وحدت نیوز(کربلائے معلی) عراق کے شہر کربلا مقدسہ میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ امور خارجہ کے زیر اہتمام دوسری سالانہ بین الاقوامی سید الشہداء کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ جناب حجت الاسلام و المسلمین علامہ راجا ناصر عباس جعفری نے سید الشہداء کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ ان کے علاؤہ بزرگ عالم دین اور ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے بانی رکن جناب حجت الاسلام و المسلمین غلام حر شبیری، انصاراللہ یمن کی سیاسی شورای کے رکن جناب شیخ محمد قبلی، کتائب سید الشہداء عراق کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن جناب حجت الاسلام و المسلمین شیخ کاظم فرطوسی، اسلامک موومنٹ نائجیریا کے جناب شیخ انس شعیب آدم نے بطور مہمان مقرر شرکت کی۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے شعبہ امور خارجہ کے سربراہ جناب حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے افتتاحی کلمات ادا کیے۔
اس کانفرنس میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنماعلامہ اقبال بہشتی، اسد عباس نقوی، ملک اقرار حسین، نثار علی فیضی ،صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ سید باقر عباس زیدی،صوبہ بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ برکت مطہری، سابق وزیر قانون بلوچستان آغا رضا ،ہنگو کے معروف عالم دین علامہ خورشید انور جوادی سمیت مختلف ممالک سے تشریف لائے زائرین ابا عبداللہ الحسین ع نے شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ اربعین کے اس عظیم اجتماع کے موقع پر شہدائے کربلا کے جوار میں کانفرنس منعقد کرنے کا ایک مقصد دنیا بھر سے تشریف لانے والے مومنین سے رابطہ اور ملاقات ہے۔ انہوں نے کہا اس اہم موقع پر سید الشہداء کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اربعین حسینی کے عظیم اجتماع کی برکات اور پیغام کی تبلیغ اور تشہیر کی مہم میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ سید الشہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یورپ سے تشریف لانے والے بزرگ عالم دین اور ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے بانی رکن جناب حجت الاسلام و المسلمین غلام حر شبیری نے کہا کہ کربلا کا اصل پیغام ذلت کی زندگی سے دوری ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا اربعین حسینی نے ایک نیا سماجی نظام متعارف کروایا ہے جس میں تمام انسانی فضائل دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا استکبار ہمیشہ سے معاشروں پر جہالت مسلط کرکے انہیں گمراہ رکھنا اور انسانی فضائل سے دور رکھنا چاہتا ہے لیکن مکتب کربلا انسان کو علم کے زیور سے آراستہ کرتا اور معاشروں میں انسانی فضائل کو رائج کرنا چاہتا ہے اور اربعین حسینی انہی انسانی فضائل کا مظہر ہے۔
سید الشہداء کانفرنس میں کتائب سید الشہداء عراق کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن حجت الاسلام و المسلمین شیخ کاظم فرطوسی نے کہا یہ اربعین حسینی کی برکات ہیں کہ آج ہم سب یہاں جمع ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے کربلا اور اربعین کی برکات کی بدولت داعش جیسے خبیث دشمن کو شکست دی ہے اور دنیا بھر میں مستضعفین جہاں بھی ظلم کے مقابلے میں کھڑے ہیں وہ کربلا کی بدولت ہے کیونکہ کربلا نے انسانیت کو عزت کے ساتھ جینے کا راستہ دکھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا دشمنِ انسانیت یمن، کشمیر، عراق، شام، فلسطین اور لبنان میں ہر جگہ ظلم و ستم روا رکھے ہے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان خطوں کے مسلمان دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کشمیری مسلمانوں کا قصور بھی یہی ہے کہ وہ ظلم کے سامنے نہیں جھکے اور یہ استقامت صرف مکتب کربلا سیکھاتا ہے۔ انہوں نے کشمیر سمیت دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے جس خطے میں بھی مظلومین ظالموں اور مستکبرین کے مقابلے میں استقامت دکھا رہے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔
ایم ڈبلیو ایم پاکستان شعبہ امور خارجہ کے زیر اہتمام کربلا میں منعقدہ سید الشہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انصار اللہ یمن کی سیاسی شورای کے رکن جناب شیخ محمد قبلی نے کہا کہ یمنی عوام نے امام حسین ع کے قیام سے سبق لیتے ہوئے ظلم کے مقابلے میں جو قیام کیا ہے اس اور امام حسین ع کے قیام میں کئی مماثلتیں ہیں۔ قیام امام حسین ع اور یمنی مزاحمت کے درمیان موجود مماثلتوں کا ذکر کرتے ہوئے جناب شیخ محمد قبلی نے کہا کہ جیسے امام حسین ع اصلاح امت کے لیے اٹھے ہم یمنی بھی ویسے ہی اصلاح حالِ امت یمن کی جدو جہد کے بانی ہیں۔ انہوں نے کہا امام حسین ع نے فرمایا میں نے دین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جو تم مجھے قتل کرو اسی طرح ہم یمنیوں نے دین یا کسی بین الاقوامی عرف یا قانون کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی جو ہمیں قتل کیا جائے۔ انہوں نے مزید فرمایا امام حسین ع ذلت قبول نہیں کی اور یمنی قوم نے بھی ذلت کی زندگی قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا امام حسین ع کے دشمن بھی رسوا ہوئے اور اللہ کے حکم سے انشااللہ یمنی قوم کے دشمن بھی رسوا اور ذلیل ہوں گے۔
سید الشہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا جب مظلوم خاموش رہتا ہے تو ظالم کا حوصلہ بڑھتا اور اس کے ظلم کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جب ظلم کے مقابلے میں کھڑا ہو جایا جائے تو شکست ظالم کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ انہوں نے پاکستانی شیعہ قوم اور قیادت کا شکریہ ادا کیا اور یمنی مزاحمتی قیادت خصوصاً انصار اللہ کی قیادت کا شکریہ اور نیک خواہشات ان تک پہنچائیں۔ دوسری سالانہ بین الاقوامی سید الشہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک موومنٹ نائجیریا کے رہنما جناب شیخ انس شعیب آدم نے کہا آیت اللہ شیخ ابراہیم زکزاکی کی تبلیغ سے دشمن نے خطرہ محسوس کیا تو ان کی فعالیت کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب وہ اس میں ناکام رہے تو انہوں اسلامک موومنٹ کے کارکنوں پر ظلم و ستم کا راستہ لیا۔ انہوں نے کہا اسی دوران شیخ ابراہیم زاکزاکی کے تین بیٹے شہید کردئیے گئے بعدازاں شیخ کے گھر پر حملہ کرکے مزید تین بیٹے شہید اور شیخ ابراہیم اور ان کی اہلیہ کو زخمی کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے کہا نائجیریا میں ہونے والا ظلم دنیا میں ڈھائے جانے والے مظالم کی ہی ایک کڑی ہے۔
انہوں نے کہا آیت اللہ شیخ ابراہیم زکزاکی کو جب ہندوستان جاکر علاج کروانے کی اجازت ملی تو امریکہ و ہندوستان جاسوسی اداروں اور کرائے کے قاتلوں کے ذریعے ان کی جان کے درپے ہوگئے۔ انہوں نے مزید کہا شیخ ابراہیم زکزاکی کو ہندوستان میں قتل کردیے جانے کا خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے واپس نائجیریا جانے کا فیصلہ کیا اور اب گزشتہ تین ماہ سے ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے نائجیریا میں مکتب سید الشہداء اختیار کیا ہے اور ہمارا عہد ہے کہ ہم سید الشہداء کی طرح استقامت دکھائیں اور ظلم کو سرنگوں کردیں گے۔ انہوں نے نائجیریا کی اسلامی تحریک کی قیادت کی جانب سے پاکستانی شیعہ قوم اور قیادت کا اس تحریک اور شیخ ابراہیم زکزاکی کی آزادی کی مہم کی حمایت پر خصوصی شکریہ ادا کیا۔
وحدت نیوز(کراچی)مرکزی مسجد و امام بارگاہ حیدر کرار ٹرسٹ اورنگی ٹاؤن سیکٹر 5-E میں منعقدہ مجلس چہلم امام حسین (ع) سے خطاب کے دوران مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ مختار امامی نے کہا ہے کہ خانوادہ رسول (ص) اور شہداء کی عظیم اور لازوال قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائیگا، جن مقاصد کیلئے انہوں نے اپنی جانیں قربان کیں ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا، خاندان رسالت (ص) کی ان عظیم اور مقدس ہستیوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے اسلام کے پرچم کو سربلند کیا اور رہتی دنیا تک کے انسانوں کو پیغام دیا کہ جب بھی دین پر وقت پڑے تو اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر میدان عمل میں آکر اسلام کی آبیاری کرنا ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) چند برسوں سے صفر کے مہینے میں سوشل میڈیا اربعین واک کی تصاویر اور ویڈیوز سے بھر جاتا ہے جن میں ہر کوئی عراقیوں کے جذبہ مہمان نوازی کو سراہاتا نظر آتا ہے۔ لیکن ان تصاویر اور ویڈیوز کے پسِ منظر میں کیا اہم موقع ہے، یہ شاید بہت کم افراد جانتے ہیں۔ اربعین واک کے بارے میں پڑھیے بی بی سی کی منزہ انوار کی تحریر۔
وہ ایک 80 کلومیٹر طویل سڑک تھی۔ ایک عام شاہراہ جو کسی بھی ملک میں دو شہروں کو ملانے کے لیے تعمیر کی جاتی ہے لیکن شیعہ مسلمانوں کے لیے مقدس سمجھے جانے والے دو عراقی شہروں نجف اور کربلا کو ملانے والی اس سڑک پر منظر کچھ خاص تھا۔
یہاں جا بجا دورانِ سفر کسی بھی مسافر کو پیش آنے والی ہر ضرورت کا مفت انتظام تھا۔ کوئی زبردستی آپ کو جوس پلانا چاہتا تو کوئی کجھوریں یا دیگر اشیائے خوردونوش پکڑا دیتا۔
کچھ بچے ملے جو درخواست کر رہے تھے کہ ہم ان سے اپنے جوتے پالش کروا لیں تو کوئی چاہتا تھا کہ آپ انھیں اپنی ٹانگیں دبانے کی سعادت دے دیں۔
سڑک کنارے ایک طرف صوفے لگے ہوئے تھے تاکہ تھکے ہوئے مسافر ان پر بیٹھ کر آرام کر لیں تو دوسری جانب کسی نے اپنے گھر کے بہترین گدے بچھا رکھے تھے۔
آخر یہ کون لوگ ہیں اور اس سڑک پر یہ ساری چیزیں مفت کیوں بانٹ رہے ہیں اور اپنے گھروں کا بہترین سامان سڑک پر کیوں لے آئے ہیں؟
یہ منظرعراق میں ہر برس صفر کے اسلامی مہینے میں ہونے والی اربعین واک کا تھا۔ 'مشی' کے نام سے معروف یہ عمل ہر برس لاکھوں افراد نواسۂ رسول کے چہلم کے موقع پر نجف سے کربلا کا پاپیادہ سفر کر کے سرانجام دیتے ہیں۔
اور اس موقع پر غریب اور امیر کی تفریق سے بالاتر ہو کر مقامی عراقی زائرین کی خدمت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
مجھے یہ جان کر خاصی حیرت ہوئی کہ جنگ زدہ ملک کے یہ باسی جو خود بمشکل گزارہ کرتے ہیں انھی دنوں کے لیے سال بھر پیسے بچاتے ہیں تاکہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔.
اربعین کیا ہے؟
اربعین عربی گنتی میں 40 کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً کسی شخص کی موت کے 39 دن بعد اس کی یاد میں منائے جانے والے دن کو کہا جاتا ہے۔
عراق میں اربعین کا تہوار سنہ 61 ہجری میں دس محرم کو پیش آنے والے کربلا کے واقعے کے 40 دن کی تکمیل پر 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔
اربعین واک کا آغاز کب ہوا اس بارے میں مصدقہ طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم نجف کے حوزة علمیة سے تعلق رکھنے والے عالم سید رضا کے مطابق 'تاریخی روایات کے مطابق جابر بن عبد اللہ الانصاری وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے امام حسین کی قبر کی زیارت کی۔'
آج، کربلا کے واقعے کے 1400 سال بعد بھی نواسۂ رسول کی قربانی کی یاد میں دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد کربلا پہنچتے ہیں۔
صدام حسین کے دور میں اربعین
عراق کے سابق صدر صدام حسین کے دورِ حکومت میں اربعین واک پر سخت پابندیاں عائد تھیں اور حکام ہر برس عراقی عوام کو اربعین کے موقع پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے تاہم اس کے باوجود اس سفر کا سلسلہ جاری رہا۔
سنہ 2003 میں صدام حسین کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اربعین واک کا سلسلہ ایک نئے جذبے سے شروع ہوا اور تب سے ہر سال اس سفر کے لیے کربلا پہنچنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
اربعین کے لیے زائرین کی آمد کا سلسلہ تب بھی جاری رہا جب عراق کا ایک بڑا حصہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے زیرِ اثر تھا اور بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو عراق کے سفر سے اجتناب برتنے کا مشورہ دے رہے تھے۔
اربعین کے سفر کا آغاز
عموما ً اس سفر کا آغاز نجف سے ہی ہوتا ہے اور اربعین کے لیے سفر کرنے والے زیادہ تر افراد نجف کے ہوائی اڈے پر ہی اترتے ہیں لیکن میرے لیے اس سفر کا آغاز عراقی شہر بصرہ سے ہوا تھا۔
سنا تھا غیر شادی شدہ خاتون کوعراقی ویزہ نہیں دیتے تاہم میرا نمبر آنے پر ٹوٹی پھوٹی انگریزی عربی میں صرف اتنا پوچھا گیا کہ عراق کیوں آئی ہو، میں نے جواب دیا 'زیارت حسین'۔
نہ کوئی سوال نہ مزید تفتیش۔ شیشے کے پیچھے موجود نوجوان نے ٹھک سے میرے پاسپورٹ پر دو ہفتے کا ویزہ لگایا اور 'مرحباک فی عراق' کہتے ہوئے پاسپورٹ واپس تھما دیا۔
دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر پینے کا پانی تک خریدنا پڑتا ہے اور وہ بھی زیادہ قیمت پر لیکن بصرہ ایئرپورٹ پر زائرین کے لیے پانی کا مفت انتظام تھا۔
دیکھا جائے تو اربعین کے موقعے پر سوائے جہاز کے ٹکٹ اور ویزے کے ہر چیز ہی تقریباً مفت ہے۔
اس بات کا اندازہ ایئرپورٹ سے نکل کر ہوا۔ ایئرپورٹ کے باہر سینکڑوں بسیں اور کاریں کھڑی تھیں۔
بصرہ سے کربلا یا یا نجف یا جہاں کہیں بھی آپ جانا چاہیں، ایک مناسب قیمت طے کرنے پر یہ ڈرائیور آپ کو وہاں لے جائیں گے اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں، بصرہ کے رہائشی بنا کسی قیمت کے مفت میں یہ خدمت انجام دینے کو بھی تیار نظر آئے۔
نجف جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہونے لگی تو اس کے دروازے پر بھی ڈرائیور نے بنا کچھ کہے مجھے پانی کی بوتل اور کجھوروں کا ایک پیکٹ تھما دیا۔
بصرہ سے نجف تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر ہے اور سارے راستے میں چیک پوسٹوں اور سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود بہت رونق دکھائی دی۔
کہیں لوگ سر پر سامان رکھے پیدل ہی نجف کی جانب رواں دواں دکھائی دیے تو کہیں ایسے مسافروں کی خدمت کے لیے لوگ سٹال لگائے بیٹھے تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس اہم تہوار میں پورا ملک شریک ہو۔
تین گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ ہماری گاڑی رکی۔ سڑک کے درمیان ایک شخص ایک سیاہ پرچم لیے کھڑا تھا اور کسی گاڑی کو آگے جانے نہیں دے رہا تھا۔
خواہش تھی کہ زائرین اس کے ریستوران پر کھانا کھا کر دوبارہ سفر شروع کریں۔ نجف پہنچنے کی جلدی تھی لیکن میزبان کا اصرار اتنا شدید تھا کہ اترنا پڑا۔
ریستوران، امام حسین اور ان کے اصحاب کے لیے تعریفی کلمات اور اربعین کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے استقبالہ بینرز سے سجا تھا۔
مرد حضرات کے لیے ریستوران کے باہر کرسیاں لگائی گئی تھیں جبکہ خواتین کے لیے ریستوران کے ساتھ ملحقہ مکان میں آرام اور کھانے کا انتظام تھا۔
خواتین کے لیے آرام کی غرض سے قالین پر گدے بچھے تھے۔ ایک جانب جائے نماز موجود تھیں تو دوسری جانب کچھ عرب اور ایرانی خواتین کھانا کھا رہی تھیں۔
شیخ کا پورا خاندان اس خدمت میں انتہائی خوش دلی سے مگن تھا۔.
نجف سے کربلا کا پیدل سفر
اس مختصر سٹاپ کے بعد ہماری بس مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد نجف پہنچ گئی۔ اربعین کے لیے آنے والے زائرین کا سفر نجف میں حضرت علی کے روضے پر سلام سے شروع ہوتا ہے۔
ہر برس چہلمِ امام حسین کے موقع پر نجف سے کربلا کا رخ کرنے والوں کی درست تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اربعین کے موقع پر اس علاقے میں تین کروڑ سے زیادہ افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔
نجف پہنچتے ہی ہر کسی کو کربلا کا رِخ کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد اپنا سامان نجف میں چھوڑتے ہیں اور چھوٹے بیگوں میں سفری ضرورت کا سامان لے کر پیدل کربلا کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔
نجف سے کربلا کا فاصلہ تقریباً 80 کلومیٹر ہے۔ نجف سے کربلا جانے والی سڑک کو 'این نجف' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اربعین کے لیے آنے والے زیادہ تر افراد اسی سڑک پر مشی (پیدل چلنا ، پیادہ روی ) کرکے کربلا پہنچتے ہیں۔
اب یہ آپ کی قوت، صحت اور حوصلے پر منحصر ہے کہ آپ روزانہ کتنا چلتے ہیں اور یہ فاصلہ کتنے دن میں طے کرتے ہیں لیکن عموماً نجف سے کربلا مشی کرنے والے افراد تین سے چار دن میں یہ سفر طے کر لیتے ہیں۔
اگر آپ پہلی مرتبہ اربعین واک میں شرکت کر رہے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ میری طرح اپنے بیگ میں دنیا بھر کے لوازمات بھر کے مت لے جائیے گا کیونکہ یہاں سب کچھ مفت ملتا ہے۔ خواہ مخواہ وزن اٹھانے کی زحمت ہی ہو گی۔
این نجف پر کربلا جانے والے زائرین کے لیے ہر قسم کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔
دنیا کے ہر ملک کی خوراک سے لے کر بچوں کے پیمپر اور ٹشو پیپر تک مفت دستیاب ہیں۔
جگہ جگہ عراقیوں نے اپنے اپنے خاندانی ناموں کے ساتھ ’موکب‘ لگا رکھے ہیں۔ انھیں آپ آرام گاہیں بھی کہہ سکتے ہیں اور طعام و قیام کی جگہیں بھی۔
یہاں آپ نماز پڑھنے کے لیے رکنے سے لے کر جتنی دیر چاہیں آرام کر سکتے اور اس دوران اپنا موبائل اور دوسری اشیا چارج کر سکتے ہیں۔
موکب کے اندد چارجنگ کی تاروں، وائی فائی، گرما گرم کھانے، مساج اور پیر دبوانے سے لے کر آپ کے گندے کپڑے دھلوانے تک کی سہولت میسر ہے۔
اگر آپ کی طبعیت ناساز ہو جائے یا آپ کو کسی دوا کی ضرورت ہے تو اس کے لیے ہر چند کلو میٹر پر میڈیکل کا سٹال بمعہ عملہ بھی موجود ہے۔
چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سروں پر بڑے بڑے تھال میں کھانے کی اشیا رکھے نظر آتے ہیں۔ اِن سب کا اصرار ہوتا ہے کہ آپ ان کا کھانا ضرور کھا کر جائیں۔
کئی مقامات پر طویل دسترخوان بچھے نظر آتے ہیں، اس سڑک کو دنیا کا سب سے بڑا دستر خوان کہنا غلط نہ ہوگا۔
عراقی نہ صرف اربعین کو بلکہ اس کے لیے آنے والوں کی خدمت کو بھی ایک عبادت سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ زائرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اور پورے پورے عراقی خاندان اس خدمت میں بخوشی مگن دکھائی دیتے ہیں۔
ایک عراقی نے بتایا کہ اس عمل میں بچوں کو خاص طور پر اس لیے شریک کیا جاتا ہے تاکہ زائرین کی خدمت کا عمل نسل در نسل جاری رہے۔
اگرچہ نجف سے کربلا تک سڑک پر کیے گئے 99 فیصد انتظامات مقامی عراقی ہی کرتے ہیں لیکن یہاں تقریباً ہر ملک کا کوئی نہ کوئی سٹال نظر آتا ہے۔
کہیں پاکستانی بریانی اور چائے تیار کرکے آپ کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو کہیں اچانک کوئی لبنانی آپ کے سامنے آکر فلافل تھما دیتا ہے۔
اربعین واک میں جہاں صنف اور عمر کی کوئی تفریق نہیں وہیں یہ سفر صرف شیعہ مسلمانوں تک بھی محدود نہیں بلکہ سنی، کرد، یزیدی، عیسائی غرض ہر مذہب اورفرقے کے لوگ باہمی ہم آہنگی سے رواں دواں نظر آئے۔
ایک ایرانی خاتون اپنے ڈیڑھ ماہ کے بچے کو لیے جانبِ کربلا جا رہی تھیں۔ ان کے دو بچے واکر میں بیٹھے تھے جنھیں ان کے شوہر چلا رہے تھے۔
کچھ فاصلے پر ایک نوجوان ایک برقع پوش خاتون کی ویل چیئر چلاتا نظر آیا۔
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی ضعیف والدہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ اس سال اربعین کے موقعے پر کربلا جائیں۔
ایک مقام پر سیاہ برقعوں میں ملبوس عورتوں کو اونٹوں کی ایک قطار میں دیکھا۔ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے تھے۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اربعین کے موقعے پر عراق کے مختلف علاقوں سے کئی قبیلے واقعہِ کربلا کی یاد میں ایسے جلوس کی صورت میں کربلا پہنچتے ہیں جو اس دوران پیش آنے والے واقعات کی عکاسی کر سکیں۔
کربلا اور روزِ اربعین
کربلا کی حدود میں پہنچے ایک چیک پوسٹ پر خواتین کو ایک کمرے میں لے جا کر بٹھا دیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک آپ کا سامان چیک کیا جا رہا ہے آپ سکون سے بیٹھیں اور چائے پیئیں۔
ہمارا قافلہ جس وقت کربلا میں داخل ہوا تو فجر کا وقت تھا۔ ہم شہر کی حدود میں داخلے کے بعد دم لینے کو بیٹھے ہی تھے کہ چند نوجوان عراقی چائے لے آئے۔
یہاں بھی فری وائی فائی میسر تھا سو میں نے چائے پیتے پیتے گھر والوں کو کربلا پہنچنے کی اطلاع دی۔
کچھ فاصلے پر واقع چیکنگ پوائنٹ پر زائرین کے سامان کی چیکنگ کے لیے بڑے بڑے سکینرز لگائے گئے تھے۔ سکیورٹی پر مامور اہلکار خوش اخلاق لیکن چیکنگ کا عمل انتہائی سخت تھا۔
ہماری لائن میں موجود سب افراد کو انتظار کرنے کو کہا گیا ہے کیونکہ ایک صاحب کے سامان سے زنجیرزنی میں استعمال ہونے والی چھریاں برآمد ہوئیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ اربعین کے دوران کربلا میں کسی قسم کا چاقو، چھری وغیرہ لے جانے پر پابندی ہے۔
کربلا شاید دنیا کا وہ واحد شہر ہے جہاں کوئی تفریح کی غرض سے نہیں جاتا۔ یہاں آنے والے تقریباً سبھی افراد نواسۂ رسول اور ان کے اہلِ خانہ کی عظیم قربانی کی یاد منانے آتے ہیں۔
امام حسین کے روضے میں داخلے کے لیے کل 10 دروازے ہیں اور ہر دروازے پر اتنا رش تھا کہ خدا کی پناہ۔
ابتدا میں تو مجھے لگا کہ میں کبھی اندر نہیں جا پاؤں گی اور اگر جانے کی کوشش بھی کی تو ہڈیاں تڑوا بیٹھوں گی۔ خیر یہ خیال بعد میں غلط ثابت ہوا۔
اربعین کے موقعے پر چونکہ کروڑوں افراد کربلا آتے ہیں اور ہر ایک کا مقصد روضۂ امام حسین تک پہنچنا ہی ہوتا ہے تو عراقیوں نے ایسا انتظام کر رکھا ہے جس میں آپ کو دو سے تین گھنٹے تو لگ جاتے ہیں لیکن ہر شخص روضے تک ضرور پہنچتا ہے۔
زائرین ایک طرف سے آتے ہیں روضے کو چھوتے ہیں اور سیدھے باہر نکلتے جاتے ہیں۔
یہاں کھڑے ہونے کا سوچیے گا بھی مت۔ وہاں تعینات سیاہ چادروں میں ملبوس انتہائی مستعد خواتین نے نرم جھالر دار چھڑیاں اٹھا رکھی تھیں، جیسے ہی آپ ایک سیکنڈ بھی زیادہ رکے وہ اس چھڑی سے آپ کو باہر کا راستہ دکھا دیتی ہیں۔
ایک پاکستانی خاتون کو یہ کہتے سنا ’ہم اتنے دور سے آئے اور ہمیں چند منٹ یہاں کھڑے بھی نہیں رہنے دیا جا رہا۔‘
یہ سب ناگوار تو بہت لگتا ہے لیکن اگر ہر کسی کو وہاں قیام کی اجازت دے دی جائے تو کوئی شخص روضے تک نہیں پہنچ پائے گا۔
کربلا میں زائرین کے لیے انتظامات
کربلا میں بھی این نجف جیسے انتظامات تھے۔ جابجا کھانے کے سٹال اور موبائل واش رومز والی گاڑیاں کھڑی تھیں۔
جو لوگ ہوٹلوں میں رہنے کی سکت نہیں رکھتے ان کے لیے موکب لگائے گئے ہیں جن میں گدے، کمبل، تکیے اور واش روم کا مفت انتظام ہے۔
جن کو موکب میں جگہ نہیں ملی انھوں نے گلیوں میں چھوٹے ٹینٹ لگا رکھے تھے۔ جو خیمے نہیں لائے انھوں نے ایک کمبل نیچے بچھا رکھا ہے اور ایک اوپر لیے مزے سے فٹ پاتھ پر سو رہے تھے۔
راتوں رات یہ کمبل کہاں سے آتے ہیں اور صبح کہاں غائب ہو جاتے ہیں یہ اگلے روز معلوم ہوا جب میں نے کمبلوں سے بھرے ایک بہت بڑے ٹرک کو دیکھا۔
ہر روز رات کو ایسے کئی ٹرک کربلا کی سڑکوں پر چکر لگاتے اور کمبل پھینکتے جاتے ہیں۔ اگلے دن فجر کے بعد یہی ٹرک دوبارہ آکر یہ کمبل اکٹھے کرتے ہیں۔
یہ چھوٹا سا شہر کروڑوں افراد کو کیسے سمو لیتا ہے یہ میں آج تک نہیں سمجھ پائی۔
روزِ اربعین
20 صفر کا دن بہت اہم ہے۔ ہر شخص اپنے کام کاج چھوڑ اور راستے کی صعوبتیں برداشت کرکے اسی دن کے لیے یہاں پہنچتا ہے۔
رش کی صورتِ حال یہ تھی کہ صرف روضے کے بیرونی دروازے تک جاتے جاتے مجھے تین گھنٹے لگ گئے جبکہ یہ دروازہ بالکل میرے ہوٹل کے سامنے چند منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔
تاہم اتنے زیادہ ہجوم کے باوجود یہ مجمع انتہائی پرسکون تھا۔ نہ کوئی کسی سے جھگڑتا نظر آیا نہ کہیں بھگدڑ مچتے دیکھی۔
سب سکون سے روضہ امام حسین کی جانب جا رہے تھے جیسے یقین ہو کہ کچھ بھی ہو جائے وہ روضے تک ضرور پہنچیں گے۔
اگر کسی نوجوان کے پیچھے کوئی عورت چل رہی ہے تو وہ اپنے آگے والے شخص کے کندھے پر ہلکا سے تھپتپھا کر بتاتا ہے کہ عورتیں ہیں راستہ بناؤ اور سب جتنا ہو سکے ادھر ادھر کھسک کر آپ کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔
اس ہجوم میں شامل افراد کسی ایک فرقے یا تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔ کہیں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد صلیب اٹھائے روضہ امام حسین کی طرف بڑھ رہے تھے تو کہیں سفید لباس میں ملبوس بوہرہ برادری کے افراد ایک گروپ کی صورت میں روضے میں داخل ہوتے دکھائی دیے۔
یورپی اور افریقی ممالک کے لوگ بھی اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے اٹھائے اپنی زبانوں میں کلمات پڑھتے اندر جا رہے تھے۔
نواسۂ رسول کے روضے اور اردگرد کی گلیوں میں ہر افراد کی زبان پر ایک ہی ورد جاری تھا ’لبیک یا حسین، لبیک یا حسین‘۔
میں سوچ رہی تھی کہ 14 صدیاں قبل دینِ اسلام کے لیے جان دینے والے ایک فرد کی قربانی میں کیا طاقت ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد ان کا غم منانے اور ان کی دی گئی قربانی کی یاد تازہ کرنے کربلا کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے کونے کونے سے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے اور عراقیوں کے خاندان در خاندان اس خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)
وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ صحابی ہیں جنھوں نے دوسری بیعت عقبہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ کثیر الحدیث صحابی اور حدیث لوح کے راوی ہیں۔ حدیث لوح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک کو ذکر فرمایا ہے۔ جابر کے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جنہيں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عبد اللہ نےمدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشش کی۔ ابن کثیر دمشقی جابر کے والد عبداللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا وند آپ کو اے انصار جزائے خیر دے خصوصا العمرو بن حرام (جابر کا کنبہ) اور سعد بن عبادہ کو۔1۔ عبداللہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔2۔
جابر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جنگوں اور اہم واقعات میں موجود تھے ، جیسے: غزوہ بنی مصطلق،غزوہ احزاب، غزوہ بنی قریظہ ، صلح حدیبیہ ، غزوہ خیبرہ ،سریہ خبط ، فتح مکہ ، محاصرہ طائف اور غزوہ تبوک ۔ 3۔ مورخین اورمحدثین نے جابر بن عبد اللہ انصاری کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ذکر کیاہے جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں ایمان لانے والوں میں سے سب سے پہلے قرار دیتے ہیں۔4۔ شیخ مفید نے جابر کو ان اصحاب کی فہرست میں شامل کیا جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین بلافصل سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق ،ابو زبیر مکی( جو جابر کے شاگردوں میں سے تھے ) نقل کرتا ہے: میں نے جابر کو مدینہ میں انصار کے محلوں اور ان کے محافل میں عصا ہاتھوں میں لئے گھومتے ہوئے دیکھا جبکہ وہ یہ کہ رہے تھے : اے گروہ انصار: اپنے فرزندوں کی تربیت حب علی علیہ السلام کےساتھ کیا کرو اور جو اس سے انکار کرے تو اس کی ماں کے کردار کاجائزہ لو۔ 6۔
ایک دن امام باقر علیہ السلام نے جابر سے حضرت عائشہ اور جنگ جمل کے بارے میں پوچھا۔ جابر نے جواب دیا: ایک دن میں عائشہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ علی بن ابی طالب کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور ایک لمحے کے بعد سر اٹھا کر یہ اشعار پڑھنا شروع کیا: "جب سونے کو جلایا جاتاہے ، تو اس سے ساری ملاوٹیں اورناخالصی نکل جاتی ہے۔ ہم انسان بھی خالص اورناخالص ہیں۔ علی ہمارے درمیان ایک معیار ہے جو کھرے اور کھوٹے کوسرے سے الگ کرتا ہے۔7۔
جابر کہتے ہیں: ہم بصرہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ تھے ، جنگ ختم ہوگئی اور میں رات کو اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا تم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہو؟ میں نے کہا:ہم دنیا کی برائی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جابر! دنیا کی برائی کیوں کر رہے ہو ؟ اس کےبعد آپ نے خدا کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد دنیا کے فوائد پر گفتگو کی اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان لے گیا اور مرنے والوں کے بارے میں بات کی۔8۔ اسی طرح جنگ صفین اور نہروان میں بھی جابر امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں رہا ۔نہروان سےواپس آتے وقت جو واقعہ پیش آیا تھا جابر نے اسے بھی نقل کیا ہے۔ 9۔
کتاب وقعہ الصفین جو قدیم کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، جابر بن عبد اللہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:معاویہ اس حالت میں مرے گا کہ وہ میری امت میں شامل نہیں ہوگا۔10۔ معاویہ کے بارے میں جابر کا موقف اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جابر نے اس حدیث کو مستقیما اور کسی واسطہ کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔اسی طرح یہ واقعہ بھی جابر کے موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آخری سال میں معاویہ نے تین ہزارافراد کو بسر بن ارطاۃ کی سربراہی میں مدینہ بھیجا اور بسربن ارطاۃ سے کہا: مدینہ جاو اوروہاں افراد کو منتشر کرو۔ تم جہاں بھی جاو لوگوں کو ڈراؤ ۔ جوہماری اطاعت سے انکار کرے ان کے اموال کو لوٹ لو ، اور اہل مدینہ کو ڈرا کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کرو کہ ان کے پاس اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
لشکرمعاویہ جب مدینہ پہنچا تو انہوں نےمعاویہ کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا۔ مدینہ کے لوگوں کوجنگی سہولیات اورافراد کی کمی کا سامنا ہوا جس کی وجہ سے بیعت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ملا۔ قبیلہ بنی سلمہ جو جابر کا رشتہ دار تھا ، بھی بیعت کے لئے بسر بن ارطاۃکےپاس پہنچا ۔ اس نے پوچھا کہ جابر بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا جب تک جابر ان کے ساتھ نہیں آتا تب تک ان سے بیعت نہیں لوں گا۔جابر کہتے ہیں:میں ڈر گیا اس لئے وہاں سےبھاگ گیا۔ لیکن بسر نے بنی سلمہ جابر کے قبیلہ والوں سے کہا : جب تک کہ جابر خود نہ آئے کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے۔ میرے رشتہ دار میرے پاس آئے اور کہا :خدا کی قسم ہمارے ساتھ چلو اور اپنی جان اور اپنے رشتے داروں کے جانوں کی حفاظت کرو ، کیونکہ اگر آپ نےایسا نہیں کیا تو ہمارے لوگ مارے جائیں گے اور ہمارے اہل خانہ کو اسیر کیاجائے گا۔
جابر نے ایک رات سوچنے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے چلا گیا تو انہوں نے جابر سے کہا: اس کی بیعت کرو اوراپنی اور رشتہ داروں کی جان بچاو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ بیعت، بیعت ضلالت ہے ۔یہ تقیہ ہی تھا جس نے اصحاب کہف کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند گردن میں صلیب لٹکائیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کریں ۔۱۰۔
بعض روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جابر کا رابطہ ہمیشہ دوستانہ اور محبت آمیز تھا۔ ایک دفعہ جابر بیمار پڑ گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے اس وقت تشریف لے گئے جب وہ اپنی تندرستی سے مایوس ہوچکے تھے۔ جابر نے بہنوں کے درمیان ترکے کی تقسیم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں یہ آیت{يَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہ ُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَيْسَ لہ ُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يکُن لَّہَا وَلَدفاِنکَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذکَرِ مِثْلُ حَظِّ الا نثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہ ُ لَکُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}(لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے)12۔نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے۔13۔جابر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایات نقل کی ہیں۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل، اور ابو سعید خدری ان اصحاب میں سے ہیں جن سے جابر نے روایات نقل کی ہے۔14۔جابر اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ انھوں نے ایک صحابی رسول سے براہ راست حدیث رسول سننے کے لئے شام کا سفر اختیار کیا۔15۔اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔16۔وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے ۔مشہور شیعہ احادیث کی اسناد میں جابر کا نام ذکر ہوا ہے۔ ان مشہور احادیث میں حدیث غدیر17 حدیث ثقلین18۔ حدیث انا مدینۃ العلم19۔حدیث منزلت، 20۔ حدیث رد الشمس،21۔اور حدیث سد الابواب 22۔ شامل ہیں۔
اسی طرح جابر ان احادیث کے بھی راوی ہیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد بارہ ائمہ کے اسمائے گرامی بیان فرمائے ہیں23۔اور حضرت مہدی(عج) کی خصوصیات متعارف کرائی ہیں۔24۔حدیث لوح ان مشہور احادیث میں سے ہے جو جابر نے نقل کی ہے اور ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ائمۂ اثناعشر کے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔25۔
شیخ طوسی نے جابر کوامام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔26۔ واقعۂ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جابر بن عبداللہ انصاری مدینے کے معمر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے لئے فکرمند تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے بھیجے گئے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے جابر بن عبداللہ کا نام اپنے مدعا کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔27۔ عاشورہ کے دن جب امام نے دشمن سے مخاطب ہو کر خطبہ دیا تو آپ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا ر سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمیرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں فرمایا: یہ دو نوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صحیح نہیں تو کچھ اصحاب ہیں ان سے پوچھو جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو سعید خدری وغیرہ ۔28۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے کچھ دن بعد ہی جابر بن عبد اللہ انصاری نے کربلا کا سفرشروع کیا۔ یزید اور ابن زیاد جیسےظالم اورسفاک افراد نے بھی اسے اس سفر سے نہیں روکا۔ جابر کے ساتھ اس سفر میں اس کا شاگرد عطیہ عوفی بھی تھا۔ شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر قرار دیا ہے جو 20صفر 61 ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔29۔
طبری اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادرپہنا ، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اوراپنے آپ کو اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ حسین ابن علی کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابرنے کہا : میرا ہاتھ قبر حسین پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا ۔ اس نے قبر حسین ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا ۔ جب میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ)کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھرجابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس کو جسم سے جدا کیا گیا ہے ؟میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کے فرزند ہیں اورآپ اس طرح کیوں نہ ہو ، کیونکہ خدا کے رسول نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے اگرچہ مومنین آپ کی شہادت سے محزون ہیں سے نالاں ہیں ۔خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو ایسی شہادت نصیب ہوئی جیسےیحیی بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔
اس کے بعدجابر نے سید الشہداء علیہ السلام کے اطراف میں موجود قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ لوگوں پر اے پاکیزہ ہستیاں کہ آپ لوگوں نے حسین ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں ۔
عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے ۔نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہےلیکن ان لوگوں کےسروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اوران کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں ؟جابر نے مجھے جواب دیا اےعطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا سے یہ کہتے ہوئے سنا ہےکہ اگرکوئی کسی گروہ کو چاہتا ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور ہوں گے ، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نےمحمد مصطفی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ بھی وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا ۔پھر اس کے بعد جابرنے کہا:میرا ہاتھ پکڑ و اور مجھے کوفہ کی طرف لے چلو۔
جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے: اے عطیہ! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں ۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمد کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتےہیں گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہواور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمد کےچاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمد کی محبت کی وجہ سےمضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ 30۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز پر آپ کے اصحاب کی تعداد بہت کم تھی اور جابر ان ہی انگشت شمار اصحاب میں شامل تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے حجاج بن یوسف ثقفی کے تعاقب سے محفوظ تھے۔31۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جابر بن عبداللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا: اے جابر: تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے ایک فرزند کا دیدار کرو گے جو میرے ہم نام ہوں گے۔ وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے جیسا کہ تشریح و تجزیہ کا حق ہے۔ پس میرا سلام انہیں پہنچا دو۔32۔جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی حتی کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "یا باقَرالعلم" اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی علیہ السلام کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام انہیں پہنچایا۔
جابر عمر کے آخری سالوں میں ایک سال تک مکہ میں بیت اللہ کی مجاورت میں مقیم رہے۔ اس دوران عطاءبن ابی رَباح اور عمرو بن دینار سمیت تابعین کے بعض بزرگوں نے ان سے دیدار کیا۔ جابر عمر کے آخری برسوں میں نابینا ہوئے اور مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔33 ۔مِزّی نے جابر کے سال وفات کے بارے میں بعض روایات نقل کی ہیں جن میں جابر کے سال وفات کے حوالے سے اختلاف سنہ 68 تا سنہ 79 ہجری تک ہے۔34۔ بعض مؤرخین اور محدثین سے منقولہ روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری نے سنہ 78 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور والی مدینہ ابان بن عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔35 ۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ابن کثیر دمشقی، جامع المسانید، ج 24، ص 359.
2۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211۔
3۔ حسین واثقی، جابر بن عبدالله انصاری، ص 63 ـ 50۔
4۔ شرح نہج البلاغۃ ابن ابیالحدید، ج 13، ص 229؛ ابنشہرآشوب، المناقب، ج 2، ص 7؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص 198۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص 47 و علل الشرایع، ص 142؛ بحارالأنوار، ج 38، ص 6 ـ 7۔
6۔ علی احمدی میانجی، مواقف الشیعۃ، ج 3، ص 281۔
7۔ ابنشعبہ حرانی، تحف العقول، ص 186 ـ 188؛ بحارالأنوار، ج 70، ص 100 ـ 101۔
8۔ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج 1، ص 220؛ ابناثیر جزری، أسدالغابہ، ج 1، ص 308.شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 2323؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ج 3، ص 264؛ بحارالانوار، ج 33، ص 439۔
9۔نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص 217۔
10۔ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 197 ـ 198؛ شرح نہج البلاغۃه ابن ابی الحدید، ج 2، ص 10؛ ثقفی، الغارات، ج 2، ص 606۔
11۔ سورہ نساء (4) 176۔
12۔طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن۔
13۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444۔
14۔خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118۔
15۔ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191۔
16۔عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج1، ص57ـ60۔
17۔ صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «ص »، ص414۔
18۔ابن ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص34۔
19۔ابن بابویہ، معانی الاخبار، 1361 ش، ص74۔
20۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص345ـ346۔
21۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص189ـ190۔
22۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص258ـ259؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص282۔
24۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1363ش، ج1، ص253، 286، 288۔
25۔ رجال طوسی، ص 72۔
26۔محمد بن یعقوب کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص527 ـ 528؛ ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص308ـ313۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص97۔
27۔ ارشاد مفید، ص 234 و بحارالانوار، ج 45، ص 6۔
28۔ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195۔
29۔ عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارۃ المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،ح 62.
30۔ محمدبن ابوالقاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص74ـ 75۔
31۔ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص123ـ124۔کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
32۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191ـ192۔
33۔ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص453ـ545۔
34۔قتیبہ، المعارف، ص307۔
35۔ ابن عساکر، علی بن حسن، مدینۃ الدمشق، ج 11، ص 237۔
وحدت نیوز(نواب شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے بچھیری ضلع نواب شاہ زمیں وھیب زرداری کی رہائشگاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اور اربعین حسینیؑ کی مناسبت سے اصغریہ آرگنائزیشن کے زیراہتمام شہر کے مین چوک پر منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کربلا معلی میں کروڑوں انسانوں کا عالمی اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ کربلا کا پیغام آج عالم گیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آج کی پریشان انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیغام کربلا میں پوشیدہ ہے۔
انہوں نےکہا کہ اربعین حسینی کے موقع پر حکومت فول پروف سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنائے۔ انہوں نےکہا کہ 80 ھزار شہداء کے وارث آج بھی ریاستی اداروں سے انصاف طلب کرتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ پاکستان کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں پینے کا صاف پانی صحت صفائی اور معیاری تعلیم جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس سے بھی محروم ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب سے عوامی مسائل کی بجائے اقتدار کی رسہ کشی کا آغاز افسوس ناک ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) حکومت عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات، مجالس و جلوس ہائے عزاء کو سہولیات فراہم کرے۔ گزشتہ حکومت کی ایس او پی ابھی تک جاری ہیں جو کہ افسوس ناک ہے۔ہم کسی کو اپنے بنیادی انسانی اور آئینی حق پر قد غن لگانے کی اجازت نہیں دینگے، ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔
انہوں نےکہا ہےکہ اس وقت ہنگو اور کوہاٹ کے اندر ہمارے لئے مشکلات پیدا کی جار ہی ہیں ۔ بعض علاقوں میں متعصب انتظامیہ اور ڈی پی او رسول پاکؐ کے نواسےؑ کی عزادری میں رکاوٹیں ڈال رہےہیں ۔خیبر پختونخواہ حکومت شرپسندوں کو لگام دے، نیشنل ایکشن پلان کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی بجائے ملکی سلامتی کا جوتقاضہ ہے اس کے روح کیمطابق عمل کیا جائے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ محرم امام حسین ؑکا مہینہ ہے اور صفر ثانی زہرہ حضرت زینب سلام علیہ اور اسیروں سے منسوب ہے ۔ چہلم امام حسین کے دن دنیا کے کاموں کو ترک کرکے بھر پورانداز میں اربعین کے جلوس عزا میں شرکت کی جائے یہ ہمارا فریضہ ہے یہ ہم پر ان ہستوں کا حق ہے جنہوں نے پوری بشریت کی نجات کے لئے عظیم قربانیاں دیں ہجرت کی اپنے بچے قربان کئے ۔جنہوں نے ہمیں ظالموں کے مقابلے میں حوصلہ اور ہمت دینے کے لئے عظیم قربانیاں دیں صبر کیا ان کا حق ہے ہماری گردن پر کہ ہم ہر زمانے کے یزیدوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان سے سکھیں اور ان کا شکر یہ ادا کریں اور ان کی عزاداری میں شریک ہوں ۔
انہوںنے مزیدکہاکہ اہلسنت اور اہل تشیع سب حسینی چہلم امام حسین ؑ کو شایان شان طریقے سے منعقد کریں ہمیں یقین ہے کہ اس عمل پر رسول خدا ؐراضی ہونگے کہ ان کے نواسےؑ کے غم کو منائیں وہ حسینؑ جو کہ راکب دوش مصطفیؐ تھا جسے کربلا کی زمین پر شہید کرنے بعد جس کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات درحقیقت ظلم کے خلاف احتجاج ہے جو رہتی دنیا جاری و ساری رہےگا۔