وحدت نیوز(اسلام آباد) یکم نومبر جشن آزادی گلگت بلتستان پر سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا خراج تحسین۔ جدوجہد آزادی گلگت بلتستان کے عظیم شہدا ءکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
ان کا کہناتھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا سب سے باوفا اور نظریاتی خطہ ہے ۔ستر سالہ محرومیوں کے باوجود سبز ہلالی پرچموں میں لپٹے شہداء وفاداری کی عظیم مثالیں ہیں ۔حکومت اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل کرگلگت بلتستان کے مستقبل پر فیصلہ کرنا ہوگا ۔
انہوںنے کہاکہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سلب رکھ کر ہم مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔اگر سیاسی جماعتیں گلگت بلتستان کے الحاق سے متفق ہیں تو پارلیمنٹ میں فوری طور پر قرادار لائیں۔ آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئےگلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے فیصلے تک فوری عبوری صوبے کا سیٹ اپ دیا جائے۔
انہوںنے مزید کہاکہ گلگت بلتستان کی محرومیوں نے عوامی سطح پر تشویش اور غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور حقوق پر فیصلے پر عملدرآمد نا ہونا افسوس ناک ہے ۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں شہر کے مین ڈی سی چوک پر جیکب آباد کے مومنین کا احتجاجی مظاہرہ ٹائر جلا کر گستاخ امام زمانہ کے خلاف فوری کاروائی کا مطالبہ شدید بارش کے باوجود کئی گھنٹے احتجاج جاری رہا۔دادو کے گوٹھ پھلجی تحصیل جوہی کے کالعدم دھشت گرد گروہ کے کارکن گستاخ عبدالستار جمالی ولد سکندر جمالی کی جانب سے حضرت حجت خدا ولی اللہ الاعظم قطب عالم امکان امام زمانہ آقا مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کرنے کے خلاف ملک بھر کے عاشقان اہل بیت میں شدید غم و غصہ جیکب آباد کے مومنین نے ھنگامی طور پر مظاہرہ کیا۔
مظاہرین سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی ،ممتاز شیعہ رہنما سید احسان شاہ بخاری، عزاداری کونسل ضلع جیکب آباد کے جنرل سیکرٹری سید غلام شبیر نقوی ،سید کامران شاہ ،آئی ایس او کے رہنما ندیم ڈومکی ،رجب پیچوہو، ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی رہنما وسیم لطیف، مہر سٹی رہنما نذیر حسین دایو و دیگر نے خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے اور ان کے فضائل تمام آسمانی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں تورات زبور انجیل اور قرآن کریم نے اس منجی عالم بشریت کی عظمت و صداقت کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کریم کی 313 آیات کریمہ امام مہدی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ان کی شان میں گستاخی سے کروڑوں انسانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔
در ایں اثناء مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے ایس ایس پی دادو جناب فرخ رضا صاحب سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے اس افسوسناک واقعہ کے تناظر میں مجرم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا اور اس کے خلاف توہین اہل بیت ع اور توہین رسالت ص جیسے دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا ایس ایس پی صاحب نے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔
وحدت نیوز(کراچی) علامہ سید باقر زیدی نے رحیم یار خان میں تیزگام ایکسپریس حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونیوالے مسافروں کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لئے دعاگو ہوں ۔
اطلاعات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ سید باقر عباس زیدی نے رحیم یار خان کے نزدیک تیزگام ایکسپریس میں ہولناک آتشزدگی اور اس نتیجے میں 70 سے زائد مسافروں کی المناک ہلاکت پر اپنے انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں سندھ اور پنجاب میں ٹرین حادثوں میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع المیہ ہے۔پاکستان ریلوے کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے ریلوے کے نظام کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے کے دعوے فقط دعوے ہی نظر آتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ چند ماہ قبل سندھ کے شہر حیدرآباد میں بھی ٹرین کی بوگیاں الٹ جانے سے کئی مسافر اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے، لیکن اس حادثے کی تحقیقات کے نتائج ابھی تک سامنے نھیں آئے تھے کہ آج رحیم یار خان میں ایک اور ہولناک حادثہ پیش آگیا۔
علامہ باقر عباس زیدی کا کہنا تھا کہ آج بھی پاکستان میں ریلوے کا وہی نظام چل رہا ہے کہ جو پاکستان کے قیام سے قبل تھا۔انھوں نے کہا کہ ہر دور میں ریلوے کی اہم وزارت پر براجمان ہونے والے وزراء نے ادارے کی کارکردگی کو بہترین اور اس کے نظام کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے کے دعوے تو بہت کئے لیکن وہ دعویٰ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔
علامہ باقر عباس زیدی نے وفاقی حکومت خصوصاً وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹرین حادثے میں زخمی مسافروں کو بہتر سے بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بناتے ہوئےجاں بحق مسافروں کے ورثا اور زخمیوں کے لئے فوری مالی معاونت کا اعلان کریں اور حادثے کی فوری اور شفاف تحقیقات کراتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کریں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے رحیم یار خان میں خوفناک ٹرین حادثے اور قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر دلی رنج وغم اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مرکزی میڈیا سیل سے جاری تعزیتی بیان میں انہوںنے کہاکہ ٹرین حادثے میں جانبحق ہونے والے مسافروں کے اہل خانہ سے تعزیت اور زخمیوں کی صحتیابی کے لئے دعاگو ہوں ۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کہاکہ حکومت ٹرین حادثے میں زخمی ہونے والوں کو بہتر سے بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنائے ۔ اس افسوسناک حادثے میں سترسےزائد قیمتی انسانی جانوں لقمہ اجل بنی ہیں ۔حکومت جانبحق ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کے لئے فوری مالی معاونت کا اعلان کرے ۔ حکومت شفاف تحقیقات کے نتیجے میںآتشزدگی ذمہ داروں کا تعین کرکے حقائق سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ سیاسیات کی جانب سے جشن عید میلاد النبی ؐکے موقع پر ایوان اقبال لاہور میں منعقدہ وحدت کانفرنس کی دعوتی مہم کا باقائدہ آغاز کردیاہے ۔اس سلسلے میں شیعہ سنی علمائے کرام ، مشائخ عظام اور سجادہ نشین صاحبان کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے ۔
ایم ڈبلیوایم کے مرکزی پولیٹیکل سیکریٹری اور فوکل پرسن حکومت پنجاب برائے بین المذاہب ہم آہنگی سید اسدعباس نقوی نے لاہور میں سجادہ نشین حضرت میاں میرؒپیر سید علی رضا شاہ ،زیب سجادہ گڑھی شریف صاحبزادہ پیر محمود فریدالدین فریدی اورنیو مری میں سجادہ نشین درگاہ حضرت لال بادشاہ بیابانی سرکار سید نوید حسین کاظمی المشہدی سےملاقاتیں کی اور انہیں وحدت کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ۔
اس موقع پر اسدعباس نقوی اور مشائخ عظام کے درمیان اتحاد امت اور ملکی سیاسی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی۔ مشائخ عظام نے وحدت کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی کروائی اس موقع پر جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماڈاکٹر امجد چشتی بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) میں اپنے اس دوست کو نہیں بھول سکتا، جو آج سے تقریبا دس سال پہلے ہمارا کلاس فیلو تھا، ہم سب کو پرنسپل صاحب کے کمرے میں لے گیا، مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں محرم الحرام کے دس دن مکمل چھٹی ہونی چاہیے، مدیر صاحب نے ہماری بات سنی، ہمیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور انتہائی دھیمے لہجے میں کہا کہ آپ کی دس دن کی چھٹی کا امام حسینؑ سے کیا تعلق؟
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوتی کہ اگر آپ لوگ یہ مطالبہ کرتے کہ ان دس دنوں میں اس بین الاقوامی یونیورسٹی میں امام حسینؑ کے حوالے سے خصوصی سیمینارز اور محافل و مجالس کا اہتمام کیا جائے، میں آپ لوگوں کو شاباش دیتا کہ اگر آپ لوگ میرے پاس کچھ ایسی کتابوں کے تعارف کیلئے آتے جن کے مطالعے سے آپ امام حسینؑ کے اہداف اور مقاصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے، بہترین مقالہ جات لکھ سکتے، اور لیکچرز میں ان علمی کتابوں سے استفاد کرتے، انہوں نے کہا کہ میں کتنا خوش ہوتا کہ اگر آپ لوگ سیرت امام حسینؑ کو سمجھنے کیلئے مقالہ نویسی کے کسی مقابلے کے سلسلے میں مجھ سے رہنمائی لینے آتے۔۔۔
قارئین یقیناً سمجھ گئے ہونگے کہ پرنسپل صاحب نے پورے دس دن کی چھٹی نہیں دی اور طبق قاعدہ نو اور دس محرم کو ہی چھٹی کی گئی۔ ان بقیہ آٹھ دنوں میں ہمارا وہ دوست یا تو کلاس میں آتا نہیں تھا اور اگر آئے بھی تو یہی گلہ کرتا تھاکہ میں ان لوگوں کی امام حسینؑ سے شکایت کروں گا، یہ پکے وہابی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پندرہ محرم الحرام سے ہمارے ٹرم کے امتحان شروع ہوئے تو اُن صاحب کا اعلان تھا کہ امتحان جانے اور امامؑ جانے، بہر حال حسبِ امید وہ صاحب ساری کتابوں میں فیل ہوگئے، اسی ربیع الاول میں انہوں نے عمامہ اور عبا قبا پہن لی اور تقریباً چند ہی مہینوں بعد ملت کی ہدایت کیلئے واپس پاکستان تشریف لے گئے۔۔۔۔آج کل مشہور علامہ ہیں۔
میں اپنے اس کلوس فیلو کو بھی فراموش نہیں کر سکتا جو انہی دنوں ہر کلاس میں آتے تو تاخیر سے لیکن کلاس سے نکلنے کی انہیں بہت جلدی ہوتی۔ ایک دن علم کلام کی کلاس میں ان سے استاد نے کچھ سوال پوچھے جن کے جوابات سُن کر ساری کلاس کشتِ زعفران بن گئی۔
کلاس کے بعد میں نے عرض کیا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں علمِ کلام میں مانے ہوئے استاد نصیب ہوئے ہیں، اس پر وہ زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ ہمارے عقائد کتابوں اور استادوں کے محتاج نہیں ہیں، ہمارے عقائد ہماری ماوں نے دودھ میں ملا کر ہمیں پلا دئیے ہیں۔ہم عقیدے اور معرفت کی اس منزل پر پیدا ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھنے یا کلاس میں جانے سے ہمارے علم، عقیدے یا معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بالکل صحیح فرمایا تھا وہ اس کے بعد سات آٹھ سال تک ہمارے ساتھ رہے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس دوران واقعتاً ان کے علم، عقیدے اور معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آج کل وہ بھی پاکستان میں ہیں اور خیر سے وہ بھی علامہ ہیں۔
اس وقت اس ہستی کا ذکر کیسے نہ کروں کہ جس کے دعوے کے مطابق اس نے اجتھاد و عرفان کے خانوادے میں آنکھ کھولی تھی، وہ جب اپنا شجرہ نسب بیان کرتے تھے تو اکثر نئے اور پرانے مراجعِ عظام اور مجتھد ین کرام سے ان کی خونی رشتے داریاں ثابت ہو جاتی تھیں اور جب عرفا کا ذکر کرتے تھے تو وہ خود ہی عرفا کے خانوادے کے چشم و چراغ تھے لہذا انہیں شعرا کے اشعار کی طرح عرفا کی سینکڑوں کرامات ازبر تھیں۔ ان کا یہ بھی ادعا تھا کہ ان کے دادا نے دیوار پر بیٹھ کر گھوڑی کی طرح سے سواری کی تھی اور ایک درخت پر بیٹھ کر کشمیر کی سیر کی تھی۔
عرفان کی کلاس میں وہ اکثر استاد کو روک کر عرفانی قصہ سنانے کی اجازت مانگتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے، وہ فرماتے تھے کہ یہ جو یہاں پر عرفان پڑھا ، سمجھا اور بتا رہے ہیں یہ سب ان کے اپنے ڈھکوسلے ہیں۔
البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ عرفان کے علاوہ دیگر کلاسوں میں بھی ان کی حالت قبلِ رحم ہوتی تھی، کئی مرتبہ انہیں استادوں سے نمبروں کی بھیک مانگتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔۔۔ کچھ سال انہوں نے بھی رگڑا کھایا، آج کل وہ بھی پاکستان میں دین کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں اور علامہ صاحب ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کی دینی مدارس سے بھی نکلے ہوئے ایسے بے شمار علامہ حضرات موجود ہیں جو تین چارسال فقط ادبیات اورایک حد تک اصول اورفقہ پڑھنے کے بعد قوم کو دن رات دین سکھانے میں مشغول ہیں۔ اس کے علاوہ جو ایک دو سال میں ہی علامہ بن جاتے ہیں، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔
ہر سال نجانے کتنے ہی اس طرح کے علامے پاکستان کے معاشرے میں منبر پرجلوہ افروز ہوتے ہیں اور محراب میں جگمگاتے ہیں۔ چنانچہ اب آپ پاکستان میں دیکھ لیں کہ پہلے کسی زمانے میں ذاکرین حضرات کے القابات پر علمائے کرام اور عام لوگ بھی اعتراض کرتے تھے لیکن اب علمائے کرام کہلوانے والوں کے القابات، ذاکرین سے بھی زیادہ لمبے چوڑے ہو گئے ہیں اور اب یہ رونقِ منبر بننے والے سب کے سب علامہ صاحب ہیں۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو ان القابات سے بچنا چاہتے ہیں لیکن فرشِ عزا بچھانے والے اگر علامہ سے کم کسی کو بلائیں تو محلے، علاقے اور شہر میں ان کی مجلس کا معیار گر جاتا ہے لہذا جو منع کرے اسے بھی زبرستی علامہ بنا دیا دیا جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان علامہ حضرات کی مجالس سنیں، آپ دیکھیں گے کہ ان کی علمی و تحقیقی سطح ایک ذاکر کے برابر ہی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چارہ ذاکر اتنے چھل بل نہیں جانتا جتنے یہ جانتے ہیں، ذاکر اگر غلو کرے تو بے چارہ سیدھا سادھا غلو اور شرک کرتا ہے اور انہیں چونکہ تھوڑی بہت مدرسے کی ہوا لگی ہوتی ہے ، اس لئے یہ تھوڑا بہت چھپا کر اور بات کو گھما پھرا کر غلو اور شرک کرتے ہیں، بس جو بات ایک ذاکر کرتا ہے، اس نے بھی کسی مدرسے کی تعلیمی نصاب سے حاصل نہیں کی ہوتی بلکہ وہ غریب کی اپنی محنت ہوتی ہے اور جو کچھ یہ علامہ حضرات بیان کرتے ہیں وہ انہوں نے بھی مدرسے سے بطورِ نصاب تعلیم نہیں سیکھا ہوتا، لہذا یہاں بھی غریب کی اپنی ہی محنت ہوتی ہے۔ لہذا دونوں طرف کے غریبوں کی گفتگو کی صرف لفاظی مختلف ہوتی ہے لیکن عملا اور نتیجے میں ان کی محنت کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔
مثلا!، ایک آدمی منبر سے عرفانی مسائل بیان کرتا ہے ، حالانکہ وہ حوزہ علمیہ میں عرفان کا طالب علم ہی نہیں رہا، معاشرے ، اقتصاد اور عمرانیات جیسے حساس موضوعات پر لب کشائی کرتا ہے لیکن بے چارے کی ساری اپنی محنت ہوتی ہے، وہ کسی موسسے یا مدرسے میں ان علوم کا طالب علم ہی نہیں رہا ہوتا، ایک علامہ صاحب آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں لیکن وہ علمِ تفسیر کے شعبے میں کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ہوتے، ایک علامہ دہر عقائد کی گتھیاں سلجھا رہے ہوتے ہیں لیکن انہوں نے علم کلام کے شعبے میں کسی مدرسے میں حصولِ علم کا شرف ہی حاصل نہیں کیا ہوتا تو پھر ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ جب غریب نے اپنی ہی محنت کرنی ہے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ عمامہ پہنے یا جناح کیپ، وہ داڑھی بڑی رکھے یا چھوٹی، وہ سر کو ڈھانپ کر منبر پر بیٹھے یا ننگے سر کھڑا ہو جائے۔۔۔اس نے قوم کی خدمت کیلئے سارا خرچہ تو اپنی جیب سے ہی کرنا ہے۔
اس وقت رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای کے اس فرمان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ آج تحقیق کا مسئلہ صرف دوسروں کو دکھانے (تجمل گرائی) کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری بقا اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اربابِ اختیار کلمہ تحقیق سے کتنی گہری واقفیت رکھتے ہیں، لیکن میرا اس پر ٹھوس یقین ہے کہ آج ہمیں اپنی شناخت، اپنے وجود ، اپنے استقلال اور اپنے مستقبل کیلئے جو دو تین اہم کام کرنے چاہیے ان میں سے ایک علمی تحقیق ہے۔[1]
اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاد کا مطلب میدان میں ہدف و ایمان کی خاطر مجاہدت کے ساتھ موجود رہنا ہے، لہذا یہ جو جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کا حکم ہے، اس میں جہاد بالنفس کیا ہے؟ کیا صرف یہ کہ میدان جنگ میں جا کر اپنی جان قربان کر دیں یہی جہاد بالنفس ہے!؟ نہیں جہاد بالنفس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رات سے صبح تک اپنے وقت کو ایک تحقیقی کام پر صرف کریں، آپ کو وقت گزرنے کا احساس نہ ہو، جہاد بالنفس یہ ہے کہ تحقیق کیلئے اپنی تفریح کو چھوڑ دیں، اپنے بدن کے آرام کو بھول جائیں، بہت سارے ایسے کاموں کو کہ جن سے آپ بہت ساری دولت کما سکتے ہیں ، انہیں چھوڑ دیں اور اپنے آپ اور اپنے وقت کو تحقیق میں صرف کریں۔[2]
اس کے بعد ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب یہ ہماری دنیا بہت بدل چکی ہے، یہ عہد دادی اماں اور نانی اماں کی کہانیوں کے بجائے تحقیق اور تخصص کا ہے، آج ایک طرف تو تعلیمی اداروں اور علمی محافل میں تحقیق کے بغیر کسی کا ایک لفظ قبول نہیں کیا جاتا اور لیکن دوسری طرف ہم علم کے نام پر اپنی مجالس و محافل میں کیا تقسیم کر رہے ہیں۔
ہم آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ ایک علمی تحقیق وہ نہیں ہوتی کہ کسی ڈائجسٹ یا اخبار کے مطالعے کی طرح اِدھر اُدھر سے چند باتوں کو اکٹھا کر کے لوگوں کے سامنے بیان کر دیا جائے، بلکہ ایک علمی تحقیق وہ ہوتی ہے، جس کے منابع کے درجات کا تعین ہوتا ہے، جس کا محقق علمی و تحقیقی معیارات کے مطابق تربیت یافتہ ہو تا ہے اور جس کے مفروضا ت کو پہلے ماہرین کی محفل میں نقد و بررسی کیلئے پیش کیا جاتا ہے اور پھر اگر علمی ماہرین یعنی علما اس کی تصدیق کر دیں تو تب جا کر اس بات کو انسانیت کی خدمت اور ہدایت کیلئے منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔یہ ہے وہ تحقیق جو اقوام کی شناخت ، وجود ، استقلال اور مستقبل کی بقا کے لئےمطلوب ہے۔ لیکن جہاں تخصص اور تحقیق کے بغیر ہی لوگ علامہ بن جاتے ہوں وہاں اقوام کا وہی حال ہوجاتا ہے جو آج ہمارا ہو چکا ہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.