Print this page

ایران کیخلاف ممکنہ پلان B اور خطے کا مستقبل

08 جون 2019

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایران کی مضبوط دفاعی صلاحیت اور ایرانی قیادت وعوام کی جرآت واستقامت کے مشاہدے کے بعد ظاہری طور پر یہی نظر آ رھا ہے کہ امریکہ ، اسرائیل اور اسکے عرب اتحادیوں میں ہمت نہیں کہ وہ حملہ کرنے کی غلطی کریں.  اگر انہیں اس حملے کے مثبت نتائج ملتے نظر آتے تو قطعا دیر نہ کرتے. لیکن اس وقت ایران اور محور مقاومت جس دفاعی پوزیشن پر ہے دشمن میں حوصلہ نہیں.  امریکی تاریخ میں پہلی بار نظر آرھا ہے کہ ایرانی فورسسز کے خوف سے دنیا کو خوفزدہ کرنے والے امریکی بحری بیڑے خلیج فارس سے نکل کر 500 کلومیٹر دور جا کر رکے ہیں. دشمن کا پلان نمبر ایک بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور امریکہ اور استکباری طاقتوں کو شرمناک ذلت کا سامنا ہے. نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آج ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف خطے میں اسکے اتحادی ایران سے مذاکرات کرنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں. آیا مذاکرات ہوتے ہیں یا نہیں یا کن شرائط پر بات چیت آگے بڑھتی ہے ان سوالات سے ہٹ کر اور موجودہ سیناریو میں ایک بہت اہم سوال جنم لیتا ہے کہ اس تازہ ترین صورتحال کے پیش امریکہ ، اسرائیل اور انکے اتحادیوں کا پلان B کیا ہو سکتا ہے؟

فلسطینی خبر پریس سائٹ پر اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس  کے سربراہ جنرل تامیر ھایمن کے آخری خطاب پر معروف صحافی بسام ابوشریف نے تبصرہ کرتے ہوئے چند اہم نکات بیان کئے ہیں جن سے اس پلان B  کو سمجھنے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔

جنرل ھایمن نے اپنے آخری خطاب میں بیان کیا کہ اسرائیل کی نئی اسٹریٹجک پالیسی دو اہم ستونوں پر استوار ہے ۔

ا  - اسرائیل کے سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات کہ جنکی بناء پر اسرائیل ایران اور محور مقاومت کے خلاف کھلی جنگ کی زمینہ سازی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

 ب -  دوسرا اسرائیلی فضائی طاقت کہ جس کی بناء پر اسے شام پر عسکری لحاظ سے فوقیت ہے. اب اسرائیل مقاومتی جماعتوں کو اپنا نشانہ بنائے گا جوکہ خطے میں ایران کے مضبوط بازو ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ " اب اسرائیل ایران پر نہیں بلکہ ایران کے اتحادیوں یعنی محور مقاومت پر حملے کرے گا. کیونکہ ایران کی طاقت اس خطے میں مقاومت کرنے والے اس کے اتحادی ہیں. "مذکورہ پوائنٹ بالکل واضح طور پر پلان B کی وضاحت کر رھا ہے کہ

 1- اب جنگ پہلے مرحلے میں ایران کے اتحادیوں کے ساتھ ہے. اسرائيل کی کوشش ہو گی کہ محور مقاومت کو کمزور کرنے کے لئے مقاومتی جماعتوں اور گروھوں کی لیڈرشپ کو ٹارگٹ کرے.

2- اس طرح پورے خطے میں اور بالخصوص شام وایران عراق ولبنان میں اسرائیل اور اسکے ایجنٹوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر  ٹارگٹ کلنگ شروع کرنے اور اھم شخصیات کو نشانہ بنانے کا امکان ہے۔

 3- اور ان جماعتوں اور شخصیات کی جاسوسی اور اھداف کی نشان دہی کے لئے اسرائیل اپنے  ایجنٹوں کی تقویت کرے گا۔

 4- دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کی مہم میں بھی تیزی آئے گی۔

5- پورے خطے میں داعشی گروھوں کو تقویت ملے گی.  اور دہشتگردی کا بازار گرم ہو گا۔

6- عراق وشام کی حکومت اور فوج کو مزید متعدد جبہات پر مصروف کرنے اور کمزور کرنے کے لئے بحران ایجاد کئے جائیں گے اور سیاسی وعسکری داعشیوں کو وسیع  میدان دینے کی کوشش کی جائے گی۔
"نفسیاتی نفسیاتی جنگ کا حربہ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل نے  ایک خبر لیک کی ہے کہ ہم نے پرانے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو فارغ کر کے ایک نئے جاسوسوں اور ایجنٹوں کی فوج تیار کر لی ہے۔
"اس اس میں کتنی حقیقت ہے یا نہیں لیکن اسرائیل ، امریکا اور اسکے اتحادی اس وقت مشکلات میں بری طرح پھنس چکے ہیں . اپنی پوری تاریخ میں کبھی اتنے بے بس اور کمزور نہیں تھے جتنے اب کمزور ہو اور بے بس ہیں.  امریکہ فتح سے تو مفادات حاصل کرتا ہی ہے لیکن اب وہ اپنی  شکست سے بھی مفادات حاصل کرنے اور اپنے خسارے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے. اور پسپائی کے بعد اب پیچھے قدم رکھنے کی بھی قیمت وصول کرنے کے راستے تلاش کر رھا ہے. لیکن اسرائیل کی نابودی کے آثار نمودار ہو چکے ہیں۔

خطے کا مستقبل1
- ایران اور محور مقاومت کی گذشتہ دو دھائیوں میں  شام وعراق ولبنان کی فتوحات اور غزہ ویمن میں استقامت ومقاومت کی عالیشان
تاریخ رقم کرنے کے بعد اب یہ خطہ امریکہ کے ھاتھ سے نکل چکا ہے. جبھۃ استکبار کی دیواریں کھوکھلی ہو چکی ہے اور بس ایک جھٹکے کا انتظار ہے کہ پھر جس کے بعد امید یہی کی جا سکتی ہے کہ نہ اسرائیل رہے گا اور نہ ہی خطے میں عوامی ارادے کے خلاف طاقت کے بلبوتے پر قبضہ کرنے والے ممالک  اور نہ خلیجی بادشاہتیں رہیں گی  اور نہ ہی مخصوص اشرافیہ کا اکثریتی عوام کے استحصال کا ظالمانہ نظام کہ جس پر امریکہ کا انحصار تھا۔

 2-اس کے بعد تکفیریت اور دھشگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ ہو گی . اور یہودی صہیونی ، کرسچین صہیونی اور مسلم صہیونیوں پر زمین تنگ ہو گی۔

3- اس خطے کے ممالک کے عوام آزاد ہو کر بغیر کسی بیرونی مداخلت کے اپنے ممالک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

4- استعمار کے بنائے ہو جعلی مذاھب اور امریکی وبرطانوی مذاھب کو چھوڑ کر لوگ واپس اپنے حقیقی محمدی اسلام کی طرف آئیں گے۔

 5- یمن کی فتح کامیابی اور آل سعود کی بربادی کے بعد یمن میں زیدی، سنی وشافعی، شیعہ واسماعیلی سب مسلمان عوام متحد ہو کر اپنے ملک کے مستقبل فیصلہ کریں گے. اور انہیں ترکیبی عناصر پر مشتمل سعودی عرب اور گرد ونواح کے ممالک میں بھی حکومتیں قائم ہونگی۔


تحریر: ڈاکٹر سيد شفقت حسین شيرازی

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree