Print this page

ایم ڈبلیوایم قم کے زیر اہتمام ہفتہ وار درس اخلاق کے سلسلے کے چوتھے درس کا انعقاد

31 دسمبر 2018

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کی جانب سے ھفتہ وار دروس کے سلسلے کا چوتھا درس اخلاق بروز جمعرات 27 دسمبر کو مسجد اھل بیت علیھم السلام میں منعقد کیا گیا۔ اس درس میں مربی اخلاق ،استاد فقیہی نے فرمایا کہ:خداوند متعال نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے کہ"و اسئلوا الله من فضله"اللہ سے اس کے فضل کا سوال, درخوست کرو "۔
انسان کو سائل ہونا چاہیے، خدا کے گھر کا گدا ہو۔آج شب جمعہ ہے اور دعائے کمیل کے شروع میں ہے کہ
" الھم انی اسئلک "میں آج کی رات سائل ہوں، سائل کے علاوہ کہ فرمایا"والسئلوا اللہ من فضلہ"وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ "

ہر چیز جو مانگو خدا دیتا ہے۔درخواست اور سوال کرنے کے بارے میں دو قسم کی روایات ہیں۔خدا سے بڑی چیز کی دعا مانگو۔حضرت سلیمان نے خدا سے دعا کی کہ "اے خدا اگر مجھے سلطنت دے تو وہ ایسی ہو کہ جس کی مثل نہ ہو۔"رب ھب لی ملکا۔۔۔خدا نے بھی حضرت سلیمان کو بے نظیر سلطنت دی۔دوسری طرف روایت ہے کہ حضرت موسیٰ سے خطاب ہوا کہ اپنے کھانے کا نمک ،جوتے کا تسمہ، بھیڑ بکریوں کا چارا بھی اپنے خدا سے طلب کرو۔

ایک اور مقام پر خدا وند نے فرمایا:"واما السائل فلا تنھر"سائل کو خالی مت لوٹاؤ۔کیونکہ خود بھی رد نہیں کرتا۔اور فرمایا کہ:"جو چیز بھی طلب کرو خدا دیتا ہے۔".
اس کو سوال کہتے ہیں ، درخواست یا گدائی کرنا۔مرحوم آیۃ اللہ بہاری ہمدانی صاحب کتاب " تذکرۃ المتقین" فرماتے ہیں کہ" یہ جو لوگ کہتے ہیں بہت خوبصورت ہے کہ" گدائی کرو تاکہ خلق کے محتاج نہ ہوں،" یعنی خدا سے مانگو تاکہ لوگوں کے محتاج نہ ہوں۔ایک اور چیز جو قرآن مجید میں ہے وہ دعا کرنا ہے۔ دعا ،سوال کے علاوہ ہے۔

مرحوم علامہ طباطبائی المیزان میں اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ " لہ دعوۃ الحق" دعا یعنی پکارنا۔صدا دینا۔۔ یعنی اس کی توجہ اپنی طرف کرانا۔اور استجابت دعا کیا ہے ، یعنی مدعوو توجہ کرے داعی عن کی طرف۔استاد حوزہ علمیہ قم نے مزید فرمایا کہ:"دعا اور سوال کرنے میں فرق ہے۔ سوال میں سائل کسی چیز کا لالچ رکھتا ہےکہ ایک چیز حاصل کرے مگر دعا کرنے والے کا مطمع نظر صرف یہ ہے کہ مدعوو اس کی طرف توجہ کرے۔ہماری دعاؤں میں اکثر درخواست بھی ہوتی ہے مگر سب دعا ہے ۔
" "الهی! لا تُؤدِّبنِی بِعُقُوبَتِكْ وَلا تَمْكُرْ بِی فِی حِیلَتِكْ. مِن إیْنٍ لِیَ الخِیرُ وَلا یُوجَدُ إلا مِنْ عِندِكْ. وَ مِنْ إیْنٍ لِیَ النَجاهُ یا رَبّی وَلا تَستَطاعُ إلا بِكْ . لَا الَّذِی أحسَنَ استَغْنی عَنْ عُونِكَ وَ رَحمَتِكْ. وَ لَا الَّذِی أسآءَ وَاجتَرَأ عَلَیْكَ وَ لَمْ یُرضِكَ خَرَجَ عَنْ قُدرَتِكْ." استاد اخلاق کا کہنا تھا کہ اگر ہم دعا اور سوال کو مکس کردیں گے تو ہم مشکل میں پھنس جائیں گے۔پھر ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ" ادعونی استجب لکم" مگر ہماری دعا تو مستجاب نہیں ہوتی۔یہ محال ہے کہ کوئی خدا کو پکارے اور خدا اس کی طرف توجہ نہ کرے۔اول آیت میں بھی یہی ہے کہ " وَ إذَا سَألَكَ عِبادِی عَنّی فَإنّی قَرِیبٌ اُجِیبُ دَعوَةَ الدّاعِ إذا دَعانِ فَالیَسْتَجِیبُوا لِی وَ الیُؤمِنُوا بِی لَعَلَّهُمْ یَرشُدُون "لوگ کیا چاہتے ہیں؟اگر لوگ خود خدا کو چاہتے تو ان سے کہتا "فَإنّی قَرِیبٌ" اجابت بھی کروں گا۔ایک اعتراض جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم دعا اور خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات کو درخواست اور گدائی کے ساتھ مکس کر دیا تو خدا یا دے گا یا نہیں دے گا۔اگر نہ دے تو ہم خدا سے ناراض ہو جاتے ہیں۔اور اگر دے تو ہم خدا کو فراموش کر دیتے ہیں۔

پس ہمیں ان چیزوں کو جدا کرنا ہوگا۔جب ہم سائل ہیں وہ خدا دیتا ہے۔ایک مرتبہ خدا سے درد دل کرنا ہوتا ہے۔دعائے قنوت میں جو بہترین دعا ہے وہ یہ ہےکہ " لا الہ الااللہ الحلیم الکریم۔۔۔"یہ خدا سے طلب کرنا لذت بخش ہے۔شب زندہ داری اسلیئے تو نہیں کہ ہم چھوٹی چھوٹی چیزیں خدا سے طلب کریں۔پیغمبر چند سال غار حرا میں تنہا جاکر خدا سے کیا طلب کرتے تھے۔۔ہمیں اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree