Print this page

ولادت پیامبرص اور ہماری ذمہ داری

28 نومبر 2018

وحدت نیوز(آرٹیکل) شروع کرتا ہوں اُس ذات اقدس کے بابرکت نام سے جو نہایت رحمان و رحیم ہے، وہ مالک و خالق ہے جس کی قدرت میں ہماری جان ہے اور یہ تمام کائنات اُسی کی بنائی ہوئی ہے وہ عالمین کا رب ہے۔ سورہ حمد میں ہم ہر روز ہر نماز میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ "ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے"۔ اس خالق نے کائنات کو ایسے ہی خلق نہیں فرمایا ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا قادر، دانا و حکیم ہے اور حکیم کبھی کوئی بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا، اُس نے اس عالم کو خلق کیا ہے تو ایک خاص مقصد اور ہدف کے ساتھ خلق کیا ہے، اس کائینات میں موجود ہر چیز چاہے وہ جاندار ہو یا بےجان بےفائدہ نہیں ہیں۔ وجود کائینات کے بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں کوئی اس کو ایک حادثہ قرار دیتے ہیں تو کوئی انسانوں کو بندروں یا ان جیسی نسلوں سے قرار دیتے ہیں لیکن انسان جو اس دنیا کی تمام چیزوں سے افضل اور قیمتی شی ہے بلکہ یوں کہیں کہ دنیا بنی ہی انسانوں کے لئے ہے اور انسانوں کو جو چیز باقی سب سے ممتاز کرتی ہے وہ اُس کی عقل ہے۔ آج ہم خلقت کائنات کے حوالے سے مختلف نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ یہ دنیا بے فائدہ اور ہدف سے خالی نہیں ہے اس صورت میں فقط نظریہ اسلامی ہی ہے جو انسانوں کے اس شبہ کو دور کرتا ہے اور انسانوں کے قلوب کو تسکین واقعی پہنچاتا ہے۔

تو ہم ذکر کر رہے تھے دانا و حکیم خالق کا کہ اُس نے انسانوں کو ہدف کے بغیر خلق نہیں فرمایا بلکہ ایک خاص ہدف کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور حکیم جو کام کرتا ہے اُسے سلیقے کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ اُس نے انسانوں کو خلق کیا ہے پھر ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بھی ایسے انسانوں کو خلق فرمایا جو کہ ہمارے ہی جنس سے ہیں لیکن وہ ایمان کے اعلی درجہ پر فائز ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خداوند عالم کی طرف سے تربیت یافتہ ہوتے ہیں تاکہ انسانوں کو اپنے اصلی ہدف کی طرف رہنمائی کرسکیں اور ان کو اس دنیا کی رنگینیوں سے نکال کر صراط مستقیم کی راستے پر چلا سکیں۔

ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو پیغمبر آخرزمان کے امتی کہلاتے ہیں جودنیا میں رب عالمین کی طرف سے آخری پیامبر ہیں اور ان پر نازل ہونے والی کتاب آخری کتاب آسمانی ہے اور تمام آسمانی کتب میں سے جامع ترین کتاب ہے جو قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے ہدایت و معجزہ بن کر نازل ہوئی ہے۔

ربیع لاول کا مہینہ مسلمانوں کے لئے خوشی کا مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں خداوند عالم کے پیارے اور محبوب نبی، سردار انبیاء رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ص دنیا میں تشریف لائے۔ تاریخ ولادت پیامبر کے حوالے سے اھل سنت حضرات اور اھل تشیع میں اختلاف ہے، اھل سنت کی نظر میں آپ کی ولادت ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی اور اھل تشیع ۱۷ ربیع الاول کو روز ولادت مانتے ہیں۔ لیکن کچھ سالوں سے اس ہفتہ کو "ہفتہ وحدت" کے طور پر مناتے ہیں جوکہ اتحاد امت مسلمہ کے لئے ایک اچھی کاوش ہے۔

ہمارے نبی ص وہ عظیم پیامبر ہے کہ جس کے بارے میں سورہ الانبیاء کی آیت نمبر ۱۰۷ میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے " اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔"

رحمت کا معنی بخشش و مھربانی ہے یعنی پیغمبر ص کی ہر رفتار و گفتار انسانوں کی اصلاح کے لئے ہے ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کا جہاد ان کی قضاوت، ان کے اصول ان کے فرامین غرض ان کی ہر ہر حرکت رحمت سے خالی نہیں ہے بس صرف سمجھنے کی دیر ہے۔مگر ہم ان چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں ہمارے میموری میں اتنی کیپسٹی بھی نہیں ہوتی کہ ہم ان کے افکار کو سمجھ سکیں بشرطیکہ ہم غوروفکر کریں۔ ہم جب بھی بازار سے کوئی نئی چیز خریدتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے ہدایت نامہ کو پڑھتے ہیں تاکہ اس چیز کے چلانے کے طریقے کو صحیح سمجھ سکیں اور اس کی حفاظت کر سکیں لیکن افسوس کہ آج کے دور میں ہم سب سے آسان اسلام کو سمجھتے ہیں جس کے بارے میں تلاش و تحقیق تو کوئی نہیں کرتا لیکن نظریہ دینے کے لئے سب تیار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں نااتفاقی، انتشار، فساد کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ یہی ہے۔ ہم صرف خاندانی مسلمان ہیں لیکن تحقیقی کوئی نہیں ہے اسی لئے ہم فوری دوسروں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک جگہ چار دوست رہا کرتے تھے ان میں سے ایک ترکی، ایک عربی، ایک رومی اور ایک پاکستانی تھا۔ ایک دن وہ لوگ پیشے جمع کر کے میوہ فروش کے پاس میوہ خریدنے جاتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر ان کے درمیان لڑائی شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ ان چاروں کا ایک میوہ پر اتفاق نہیں ہوتا، پاکستانی بولتا ہے مجھے انگور خریدنا ہے، عربی کہتا ہے مجھے عنب چاہئے، ترکی بولتا ہے مجھے اُزوم چاہئے اور رومی بولتا ہے مجھے استنابیل خریدنا ہے۔ اتنی دیر میں ایک شخص وہاں پہنچتا ہے جس کو ان چاروں زبانوں پر عبور حاصل تھا وہ اس مسئلہ کو سمجھتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ پیسے مجھے دو میں تمھارے مسئلہ کو حل کرتا ہوں۔ وہ شخص ان چاروں سے پیسے لیتا ہے اور میوہ فروش سے کہتا ہے کہ بھائی ان کو انگور دے دو، جب وہ انگور دیتا ہے تو چاروں خوشی خوشی اسے لے کر چلے جاتے ہیں۔ ان چاروں کا ہدف ایک ہی ہوتا ہے یعنی انگور لیکن چاروں اپنی اپنی زبان میں بول رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ لوگ لڑ رہے تھے۔

میری نظر میں مسلمانوں کی اختلافات کا ایک سبب ہمارے پاس دین اسلام کے بارے میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ دین اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جس میں انسانوں کے لئے مکمل ہدایت و رہنمائی موجود ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی، عائلی زندگی، معاشرتی زندگی، معاشی زندگی، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، حقوق والدین، حقوق زوجین، حقوق ہمسائگی، طریقہ جہاد، دشمنوں کے ساتھ سلوک، مجرموں کے ساتھ سلوک، حقوق بشر کوئی ایسی چیز نہیں جس کا ذکر اسلام نے نہ کیا ہو۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ تمام برائیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کیونکہ ہم نے اسلام کو صرف زبان کی حد تک محدود رکھا ہوا ہے کبھی اسلام کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی۔ اسلام کے اصولوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن ، روایات، احادیث و تفاسیر کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔

ہمیں اپنی اصلاح کے لئےکس کو اپنا نمونہ عمل بنانا چاہئے؟ اسی بارے میں سورہ احزاب آیہ نمبر ۲۱ میں خداوند ارشار فرماتا ہے "مسلمانو، تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔" جس دن ہم نے اپنا آئیڈیل رسول اکرم ص کو بنایا، سمجھیں اس دن ہم کامیاب ہوجائیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں راہ راست سے نہیں ہٹا سکتی نہ ہی ہمارے درمیان فتنہ و فساد پیدا کر سکتی ہے۔ ہمارا جس فرقے سے بھی تعلق ہو ہم سب کا اصل اثاثہ پانچ چیزوں پر مشتمل ہے۔ اول توحید، دوسرا عدل، تیسرا نبوت، چوتھا امامت، پانچواں قیامت ہے جس پر تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ بس ہمارے درمیان کچھ اختلافات ہیں جس کو دور کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح اوپر مثال میں چار دوستوں کا ذکر کیا جن کے ہدف ایک تھے لیکن وہ لوگ ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھ نہیں پارہے تھے لیکن ایک عالم و دانا شخص نے ان کے اختلاف کو ختم کیا۔ اسی طرح ہم سب بھی اگراپنے فرائض کو صحیح انجام دیں تو دین اسلام کی نشوونما اور حقیقی اسلام کو دنیا تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی اور ہمارے اختلاف بھی ختم ہونگے ساتھ ہی عالم اسلام کے دشمنوں کے ناپاک عزائم بھی خاک میں مل جائیںگے۔

لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کی اس ہفتہ کو ہفتہ وحدت کے طور پر منائیں اوراس پلیٹ فارم سے  اپنے مشترکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں اور اتحاد امت کے لئے اپنی کوششوں کو برروی کار لائیں، اور اسلام کے حقیقی چہرہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ اسلام کے خلاف مغربی اور ان کے آلہ کاروں کے پروپگینڈوں کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔


تحریر: ناصر رینگچن

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree