وحدت نیوز (آرٹیکل)عصر حاضر میں دنیا بھر میں خصوصا وطن عزیز پاکستان میں حکومتی اور انتظامی امور میں خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں جن کی وجہ سے رعایا اور عوام میں روز بہ روز فاصلہ بڑھ رہا ہے،کرپشن لوٹ مار،غربت بیروزگاری، ظلم ناانصافی کی حدیں پار کردی گئی ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا میں عدل و انصاف قائم نہیں ہے؟ کیا ہمارے پاس اصول و قوانین موجود نہیں؟ کیا ہمارے پاس کوئی رہنما شخصیت موجود نہیں ہے؟ کیا ساری خامیاں اور غلطیاں ہمارے اندر موجود ہیں؟۔۔۔ہمارے پاس اصول و قانون بھی موجود ہے، اور ہمارے ماضی میں بھی ایسی رہنما شخصیتیں بھی موجود ہیں جن کی اصولوں کی اگر ہم پیروی کریں تو ایک کامیاب حکومت کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس ہدایت کے لئے سب سے بہترین اصول اور قانون قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہیں ، زرا ہم اپنے گریبان میں جھانکے توساری خامیاں اور کمزوریاں ہمارے اندر موجود ہیں، ہم علم حاصل نہیں کرتے کرتے بھی ہیں تو زاتی فائدہ اور مقاصد کے لئے، ساری دنیا اسلام کے اصولوں اور قوانین کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتی ہے مگر مسلمان صرف لفاظی میں مشغول ہے اسی لئے ہم ہر میدان میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔۔ آج کے موجودہ حالات اور واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ حضرت علی ؑ کا وہ خط بیان کروں جو آپ نے مالک اشتر کو لکھا اور ان کو مصر کا والی بنایا اور انہیں حکومتی اور انتظامی امور میں بہترین اصول نصیحت فرمائے، اگر ہمارے حکمران صرف اس خط پر عمل کریں تو دنیا میں بہترین اور مثالی حکومت قائم ہو سکتی ہے، اس خط سے چند حکومتی،فوجی اور عدلیہ کے بارے میں رہنما اصول قارئین کی نظر کر رہاہوں۔
"خبردار! کبھی اللہ کے ساتھ اس کی عظمت میں نہ ٹکراواور اس کی شان و جبر سے ملنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اللہ ہر جبارو سرکش کو نیچا دکھا تا ہے اور ہر مغرور کے سر کو جھکا دیتا ہے، اپنی زات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعا یا میں سے اپنے دل پسند افراد کے معاملے میں حقوق اللہ اور حقوق الناس کے متعلق بھی انصاف کرنا، کیونکیہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ظالم ٹھہرو گے اور جو خڈا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے اور جس کا وہ حریف و دشمن ہو ا اس کی ہر دلیل کو کچل دے گا، اور وہ اللہ سے بر سر پیکار رہے گا، یہاں تک کہ بازآئے اور توبہ کرلے اور اللہ کی نعمتوں کو سلب کرنے والی اس کی عقوبتوں کو جلد بلاوا دینے والی کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ظلم پر باقی رہا جائے کیونکہ اللہ مظلوموں کی پکار سنتا ہے اور ظالموں کے لئے موقع موقع کا منتظر رہتا ہے، تمھیں سب طریقوں سے زیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاہئے جو حق کے اعتبار سے بہترین، انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو کیونکہ عوام کی نارضگی خواص کی رضا مندی کو بے اثر بنادیتی ہے اور خواص کی نارضگی عوام کی رضا مندی کے ہوتے ہوئے نظرانداز کی جاسکتی ہے۔
اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ رعایا میں کئی طبقے ہوتے ہیں جن کی سودو بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔
ٓ ٓ)اس مقام پر امیر المومنینؑ نے سماج کو نو حصوں میں تقسیم کی اہے اور سب کے خصوصیات،فرائض،اہمیت اور ذمہ داریوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ کسی کا کام دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا لہذا ہر ایک کافرض ہے کہ دوسرے کی مد د کرے تاکہ سماج کی مکمل اصلاح ہو سکے اور معاشرہ چین اور سکون کی زندگی گزار سکے ورنہ اس کے بغیر سماج تباہ و بر باد ہوجائے گا اور اس کی ذمہ داری تمام طبقات پر یکساں طور پر عائد ہوگی، میں یہاں فوج اور عدلیہ کے بارے میں حضرت علی ؑ نے کیا فرمایا یہ بیان کروں گا۔(
امام فرماتے ہیں فوج کا سردار اس کو بناناا جو اپنے اللہ کا اور اپنے رسول کا تمہارے امام کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہو، سب سے زیادہ پاک دامن ہو، اور بردباری میں نمایاں ہو، جلد غصہ میں نہ آجاتا ہو، عذر معذرت پر مطمن ہوجاتا ہو، کمزوروں پر رحم کھاتا ہو اور طاقتوروں کے سامنے اکڑ جاتا ہو، نہ بدخوئی اسے جوش میں لے آتی ہو اور نہ پست ہمتی اسے بٹھا دیتی ہو، پھر ایسا ہونا چاہیے کہ تم بلند خاندان نیک گھرانے اور عمدہ روایات رکھنے والوں اور ہمت و شجاعت اور جو دو سخاوت کے مالکوں سے اپنا رابط و ضبط بڑھاؤ کیونکہ یہی لوگ بزرگیوں کا سرمایہ اور نیکیوں کا سر چشمہ ہوتے ہیں ، پھر ان کے حالات کی اس طرح دیکھ بھال کرنا، جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرو کہ جو ان کی تقویت کا سبب ہو تو اُسے بڑا نہ سمجھنا اور اپنے کسی معمولی سلوک کو بھی غیر اہم نہ سمجھ لینا کیونکہ اس حسن سلوک سے ان کی خیر خواہی کا جزبہ اُبھرے گا اور حسن اعتماد میں اضافہ ہوگا اور اس خیال سے کہ تم نے ان کی بڑی ضرورتوں کو پورا کر دیا ہے کہیں انکی چھوٹی ضرورتوں سے آنکھ بند نہ کر لینا۔
(سوچئے ملک کا کروڑوں کا دفاعی بجٹ اور دفاع پر خرچ ہونیوالا بے حساب سرمایہ اسی قابل ہے کہ اسے انتہائی بے دردی سے برباد کردیا جائے اور اسکی ذمہ داری غیر ذمہ دار قسم کے افراد کے حوالہ کردی جائے جو ملک کو اپنے خواہشات کی راہ پر چلا نا چاہتے ہوں۔)
حکمرانوں کے لیے سب سے بڑی آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ شہروں میں عدل و انصاف برقرار رہے اور رعایا کی محبت ظاہر ہوتی رہے اور ان کی محبت اسی وقت ظاہر ہوا کرتی ہے کہ جب ان کے دلوں میں میل نہ ہو اور ان کی خیر خواہی اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے گرد حفاظت کے لئے گھیر ا ڈالے رہیں ان کا اقتدار سر پڑا بوجھ نہ سمجھیں اور ان کی حکومت کے خاتمہ کے لئے گھڑیاں گنیں لہذا ان کی اُمیدوں میں وسعت و کشائش رکھنا انہیں اچھے لفظوں سے سراہتے رہنا اور ان کارناموں کا ذکر کرتے رہنا کہ ان کے اچھے کارناموں کا ذکر بہادروں کو جوش میں لے آتا ہے اور پست ہمتوں کو ابھارتا ہے، انشااللہ جو شخص جس کارنامہ کو انجام دے اُسے پہچانتے رہنا اور ایک کارنامہ دوسرے کی طرف منسوب نہ کر دینا اور اس کی حسن کارکردگی کا صلہ دینے میں کمی نہ کرنا اور کھبی ایسا نہ کرنا کہ کسی شخص کی بلندی ورفعت کی وجہ سے اُس کے معمولی کام کو بڑا سمجھ لو اور کسی کے بڑے کام کو اس کے خود پست ہونے کہ وجہ سے معمولی قرار دے لو۔
پھر یہ کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئیایسے شخص کو منتخب کرو جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں سب سے بہتر ہو، جو واقعات کی پیچیدگیوں سے ضیق و تنگی میں نہ پڑجاتا ہو، اور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو، نہ اپنے کسی غلط نقطہ نظر پر اڑتا رہتا ہو، نہ حق کو پہچان کر اس کے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتا ہو، نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر جھک پڑتا ہو اور نہ بغیر پوری طرح چھان بین کئے ہوئے سرسری طور پر کسی معاملہ کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتا ہو، شک و شبہ کے موقعہ پر قدم روک لیتا ہو اور دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہو، فریقین کی بخشابخشی سے اکتانہ جاتا ہو، معاملات کی تحقیق میں بڑے صبر و ضبط سے کام لیتا ہو اور جب حقیقت آئینہ ہوجاتی ہو، تو بے دھڑک فیصلہ کردیتا ہو وہ ایسا ہو جسے سراہنا مغرور نہ بنائے اور تاننا جنبہ داردی پر آبادہ نہ کردے، اگرچہ ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں، پھر یہ کہ خود ان کے فیصلوں کا بار بار جائزہ لیتے رہنا، دل کھول کر انہیں اتنا دینا کہ جو اُن کے ہر عزر کو غیر مسمع بنادے اور لوگوں کی انہیں کوئی احتیاج نہ رہے، اپنے ہاں انہیں باعزت مرتبہ پر رکھو کہ تمہارے دربار رس لوگ انہیں ضرر پہنچانے کا کوئی خیال نہ کر سکیں، تاکہ وہ تمہارے التفات کی وجہ سے لوگ کی سازش سے محفوظ رہیں اس بارے میں انتہائی بالغ نظری سے کام لینا، کیونکہ (اس سے پہلے) یہ دین بد کرداروں کے پنجے میں اسیر رہ چکا ہے جس میں نفسانی خواہشوں کی کار فرمائی تھی اور اسے دنیا طلبی کا ایک ذریعہ بنالیا گیاتھا۔
پھر اپنے عہدہ داروں کے بارے میں نظر رکھنا ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا کبھی صرف رعایت اور اجانبداری کی بنا پر انہیں منصب عطا نہ کرنا، اس لئے کہ یہ باتیں ناانصافی اور بے ایمانی کا سر چشمہ ہیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ و غیرت مند ہوں، ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ہوں اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں کیونکہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں۔ حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب و نتائج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں، پھر ان کی تنخواہوں کا معیار بلند رکھنا، کیونکہ اس سے انہیں اپنے نفوس کے درست رکھنے میں مدد ملے گی اور اس مال سے بے نیاز رہیں گے، جو اُن ہاتھوں میں بطور امانت ہوگا، اس کے بعد بھی وہ تمہارے حکم کی خلاف ورزی یا امانت میں رخنہ اندازی کریں، تو تمہاری حجت ان پر قائم ہوگی، پھر ان کے کاموں کو دیکھنے بھالتے رہتا اور سچے اور وفادار مخبروں کو ان پر چھوڑ دینا کیونکہ خفیہ طور پر ان کے امور کی نگرانی انہیں امانت کے برتنے اور رعیت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی باعث ہوگی، خائن و مددگاروں سے اپنا بچاو کرتے رہنا اگر ان میں سے کوئی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور متفقہ طور پر جاسوسوں کی اطلاعات تم تک پہنچ جائیں، تو شہادت کیلئے بس اسے کافی سمجھنا اسے جسمانی طور پر سزا دینا اور جو کچھ اس نے اپنے عہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمیٹا ہے(کرپشن)، اسے واپس لینا اور اسے ذلت کی منزل پر کھڑا کردینا اور خیانت کی رسوائیوں کے ساتھ اسے روشناس کرانا اور ننگ و رسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔"
تحریر۔۔۔۔ناصررینگچن