وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور تنظیم سازی علامہ سید غلام شبیر بخاری نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری بیان میں امت مسلمہ کو ماہ مبارک ربیع الاول کی آمد پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہاکہ خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کایوم ولادت باسعادت تمام مسلمانوں کے درمیان یکساں احترام اور عقیدت کا دن ہے ۔اس دن رب العالمین نے محمد مصطفیٰ ؐکو رحمت اللعالمین بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔یوم ولادت رسول خداؐتمام مسلمین کے درمیان اتحاد ووحدت کی علامت ہے۔
علامہ شبیر بخاری نے کہاکہ مجلس وحدت مسلمین ہر سال کی طرح سال بھی جشن عید میلاد النبی ؐکو شایان شان اندازمیں منائے گی ۔ تمام صوبائی مسئولین ضلعی اور یونٹ عہدیداران کو ہدایات جاری کریں کہ وہ شرکائے جلوس کے استقبال کی بھرپورتیاریاں کریں۔ایم ڈبلیوایم کےکارکنان عاشقان مصطفیٰؐ کے لئے استقبالیہ کیمپس لگائیں گے سبیلیں لگا کر ان کی تواضع کریں گے جبکہ تمام اضلاع جشن میلاد کے موقع پر چراغاں ، محافل اورسیمینارز کا انعقاد کریں ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پر مسرت موقع پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ سیاسیات کے زیراہتمام وحدت کانفرنس منعقد کی جائے گی ۔17نومبر بروز اتوار ایوان اقبال لاہور میں منعقدہ اس کانفرنس میں ملک بھر سے جید شیعہ سنی علمائے کرام، زعمائے کرام ، سجادہ نشین حضرات شرکت کریں گے ۔ جبکہ خصوصی خطاب سربراہ ایم ڈبلیوایم پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کریں گے ۔
مرکزی سیکریٹریٹ سےمیڈیا کو جاری بیان میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات اور فوکل پرسن برائے بین المذاہب ہم آہنگی حکومت پنجاب سید اسدعباس نقوی نے کہاکہ نبی کریم ؐ کی ذات اقدس تمام مسلمانوں کے درمیان نقطہ وحدت ہے ۔ وطن عزیز میں بین المسالک ہم آہنگی کے لئے یہ کانفرنس سنگ میل ثابت ہوگی ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کو درپیش چیلنجز خصوصاًانتہا پسندی، دہشت گردی ، فرقہ واریت اور مذہبی مقدسات کی آڑمیں مذموم مقاصد کے حصول کی کوششوں کے خلاف تمام محب وطن شیعہ سنی علمائے کرام اور اکابرین اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے ۔ اسدعباس نقوی نے مزیدکہاکہ وحدت کانفرنس میں شرکت کیلئے معززمہمانان گرامی کو دعوت دینے کے عمل کا آغاز کردیا گیا ہے ۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل اور مجاہد عالم دین علامہ آغا سید علی رضوی نے کہاکہ سر زمین اہلبیت ؑمیں یوم حسین ؑپر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یونیورسٹی آف بلتستان میں آج یوم حسینؑ کے موقع پر متعصب رجسٹرار نے بلاوجہ تعطیل کا اعلان کرکے اپنے آپ یزیدی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
انہوں نے یوم حسینؑ کمیٹی سے گزارش کی کہ جس دن بھی یونیورسٹی کھلے اسی دن یوم حسینؑ منائیں۔ یونیورسٹی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ اب ہر قیمت پر یوم حسینؑ یونیورسٹی میں ہی ہونا چاہیے، کسی قسم کی ناخوشگواری کی صورت میں تمام تر ذمہ داری متعصب رجسٹرار پر عائد ہوگی۔ اور یاد رکھیں جو بھی حسینیت سے ٹکرائے اس کا انجام اپنے آباو اجداد کی طرح ہوگا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ابوبکر البغدادی ذرائع ابلاغ اور دنیا کے لئے ایک معروف نام ہے کیونکہ یہی وہ شخص تھا کہ جس کو داعش نامی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ اور قائد کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔ابھی گذشتہ دنوں امریکی صدر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ کچھ بہت بڑا ہوا ہے۔اس جملے کے لکھنے کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ اور ان سے متاثر خلیجی ذرائع ابلاغ نے ایک ہی خبر کی رٹ لگا دی کہ شام اور عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کا سربراہ ابو بکر البغدادی امریکی حملوں میں مارا گیا ہے۔
دراصل دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ پر امریکی وصہیونی لابی کا مضبوط کنٹرول دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو جس سمت چاہتا ہے موڑ دیتا ہے اور اہمیشہ مغربی سامراج نے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کے ذریعہ دنیا میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی رائے کو بدلنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکی صدر نے جو ابو بکر البغدادی کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے آخر کس حد تک سچائی رکھتا ہے یا یہ کہ اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟دنیا اس حقیقت کو اب بخوبی جان چکی ہے کہ امریکہ نے پہلے طالبان قیادت بنائی اور بعد میں اسی طالبان قیادت اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعہ ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔اب شام اور عراق میں خود امریکہ کی بنائی ہوئی داعش نامی دہشت گردتنظیم کے سرغنہ ابو بکر البغدادی کو امریکہ نے ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
آج امریکی صدر نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے پیش رو امریکی صدور نے عراق اور شام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے داعش نامی دہشت گرد تنظیم بنائی تھی۔یہ بات بھی واضح رہے کہ ابو بکر البغدادی کے پہلے بھی کئی مرتبہ مارے جانے کی اطلاعات مل چکی ہیں جن کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی اور اسی طرح حالیہ امریکی آپریشن میں بھی دہشتگرد تنظیم داعش کے سرغنہ ابو بکر البغدادی کے قتل ہونے کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔
امریکہ جو غرب ایشیا کے خطے میں سنہ2001ء کے بعد سے مسلسل فلسطین، لبنان، شام، افغانستان، عراق و ایران میں شکست کھا رہاہے اور خطے پر اپنا تسلط قائم رکھنے میں ناکام ہے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی مدد سے بھی اپنے ناپا ک عزائم کی تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔
امریکی سرکار نے داعش کو اس لئے بنایا تھا تا کہ شام و عراق کو کنٹرول کر سکیں اور اسی طرح اس خطے کو کئی حصو ں میں تقسیم کریں جبکہ اس سارے عمل کا فائدہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں تھا کہ اسے تحفظ فراہم ہو سکے لیکن اب حقیقت یہ ہے کہ کئی سال تک داعش نے شام و عراق اور لبنان کے علاقوں میں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرنے کے باوجود شکست کھا گئی ہے اور اب حال ہی میں امریکی صدر کا ابو بکر البغدادی کو قتل کردینے کے دعویٰ نے امریکی سرکار پر مزید سوالات اٹھا دئیے ہیں۔
غرب ایشیائی ممالک کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین امور سیاسیات کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایسے وقت میں شام کے علاقہ ادلب میں کاروائی کی ہے کہ جب پہلے ہی ترکی کی فوجیں اس علاقہ میں فوجی چڑھائی کر چکی ہیں۔یہ امریکی آپریش بھی ترکی میں موجود امریکی بیس سے کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید امریکہ کو یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر ابو بکر البغداد ی ترک افواج کے ہاتھ زندہ سلامت آ جاتا ہے تو پھر امریکیوں کے بہت سارے ایسے راز جو دنیا کے سامنے نہیں آئے ہیں وہ سب کے سب آشکار ہو جائیں گے اور امریکہ کا سیاہ چہرہ مزید دنیا کے سامنے عیاں ہو جائے گا تاہم امریکی سرکار نے اس علاقہ میں جلد بازی میں کاروائی کرتے ہوئے ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا
دعویٰ کر لیا ہے۔کچھ ماہرین سیاسیات کاکہنا ہے کہ امریکہ کیونکہ شام و عراق میں داعش کا بانی ہے اور دنیا کو باور کروانے کی کوشش کر رہاہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں سرگرم عمل ہے تاہم اب ایسے حالات میں کہ جب شام، ایران، روس اور حزب اللہ نے مشترکہ طور پر لبنان، شام اور عراق میں داعش کا صفایا کیا ہے تو امریکہ خطے میں داعش کے خلا ف اس کامیابی کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے حصہ میں نہیں جانے دینا چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ امریکی سرکار نے بغدادی جیست دہشت گرد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر کے خطے میں داعش پر فتح حاصل کرنے کا تمغہ اپنے سینہ پر سجانے کی ایک ناکام کوشش کی ہے لیکن دنیا پہلے ہی اس بات کو جانتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ہی ہیں کہ جنہوں نے خطے کے عرب خلیجی ممالک کے اشتراک سے نہ صرف داعش بلکہ متعدد کئی دہشت گرد گروہ تشکیل دئیے تھے کہ جن کا کام شام کی تقسیم، عراق کی تقسم اور فلسطین کاز کو نقصان پہنچا کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی بقاء کویقینی بنانا تھا۔
چند ایک ماہرین نے امریکی سرکار کے داعش کے سرغنہ کو ہلاک کرنے کے دعویٰ پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا ہے کہ آخر ایسی کون سی قیامت آئی ہے کہ امریکہ نے گذشتہ سات برس میں تمام تر ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کو نشانہ نہیں بنایا اور سات سال تک شام و عراق میں داعش کی جانب سے جاری خونریزی پر کوئی ایسا حملہ سامنے نہیں آیا کہ جس میں داعش کے عمومی دہشت گردوں کو بھی قتل کیا گیا ہو۔آخر اب کس طرح امریکہ کو معلوم تھا کہ داعش کا دہشت گرد ابو بکر البغدادی ادلب کے علاقہ میں عین اسی مقام پر موجود تھاکہ جہاں امریکی فوج نے حملہ کیا او ر اسے ہلاک بھی کر دیا۔آخر یہ حملہ داعش کے شام و عراق میں قابض ہوتے وقت کیوں نہیں کیا گیا تھا کہ جس زمانے میں ابو بکر البغدادی جیسے دہست گرد کھلم کھلا علاقوں میں خون کا بازار گرم کر رہے تھے۔
یہ رائے رکھنے والے ماہرین کاکہنا ہے کہ امریکہ دراصل روز اول سے ہی ابو بکر البغدادی کے ساتھ رابطے میں تھا اور خطے میں انارکی اور دہشت گردی کروانے کے لئے سرگرم عمل تھا تاہم اب بغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر کے امریکہ کھیل کو اپنی طرف پلٹ کر دنیا کے سامنے ہیروبننے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور شاید ایک بہانہ بھی تلاش کر لیا گیا ہے تا کہ شام سے امریکی فوج کے انخلاء کو باعزت طور پر انجام دے پائے۔
ایک اور سیاسی رائے کے مطابق ماضی میں امریکی صدر نے طالبان دہشت گردوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کرنے کے اعلان کے بعد دوسرا امریکی الیکشن جیت لیا تھا تاہم موجودہ امریکی صدر نے بھی اپنے پیش روصدر کی روایت کے مطابق خود اپنے ہی پیدا کردہ دہشت گرد سرغنہ ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاکہ امریکی عوام آنے والے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخاب کر سکیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس خبر کو صرف ذرائع ابلاغ سے لیا گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں کہ اس ہلاکت کی تصدیق کی جائے۔بہر حال امریکہ خطے میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے دہشت گردانہ عزائم پرپردہ ڈالنے کے لئے چاہے اپنے بنائے ہوئے ہزاروں ابو بکر البغدادی بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کر لے تو امریکہ کے انسانیت مخالف جرائم میں کسی طرح کمی نہیں آئے گی۔دنیا کی نظر میں امریکہ کل بھی لاکھوں مظلوم انسانوں کا قاتل تھا اور آج بھی امریکہ کی پوزیشن دنیا کے عوام کی نگاہوں میں ایک قاتل اور ظالم سے بڑھ کر نہیں ہے۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(آرٹیکل ) الحشد الشعبی ہی کیوں امریکی بلاک کے نشانہ پر ہے؟
حشد وہ عوامی رضا کار فورس ہے جس کی بنیاد آیت اللہ العظمی السید سیستانی دام ظلہ کے فتوی اور مقاومت کے بلاک کی دفاع عراق ومقدسات کی حکمت عملی کے تحت رکھی گئی۔جس وقت داعش موصل پر قبضہ کر چکے تھے اور بغداد وکربلا کے چند کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ چکے تھے۔
ہر ملک کا دفاعی نظام آرمی اور امنیتی ادارے اس ملک کی امنیت کے ضامن ہوتے ہیں لیکن عراق میں الحشد الشعبی استحکام وطن کی ضمانت بن چکا ہے۔اس لئے اب امریکی بلاک تقسیم عراق کے منصوبے کی ناکامی اور داعش کی شکست کا انتقام اب منافقین کے ذریعے حشد سے لینا چاھتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق کی مسلح افواج اور امنیتی فورسز کہاں تھیں؟ داعش اتنی تیزی سے کیوں پھیلتی چلی گئی کوئی خاص مزاحمت نہیں ہوئی ؟ ۔عراق جس نے 8 سال عراق کے خلاف جنگ کی اور کویت پر قبضہ کیا اسکی لمبا فوجی تجربہ رکھنے والی عرب دنیا کی ایک مضبوط فوج کہاں تھی.؟
عراق کے خلاف ایک خطرناک سازش
امریکا نے سیاسی نظام کے ساتھ 2003 میں دفاعی نظام کو بھی تباہ کر دیا۔عراق کو ہمیشہ کمزور ، داخلی فتنوں اور جنگوں میں مبتلا رکھنے اور عراق کے امریکا مخالف ھمسایہ ممالک کی امنیت کو ہمیشہ خطرات سے دوچار کرنے کے لئے امریکا نے ایک بڑی سازش کے تحت عراقی مسلح افواج کا نظام ہی تحلیل کر دیا اور اس ملک کو مکمل طور پر کھوکھلا کر کے کسی وقت بھی خانہ جنگی کا ماحول بنا دیا . فوج کی تحلیل کا فرمان امریکی وائسرائے بول بریمر جو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق کا حکمران بنا اس نے جاری کیا تھا. عراق کے ہمسایہ ملک ایران میں جب شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور امام خمینی رح کی قیادت میں عوامی اسلامی انقلاب آیا. تو حضرت امام خمینی نے ایران کو مضبوط رکھنے کے لئے ملک کے دفاعی نظام کو نہیں توڑا۔بلکہ جہاں کمی محسوس کی وہاں نئی دفاعی فورسز بنا لیں اور ملک کو دفاعی طور پر مضبوط کیا۔
جب امریکا نے داعش بنانے کا پروگرام بنایا تو اسی تحلیل شدہ عراقی فوج کے کمانڈرز اور فوجیوں کو استعمال کیا انکی دھڑیاں بڑھوا کر تکفیری گروہوں کی کمانڈ ان کے حوالے کر دی پھر جو تباہی ہوئی وہ سب نے دیکھی اور عراقی عوام اور ملک کی امنیت کی حفاظت کے لئے اگر فوری طور پر عراقی غیرتمند ، بہادر اور محب وطن قیادت اور جوانوں پر مشتمل یہ حشد شعبی تشکیل نہ پاتا تو آج مقدسات انبیاء و اھل بیت وصحابہ واولیاء سب مسمار ہوچکے ہوتے اور جنت البقیع کا منظر پیش کر رہے ہوتے. عراق کی ثروت سے پورے عالم اسلام کی مزید حکومتیں گرائی جاتیں اور عراق صحراء میں تبدیل ہو چکا ہوتا. اور قتل وغارت گری کا بازار ہر جگہ گرم ہوتا. اس حشد شعبی نے بیش بہا قربانیاں دیکر فقط عراق کی امنیت کو ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی امنیت کو محفوظ کیا ہے۔
ان عظیم خدمات اور قربانیوں کا صلہ سادہ لوح عراقی عوام اور دشمن کے ایجنڈے پر عمل پیرا منافقین اس حشد کے ابطال کو شہید کر کے دے رہے ہیں۔وہی سازش جو صفین میں ہوئی اور امیرالمؤمنین. علی ابن ابی طالب ع جیسی کامل واکمل معصوم قیادت سے سادہ لوح عبادت گزاروں کو دور کیا گیا اور فتح کا علم بلند ہونے کے قریب تھا اور منافقت کا سر کچلا جا رھا تھا مقدس نماوں نے جنگ کا نقشہ بدل دیااور اسی طرح جیسے امیر مختار کی فوج کو کمزور کرنے اور اس کی صفوں میں اختلافات پیدا کرنے کے لئے خناس اور منافق وارد میدان ہوئے آج تاریخ ایک بار پھر دھرانے کی کوشش جاری ہے۔
بعض مقدس نما لیڈرز اور سازش کا شکار سادہ لوح علماء کے پیروکار آج ایک طرف حشد شعبی کے دفاتر ومراکز پر پُرامن مظاہروں کی آڑ میں حملے کروا رہے ہیںاور حشد کے اھم کمانڈر پر قتلانہ حملے کر رہے ہیں اور انکے گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور پھر بیان آتے ہیں کہ حکومت امن وامان کی بحالی کے لئے حشد شعبی کو استعمال نہ کرے اور انکا آخری ھدف عراق کی سابقہ فوج کے بعد اب ایک بار پھر حشد شعبی کی تحلیل ہے. تاکہ یہ ملک کمزور سے کمزور تر رہے۔
البتہ حشد کی قیادت کہ جس نے عسکری میدان میں امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب امارات کی تمام تر کی جانی والی داعش پر سرمایہ گزاری کو اپنی حکمت وشجاعت اور صبر وبصیرت سے شکست سے دوچار کیا۔
ان شاء اللہ اس فتنے کے میدان میں بھی دشمن کو شکست سے دوچار کریں گے. اور عراقی عوام اور پوری دنیا کے سامنے انہیں ذلیل ورسوا کر کر کے انکا اصلی مکروہ ومنحوس چہرہ دنیا کو دیکھائیں گے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹرسید شفقت شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) خدا وند متعالی نے جس عالم میںہم رہ رہےہیں اسے " محل ابتلاء " اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ہے،" أ حسب الناس أن يتركوا أن يقولوا أمنا و هم لا يفتنون " .لہذا ھر ایک کو یہاں پرکھا جائے گا، جہاں افراد نے پرکھا جانا ہے وہیں انسانی معاشروں اور قوموں کو بھی آزمائشوں سے گزرنا ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو کہ ھمارا خالق، مالک اور رب ہے، یہ سب کچھ اس کے نظام ربوبیت کے تحت ہے ۔لہذا جس کا ایمان کا درجہ جس قدر بلند ھو گا اس کا امتحان بھی اتنا ھی مشکل اور سخت ھو گا، ( بقول شھید مطہری رہ کے جتنی انسان کی روح بلند ہوتی ہے اتنا ہی اس کا بدن تکلیف اور سختیوں میں رھتا ہے ، اس کی ایک بڑی مثال امام حسین علیہ السلام ہیں) ۔
اسی طرح اس عالم کے رب نے اس کی تقدیر میں امام عصر عج کے ظہور کو رکھا ہے، اہل ایمان کو اس پر مکمل یقین ھونا چاھئے کہ کچھ بھی ھو جائے آخری فتح ھماری ہے، ابھی اہل تشیع اور دنیا میں بسنے والے لوگوں نے کئی ایک نشیب و فراز سے گزرنا ہے، ھمیں مایوس نہہں ھونا چاھئے ۔جس دشمن کا ھمیں سامنا ہے، وہ شیطان بزرگ ھے، اس کا مادی جاہ و جلال مادہ پرستوں کی آنکھوں کو چندھیا دیتا ہے۔
جب کہ گزشتہ چالیس سال سے اہل ایمان اس کے مقابلے کے لئے میدان عمل میں موجود ھیں، اور خدا وند متعالی نے ان سالوں میں اپنی غیبی مدد اور عظیم کامیابیوں کی مدد سے نوازا ، جب کہ ظاھری لحاظ سے کامیابی کی کوئی صورت نہیں دیکھائی دیتی تھی ۔بالآخر اہل ایمان نے ان کھٹن مراحل سے گزر کر ھی عالمی سطح پر نفاذ عدل کے امام عصر عج کا ساتھ دینا ہے، کرپشن اور فساد سے پاک معاشرہ، جہاں عدل و انصاف ھو، ابھی تک مقاومت ظلم اور ظالموں کے ساتھ گرم جنگ میں اور کسی حد تک نرم جنگ میں کامیاب ھوئی ہے، لیکن نفاذ عدل کے لئے اور کرپشن سے پاک نظام چلانے والوں کی تربیت کے لحاظ سے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے ۔
دشمن سے گرم جنگ لڑنے سے زیادہ مشکل عدل کا نفاذ ھے، ابھی ہم (عالمی تشیع) نے اس وادی میں بھی آزمایا جانا ہے، امام عصر عج کو جہاں دشمن سے جنگ لڑنے والے افراد اور کمانڈ کرنے والے افراد کی ضرورت ہے وہیں پر عدل و انصاف کو نافذ کرنے والے ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ہم سب نے مسلسل ان سخت امتحانات سے گزرنا ہے ، مشکلات اور بحرانوں کو دیکھ کر ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اور نہ ہی ہارے ہوئے لشکر کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی پر اترنا چاہئے، البتہ حقائق کا بیان ضرور ھونا چاہیں ۔اس وقت مقاومت کے بلاک کے بعض ممالک ایک ایسے فیز (مرحلے) سے گزر رہےہیں، جس سے پہلے ایران گزر چکا ہے اور ان حالات کی پیشن گوئی بھی کی گئی تھی ۔امید ہے کہ ان شاء اللہ گزشتہ امتحانات کی طرح مقاومت اس امتحان سے بھی سرخرو ھو کر نکلے گیاور دشمن رسوا ہو گا اور مایوس بھی ۔ ظہور امام عصر عج تک ھم نے (آزمائشوں کے) کئی ایک نشیب و فراز سے گزرنا ہے ۔ھماری گزشتہ تاریخ بھی اس پر گواہ ہے ۔یہی آزمائشیں حقیقی اور راسخ قیادت کو بھی سامنے لاتی ہیں ۔ابھی نجف اشرف میں حوزہ علمیہ اور عراق میں موجود لوگوں کو مزید " غربال " ھونا ہے ۔مزید سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا ھو گا، تا کہ "صامت " کے بجائے ایک ناطق حوزہ بن جائے ۔
ایران میں عظیم انقلاب اور ولایت فقیہ کی عظیم نعمت کے باوجود انقلاب اور علماء مخالف ایک بڑا طقبہ موجود ہے، انہیں جب موقع ملتا ہے وہ اپنا غصہ نکالتے ہیں، جب کہ اس وقت لاکھوں عراقی، امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں اور ان کے اداروں سے وابستہ بھی، ایک بڑا سیکولر اور قوم پرست طبقہ عراق میں موجود ہے جو کسی طور مذہبی عنصر کو اقتدار میں قبول کرنے کو تیار نہیں، الیکشن وہ جیت نہیں سکتے، لہذا ان کے پاس اس تخریبی راستے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
لہذا وہ لوگوں کی حقیقی مشکلات کے مسئلے کو عثمان کا کرتہ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاھتے ھیں، عراق میں امریکہ ، یورپ اور عرب ممالک کے سرمائے سے ھزاروں این جی اوز بنائی گئی ہیں جنہوں نے ایک طرف سول سوسائٹی کے نام پر مظاھروں میں بنیادی انسانی حقوق کا پرچم اٹھائے شریک ھوتی ہیں اور دوسری طرف دھشت گردی کے لئے تربیت شدہ افراد سے قتل و غارت گری کے ذریعے انتقام لیا جاتا ہے ۔البتہ یہ بات واضح ھے کہ اس طرح کے انسانیت سوز اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ دشمن مایوس ہے اور اسے کامیابی کی کوئی امید نہیں ۔
اللھم عجل لولیک الفرج