وحدت نیوز(آرٹیکل) قارئین محترم یہ پاکستان ہے اور بہت پیارا ملک ہے اس میں چار موسم ہیں ،لوٹ مار پر کوئی پابندی نہیں قتل و غارت گری بھی ہوسکتی ہے، جمہوری حکومت بھی ہوسکتی ہے اور مارشل لابھی، لیکن جو چیز ایک بار مہنگی ہو جائے وہ سستی نہیں ہوسکتی یہاں کوئی سیاسی جماعت ہو کوئی مذہبی جماعت ہو، کوئی سکالر ہو، کوئی عام آدمی ہو اپنی ہی بات کو صحیح سمجھتا ہے لہذا جہالت اپنے عروج پر ہے جس کو ہر مقام اور ہر جگہ حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
عزیزان محترم آج مجھے فقط اور فقط اسلام آباد پر ہی بات کرنی ہے میڈیا پر بار بار حکومتی ذمہ داران ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ حکومت اور جے یو آئی ایف کا ایک معاہدہ ہوا لہذا حکومت سمجھتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس کی پاسداری کریں گے اور معاہدے کے مطابق اسلام آباد میںقیام کریں گے جبکہ بعدازاں واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔ لیکن جب مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی کہ یہ عوام وزیراعظم کو ان کے گھر سے گرفتار کرنے کی بھی قدرت رکھتی ہے ۔
وزیراعظم کو دو دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ استعفیٰ دیں ورنہ اگلا لائحہ عمل بتائیں گے۔ آپ نے بھی یہ بات سنی ہوگی لیکن مجھے عجیب سا لگا یعنی کوئی بھی شخص جب چاہے ۔پچیس تیس ہزار لوگ اکٹھے کرکے اسلام آباد آجائے اور وزیراعظم سے استعفی کا مطالبہ کردے کیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟میں اس کی حمایت نہیں کرتا جبکہ یہاں پر ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ زیادہ تر مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ ہوتے ہیں جو گڑبڑھ کرنے اور افراتفری پھیلانے میں ماہر ہوتے ہیں چونکہ بات اسلام آباد کی ہو رہی ہے تو آپ نے سنا ہوگا انصارالاسلام نامی عسکری ونگ جے یو آئی ایف میں بھی متحرک دکھائی دیتا ہے اور ڈنڈوں سے مسلح ہیں جبکہ مجھے یقین ہےان کے پاس اسلحہ بھی ہوگا۔
مجھے حکومت کی معصومیت پر ہنسی آرہی ہے کہ انہوں نے مولانا صاحب کی باتوں پر اعتبار کرکے کھلے عام اسلام آباد پر چڑھائی کا موقع دیا اگر دیکھا جائے تو ملک کے ایک مخصوص حصہ سےانکے چند ارکان پارلیمنٹ ہیں اور خود مولانا فضل الرحمن اپنی سیٹ جیت نہ سکے کے ۔اس بات سے انکار نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت معمولات مملکت چلانے میں متحد نظر نہیں آتی ۔مہنگائی اور بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہوا ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، کشمیر جو ہماری شہ رگ حیات تھی اس کو انڈیا باقاعدہ کاٹ چکا ہے ہے ملکی معیشت انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔
اس کی وضاحت میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے ایک واقعے سے کرتا ہوں ایک دفعہ آپ کی عدالت میں ایک بچہ لایا گیا جس کے اوپر دو حواتین دعویدار تھیں یعنی ہر خاتون یہ کہہ رہی تھی کہ یہ اس کا بچہ ہے جب مولا علی علیہ السلام نے یہ معاملہ سنا تو آپ نے کہا کہ اس بچہ کو دو حصوں میں برابر کاٹ کر دونوں کو آدھا آدھا دے دیا جائے تو فورا ایک خاتون نے کہا نہیں اس کو کاٹو مت اس کو دوسری عورت کو دے دو میں اپنا مطالبہ واپس لیتی ہوں جس پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بچہ اس عورت کو دے دو کیونکہ یہی اس بچے کی ماں ہے اس کے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ میرا بچہ زندہ رہے چاہے دوسری عورت کے پاس ہی رہے۔
اسی طرح اگر مولانا پاکستان کے ہمدرد ہوتے تو اس وقت یہ مسئلہ کھڑا نہ کرتے ،لیکن کیا کریں ان کے بڑے بھی پاکستان بننے کے مخالف تھے تو آج ان کا یہ عمل جائز ہے دراصل اگر کوئی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کے عام کارکن ہوتے تو بات سمجھ میں آتی تھی لیکن ان بنیاد پرست شدت پسند افراد کو اسلام آباد کی زمین پر بٹھانا خطرے سے خالی نہیں ہے یہ کوئی سیاسی دھرنا نہیں ہے بلکہ یہ مسلح جتھے کا اسلام آباد پر حملہ ہے اور ملکی نظم ونسق کو تباہ کرنے کی سازش ہے اس کے عوامل کیا ہیں یہ تو اداروں کا کام ہے کہ وہ چھان بین کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس مارچ اور دھرنے میں شامل سیاسی جماعتیں اور ان کے چند کارکنان خود ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں اور خود مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا امتحان ہے جو انہوں نے خود سے اپنے سر پر ڈالا ہے اس سے پہلے کہ اسلام آباد کے حالات خراب ہوں اور پھر سارے ملک میں اس کے اثرات آئیں حکومت کو چاہیے کہ وہ حکومت میں رہ کر اتنے عرصہ میں جتنے پیسے کما لیتے تھے وہ دے دیئے جائیں اور ان کو فارغ کردیا جائے ورنہ یہ جو آزادی مارچ ہے اس کا مفہوم سمجھ سے بالاتر ہے اور ایسا نعرہ لگا کر ملک کو نازک صورتحال میں دھکیلنا اور سرعام ریاست اورریاستی اداروں کو دھمکیاں دینا ناقابل فہم اور ناقابل معافی جرم ہے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو مزید مولانا پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے اور ضروری اقدامات فور اٹھانے چاہیے بلکہ میں تو یہ کہوںگاچاہےکسی کو برا لگے اس علاقے کا سارا انتظام پاک آرمی کے جوانوں کو سنبھال لینا چاہیے کیونکہ پروٹیسٹر شدت پسند مذہبی انتہا پسندی کا شکار لوگ ہیں ۔جہاں خواتین صحافیوں کو کوریج کرنے سے روک دیا گیا ہے ان کے ذہنوں کی شدت پسندی کی واضح مثال ہے یہ کوئی دھرنا ورنہ نہیں ہے یہ ایک گروہ کا اسلام آباد پر حملہ ہے اور پاک فوج کو آگے بڑھ کر اس حملے کو روکنا چاہیے بصورت دیگر کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں حکومت وقت اور ادارے ذمہ دار ہوں گے اور یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی ۔بیس پچیس ہزار لوگ بائیس کروڑ عوام کے ملک میں اپنی من مانیاں کرتے پھریں اور ان کو روکنے والا کوئی نہ ہو۔
ویسے مولانا کی دو دن کی مہلت اقتدار سے ان کی اداسی کا بھی پتہ دیتی ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا زیادہ لمبی عصابی جنگ نہیں لڑ سکیں گے کیونکہ اس بات کا ان کو بھی اندازہ ہوگا کہ دو دن کی مہلت سے وزیراعظم سے استعفی مانگنا مضحکہ خیز ہے لہذا اس فرسٹریشن اور جلد بازی میں مولانا کوئی غلط فیصلہ کرسکتے ہیں ان کا سارا سیاسی کیریئر ر داؤ پر لگ گیا ہے لہذا اس وقت سنجیدگی کی ضرورت ہے اور معاہدہ معاہدہ کاراگ الاپنے سے بہتر ہے عملی لائحہ عمل بنایا جائے اور پرامن طریقہ سے بغیر کسی نقصان کے ملک اور اسلام آباد میں بسنے والے شہریوں کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے۔
تحریر:آئی ایچ نقوی
وحدت نیوز (شکارپور) مجلس وحدت مسلمین ضلع شکارپور کے رہنما سید ہزار شاہ کے برادر سراج احمد شاہ کی پہلی برسی کے موقع پر مجلس عزا سے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضرت سید الانبیاء ص کی ذات گرامی عالم انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہے ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر شیاطین عالم کو عبرت ناک شکست دے سکتے ہیں۔
انہوں نےکہا کہ عالمی سامراج کے مقابلے میں مقاومتی بلاک نے اللہ تعالی پر ایمان و توکل اور جرئت و بہادری سے استقامت دکھائی جس کے باعث شیطان بزرگ امریکہ اور شیاطین عالم کو یکے بعد دیگرے مسلسل ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
وحدت نیوز(مظفر گڑھ) مجلس وحدت مسلمین ضلع مظفرگڑھ کے زیراہتمام سندھ کے شہر دادو میں امام زمانہ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے والے ملعون عبدالستار جمالی کے خلاف مظفرگڑھ پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔مظاہرے کی قیادت مجلس وحدت مسلمین ضلع مظفرگڑھ کے سیکرٹری جنرل مولانا اسلام حسین الحسینی نے کی۔
مظاہرین نے اس موقع پر گستاخ امام زمانہ کیخلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم مظفرگڑھ کے سیکرٹری جنرل مولانا اسلام حسین الحسینی کا کہنا تھا کہ آج تشیع عالم کا دل چھلنی ہوچکا ہے اور اس چھلنی دل کا مداوا اُس وقت ہوگا جب گستاخ کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں یذیدی نسل ایک بار فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہے آج اگر اس کا قلعہ قمع نہ کیا گیا تو ملک کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا، ہم اس ملک کے پُرامن شہری ہیں لیکن اگر ہمارے مقدسات اور ایمان پر حملہ کیا گیا تو خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
ان کامزید کہنا تھاکہ آج کا ہمارا پُرامن احتجاج حکومت کو متنبہ کرنے کے لیے ہے اگر حکومت سندھ نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اس گستاخ امام کے خلاف کاروائی نہ کی تو حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔
وحدت نیوز(علی پور)مجلس وحدت مسلمین ضلع علی پور کے زیراہتمام سندھ کے شہر دادو میں امام زمانہ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے والے ملعون عبدالستار جمالی کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی، ریلی مرکزی امام بارگاہ مہاجرین سے تھانہ علی پور تک نکالی گئی، ریلی کی قیادت مجلس وحدت مسلمین ضلع علی پور کے سیکرٹری جنرل سید رضوان حیدر کاظمی، شاکر حسین کاظمی اور دیگر نے کی۔
ریلی کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر گستاخ امام مہدی کے خلاف نعرے درج تھے، ریلی کے شرکاء نے ملعون عبدالستارجمالی کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور اُسے فی الفور پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ حکومت وقت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، سندھ حکومت ملک میں ایک مرتبہ فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہے، ایک ملعون کی گستاخی سے پوری دنیائے تشیع اس وقت سراپا احتجاج ہے، اگر حکومت سندھ نے اس ملعون کے خلاف فی الفور کاروائی نہ کی اور اُسے قرار واقعی سزا نہ دی تو حالات کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوگی۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملتان کے زیراہتمام سندھ کے ضلع دادو میں عبدالستار نامی شخص کی جانب سے اہلیبیت ؑاور امام مہدیؑ کی شان میں کی گئی گستاخی کے خلاف چوک شاہ عباس ملتان میں احتجاجی دھرنا دیا گیا۔
احتجاجی دھرنے کی قیادت علامہ قاضی نادر حسین علوی، علامہ غلام مصطفی انصاری، مولانا ہادی حسین، مولانا جعفرحسین، حشمت رضا بہلول، سلیم عباس صدیقی، حسنین عباس انصاری، ثقلین عباس، حسنین کربلائی نے کی۔
احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے رہنمائو ں کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت فی الفور عبدالستار نامی گستاخ اہلیبیت کے خلاف کاروائی کرے اور اُسے کیفرکردار تک پہنچائے۔اُنہوں نے کہا کہ ایک منصوبے کے تحت ملک کے پرامن فضا کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
رہنمائوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عاشقان رسول اور اہلیبیت سراپا احتجاج ہیں، اگر فی الفور اس ملعوم کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو حالات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
احتجاجی دھرنے کے موقع پر چوک شاہ عباس کو ٹریفک کیلئے مکمل طور پر بند کردیا گیا،پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ دھرنے کے شرکاء نے مقامی ایس ایچ او سے عبدالستار نامی گستاخ اہلیبیت کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا جسے مقامی ایس ایچ او نے قبول کرلیا۔
دھرنے کے شرکاء نے متفقہ قرارداد کے ذریعے گستاخ اہلیبیت کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر شبو شاہ، علی منظر زیدی، سعید زیدی، ساغر نقوی، طالب بلوچ، ناصر بلوچ، ریاض خاکوانی، ناظم عباس کربلائی، عاشق عباس زیدی، حسنین عباس گھلو، ثقلین شاہ، ظفر شاہ، دلاور زیدی سمیت دیگر مومنین بڑی تعدادمیں موجود تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)وہ حسینؑ جو تنہا کھڑا تھا مقتل میں
اب اس کے ساتھ زمانہ دکھائی دیتا ہے
سفر ِعشق سے نقوشِ عشق ایک ایسی تحریر جو اپنے اندر مختلف جہتیں لئے ہوئے ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ سفرِ اربعین کیا ہے۔؟ اس میں شامل ہو کر کیسا لگتا ہے۔؟ اس کے مقاصد و اہداف کیا کیا ہو سکتے ہیں۔؟ اربعین واک سے دُنیا کو کیا کیا پیغام دیا جا سکتا ہے۔؟ اور اس واک کی افادیت اور اہمیت کیا ہے۔؟کیا امامِ زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کے لئے اس واک سے مدد لی جاسکتی ہے ۔؟عالمی سامراجی قوتوں پر اس اربعین واک کی ہیبت کیسے ہو سکتی ہے ۔؟دُنیا کی اخلاقی اقدار میں اس کا کیا کردار ہے۔؟ دنیا کے کلچر میں تبدیلی کیا اربعین واک سے ممکن ہے ۔؟ایک طاقتور قوم کا وجود کیسے ممکن ہے ۔؟ عالمی انسانی حقوق کا تحفظ کیوں کر ہو سکتا ہے ۔؟ دینی تربیت گاہ کیسے۔؟ ہمت و حوصلہ کیسے پیدا ہوجاتا ہے ۔؟
یہ عشق امام حسین علیہ السلام ہے جس کو مولا حسین علیہ السلام نے جنم دیا ہے اور بہت سے موضوعات کو اربعین واک جو نجف سے کربلا تقریبا 90سے 95کیلو میٹر ہوتی ہے جنم دیا ہے اور آئندہ آنے والے سالوں میں میں مزید نئے موضوعات جنم لیں گے۔ اور اسرائیل کی نابودی بھی اس واک کا حصہ بن سکتی ہے ،جبکہ عالمی دہشت گرد امریکہ کی موت ان چلتے ہوئے قدموں کے نیچے ہوسکتی ہے اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کو آگے بڑھاو¿ں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس تحریر میں جو بھی کچھ لکھا جائے گا وہ میرے اپنے محسوسات ہیں اور جن سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے وہ سوال اس واک میں شرکت کرنے کی وجہ سے میرے ذہن میں آئے ہیں اس میں لکھے گئے مختلف نام اور واقعات میں نام تبدیل کر دوں گا پھر بھی کسی سے مماثلت ہو تو یہ اتفاقیہ ہوگی اور تمام اہل اسلام سے گزارش ہے کہ میری اس تحریر کو بغور پڑھیں اور اپنے تاثرات کا اظہار بھی کریں ضروری نہیں کہ آپ میری کسی بات یا باتوں سے اتفاق کریں ہو سکتا ہے آپ میری ساری باتوں کو رد کر دیں لیکن میں تب بھی یہی کہوں گا ۔میری اس تحریر کو کو ضائع مت کرنا اور انتظار کرنا کچھ عرصہ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اس سال لندن جانا تھا ویزہ بھی لگ چکا تھا اور پروگرام بھی کم و بیش فائنل ہو چکا تھا کہ ایک دن مجھے ایک عزیز دوست کی کال آئی کہ اس سال اربعین واک میں شرکت کرنا ہے میں نے سرسری سی ہاں کرکے فون بند کر دیا اور سمجھا کہ بات ختم ہوگئی ہے لیکن دو یا تین دن بعد اس محترم دوست کی دوبارہ کال آئی کہ میں نے آپ کا نام گروپ میں لکھوا دیا ہے اس لیے آپ کچھ رقم بھجوادیں اور تیاری کریں ان کا اخلاص دیکھ کر میں نے خاموشی اختیار کی اور دل میں سوچا کہ یہ بلا وہ امامؑ کی طرف سے ہی ہے اور اب مجھے کربلا جانا ہی جانا ہے لہذا میں نے کچھ رقم بھجوادی اور سفر کی سمت بدل دی ،اب میں اربعین کی طرف متوجہ ہوا تو اس پر لکھا کیا گیا سب نظروں کے سامنے آنے لگا میری عمر اس وقت پچاس سے اوپر ہے اور میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ اربعین جس میں کروڑوں لوگ شرکت کرتے ہیں میرے جیسا شخص کیسے شرکت کر سکتا ہے اتنا پیدل چلنا میرے بس میں نہیںاور ویسے بھی جب تک ضریح مقدس کے ساتھ نہ لگ جائیں اس دل کو سکون نہیں ملتا سوچتا تھا کہ میرے جیسے کمزور انسان کے لئے تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن اب فیصلہ ہو گیا کہ دنیا کی اس سب سے بڑی اور عظیم واک میں شرکت کی جائے ۔
میرا نام ڈاکٹر افتخار حسین نقوی ہے اور جو واقعات اس میں تحریر کر رہا ہوں وہ میرے ساتھ یا میرے سامنے ہوئے ہیں اس تحریر کو مختصر اور جامع بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ تھوڑے وقت میںہی آپ تک میرا پیغام پہنچ جائے ۔سفرِ عشق سے نقوشِ عشق ایک ایسی تحریر ہے جوامام حسین علیہ السلام کی برتری اور یزید لعین کی ذلت اور رسوائی کا پرچار کر رہی ہے اور اقوام عالم کو درِ حسینؑ ابن علی علیہ السلام پر آنے کی دعوت دیتی ہے میں تمام دنیا کے افراد کو دعوت دیتا ہوں کم از کم ایک بار ضرور اس واک میں شرکت کریں چاہے دیکھنے کے لئے ہی کیوں نہ ہو اور آکے دیکھو کہ امام حسین علیہ السلام کے عشق کی طاقت کیا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر انسان روتے کیوں ہیں، کس طرح عاشق ِحسین علیہ السلام آپ کی مظلومیت پر نوحہ کناں ہوتے ہیں ،اور کیسے آپ کے ساتھ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ،اور آپ پر ہونے والے ظلم کی کس طرح مذمت کرتے ہیں، اربعین واک اتنا وسیع موضوع ہے کہ میں اس پر بہت کچھ لکھ کر بھی یہی محسوس کر رہا ہونگا کہ اربعین واک کا احاطہ نہیں کر سکا۔
اربعین واک جو نجف سے شروع ہوتی ہے اور کربلا پہنچ کر اختتام پذیر ہوتی ہے یہ واک ہر سال 19 صفر چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر کی جاتی ہے ۔اس کا فاصلہ تقریبا 80 یا85 کلومیٹر بتایا جاتا ہے جبکہ فاصلہ اس سے بھی زیادہ ہے کیوں کہ نجف اشرف کے اطراف سے جب آپ ہائی وے پر پہنچتے ہیں تو یہ فاصلہ کم و بیش 6یا7 کلومیٹر بنتا ہے۔ جبکہ جو فاصلہ بتایا جاتا ہے وہ صرف ہائی وے پرپول نمبر1 ایک سے پول نمبر 1554تک بتایا جاتا ہے لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ واک تقریبا 90سے95 کلومیٹر کے قریب بنتی ہے اس واک کے دوران محبت امام حسین علیہ السلام کا ذکر کیا جاتا ہے اور دشمنانِ حسین ابن علی علیہ السلام سے بےزاری کا اظہار کیا جاتا ہے ۔
موسمی اعتبار سے دیکھا جائے تو چالیس بتالیس سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت تھا یعنی شدید گرمی تھی لیکن سورج کے سامنے لوگ سینہ تانے ہوئے تھے اور آخر اپنا ہدف پورا کیا جب لوگ نجف اشرف سے کربلا پیدل چل کر پہنچ جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو دنیا کا عظیم ترین انسان محسوس کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو امام حسین علیہ السلام سے محبت اور عشق کی باتیں کرتے ہیں اس میں عقیدت کابھی بھرپور اظہار کردیا ہے یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا ہے کہ امام علیہ السلام کی تائید انہیں حاصل تھی۔ بس میں اتنا ہی کہوں گا یہ ایک شاندار واک ہے جو آپ کو مولا علی علیہ السلام سے لے کر کر مولا ابوالفضل عباس علیہ السلام اور مولا امام حسین علیہ السلام کے انتہائی قریب لے جاتی ہے اس میں جو سرور ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن محسوس کیا جا سکتا ہے عاشقان امام حسین علیہ السلام کے نظارے قابل دید ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اربعین واک میں ہر سال عاشقانِ امام حسین علیہ السلام کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے یہ چہلم امام حسین علیہ السلام پر پیادہ روی ہے اس کو مشی کا نام بھی دیا جاتا ہے اور امن واک بھی کہا جاتا ہے اس عظیم الشان واک کے مستقبل میں کیا نتائج برآمد ہوں گے آئندہ آنے والے موضوعات سے اندازہ ہو جائے گا۔
اب اگلے مرحلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس واک کا سب سے بڑا ہدف یا مقصد ایک ایسے کلچر کو جنم دینا ہے جس میں برداشت، عزت و احترام، راواداری، ایثار اور قربانی کے جذبات موجود ہوں یہ ایک ایسا مقصد یا ہدف ہے جس کو میں نے محسوس کیا اس دور میں جب دنیا کو گلوبل ویلج کہا جاتا ہے ملکوں کے درمیان مادی فاصلے کم ہو رہے ہیں مثال کے طور پر بہت سے ممالک مل کر یورو کرنسی استعمال کرتے ہیں یعنی اس کرنسی میں لین دین کرتے ہیں اور کئی ملکوں کی سرحدیں ختم ہوجاتی ہیں اور یہ ایک ہی قسم کی تجارت کی جارہی ہے دوسری طرف ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لئے لیے جدید ذرائع مواصلات استعمال کیے جارہے ہیں جس میں ہوائی جہاز، بحری جہاز اور ان کے ساتھ ساتھ پاک چائنا پروجیکٹ جس کو کو سی پیک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملکوں کے درمیان فاصلے کم ہورہے ہیں لیکن یہ عمل بھی مادی حوالے سے ہو رہا ہے جب کے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا بھی اس کام میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں اور قوموں کی ثقافت اور کلچر کو تبدیل کیا جا رہا ہے مثال کے طور پر اگر میں پاکستان کی بات کروں تو کچھ سالوں پہلے ہمارے کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے سوچنے سمجھنے حتیٰ کہ لباس پہننے کے معیار کچھ اور تھے جبکہ غیر محسوس طریقہ سے اس میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں آچکی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے اندر معاشرتی بگاڑ بھی جنم لے رہا ہے عدم برداشت اور خود غرضی کو فروغ مل رہا ہے اور ہماری اخلاقی اور مذہبی روایات بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔مشی پیادہ روی یا امن واک میں میں نے محسوس کیا کہ قوموں کے درمیان ایک مشترکہ کلچر فروغ پارہا ہے جس میںعجزو انکساری ،باہمی عزت و احترام، برداشت درگزر اور رواداری تیزی سے بڑھ رہی ہے ہے اور ایک مشترکہ کلچر کو فروغ مل رہا ہے اور امام حسین علیہ السلام سب کے عنوان سے دنیا میں بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔
یعنی میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ اس امن واک کے ذریعے اسلامی کلچر کا تحفظ کیا جاسکتا ہے اور مادی معاشرے کو روحانی معاشرے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، لہذا اسلامی کلچر کو فروغ دینا اور امام حسین علیہ السلام کے نام پر تمام افراد کا اکٹھے ہونا اس بات کو جنم دیتا ہے کہ اسلامی کلچر کے فروغ کی سمت حسین علیہ السلام اور حسینیت کی طرف ہوگی لہذا ایک اسلامی حسینی معاشرہ عالمی سطح پر وجود میں آجائے گا جیسا کہ ایران اور عراق کی سرحد دونوں ممالک کے درمیان سرحد کو ختم کر دیتی ہے اور ایک برادرانہ عمل سے آگے بڑھ رہے ہیں لہذا اگر میں یہ کہوں کہ ایک غیرمحسوس طریقہ سے اسلامی حسینیؑ کلچر عالمی سطح پر لے جایا جاسکتا ہے لہذا حقیقی روحانی اور اسلامی معاشرت جنم لے گی لہذا میں کہہ سکتا ہوں کہ اقوام عالم کے درمیان ایک مشترکہ معاشرہ جنم لے رہا ہے جس کی بنیاد نہ صرف عجز و انکساری پیار محبت رواداری اور عزت و احترام ہو گا بلکہ ایک مضبوط اسلامی ثقافتی نظام جنم لے گا اور حقیقی اسلام دنیا پر حکومت کرے گا اس سال پانچ کروڑ 96 لاکھ تین ہزار لوگوں نے اس واک میں شرکت کر کے یہ اعلان کر دیا ہے ہے اگرچہ عالمی سامراجی طاقتوں کے لئے یہ قابل قبول نہ ہوگا اور وہ اپنے طور پر اس کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے لیکن چونکہ یہ ایک پاکیزہ پیادہ روی ہے اس لیے دشمن کی کامیابیاں اس میں نظر نہیں آتیں۔ مجھے امید ہے میرے محترم قارئین اس آمن واک کی اہمیت سے آگاہ ہوں گے آگے۔
آئیے اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں اس میں شامل ہو کر کیسالگتا ہے، اس کے مقاصد اور اہداف کیا ہو سکتے ہیں اس واک میں شامل ہونا تائید امام ؑکے بغیر ممکن نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس واک میں جو بھی شخص شر یک ہوتا ہے ہے اس کے اوپر روحانی اثرات ضرور آتے ہیں۔ لوگوں کے اندر زہدوتقوی میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ مشنِ امام حسین ؑ کو آگے بڑھانے کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں اور اس بات پر لوگ حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ ان شرکاءمیں سے جس سے بھی پوچھا وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ میں نے نے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام کیا اور امام علیہ السلام کی ضریح مقدس تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا یہ بات کسی معجزہ سے کم نہیں گھر میں بیٹھ کر اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہے لیکن ایسا ہوتا ہے اور یہ زندہ حقیقت ہے ۔یہ کیسے ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم میں نے اپنے ایک بزرگ عباس صاحب سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے یہ نظام کیسے چل رہا ہے تو انہوں نے جواب میں کہا تھا مجھے تو ایسا لگتا ہے یہ انتظامات مولا ابوالفضل عباس علیہ السلام کے ہاتھ میں ہیںاور وہ بہترین انداز میں مینج کر رہے ہیں ان کے علاوہ اورکسی میں اتنی استعداد نہیں کہ انتظامات سنبھال سکے ۔
مجھے ان کی بات دل کو لگی اور اب مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ اس امن واک کے منتظم حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام ہی ہیں یہی وجہ ہے کہ کربلا کے پیاسوں کے صدقے میں یہاں پر ایسا انتظام ہے کہ اگر کسی کو پیاس لگی ہے تو اسے انتظار نہیں کرنا پڑتا فورا پانی مل جاتا ہے۔ اگر کوئی بھوک محسوس کرتا ہے تو اس کو فورا کھانا مل جاتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی قیمت کے۔ اب اگر ہم اس کے اہداف کا تعین کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ظہورِ امامِ زمانہ علیہ السلام اس کا پہلا ہدف ہونا چاہیے۔ اسلامی حسینی معاشرہ کو وجود دینا بھی اس کا ہدف ہونا چاہیے۔ اقوام عالم کے درمیان مشترکہ عالمی کلچر کو فروغ دینا۔ اخلاقی و روحانی تربیت گاہ۔ مذہبی لگاو¿ او اور عبادات میں اضافہ ۔مظلو مین جہان کی مدد کرنااور ظالم کے خلاف آواز اٹھانا۔ استعماری طاقتوں کو شکست دینا۔امت مسلمہ کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنا۔ مشترکہ اسلامی اقتصادی نظام کو جنم دینا۔ اسرائیل کی نابودی اور بیت المقدس کی آزادی ۔نظام خمس اور زکواة کو منظم کرکے غریب مسلم ممالک کی امداد کرنا ان اہداف کے لیے کام کرنا۔ اور رہبر معظم کی اس پیشگوئی جس میں آپ نے فرمایا اسرائیل آئندہ 25برس نہیں دیکھ پائے گا سچ کرنا ۔
اس کے علاوہ امن واک سے دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ حسینی معاشرہ ایسا معاشرہ ہے جس میں بہترین معاشرتی خصوصیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یوسف اورندیم واک میں شریک تھے انہوں نے کسی بوڑھے شخص کو دیکھا جو تھکا ہوا محسوس ہو رہا تھا انہوں نے اس کا سامان اٹھایا اور ایک طرف بٹھا کے پانی وغیرہ پلایا اور اس کو دبانے لگے جبکہ اس بابا جس کا نام حسینؑ ہے ان کا عزیز نہیں ہے اسی طرح کے بے شمار واقعات دیکھے جن کو اگر لکھوں تو ایک اچھی خاصی موٹی کتاب پرنٹ کی جاسکتی ہے یہاں ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں جو ہر وقت متوجہ رہتے ہیں کہ اس کے ساتھ چلنے والے کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہر کوئی ایک دوسرے کے لئے چاہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے کی خدمت کر سکیں میں اس پوری واک اور پھر روضہ حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام پر کسی ایک شخص کو بھی نہیں دیکھا کہ وہ دوسرے سے لڑ رہا ہو، غصہ کر رہا ہو، بلکہ اگر غلطی سے کسی ایک شخص کو دوسرے شخص کا ہاتھ پاو¿ں وغیرہ لگ جائے تو فورا معافی کا خواستگار ہوتا ہے اور دوسرا شخص بھی فورا اس کو معاف کر دیتا ہے لوگوں کا سامان سڑکوں کے کنارے پڑا رہتا ہے سینکڑوں لوگ اکٹھے رہ رہے ہوتے ہیں لیکن کسی کی کوئی چیز چوری نہیں ہوتی اور کوئی کسی دوسرے کی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ ہر ایک خوبصورت نظارہ ہے آپ کو جانا چاہیے میں تو کچھ بھی لکھ نہیں پا رہا یہ تو صرف آؤٹ لائین ہوں گی ۔میں آپ کو دعوت دیتا ہوں اس مشی،پیا دہ روی یا اربعین واک میں زندگی میں ایک دفعہ ضرور شرکت فرمائیں۔
آئیے اب اس بات کا جائزہ لیں عالمی سامراجی قوتوں کے لیے یہ واک کیسے ہیبت قائم کر رہی ہے، عالمی سامراج نے ہمیشہ مسلمانوں کو لوٹا ہے اور ان کے درمیان فرقہ واریت کو جنم دے کراپنے مذموم مقاصدحاصل کئے ہیں اور مسلمانوں کو اقتصادیات میں کمزور رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی پیچھے رکھا اور مسلمانوں میں مادی کلچر کو فروغ دے کر بے حیائی کو جنم دے کر اسلامی حدود کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔مختلف فرقوں کے درمیان مختلف قسم کی رسوم ایجاد کرکے کے نہ صرف مسلم نوجوانوں کوحقیقی روحانی منزل اور قربِ خدا سے دور کر رہا ہے بلکہ اپنے زرخرید شیطان نما انسانوں کو شریعت محمدی میں تبدیلی کے اہداف بھی تجویز کیے ہوئے ہیں ۔مسلم حکمرانوں کو مختلف حربوں سے اپنا غلام بنایا ہوا ہے اور اگر کوئی مسلم حکمران عالمی سامراج کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے تو یا تو اس سے اقتدار چھین لیا جاتا ہے اور یا اس کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ ساری دنیا کے غیر مسلم ممالک اور کچھ مسلم ممالک بھی اسرائیل کے وجود کو دوام بخشنا چاہتے ہیں اس کے لیے کبھی نیو ورلڈ آرڈر اور کبھی داعش کبھی فلسطینیوں پر ظلم کبھی افغانستان، بحرین ،کشمیر اور یمن میں بربریت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مسلم اُمہّ شدید نفسیاتی دباو¿ میں ہے اسلامی ثقافت اور کلچر کو بوسیدہ قرار دے کر جدید اسلامی ثقافت کا تعارف کرایا جارہا ہے جس کا شریعت محمدی سے کوئی تعلق نہ ہے اور اس میں تیزی سے کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔ہماری خواتین،بچیاں،بچے اسلامی احکامات سے نہ صرف آگاہ نہیں ہیں بلکہ بہت ساری جگہوں پر سوال جواب جنم لیتے ہیں یہ ایک عالمی سازش ہے جس کے ذریعے ہمارے اسلامی اور معاشرتی کلچر کو تباہ کیا جارہا ہے اور شرعی حدود کو پامال کیا جارہا ہے۔باہمی احترام، عزت ایک دوسرے کی قدردانی اور جائز ناجائز تعلقات کو فروغ دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں مادی مسائل نے تو جنم لیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی روحانی اور جنسی مسائل بھی ایک اژدہا کی صورت میں موجود ہیں اور ان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
اربعین واک اس سازش کا بھرپور جواب ہے آئندہ چند سالوں میں دنیا محسوس کرے گی کہ بے حیائی، بدخلقی، ناانصافی، جبر و تشدد اور دیگر ایسی تمام چیزوں کی معاشرہ میں قدر نہیں ہے بلکہ اخلاق، روحانی قوت، دینداری، خداپرستی ،حسن خلق، عجز و انکساری، پیار محبت، خدمت اورہمدردی کے جذبات معاشرے میں جنم لے رہے ہوں گے اور اسلامی ثقافت اسلامی معاشرے کا حصہ بنے گی۔خداسے قربت اوردین داری کی طرف لوگ متوجہ ہوں گے اور اس طرح یہ ایک ایسی قوت ہوگی جس میں پاکیزگی کا عنصر واضح ہو گا۔ اور یہ عالمی شیطانی طاقتوں اور سامراجی حکومتوں کے لیے ہیبت ہوگی جس کے بعد شیطان مردود اور اس کے چیلے خود اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
اب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں یہ مشی پیادہ روی اربعین واک یا امن واک ایک عالمی طاقتور قوم کو کیسے وجود دے سکتی ہے لیکن اس عمل سے ایسا ممکن ہے تو اس سلسلہ میں میں اپنے محترم قارئین سے گزارش کروں گا کہ آج کل کے حالات میں انسان تساہل پسند اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے جسمانی مشقت ایک خواب بنتا جارہا ہے جس کی دلیل کے طور پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے کوئی معمولی سا بھی کام کرنا ہو تو اس میں مشینری استعمال کی جاتی ہے پرانے زمانے کے لوگ مشقت کے عادی تھے اور اپنے امور احسن طریقہ سے انجام دیتے تھے اب اگر غور کریں تو سب سے مضبوط طبقہ جو کھیتی باڑی کرتا تھا اس کے لیے پیدل چلنا اور مشقت والے کام کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن آج کا زمیندار ان کاموں کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہل چلانایا دیگر ایسے امور انجام دینا جو جسمانی طاقت کا مظہر تھے۔
اسی طرح عام زندگی میں گاڑی اور موٹر سائیکل کا استعمال بہت زیادہ ہے جس کی وجہ تساہل کے ساتھ ساتھ وقت کی کمی بھی بتائی جاتی ہے بات مختصر کر رہا ہوں کیونکہ مضمون کی طوالت میرے مدنظر ہے اور میں اس کو مختصرا سمیٹنا چاہتا ہوں مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم تساہل اور سستی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے مختلف عوارض کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی ذہنی طور پر بھی ہمت اور حوصلہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے اس ماحول میں عشقِ امام حسین علیہ السلام ان کے اندر ایک ایسی حرارت پیدا کر دیتا ہے جس سے ان کی سستی اور ضعف ختم ہوجاتا ہے اور ایک بیمار لاغر کبھی پیدل نہ چلنے والا جب یہ واقعہ انجام دیتا ہے تو اپنے اندر بھرپور جسمانی اور روحانی توانائی محسوس کرتا ہے اور واپس اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کرتا ہے اور مشقتوں سے گھبرانا چھوڑ دیتا ہے لہذا اس کی روشنی میں یہ قیاس بالکل درست ہوگا کہ عالمی طاقتور قوم جنم لے رہی ہے جو بالآخر ظہور امام زمانہ علیہ السلام کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اگر دنیا میں کسی جگہ پر انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے تو اس عظیم موقع پر ان کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جا سکتی ہے اور اس طرح انسانی حقوق کا بھرپور دفاع ہو سکتا ہے۔ اس کو بچوں کی جسمانی ذہنی روحانی اور علمی تربیت گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے کہ یہ اعجازِ امام حسین علیہ السلام ہے اور دنیا حیران ہے کہ اتنے لوگ کیسے ایک جگہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ان کی رہائش کھانا پینا اور دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہونگی اگر اس بات کو سوچتے رہو گے تو ورطہ حیرت میں ڈوبے رہو گے ہاں اگر ایک دفعہ اس واک میں شرکت کرو گے تو کبھی یہ وہم دماغ میں نہیں آئے گا یہ حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام کی قیادت میں ایک عظیم روحانی انقلاب ہے جو اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔
اگرچہ اس پر اور بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا لیکن مختصر اس لیے لکھا کہ آپ قارئین محترم کا زیادہ وقت نہ لگے اور آپ خداوند متعال کی تائید سے اس واک کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ متصل ہو جائےں۔اب بات یہ ہے کہ اس عظیم واقعے کے بارے میں اگر اتنے خیالات میرے ذہن میں آئے ہیں تو دشمن بھی اس سے غافل نہیں ہوگا اور یقینا اس اربعین واک اور اس کے نتائج پر گہری نظر رکھے ہوئے ہو گا اور اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے سازشیں بن رہا ہوگا اس کا ایک اشارہ اس دفعہ اربعین سے کچھ دن پہلے بغداد میں جوحالات پیش آئے کو سمجھا جاسکتا ہے۔
لہذااب ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داری پوری کریں اس و اک کا حصہ بن جائیں اور یہ کروڑوںلوگ امام زمانہ علیہ السلام کے منتظر ہیں جب آئیں گے تو آپ کے لیے لبیک یا امامؑ کی صدائیں دنیا کے ہر کونے میں سنی جائیںگی ۔اور آخر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اگر واک کی منت مانی جائے اور واک میں شرکت کرکے التجا اور دعائیں کی جائیں تو باطفیلِ حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام ثاراللہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو وسیلہ بنایا جائے اور دل سے توسل کیا جائے تو کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔اور آخر میں دعا ہے جو جو اس اربعین واک میں شرکت کریں امام مہدی علیہ السلام امام زمانہؑ اس کے حامی و ناصر ہوں دشمنان حق ذلیل اور رسوا ہوں حق والوں کو خداوند متعال فتح عظیم عطا کرے آمین۔
تحریر: ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی (فیصل آباد)