ترکی کا ایران اور روس کیساتھ کھڑا ہونا امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی شکست ہے، علامہ ناصر عباس جعفری کا خصوصی انٹرویو

24 August 2016

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) فرقہ وارانہ دہشتگردی کیخلاف اور ملی حقوق کی بازیابی کیلئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے 87 روز تک بھوک ہڑتال کرکے پاکستان کی سطح پر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ عدم تشدد پر مبنی اس تحریک نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو متاثر کیا، یہی وجہ بنی کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھوک ہڑتال کیمپ میں آکر علامہ ناصر عباس سے اظہار یکجہتی کیا اور مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے  نے بھوک ہڑتال ختم ہونے کے بعد ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل سے پہلا خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

سوال: دہشتگردی نے ملک میں عام افراد کا جینا دوبھر کر دیا ہے، آپ نے اس پر تاریخی بھوک ہڑتال بھی کی، اصل مسئلہ کہاں نظر آرہا ہے، ریاست سنجیدہ نہیں ہے یا کوئی اور مسئلہ نظر آرہا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں گذشتہ تین دہائیوں سے ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جو پاکستان کے قومی مفاد اور پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کے خلاف تھیں، جن میں سے ایک پاکستان کے اندر جہادی گروہ بنانا، لشکر بنانا یا تکفیریوں کو منظم کرنا تھا۔ ایسی پالیسی ترتیب دی گئی جس کا مقصد پاکستان کے عوام کو لسانی، علاقائی، قومی، مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنا اور ان کے درمیان نفرت پیدا کرنا تھا۔ یہ ایسی پالیساں تھیں، جن کے نتیجے میں پاکستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوگئے، جس کے باعث پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا اور نیشنل سکیورٹی داو پر لگی۔ یہی وجہ بنی کہ پاکستان کے شیعہ سنی اور اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہوئیں، دہشتگردی اور انتہا پسندی پر ریاستی ادارے تماشا دیکھتے رہے، گلگت بلتستان سے لیکر بلوچستان اور کراچی تک تکفیری دندناتے پھرتے رہے، لیکن یہ لوگ تماشا دیکھتے رہے، مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو سعودی عرب کی طرح، جیسے وہاں کے بادشاہوں اور انتہا پسند مذہبی حلقے میں اتحاد قائم ہوا، جس کے نتیجے میں وہاں پر سو سال پہلے ایک حکومت قائم ہوئی، جس نے پورے علاقے میں ظلم و ستم کیا اور عالمی استکباری قوتوں کیلئے کام کیا اور اسرائیل کیلئے رول ادا کیا۔ اسی انداز میں ضیاء کے زمانے میں اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے انتہا پسند ملاوں اور متشدد لوگوں کو جمع کیا، اس طرح ان کے درمیان اتحاد وجود میں آیا، تاکہ پاکستان کو بھی ایک خاص مسلک والا ملک بنایا جائے، جس میں فوجی اسٹیبلمشنٹ اور ان کے درمیان اتحاد ہو، یہ طاقتور ہوں، ان کے ذریعے افغانستان اور سنٹرل ایشیا کو اسٹریٹیجک ڈبیتھ بنایا جاسکے، یوں اس ریجن کے ذریعے عالمی استکباری قوتوں کے ایجنڈے کو عمل شکل دی جاسکے۔

یہ بڑا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے روس کو شکست دی ہے، یعنی افغانستان میں انہی جہادیوں کے ذریعے سے روس کی شکست دی گئی، آپ کی تو ذمہ داری بنتی تھی کہ آپ سب سے پہلے کشمیر کو آزاد کراتے، آپ امریکہ، سعودی عرب سمیت دیگر عرب شیخوں کو ساتھ ملا کر کشمیر کو آزاد کراتے، ان کو حقوق دلاتے، جو آج تک ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، پس معلوم ہوا کہ جہاد افغان پاکستان کا ایجنڈا نہیں تھا، افغانستان کا جہاد عالمی استکباری قوتوں کا ایجنڈا تھا، جس میں پاکستان استعمال ہوا۔ ان کے ایجنڈے میں پاکستان نے عمل کیا، ان کا ایجنڈا تھا کہ اہل تشیع اور اہل سنت کو کمزور کیا جائے۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں تکفیری قوتیں نام نہاد جہادی قومی اثاثہ ٹھہرے۔ آپ دیکھیں کہ اسی بنیاد پر ان نام نہاد تکفیریوں کو پاکستان کے ریاستی اداروں جن میں فوج اور نیوی شامل ہے، میں بھرتی کیا گیا۔ پاکستان میں آئیڈیالوجیکل تبدیلی کیلئے باقاعدہ کام کیا گیا، پاکستان کے اندر تمام ڈیفنس ہاوسز اتھارٹی کی مساجد میں انہیں تکفیری نظریہ رکھنے والے ملاوں کو بھرتی کیا گیا۔ انہیں مسجدیں دی گئیں۔ عملی طور پر ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ نتیجتاً پاکستان کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ پاکستان کی سب سے بڑی آبادی اہل سنت کی تھی، دوسری آبادی تشیع کی تھی، اسی طرح آپ دیکھیں کہ جب پاکستان بنا تو 25فیصد اقلیتیں تھیں، آج پانچ فیصد رہ گئی ہیں، وہ لوگ جنہوں نے اپنے انتخاب سے پاکستان کو چنا تھا، جنہوں نے بھارت جانے کے بجائے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی انہیں تکفیری دہشتگردوں نے مار مار کر بھگا دیا۔ اہل سنت بریلوی کی آئیڈلوجی تبدیل کی جا رہی ہے، ان کی مساجد پر قبضے کئے گئے۔ اہل تشیع کی یہ آئیڈلوجی تبدیل نہیں کرسکتے تھے، اس لئے انہیں مارنا شروع کر دیا اور ان کی تکفیر شروع کر دی، البتہ تکفیر فقط اہل تشیع کی ہی نہیں بلکہ انہوں نے اہل سنت کی بھی تکفیر کی۔ انہوں نے امام بارگاہوں پر حملے کئے، شخصیات کو شہید کیا، یہ چاہتے تھے کہ قادیانیوں کی طرح تشیع کو بھی منفور کر دیا جائے۔ یوں یہ ملک پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کیلئے جہنم بنا دیا گیا۔ ناامن بنا دیا گیا۔

سوال: بھوک ہڑتال کی ضرورت کیوں محسوس کی اور اسکے نتائج سے مطمئن ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں! ان حالات میں تشیع کے پاس چند راستے تھے، اس ملک کو چھوڑ کر بھاگ جاتے، سر جھکا لیں، انہیں تسلیم کرلیں یا عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنی وطنی، انسانی، دینی اور شرعی ذمہ داریوں کو پورا کریں، ہم بھاگنے والے نہیں تھے اور نہ ہیں، سر جھکانے والے، اسلحہ اٹھانے والے بھی نہیں ہیں، کیونکہ اسلحہ اٹھانے سے خانہ جنگی ہوگی اور ملک برباد ہوگا۔ ہمارے پاس چوتھا راستہ تھا کہ ہم عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنی آواز کو بلند کریں، کیونکہ ہم نے دھرنے دیئے، احتجاجات کئے، لانگ مارچ کیا، پریس کانفرنسز کے ذریعے اپنے نکتہ نظر کو سامنے رکھا، اپنے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے ہماری نہیں سنی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم نے دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع کیا، دراصل جب دہشتگردی کی آگ ان تک پہنچی، تب انہیں ہوش آیا، اس سے پہلے یہ ہماری لاشوں پر نظارہ گر تھے، تماشا دیکھتے تھے، سینکڑوں لوگ مارے جاتے تھے، ہلتے تک نہیں تھے۔ اب جب یہ دہشتگردی کی آگ ان کے بچوں تک پہنچی تو انہوں نے ہوش لیا۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ دہشتگرد تو خطرناک ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے پہلے کہا کہ نہیں دہشتگردوں سے مذاکرات ہونے چاہیئے۔ ہم نے اس کی بھی مخالفت کی تھی، ہم نے کہا کہ تھا کہ یہ بدعت ہے، جو تم کرنے جا رہے ہو، یہ مفسد فی العرض ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔ یہ وطن کے باغی ہیں، قاتل ہیں، ان کے ساتھ مذاکرات ایک بدعت بن جائیگی۔ انہوں نے اپنی ڈاکٹرائن میں تبدیلی کی، آپریشن شروع کیا، نیشنل ایکشن پلان بنا، ہم نے سب کو خوش آمدید کہا، ہم انہیں احتمال دیتے تھے کہ اب یہ کارروائی کریں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد مظلوموں کی امید ہو چلی تھی کہ اب انہیں سکھ کا سانس ملے گا، اب انہیں ریلیف ملے گا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

نیشنل ایکشن پلان کو تبدیل کر دیا گیا، ضرب عضب کی پشت پر خنجر مار دیا گیا، اہل تشیع اور اہل سنت سمیت عدم تحفظ کا شکار اقلتیوں پر دباو بڑھا دیا گیا، انہوں نے وہی پالیسی دوبارہ اپنا لی کہ اہل تشیع کو ریلیف نہیں دینا۔ انہیں پریشان رکھنا ہے، حتٰی اقلیتیں اور اہل سنت کو بھی ریلیف نہیں دیا گیا۔ آپ نے سوال کیا کہ بھوک ہڑتال کیوں کی، تو گذارش ہے کہ تازہ صورتحال ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، کراچی، پاراچنار، گلگت بلتستان سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے واقعات پر حکومت توجہ نہیں دے رہی تھی، اس پر ہم نے سوچا اس پر آواز اٹھانی چاہیے، گرمیاں شدید تھیں، اس لئے سوچا کہ عوام کو مشکلات میں ڈالنے کے بجائے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالتے ہیں، ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، اس حوالے سے بھوک ہڑتال کا سوچا گیا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق بھوک ہڑتال شروع کی گئی، تاکہ ظلم کے خلاف میدان میں آجایا، آواز بلند کی جائے، ظالموں کو رسوا کیا جائے، مایوسی کا خاتمہ کیا جائے، منافقت کو آشکار کیا جائے۔ پاکستان میں اس وقت منافقت ہو رہی ہے کہ جس طرح کشمیر میں ہو رہا ہے۔ ہم کشمیر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ No liberation with Occupation, اسی طرح پاکستان حوالے سے کہیں گے کہ No war against terrorists while considering The Takferis as a strigic assests, dividing them between good and bad terrorist.۔ یہ لوگ دہشتگردوں کو مینیج کرنا چاہتے ہیں، یہ دھوکہ ہے، یہ دہشتگردی کا خاتمہ نہیں چاہتے، جو ان پر حملے کرتے ہیں، ان کو مارنا چاہتے ہیں یا انہیں مینج کرنا چاہتے ہیں۔

آپ نے پوچھا کہ اس تحریک سے کیا حاصل کیا تو عرض خدمت ہے کہ ہم نے اپنی تحریک سے سماجی رابطوں کو بڑھایا ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات ہماری طرف آئے ہیں، تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ہمارے پاس آئی ہیں، ہمارے ساتھ ہمارے مطالبات کی حمایت کی ہے، ہماری مظلومیت میں ہمارا ساتھ دیا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے شہداء اور ان کی مظلومیت کو تکفیریت کے کفن میں دفن کر دیں، یا ایران سعودی پراکسی کا نام دیکر دفن کر دیں۔ ہم نے ایسے نہیں ہونے دیا۔ ہم نے خاموشی اختیار نہیں کی، ہم نے اپنی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ہے۔ دشمن اپنے مکر و فریب کے ذریعے چاہتا ہے کہ مظلوموں کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔ ہم نے اپنی مظلومیت کے تقدس پر داغ اور دھبہ نہیں لگنے دیا۔ یہ ہماری جدوجہد کا سرمایہ ہے۔ یہ ہماری میراث ہے۔ ہمیں اپنے شہیدوں کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیئے، ہم نے عزاداری سیدالشہداء مولا حسین علیہ السلام کے ذریعے تمام آئمہ کی شہادتوں کو زندہ رکھا ہے، ان کی مظلومیت کو فراموش نہیں ہونے دیا ہے، ان کے تقدس پر حرف نہیں آنے دیا ہے، ہماری جدوجہد بے سرمایہ نہیں رہ سکتی۔ لہٰذا ہم نے پُرامن دھرنے دیکر، پُرامن لانگ مارچ کرکے، پرامن احتجاجی بھوک ہڑتال کرکے ہم نے اپنی مظلومیت کے تقدس کو باقی رکھا، دشمن ہمیں تنہا کرنے کی سازشیں کر رہا تھا، جسے ہم نے ناکام بنایا، دنیا نے دیکھا کہ ہمارا دشمن کتنا پریشان تھا، سوشل میڈیا پر تکفیریوں کا پروپیگنڈا ان کی پریشانی کا منہ بولتا ثبوت تھا، لیکن الحمدللہ ہم نے اپنی کامیاب اور خوبصورت حکمت عملی کے ذریعے تکفیریوں کو شکست فاش دی، البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کچھ اپنے بھی غیروں کے پروپیگنڈا کا شکار ہوئے، کچھ اپنوں کی آواز بھی تکفیریوں کی آوازوں سے ملتی جلتی تھی، امید ہے کہ ہمارے اپنے ہوش کے ناخن لیں گے۔

سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک سے قوم کی بھی کوئی تربیت ہوئی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان کی قوم بیدار ہو چکی ہے، عوام آگاہ و بیدار ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ کون قوم و ملت کیلئے قربانیاں دینے والا ہے، قوم جانتی ہے کہ کون ان کیلئے مر مٹنے والا ہے، کون ان کیلئے میدان میں حاضر رہتا ہے، کون ان کیلئے دلسوز ہے اور کون قوم کو بے وقوف بنا کر، دھوکہ دیکر ذاتی فائدہ اٹھانے والا ہے۔ لہٰذا میں ان اپنوں سے کہتا ہوں کہ قوم دھوکہ کھانے والی نہیں ہے، قوم کو اب دھوکہ نہیں دیا جا سکتا، لہٰذا یہ ہوش کے ناخن لیں اور ایسے کام نہ کریں کہ جس سے قوم آپ سے نفرت کرنے لگے، اگر کوئی کام آپ کو پسند نہیں ہے تو چپ رہیں، یہ خاموشی اور چپ رہنا تمہارے حق میں بہتر ہے، ہم شہید قائد کے معنوی فرزند ہیں، شہید کی عظیم میراث کے وارث ہیں، ہم نے وہی پرچم اٹھایا ہوا ہے، جو شہید قائد کے ہاتھوں میں تھا، ہم خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے، لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے، میدان میں ثابت قدم رہیں گے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں میدان سے باہر نہیں نکال سکتی، ہم اپنی قوم و ملت و وطن پر فدا ہو جائیں گے، لیکن پیچھے ہرگز نہیں ہٹیں گے۔

سوال: آپ نے اسلام آباد میں شہید قائد کی برسی کے مرکزی اجتماع پر تحریک کو ایک نئی جہت دی ہے، اس حوالے سے کیا بیان کرنا چاہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان کے بارے میں آجکل یہ بات بہت مشہور ہے کہ ہمارا بیانیہ (narrative) کیا ہے، ہمیں ایک بیانیے (narrative) کی ضرورت ہے، کوئی کہتا ہے کہ ہمیں نیا پاکستان چاہیئے، کوئی کچھ اور کہتا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیئے، قائد اعظم کی تقاریر، بیانات، فرامین ہمارے سامنے موجود ہیں، ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، علامہ اقبال کے اشعار میں سارے حقائق موجود ہیں، ہمیں سبز ہلالی پرچم والا پاکستان چاہیئے، ہمیں انتہا پسندی کا حامل مسلکی پاکستان نہیں چاہیئے، امتیازی سلوک والا پاکستان نہیں چاہیئے، ہمیں ایسا پاکستان چاہیئے کہ جہاں عیسائی بھی چرچ میں بغیر کسی خوف و ڈر کے اپنی عبادات سکون و آسانی کے ساتھ انجام دے سکیں، سکھ اپنے گوردوارے میں، ہندوں اپنے مندر میں بلاخوف و خطر جائے، تمام مسلمان مساجد، امام بارگاہوں، درگاہوں، مزارات میں بلاخوف و خطر جائیں، پاکستان میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے نظریات دوسروں پر جبری طور پر مسلط کرے اور پاکستان کو ایک انتہا پسند مسلکی پاکستان بنائے، ہم تشیع اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ہم پاکستان کو ایک خاص سوچ رکھنے والا تکفیری مسلکی پاکستان نہیں بننے دینگے، اس کا راستہ روکنے کیلئے ہمیں ملک کو قائد و اقبال و سبز ہلالی پرچم والا پاکستان بنانا ہوگا، اس کیلئے ہم اپنی احتجاجی تحریک کو پورے پاکستان میں پھیلائیں گے۔ پاکستان کے جوانوں کو، بوڑھوں کو، مرد و زن کو سب کو اپنا پیغام پہنچائیں گے، انہیں اپنے ساتھ شامل کرینگے، ہماری تحریک کسی مسلک و مکتب کی جدوجہد نہیں ہے بلکہ یہ محب وطن پاکستانیوں کی جہدوجہد ہے، جس کا الحمدللہ آغاز ہوچکا ہے، دنیا نے دیکھا کہ جب ہم نے بھوک ہڑتالی کیمپ سے قائد و اقبال کے پاکستان کی باتیں شروع کیں، تو اس بیانیے (narrative) کو میڈیا نے بھی دہرانا شروع کر دیا، سیاسی شخصیات نے بھی اسے اپنی تقاریر میں کہنا شروع کر دیا، ہم نے پاکستان مارچ کی باتیں کیں، تو اب بہت سی سیاسی جماعتوں نے پاکستان مارچ کے بھی اعلانات کرنا شروع کر دیئے ہیں، ہمیں نیا پاکستان نہیں بلکہ ہمیں قائداعظم و علامہ اقبال والا پاکستان چاہیئے، یہی ہمارا بیانیہ (narrative) ہے، قائد و اقبال و سبز ہلالی پرچم والے پاکستان کے ذریعے ہی تکفیریت کو شکست دی جاسکتی ہے۔

سوال: 2 ستمبر کو مجلس وحدت مسلمین کی حکمت عملی کیا ہوگی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں ظلم کے خلاف ہماری لمبی اور طولانی لڑائی ہے، احتجاجی دھرنے ایک معرکہ تھا، لانگ مارچ ایک معرکہ تھا، بھوک ہڑتال ایک معرکہ تھا، اس کے بعد کئی معرکے آتے رہیں گے، دشمن میدان میں ہے، کام کر رہا ہے، دشمن نے پاکستان کے اہم اداروں میں نفوذ کر رکھا ہے، پاکستان کے فیصلہ ساز حلقوں میں دشمن کا نفوذ ہے، دشمن کا سیاسی نفوذ ہے، اسکا عسکری اسٹیبلشمنٹ میں نفوذ ہے، اسکا ثقافتی نفوذ ہے، اسکا میڈیا میں نفوذ ہے، لہٰذا یہ ایک دو دن کی نہیں بلکہ ایک طولانی لڑائی ہے، اپنے حقوق کیلئے بھی اور وطن کیلئے بھی، ان شاء اللہ ہم 2 ستمبر کو لاہور میں ایک انتہائی موثر اور باوقار دھرنا دینگے، فقط چند مطالبات کیلئے ہماری جدوجہد نہیں ہے، جب تک ہم ملک کو قائد و اقبال کا پاکستان نہیں بنا لیتے، ہم میدان میں حاضر رہینگے، ہماری جہدوجہد جاری رہے گی۔

سوال: پاکستان کا قومی مفاد کیا ہے اور اسکی حفاظت کیسے ممکن ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: قومی مفاد کی بہت ساری تعریفیں (definitions) بیان کی جاتی ہیں، میں آپ کو ایک تعریف بیان کرتا ہوں، جس کے اندر تقریباً ساری تعریفیں آجاتی ہیں: "the protection of physical, political and cultural identity against encroachments by other nation-states”. یعنی قومی مفاد کا معنی یہ ہیں کہ اہم جزو (vital component) ایک ملک کی physical, political and cultural identity ہیں، جن کا ہم تحفظ کرینگے، دوسرے ممالک کی جانب سے ہونے والے تجاوزات و مداخلت کے خلاف۔ فزیکل میں ہماری سرحدیں آجاتی ہیں، انکی حفاظت ہمارا قومی مفاد ہے، ملکی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی ہمارا قوم مفاد ہے، جس نظریئے کی بنیاد پر ہمارا پاکستان قائم ہوا، وہ ہمارا قومی مفاد ہے، اسی طرح ملک مین سیاسی نظام کو محفوظ و طاقتور رکھنا بھی قوم مفاد ہے، اسی طرح ملکی ثقافت کا تحفظ بھی قومی مفاد ہے۔ ملکی صورتحال سب کے سامنے ہے، ہماری سرحدوں کی کیا صورتحال ہے، دشمن جنگ ہمارے ملک کے اندر لے کر آگیا ہے، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا، فاٹا، سندھ کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، جنگ ہو رہی ہے، پاکستان کے قومی مفاد خطرات سے دوچار ہیں، حملوں کی زد میں ہیں، یہ کس کا نتیجہ ہے، جن کی ذمہ داری تھی قومی مفاد کا تحفظ، انہوں نے اپنی ذمہ داری انجام نہیں دی ہے، انہوں نے پاکستان میں یہ جو دہشتگرد پالے ہیں، تکفیری پالے ہیں۔ ان سب کا بیس کیمپ بھارت میں ہے، یہ عجیب بات ہے، ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور دوسری طرف جن کا بیس کیمپ بھارت میں ہے، انہی کے لشکر اور ٹولے پاکستان کے اندر بنائے ہوئے ہیں۔

آج بھارت انہیں استعمال کر رہا ہے، پاکستان کے خلاف، بھارت انہی دہشتگرد لشکروں اور ٹولوں کے ذریعے جنگ پاکستان کے اندر لیکر آ رہا ہے، بھارت شیعوں، اہل سنت بریلویوں کے ذریعے پاکستان میں جنگ نہیں کر رہا ہے، بلکہ بھارت ان کے ذریعے پاکستان کے اندر جنگ کر رہا ہے، جن کے مسلح لشکر، مسلح گروہ، مسلح جتھے ملک کے اندر ہمارے ریاستی اداروں اور عسکری اداروں نے بنائے ہیں۔ سیاسی نظام کو بھی جان بوجھ کر انتہائی کمزور کر دیا گیا ہے، جبکہ مضبوط سیاسی نظام ملکی قومی مفاد میں سے ہوتا ہے، سیاسی نظام، سیاسی ادارے، اسکی پوزیشن، اسکی جماعتیں سب۔ اسی طرح سے ثقافتی طور پر دیکھ لیں، ثقافتی طور پر ہمارے ملک کے اندر غیر اسلامی ثقافتی یلغار ہے، بھارتی فلمیں، ڈرامے، گانے، بھارتی ثقافت، غیر ملکی و غیر اسلامی و مغربی ثقافت، ایک یلغار ہے، کوئی ہے اسکا مقابلہ کرنے والا، اسے روکنے والا، یہ پیمرا نام ادارہ جو انہوں نے بنایا ہوا ہے، وہ بھی اس لئے کہ کوئی حکومت کے خلاف بات نہ کرے۔ ہمارے حکمرانوں کو صرف اور صرف یہ فکر لاحق ہے کہ ان کے خلاف کوئی بیان نہ دے، یہ سائبر کرائم بل بھی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے بنایا ہوا ہے، اس میں حزب اقتدار اور اپوزیشن دونوں شریک ہیں، کیونکہ جو بھی اپوزیشن ہے، وہ کہیں نہ کہیں حکومت بھی کر رہا ہے، کوئی خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہا ہے، کوئی سندھ میں، کوئی بلوچستان میں تو کوئی پنجاب میں، کوئی مرکز میں، یہ سارے حکمران ہیں، اس ملک میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جغرافیائی و نظریاتی سرحدیں، ہماری سیاسی و ثقافتی شناخت خطرات سے دوچار ہیں، ان پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے، اس میں تمام ریاستی اداروں کی نالائقی، نااہلی، مجرمانہ غفلت اور خیانتیں شامل ہیں۔

سوال: ترکی، روس اور ایران کی قربتیں بڑھنے کا امکان نظر آ رہا ہے، ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوگان روس کے بعد اب وہ پہلے اسلامی ملک کا دورہ کر رہے ہیں تو وہ جمہوری اسلامی ایران ہے، آپ اس منظر نامے کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دنیا کے Hot points میں گلف (Gulf) ایک انتہائی اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا 1947ء کے بعد سے ہی عرب اسرائیل تنازعہ گلف کے اندر مشہور و جاری ہے، سوویت یونین (موجودہ روس) کے بحیثیت سپر پاور ختم ہونے کے بعد امریکہ دنیا تنہا رہ گیا، پھر اس سے قبل 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوچکا تھا، جس سے پورے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک مزاحمت وجود میں آچکی تھی، جس کے بعد عرب اسرائیل تنازعہ تبدیل ہو گیا، اب سعودی یہ کردار ادا کررہے ہیں کہ عرب اسرائیل تنازعہ، ایران عرب تنازعہ میں تبدیل ہوجائے، اسرائیل اور مزاحمت بلاک کے درمیان جنگ میں، عرب منافقوں کے چہروں سے نقاب الٹ گیا تھا کہ یہ اسرائیل کے ایجنٹ ہے، اسرائیل سے رابطے میں ہیں، اسرائیل کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد جب مقاومتی مزاحمتی بلاک اور اسرائیل آمنے سامنے آگئے تو اس کے نتیجے میں خطے میں امریکہ کا بنایا ہوا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، سوویت یونین ( موجودہ روس) کے بکھرنے کے بعد امریکہ نے دنیا کو آرڈر دینے کی مختلف کوششیں کیں کہ نئی دنیا بنائی جائے جس میں امریکہ تنہا سپر پاور ہو۔ سلسلہ بڑھتا رہا، لہٰذا اب دنیا ایک عبوری دور (transitional period) سے گزر رہی ہے، دنیا re-shape ہو رہی ہے، نیا نظم دنیا میں آ رہا ہے، دنیا میں مختلف طاقتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں، وجود میں آ رہی ہیں، امریکہ نے کوشش کی کہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق شکل میں ڈھالیں، 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جنگ بھی اسی وجہ سے ہوئی، جس میں اسرائیل کی حزب اللہ کے ہاتھوں رسوا کن شکست کے بعد شام کے اندر دہشتگردی و خانہ جنگی شروع کی گئی، کیونکہ شام مقاومتی و مزاحمتی بلاک کا اہم ستون ہے، اگر خدانخواستہ یہ ٹوٹ جاتا ہے تو سمجھ لیں کہ امریکہ کی مرضی کا دنیا کو آرڈر مل جائیگا۔

یہ جو hot point ہے نا یہ۔۔ یہاں مقاومت کا بلاک بھی آگیا ہے، امریکہ ایک طرف روس کو بھی پیچھے دھکیل رہا تھا، کیونکہ امریکہ نے لیبیا میں روس کو پیچھے دھکیلا، امریکی کی کوشش تھی کہ روس کو اپنی سرحدوں کے اندر محدود کر دیا جائے، لہٰذا مقاومت کے بلاک نے مقابلہ شروع کیا تو روس نے بھی ساتھ دیا۔ یوں اس ریجن مین باقاعدہ پنجہ آزمائی شروع ہوگئی۔ اب چائنہ بھی ساتھ کھڑا ہو گیا، چین نے سیکیورٹی کونسل میں وویٹو کیا، امریکی بلاک میں اہم ممالک ترکی، اردن، قطر اور سعودی ساتھ تھے، پیسہ بھی دے رہا تھا اور بیس کیمپ بھی بنے ہوئے تھے۔ جیسے پاکستان بیس کیمپ بنا تھا روس کے خلاف، اسی طرح ترکی بھی شام کے خلاف بیس کیمپ بنا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ جنگ بیس دن اور ایک ماہ میں ختم ہوجائیگی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، آج پانچ سال ہوگئے، اپنی تمام طاقت اکٹھی کرلی ہے، لیکن بشار کو نہیں ہٹا سکے۔ امریکہ کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اس نے دیکھا کہ ترکی کو احساس ہوگیا کہ وہ آئندہ بڑی مشکلات کا شکار ہونے والے ہیں تو انہوں نے اپنے خارجہ تعلقات میں تبدیلی لانا شروع کر دی، ان کے بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ امریکیوں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ ترکی کوئی باقاعدہ اسٹینڈ لے لے تو انہوں نے فوجی بغاوت کرا دی۔ آپ ذہن میں رکھ لیں کہ امریکیوں نے مقاومتی بلاک کو کہاں سے مصروف رکھا ہوا ہے، افغانستان، عراق، شام، یمن، بحرین، لبنان اور یمن تک مصروف رکھا ہوا ہے۔ تاکہ ان کی توانائیاں بکھری رہیں۔ انہوں نے ترکی کے ساتھ خیانت کی، لیکن اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑا شفٹ آرہا ہے، اردوگان روس گیا، ایران کا وزیر خارجہ ترکی گیا، ایوان صدر میں نماز جمعہ ادا کی، ترکی ہم منصب نے ایرانی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔ جلد ترک صدر ایران آرہا ہے۔ یہ بڑی تبدیلی سامنے آرہی ہے۔ گویا اب دنیا ٹرانشنل پیریڈ مکمل کرنے والی ہے، دنیا اب ایک نئی شکل میں سامنے آنے والی ہے۔ مختلف طاقتیں سامنے آرہی ہے، اب امریکہ تنہا دنیا کو نئی شیپ نہیں دے سکتا، اس میں جتنی طاقتیں دنیا کو ری شیپ دینے میں سامنے آئیں گی، دنیا اتنی بہتر ہوتی چلی جائے گی۔

ترکی کا ایران اور روس کے ساتھ کھڑا ہونا امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی شکست ہے، ان ممالک کے لئے خطرناک ہے، جب ترکی کا بارڈر بند ہوگا تو دہشتگردوں کو شکست یقینی ہوگی، میں آل سعود، امریکہ اور اسرائیل کی شکست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ یمن میں ہونے والے دو روز قبل کے مظاہرے حقیقت میں ملین مارچ تھے، لاکھوں نے شرکت کی۔ سیاسی شخصیت نے کہا کہ یہ چار عرب ممالک ہم پر حملہ آور ہیں، ان کی کل آبادی سے زیادہ لوگ اس وقت ان کے خلاف یہاں جمع ہیں۔ آج ریفرنڈم تھا۔ سیاسی کونسل کے حق میں اور سعودیوں اور ان کے حامیوں کے خلاف عوام کا ریفرنڈم تھا۔ اس سے پوری دنیا بدلے گی۔ دنیا ری شپ ہو رہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت حلب میں چائینہ کے لوگ لڑ رہے ہیں سنکیانگ سے گئے ہوئے ہیں، کیوں امریکیوں کی سازش تھی کہ افغانستان کے بعد ان جہادیوں کو چائنہ اور روس کے خلاف لڑایا جائیگا۔ یہاں اب عقل مند ہوکر فیصلے کرنا ہوگا، پاکستان اگر ابھی بھی سعودی بلاک میں کھڑا رہے گا تو بہت بڑا نقصان اٹھائے گا۔ سعودیوں کی کوشش تھی کہ ایران اسرائیل تنازعہ کو عرب ایران تنازعے میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس کیلئے 34 ممالک کا اتحاد بنایا گیا، او آئی سی اور عرب لیگ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب عالمی صیہونیوں کی سازش کیلئے اہم کردار ادا کر رہا ہے، اگر پاکستان وہاں جاکر کھڑا ہوتا ہے اور جنگی مشقیں کرتا ہے اسرائیلوں کے ساتھ تو قائد اعظم کے اصولوں کے خلاف ہے، پاکستانی کبھی معاف نہیں کریں گے کہ اس کی فوج اسرائیلوں کے ساتھ جنگی مشقیں کرے، پاکستان کے عوام یہ برادشت نہیں کرتے کہ وہ فرقہ وارانہ اتحاد میں شامل ہو۔ جس کی سوچ فرقہ وارانہ ہو۔ پاکستان کے عوام کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ ان قوتوں کو کمزور کیا جائے جو اسرائیل کے خلاف لڑ رہی ہیں، جو قبلہ اول کی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree