Print this page

عالمی منظر نامہ پر امریکی ناکامی

04 جنوری 2018

وحدت نیوز(آرٹیکل) طول تاریخ میں امریکا کی سیاسی منظر نامہ پر شکست کی ایک طویل داستان موجود ہے جو کبھی ویت نام کی صورت میں تو کبھی ناکامیوں کا بوجھ نا قابل برداشت ہونے کے باعث ہیروشیما پر ایٹم بم کے حملوں کی صورت سمیت متعدد مرتبہ ہمیں مختلف ممالک میں فوجی چڑھائی کی صورت میں ملتی ہے در اصل امریکی جارحیت ہمیشہ امریکا کی ناکام سیاست کا پیش خیمہ رہی ہے کیونکہ جب امریکی سیاست عالمی منظر نامہ سے آؤٹ ہوئی ہے تو پھر اسی طرح کے حالات و واقعات کا دنیا کو سامنا کرنا پڑا ہے۔بہر حال اس کالم میں ماضی بعید نہیں بلکہ ماضی قریب کی بات کی جائے گی یعنی کہ نائین الیون، جی ہاں نائن الیون بھی دراصل امریکی سیاست کے عالمی منظر نامہ پر ناکامی کا ایک سیاہ دھبہ ہے کہ جس کے بارے میں آج تک متعدد رپورٹس شائع ہو رہی ہیں کہ جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکا خود نائن الیون کے حملوں میں ملوث تھا۔

نائن الیون کے بعد امریکا کی ناکامی کا نیا باب سنہ 2001ء میں افغانستان سے شروع ہوتا ہوا سنہ 2003ء میں عراق پہنچا اور اسی طرح بدستور سنہ2006ء میں اسرائیل کی جانب سے لبنان پر مسلط کردہ جنگ کی صورت میں لبنان پہنچا ، اور پھر اسی طرح 2007اور 2008غزہ کی پٹی جا پہنچا ،اسی طرح 2011میں ایک نئی امریکی ایجاد داعش کی صورت میں منظر نامہ پر ابھری، اگر چہ اس سے قبل بھی القاعدہ اور طالبان جیسی امریکی ایجادات مسلمان ممالک میں سامنے آ چکی تھیں لیکن داعش اپنی نوعیت کی ایک الگ ہی ایجاد تھی ۔بہر حال یکے بعد دیگرے امریکا کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا ہوا اور سب سے بڑی شکست سنہ2017ء میں شام و عراق میں امریکی کٹھ پتلی داعش کی شکست تھی ۔داعش کی شکست کی طویل داستان ہے جسے کسی اور کالم میں پیش کروں گا جبکہ ماضی میں شائع ہونے والے کالمز میں کچھ حد تک بیان کی جا چکی ہے۔ در اصل اس ساری منصوبہ بندی میں امریکا کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح اپنی ناکام سیاست کی پردہ پوشی کی جائے اور اس گھمنڈ کو برقرار رکھنے کے لئے امریکا نے خود براہ راست اور اپنے اتحادیوں کے ذریعہ لاکھوں معصوم انسانوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا، یہ خون سرزمین فلسطین سے لبنان و شام وعراق اور پاکستان سمیت افغانستان کی سرزمین پر مسلسل بہایا گیا ۔

گذشتہ پندرہ سالہ حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ امریکا کی عالمی منظر نامہ میں سیاست کا مرکز و محور مشرق وسطیٰ کا خطہ ہی رہاہے جہاں امریکا ہمیشہ سے کوشش میں رہا ہے کہ بالا دستی حاصل کر سکے اور اس خطے میں اسرائیل جیسے جرثومہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، نائن الیون کے بعد سے پورے خطے کو جس طرح کے حالات و واقعات درپیش رہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان حالات وواقعات کو موجد خود امریکا ہی تھا کہ جس کے مقاصد میں ایک طرف فلسطین کاز کو دنیا میں نابود کرنا تھا تو ساتھ ساتھ فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کا خاتمہ بھی تھا، فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کی لسٹ امریکا کے اتحادیوں جیسی لمبی فہرست نہیں ہے بلکہ چیدہ چیدہ قوتیں یا ممالک ہیں جن میں پاکستان، ایران، شام ،فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس، جہاد اسلامی، لبنان میں موجود اسلامی مزاحمت حزب اللہ اوردیگر ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا ؟ اگر افغانستان ہی سے شروع کریں تو جواب یہ ہے کہ آج بھی امریکا افغانستان میں اپنی شکست کو چھپانے کے لئے پاکستان پر الزام تراشیاں کر رہا ہے، اسی طرح عراق کے بارے میں بات کی جائے تو عرا ق آج پہلے سے زیادہ مستحکم ہو چکا ہے اور صلاحیت رکھتا ہے کہ امریکا کی داعش جیسی ایجادات کو نابود کر دے اور ایسا عملی طور پر کیا گیا ہے، عراق میں بسنے والی تمام اکائیاں امریکی خواہشات کے بر عکس متحد اور یکجا ہو چکی ہیں جو خود امریکا کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اب گذشتہ دنوں عراقی کردوں کی حمایت کی ہے اور عراق میں سیاسی بھونچال پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ اسی طرح لبنان کی بات کریں تو یہاں بھی امریکا اور اس کے ناجائز بچہ اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے، سنہ2006ء کی 33روزہ جنگ میں براہ راست اسرائیلی افواج کو شکست ہوئی تو حقیقت میں یہ شکست امریکا کی تھی کیونکہ اس وقت کے امریکی حکمران یہ کہتے تھے کہ بس چند دن میں لبنان ان کے کنٹرول میں ہو گا لیکن آج گیارہ سال کے بعد بھی ان کی ناپاک سیاست وہاں پر کامیاب نہیں ہو پائی۔اسی طرح حالیہ دنوں امریکا اور اسرائیل سمیت ہمارے عرب اسلامی ملک نے لبنان کے وزیر اعظم کو ریاض بلا کر استعفیٰ دلوایا جس کا مقصد لبنان کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنا تھا لیکن چنددن بعد اسی وزیر اعظم کو لبنان واپس جا کر معافی مانگ کر استعفیٰ واپس لینا پڑا یہ ایک اور بڑی شکست تھی جو دراصل امریکا کے حصے میں آ پہنچی۔

شام کی مثال لے لیجئے ، امریکا نے گزشتہ چند سال تک شام کو تہس نہس کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن آج بالآخر شام کے عوام شامی حکومت کے ساتھ ہیں، یہاں بھی امریکا کی دشمنی شامی حکومت سے اس لئے تھی کہ شامی حکومت فلسطین کاز کی حمایت میں ہونے کے ساتھ ساتھ امریکا کے دشمن ایران کے ساتھ ہے اور اسرائیل کو ناجائز اور غاصب سمجھتی ہے جبکہ فلسطین کی آزادی کی جد وجہد کرنے والی مزاحمتی تنظیموں کے لئے مدد فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔بہر حال اب جس حلب پر امریکا اور اس کی اسلامی دنیا میں اسلام کے لبادے میں چھپی مشینری واویلا کر رہی تھی حال ہی میں اسی حلب میں دسیوں ہزار لوگ کرسمس کے موقع پر جمع ہوئے اور مسیحی عوام کے مذہبی تہوار کو مل جل کر منایا جس کی تصاویر دنیا بھر کے آزاد ذرائع ابلاغ نے بھی شائع کیں جس سے امریکی سیاست کی ایک اور ناکامی ثابت ہوئی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکا کی گذشتہ پندرہ سالوں میں مشرق وسطیٰ میں کی جانے والی تمام تر سیاسی چالیں درا صل اس لئے تھیں کہ ایران اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں اور ان تمام ممالک کو تباہ و برباد کر دیا جائے جو فلسطین کے عوام کے مدد گار ہیں اور اسرائیل کے کھلے دشمن ہیں ، داعش کا وجود اور خطے میں جاری رہنے والی 6سالہ جنگ بھی درا صل اسرائیل کو رتحفظ فراہم کرنے کی ایک چال تھی جو بالآخر ناکام ہوئی، امریکا اپنے تمام تر حربوں میں ناکام ہوتا رہااور بالآخر اب ناکامی کا اعتراف امریکی صدر ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں فلسطین کے ابدی دارلحکومت القدس(یروشلم) کو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا یکطرفہ اعلان و فیصلہ کر کے کیا جسے خود اقوام متحدہ میں اکثریت کے ساتھ مسترد کر دیا گیا۔پوری دنیا فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے اور امریکا تنہا ہو رہا ہے۔

بہر حال امریکا تو ایک فرعون ہے یعنی شکست کھانے کے باوجود بھی سرکشی کرنا امریکی سیاست کا عین شیوہ اور وطیرہ رہاہے، اب امریکا نے نئی چال چلتے ہوئے پہلے ایران میں ہونے والے مہنگائی مخالف مظاہروں کی اتنی جلد بازی میں حمایت کی اب تا دم تحریک یہ مظاہرے دم توڑ چکے ہیں جن کا رخ موڑنے کی امریکا اور برطانیہ سمیت اسرائیل کی بھرپور کوشش تھی لیکن چند دنوں میں ہی ایران کی با بصیرت قیادت اور خودار عوام نے فتنہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے جس پر امریکا کو پھر ایک بڑا جھٹکا لگا ہے ۔ ایران میں امریکی ناکامی کے بعد اب پھر امریکا نے پاکستان پر الزام تراشیوں کا نیا بازار گرم کیا ہے لیکن یہاں بھی عوام اور سیاست دانوں سمیت حکمرانوں کی جانب سے امریکا کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکی احکامات اور اعلانات کو شدت کے ساتھ مسترد کیا گیا ہے جو خود امریکا کی ایک اور بڑی شکست ہے۔امریکا کی مسلسل شکست نے شاید امریکی حکمرانوں کو زہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے کہ جس کے باعث اب وہ دنیا بھر میں انارکی پھیلانے کی ناپاک کوششیں کر رہے ہیں حالانکہ امریکا ایران اور پاکستان سمیت شام و دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی پائمالیوں کا دعوے دار ہے لیکن کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ امریکی حکومت کہ جسے فلسطین میں امریکی اسلحہ کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالی نظر نہیں آتی۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree