایا. 1994 میں اسرائیل کے صدر عزرا وایزمین نے انقرہ کا دورہ کیا جس کے بعد ترکی کی خاتون وزیراعظم تانسوچیلر نے تل ابیب کا دورہ کیا. اور دونوں ممالک کے مابین ” امن وسیکورٹی ” معاھدے پر دستخط ہوئے. تاکہ دونوں آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکیں اور ترک فضائیہ کو اسرائیل میں ٹریننگ دی جائے.

1996 میں ترکی نے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافے اور جدید ترین اسلحہ کی خریداری کے لئے بڑی مقدار میں سرمایہ خرچ کیا. اور پہلے دس سال کے لئے 25 سے 30 بلین ڈالرز بجٹ طے کیا، جس کی مقدار اگلے تیس سال تک کے لئے 150 بلین ڈالرز تک بڑھانا طے پایا۔ 26 اگست 1996 کو ترکی اور اسرائیل نے اسلحہ بنانے کے معاھدے پر دستخط کئےجس کے بعد اسرائیل نے ترکی کے 54 جنگی طیاروں کے برقی نظام کو اپ گریڈ کیا. اور اس پانچ سالہ ڈیل کی لاگت 800 ملین ڈالرز تھی. اسی طرح میزائل اور رے ڈار بنائے گئے جو ترکی نے عراق اور شام کی سرحد پر نصب کئے.

اسی طرح دور مار کرنے والے میزائل بنانے کا معاہدہ بھی طے پایا جس کا بجٹ 150 ملین ڈالرز طے ہوا. اسرائیل کی جغرافیائی وسعت کم ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے ان معاہدوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی جنگی جہازوں کو پرواز کے لیے ترکی کی وسیع فضا استعمال کرنے کا موقع مل گیا. جس کے سبب وہ ایران کی قریب آزادانہ پرواز کرنے لگے. 1997 میں ترکی کے آرمی چیف اسماعیل حسین قرضای نے اسرائیل کا دورہ کیا. اور عسکری تعلقات کو مزید فروغ ملا.

اپریل 1997 کو اسرائیلی وزیر خارجہ نے ترکی کا دورہ کیا جس کے جواب میں ترکی کے وزیر دفاع طوران طایان نے اسرائیل کا دورہ کیا. اسی سال مئی میں پھر ترکی کے ڈپٹی آرمی چیف نے اسرائیل کا دورہ کیا.30 نومبر سے 4 دسمبر 1997 تک امریکہ، ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ ٹریننگ شروع ہوئی. اور طے پایا کہ یہ ہر سال ہوگی.

جون 2001 کو پھر امریکہ ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں جس میں ترکی کے 45 جنگی جہاز، اسرائیل کے 10 عدد F16 اور امریکہ کے 6 عدد F16 شامل ہوئے. 2002 جب رجب طیب اردگان کی پارٹی عدالت وترقی کی حکومت آئی تو ایک اسلامی چہرہ رکھنے والی اس پارٹی کی حکومت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ اقتدار پر آتے ہی اسرائیل کے ساتھ سارے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کریں گے. اور حماس اور فلسطینی مقاومت کے ساتھ کھڑے ہونگے.

لیکن اردوان نے اپنے اسلاف کے راستے کا ہی انتخاب کیا. اور اسرائیل کے ساتھ امن وسیکورٹی معاہدے کو جاری رکھا. اردگان ووٹ حاصل کرنے اور مسلمانوں کے دل جیتنے کے لئے کبھی کبھار انقلابی بیانات اور خطاب کرتا رہتا ہے. 2005 میں اردگان نے اسرائیل کا دورہ کیا. اور اسرائیل کے ساتھ 687.5 ملین ڈالرز کا سودا کیا. اور اسرائیل سے 170 M60A1 جنگی ٹینک خریدے. جنہیں اسرائیلی چلتا پھرتا قلعہ کہتے تھے . اور 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان پر 33 روزہ جنگ مسلط کی تو حزب اللہ نے ایک دن میں اسی قسم کے 40 اسرائیلی ٹینک تباہ کئے تھے.

جاری ہے ۔۔۔۔۔

 

تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

 

اگلی قسط میں ترکی کے نظامِ حکومت، ترکی کی داخلی سیاسی صورتحال اور اسکے بین الاقوامی کردار پر روشنی ڈالیں گے.

وحدت نیوز(آرٹیکل)سنہ 2018ء میں صدی کی ڈیل کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر مقالہ جات اور رپورٹس نشر ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکی صدر نے اس ڈیل کے تحت مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے شہر یروشلم کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے ڈالا

حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں میڈیا کے سامنے ایک امن منصوبہ کا اعلان کیا ہے جس کو مغربی ذرائع ابلاغ پر مغربی ایشیاء کے لئے امن پلان کا نام دے کر تشہیرکی گئی۔در اصل یہ امن پلان کیا ہے؟ کیا واقعی یہ کوئی امن کا پلان ہے؟ یا فقط نام نہاد امن ہے؟۔اس طرح کے کئی اور سوالات ہیں جو دنیا بھرکے سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم سوشل میڈیا پر اٹھا رہے ہیں۔

اس طرح کے متعدد سوالات اس لے بھی جنم لے رہے ہیں کہ امریکی صدر نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ بیٹھ کر دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلہ کو امن منصوبہ کا نام دیا ہے۔

حقیقت میں یہ امن منصوبہ کسی طرح ہو ہی نہیں سکتا۔

جس خطہ کی بات امریکی صدر ٹرمپ نے کی ہے یہاں تو پہلے ہی امریکی حکومت دہشتگردی کا بازار گرم کر چکی ہے اور اب امن کی کیسی باتیں ہیں یہ؟ اس نام نہاد امن منصوبہ میں جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سامنے آئی ہے وہ مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی حکام کا صہیونیوں کو خوش کرنے کا پلان ہے کہ جس کو صدی کی ڈیل کہا جا رہاہے۔

صدی کی ڈیل کا نام سننے والے یا پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔دراصل سنہ2017ء کے آخری ایام میں ہی اس ڈیل کا تصور سامنے آنا شروع ہو گیا تھا جب امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر نے یورپ سمیت عرب ممالک کے دورہ جات کئے اور حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ جب امریکہ صدی کی ڈیل کا اعلان کرے تو اس وقت یور پ سمیت عرب ممالک سے بھی اس کی حمایت میں آواز بلند ہونی چاہئیے۔

سنہ 2018ء میں صدی کی ڈیل کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر مقالہ جات اور رپورٹس نشر ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکی صدر نے اس ڈیل کے تحت مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے شہر یروشلم کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے ڈالا۔ امریکی صدر کے اس احمقانہ اعلان کے بعد دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک نے امریکی اقدامات کی شدید مذمت کی اور اس اعلان کو مسترد کیا۔

یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اس کو مسترد کیا تھا۔البتہ امریکہ کے کچھ عرب اتحادیوں نے اس اعلان کی حمایت میں ڈھکی چھپی بات کرتے ہوئے القدس شہر کی تقسیم کی بات کی تھی تاہم فلسطینی باشندوں نے فلسطین کے اندر اور باہر ہر جگہ اس اعلان کی مخالفت کی اور اسے صدی کی ڈیل کا حصہ قررار دیا تھا۔بعد ازاں امریکی صدر نے اپنی حماقت کو مزید جہالت میں بدلنے کے لئے امریکی سفارتخانہ کو القدس شہر میں منتقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ شہر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بن جائے گا۔

لیکن دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف احتجاج اور فلسطینیوں کی مزاحمت نے اس مقصد کو بھی کافی حد تک ناکام بنائے رکھا ہے۔

آئیے اب ذراامریکی صدر کی ایک اور حماقت یعنی نام نہاد امن منصوبہ کی بات کر تے ہیں۔امن کی بات امریکی صدور کی زبان سے عجیب سی محسوس ہوتی ہے۔کیونکہ دنیا بھرمیں جہا ں کہیں بھی نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ہر طرف امریکی سامراج کی شیطانی چالوں اور دہشت گردانہ عزائم ہی نظر آتے ہیں۔

عراق، افغانستان، ویت نام، ہیروشیما، ناگا ساکی، ماضی میں پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ، لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ امریکی حکومت کا تعصبانہ رویہ، کوریا کے ساتھ بدمعاشی، ایران کے خلاف امریکہ کی معاشی دہشت گردی سمیت فلسطینیوں پر ہونے والے صہیونی مظالم کے لئے اسرائیل کو امریکی ایندھن کی فراہمی اور حال ہی میں بغداد ائیر پورٹ پر ایران کے ایک مایہ ناز جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی فورسز کے اعلی کمانڈر ابو مہدی کو دہشت گردانہ کاروائی میں شہید کیا جانا،مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی حکومت کی ریاستی دہشت گردی پر امریکی امن کے پلان کی آنکھیں تاحال بند کی بند ہیں۔

عرب دنیا کے ممالک کو بلیک میل کر کے امریکی حکومت ان کے وسائل کو ہڑپ کر رہی ہے، داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بنا کر امریکہ نے دنیا میں کون سا امن قائم کیا ہے؟ یہ سب کی سب باتیں امریکہ کے دہشت گردانہ عزائم کی کھلی عکاسی کرتی ہیں اور یہی وجہ ہیکہ دنیا امریکی صدر کی زبان سے امن امن کی بات سن کر یقین کرنے سے قاصر ہیں۔آدھی سے زیادہ دنیا میں امریکی حکومت کی بدمعاشیوں سے دنیا کے انسان امریکہ حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔

کیا ایسے حالات میں کہ جب ہر طرف دہشت گردی کی جڑیں امریکی حکومت کے ساتھ مل رہی ہوں کوئی ذی شعور اس بات کا یقین کر سکتا ہے کہ امریکی صدر کی زبان سے امن پلا ن کا اعلان کیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ اٹھائیس جنوری کو اعلان ہونے والے امریکہ کے نام نہاد امن پلان کو شدید مزاحمت اور تنقید کا سامنا ہے اور حقیقت میں یہ پلان اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کے تحفظ کے لئے ترتیب دیا گیا ہے جو کہ کسی صورت قابل عمل نہیں ہو پائے گا۔

امریکہ کے امن منصوبہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکی نام نہاد امن پلان حماقت اور خباثت پر مبنی ہے جس کا مقصد ایک طرف مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کی جعلی ریاست کا تحفظ ہے تو دوسری طرف غرب ایشیائی ممالک سمیت جنوب ایشیائی ممالک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔امریکی صدر کا یہ نام نہاد امن منصوبہ نہ تو انکی زندگی میں کبھی عملی جامہ پہن سکتا ہے او ر نہ ہی ان کے موت کے بعد کبھی عملی ہو پائے گاکیونکہ حقیقت میں امریکہ نے امن کے نام پر دنیا کے کئی ممالک کی تباہی کا منصوبہ تشکیل دیا ہے جو فلسطین کی مقدس سرزمین کے بعد دیگر ممالک سے منسلک ہے۔

بہر حال غرب ایشیائی ممالک کے سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ امریکی صدر ایک کے بعد ایک حماقت کر کے صرف اور صرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں بھی ان کو دوبارہ صدر منتخب کیا جائے جو کہ حماقت در حماقت ہے۔
مبصرین کاکہنا ہے کہ امریکی صدر کا نام نہاد امن پلان جن ممالک کے بارے میں پیش کیا گیا ہے وہ اس لئے بھی ناکامی کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ امریکی صدر نے فقط صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیرا عظم نیتن یاہو کے ساتھ اس پلان کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر ممالک اس منصوبہ کا حصہ ہی نہیں ہیں۔

تاہم یہ نام نہاد امن منصوبہ اپنی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے غرب ایشیائی ممالک اور جنوب ایشیائی ممالک میں امریکی منصوبوں کو تیزی سے شکست کا سامنا ہو رہاہے۔عین الاسد پر ایران کا حملہ ہو یا پھر امریکی جہاز کا افغانستان میں پراسرار انداز میں گرادیا جانا ہو اس طرح کے متعدد واقعات اور خاص طور پر عراق اور شام میں امریکی حمایت یافتہ گروہ داعش کا خاتمہ سب کے سب امریکی شکست کے پنے ہیں اور اس شکست کو چھپانے کے لئے دنیا کے سامنے امریکی حکام نت نئی چالوں اور بہانوں کا سہارا لے رہے ہیں اور حالیہ نام نہاد امن منصوبہ بھی امریکی حکام کی جانب سے دنیامیں اپی متعدد شکستوں کی پردہ پوشی کرنے کی ناکام کوشش ہے۔

یہی اصل میں امریکی نام نہاد امن منصوبہ کی حقیقت بھی ہے۔


تحریر: صابرابومریم

وحدت نیوز(آرٹیکل) طلوع اسلام اس وقت ہوا جب پورا جہان تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا اسلام نے اپنی نورانی کرنیں بکھیرنا شروع کیں اس وقت عرب کے لوگ گناہوں کی وادیوں میں غرق تھے اس وقت عرب کے لوگ بیٹیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے جس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اس گھر کے لوگ جہالت کی وجہ سے بیٹی کو زندہ در گور کر دیتے عرب کے لوگ انسانیت کے پست ترین مقام پر تھے

پيامبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کی عزت کو اجاگر کیا شروع سے ہی لوگ حضرت محمد ص کے خلاف ہو گئے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا اس کی دو اھم وجوہات ہیں

1 حضرت محمد ص کا کردار

 2 ملیکہ العرب جناب سیدہ خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہا کی دولت اس دور کے لوگ جناب خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہا کے مقروض تھے اپنا قرضہ معاف کراتے گئے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے

نور خدا. عظمت خدا. حجت خدا. نصرت خدا. رضا و غضب خدا. نور پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنکھوں کا نور. قلب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تسکین پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روح پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. صدیقہ. طاہرہ. راضیہ. مرضیہ عالمہ. بتول

فضائل حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:‏ «كَانَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ أَشْبَهَ النَّاسِ وَجْهاً بِرَسُولِ‏ اللَّهِ‏»1

ام سلمہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چہرے کے لہاظ سے سب سے زیادہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھیں


ٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالُوا كَانَ النَّبِيُّ ص إِذَا أَرَادَ سَفَراً كَانَ آخِرَ النَّاسِ عَهْداً بِفَاطِمَةَ وَ إِذَا قَدِمَ كَانَ أَوَّلَ النَّاسِ عَهْداً بِفَاطِمَةَ. 2

ابن عمر سے روایت رسول خدا جب بھی سفر پر جاتے تھے سب سے آخر میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے الوداع کرکے جاتے اور واپسی پر سب سے پہلے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت فرماتے

ِ عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ كَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ فَاطِمَةُ وَ مِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ. 3

ابن بریدہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں. رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتوں میں سے سب سے زیادہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا اور مردوں میں سے سب سے زیادہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرتے تھے

عَن الصَّادِقِ: «مَا تَکَامَلَتِ النُّبُوَّةُ لِنَبِيٍّ حَتّی أَقَرَّ بِفَضْلِهَا وَ مَعْرِفَتِهَا [مَحَبَّتِهَا]». 4

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کسی کی نبوت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت و محبت کا اقرار نہیں کیا

عَنِ الرِّضَا عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِيٍّ ع قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ سُمِّيَتْ فَاطِمَةَ لِأَنَّ اللَّهَ فَطَمَهَا وَ ذُرِّيَّتَهَا مِنَ النَّارِ مَنْ لَقِيَ اللَّهَ‏ مِنْهُمْ بِالتَّوْحِيدِ وَ الْإِيمَانِ بِمَا جِئْتُ بہ5

حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے اجداد سے روایت نقل فرماتے ہیں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس لیے رکھا گیا کہ اسے اور اس کی ذریت کو آتش جہنم سے جدا رکھا ہے اس شرط پر کہ وہ توحید اور جو کچھ میں لایا ہوں اس پر اعتقاد رکھ کر خدا سے ملاقات کریں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ عُبَيْدٍ مُعَنْعَناً عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ اللَّيْلَةُ فَاطِمَةُ وَ الْقَدْرُ اللَّه‏...وَ قَوْلُهُ وَ ما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ يَعْنِي خَيْرٌ مِنْ أَلْفَ مُؤْمِنٍ وَ هِيَ أُمُّ الْمُؤْمِنِين‏ 6

محمد بن قاسم نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لیلتہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے اور قدر خداوند متعال ہے

یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہزار مومنین سے بہتر ہے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مومنین کی ماں ہے

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے روز اول سے لے کر اپنی اپنی رحلت کے آخری ایام تک اپنی زبان مبارک و کردار سے شھزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل بیان فرماتے رہے. ملکہ حیا حضرت زھرا سلام اللہ علیہا اپنے گھر سے دو مرتبہ باہر تشریف لائیں

 پہلی دفعہ اپنے پیارے بابا حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی علیہ السلام اور جناب حسنین کریمین علیہما السلام کے ساتھ مباھلہ کے لیے گئیں تھیں مباھلہ غیر مسلم نصرانیوں کے ساتھ تھا جب الھی کارواں مقام مباھلہ کی طرف رواں دواں تھا تو نصرانیوں کے علماء نے دیکھتے ہی کہا ان جیسے سچے انسان کائنات میں کہیں اور نہیں ہیں ان کی عزت و تکریم کی جائے اور تحائف کے ساتھ ان سے گفتگو کئے بغیر ان کو الوداع کیا جائے یہ الھی کارواں ہے نصرانیوں نے بہترین انداز سے عزت و شرافت کے ساتھ بہت سارے تحائف اور زمین بھی ھدیہ دی اور کہا اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تمام چیزیں آپ کی خدمت میں ھدیہ ہے

دوسری مرتبہ جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا جس کی عظمت خداوند عالم نے کئی مقام پر لاریب کتاب  قرآن کریم میں ذکر کیا

 اس دنیا کو جہالتوں کی وادیوں سے نکالنے والے صادق و آمین حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ہر مقام پر احترام جناب سیدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بیان فرمایا کبھی دروازہ بتول سلام اللہ علیہا پر کھڑے ہوکر اجازت لے کر داخل ہونا کبھی مسجد نبوی کے ممبر پر جلوہ افروز ہو کر اصحاب کرام کے مجمع عام میں بیان فرماتے رہے دیکھوں لوگوں اس کائنات میں میری بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی کوئی خاتون نہیں

لیکن رحلت رسول خدا صل اللہ علیہ والہ وسلم کے تھوڑا عرصہ بعد وقت نے کروٹ بدلی گھر سے باہر نہ نکلنے والی جناب سیدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو نکلنا پڑا گھر سے جب شھزادی کونین اپنے لخت جگر جناب حسنین کریمین علیہما السلام کو ساتھ لے کر اس جگہ تشریف لائیں جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بعض بے ضمیر انسان کو انسانیت کا درس دیا کر تھے اسی مقام پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو جناب حسنین کریمین علیہما السلام تشریف لائے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا خبطہ چھوڑ کر ممبر سے اتر کر اپنے پیارے نواسوں سے پیار کیا اور اپنے ساتھ ممبر پر بٹھا لیا ان شھزادوں کی عظمت کا مقام عملی طور پر لوگوں کو بتایا رحلت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت زهرا سلام اللہ علیہا اپنے بیٹوں کو ساتھ لے کر دربار تشریف لے آئیں وہاں ممبر رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مسلمان بیٹھا تھا جناب زہرا سلام اللہ علیہا اور جناب حسنین کریمین  علیہما السلام کو دیکھ کر مسلمانوں نے کوئی عزت و احترام نہ کیا ان ھستیوں کا بلکہ کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو کہنا پڑھا میں تھک چکی ہوں وہاں سے جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنا خطبہ بیان فرمایا لیکن بے ضمیر انسانوں پر اثر نہ ہوا انہوں نے حضرت صدیقہ سلام اللہ علیہا کے بابا کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کو نہ فقط رد کیا بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے کسی بات کو نہ مانا  اور کہا کوئی ثبوت پیش کرو جناب بتول سلام اللہ علیہا نے پیارے بابا رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر پیش کی اسکو بھی رد کر دیا گیا اس وقت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے گواہی کے طور پر جناب حسنین کریمین علیہما السلام کو پیش کیا ان کو بھی یہ کہ کر جھٹلا دیا گیا کہ جناب حسنین کریمین کا سن چھوٹا ہے تو وقت جناب زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا نے بہت گریہ کیا۔

 
تحریر:ظہیر عباس جٹ

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.


منابع

 1سنن ترمذی، ج5 ص361ح396

2 بحارالانوار ج 43 ص 40  مسند احمد بن حنبل ج 5 ص275

3 مناقب آل آبی طالب ع ابن شھر آشوب ج 3 ص 111معجم الکبیر طبرانی ج 22 ص403

4  اسرار فاطمیہ، شیخ محمد فاضل مسعودی، ص36. مناقب مرتضوی، محمد صالح حسینی ترمذی ص102

5 امالی شیخ طوسی 570 فضایل سیدہ النساء ابن شاھین ص 23

6 تفسیر فرات کوفی ص 581 ابن طاووس ج 3 ص 164

وحدت نیوز(آرٹیکل) جس دن امریکی وزیر دفاع نے ہمارے سپہ سالار کو ٹیلی فون کیا اُسی دن وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں ایک یوٹیلٹی سٹور کا دورہ کر رہے تھے۔ اُسی دن ایرانی سفیر بھی فوج کے سربراہ سے ملے۔ یہ رہا ہمارے حکومتی بندوبست کا اصل چہرہ، کہ کون کس کام پہ لگا ہوا ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے فوراً بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان فون کیا۔ انہوں نے فون ملایا تو آرمی چیف کو۔ وزیر اعظم کو فون کرنے کا تکلّف کیوں نہ برتا‘ وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ موجودہ حکومتی بندوبست میں کام بڑے خوبصورتی سے بٹے ہوئے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹوروں اور یہ جو تماشا غریبوں کیلئے پناہ گاہوں کی شکل میں کھیلا جا رہا ہے‘ اِن کے دورے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ذمے ہیں۔ کبھی وزیر اعظم کسی پناہ گاہ میں مسکینوں کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے ہوتے ہیں کبھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار۔ دیگر معاملات یا یوں کہیے تھوڑے سے بڑے معاملات سپہ سالار نمٹا لیتے ہیں۔ بس انہی خطوط پہ حکومتی بندوبست استوار ہے۔ اور یہ ہیں وہ عوام کے چیمپئن جن سے اُمیدیں وابستہ تھیں کہ وہ قوم کی تقدیر بدلنے والے ہیں اور طیب اردوان نہیں تو مہاتیر محمد بننے جا رہے ہیں۔

یوٹیلٹی سٹور کا دورہ تو ایک واقعہ ہوا۔ آئے روز اسلام آباد میں کوئی بے معنی سی تقریب منعقد ہوتی ہے جس کا نہ کوئی مقصد نہ فعالیت اور وزیر اعظم صاحب پہنچے ہوتے ہیں اور حسبِ عادت ایک فی البدیہہ تقریر چنگھاڑ دیتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ سال تو کرپشن اور ممکنہ این آر او سے گزارہ ہو گیا۔ ملک میں ہیں یا کسی غیر ملکی دورے پہ وہی ایک تقریر، وہی گھسے پٹے جملے، اور کام چل جاتا تھا۔ اب یہ ایران اور امریکا والا مسئلہ آ گیا ہے۔ کل ایک اور تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی، مبینہ طور پہ ہنر مند پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کی خاطر۔ نون لیگ والوں نے تو پھبتی کَسی کہ یہ نواز شریف کا ایک پرانا پروگرام تھا جسے کچھ رنگ روغن کر کے نئے پروگرام کے طور پہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کو جانے دیجیے۔ جو تقریر وزیر اعظم صاحب نے فرمائی‘ اُس میں انہوں نے کہا کہ ہم ایران، سعودی عرب اور امریکا میں دوستی کے خواہاں ہیں اور اِس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اِسے کہتے ہیں‘ پدّی کا شوربہ۔

تقریباً کل ہی کی بات ہے کہ ہم سعودی عرب سے جھاڑ پی چکے ہیں۔ اِسی کی وجہ سے بہتر یہی سمجھا گیا کہ کوالالمپور میں مہاتیر محمد کی بلائی گئی کانفرنس میں شریک نہ ہوں۔ حالانکہ جیسا ہم سب جانتے ہیں اِس کانفرنس کے تجویر کنندہ ہم بھی تھے۔ بہرحال جھاڑ پڑی تو ہوش ٹھکانے آ گئے اور کمال دانش مندی سے ایک اور یُو ٹرن لے لیا گیا۔ اِس سارے ماجرے میں پاکستان کی رسوائی کیا ہوئی‘ وہ الگ کہانی ہے۔ اب بوساطتِ وزیر اعظم ایک اور شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ ہم ان تین ممالک میں دوستی کراتے ہیں۔ یہ تین ممالک ایسے ہیں کہ امریکا اور سعودیہ ایران کو نہیں دیکھ سکتے اور ایران اِن دونوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اور ہم ان میں دوستی کرانے چلے ہیں۔ پدّی کی دوبارہ بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ان تینوں ممالک کی استطاعت ہم سے کچھ زیادہ ہے۔ ہم ہیں اور ہمارا ناقابل تسخیر کشکول۔ اِس کشکول کے سہارے اِس نئے اَمن مشن پہ چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صرف اِتنی احتیاط کر لی جائے کہ اپنے سے بڑے جھگڑے میں قدم رکھنے سے ملک کی مزید رسوائی نہ ہو جائے۔ سوال تو یہ ہے کہ ایسے عقل کے جھٹکے وزیر اعظم صاحب کو آتے کہاں سے ہیں؟ بیٹھے بٹھائے بغیر سوچے اور مزید برآں بغیر کسی سے پوچھے ایسے بیان داغ دیتے ہیں۔ جھاڑ سہہ کے اور کوالالمپور کانفرنس میں نہ جا کے پاکستان پہلے ہی کافی بے نقاب ہو چکا ہے۔ مزید اپنے ملک کی جگ ہنسائی پہ ہم کیوں تُلے ہوئے ہیں۔ کچھ تو خیال کر لیں۔

کئی ای میل جو مجھے کبھی کبھار آتے تھے انہیں اَب پڑھ کے حیران ہوتا ہوں۔ کوئی تنقیدی الفاظ عمران خان کے بارے میں ہمارے منہ سے نکلے نہیں اور پی ٹی آئی والے ایسی ایسی سُنانے لگ پڑتے تھے۔ گالیاں تو اُن کا عام معمول تھا اور ساتھ ہی یہ کہتے کہ تمہیں پتہ نہیں خان صاحب ملک کی تقدیر بدلنے جارہے ہیں۔ ہم تو کچھ نہ کچھ خان صاحب کی صلاحیتوں کے بارے میں جانتے تھے۔ جو زیادہ واقفانِ حال تھے سمجھاتے کہ تم یہ کیا نیا مسیحا سمجھ کے خان سے اُمیدیں لگائے بیٹھے ہو۔ پھر بھی ہم کہتے تھے کہ جن کو ہم بھگت چکے ہیں‘ اُن دونوں سے تو یہ بہتر ہوں گے۔ پھر وہی تعریف و توصیف کی کہانی آتی کہ ذاتی طور پہ بے داغ ہیں، کرپٹ نہیں اور سخت گیر آدمی ہوتے ہوئے سب کو درست کر دیں گے۔ واقفانِ حال سمجھانے کی کوشش کرتے کہ اِس فضول کے رومانس میں کیوں پڑے ہوئے ہو۔ پلے شے ہے کوئی نہیں تو کس چیز کا انتظار ہے؟ لیکن ہماری بھی عادت بن چکی تھی کہ نواز شریف کرپٹ اور زرداری ملک کو کھا گیا‘ ہمیں ایک بے داغ قیادت کی ضرورت ہے۔

ہمارے دوسرے بھائی‘ کیا کہیں کہ کون سے بھائی اور کس ادارے سے‘ کا اپنا ایجنڈا تھا۔ مقصد تھا نوازشریف سے حساب برابرکرنا۔ پانامہ سکینڈل ایک ایسی چیز تھی جو واقعی آسمانوں سے گری۔ اگلوں کے ہاتھ لگی تو پھر بات سے بات نکلتی گئی اور آخری نتیجہ نواز شریف کی اقتدار سے سبکدوشی تک پہنچا۔ ایک طرف خان صاحب کرپشن کا راگ الاپ رہے تھے اور دوسری طرف دوسرے‘ کیا کہیں کون‘ وہ بھی اپنے مقصد سے لگے ہوئے تھے۔ الیکشن جیسے ہوئے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارا ملک زرعی ملک ہے‘ اس لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ زراعت اور اُس سے جڑے ہوئے محکموں کا الیکشن میں خاصا کردار رہا۔ کچھ ریاضی کا بھی کمال تھا۔ ایسی جمع تفریق کی گئی کہ خان صاحب کا دیرینہ خواب پورا ہوا اور وہ وزیر اعظم بن گئے۔

پانامہ سے لے کر انتخابات تک یہ ایک بڑی مشق تھی۔ جو اِس مشق کے اہداف تھے وہ بڑی خوبصورتی سے حاصل کیے گئے۔ لیکن اُس کے بعد جو حشر ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہماری تاریخ میں بڑے بڑے موڑ اور بڑے بڑے فیصلے ایسے آئے جن میں عقل یا سمجھداری کا عمل دخل کچھ زیادہ نہ تھا۔ لیکن ناسمجھی کی حدیں جو اب پار کی جا رہی ہیں اُس کی نظیر ہماری ہوش رُبا تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ اور نتیجہ اِس صورتحال کا وہی نکل رہا ہے جو منطق کے عین مطابق ہے۔ جب خود ڈرائیونگ کی اہلیت زیادہ نہ ہو تو اوروں کا کنٹرول سنبھالنا قدرتی امر ہے۔ اُن کا ہاتھ پہلے بھی سٹیرنگ پہ تھا۔ راستے کا تعین وہی کرتے تھے لیکن پھر بھی کچھ دکھاوے کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ خان صاحب کی صلاحیتوں اور کارناموں کی وجہ سے وہ دکھاوا بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ اَب تو کام کی تفریق سامنے نظر آتی ہے۔ یوٹیلٹی سٹور اور جو چند ایک مفت کھانے کی پناہ گاہیں ہیں وہ آپ سنبھالیں، دیگر معمولات ہم دیکھ لیں گے۔ باقی دنیا بہری یا اندھی نہیں۔ وہ شاید ہم سے زیادہ پاکستان کے حالات سے باخبر ہے۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ فون کرتا ہے تو آرمی چیف کو۔ امریکی وزیر دفاع نے کچھ کہنا ہو تو آرمی چیف سے کہتا ہے۔ سفیروں نے با مقصد گفتگو کرنی ہو تو جی ایچ کیو کی طرف منہ کرتے ہیں۔ اِس دوران وزیر اعظم صاحب ایک نئی تقریر فرما دیتے ہیں۔ جس کا نہ سر نہ پاؤں۔

پارلیمنٹ بھی ہم نے دیکھ لی ہے۔ پہلے بھی اُس کے بارے میں کچھ زیادہ غلط فہمی نہ تھی‘ لیکن رہی سہی کسر توسیع کے معاملے میں پوری ہو گئی ہے۔ ہماری تاریخ تابعداری کے مظاہروں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اِس بار جو حب الوطنی اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے تابعداری کا مظاہرہ ہوا اُس کی مثال پرانے اوراق میں نہیں ملتی۔ سوائے چھوٹی پارٹیوں کے جنہوں نے پارلیمانی عزت کا کچھ خیال رکھا تینوں بڑی پارٹیوں نے کمال ہی کر دیا۔ جمہوریت کے حسن بہت ہوں گے لیکن پاکستانی جمہوریت کا حسن نرالا ہے۔

تحریر: ایاز امیر

وحدت نیوز (آرٹیکل) دین مبین اسلام کی رو سے ایک مجاہد اور سرباز جب رتبہ شہادت پر فائز ہوتا  ہے. وہ ہرگز مرتا نہیں بلکہ پرچم کو ایک نئے علمدار کے سپرد کرنے کی رسم ادا کرتا ہے. شہداء تو زندہ جاوید ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے مقدس خون سے شجرہ اسلام کی آبیاری کر کے اسے توانمند تر بنا دیتے ہیں.  اور قوموں کو حیات وزندگی کا رزق تقسیم کرتے ہیں اور انہیں ہمیشہ جینے کا سلیقہ بتاتے ہیں . اور اپنے خدا سے رزق بھی پاتے ہیں.

 کریسٹوفر کولمبس کی کل کی ایجاد کردہ مملکت کا سربراہ کیا جانے کہ مسلمانوں کا فلسفہ موت وحیات کیا ہے ؟  غاصبوں وجرائم پیشہ لوگوں ، چوروں اور ڈکیتوں کی یہ مملکت  جو اپنے آپ کو سپر طاقت کہتی ہے . اس کے اداروں اور اسٹبلشمنٹ کو انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے چالیس سال  گزر جانے کے باوجود یہ بھی اندازہ نہیں ہو سکا کہ ان کا مقابلہ اب ایک خالص محمدی اسلام سے ہے. وہ خالص محمدی اسلام کہ جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا علیہم السلام کی محنت کا ثمر ہے . اور خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں کا نچوڑ ہے کہ جس کے  رہتی دنیا تک کے حامی ومحافظ وصی رسول خدا ص  حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور انکے بارہ فرزند امام حسن مجتبی اور امام حسین علیہما السلام  سے لیکر حضرت حجت قائم امام مہدی  المنتظر عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں.  یہ خدا کا دین اپنی پوری تاریخ یعنی ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر قیامت تک نہ تو کبھی لا وارث رہا ہے اور نہ لا وارث رہے گا. اور اس کی حفاظت و سربلندی کے لئے کربلائیں سجتی رہی ہیں اور سجتی رہیں گی.

آج ایک بار پھر نائب امام زمانہ عج ، ولی امر المسلمین امام خامنئی دام ظلہ الوارف کا سرباز وعلمدار وسپہ سالار حاج قاسم سلیمانی قدس سرہ سرزمین عراق پر  مقاومت کے ایک عظیم علمدار ابو مھدی مہندس ودیگر بہادر مجاہدین کے ساتھ ایک نئی کربلاء سجانے اترا ہے . ایک ہفتہ قبل شب جمعہ کو جنہیں انسانیت کے بدترین دشمن نے بغداد میں شہید کر دیا ہے .اگر اس زمانے کے پست ترین ، اخلاقیات وانسانیت سے عاری امریکی صدر  نے ظلم کرنے سے پہلے فرعونوں و  یزیدیوں کی تاریخ پڑھی ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ اس مکتب کے سپہ سالار وعلمدار مرتے نہیں ، گرتے نہیں بلکہ علم کو نئے علمدار کے سپرد کرنے کی رسم ادا کر کے دشمن کے ساتھ جاری ازلی جنگ کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرتے ہیں.  اور اپنی قربانی سے اپنے مشن کو ایک نئی قوت اور طاقت دیتے ہیں. جس سے دشمن کی ذلت اور  پسپائی کا سامان فراھم ہوتا ہے . اس کا غرور خاک میں ملتا ہے. اور اس کا نظام زمین بوس ہو کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے اور قاتل پر برسوں اور صدیوں بعد بھی لعنت برستی رھتی ہے.

امریکہ جیسے ظالم وجابر ریڈ انڈین قوم کی لاشوں کے ڈھیر پر مملکت بنانے والے ہرگز اس قرآنی حقیقت کو درک نہیں کر سکتے. کہ اللہ تبارک وتعالی کا  ارشاد فرماتا ہے.

{مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا}  (البقرة:106)

" کہ ہم کسی نشانی کو تبدیل (منسوخ) نہیں کرتے یا ترک نہیں کرتے جبتک اس سے بہتر یا اس جیسی نشانی لاتے نہیں."

تبدیل ہونے والی نشانیاں خدا اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے. اور شہداء اللہ کی وہ نشانیاں ہیں کہ جن کو کبھی موت نہیں آتی. تفسیر نمونہ کے مصنف فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں  نسخ  سے مراد کسی خاص مصلحت کی خاطر  ایت کی تاخیر والتوا لیتے ہیں. تاکہ اس سے بہتر یا اس جیسی ایک اور آیت لائی جائے.  اور فرماتے ہیں کہ  "ننسخ " کا اشارہ مختصر مدت کی تاخیر اور  " ننسھا " کا اشارہ طویل مدت کی تاخیر کی طرف ہے.

اسلام کی پوری تاریخ کا نہیں تو کم از کم احمق ٹرامپ نے عصر حاضر کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو کبھی بھی یہ احمقانہ حکم صادر نہ کرتا. ابھی تقریبا 28 سال پہلے اسرائیل نے ٹرامپ کی طرح حماقت کی اور  حزب اللہ لبنان کے سربراہ علامہ سید عباس موسوی رح کو اسی انداز سے میزائل کے ذریعے شہید کر دیا تھا .  لیکن آج تک وہ  پچھتا رہا ہے کہ کاش میں نے یہ حماقت نہ کی ہوتی اور نہ ہی سید مقاومت علامہ مجاھد سید حسن نصراللہ حفظہ اللہ حزب اللہ کے سربراہ بن کر پے در پے انہیں شکستوں سے دوچار کرتے. ٹرامپ کی طرح کی حماقت سفیانی لشکر کے علمبردار آل سعود نے بھی یمن میں تقریبا 11 سال پہلے کی تھی . جب انھوں نے انصار اللہ کے بانی اور قائد سید حسین بدرالدین الحوثی کو اپنے ظلم کے تیروں کا نشانہ بنایا تھا.  آج یقینا وہ بھی پچھتا رہے ہیں. اب یمن پر مسلط کردہ جنگ انکے گلے کی ھڈی بن چکی ہے.اور  سید حسین شہید کے چھوٹے بھائی مجاھد اسلام سید عبدالملک بدر الدین الحوثی انکا ڈراونا خواب بن چکا ہے. جس نے انکے غرور وتکبر کو خاک میں ملا کر ذلیل وخوار کر دیا ہے. احمق بن سلمان کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں. یہ بزدل خوابوں  میں بھی انصار اللہ اور اسکے عظیم قائد کا نام سن کر ڈرتا ہے. شہروں کو چھوڑ کر سمندروں میں جا چھپتا ہے.  اب ٹرامپ تو بھی جان لے کہ جس جرم کا تو مرتکب ہوا ہے ، جب تک زندہ رہو گے تمہیں حاج قاسم ھرگز نہیں بھولے گا . اور حاج قاسم سلیمانی اور انکے رفقاء کا ناحق تمھارا اور تمھارے ظالم نظام کا تعاقب کرے گا. کیونکہ اس خون کے وارث فقط تنہا ایرانی نہیں بلکہ اس خالص محمدی اسلام کے سب پیروکار ہیں.

شہدائے بغداد کے مقدس خون کی برکتیں

1- ان شہداء کے مقدس خون نے بکھرے ہوئے بھائیوں اور مختلف پارٹیوں اور تنظیموں کو ایک موقف پر اکٹھا کر دیا ہے. آپ میڈیا پر دیکھ لیں سب ملکر اور باھمی اختلافات کو بھلا کر ان شہداء کے عادلانہ قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں اور امریکی نظام کی مذمت کر رہے ہیں.  

2- خالص محمدی اسلام کے پیروکاروں کو جو دنیا بھر کے مختلف ممالک میں رہتے ہیں انہیں بھی آپس میں ایک ہی موقف بین الاقوامی وحدت کی لڑی میں پرو دیا ہے. اور سب متعدد زبانوں اور انداز میں فقط ایک ہی عہد کر رہے ہیں کہ ان شہداء کا خون راٰئیگان نہیں جانے دیں گے. بلکہ عادلانہ قصاص کا پرزور مطالبہ کررہے ہیں.  

3- 2003 سے آج تک جو کچھ امریکا نے عراق پر تسلط کے لئے کیا اس بزدلانہ کارروائی کے نتیجے میں اس پر پانی پھر گیا ہے. اور آج کی عراقی پارلیمنٹ کی قراداد کے لئے حاج قاسم اور.حاج ابو مھدی مہندس جتنی بھی کوشش کرتے اور سرمایہ لگاتے نہیں لا سکتے تھے لیکن انکے مقدس خون کی تاثیر نے فورا یہ قرارداد منظور کروا لی. اور عراق میں کل جو امریکی وجود قانونی تھا اب وہ غیر قانونی ہو گیا. اور عراق سے ایران کو نکالنے اور اپنی مرضی کا انقلاب کے لئے گذشتہ تقریبا تین ماہ سے مظاھرے کروائے اور عراقی فضا کو اپنے زھر سے آلودہ کیا اور نفرتیں پھیلائیں.  ان شہداء  کی مظلومانہ شہادت اور مقدس خون نے اس فضا کو پھر معطر کر دیا. اور باھمی اختلافات اور فاصلے کافور ہو گئے.  

4- جس اسرائیل کو خطرات سے بچانے امریکی فوجیں اسے خطے میں  متمرکز ہوئیں اور اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کے امن کو تباہ کر کے امریکہ نے اسرائیل کی امنیت کو بہتر بنایا. آج وہ ناجائز ریاست تباہی کے کنارے جا پہنچی ہے اور اس کے لئے کسی وقت بھی جہنم کے دروازے کھل سکتے ہیں.  اور وہ بہت خوف زدہ ہیں.  اور ھائی الرٹ پوزیشن پر آچکے ہیں.  اور دوسری طرف خبریں یہ آ رہی ہیں کہ سمندر میں موجود امریکی فورسز ایران سے ہزاروں کلو میٹر دور بھاگ کر جا چکی ہیں.  اسرائیل کے پاس بھی جون بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ غضب الہی کے ٹوٹنے سے پہلے ارض مقدس فلسطین کو فلسطینیوں کے حوالے کر کے بھاگ نکلے.

5- ایران کے نظام کو تبدیل کرنے پر سالہا سال کی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی  سرمایہ گزاری کو بھی حاج قاسم اور انکے رفقاء نے اپنی اس عظیم قربانی سے ڈبو دیا ہے. انکی پلاننگ کے اس سال ایران میں عام انتخابات کے بعد وہ ایک بار پھر فتنہ ایجاد کریں گے. اس فتنے کی آنکھ بھی انہوں نے پھوڑ دی ہے اور اسے اپنی تدفین سے پہلے ہی دفن کر دیا ہے. اور اس کی کفالت وضمانت ایران کے ہر شہر میں  ملینز عوام کا انکے جنازوں کا استقبال ہے. اب امریکہ کے خلاف اس نفرت نے جنم لیا ہے کہ جسے سارا امریکی اور انکے اتحادیوں کا ہر قسم کا میڈیا ایرانی عوام کے دلوں سے نہیں  نکال سکتا.

انتباہ

ابھی تو ابتداء ہے چند دنوں میں ہی ان ابطال نے دشمن کو ھلا کر رکھ دیا ہے. دشمن بوکھلاہٹ کا شکار ہے. کبھی صلح کا ہاتھ بڑھاتا ہے کبھی جنگ کی دھمکیاں دیتا ہے.اس شہادت سے  مقاومت کا بلاک بہت مضبوط ہوا ہے. ایران کے خطے کے اتحادیوں کے علاوہ روس وچین جیسے ممالک کا موقف اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اب امریکہ اور غرب کو یہ خطہ چھوڑنا ہو گا. اور انکی پے در پے خطے پر مسلط کردہ جنگیں اب مشرق کے کھلاڑی برداشت نہیں کر سکتے.  اور اس اس نئے مرحلے میں کہ جس کا آغاز حاج قاسم نے اپنی قربانی سے ہو چکا ہے.  اور پرچم ایران وعراق میں نئے علمداروں کے سپرد ہوئے ہیں.  اب اس مرحلے کے آغاز سے ہی خطے میں امریکہ کے غلاموں اور طرفداروں کے برے دن شروع ہو چکے ہیں.  

ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے نظام میں موجود امریکہ نواز حکمرانوں کو تنبیہ کرتا ہوں کہ آپکے کے بہت سے مواقف میرے وطن کی عوام کے ترجمان نہیں رہے.  پاکستانی عوام غیرتمند ، بہادر ،  عزت دار فداکاری اور قربانی کا جذبہ رکھنے والی قوم ہے.  لیکن وقتی فوائد ، ذاتی منفعت اور خوف کی وجہ سے تم نے متعدد بزدلانہ اور غلامانہ مواقف اختیار کئے. پاکستانی عوام کو بارہا دنیا کے سامنے ذلیل کیا ہے. اور اس حد تک بین الاقوامی میڈیا میں پڑھنے کو مل جاتا ہے کہ جس بیان کرنا بھی کسی شریف اور غیرتمند کے لئے مشکل ہے. اس مرحلے پر یا تو غلامی کی زنجیر توڑ کر درست فیصلے کریں یا پھر اقتدار سے دور ہو جائیں اور آزادانہ طور پر سب پاکستانیوں کو خود اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے دیں.  تاکہ یہ قوم دینی ومذھبی اور قومی ولسانی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر سب پاکستانی بن کر روشن مستقبل کا فیصلہ کریں.


تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
10/01/2020

شیعت نیوز: جنرل  قاسم سلیمانی کس شخصیت  کا نام ہے!؟ ہمیں بار بار یہی بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایک ایرانی جنرل تھے اور بس ۔۔۔ یہ آدھی سچائی ہے، ہمیں ہمیشہ آدھی سچائی ہی بتائی جاتی ہے۔

مکمل سچائی  یہ نہیں ہے کہ وہ  ایک ایرانی جنرل  اور ایک فوجی شخصیت تھے بلکہ مکمل سچائی یہ  ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کے راستے میں کھڑی ایک دیوار تھے۔

 انہوں نے اپنی بصیرت کے ساتھ اسرائیل پر تباہی کا خوف سوار کر کےصرف ایران کا  دفاع نہیں کیا بلکہ پورے عالم اسلام کا دفاع کیا، امریکہ اور مغرب جو مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتے تھے ، قاسم سلیمانی نے اس نقشے کو خلیج فارس میں بھگو کر ہمیشہ کیلئےمٹا دیا۔

 اگر امریکہ و یورپ کے منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل ہوجاتا تو ساری اسلامی ریاستوں کے ٹکڑے ہوجاتے۔

 قاسم سلیمانی نے اس نقشے کو ناکام کر کے ساری اسلامی ریاستوں کی حفاظت کی۔

  اسی طرح ہر باشعور انسان یہ جانتا ہے کہ داعش کو فقط شام اور عراق کیلئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ سارے جہانِ اسلام کیلئے بنایا گیا تھا، قاسم سلیمانی نے داعش کا خاتمہ کر کے پورے جہانِ اسلام کو تحفظ بخشا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ  اس نظریے کو غلط ثابت کردیا ہے کہ امریکہ و یورپ کے خلاف صرف شیعہ ہلال  سرگرم ہے، بلکہ قاسم سلیمانی نے عراق، شام  اورفلسطین  جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا دفاع کر کے اور حشد الشعبی کو فعال کر کے شیعہ ہلال کے ساتھ سُنی ہلال کو بھی ملایا اور اب یہ ہلال ماہَ کامل بن چکا ہے۔ اب امریکہ و یورپ کی استعماری  کارروائیوں کے خلاف صرف شیعہ ہلال نہیں بلکہ  دشمن کے مقابلے میں شیعہ و سُنی بدر یعنی ماہ کامل ہے۔

قاسم سلیمانی نے اپنی جدوجہد سے حالات تبدیل کر دئیے ہیں، اب سوچیں بدل چکی ہیں،

قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالہ مقاومتی زندگی میں اہل سنت کو یہ شعور دیا ہے کہ ہم  کوئی الگ الگ ہلال نہیں ہیں بلکہ ہم امت واحدہ اور ماہ کامل ہیں۔

 ہم دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ دہشت گردوں کو  ہم پر مسلط کیا جاتا ہے۔

 ہم میں سے چند نادان لوگوں کو خرید کر ہمیں الگ الگ کر کے شکار کیا جاتا ہے۔

 لہذا دہشت گردوں کے مقابلے میں ملتیں متحد ہوجائیں۔

 عراق جہاں تقریبا نوّے فی صد علاقے پر داعش قابض ہو چکی تھی ، وہاں  سے داعش کو قاسم سلیمانی نے صرف  اسلحے کے زور پر باہر  نہیں نکالا بلکہ حشد الشبی کے پلیٹ فارم پر عراقیوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف متحد کر کے داعش کو باہر نکالا ہے۔

شام میں صرف بشارالاسد کی فوج تنہا داعش کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتی تھی ، قاسم سلیمانی نے شامی قوم کو داعش کے مقابلے میں متحد کر کے یہ معرکہ سر کیا ہے۔

 یمن میں صرف سرکاری فوج امریکہ و یورپ کے جدید ہتھیاروں اور سعودی عرب کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی، قاسم سلیمانی نے یمنی قبائل کو اپنے دشمن کے مقابل متحد کر  کے  انہیں سرفراز کردیا ہے۔

  فلسطین میں تنہا فسطین اتھارٹی مچھر مارنے کی طاقت نہیں رکھتی،  فلسطینیوں کو مقاومت کیلئے قاسم سلیمانی کے تفکر نے متحد کئے رکھا ہے۔

یہ قاسم سلیمانی کی بصیرت کی جلائی ہوئی شمعیں ہیں کہ آج کسی بھی محاذ پر اہل تشیع اپنے آپ کو اپنے اہل سنت برادران کے بغیر تنہا اور ادھورا محسوس کرتے ہیں۔

 آج خود ہمارے سلفی، اہلحدیث ، وہابی اور دیوبندی برادران سعودی حکومت کی امریکہ نوازی پر اعتراض کرتے ہیں۔

 آج خود سعودی شاہی خاندان کے اندرایسے افراد موجود ہیں جو سعودی حکومت  کی  امریکی و اسرائیلی غلامی کو ننگ و عار سمجھتے ہیں۔

یہ عالم اسلام میں بیداری، یہ شیعہ سنی وحدت،  یہ اپنے ملک کے دفاع کیلئے دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوجانا، یہ دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم،  یہ امریکہ و استعمار کا نوکر بننے  کو توہین سمجھنا ، المختصر یہ کہ  بیدرای، ہوشیاری، بصیرت، قومی وقار اسلامی وحدت اور باہمی بھائی چارے کو فروغ دینے کا نام قاسم سلیمانی ہے۔

ایسے میں بحیثیت پاکستانی

  ہمیں بھی حاج قاسم سلمانی کے راستے پر چلتے ہوئے  پنجابی، بلوچی، کشمیری، سندھی،پختون، شیعہ اور سنی کے الگ الگ ہلال جمع کر کے انہیں ماہ کامل بنا کے لیے کام کرنا چاہیے، انہیں ملکی مفادات کیلئے متحد کر دیں۔ ایسا اتحاد جو گریٹر  ہندوستان کے راستے میں کھڑا ہوجائے،  اپنے ملک کے اندر حشدالشعبی کی طرح تمام قبائل اور فرق و مذاہب کو اپنے ملک کی سلامتی کے لئےمتحد کر دیں۔

 اور شھیدِ محبوب قاسم سلمانی کے لیے زیادہ سے زیادہ شیعہ سنی مشترکہ محافل قرآن خوانی اور شھید کی اس وحدت امت کی فکر کو  اپنے وطن میں فروغ دے کر شھید کے سپاھیوں میں شامل ہو جائیں۔

تحریر: نذرحافی

Page 2 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree