Print this page

ایک فتویٰ ادھر بھی

22 جنوری 2018

وحدت نیوز (آرٹیکل) مبارک ہو!پیغامِ پاکستان فتویٰ صادر ہوگیا۔ اب اس فتوے کی قانونی حیثیت کیا ہے اس کی کسی کو خبرنہیں لیکن تعریفوں کے ڈونگے برسائے جا رہے ہیں دوسری طرف یہ بھی مبارک ہو کہ  کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد بھی  ان دنوں پاکستان کے آئین  پر ایمان لے آئے ہیں اور اُن کے ایمان کی قانونی حیثیت کا بھی ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

اب  جن کی قانونی حیثیت سب پر عیاں ہے ان کی  کارکردگی بھی کچھ تسلی بخش نہیں، اس طرف سے بھی بعض چونکا دینے والی خبریں گردش کر رہی ہیں جیسے کہ  گزشتہ ایک ہفتے میں  کراچی میں دوجعلی پولیس مقابلے ہوئے، بغیر کسی کریمنل ریکارڈ کے   پولیس نے جعلی مقابلوں میں دو نوجوان ٹھکانے لگا دیے۔انیس سالہ انتظار احمد کو ڈیفنس میں صرف گاڑی نہ روکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور نقیب اللہ محسود کو سچل گوٹھ کے  قریب پولیس نے پار کر  دیا۔

دونوں کے کیس میں لواحقین  اور عوام نے پولیس پر عدم اعتماد ظاہر کیاہے اور اسے کھلی پولیس گردی سے تعبیر کیا ہے۔مبینہ طور پر صرف ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اب تک  پولیس مقابلوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے. میڈیا کے مطابق نقیب اللہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

واضح رہے کہ راؤ انوار پر اس سے پہلے بھی جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ نوجوانوں کو ہلاک کرنے اور زمینوں پر قبضے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2016ء میں بھی معطل کیا گیا تھا تاہم بعدازاں اعلیٰ سطح سے آنے والے دباؤ کے بعد کچھ ہی عرصے میں بحال کردیا گیا۔ 2016 میں ایک انٹرویو میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ وہ اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس مقابلے اور ان میں درجنوں مبینہ ملزمان کو ہلاک کرچکے ہیں۔

جہاں تک پولیس  کے لگے ناکوں کو دیکھ کر لوگوں کے فرار ہونے کا تعلق ہے تو  اس میں ایک عنصر یہ بھی ہے کہ بعض متاثرین کے مطابق پولیس والے ناکے لگا کر ڈاکووں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں اور جو کچھ لوگوں کی  جیب میں ہو وہ ابھی انیٹھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ گھڑیاں اور موبائل تک ہتھیا لیے جاتے ہیں۔

یہ سارے الزامات اپنی جگہ قابلِ تحقیق ہیں البتہ ایک فوری کام یہ بھی ہے کہ پولیس والوں کی اخلاقی تربیت کرنے نیز حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف بھی ایک مشترکہ فتویٰ اور قومی بیانیہ منظرِ عام پر آنا چاہیے ۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے کہ  جو پولیس کی مسلسل نگرانی کرے اور موصولہ شکایات پر نوٹس لے۔

عوام میں ظلم، استحصال، حرام خوری اور رشوت کے خلاف آگاہی اور شعور کی مہم چلانا بھی علمائے دین کا اوّلین فریضہ ہے، اگر ٹرمپ کے ڈالر رکنے پر پیغامِ پاکستان صادر ہو سکتا ہے تو ملک میں حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف نیز مختلف اداروں کے جبر و استحصال کے خلاف کوئی مشترکہ فتویٰ یا  بیانیہ کیوں صادر نہیں ہو سکتا۔

بہرحال آئین پاکستان سے صوفی محمد جیسے لوگ کھیلیں یا پولیس وردی میں ملبوس حضرات یہ ارباب حلو عقد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاحِ احوال پر توجہ دیں۔ اگر ٹرمپ کے دباو پر سارے مسالک کے علام حضرات کو ایک میز پر بٹھایا جاسکتا ہے تو عوامی شعور اور یکجہتی کے ساتھ پولیس کو بھی راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی و عوامی اکابرین لعن طعن اور گالی گلوچ کی سیاست سے ہٹ کر عوامی سطح پر آکر مسائل کو درک کریں اور مسائل کے حل کے لئے عملی کوشش کریں۔
    

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree