Print this page

پاکستان کی تاریخ میں تخریب

27 مارچ 2018

وحدت نیوز (آرٹیکل)  ہر عمارت اپنے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، برصغیر کی آزادی کے بھی کچھ ستون ہیں،بلاشبہ  سرسید احمد خان، چودھری رحمت علی، علامہ محمد اقبال  کا شمار انہی ستونوں میں ہوتا ہے۔موجودہ دور میں ایک خاص منصوبے کے تحت سرسید احمد خان کی تکفیر کی جاتی ہے ، پاکستان کا نام تجویز کرنے کا سہرا کسی اور کے سر باندھنے کی سعی کی جاتی ہے اور علامہ اقبال کو ایک سیکولر انسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور سات ہی جیسے دہشت گردوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ویسے ہی علامہ اقبال اور قائداعظم کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ ان کا بھی کوئی مذہب نہیں۔

حالانکہ سب کے افکارو نظریات اور مذہبی عقائد روز روشن کی طرح عیاں ہیں، اس کے باوجود اب یہ لکھا جاتا ہے کہ دوقومی نظریے کے بانی سرسید کے بجائےحضرت مجدد الف ثانی  تھے، اسی طرح  لفظ پاکستان کے خالق کے طور پر چودھری رحمت علی کے بجائے کسی اور کا نام لیا جانے لگا ہے اور ساتھ ہی علامہ اقبال اور   قائداعظم کا چونکہ مذہب چھپانا مقصود ہے ، اس لئے ان کے دینی و مذہبی نظریات کو سرے سے ہی رد کردیا جاتا ہے۔

بھلا کہاں پر حضرت مجدد الف ثانی کا دور اور کہاں پر دو قومی نظریہ، کہاں حضرت شاہ ولی اللہ کا عہد اور کہاں پر لفظ پاکستان کا انتخاب، کہاں پر  مولانا قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی، مولانا مودودی  اور یعقوب نانوتوی کے افکار اور کہاں پر علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات، اسی طرح کہاں پر دارالعلوم دیوبند اور جماعت اسلامی کا وژن اور کہاں پر تشکیل پاکستان۔

مذکورہ بالا ساری شخصیات قابلِ احترام ہیں لیکن شخصیات کو بچانے یا بڑھانے کے لئے تاریخ میں تحریف سے گریز کرنا چاہیے۔تاریخ میں تخریب  اس لئے بھی کی جا رہی ہے چونکہ جولوگ  تشکیل پاکستان کے خلاف تھے اب وہ پاکستان میں اپنے وجود کے اظہار کے لئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لے رہے ہیں۔

تئیس مارچ کی مناسبت سے  اس وقت  ہماری کوشش ہے کہ تاریخ پاکستان کی تین اہم شخصیات کے افکارو نظریات کا خلاصہ پیش کریں پھر کسی اور مناسبت سے دیگر شخصیات کے کارنامے اور خدمات بھی بیان کئے جائیں گے۔

آئیے ہم شروع کرتے ہیں سرسید احمد خان سے اور سرسید کے بارے میں ان معلومات کا ذکر کرتے ہیں جو عام طور پر زیرِ مطالعہ نہیں آتیں۔
سرسید احمد خان

۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی شروع ہوئی تو سرسید ایک اکتالیس سالہ معروف دانشمند تھے۔یعنی آپ ۱۸۱۷ میں پیدا ہوئے،  اور ۱۸۵۷ تک آپ کئی مقالات اور کتابیں لکھ چکے تھے، آپ کے نانا فریدالدین کشمیری آخری مغل بادشاہ کے وزیر اعظم تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت شاہی دربار میں ہی ہوئی۔

۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی کے بعد سرسید احمد خان نے مندرجہ زیل امور پر توجہ دی:

۱۔سول انگریز اہلکاروں کو نہ مارا جائے

۲۔مسلمانوں کا ہندووں کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے چونکہ دونوں کے عقائد،عبادت گاہیں، معبود، ہیرو، تاریخ، دین، رسومات،حلال و حرام اور پاک و نجس ایک دوسرے سے مختلف ہے۔پس ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔

۳۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی ہے لہذا وہ ہندووں کے بجائے مسلمانوں کو اپنا اصلی دشمن سمجھتے ہیں اور کسی وقت بھی ہندو انگریزوں سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

۴۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہندووں کے بجائے انگریزوں کو اپنے اعتماد میں لیں ۔

۵۔ عملی سیاست وقتی طور پر مسلمانوں کے لئے زہرِ قاتل ہے ، مسلمان سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دیں۔

۶۔ جس چیز سے حکومت کسی ملت کو محروم کرنا چاہے اس چیز کو اس ملت کے نصابِ تعلیم میں شامل کردیا جائے

مذکورہ بالا امور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرسید نے مندرجہ زیل عملی اقدامات کئے:

۱۔ رسالہ اسبابِ بغاوت ہند کی اشاعت ۱۸۵۹ میں ہوئی، اسی طرح اسی سال مراد آباد میں ایسے سکولوں کی بنیاد رکھی جن میں فارسی اور انگریزی دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی،۱۸۶۲ میں غازی پور میں بھی اسی طرح کا سکول کھولا۔

۲۔۱۸۶۴میں غازی پور سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی ۔انگریزی و دیگر یورپی زبانی کی سائنسی کتابوں اور مقالات کا اردو ترجمہ کیا جائے

۳۔۱۸۶۹ میں انگلستان کا سفر کیا اور وہاں کے دو مشہور رسالوںTatler & Spectator کا مطالعہ کیا اور واپسی پر انہی کی روش کے مطابق  ۱۸۷۰ میں رسالہ تہذیب الاخلاق شائع کیا۔

۴۔ ۱۸۷۵میں ایم اے او (محمڈن اینگلو اورینٹیل )ہائی سکول کی بنیاد رکھی جو ۱۹۲۰ میں یو نیورسٹی بنا۔۱۸۸۵ میں کانگرس کی بنیاد رکھی گئی تو سرسید نے مسلمانوں کو سیاست کے بجائے تعلیم کی طرف دعوت دی۔

۵۔۱۸۸۶ میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کی بنیاد رکھی، یہ ایک تنظیم تھی جو ہر علاقے میں مقامی مسلمانوں کے تعلیمی مسائل  سنتی اور ان کے حل کے لئے کوشش کرتی۔

۶۔ سرسید احمد خان ۸۱ سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں فوت ہوئے اور علیگڑھ یونیورسٹی کی مسجد میں دفن ہوئے۔

یوں برصغیر کی آزادی کی تاریخ کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔

۷۔۱۹۰۶ میں  ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی اور یوں سرسید کے بوئے ہوئے بیج سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اس موقع پر مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کومنتخب کیا گیا، مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا اور برطانیہ میں لندن شعبے کا صدرسید  امیر علی کو بنایا گیا۔

اسی  طرح سرسید کے بعد چودھری رحمت علی کے بارے میں بھی کچھ اہم اور مفید نکات بیان کرتے ہیں:
چودھری رحمت علی

سرسید کی وفات سے صرف ایک سال پہلے یعنی ۱۸۹۷ میں ،مشرقی پنجاب کے  گاوں موہراں میں گجر خاندان کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس نے اٹھارہ برس کی عمر میں تقسیمِ برصغیر کا فارمولہ پیش کیا[1]،جسے پہلا پاکستانی کہاجاتا ہے اور جس نے پاکستان کا نام تجویز کیا۔اس نے ۱۹۱۸ میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ یعنی بی اے تک کی تعلیم ہندوستان میں ہی حاصل کی، بی اےکےبعد  محمد دین فوق کےاخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سےشعبہ صحافت میں عملی زندگی میں قدم رکھا۔

1931ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور  کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔

1933ء میں چودھری رحمت علی نے وہاں پر پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ 28 جنوری، 1933ء کو انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران "اب یا پھر کبھی نہیں" (Now OR Never) کے عنوان سے چار صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ شائع کیا اور یہی پمفلٹ لفظ "پاکستان" کی تشہیر کا باعث بنا۔

1935ء میں آپ نے آپ نے زمانہ طالب علمی میں  ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان"  بھی کیمبرج سے شائع کیا اور تشکیل پاکستان کے لئے  امریکہ، جاپان ، جرمنی اور فرانس کے دورے بھی کئے اور اس سلسلے میں ہٹلر سے ملاقات بھی کی۔

آپ نے ہی "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیاجس میں پاکستان ، صیفستان ، موبلستان ، بانگلستان ، حیدرستان ، فاروقستان ، عثمانستان وغیرہ کے علاقے اور نقشے بیان کئے گئے۔[2]

آپ لاہور میں ہونے والے  تئیس مارچ ۱۹۴۰ کے سالانہ اجلاس میں شامل نہیں ہوئے ، اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

ایک خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث آپ پر پنجاب میں داخلے پر پابندی تھی  اور دوسری وجہ یہ کہ  آپ مسلم لیگ کے ساتھ آل انڈیا کے لفظ کے مخالف تھے،آپ  کے نزدیک انڈیا کے بجائے دینیہ یا برصغیر کا لفظ معقول تھا۔چونکہ آپ صرف  مسلمانوں کو ہی متحدہ ہندوستان کا وارث سمجھتے تھے۔

تئیس مارچ کی قرارداد میں کہیں بھی لفظ پاکستان استعمال نہیں ہوا تھا، ہندو پریس نے اسے طنزاً قرارداد پاکستان کہا اور پھر یہی نام مشہور ہو گیا۔

تئیس مارچ ۱۹۴۰ کا اجلاس قائداعظم کی زیر صدارت ہوا ، جس میں مسلمانوں نے علیحدہ وطن کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستان بننے کے بعد چودھری رحمت علی دو مرتبہ پاکستان آئے تاہم پاکستان کی بیوروکریسی نے آپ کو قبول نہیں کیا اور آپ واپس لندن چلے گئے۔

3 فروری1951 ؁بروز ہفتہ آپ نے لندن کے ایک ہسپتال میں وفات پائی ، جہاں سترہ دن تک آپ کے ورثا کا انتظار کیا گیا اور بالاخر  20 فروری، 1951ء کو دو مصری مسلمان طالب علموں نےچودھری رحمت علی کو  انگلستان کےشہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی - 8330 میں لا وارث کے طور پر امانتاً دفن کیا اور آپ ابھی تک وہیں دفن ہیں۔[3]

سرسید اور چودھری رحمت کے بعد علامہ اقبال کی شخصیت کے کشھ اہم پہلو بھی پیش خدمت ہیں:
علامہ محمد اقبال

9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور۲۱ اپریل ۱۹۳۸ کو فوت ہوئے۔ آپ  25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی آزادی کے ایک ستون ہونے کے ناطے فکرِ اقبال میں امت کو درپیش مسائل کا حل کیا تھا۔ ہم فکر اقبال کے تناظر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کو مندرجہ ذیل دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

1۔ ایسے مسائل جنہیں حل کرنے کے لئے اقبال نے فکری کاوشوں کے سمیت عملی اقدامات بھی کئے۔

2۔ ایسے مسائل جو اقبال کے نزدیک نہایت اہمیت کے حامل تھے لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہیں کی اور اقبال کو انھیں عملی طور پر انجام دینے کی فرصت نہیں ملی۔ لہذا ان مسائل کا حل ہم فقط اقبال کے اشعار و مضامین یعنی افکار میں ڈھونڈتے ہیں۔

جب ہم فکر اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو سمجھنا ہوگا اور جب ہم فکر اقبال کو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال فقط گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ اقبال نے جو سمجھا اور جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا ہے۔

اقبال نے فلسفیوں کی طرح نہ ہی تو محض نظریہ پردازی کی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے بلکہ فکرِ اقبال میں جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل تھے، اقبال نے انھیں حل کرنے کے لئے عملی طور پر کام کیا ہے اور خدمات انجام دی ہیں اور جن مسائل کو حل کرنے کی زندگی نے اقبال کو فرصت نہیں دی، اقبال نے ان کا حل تحریری صورت میں نظم و نثر کے قالب میں بیان کیا ہے۔ یادرکھیے! اقبال کی ایک خاص خوبی جس کے باعث اقبال کا آفتابِ فکر ہر دور میں عالم بشریت کے افق پر جگمگاتا رہے گا، یہ ہے کہ اقبال نے صرف امت کے مسائل نہیں اچھالے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے اور صرف حل ہی پیش نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد بھی کی ہے۔

اب آیئے اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔

اقبال کے زمانے میں سیاسی و اجتماعی شعور کو کچلنے کے لئے استعمار سرگرمِ عمل تھا اور یہ مسئلہ فوری توجہ کا طالب تھا۔ لہذا اس مسئلے کو ہم سب سے پہلے بیان کر رہے ہیں۔

1۔ مسلمانوں کا اپنی حقیقی شناخت اور خودی کو کھو دینا اور اس کا حلاقبال کے زمانے میں استعمار کی سازشوں کے باعث مسلمانوں میں اجتماعی شعور کے فقدان کا مسئلہ اس قدر سنگین تھا کہ مسلمان اپنی خودی اور شناخت تک کھوتے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ بانگِ درا میں جوابِ شکوہ کے سترہویں بند میں اقبال کہتے ہیں:

شور ہے ہوگئے دینا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو!

اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مثال اس ماہی کی سی تھی، جو علم و حکمت کے سمندروں میں پلی بڑھی تھی، لیکن غفلت نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جس سمندر کی طلب کر رہی ہے، خود اسی سمندر میں اب بھی غوطے کھا رہی ہے۔ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ علوم و فنون کے بحرِ بیکراں کی پروردہ ہونے کے باعث ہر لحاظ سے دوسری اقوام سے بے نیاز اور غنی ہونے کے باوجود بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لئے دوسروں سے رہنمائی اور مدد کی طالب تھی۔ چنانچہ بالِ جبریل میں مسلمانوں کی غفلت کی تصویر اقبال نے ایک شعر میں کچھ یوں کھینچی ہے:

خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے؟

 اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے

اقبال نے امت کی حقیقی شناخت کھو جانے کا حل امت کی خودی کو زندہ کرنے میں ڈھونڈا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:

خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات

کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات

خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا

ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات

خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہِ پیشِ نسیم

خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات

اقبال جہاں خودی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، وہاں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی علاقائی، جغرافیائی یا لسانی خودی کو زندہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ امت کا ہر فرد مسلمان ہونے کے ناطے اپنی خودی اور شناخت کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

اقبال کے نزدیک ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اصلی مقام کو سمجھے اور غلامی کا طوق اپنے گلے میں دیکھ کر شرمندگی محسوس کرے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل

سینہء بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

اقبال نے صرف خودی کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خودی کو واپس لانے کے لئے آپ عملی فعالیت کے ذریعے 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ فکرِ اقبال کے ساتھ جب ہم اقبال کی ذات کو رکھ کر دیکھتے ہیں تو ایک یہ بات سامنے آتی ہے کہ باصلاحیت اور دانشمند حضرات گوشوں میں بیٹھ کر صرف افکار کی کھچڑی تیار کرنے کے بجائے عملی طور پر میدان میں اتریں اور قوم کی رہنمائی کریں۔

2۔ مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کا اہتمام نہ ہونا اور اس کا حلاقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے مظالم اور ہندووں کی سازشوں نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ہی غلام بنا کے رکھ دیا تھا، مسلمان اپنی آواز کو نہ ہی تو غاصب حکمرانوں کے سامنے بلند کرنے کا سلیقہ جانتے تھے اور نہ ہی ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے فکری و نظریاتی تربیت کا کوئی سلسلہ موجود تھا، چنانچہ اب اس مسئلے کے حل کے لئے اقبال نے خود اپنی سرپرستی میں 1934ء میں لاہور سے روزنامہ احسان کے نام سے ایک اخبار نکالا، جس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ترجمانی کی جاتی تھی اور جس کا اداریہ تک آپ خود لکھتے تھے اور اس اخبار میں نوجوانوں کی فکری و سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے آپ کے مضامین و نظمیں شائع ہوتی تھیں۔

اس جراتِ اظہار کے باعث اقبال کہتے ہیں:

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کی مشکل کو حل کرنے کے لئے اقبال نے خود عملی طور پر میڈیا کے میدان میں قدم رکھا، ایک اخبار نکالا اور اس طرح مسلمانوں کو اقوامِ عالم کے درمیان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے مقام، اپنے دین اور اپنے جذبات کے اظہار کا ہنر سکھایا۔ آپ شاعری کی زبان میں "مسلمان" کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ تو جرات اور تڑپ کے ساتھ اپنی خودی، شناخت اور مقام کو آشکار کر، تاکہ تو اور تیری آئندہ نسلیں غیروں کی غلامی کو قبول نہ کریں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:

کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر

کبھی دریا کے سینے میں اتر کر

کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر

مقام اپنی خودی کا فاش تر کر

اسی طرح امت کی فکری تربیت کے لئے اقبال نے بے شمار مضامین اور اشعار لکھے ہیں، ہم ان میں سے نمونے کے طور پر چند اشعار اس وقت پیش کر رہے ہیں:

آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے

کھو گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک

کس طرح ہوا کند تیرا نشترِ تحقیق

ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک

تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار

کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک

قوم کو فکری طور پر عقائد کی پاسداری کی ترغیب دینے کیلئے ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:

حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زُبوں

ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر

اقبال اسی طرح پورے عالمِ اسلام کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے تھے، مثلاً فلسطین، طرابلس، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں اقبال کا ایک ایک شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

اسی طرح 1912ء میں جنگِ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں:

فاطمہ! تو آبرُوے اُمّتِ مرحوم ہے

ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے

کشمیر کے بارے میں ارمغان حجاز میں اقبال فرماتے ہیں:

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل

جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

افغانستان کے بارے میں بالِ جبریل میں لکھتے ہیں:

قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم

کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

3۔ کسی متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا اور اس کا حلاقبال، پورے عالم اسلام کے لئے ایک مرکز اور پلیٹ فارم کے خواہاں تھے آپ کے بقول:

قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی

ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی

لیکن اس وقت بہت سارے لوگ لندن اور جنیوا کو اپنا قبلہ اور مرکز بنا چکے تھے، انھیں جو کچھ ادھر سے حکم ملتا تھا، وہ اسی کے سامنے سرخم کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے مسلمان قوم کو مخاطب کرکے کہا:

تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے

اقبال کی دوراندیشی کا یہ عالم تھا کہ آپ اس زمانے میں تہران کو ایک عالمی اسلامی مرکز کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس لئے آپ نے کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کی خاطر اقوام مشرق کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لندن اور جنیوا کے بجائے تہران کو اپنا مرکز بنائیں۔ جیسا کہ آپ ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا

شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

آپ کے نزدیک خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کے پاس ایک متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا تھا، آپ نے اس سلسلے میں لوگوں کو صرف اشعار اور نظمیں نہیں سنائیں بلکہ آپ نے ایک عالمی اسلامی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے ابتدائی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے فعال کردار بھی ادا کیا اور اس طرح مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم بنا دیا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree