انہوں نے کہا کہ بارہ گھنٹوں میں تین پرامن شیعہ افراد کے قتل کی براہ راست ذمہ داری ناکام وزیراعظم اور ناکام کابینہ پر عائد ہوتی ہے۔ جن دہشت گردوں نے بقول حکومت کے چالیس ہزار پاکستانیوں کا قتل عام کیا ہے، کیا ان کو معافی دی جاسکتی ہے؟ مجلس وحدت مسلمین کا اصولی اور منطقی موقف ہے کہ نواز شریف کی حکومت اخلاقی اور شرعی طور پر یہ اختیار نہیں رکھتی کہ چالیس ہزار پاکستانی شہداء کے قاتلوں کو معاف کرے۔ ان شہداء کی جانیں پاکستان پر قربان ہوئی ہیں اور ان کے قاتلوں سے قصاص لینا حکومت پر لازم ہے۔ دہشت گردوں کو جہنم رسید کرنے کے بجائے ان سے مذاکرات کرنا ان شہدائے پاکستان کے مقدس لہو سے غداری کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہداء کی یہ تعداد چالیس ہزار وزیر اعظم کی بیان کردہ ہے ورنہ ستر ہزار پاکستانی دہشت گردی کی وجہ سے جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے مزید کہا کہ ستم ظریفی تو دیکھئے کہ نواز شریف کی حکومت ان خبیث دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے جن کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ دہشت گردوں کے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں نواز لیگ کی دو بڑی اور اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ کیا یہ دھمکی اعلان جنگ نہیں۔ کیا نواز حکومت دہشت گردوں کی دھمکی سے ڈر گئی ہے؟ جو دہشت گرد بری افواج کے ہیڈ کوارٹر، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کی اہم حساس تنصیبات، آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر، بری سرکار، عبدللہ شاہ غازی، بابا فرید شکر گنج سمیت کئی اولیائے خدا کے مزارات اور شیعہ و سنی علمائے کرام تک کو دہشت گردی کانشانہ بنا چکے ہیں، ان سے کس خیر کی توقع کی جارہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کے حملوں، دھمکیوں اور بلیک میلنگ کو پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ اعلان جنگ تصور کیا جائے۔ ان تمام کالعدم یزیدی تکفیری دہشت گردوں کے خلاف کراچی سمیت ملک بھر میں فوری فوجی آپریشن کیا جائے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک پاکستان کی دفاعی جنگ جاری رکھی جائے۔
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے ن لیگ کی حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر بے لگام دہشت گردوں کو معاف کرنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا اور انہیں ختم نہیں کیا گیا تو ملک بھر میں شیعہ عمائدین سمیت ہر پاکستانی کی شہادت کا براہ راست ذمہ دار نواز شریف اور ان کی حکومت کو قرار دیا جائے گا اورآخری اقدام کے طور پر مقتولین کے ورثاء مقدمات میں بھی نواز شریف اور ان کی کابینہ کو براہ راست نامزد کرنے پر مجبور ہوں گے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ اس جنگ میں پاکستانی قوم کی نمائندگی کریں نہ کہ دہشت گردوں کی طرف داری اور اگر وہ پاکستان کی دفاعی جنگ نہیں لڑ سکتے تو اقتدار سے دست بردار ہوجائیں۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی رہنما یعقوب حسینی، ڈویژنل رہنما علامہ دیدار جلبانی،اور علی حسین نقوی بھی موجود تھے۔