Print this page

گلگت، ایم ڈبلیوایم کے ڈاکٹر حاجی رضوان ودیگراپوزیشن ممبران کا مجوزہ آرڈر پر ان کیمرہ بریفنگ کا بائیکاٹ

19 مئی 2018

وحدت نیوز(گلگت)  گلگت بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے مجوزہ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء پر وزیراعلٰی کی بریفنگ کا بائیکاٹ کر دیا، اسمبلی سیشن شروع ہونے کے آدھا گھنٹہ بعد سپیکر نے بتایا کہ کارروائی مختصر کر رہے ہیں، کیونکہ اسمبلی ہال میں مجوزہ آرڈر پر ان کیمرہ بریفنگ دی جانی ہے، جس کے بعد اراکین اسمبلی کو اسمبلی ہال لے جایا گیا۔ مجوزہ آرڈر پر بریفنگ سے قبل اپوزیشن اراکین نے استفسار کیا مجوزہ پیکج کا فائنل ڈرافٹ کوئی نیا ہے، کیونکہ حکومت کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ اس وقت جو ڈرافٹ گردش کر رہا ہے، وہ فائنل نہیں ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ ڈرافٹ وہی ہے، اس پر مکمل بریفنگ دی جائے گی، جس پر اپوزیشن اراکین نے ان کیمرہ بریفنگ کا بائیکاٹ کر دیا اور باہر نکل آئے، تاہم اسلامی تحریک کے رکن اسمبلی کیپٹن(ر) سکندر علی بریفنگ میں موجود رہے۔ اپوزیشن اراکین نے موقف اختیار کیا کہ گلگت بلتستان کو آرڈر یا پیکیجوں کی بجائے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت مکمل آئینی صوبہ، آزاد کشمیر یا مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔

قائد حزب اختلاف کیپٹن (ر) شفیع خان ایم ڈبلیوایم کے رکن اسمبلی ڈاکٹر حاجی رضوان علی و ممبران جاوید حسین، نواز خان ناجی اور راجہ جہانزیب نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے اسمبلی قراردادوں کے برعکس آرڈر لایا ہے۔ جس کا ہم حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف محمد شفیع کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو پیکچز یا آرڈرز کی بجائے مکمل آئینی سیٹ اپ دیا جائے، اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو کشمیر یا مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کا اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ حتمی ہے اور اگلے ایک دو روز میں تمام ممبران اسلام آباد روانہ ہوں گے اور گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ ادھر بی این ایف کے قائد و رکن اسمبلی نواز خان ناجی نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے ان کیمرہ سیشن کو مسترد کرتے ہوئے اجلاس سے بائیکاٹ کیا ہے، ہم نے وزیراعلٰی سے پوچھا کہ مجوزہ پیکج کوئی ایکٹ ہے؟ تو جواب ملا کہ ماضی کی طرح یہ پیکیج بھی آرڈننس کے طور پر نافذ العمل ہوگا، جس پر ہمارا جواب تھا کہ 70 سال بعد ایک بار پھر گلگت بلتستان کی قوم کسی پیکیج کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ خطے کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے، جس کے لئے ہم نے آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ یا دفاع، کرنسی اور خارجی امور کے علاوہ تمام اختیارات اسمبلی کو تفویض کرنے کا مطالبہ کیا ہے، حکومت مزید ہمارے صبر کا امتحان نہ لے۔ ہمیں مختلف پیکجز سے سبق ملا ہے کہ اس طرح کے حربوں کا مقصد لوگوں کے حقوق غصب کرنے اور اختیارات چھیننے کے علاوہ کچھ۔ نہیں۔ ہم نے 2009ء کے نام نہاد پیکج کو بھی اسی وقت ہی مسترد کر دیا تھا، جب تمام لوگ اس پیکیج کے شان میں قصیدے پڑھتے تھے۔ ان لوگوں کو آج جاکر پتہ چلا کہ یہ پیکیج بھی ظالمانہ فیصلہ تھا، جس کی کوکھ سے ٹیکس اور کئی بیماریوں نے جنم لیا۔ آج ایک بار پھر پیکج کی بات ہو رہی ہے جو ماضی کے پیکجز سے برا ہوسکتا ہے تو اچھا کبھی نہیں ہوسکتا۔

ادھر پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی جاوید حسین نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ کوئی اور ڈرافٹ ہے، بریفنگ میں جو کچھ دکھایا گیا، وہ تو پہلے ہی سب کے سامنے ہے، اس پر بریفنگ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، اس لئے ہم نے بائیکاٹ کیا۔ اب ہمارا مطالبہ ون پوائنٹ ایجنڈا ہوگا کہ کسی بھی سیٹ اپ کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی تحفظ دیا جائے، اگر یہ ممکن نہیں تو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔

دوسری جانب ایم ڈبلیو ایم کے رکن اسمبلی حاجی رضوان نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ اصلاحات کے معاملے پر جذبات کی بجائے ہوش سے کام لینا ہوگا، حاجی رضوان کا کہنا تھا کہ ان کیمرہ بریفنگ میں اپوزیشن نے جذبات کا مظاہرہ کیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی بریفنگ کے بعد ہم ادھر ہی بیٹھ کر بحث کرتے اور ڈرافت میں موجود خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کرتے، کیونکہ یہ مسئلہ روڈ پر نہیں ٹیبل پر ہی حل ہوگا، چونکہ اپوزیشن کا فیصلہ تھا، اس لئے ہم بھی باہر آگئے، وگرنہ ہم اس پر بحث کرتے اور کمزوریوں کو حکومت کے سامنے رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنی بریفنگ تو دیدی، اس کا جواب دینے کے بجائے واک آؤٹ کرنا دانشمندی نہیں تھی۔ یہ معاملہ جذبات سے حل نہیں ہوگا۔ اس پر مل بیٹھ کر غور کرنا ہوگا اور ساری خرابیوں کی نشاندہی کرکے حکومت کو پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ کوئی بھی مسئلہ روڈ سے ہوتے ہوئے میز پر ہی پہنچ کر حل ہوتا ہے۔ اب پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے جا رہے ہیں تو اس سے پہلے ضروری تھا کہ اپوزیشن ہوش سے کام لیتے ہوئے مجوزہ پیکیج میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرکے اس کو ایک ڈرافت کی شکل دے دیتے اور اس ڈرافٹ کو حکومت کے سامنے رکھ کر بتا دیتے کہ ان خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے، پھر بھی حکومت ان خامیوں کو دور کرنے میں کوتاہی برتے اور انکار کرے تو اس صورت میں احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں حاجی رضوان کا کہنا تھا کہ پھر بھی ہم اپوزیشن ممبران کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ احتجاج اور دھرنے سے پہلے ہم اس ڈرافٹ پر غور کریں اور خامیوں کو نکال کر اس کو ایک اور ڈرافٹ کی شکل دے کر حکومت کو پیش کیا جائے، اگر حکومت ان خامیوں کو دور نہیں کرتی تو پھر ہمیں احتجاج اور دھرنوں کا راستہ انتخاب کرنا چاہیے۔

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree