Print this page

آخرآپ کو فلسطین سے پرابلم کیا ہے ; جاوید چوہدری کے نام || ڈاکٹر صابر ابو مریم

08 دسمبر 2020

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج منگل بتاریخ 8دسمبر سنہ2020ء کو ایک اخبار میں ملک کے ایک جانے پہچانے اور بڑے صحافی سمجھے جانے والے اینکر پرسن جاوید چوہدری صاحب کا کالم مطالعہ کیا تو میرے لئے کوئی سرپرائزنگ نہیں تھا ۔ کیونکہ پاکستان کے خلاف کی جانے والی کئی ایک سازشوں میں ایک سازش پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ نتھی کرنے کا ایجنڈا ہے جو موصوف کے مذکورہ کالم میں مطالعہ کو ملا ۔ یقینا یہ حیرت انگیز نہیں تھا ۔ کیونکہ گذشتہ کئی ماہ سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت امریکی سفارتخانہ نے ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد اور صہیونیوں کے سب سے بڑے حامی جیرڈ کوشنر کے حکم کے مطابق پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے کچھ اور ممالک میں صحافیوں اور ٹی وی اینکروں اور بڑے اخباروں کے ساتھ منسلک کالم نویسوں کو باقاعدہ وظیفہ ادا کیا گیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کل وظیفہ کی رقم پانچ سو ملین کے لگ بھگ بتائی گئی ہے جو مذکورہ بالا شخصیات کو صرف اس لئے ادا کی جانی تھی تا کہ وہ اپنے ٹی وی پروگراموں میں اور اخباروں میں اسرائیل جیسی خونخوار قاتل اور جعلی ریاست کے لئے اپنے اپنے ممالک میں نرم گوشہ پیدا کریں ۔ اب مسلسل پاکستان میں ایک کے بعد ایک بلی تھیلے سے باہر نکل رہی ہے تو راقم کو یہ بات سمجھنے میں بالکل بھی دقت نہیں ہے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے اور اس کی پشت پر کون ہے ۔

آٹھ دسمبر کو لکھے گئے کالم میں جاوید چوہدری نے بہت مہارت کے ساتھ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کی باوقار اور شجاع قوم کو بزدل اور ڈر جانے والی قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی پچاس سالہ تاریخ ہی کا مطالعہ کریں تو اسرائیل مسلسل شکست کھا رہا ہے اور اس بات کا اعتراف خود صہیونی خفیہ ایجنسی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے سنہ2018ء میں اسرائیل کے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے ۔ لیکن جاوید چوہدری صاحب کی کوشش کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ شاید اسرائیل ہی دنیا کا خدا ہے اور اس کو راضی کئے بغیر شاید پاکستان آگے نہیں چل پائے گا ۔ (خاکم بدھن) ۔ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ایک معروف قسم کا صحافی اور اینکر پاکستانیوں میں مایوسی پھیلانے کی کوشش میں مصروف نظر آیا ہے ۔

سوال اٹھا یا گیا ہے کہ آخر ہ میں کیا پرابلم ہے ۔ یعنی اسرائیل سے کیا پرابلم ہے ۔ جاوید چوہدری صاحب اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے مسلمانوں کو اسرائیل سے کوئی پرابلم نہیں لیکن بس ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین جو کہ فلسطینیوں کا وطن ہے ان کے پاس ہونا چاہئیے نہ کہ فلسطین ان صہیونیوں کا ہے جو یہاں لا کر قابض کر دئیے گے ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی قانون میں اگر بات کی جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے ۔ اگر اسرائیل کا وجود اتنا ہی ضروری تھا تو فلسطین پر کیوں ;238; فلسطین تو پہلے بھی فلسطینی عربوں کا ہی تھا کہ جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی کہ جو مقامی تھے اور صہیونی نہ تھے ۔ لہذا پرابلم یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا اور اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے جسے اپنے گھر جانا چاہئیے ۔ بہت ہی سادہ سی بات ہے ۔

جاوید چوہدی صاحب کو تاریخ پڑھ لینی چاہئیے ۔ صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے جی ہاں قبضہ کیا ہے ۔ کیونکہ انہوں نے پانچ ہزار سال کی جس تاریخ کا اپنے کالم میں ذکر کیا ہے اس کے مطابق بھی سرزمین فلسطین پر بعنوان اسرائیل کوئی ریاست قائم نہ تھی ۔ حتی فلسطین پر تو کیا فلسطین کے اطراف میں بھی ان پانچ ہزار سالوں میں اسرائیل نامی کوئی ریاست نہ تھی ۔ اسرائیل کی جعلی ریاست کا فلسطین پر تسلط انیسویں صدی کی اختتامی دہائیوں سے شروع ہوا اور جس کی تکمیل پھر سنہ1917ء کے بالفور اعلامیہ کے بعد1948ء میں ہوئی ۔

پاکستان کا ایک شہری ہونے کی حیثیت سے ہی اب سوال جاوید چوہدری صاحب سے ہے کہ چلئیے آپ بتائیے کہ فلسطین نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ;238; کیا فلسطینیوں نے یہودیوں کے کسی وطن پر یا ان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے ;238; کیا ان کے وطن میں گھس کر فلسطینیوں نے فلسطین قائم کیا ہے ;238; یا یہ کہ فلسطینی مسلسل ستر سالوں سے اسرائیلیوں کو قتل کر رہے ہیں ;238; یا پھر چلیں یہ کہ فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کی زمینوں کو ہڑپ کر رکھا ہے ;238; یا فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کو دربدر کر دیا ہے ;238; ان سب باتوں کا اگر آپ جواب دے پائیں تو آپ سے صرف یہ سوال ہے کہ بتائیں آپ کو فلسطین سے کیا پرابلم ہے ;238;

موصوف جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ اسرائیل کی جنگ مسلمانوں سے نہیں بلکہ عربوں سے ہے ایک احمقانہ سی بات ہے ۔ آج کیا اسرائیل فلسطین پر اس لئے قابض ہے کہ فلسطین عرب علاقہ ہے ;238; کیا سیاسی اعتبار سے یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اسرائیل کا اصل مقصد صرف اور صرف یہی ہے ۔ اگر مان بھی لیا جائے تو پھر اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کیوں کیا تھا جو اسے بعد میں سنہ2000ء میں شکست کھا کر چھوڑنا پڑا ۔ اسی طرح شام میں دہشت گردی اور حملے اسرائیل کس کے لئے کرتا ہے ;238; عراق میں اسرائیل نے کیوں حملے کئے تھے ;238; مصر نے تو اسرائیل سے دوستی کر رکھی ہے تو کیا مصر کی مشکلات ختم ہو چکی ہیں ;238; کیا مصر ترقی کر رہا ہے ;238; ہر گز ایسا نہیں ہے ۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ محترم جاوید چوہدری صاحب تاریخ کو ٹھیک سے پڑھیں ۔ اسرائیل کی طاقت جو آپ پاکستانیوں کو دکھانا چاہتے ہیں وہ طاقت کچرے کا ڈھیر بن چکی ہے ۔ جو اسرائیل کسی زمانے میں عرب ممالک پر قبضہ کرتا تھا آج اس کی حالت غزہ کے علاقہ میں اس نوعیت پر پہنچ چکی ہے کہ فلسطینی نہتے مجاہدین کے سامنے دو گھنٹے سے زیادہ میدان جنگ میں ٹک نہیں سکتا ۔ آپ ہیں کہ اپنے کالم میں پاکستانیوں کو اسرائیل سے ڈرا رہے ہیں ۔ عجب ہے!

پاکستان کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے ہوا بازوں نے اسرائیلی جہازوں کو مار گرایا ہے ۔ اسرائیل ہم سے خوف کھاتا ہے ۔ ہم کیوں اسرائیل کے ساتھ نتھی ہو جائیں ;238; آخر ہ میں فلسطین سے کیا پرابلم ہے ;238; جبکہ اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے ۔

اسرائیل کی ترجمانی کرنے والے ہر فردکو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ چند ایک ایسے غیر اہم ممالک جن میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان و دیگر شامل ہیں ان کا اسرائیل کو تسلیم کر لینا نہ تو مسلم امہ کو فلسطین کی حمایت سے پیچھے ہٹا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ نتھی کر کے نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے لئے نبرم گوشہ ہموار کرنے والے عناصر جہاں فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کرنے کا گھناءونا جرم انجام دے رہے ہیں ۔ جاوید چوہدری صاحب! آپ کے کالم کے مطابق آپ نے مسلم امہ کو مایوس کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ آپ نے پاکستان کو اسرائیل سے ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی ہے ۔ ہم آپ کو اس تحریر سے بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے نہیں ڈرتا ۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عمل کو ذلت اور رسوائی تصور کرتا ہے ۔ فلسطین کی حمایت بانیان پاکستان نے کی ہے اور ہم فلسطین کے ساتھ رہیں گے یہی ہمار ا افتخار ہے ۔ کسی کو ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ پاکستان کے وقار کو خراب کرے چاہے وہ صحافی ہو یا کوئی نام نہاد دانشور ۔

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree