Print this page

سرزمین بلتستان کا گوہر نایاب، شہید منیٰ علامہ غلام محمد فخرالدین

24 مئی 2021

وحدت نیوز(آرٹیکل) بلتستان کے نامور عالم دین، عظیم محقق و اسکالر، بے مثال دانشور، زبردست خطیب، اتحاد امت مسلمہ کے داعی حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین اپنے خالق حقیقی سے عشق اور راز و نیاز کرتے ہوئے مقدس سرزمین میں لبیک اللہم لبیک کا ورد کرتے ہوئے شہید ہوگئے، لیکن ہزاروں سوگوار آنکھوں کو ہمیشہ کے لئے پر نم چھوڑ گئے۔ ہماری یہ عادت ہے کہ ہمیں کسی قیمتی چیز کے چھن جانے کے بعد ہی اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی ہم افسوس کرتے ہیں۔ جب وہ اس دنیا میں تھے تو ہم نے ان کے علوم سے کما حقہ استفادہ کرنے کی کوشش نہیں کی، صرف الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہم نے ان سے استفادہ کیا، لیکن کسی علمی نشست، سیمنار، کانفرنس اور محافل و مجالس میں کما حقہ اس علوم کے سمندر سے کبھی استفادہ کرنے کی کوشش نہیں کی، یہاں تک کہ محافل و مجالس میں اس عظیم اور مظلوم سخنور کو خطابت کے لئے جگہ دینے سے بھی کتراتے تھے اور محفل میں ان کے ہوتے ہوئے بھی کوئی عام ملاّ اور خطیب خطابت کرتے نظر آتے تھے، لیکن ان کی شہادت کے بعد  جب منبر خالی ہوا، میدان خطابت خالی ہوا، تب ہم خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور یہ احساس ہوا کہ ہم کس عظیم سرمایہ اور نعمت خداوندہ سے محروم ہوگئے ہیں۔

ہزاروں کے اجتماع میں فصیحانہ علمی گفتگو کرنے والی عظیم شخصیت، جو ایران میں طلاب ہند و پاکستان کی نمائندگی کرتی تھی، جو آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، جب وہ اس دنیا میں تھے تو ہم انہیں عام ملاّ سمجھ بیٹھے، لیکن آج جب وہ ہم سے دور ہوئے تو سب، یہاں تک کہ ان کے مخالف افراد بھی افسوس کرتے اور آنسو بہاتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن اس کا کیا فائدہ۔۔ آج ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنی انمول ہستیوں کو اس دنیا میں ہی پہچان لیں، ان سے کماحقہ استفادہ کریں  اور ان کی قدر کریں۔ اس دانشمند علاّم کی رحلت سے معاشرے میں ایک ایسا بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، جسے پر کرنا فی الحال ناممکن ہے۔ اس فداکار شخصیت کا وجود پاکستان بالاخص بلتستان کے عوام کے لئے باعث عزت و افتخار تھا، جو زندگی میں اپنے ضیاء باریوں سے علاقے کو روشن کرتے رہے، اپنی نورانی تبلیغات سے مردہ روحوں کو زندگی بخشتی رہے اور جہالت کی تاریکیوں کو اپنے علم کی شمع فروازں سے منور کرتے رہے۔

علامہ شیخ فخر الدین تقویٰ، پرہیزگاری اور شوکت بیان میں اپنی نظیر آپ تھے۔ گلشن علم دین کا یہ سدا بہار پھلدار درخت جلد ہی خزان کو جا پہنچا اور اس کے بیش قیمت ایمان افروز پھل سے اہل علم محروم ہوگئے۔ جس طرح علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: {اذا مات العالم انثلم بموته فی الاسلام ثلمة لاتسد الی یوم القیامة} جب عالم مرجاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہوسکتا۔ آپ ہمیشہ معارف اہل بیت علیہم السلام کو پہنچانے کے لئے ایک کامیاب مبلغ بن کر لوگوں کی رہنمائی کرتے رہتے تھے، اسی لئے وہ پاکستان اور بلتستان تبلیغ کے لئے جاتے اور لوگوں کے ساتھ اس طرح سے گھل مل جاتے  تھے کہ بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی عالمانہ اور مجاہدانہ زندگی کی وجہ سے ان کے عاشق ہو جاتے تھے اور پروانہ وار ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے  تھے۔ جب ان کی شہادت کی خبر سنی تو طلاب اور ہزاروں مرد و زن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، یہی ایک عالم باعمل سے عشق کی نشانی ہے۔

جوانی کے اس پرخطر اور پر تلاطم دور میں جہاں گناہوں سے بچنا ہر انسان کی بس کی بات نہیں ہوتی، آپ تعلیم و تربیت اور ملت کی خدمت کی خاطر ایک اچھی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور روحانی تربیت حاصل کرتے رہے، اکثر و بیشتر اوقات علماء کے ساتھ گزارتے رہے اور یوں جوانی کے ایام میں ہی شہر آل محمد قم المقدسہ میں قدم رکھا۔ آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے آبائی گاؤں قمراہ سے کیا، پھر ہائی سکول سکردو سے میٹرک اور کالج سے ایف اے مکمل کیا۔ بچپن سے ہی علم دوستی اور بے نظیر خطابت کی بنا پر آپ آخوند کی صفت سے متصف تھے۔ آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلتستان ڈویژن کے صدر اور تحریک جعفریہ کے فعال رکن کی حیثیت سے بھی مکتب تشیع  کے لئے خدمات سرانجام دے چکے ہیں، جبکہ شہادت کے ایام تک مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

آپ نے حوزہ علمیہ قم اور المصطفٰی اسلامک یونیورسٹی سے کم ترین وقت میں وہ مقام حاصل کیا، جو عام طلاب ساری زندگی میں حاصل نہیں کرسکتے۔ عام طلاب صرف ایک ہی میدان میں کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن آپ مختلف میدانوں میں کامیاب و کامران تھے، اسی لئے آپ کا شمار المصطفٰی  اسلامک یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ قم کے نخبگان میں  ہوتا تھا۔ آپ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے، آپ کا شمار کم عرصے میں زیادہ علوم حاصل کرنے والے محنتی اور دیانتدار طلاب میں ہوا کرتا تھا، جس کے باعث انہوں نے رواں سال 28 جنوری کو المصطفٰی اسلامک یونیورسٹی قم سے اعلٰی نمبروں کے ساتھ پی ایچ ڈی مکمل کر لی۔ شاید آپ  جانتے تھے کہ آپ نے جلد ہی اس دنیا سے ابدی منزل کی طرف جانا ہے، اس لئے ہر سفر کو جلدی طے کیا۔ آپ نے مختلف آیات عظام سے روحانی و عرفانی فیوضات حاصل کئے۔ آپ کو علم اصول، فقہ، حدیث، رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب اور علوم قرآن و تفاسیر میں مکمل مہارت حاصل تھی۔ آپ حصول علم کے ساتھ ساتھ ، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف توجہ رکھتے تھے۔ آپ ولایت فقیہ، انقلاب اسلامی اور فکر امام خمینی (رہ) کے مبانی پر تبحر رکھتے تھے اور ولایت فقیہ اور نہج البلاغہ کی تدریس کیا کرتے تھے۔

قومی اور اجتماعی میدان میں بھی زمانہ طالب علمی سے لے کر جام شہادت نوش کرنے تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب رہے۔ مذہبی امور کے عشق میں جیل کی مشکلات بھی سہیں، لیکن صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر رہے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے اندر فصاحت و بلاغت اور دلیل و منطق کے ذریعے مسائل کو بیان کرنے کی ایک خاص مہارت ودیعت کر رکھی تھی، جس کی وجہ سے وہ لوگوں کو جلد ہی قائل کر لیتے تھے۔ سانحہ چلاس، سانحہ لولوسر، سانحہ کوہستان، سانحہ کوئٹہ، سانحہ عباس ٹاؤن وغیرہ میں شہید فخرالدین ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرنے میں پیش پیش رہے۔ جب قم المقدسہ میں ہم نے سانحہ چلاس کے شہداء کے لئے مجلس ترحیم رکھی تو خطابت کا فریضہ آپ نے سنبھال لیا اور اپنے فن  خطابت کے ذریعے مجلس ترحیم کو ایک احتجاجی جلسہ کی شکل میں تبدیل کر دیا، جو اپنی جگہ بے مثال اور بےنظیر مجلس ترحیم میں تبدیل ہوگئی۔

مسئلہ فلسطین، عراق، بحرین، یمن اور ایران عراق جنگ، اسی طرح عالم اسلام کے اہم مسائل پر کڑی نظر رکھتے تھے اور ہمیشہ حق کا برملا اور ببانگ دہل اعلان کرتے تھے۔ شہید ضیاء الدین کے نصاب کی تحریک میں بھی آپ نے حصہ لیا اور پورے گلگت بلتستان کا دورہ کرکے عوام کو اصل حقائق سے روشناس کرایا، گرچہ نصاب کی اس تحریک میں بھی میں بلتستان کے بزرگ علماء و زعماء خاموش  رہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے طلاب آپ کی تقاریر اور دروس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ جس طرح پاکستان اور بلتستان کے عوام ان کی مدبرانہ، عالمانہ اور مبارزانہ زندگی کی وجہ سے ان کے  عاشق تھے۔ آپ دوست و دشمن، موافق و مخالف سب کے سامنے محکم اور مضبوط دلائل کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے۔ حوزہ علمیہ قم میں جب کبھی طلاب کسی ادارے یا شخصیت سے ملاقات کا پروگرام بناتے تو اس وفد میں آپ کو ضرور شامل کرتے تھے۔ آپ طلاب پاکستان بالاخص طلاب بلتستان کی پہچان بن گئے تھے۔ طلاب کی مشکلات حل کرنے کے لئے پیش پیش تھے۔ اگر ایک نیا طالب علم بھی آپ کو کسی جگہ جانے کے لئے کہتا تو دریغ نہیں کرتے تھے۔

آپ حصول علم کے ساتھ ساتھ سال کا زیادہ عرصہ تبلیغ دین میں گزارتے تھے اور مسلسل کئی سالوں سے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر رہے تھے، لیکن اس سال دعائے عرفہ کی تلاوت، مناسک حج اور زیارت بیت اللہ کے بعد دس ذی الحجہ کو آل سعود، نسل یہود کی لاقانونیت اور ان کے ناپاک عزائم کے نتیجہ میں ملت مظلوم تشیع، عزاداران سیدالشہداء علیہ السلام اور تمام عاشقان ولایت کو علمی و فکری طور پر مغموم کرکے ومن یهاجر الی اللہ ورسولہ ...... کا مصداق بن گے۔ بقول حشمت کمال الہامی صاحب:
تعزیت کیسے کریں ہم پیش ملت کے حضور
جن کی فرقت تا ابد ہے ایک درد لا دواء
اب کہاں سے لائیں ہم پاکیزہ اس کردار کو
دین و وحدت کے لئے تھی منفرد جن کی ادا

حج کے سفر سے پہلے جب گھر والوں اور قریبی دوستوں نے انہیں اس سال حج پر جانے سے روکا تو انہوں نے یہ جملہ کہا کہ اگر موت کا وقت آپہنچا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سفر کریں یا نہ کریں موت مقرر شدہ چیز ہے۔ اس کلام سے مجھے حضرت علی اکبر علیہ السلام کا وہ جملہ یاد آتا ہے، جسے آپ نے والد بزرگوار سے فرمایا تھا: اگر ہم حق پر ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ موت ہم پر آ پڑے یا ہم موت پر، لیکن آپ بڑے خوش قسمت تھے، دو تین ماہ دینی اور تبلغی میدانوں میں محو عمل رہنے کے بعد، مقدس اور پاکیزہ ترین جگہوں کی زیارت کرنے اور دعائے عرفہ کی تلاوت کرنے کے بعد پاک و پاکیزہ ہو کر حکم الہی پر لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ سانحہ منیٰ کے بعد سے آپ کی شہادت کی خبر آنے تک قم المقدسہ، مشہد مقدس، نجف اشرف اور پورے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں جگہ جگہ پر محافل دعائیہ کا سلسلہ جاری رہا، لیکن جب یکم محرم الحرام کو ان کی شہادت کی خبر سنی تو ہر جگہ صف ماتم بچھ گئی اور ہر طرف ایک کہرام مچ گیا۔ ہر ایک اس عظیم خدائی نعمت سے محروم ہونے پر اشک بہا رہا تھا، لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ اس کا بندہ حالت احرام میں تمام گناہوں سے پاک و پاکیزہ ہو کر اس سے آ ملے۔

بقول شاعر:
ذاکر فرش عزا علم کا محور نہ رہا
دین و ملت کا وہ انمول مقدر نہ رہا
مثل مسلّمؑ گیا جو پیش خدا غربت میں
راہ حق کا وہ مجاہد، وہ دلاور نہ رہا
حالت حج میں شہادت کا شرف جس کو ملا
ہائے قسمت وہ مقدر کا سکندر نہ رہا
جس نے منبر سے خطابت کو نیا رخ بخشا
اب وہ میدان خطابت کا غصنفر نہ رہا
جس کی قدموں کو سدا فتح و ظفر نے چوما
دار فانی میں وہی شخص مظفر نہ رہا
اہل بیت عصمت و طہارت سے عشق و محبت ان کے پاک اور خالص دل میں بھری ہوئی تھی۔ ساری زندگی غم حسین علیہ السلام میں اشک بہاتے رہے اور مظلوم کربلا کے مصائب بیان کرتے رہے اور یوں سالار شہیدان کے سامنے سرخرو ہوئے۔ شاید برسوں تک ہم ان کو بھلا نہ سکیں، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: [موت قبیلۃ ایسر من موت عالم] ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے تحمل کرنے میں آسان تر ہے۔ [کنز العمال ۲۸۸۵۸]

شہید مظلوم منٰی، پاسدار ولایت فقیہ اور پاکستان و بلتستان میں فکر ولایت فقیہ کو عام کرنے والے ایک حقیقی مجاہد اور باعمل عالم تھے۔ وہ نہ صرف عوام کے لئے بلکہ حوزہ علمیہ میں موجود علماء اور طلاب کے لئے بھی نمونہ عمل اور اسوہ تھے۔ استاد محترم آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے ایک بڑی محفل میں، جب شیخ صاحب زندہ تھے تو ان کے بارے میں فرمایا تھا: ان کا شمار پاکستان کے  ایک درجہ کے علماء میں ہوتا ہے اور یہ شخصیت تمام طلاب کے لئے نمونہ عمل اور اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر اس شہید کی شہادت کی خبر یکم محرم الحرام کو نہ پہنچتی تو شاید پسماندگان میں اتنا بڑا سانحہ سہنے کی طاقت نہ ہوتی، لیکن شاید یہ شہید کہ اپنی دعا ہوگی کہ انہوں نے خداوند متعال سے دعا کی ہوگی کہ میری جدائی کا غم شاید میرے گھر والوں کو برداشت نہ ہو، اس لئے اس غم کو  غم حسین علیہ السلام سے ملا دے۔ یوں بیس دن تک متضاد خبریں آنے کے بعد  یکم محرم الحرام  کو ان کی شہادت کی خبر آپہنچی۔

ان کی شہادت کی خبر سنتے ہی طلاب، قم المقدسہ میں ان کے گھر تعزیت کے لئے جوق در جوق پہنچ گئے۔ المصطفٰی اسلامک یونیورسٹی کے سربراہ اور قم المقدسہ کے امام جمعہ حضرت آیت اللہ اعرافی {دامت برکاتہ } بھی آپ کے گھر تشریف لائے اور یوں اظہار خیال فرمایا: ہمارے برادر عزیز جناب ڈاکٹر فخرالدین درحقیقت حوزیہ علمیہ قم کے بارز ثمرات میں سے تھے، آپ علمی، فکری اور اجتماعی حوالے سے نابغہ روزگار اور جامع شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شہادت سے ملت اسلامیہ ایک عظیم مجاہد، مبارز، زمان شناس اور بابصیرت عالم دین سے محروم ہوئی ہے۔ ان کی اولاد ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور ہم ان کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوتائی نہیں کریں گے۔ آخر میں اس عظیم ہستی کی شہادت کی مناسبت سے تمام عاشقان ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام اور ان کے پسماندگان  کی خدمت میں تبریک و تسلیت عرض کرتا ہوں۔
شہادت مبارک و گوارا باد اے فخر ملت۔۔۔۔
موت آئے بھلا تجھ کو کیسے
تو، تو زندہ ہے تا صبح محشر
اے مفکر، اے معلم، اے مجاہد
حشر تک تجھ کو بھولے ہم نہ شاید۔۔۔
والسلام علیہ یوم یموت و یوم یبعث حیا

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree