Print this page

4 شعبان26 ہجری ولادت باسعادت حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام

10 اپریل 2019

وحدت نیوز(آرٹیکل)حضرت عباس علیہ السلام جو "ابوالفضل" اور "علمدار کربلا" کے نام سے مشہور ہیں حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین کے فرزند ہیں۔ حضرت عباس 4 شعبان العمظم سن 26 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔حضرت عباس،شیعوں  کے نزدیک،آئمہ (ع) کی اولاد میں اعلی ترین مقام و مرتبت رکھتے ہیں اور اسی اعلی مرتبت کی بنا پرمحرم کا نواں دن آپ سے مختص کیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباس(ع) کی عزاداری کی جاتی ہے۔ شیعہ مصادر و منابع میں آپ سے متعلق بہت سے کرامات نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح آپ کو ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر، وفا کا پیکر اور امام معصوم کی اطاعت میں نمونۂ کاملہ سمجھا جاتا ہے۔آپ کو نہایت خوش چہرہ نوجوان ہونے کے ناطے قمربنی ہاشم کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کربلا میں اپنے بھائی حسین بن علی (ع) کی سپاہ کے علمدار اور سقا تھے اسی بنا پرشیعیان اہلبیت (ع)  کے درمیان علمدار کربلا اور سقائے دشت کربلا کے لقب سے مشہور ہیں۔ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک عظیم ترین رہنما اوربہادر ترین جرنیل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی۔ کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔ جناب عباس علیہ السلام نے اپنے مضبوط ترین ارادہ اور عزم و حوصلہ کے اظہار سے ابن زیاد ملعون کے لشکر کو نفسیاتی طور پر بالکل ایسے ہی بھاگنے پر مجبور کر دیا جیسے انھوں نے میدان جنگ میں تنہا ان ملعونوں کو اپنی تلوار اور شجاعت سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

آج تک لوگ حضرت عباس علیہ السلام کی بہادری اور شجاعت کو مکمل عقیدت و احترام اور پورے جوش وجذبہ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا کہ جو اتنے زیادہ دکھ درد اور غموں سے چور ہونے کے باوجود ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہزاروں فوجیوں پر اکیلا ہی حملہ کر کے انھیں میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور کر دے۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں جب بھی حضرت عباس علیہ السلام دشمن کی فوجوں پر حملہ کرتے تو ہر سامنے آنے والا موت کے گھاٹ اترتا اور فوجی خوف اور دہشت سے ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے یوں بھاگتے جیسے سب کو یقین ہو کہ موت ان کے پیچھے آرہی ہے اور ان کی کثرت ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔

حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، جب حضرت عباس علیہ السلام نے تن و تنہا ہزاروں کے لشکر پر حملہ کر کے فرات کو دشمن سے خالی کیا تو تین دن کی پیاس اور شدید جنگ کرنے کے باوجود بھی فقط اس لیے پانی نہ پیا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچے اور اہل و عیال پیاسے تھے جناب عباس علیہ السلام کی وفا و غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال تو پیاسے ہوں اور وہ پانی پی لیں لہٰذا اپنے آقا اور بچوں کی پیاس کو یاد کرکے بہتے دریا سے پیاسے واپس آئے۔ دنیا کی پوری تاریخ کو ورق ورق چھاننے سے بھی اس طرح کی وفا کی نظیر نہیں مل سکتی کہ جس کا مظاہرہ جناب عباس علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں کیا۔جناب عباس علیہ السلام نے ان بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تھا۔

 پس جناب عباس علیہ السلام نے انسانیت کی آزادی،عدل و انصاف کے فروغ، لوگوں کی فلاح و بہبود، قرآنی احکام کی نشر و اشاعت اور پوری انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کرعزت و شرف اور سعادت دلانے کے لیے اپنے بھائی و آقا امام حسین علیہ السلام کی طرح شہادت کو اختیار کیا ۔جناب عباس علیہ السلام نے حریت و آزادی اور کرامت و شرف کی مشعل روشن کی اور عزت و سعادت کے میدان میں اترنے والے شہداء کے قافلوں کی قیادت کی اور ظلم و جور کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد و نصرت کو اپنا فریضہ سمجھا۔
جناب عباس علیہ السلام پوری انسانیت کے لیے بھیجے گئے خدائی دستور اور زمین کی ترقی کے لائحہ عمل کی خاطر میدانِ جہاد میں اترے۔ پس جناب عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایسا عظیم انقلاب برپا کیا کہ جس کے ذریعے حقیقی اسلام اور بنی امیہ اور سقیفہ کے خود ساختہ اسلام میں فرق واضح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے اصل وارث کے بارے میں ہر شک و شبہ ختم ہو گیا اور سقیفہ کے بنائے ہوئے ظلم و جور کے قلعے پاش پاش ہو گئے۔

حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر عظیم الشان خطبہ
«بسم الله الرّحمن الرّحیم»
«اَلحَمدُ لِلّهِ الَّذی شَرَّفَ هذا (اشاره به بیت الله الحَرام) بِقُدُومِ اَبیهِ، مَن کانَ بِالاَمسِ بیتاً اَصبَح قِبلَةً. أَیُّهَا الکَفَرةُ الفَجَرة اَتَصُدُّونَ طَریقَ البَیتِ لِاِمامِ البَرَرَة؟ مَن هُوَ اَحَقُّ بِه مِن سائِرِ البَریَّه؟ وَ مَن هُوَ اَدنی بِه؟ وَ لَولا حِکمَ اللهِ الجَلیَّه وَ اَسرارُهُ العِلّیَّه وَاختِبارُهُ البَریَّه لِطارِ البَیتِ اِلیه قَبلَ اَن یَمشیَ لَدَیه قَدِ استَلَمَ النّاسُ الحَجَر وَ الحَجَرُ یَستَلِمُ یَدَیه وَ لَو لَم تَکُن مَشیَّةُ مَولایَ مَجبُولَةً مِن مَشیَّهِ الرَّحمن، لَوَقَعتُ عَلَیکُم کَالسَّقرِ الغَضبانِ عَلی عَصافِیرِ الطَّیَران.اَتُخَوِّنَ قَوماً یَلعَبُ بِالمَوتِ فِی الطُّفُولیَّة فَکَیفَ کانَ فِی الرُّجُولیَّهِ؟ وَلَفَدَیتُ بِالحامّاتِ لِسَیِّد البَریّاتِ دونَ الحَیَوانات.هَیهات فَانظُرُوا ثُمَّ انظُرُوا مِمَّن شارِبُ الخَمر وَ مِمَّن صاحِبُ الحَوضِ وَ الکَوثَر وَ مِمَّن فی بَیتِهِ الوَحیُ وَ القُرآن وَ مِمَّن فی بَیتِه اللَّهَواتِ وَالدَّنَساتُ وَ مِمَّن فی بَیتِهِ التَّطهیرُ وَ الآیات.وَ أَنتُم وَقَعتُم فِی الغَلطَةِ الَّتی قَد وَقَعَت فیهَا القُرَیشُ لِأنَّهُمُ اردُوا قَتلَ رَسولِ الله صلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِه وَ أنتُم تُریدُونَ قَتلَ ابنِ بِنتِ نَبیّکُم وَ لا یُمکِن لَهُم مادامَ اَمیرُالمُؤمِنینَ (ع) حَیّاً وَ کَیفَ یُمکِنُ لَکُم قَتلَ اَبی عَبدِاللِه الحُسَین (ع) مادُمتُ حَیّاً سَلیلاً؟ تَعالوا اُخبِرُکُم بِسَبیلِه بادِروُا قَتلی وَاضرِبُوا عُنُقی لِیَحصُلَ مُرادُکُم لابَلَغَ الله مِدارَکُم وَ بَدَّدَا عمارَکُم وَ اَولادَکُم وَ لَعَنَ الله عَلَیکُم وَ عَلی اَجدادکُم.

ترجمہ
آپ علیہ السلام نے یہ خطبہ امام حسین علیہ السلام کی ۸ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری کو مکہ سے کربلا روانگی کے موقع پر خانہ کعبہ کی چھت پر جلوہ افروز ہو کر ارشاد فرمایا:حمد ہے اللہ کے لیے جس نے اسے (کعبے کو ) میرے مولا (امام حسینؑ) کے والد گرامی (امام علیؑ) کے قدم سے شرف بخشا جو کہ کل تک پتھروں سے بنا ایک کمرہ تھا ان کے ظہور سے قبلہ ہو گیا ۔اے بد ترین کافروں اور فاجروں تم اس بیت اللہ کا راستہ نیک اور پاک لوگوں کے امام کے لیے روکتے ہو جو کہ اللہ کی تمام مخلوق سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور جو اس کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اگر اللہ کا واضح حکم نہ ہوتا اور اسکے بلند اسرار نہ ہوتے اور اس کا مخلوق کو آزمائش میں ڈالنا نہ ہوتا تو یہی اللہ کا گھر خود اڑ کر میرے مولاکے پاس آجاتا لیکن میرےکریم مولانے خود اس کے پاس آکر اس کوعظمت بخشی بے شک لوگ حجراسود کو چومتے ہیں اور حجر اسود میرے مولا کے ہاتھوں کو چومتا ہے ۔ اللہ کی مشیت میرے مولاؑ کی مشیت ہے اور میرے مولا کی مشیت اللہ کی مشیت ہے خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تم پر اس طرح حملہ کرتا جیسے کہ عقاب غضبناک ہو کر اڑتا ہوا چڑیوں پر حملہ کرتا ہے اور تم کو چیر پھاڑ دیتا کیا تم ایسے لوگوں سے خیانت کرتے ہو جو بچپن ہی سے موت سے کھیلتے ہوں اور کیا عالم ہوگا ان کی بہادری کا جب کے وہ عالم شباب میں ہوں ؟ میں قربان کر دوں اپنا سب کچھ اپنے مولاءپر جو کہ اس پوری کائنات پر بسنے والے انسانوں اور حیوانوں کا سردار ہے ۔ اے لوگوں ! تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کیا تم غور و فکر نہیں کرتے ( کیا موازنہ ہے خاندان یزیدلعنہ کا خاندان رسالتﷺ سے ؟ ) ایک طرف شراب پینے والے ہیں اور دوسری طرف حوض کوثر کے مالک ہیں ایک طرف وہ ہیں جن کا گھر لہو لہب اور سارے جہان کی نجاستوں کی آماجگاہ ہے اور دوسری طرف پاکیزگی کے جہان اور آیات قرانیہ ہیں اور وہ گھر جس میں وحی اور قرآن ہے اور تم اسی غلطی میں پڑ گئے ہو جس میں قریش پڑے تھے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور تم اپنے نبیﷺ کے نواسے کو قتل کرنے کا ارادہ کر رہے ہو ۔ قریش اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ امیر المومنینؑ کی ہیبت و جلال کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور کیسے ممکن ہوگا تمہارے لیے ابا عبداللہ الحسینؑ کا قتل جب کہ اسی علی ؑکا بیٹا رسول ﷺکے بیٹے کی حفاظت پر مامور ہے اگر ہمت ہے توآؤ میں تمہیں اس کا راستہ بتاتا ہوں میرے قتل کی کوشش کرو اور میری گردن اڑاؤ تا کہ تم اپنی مراد پا سکو اللہ تمہارے مقصد کو کبھی پورا نہ کرے اور تمہارے آباء و اولاد کو تباہ کرے اور لعنت کرے تم پر اور تمہارے آباء و اجداد پر ۔


تحریر : ظہیرالحسن کربلائی

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree